Encyclopedia of Muhammad

قدیم یونان کی مذہبی رسُومات

یونانیوں کے مذہبی عقائد کی طرح ان کی مذہبی رسومات بھی خودساختہ تھیں۔ ان کے نزدیک خدا سے رابطہ فقط لین دین پر ہی منحصر تھا۔ اگر یہ کچھ اچھے کام کرتے تو ان کے دیوتا پر لازم تھا کہ ان کی خواہشات کو پورا کرے ۔ ان کے ہر کام کے لیے الگ الگ دیوتا اور دیویاں مختص تھیں لہٰذا ہر دیوتا یا دیوی سے اس کی خصوصیت کے مطابق ہی مدد طلب کی جاتی تھی۔ شروع میں یہ عبادات گھروں میں ادا کی جاتی تھی لیکن وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں اور مندروں میں عبادات کرنے کا رجحان بڑھتا چلا گیا اور عبادات کی امامت ان کے پروہتوں نے سنبھال لی اور یوں مذہب کے نام پر ان پروہتوں نے اپنی خواہشات کی تکمیل اور عوام کے اموال پر ڈاکہ ڈالنے کا مذہبی طریقہ ایجاد کرلیا ۔

مندر

قدیم یونان میں مندر شہر کی سب سے اہم عمارت قرار دی جاتی تھی۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ مندر ان کی دیویوں اور دیوتاوٴں کے رہنے کی جگہ ہے۔ابتداءً یہاں عبادات کم ہی ہوا کرتی تھی۔ شروع میں یہ مندر لکڑی اور مٹی کی اینٹوں سے بنائے جاتے تھے۔چھٹی صدی قبل مسیح سے سنگ مرمر اور دیگر پتھروں کا استعمال کیا جانے لگا تھا۔ یونان کے مشہور مندر مندرجہ ذیل تھے:

1

عبادات

قدیم یونان میں عبادات تین مرحلوں میں ادا کی جاتی تھیں ۔ پہلے مرحلے میں دیوتا یا دیوی کو پکاراجاتا اور مدد طلب کی جاتی ۔ چونکہ ہر دیوتا سے الگ الگ خصوصیات منسوب کی گئی تھیں اسی لیے ان سے ان کی خصوصیات کے اعتبار سے ہی مددمانگنے کا طریقہ رائج تھا۔ دوسرے مرحلے میں وہ دیوتا یا دیوی کے سامنے وجوہات رکھتے جس کی بناء پر دیوتا کو ان لوگوں کی پکار سن کر مدد کرنے کے اقدامات کرنے تھے۔ اس دوران یہ لوگ اپنی عبادات اور چڑھاوے اور تمام کام جو انہوں نے دیوتا کو خوش کرنے کے لیےادا کیے ہوتے ،وہ تمام کام دیوتا پر جتلاتے۔ اس کے بعد تیسرے مرحلے میں اپنی خاص خواہش دیوتاؤں کے سامنے رکھتے اور انہیں پورا کرنے کی درخواست کرتے تھے۔

یہ عبادات انفرادی اور اجتماعی ، دونوں سطح پرادا کی جاتی تھیں۔ جب بھی کسی کام کی ابتداءکی جاتی یا کوئی جنگی معرکہ سر کرنا ہوتا یا کوئی مقابلہ ہونے جارہا ہوتا، ان سب معاملات سے پہلے لوگ عبادات بجا لاتے تھے۔ زندگی کے ہر معاملے کے لیے تو دعا کی جاتی لیکن آخرت کے لیے کوئی دعا نہ کی جاتی ۔ کچھ دعاؤں سے پہلے لوگ چڑھاوے بھی دیتے تاکہ دیوتا ان کی دعائیں قبول کرلیں۔ 2

قدیم یونانیوں کے نزدیک گناہ کا کوئی تصوّر نہیں تھا۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی دیومالائی کہانیوں میں دیوتاؤں کے کافی گناہ ذکر تھے تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ان کے دیوتا وٴں کو گناہ کرنے کی اجازت تھی تو ان کو بھی اجازت ہے۔مزید یہ کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ اگر دیوتا ناراض بھی ہوجائے توکوئی معمولی سا چڑھاوا چڑھا دیا جائے یا عبادت ادا کردی جائے تو دیوتا راضی ہوجائے گا،لہٰذا وہ اپنے دیوتا کی پوجا اپنے گناہ بخشوانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لیے کرتے تھے۔ کچھ لوگوں نے اپنے گھروں میں مندر تعمیر کیےہوئے تھے جن کے سامنے وہ لوگ صبح و شام پوجا پاٹ کرتے اور چڑھاوے دیتے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ ان کی عبادات اور چڑھاوے خلوص سے عاری ہوتے بلکہ صرف رسمی طور پر انہیں ادا کیا جاتا تھا ۔ 3

اہل یونان کے ہاں اپولو(Apollo)دیوتاکے معبدمیں اس کی پوجا اور مقابلہ شعروشاعری وموسیقی لازم وملزوم سمجھےجاتےتھے۔درحقیقت کسی مذہب کے مراسم میں جشن ، کھیل اور تماشوں کی اتنی آمیزش نہیں پائی جاتی تھی جتنی یونانیوں میں تھی،اور نہ ہی کسی مذہب میں خوف و دہشت کا عنصر اس قدر قلیل پایا جاتا تھا جتنا یونانیوں میں تھا۔ان میں کاہنوں کا ایک بااثر طبقہ تھاجس کی پیش گوئیوں پراہل یونان ایمان رکھتےتھے۔

ڈلفی(Delphi)کامندرخاص طورپراہل یونان کا دار الاستخارہ تھاجہاں وہ غیب کی خبریں معلوم کرنے کےلیےچلہ کش ہواکرتےتھے۔یونانی مندروں سے ملحق خانقاہیں بھی تھیں جہاں پجاری اورداسیاں رہتی تھیں اورجوصدائے غیبی کے ذریعے لوگوں کوان کےمعاملات سے متعلق مشورہ دیاکرتی تھیں۔4

حمد بیان کرنا

باجے کی دھن پر قدیم یونانی اپنےدیوتاؤں کی حمد پڑھا کرتے تھے۔ یہ عمل انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر کیا جاتا تھا۔جب یہ عمل اجتماعی طور پر کیا جاتا تو باقاعدہ ایک خاص گروہ اس رسم کو انجام دیتا تھا۔ کبھی تو جلوسوں میں بھی گانے باجے کے ساتھ یہ حمد پڑھی جاتی تھی ۔ہر دیوتا یا دیوی کے لیے الگ حمد پڑھی جاتی تھی۔ یہ عمل ان کی خاص عبادات اورتہوار دونوں کا اہم حصّہ تھا۔

چڑھاوے

اکثر لوگ منتیں اور نذر مانا کرتے اور اس کے بدلے چڑھاوے پیش کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ اس عمل کے ذریعے ان کے دیوتا کی توجہ ان پر قائم رہتی ہے۔ یہ چڑھاوے خاص طور پر جنگ کے بعد ، کسی کی پیدائش کے وقت یا شادی کے وقت دئیے جاتےیا پھرکسی بیماری سے شفایاب ہونے کے بعد پیش کیے جاتے تھے۔ ان منتوں کی ادائیگی کےلیے کوئی خاص چیز مختص نہیں تھی بلکہ جو بھی لوگوں کی خواہش ہوتی دےدیا کرتے تھے۔

اگر کسی شخص کو کسی بیماری سے شفا ء نصیب ہوتی تو وہ بھی شکر ادا کرنے کی نیت سے اپنے دیوتا کو چڑھاوا پیش کرتا تھا۔ اس طرح کے چڑھاوؤں میں عمومی طور پر جسم کے اس عضو کا مجسمہ دیوتا کو پیش کیا جاتا جس کو شفاء نصیب ہوئی ہوتی جیسے کہ کچھ لوگ ہاتھ کا یا پاؤں حتی کہ کچھ تو آلہ ءِتناسل یا پستان کہ مجسموں کوبھی چڑھاووں میں پیش کرتے تھے۔ کچھ لوگ تو اپنا پورے جسم کا مجسمہ بنا کر چڑھاوے کے طور پر پیش کردیا کرتے تھے۔ اگر دیوتا یا دیوی کا مند ر چھوٹا ہوتا اور چڑھاوے کے لیے دی گئی اشیاء سے بھر جاتا تو ان اشیاء کو رکھنے کے لیے بڑے مندر تعمیر کیے جاتے تھے۔

پاکی و صفائی

کسی بھی چڑھاوے سے پہلے چڑھاوا دینے والے کا ایک خاص طریقے سے پاک ہونا ضروری تھا۔ پاک ہونے کے لیے چڑھاوا دینے والا اپنے ہاتھ کو دھوتا یا پانی کا چھڑکاؤ کرتا تھا۔ یہ ایک اہم رسم تھی خاص کر جانوروں کے چڑھاوے کے لیے اس کی ادائیگی لازم تھی۔ اس رسم کے لیے ایک خاص قسم کا برتن استعمال کیا جاتا جس میں پانی رکھا جاتا تھا۔ اس برتن کو خرنیبیون (Khernibeion) کہا جاتا تھااور یہ ان کے مندروں میں موجود ہوتا تھا۔ 5

قربانی

قربانی کی رسم جس طرح قدیم ادوار کی دیگر اقوام میں رائج تھی اسی طرح یونانیوں کے ہاں بھی کئی طریقوں سے رائج تھی۔ ان کے نزدیک قربانی اپنے دیوتا کو خوش کرنے کا بہترین ذریعہ تھی۔ قربانی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ صرف ان چیزوں کو قربان کیا جائے جن میں خون پایا جائے بلکہ گندم کے دانوں، پھلوں اور دیگر سبزیوں کی بھی قربانی دی جاتی تھی، لیکن اعلی قربانی جانوروں کی ہی مانی جاتی تھی۔ جانوروں میں خنزیر، بکرے ، مرغیاں اور بھیڑ قربان کیے جاتے تھے ۔ سب سے متبرک قربانی بیل کی مانی جاتی تھی۔ 6

یونان میں جب بادشاہ قربانی کرتاتویہ قربانی ساری قوم کی جانب سے تصوّر کی جاتی تھی لیکن ان میں یہ رسم بھی رائج تھی کہ ہرخاندان کا بزرگ اپنےگھرانے کی طرف سے علیحدہ یہی رسم اداکرتاتھا۔دیوتاؤں کی عام نیازکی شکل یہ ہوتی کہ تھوڑاساگوشت اورشراب آگ میں ڈال دیتے، گویا یہ دیوتا کاصدقہ یا نذرانہ تھا اورباقی گوشت اورشراب اپنی ضیافت وخوش دلی میں استعمال کی جاتی تھی ۔ خاص خاص تہوارکے دنوں کا بھی یہی رنگ ہوتاتھا، ہرطرف اکل وشرب کےمحفلیں جمتیں، لطف وزندہ دلی کی صحبتیں گرم ہوتیں، کہیں مردانہ کھیلوں کی نمائش قائم کی جاتیں اورکہیں اپنے بزرگوں کےکارنامےبیٹھ کےسنتے تھے۔7

انسانی قربانی

ایتھنز کے قریب ایک مکان ایلیوسس(Eleusis)تھا جہاں ونتر دیوی کے اعزاز میں خاص رسمیں ادا کی جاتی تھیں۔ یہ زراعت اور بارآوری کی دیوی تھی۔ فصلوں اور زراعت کے اچھا ہونے کا دارومدار اس دیوی کی نظرعنایت پر منحصر تھا۔ اہل یونان دیوتاؤں کے مندروں میں بڑے قیمتی نذرانے پیش کرتے تھے اور منقولہ وغیرمنقولہ جائیدادیں بھی ان کے نام وقف کی جاتی تھیں۔ جب کوئی خاص مشکل پیش آجاتی تو انسانی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ ایگا میمنون، ٹرائے (Troy)کی جنگ میں یونانیوں کا سپہ سالار تھا وہ چاہتا تھا کہ دیوی آرٹیمس(Artemis) اس پر مہربان ہوجائے جس نے غلط سمت میں ہوائیں چلا کر ٹرائے (Troy)کے خلاف اس کی مہم میں رکاوٹ پیدا کررکھی تھی۔ چنانچہ اس نے اس دیوی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جواں سال بیٹی اینی گنیا کو اس کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھادیا تھا جو اسکی جہالت اور درندگی کا بیّن ثبوت تھا ۔

مائع کی قربانی

اہل یونان بعض دیوتاؤں اور اپنے بزرگ اور بہادر لوگوں کی روحوں کو خوش کرنے کے لیے مائع کی بھی قربانی دیا کرتے تھے۔ اس مائع کو ( جو عمومی طور پر شراب، شہد، دودھ ، پانی یا عطر ہوتا) ایک خاص پیالے میں ڈالا جاتا پھر اس کو ایک خاص مقام پر دیوتا کے سامنے بہایا جاتا تھا۔ کبھی اسے پورا بہایا جاتا اور کبھی اس مائع کا کچھ حصہ پوجا کرنے والا تبرک کے طور پر ساتھ لے جاتا تھا۔ 8

مذہبی تہوار

قدیم یونان میں مذہبی تہواروں کی بہت اہمیت تھی۔ان میں بچے، بڑے، مردو عورت سب شرکت کیا کرتے تھے۔ ان کے کچھ تہوار ایک دن کے ہوتے اور کچھ کئی دنوں تک منائے جاتے تھے۔ یہ مذہبی تہوار جب منعقد ہوتے تو تمام شہروں میں کام سے چھٹی دے دی جاتی تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان تہواروں میں شریک ہوکر مذہبی رسوم کو ادا کرتے اور ان سے خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔9 ان کے مشہور تہواروں کی تفصیل درج ذیل ہے:

اولمپیائی تہوار(Olympics)

اولمپیائی تہوار کے بارے میں نورمن لکھتاہے:

  This festival lasted for five days which included sacrifices, sports, and feasts. Sacrifices and feasts, both private and public, formed part of each day's program, especially of the first and last days, which must have been largely, if not entirely, occupied by such ceremonies.10
  اولمپیا تہوار کا دورا نیہ پانچ دنوں پر مشتمل ہوتا تھا جس میں قربانیاں، کھیل کود، اور لوگوں کے لیے کثیر پکوان شامل ہوتے تھے۔ قربانیاں اور پکوان روزانہ کی بنیاد پر عوام اور خواص دونوں کے لیے اور خاص طور پر شروع اور آخر کے ایام میں ترتیب دئے جاتے تھے۔ یہ تہوار بڑےاور چھوٹے دونوں طرح کی تقاریب پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔

تھیسمو فوریا (Thesmophoria)

تھیسموفوریا (Thesmophoria)یونان کے اکثر و بیشتر شہروں میں دیمیتر (Demeter)نامی دیوی سے منسوب اہم تہوار تھا۔ اسے خاص طور پر شادی شدہ خواتین کی جانب سے منایا جاتا تھا تاکہ تہوار کےموقع پر وہ تھیسموفورین (Thesmophorian) میں گوشہ نشینی اختیار کریں جو کہ دیمیتر کا معبد خانہ تھا۔ ایتھینز(Athens) میں یہ تہوار تین دن جاری رہتا تھا جس میں معمولات زندگی معطل رہتے تھے۔یونان کے دیگر شہروں میں بھی یہی معمول تھا۔ دیمتیر کی پوجا کے ساتھ یونانیوں کی پراسرار رسوم بھی وابستہ تھیں جو خفیہ مجالس میں ادا کی جاتی تھیں۔ ان میں صرف منتخب افراد حصہ لیتے تھے۔ پلوٹارک(Plutarch)نے جو اس کا رکن تھا،اشارۃً اس کا ذکر کیا ہے۔ دیمیتر کی پوجا کا مرکزی خیال یہ تھا کہ انسان مرکر دوبارہ زندہ ہوجائے گا۔ 11تھیسموفوریا کے متعلق انسائیکلو پیڈیا بریٹانکا میں مذکور ہے:

  The celebrants were free women who seem to have been married. They observed chastity for several days and abstained from certain foods. A great part of the Thesmophoria was carried out by torchlight and was accompanied by ceremonial coarse abuse among the women, a common means of promoting fertility.12
  :تھیسموفوریا کو منانے والی عورتیں شادی شدہ ہوا کرتی تھیں۔ اس دوران وہ اپنے شوہروں سے ازدواجی تعلق نہیں قائم کرتی تھیں اور مخصوص کھانوں سے دوری برتتی تھیں۔ اس تہوار کا اکثر حصہ مشعل کی روشنی کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا جس میں عموماً عورتیں آپس میں ناجائز مباشرت کیا کرتی تھیں ۔ یہ تہوار اولاد کے حصول کے لیے زرخیزی بڑھانے کا ایک مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔

دس روزہ تہوار

اس تہوار کے متعلق ہیری تھرسٹن (Harry Thurston) لکھتاہے:

  The festival was under the superintendence of ten; and the chief solemnity consisted in the circumstance that Attic girls between the ages of five and ten years, dressed in crocus-coloured garments, went in solemn procession to the sanctuary, where they were consecrated to the goddess.13
  یہ تہوار دس لوگوں کی نگرانی میں منایا جاتا تھا۔ اس تہوار کی ایک اہم رسم یہ تھی جس میں ایتھین کی چھوٹی بچیاں جن کی عمر پانچ سے دس سال کے درمیان ہوا کرتی تھی ، ان کو پیلے یا جامنی رنگ کا لباس پہنایا جاتا ، پھر جلوس کی شکل میں مندر لے جایا جاتا، جہاں ان لڑکیوں کو دیوی کے سامنے چڑھاوے کے طور پر پیش کردیا جاتا تھا۔

پینےتھینیا(Panathenaea)

پینے تھینیا(Panathenaea) کے تہوار کے متعلق جورج بورٹزفورڈ(George Botsford) اور گریگ انڈرسن (Greg Anderson)لکھتے ہیں:

  A most prominent feature of Athena worship at Athen saw as a festival held every summer, the Panathenaea. 14 The ritual component was the core of the festival. It began with a sacrificial procession, starting at the Diplyon Gate, and proceeding through the Agora, up to the Acropolis.15
  ہر سال اتھینا کی پوجا کے لیے موسم گرما میں ایتھنز کے شہر ایک تہوار منعقد کیا جاتا جو پینے تھینیا کے نام سے منسوب تھا ۔ اس تہوار کی رسمیں ایک چڑھاوے سے شروع ہوتیں، اور لوگ ایک جلوس کی شکل میں ڈپلیون کے دروازے سے نکلتے اور بازار سے ہوتے ہوئے اکرو پولیس تک جایا کرتے تھے۔

انتھیسٹریا(Anthesteria)

انتھیسٹریا (Anthesteria) تین دن کا تہوار تھا۔ اسے انتھیسٹریون(Anthesterion) کے مہینے میں منایا جاتا تھا۔ اس تہوار میں خوب شراب پی جاتی تھی۔ اس کے بعد مرے ہوئے لوگوں کو یاد کیا جاتا اور پھر ان کو بخشوانے کے لیے چڑھاوے دئے جاتے تھے۔ یہ تہوار انتھیسٹریون (Anthesterion) کی 11 تاریخ کو شروع ہوتا تھا۔اس میں سب سے پہلے بڑے بڑے برتنوں کو شراب سے بھرا جاتا پھر شراب کو پینے سے پہلے اپنے بزرگوں کو یاد کیا جاتا اور پھر ان کو بخشوانے کے لیے ڈایونیسوس(Dionysus) کے نام شراب کا چڑھاوا دیا جاتا اور شراب کی ایک کثیر مقدار بہائی جاتی تھی۔ اس کے بعد ڈایونیسوس(Dionysus) کے مندر سے ایک جلوس نکلتا جس میں جوان لڑکیاں اپنے دیوتا کے لیے حمد بیان کرتیں۔ جب یہ جلوس اختتام پذیر ہوجاتا تو رات میں خواتین ہر طرح کی فحش حرکت کو حلال و مقدّس سمجھتے ہوئے کرنا شروع ہوجاتیں اور بےشرمی کی تمام حدیں پار کرجاتی تھیں۔ 16

ایفرودائزیہ(Aphrodisia)

ایفروڈائٹی (Aphrodite)کی تعظیم کے لیے یونان کے بہت سے شہروں میں اس کے نام پر تہوار منائے جاتے تھے۔ 17اس تہوار کو ایفرڈائزیا (Aphrodisia) کہا جاتا تھا ۔ اس تہوار میں جانوروں اور شرابوں کے چڑھاووں کے بجائے آگ، پھول اور خوشبو کے چڑھاوے دئےجاتے تھے۔ان چیزوں کے علاوہ لوگ اس دیوی کے لیے پیسوں کے نذرانے بھی پیش کرتے جس کے بدلے ان کو تھوڑا نمک اور ایک لنگ بطور تبرک دیا جاتا تھا۔18

یونانیوں کے ان تہواروں میں ان کے پروہتوں کی بہت اہمیت تھی کیونکہ ان کو دیوتاوؤں کی طرف سے نمائندہ سمجھا جاتا تھا ۔ان پروہتوں کو تمام تر حماقتوں کے باجود بہت عزت دی جاتی تھی۔ یونانیوں کے اکثر تہوار اور مذہبی رسومات قربانیوں ، ناچ،گانوں اور فحش حرکتوں پر مشتمل تھے۔ ان تمام حرکات کو مذہب کے نام پر کیا تو جاتا لیکن حقیقت میں ان کا تعلق مذہب سے دور دور تک نہ تھا بلکہ ان کے پروہتوں کی عیاشی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے عبارت تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یونان کا معاشرہ بھی ظلم و ستم، عصمت پرستی، ہم جنس پرستی ، زناکاری اور دیگر بد اعمالیوں میں ملوث تھا ۔ امیر اپنی عیاشیوں میں غرق رہتے جب کہ غریب ان کے ظلم و ستم کے نیچے پستے رہتے تھے۔ وہاں کے لوگوں کی حالت قابل رحم تھی جو مذہب کےنام پر مکمل طور پرگمراہ ہوچکے تھے اور اپنے تمام تر دانش مند وں کی موجودگی کے باجود تباہی کی راہ پر گامزن تھے۔

 


  • 1 Wikipedia the Free Encyclopedia: https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Ancient_Greek_temples: Retrieved: 03-05-17
  • 2 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 370.
  • 3 George Rawlinson, (1885), The Religions of the Ancient World, John B. Alden Publisher, New York, USA, Pg. 152-154.
  • 4 ڈاکٹرنگارسجادظہیر،مطالعہ تہذیب،مطبوعہ:قرطاس،کراچی،پاکستان، 2007ء،ص:92-93
  • 5 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 370-372.
  • 6 David Sacks (2005), Encyclopedia of the Ancient Greek World, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 297.
  • 7 سیدہاشمی فریدآبادی،تاریخ ِیونانِ قدیم،مطبوعہ:مطبع انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ،انڈیا، (سن اشاعت ندارد)،ص:27
  • 8 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 371-373.
  • 9 George Rawlinson (1885), The Religions of the Ancient World, John B. Alden Publisher, New York, USA, Pg. 152-153.
  • 10 E. Norman Gardener (1910), Greek Athletic Sports and Festivals, Macmillan and Co. Limited, London, U.K., Pg.195-196.
  • 11 علی عباس جلالپوری ،روایات تمدن ِ قدیم ، مطبوعہ :تخلیقات لاہور،پاکستان،2012 ء،ص:127
  • 12 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Thesmophoria: Retrieved: 22-03-17
  • 13 Harry Thurston Peck (1898), Harpers Dictionary of Classical Antiquities, Harper and Brothers, New York, USA, Pg. 221.
  • 14 George Willis Botsford (1926), Hellenic History, The Macmillan Company, New York, USA, Pg. 141.
  • 15 Greg Anderson (2003), The Athenian Experiment: Building an Imagined Political Community in Ancient Attica, 508-490 B.C., The University of Michigan Press, Michigan, USA, Pg. 158-159.
  • 16 Rosemarie Taylor-Perry (2003), The God Who Comes: The Dionysian Mysteries Revealed, Algora Publishing, New York, USA, Pg. 69-74.
  • 17 William Smith (1875), A Dictionary of Greek and Roman Antiquities, John Murray, London, U.k., Pg. 31-32.
  • 18 Lacus Curtius: http://penelope.uchicago.edu/Thayer/E/Roman/Texts/secondary/SMIGRA*/Aphrodisia.html: (Retrieved): 22-03-17