کسی زمانے میں یونان کے نام سے پہچانا جانے والا پرکشش خطہِ زمین ، اب بھی اس دنیا کے نقشےپر موجود ہے مگر غیر مستحکم حکومتوں ، ناانصافی ، غلامی ، ناقص معاشی پالیسیوں ، غیر اخلاقی اقدار ، جسم فروشی اور ہم جنس پرستی جیسی قبیح حرکتوں کی بدولت ،ماضی میں حاصل شدہ شان و شوکت اور حیثیت و اہمیت رکھنے والی یونانی قوم اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ وقت کی بے رحم موجوں نے اسے اوج ثریا سے خاک زمیں پر دے مارا ہے اور اب اسکی حیثیت دنیا کے نقشے پر موجود ایک چھوٹے سے ملک سے زیادہ نہیں ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عہدِ قدیم کے یونان میں ثقافت اور روایات کا کچھ خزانہ موجود تھا جس کی وجہ سے اس کی تاریخ محفوظ کرنے کے قابل سمجھی گئی تھی بصورت دیگر یونانی ثقافت کے کئی ایک پہلو توگندگی اور غلا ظت کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔
قدیم یونان کا نام لیتے ہی یونانی ادب، آرٹ، فلسفہ، مذہب اور شاعری کی وہ تمام روایات ذہن میں تازہ ہوجاتی ہیں جن کی بنا پر یہ تہذیب دنیا کی دیگر قدیم تہذیبوں میں ممتاز رہی ہے۔ ان شاندار روایات کی تشکیل میں جس یونانی شہر کا غالب حصہ رہاہے وہ ایتھنز(Athens)ہے۔ بڑے بڑے یونانی فلاسفہ و ادیب، ایتھنز کے رہنے والے تھے یا ایتھنز کا ان پر گہرا اثر پڑا تھا۔ بڑے ادیبوں میں یوری پیڈیز(Euripides)،الیسکیلس(Aeschylus)،ارسٹوفینیز (Aristophanes)اور سوفوکلیز(Sophocles)،سیاست میں پیری کلیز(Pericles)جیسا قد آور سیاستدان، خطابت میں ڈیما ستھینز (Demosthenes )جیسا شاندار خطیب، فن تاریخ میں ہیروڈوٹس(Herodotus)اور فلسفہ مذہب میں انیکسا غورث(Anaxagoras)، سقراط(Socrates)، افلاطون(Plato) اور ارسطو(Aristotle)، سب اسی شہر کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں مروّجہ علوم کے چند نہایت اہم شعبے، جن میں فلسفہ(Philosophy)،جمہوریت(Democracy)اور المیہ نگاری(Tragedy)شامل ہیں،ان کا آغاز اصل میں ایتھنزیعنی یونان سے ہی ہوا تھا۔ 1
شاندار علمی روایات کے باوجود ایتھنز شہر کا ظاہری نقشہ بہت سادہ تھا۔ اس کی گلیاں تنگ اور بازار چھوٹے تھے۔ یہ ہمارے آج کے ایسے چھوٹے قصبوں کی مانند تھا جہاں کا تقریباً ہر شخص دوسرے کو جانتا تھا۔فرق صرف یہ ہے کہ آج قصبوں میں بھی ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبار اور رسالے موجود ہیں جبکہ ایتھنز میں خبر کا واحد ذریعہ یہ تھا کہ لوگ شہر کے بازاروں، چوراہوں اور جمنازیم میں جمع ہوجاتے اور آپس میں تبادلہ خیال کرتےتھے۔ شہر کی سب سے اہم جگہ بازارتھا۔ دوستوں کے گھر، جمنازیم اور مرکز ِ خریداری وغیرہ علمی بحثوں کے اہم مراکز تھے۔ 2
یونانیوں کی اصل، ان کے نسب اور اسلاف کے متعلق مُورخین میں کافی اختلافات ہیں۔ ان کا ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ اصلاً رومی تھےاور مزید یہ کہ وہ نسلاً حضرت اسحاق کی اولاد میں سے ہیں جبکہ ایک دوسرے گروہ کے نزدیک وہ یافث بن نوح کی نسل سے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ازمنہ اولیٰ کی کسی قدیم نسل سے ہیں اور ان کا گمان یہ تھاکہ رومی و یونانی بلحاظ نسب ایک ہی ہیں نیز یہ کہ ان دونوں کے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم تھے۔ یہ لوگ اپنے اس گمان کی بنیاد اس بات کو ٹھہراتے ہیں کہ رومی و یونانی دونوں میں طبائع، عادات و خصائل اور مذہب کا اشتراک تھا۔ وہ انہیں لسانی طور پر بھی ایک ہی بتا تے ہیں حالانکہ یہ سب باتیں صریحاً غلط معلوم ہوتی ہیں کیونکہ نہ رومیوں کی طبائع ، عادات و خصائل یونانیوں جیسے تھے اور نہ ہی ان کے مذہبی عقائد۔ لسانی اعتبار سے بھی وہ دونوں الگ الگ قومیں تھیں جہاں تک رومیوں کے اظہار ِخیالات، فلسفہ مذہب، اسلوب ِبیان اور زورِ خطابت کا تعلق ہے وہ ان میں سے کسی ایک بات میں بھی یونانیوں سے میل نہیں کھاتے تھے، کیونکہ رومی ان سب باتوں میں یونا نیوں سے کہیں پیچھےتھے چہ جائیکہ وہ یونانیوں کی تحریر کردہ کتابوں کے اسلوب، ان کے ارفع و اعلیٰ حکیمانہ و فلسفیانہ خیالات اور زبان و بیان میں ان کی فصاحت و بلاغت کی سطح تک پہنچ سکیں۔3
المسعودی ، ذوالعنایہ کی "اخبارالمتقدمین"کے حوالے سے اہل یونان کو قحطان کے بھائی بندوں میں سے اورعامر بن شالخ کی اولاد قرار دیتے ہیں ۔4الیعقوبی یونانیوں کا پہلا بادشاہ یونان کو بتاتےہیں جو کہ حضرت نوح کے بیٹے یافث بن نوح کی آل سے تھا۔5 طبری کا خیال ہے کہ اہلِ رُوم کا نسب یونانیوں سے ملتاہے۔ اس نے"روم" کا نسب روم بنی لنطی بن یونان بن یافث بن نوح بیان کیا ہے۔6 ابن الاثیر نے رومیوں کو یافث کی اولاد سے قرار دیا ہےاور انکا نسب بنو نبطی بن یونان بن یافث بن نوح بیان کیا ہے ۔7 ابن کثیر نے بھی اہلِ روم اور اہلِ یونان کے تعلق سے ایسی ہی روایت 8نقل کی ہے۔9 ابنِ خلدون اہلِ یونان کے نسب کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
"باتفاق محققین ،اہل ِیونان نسبتاًیافث بن نوح علیہ السلام کی طرف منسوب کیےجاتے ہیں۔ کندی سے روایت کی جاتی ہے کہ یونان، عابر بن فانع کی نسل سے ہے اور وہ اپنے بھائی قحطان سے رنجیدہ ہوکر اپنے اہل و عیال کے ساتھ یمن سے جلاوطن ہوکر افرنجہ (فرانس) اور روم کے درمیان آٹھہرا یوں ان میں اس کا نسب مل جل گیا۔ آل ِیاقان (یونان) اسی وجہ سے اسکندر کو تُبَّع میں شمار کرتے ہیں حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ وہ یافث کی نسل سے ہے اس کے علاوہ تمام محققین، روم کو یونان افریقی لاطینوں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور یونان کا ذکر توریت میں آیا ہے کہ وہ یافث کی صلبی اولادمیں سے ہے اس کا نام یاقان تھا۔ عرب نے اسے معرّب کرکے یونان کردیا۔ ہر وشیوش نے غریقیوں کے پانچ گروہ قائم کیے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک یونان کے پانچ لڑکوں"کیتم، حجیلہ، ترشوش، دوانم اورایشیائی" کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ اور ایشیائی کی اقوام میں" سجینیۃ، اثناش، شمال، طشال اور جدون" شامل ہیں۔ اور رومی ولاطینی بھی ہیں مگر ان پانچوں میں سے کسی خاص کی طرف انہیں منسوب نہیں کیا اور افرنج کو "غطر مابن عومر بن یافث" کی نسل سے لکھا ہے اور صقالبہ کو اس کا نسبی بھائی بتایا ہے۔" 10
یونانیوں کے نسب کے بارے میں مغربی مؤرخین زیادہ تر خاموش رہے ہیں جسکی بڑی وجہ اہل مغرب کے پاس وحی الہی اور نبوی علم کی عدم موجودگی معلوم ہوتی ہےکیونکہ مسلم مؤرخین جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے انکی معلومات درایت کے ساتھ ساتھ روایت پر مبنی رہی ہیں۔اس لیے ان کی بات اس حوالے سے زیادہ مستند اور تاریخی اعتبار سے دور رس اور معتبر معلوم ہوتی ہے۔تاہم جان ایس ہائی لینڈ (John S. Highland) نے یونانیوں کو ہلینی (Hellene) نامی آریہ قبائل کی نسل سے قرار دیا ہے۔ وہ ان کی آباد کاری کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھتا ہے:
"پہلے پہل آریا(Aryans)جنوب اورمغرب کی طرف بڑھے، غالباًحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پندرہ (1500)سوسال پہلے یہ آریا شمالی یونان میں داخل ہوئے، یہ حملہ آور قبیلے اپنے آپ کو ہلینی(Hellene) کہتے تھے اوران کی بولی ایک زبان کی مختلف شاخیں تھیں۔یہ لوگ خوش رنگ تھے اور دوسرے آریائوں کی طرح اپنے مُردوں کو جلایاکرتے تھے۔چند صدیاں گزرنے کے بعد ان ہلینیوں نے کریٹ(Crete) اوربحرایجین(Aegean Sea) کی عظیم الشان منی آن سلطنت اوراس کے ساتھ وہاں کے اعلی ترقی یافتہ تمدّن اوربحری قوت کو تباہ کردیا تھا۔ یہ خودبھی بہت تیزی کے ساتھ مشاق ملاح بن گئے تھے۔سمندرپارنوآبادیاں قائم کرنے کے جذبۂ شوق نے ان میں بڑی ترقی کی تھی۔ انہوں نے بحیرہ ایجین (Aegean Sea)کے تمام جزیروں اوراس کے اطراف کے ساحلوں پراپنی نوآبادیاں قائم کرنی شروع کردیں۔اس کے وہ بعد شمال مشرق میں بحراسود(Black Sea) تک مغرب میں اطالیہ(Italy)، سسلی(Sicily) تک، اورشمال مغرب میں فرانس ارسیلزتک آگے بڑھ آئے تھے۔ بحیرہٴ اسود(Black Sea) میں انہوں نے کریمیا(Crimea)تک اپنی نوآبادیاں قائم کیں تھیں۔اس طرح بحیرہٴروم(Mediterranean Sea)کے ساحلوں پرہلینی (Hellene) یعنی یونانی(Greece)آبادیاں پھیل گئیں۔ہلینیوں کی فتوحات کی پہلی موج کے بعد مقدونیوں (Macedonian) اورفریجنوں کی ایک دوسری موج آئی۔ اول الذکرتویونان(Greece) کے شمالی اضلاع میں آباد ہوگئے اور آخرالذکر ایشائے کوچک (Asia Minor)میں پھیل گئے تھے۔"11
یورپ میں یونان کو عام طورپرگریس (Greece)اوراس کےباشندوں کوگریک (Greek)کہتےہیں۔ابتدا اس نام کی یوں ہوئی کہ اہل رومہ(Romans) کوسب سے پہلےیونان کی جس آبادی یاقبیلےسےسابقہ پڑا وہ گرائیہ(Grecians)تھے۔رومیوں نے انہیں اورپھریہاں کےتمام باشندوں کوگریئسی(Graeci) کہنا شروع کیااوراخیرتک اسی لفظ پرقائم رہے12حالانکہ یونانی اس وقت بھی اپنے آپ کو ہیلینز (Hellens)اوراپنے ملک کو ہیلاس (Hellas)کہتےتھے۔13
حبیب حق نامی مورخ یونانیوں کی آباد کاری کے بارے میں یوں لکھتا ہے:
قبرص میں دریافت شدہ دیواروں پربنائی گئی تصویروں سے پتا چلتا ہےکہ یونان کے اولین باشندے جنہیں ینوائی یا ینوان کہا جاتا ہے،بحیرہ روم (Mediterranean Sea)کی جانب سےآئے تھے۔ان میں رفتہ رفتہ آنے والی مزید جماعتیں اور قافلے شامل ہوتے گئے۔ اگرچہ نئے لوگ اپنی اپنی خاصی ترقی یافتہ بولیاں لائےتھے مگر مخصوص یونانی اشیاء کے لیے قدما کی زبانوں کے الفاظ مستعار لینے پڑے۔پانچویں صدی تک ملک کے بعض کونے بچ گئے تھے جہاں قدیم زبانیں یا مخصوص زندگی گزارنے کے طریقے باقی تھے۔ تاریخی عہد کے یونانی مخلوط قوم تھے، لوگ عموماً سیاہ بالوں اور زیتونی رنگت کے تھے، گوری رنگت کے نمونے بھی پائے جاتے رہے ہیں ، ان میں غالباً بھورے رنگ کے تھے۔ دیوی دیمیتر(Demeter goddess)سفید فام تھی اور پرسی یوس(Perseus) بھی، جوکہ یونانی مردانگی کا نمونہ سمجھا جاتاہے۔ 14
ان دیوی دیوتا وں کے مجسمے یونانیوں کے رنگ و روپ اور ظاہری اوصاف کے عکاس ہیں اور قدیم اہل یونان کی جسمامت اور ظاہری شکل و صورت کے معیار کو سمجھنے کا ایک مستند حوالہ ہیں۔
قدیم یونان کی تاریخ کسی ایک تہذیب کی تاریخ نہیں بلکہ یہاں کئی تہذیبیں آباد ہوئیں جنہوں نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ ان میں سے بعض کی وضاحت درج ذیل ہے:
سیکلادی(Cycladic)جزائر کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جو سرزمین یونان(Greek)اور ایشیا کوچک(Asia Minor)کے درمیان بحیرہ ا یجین (Aegean Sea) میں واقع تھے۔ کانسی کے دور کی تہذیب یہاں تقریباڈھائی ہزار (2500)قبل مسیح میں شروع ہوئی نیز یہاں کے باشندوں نے کانسی کے علاوہ چاندی، سنگ مرمر ا ور سیسہ کے آلات بنانے اور استعمال کرنے میں مہارت حاصل کر لی تھی ۔ سیکلادی تہذیب کے دور میں لوگ چھوٹے قبیلوں کی شکل میں مختلف جزیروں میں بکھرے ہوئے تھے ۔ ان کی معیشت کھیتی باڑی اور تجارت پر منحصر تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ سب سے زیادہ زراعت و ذرخیزی کی دیوی کی پوجا کرتے تھے۔ یہاں کے لوگ پرسکون زندگی بسر کیا کرتے تھے لیکن تمام قدیم تہذیبوں کی طرح یہ تہذیب بھی زوال پذیر ہوئی اور انیس سو (1900)قبل مسیح میں ان کا دنیا سے نام و نشان مٹ گیا مگر ان کی تہذیب اور تمدّن نےیونان ، ایشیاء کوچک اور کریٹ (Crete)کے جزائر پراپنی تہذیب کے انمٹ نقوش ثبت کیے تھے۔15
عہد عتیق میں یونان دو(2) عظیم الشان تہذیبوں ،مائنوی تہذیب(Minoan Civilization) اور میسینا تہذیب (Mycenae Civilization) کا مرکز رہا۔ مائی سینی تہذیب کا مرکز یونان کے وسطی علاقے تھے۔اس تہذیب کا عہد 2200 قبل مسیح سے 1400 قبل مسیح کے دوران کا دور ہے۔ اس تہذیب کا بانی بادشاہ مائنوس(King Minos) تھا۔بحری قوت کی وجہ سےسمندر پر ان کی حکمرانی تھی۔زراعت اور تجارت کی وجہ سے خوشحالی کا دور دورہ تھا۔خیال کیا جاتا ہے کہ 1730 قبل مسیح، 1570 قبل مسیح اور 1480 قبل مسیح میں آنے والے زلزلوں نے اس تہذیب کو تباہ کردیا تھا۔تہذیب کی بربادی نے شہروں کی شان و شوکت بھی ختم کردی تھی۔ اس کے بعد کے دور میں غالبابیرونی حملہ آوروں نے بھی ان علاقوں کو اپنا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے یہ تہذہب فنا ہو گئی تھی۔میسینا تہذیب (Mycenae Civilization) کا مرکز میسینائے شہر(Mycenae) تھا جو جزیرہ نما Peloponnese Peninsula پر واقع تھا۔ اس تہذیب کا آغاز 1600 قبل مسیح کے قریب ہوا مگرکیسے ہوا ،اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ ان کی زبان ہندویورپی زبان تھی ۔یعنی اس میں ہندوستانی اور یورپی دونوں زبانوں کے الفاظ مستعمل تھے۔ اس تہذہب پر مائنوی تہذیب کے گہرے اثرات تھے مگر یہاں کے بادشاہ مائنویوں کے برخلاف مضبوط قلعوں اور محلات میں رہتے تھے۔چودہویں صدی قبل مسیح میں یہ بحیرہ ا یجین (Aegean Sea) میں کافی اثر و رسوخ قائم کر چکے تھے۔یہ تہذیب یونان (Greece)سے لیکر ترکی (Turkey)تک پھیلی ہوئی تھی۔ 16 میسینا تہذیب 1100 قبل مسیح میں صفحہ ہستی سے مٹ گئی تھی۔ تاریخ دان اس بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے کہ ان کی تباہی کی وجہ کیا ہوئی تھی۔ کچھ کا خیال ہے کہ ڈورین (Dorian)قبائل نےحملہ کرکے ان علاقوں پر قبضہ کرلیا مگر اس کے شواہد نہیں ملتے ہیں۔اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ قدرتی آفات اور زلزلوں کے سبب یہ تہذیب برباد ہوگئی تھی۔ اس تہذہب کے خاتمے کے بعد یونان کئی صدیوں کے لیے ایک عہدِ تاریک(Dark age) میں چلاگیا تھا۔ 17
میسینائی تہذیب (Mycenae Civilization) تقریبا 1200-1000 قبل مسیح میں تباہ و برباد ہوگئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر یونانی تہذبیں بھی کمزور ہو گئیں تھیں۔یہاں سے جو دور شروع ہوا اسے دورِ ظلمت (Dark Ages) کے نا م سے جانا جاتا ہے۔ یہ اندھیروں کا دور صرف یونان تک محدود نہ تھا بلکہ اس کا اثر مشرق کے دور دراز کونوں تک گیا تھا۔ مشرق کی ریاستیں تو ان اندھیروں سے نو سو(900)قبل مسیح تک باہر آگئیں لیکن یونان میں یہ دور آٹھویں صدی قبل مسیح (.8th Century B.C)کے نصف تک رہا تھا۔ اس دور میں حالات اتنے برے تھے کہ لوگ کھانے کو ترستے تھے۔ مزید یہ کہ لوگوں نے لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا تھا جس کی وجہ سے کچھ عرصے بعد لوگ لکھنا بھول گئے تھے۔ اس مشکل وقت میں بھی ان لوگوں نے اپنی ثقافت کی حفاظت کی اور اپنے حالات زبانی سینہ بہ سینہ منتقل کیے اور آنے والی نسلوں تک اپنے احوال پہنچائے تھے۔18
تقریبا سات سو پچاس قبل مسیح سے پانچ سو قبل مسیح کے عرصے میں یونانی تہذیب کا کافی ارتقاء ہوا اور اہل یونان کو سیاسی طور پر کافی خودمختار ی حاصل ہوئی تھی۔شہری سلطنتوں (City States) کا قیام ہوا تھا۔ عظیم الشان شہر بنائے گئے جو اپنی شان و شوکت میں ثانی نہیں رکھتے تھے۔علم و فن کو عروج حاصل ہوا۔اس دور میں مجسمہ سازی کے فن میں بھی کافی ترقّی ہوئی اور انسانی مجسموں کے شاہکار تیار ہوئے تھے۔ اسی دور میں شہریت کے اصول مدّون کیے گئے اور معاشرے کو آزاد شہریوں اور غلاموں میں تقسیم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ مرد، عورت، بچوں اور غلاموں کے حقوق بھی واضح کیے گئے ۔19
پانچ سوقبل مسیح سے لے کر چار سو قبل مسیح کے دوران عظیم الشان عمارتیں بنائی گئیں تھیں۔ مجسمہ سازی کے فن میں مزید ترقّی ہوئی اور اسے فطرت سے قربت ، انسانی آزادی اور شخصی اعتماد کے مظہر کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ مردوں ا ور عورتوں کے برہنہ مجسمے بنائے جانے لگے تھے۔20فلسفہ،منطق، ریاضی، ہیئت، جغرافیہ،سیاست،صنعت، تجارت، فنونِ تعمیر،زراعت، ادب،تاریخ نویسی اور دیگر علوم میں بہت زیادہ ترقی ہوئی اور مشہور زمانہ فلسفی اور اہل علم پیدا ہوئے تھے۔تین سو چھتیس (336)میں سکندر اعظم کی تخت نشینی سےلے کر تیس (30) قبل مسیح میں روم کے یونان پر قبضے تک کے عہد کو ہیلینسٹک دور (Hellenistic Age) تمدّنی عہد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں خود مختار شہری ریاستیں ٹوٹ کر بادشاہی ریاستوں میں تبدیل ہوگئیں تھیں اور حکمران باقاعدہ بادشاہ کے لقب سے ملقّب کیے گئے تھے۔ 21سکندر اعظم (Alexander the Great)نے ایرانی سلطنت ، مصر، عراق ، افغانستان اور ہندوستان کے وسیع و عریض علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا مگر اس کی وفات کے بعد اس کے جانیشین آپس کی لڑائیوں کا شکار ہو گئے اور سکندر کی عظیم سلطنت ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی۔ یہاں تک کے تین سو چھ (306) قبل مسیح میں سکندر اعظم کے پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا تھا۔22
یونان یورپ کا جنوبی حصہ ہے جو تین اطراف سے بحیرۂ روم میں گھر ا ہے۔اسے اب عام طور پر جزیرہ بلقان کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ حصہ جو یونان یا ہیلس کہلاتا تھا، شمال کی جانب کمبوونیائی پہاڑوں (Cambunian Mountains)کے درمیان واقع ہے جو اسے مقدونیا (Macedonia)سے جدا کرتا ہے۔ 23
یونان میں زلزلوں کا خطرہ بھی رہتا تھا ۔ خاص طور پر پیلوپونیسی (Peloponnese) کا علاقہ اکثرزلزلوں کی زد میں رہتا تھا۔ان تباہ کن زلزلوں میں سے ایک 464 قبل مسیح میں اسپارٹا میں آیا تھا۔ پیلوپونیسی (Peloponnese) کے شمالی ساحل پر ہیلس(Helice)میں 373 قبل مسیح میں بھی ایک تباہ کن زلزلہ آیا تھا جس سے یہ شہر سمندر میں غائب ہوگیا تھا۔ ایک فعال آتش فشاں جزیرہ تھیرا (Island of Thera)پر موجود تھا۔ نوآبادیات اور فتوحات کے ذریعہ علاقے کی توسیع نے یونانی سلطنت کو آہستہ آہستہ وسعت دیتے مغرب کی طرف اسپین،سرڈینیا (Sardinia)، کورسیکا (Corsica)، سسلی(Sisily)، جنوبی فرانس، میگنا گریسیا (Magna Graecia) ،شمالی افریقہ (سائرین) اور مصر کے آس پاس تک پھیلادیاتھا۔ بحیرہ اسود ، ایشیائے کوچک (Asia Minor)، قبرص اور یہاں تک کہ مشرقی بھارت اور افغانستان تک اس کی حدود وسیع ہو گئیں تھیں۔ 24
یونان صرف ایک شہر یا ریاست کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک بہت بڑے خطے پر پھیلی ہوئی تہذیب تھی۔ جو چیز یونانی خطوں کو ایک دوسرے سے ملاتی تھی وہ خشکی نہیں بلکہ سمندر تھا۔ مشرقی یورپ کے میدانی دریاسب بحیرہ اَسود(Black Sea) میں آکر گرتے تھےجو ایک طرف تو یورپ (Europe)کو ایشیاء(Asia) سے جداکرتا تھا اور دوسری جانب بحیرۂ مارمورا (Marmara Sea)اور استھمس(Isthmus) کے ذریعے سے اس کا بحیرہ روم (Mediterranean Sea)سے واسطہ ہوجاتا تھا۔ یہاں جو حصہ بحیرۂ روم کا واقع تھااس کی نوعیت کھلے سمندر کی نہیں تھی۔ اسی کے ساحلوں، راستوں اور جزیروں میں تاریخ یونان کے گوناگوں واقعات پیش آئے تھے اوران سب کو یونانی اراضی کے حصے کہا جا سکتا ہے ۔ ان اسباب کے تحت ، ارض یونان کو مندرجہ ذیل تین حصوں میں تقسیم کرنا مناسب ہے :
پہلا حصہ حدب ،ایشیائے کوچک کے کناروں کے محاذ میں پھیلا ہوا تھا۔اندرون ایشیائے کوچک کی کیفیت ایران کی طرح بالکل اقلیمی تھی لیکن سمندر کے قریب اس میں پہاڑ، وادیاں، راسیں اور خلیجیں پیدا ہوجاتی تھیں۔ چونکہ پہاڑوں کے سلسلے جنوبی ساحل کے قریب تھےاس لیے ملک کا ڈھلاوٴ شمال اور مغرب کی جانب تھااور اسی طرف اس کے بڑے بڑے دریا بہتے تھے۔ مغرب کی طرف ساحل بہت کٹا ہوا تھااوریہی وہ جگہ تھی جہاں سے ارض یونان کی گویا ابتدا ہوتی تھی۔ اس نواح میں بہت سے دریا بہتے تھےاور ان کے بیچ میں پہاڑوں کے مختلف سلسلے ایک دوسرے کے متوازی برابر ساحل تک جاکر قریب ترین جزیروں میں نکل آتےتھے۔ دریا طویل خلیجوں کے بالکل دہانے پر گرتے تھے اور ان خلیجوں کی وجہ سے مختلف اقسام کے ساحل نمودار ہوگئے تھے۔ ان دریاؤں میں گیدیز (Gediz River)، کیستر(Rivers Kestros) اور میاندرسب سے بڑے تھے۔ ہرموس کے شمال کی اراضی کا سلسلہ جزیرۂ خیوس (Chios Island) تک اور کیستر(Rivers Kestros) اور میاندر کا درمیانی سلسلہ جزیرۂ سامسو کی راس میکالے تک چلا گیا تھا۔ دریائے میاندر کے جنوب کی طرف جو ساحل تھا اس کی وہی شکل ہوجاتی تھی جو ایشیائےکوچک کے جنوبی ساحل کی تھی، یعنی اونچے اونچے پہاڑ عمیق خلیجوں کا احاطہ کیے ہوئے تھے اور کوئی ایسا اہم دریا نہیں تھا جس کی مدد سے ساحل مسطح ہوجائے۔ اس ساحل کے کنارے پر بے شمار جزیرے تھے ۔ اس کے بعد لسیہ (Lisiya)کامدوّر ساحل آتا تھا اور خلیج پمفیلیہ (Gulf of Pamphylia) پر جاکر ارض یونان ختم ہوجاتی تھی۔ 25 یونان کا ساحلی علاقہ کافی نوکیلی شکل کا تھا اور اس کے جنوب میں کریٹ (Crete) کا بڑا جزیرہ تھا۔ بحیرہ ا یئجین (Aegean Sea)کے وسط میں اور بھی بڑے جزائر پائے جاتے تھے جن میں سے لیس بوس (Lesbos) اور رہوڈز(Rhodes)کافی مشہور تھے۔ کل ملا کر ان جزائر کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔ 26
یونان کا اکثر حصّہ چٹانوں پر مشتمل تھا جس میں اکثر چٹانیں چونے کی بنی ہوئی تھیں۔ ان پہاڑوں کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو آمد و رفت میں بہت تکلیف ہوتی تھی۔ بڑی شاہراہوں کا وجود نہ تھا بلکہ پہاڑوں کے درمیان سے باریک راستے وادیوں کی طرف نکلتے تھے چونکہ وادیوں کے درمیان پہاڑ تھے اسی لیے خودمختار ریاستیں بنیں۔ سب سے بڑا پہاڑ کوہِ اولیمپس (Olympus) تھا جس کی کل اونچائی 9750 فٹ تھی اور وہ تھسیلی (Thessaly) میں واقع تھا۔ ان پہاڑوں میں ہرے بھرے جنگلات تھے جن میں کئی طرح کے جنگلی حیوانات پائے جاتے تھے۔ 27
تمام یونانی دریاوں میں تین خصوصیات مشترک تھیں ۔ او ّلاً وہ جہاز رانی کےقابل نہیں تھے۔اکثر یونانیوں کو نہیں معلوم تھا کہ دریا بھی سفر کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں اسی لیے ہیروڈوٹس(Herodotus) فرات اور نیل میں جہاز اور کشتیاں دیکھ کر حیران رہ گیا تھا اور بہت محظوظ ہوا تھا۔ اس نے بڑی تفصیل سے انہیں بیان کیا ہے۔تاہم تھیمز (Thames)کی طرف کے علاقے میں اونچائی کی طرف دریائی سفر ممکن نہیں تھا اسی لیے یہاں جاتے ہوئے تو کشتیوں پر گدھے تک لا د کر لے جاتے تھے تاہم واپسی پرکشتی کو زمین کے ذریعے واپس لے جانا پڑتاتھا۔
یونانی دریاؤں کی دوسری اہم خصوصیت یہ تھی کہ ان دریاؤں کو عبور کرنا آسان نہیں تھا۔ گرمیوں میں تو کوئی بڑی مشکل نہیں ہوتی تھی لیکن سردیوں میں ا ن سے گزرنا بے حد تکلیف دہ ہوتا تھا۔ یونانی دریاوں کی تیسری اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ پینے کے لیے بھی زیادہ موزوں نہیں تھے اور ان کا پانی گدلا تھا۔28
قدیم یونان کی آب و ہوا علاقوں کے اعتبار سے مختلف تھی۔ یونان کے تین خطے زیادہ نمایاں تھے جن میں سمندری ساحل، خشک زمینی خطہ اور پہاڑی علاقے شامل تھے ۔29یونان میں آب وہوا جغرافیائی صورتحال کے ساتھ ساتھ بدلتی چلی جاتی تھی ۔یونان کی آب و ہوا پر اس کے عرض البلد، سمندر کے قرب یا مشرقی بحیرہ روم میں جغرافیائی حیثیت اور اس بحیرے کی شمالی و مشرقی سمت میں کھلے ہونے کا اثر پڑتا تھا۔ جنوب کی طرف کے مخصوص عرض البلد کے سبب بہت سی ایسی اشیا پیدا ہوتیں تھیں جن کی پیداوار کے لیے گرمی کی زیادہ ضرورت تھی لیکن ملک شمال و مشرق کی طرف بالکل کھلا ہوا تھااور بحیرہ اسود کی ہر چار طرف دشت ہی دشت تھے اس لیے اس کی گرمی کسی قدر کم ہوجاتی تھی اور موسمِ سرما خوب سرد ہوجاتا تھا۔چونکہ بحری ہوا کا ہر جگہ گزر تھا اس لیے ہر موسم کی شدت بہت گھٹ جاتی تھی۔ ان تمام اثرات کا یہ نتیجہ تھا کہ یونان میں بہت سی قسموں کے درخت نظر آتے تھے اس لیے یونانی پیداوار اس سے مختلف تھی جو اسی عرض البلد پر اٹلی (Italy)میں ہوتی تھی جہاں کی آب و ہوا نسبتاً زیادہ جنوبی اسلوب کی تھی ۔
لاکونیا(Laconia) اور سب سے بڑھ کر میسینیہ (Messenia)وہ اضلاع تھے جن میں واقعی جنوبی آب و ہوا موجود تھی۔ یونان کی مشہور کھجوریں صرف زمین کی تزئین اور زینت کے طور پر کام کرتی تھیں نہ کہ خوراک اور منافع کے لیے۔ اگرچہ وہ پھل جن کو ہم جنوبی علاقوں کے لیے خاص سمجھتے ہیں وہ یونان میں زیادہ پھل پھول نہیں پائے ، پھر بھی مٹی ہلکی آب و ہوا کی مفیدخصوصیات سے مالا مال تھی۔یہاں کی مٹی مختلف اقسام کی تھی۔ یہ بنیادی طور پر چونے کے پتھر پر مشتمل تھی ۔ جن جگہوں پر چونے کا پتھر سطح پر موجود تھا ، آسانی سے نمی جذب کرلیتا تھا تاہم جزیرہ نما اور جزیروں اور پہاڑوں پر خشکی غالب رہتی تھی۔ دوسری طرف وادیوں اور دریائی میدانوں میں مٹی بھاری تھی اور پانی اکثر جم جاتا تھا۔30پہاڑوں میں موسم سرما بہت شدید ہوتا تھا لیکن دیگر علاقوں میں سردی قدرے کم ہوتی تھی اور گرمیوں میں وہ علاقہ کافی گرم ہوتا تھا نیز وہاں بارش بھی بہت کم ہوتی تھی۔ مغربی یونان میں شدید بارش صرف موسم سرما کے پانچ مہینوں(موسم بہار) کے دوران ہوتی تھی۔31
یونان سینکڑوں شہری ریاستوں پر مشتمل تھا جن میں سے کئی ریاستیں چھوٹے قصبوں کی مانند تھیں۔تاہم ایتھنز (Athens)، چیلس(Chalcis)، کورینتھ (Corinth)، اریٹریہ (Eretria)، ڈیلفی (Delphi)، سپارٹا (Sparta) اور تھیبس (Thebes) آبادی کے لحاظ سے بڑی یونانی ریاستیں تھیں ۔پریکلس (Pericles) کے دور میں ایتھنز(Athens) شہر کی آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس میں سے ثلث (ایک تہائی )غلام اور سُدس (چھٹا حصہ ) غیر ملکی تھے۔ پوری آ بادی میں سے تقریباًپچاس ہزار ایسے نوجوان تھے جو جنگ لڑنے کے قابل تھے۔جب ایتھنز کی سلطنت وسیع ہوئی تو اس کے ماتحت تھریشین(Thracian)، ہیلسپونٹین(Hellespontine)، انسولار(Insular)، آیونیئن(Ionian) اور کیریئن (Carian) صوبے آگئے تھےاور سلطنت ایتھنز کی آبادی بیس لاکھ نفوس تک پہنچ گئی تھی۔ 32
چونکہ یونان بحیرہ روم کے بہت سے جزیروں پر مشتمل تھا لہذا اس میں مختلف قبائل آباد تھے۔ ان لوگوں میں سب سے نمایاں آئیونی(Ionians) اور ڈورین (Dorians)تھے۔
آئیونی قبائل(Ionians)، قدیم یونانیوں کے ایک اہم مشرقی گروہ کے رکن تھے جنہوں نے اناطولیہ (Anatolia) کے مغربی ساحل پر واقع ایک ضلع کو اپنے نام سے منسوب کیا ۔ یونانی زبان کے آئیونی لہجے کا تعلق اٹیک (Attic)سے بہت گہرا تھا اور آئیونی علاقوں اور بیشتر ا یئجین جزیروں (Aegean Islands)میں یہی لہجہ مستعمل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آئیونیوں نے ڈورین قبائل کے بعد اٹیکا اور دوسرے وسطی یونانی علاقوں سے مغربی اناطولیہ کی طرف ہجرت کی۔ اس بات کی تصدیق اس حقیقت سے ہوئی کہ ایتھنیوں کے درمیان پائے جانے والے " چار قبائل" ہی ملیتس(Miletus) اور دیگر آئیونی شہروں کے باشندوں میں دوبارہ ظاہر ہوئے۔ ہومر (Homer)نے آشوری بادشاہ سنہریب(Assyrian King Sennacherib) کے دور یعنی 704 قبل مسیح تا 681 قبل مسیح میں بھی آئیونیوں کی موجودگی کا تذکرہ کیا ہے۔یہ لوگ اپنی دولت و ثروت کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔یونانی تہذیب و تمدن، فلسفے اور دیگر علوم میں ان کا بہت حصہ ہے۔33
ڈورین قبائل(Dorians) قدیم یونانیوں کی تین بنیادی تقسیمات میں سے ایک تھے ۔ ان تقسیمات میں مندرجہ بالا آئیونی قبائل کے ساتھ ساتھ آئیولیئن قبائل(Aeolians) بھی شامل تھے۔ تمام ہیلینک نسب نامے (Pan-Hellenic Genealogy)اپنا نسب ہیلن کے بیٹے ڈورس (Dorus, Son of Hellen) سے ملاتے ہیں۔34 قدیم مصنفین کے مطابق ڈورین قبائل (Dorians)اصل میں وسطی اور شمالی یونان میں رہائش پذیر تھے لیکن بہادری کے عہد (Heroic Age)کے اختتام کی طرف، وہ ہیرکلیڈی قبائل (Heraclidae) کے ساتھ جنوب میں پیلوپونیسی (Peloponnese) کی طرف ہجرت کرگئے تھے۔35
کلاسیکی دور میں یونانی زبان، سرزمین یونان ، ا یجین جزیروں (Aegean Islands)اور یونانی نوآبادیات میں بولی جاتی تھی۔ اگرچہ یونان متعدد خطوں اور ریاستوں میں منقسم تھا تاہم ایک ہی زبان بولی جاتی تھی جو یونانیوں کو وحشیوں سے ممتاز کرتی تھی۔وہ تمام غیر یونانی بولنے والے لوگوں پر"بارباروئی"(Barbaroi) کے لفظ کا اطلاق کرتے تھےجس کا مطلب تھا غیرواضح اور غیر مربوط زبان میں بات کرنے والے لوگ خاص طور پر پانچویں صدی قبل مسیح کے اہلِ فارس یونانی اس وجہ سے یک زبان (Monoglots) تھے ۔ 36
اگرچہ یہاں متعدد بولیاں موجود تھیں اورچاربڑے نسلی گروہ موجود تھےتاہم زبان ایک ہی تھی ۔ قدیم اور جدید یونانی کے مابین کوئی فرق نہیں تھا اور اسی وجہ سے یہ سب سے طویل عرصے تک بولی جانے والی یورپی زبان ہے ۔ یونانی ایک ہندی یوروپی زبان(Indo-European Language) تھی جو اٹلی ، جرمنی ، ہندی، ایرانی اور آرمینیائی زبانوں کے گروہ سے تعلق رکھتی تھی جن کی ابتداء دوسرےہزار سالہ قبلِ مسیح دور(2nd Millennium B.C.) میں ہوئی تھی۔37
یونان کا جغرافیہ اور آب وہوا کی صورتحال کچھ ایسی رہی کہ اس خطے کے لوگ باقی دنیا سے لاتعلق نہیں رہ سکتے تھے۔درآمدات بالخصوص اناج اورغلہ کے لیے ان کا باقی دنیا سے تعلق ایک فطری امرتھابلکہ ان کی اہم ضرورت بھی تھا جس کے لیے یونانیوں نے جہازرانی پرخصوصی توجہ دی اوراس فن میں اچھی خاصی ترقی کی تاکہ درآمدات وبرآمدات کا بہتروسیلہ ہمیشہ ان کے دستِ قدرت میں رہے۔ ان لوگوں نے کئی فنون میں ترقّی تو کی مگر حق اور باطل میں فرق کرنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھنے میں ناکام رہے۔ یونان میں مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ مختلف تہذیبیں وجود میں آئیں جنہوں نے وقتی طور پر خوب مادی ترقی کی تاہم اپنی نا اہلیوں، عیش پرستیوں ، ظلم و ناانصافی ، طبقاتی تقسیم، سرمایہ دارانہ سوچ ، مادہ پرستی ، اوہام پرستی ، غیر عقلی روّیوں، جنس پرستی ، ہوس پرستی جیسے عوامل کی وجہ سے ان کی ترقی قصہ پارینہ بن گئ۔ اب ان کے نشانات کچھ تباہ شدہ بستیوں کےکھنڈرات، کچھ کندہ تحریروں،آثارِقدیمہ کے نمونوں اور تاریخ کی کتب کے صفحات میں ہر آنے والے عہد کے انسان کے لئے واضح اعلان بن کررہ گئےکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حجروشجر، دشت وحیل اور مادی اسباب ووسائل کی ترقی کے لیےہی پیدانہیں فرمایا، مادی ترقی انسانی ضرورت وحاجت کو وقتی طورپر ضرور پورا کرتی ہیں لیکن یہ انسا ن کا مقصد زندگی نہیں ہوسکتااور جوبھی قوم ماضی یاحال میں مقصد زندگی سے غافل ہوگئی، اس کاحشریونانیوں سے مختلف نہیں ہوگا۔