قبل از اسلام کےعربوں کےلیے اہلِ علم جاہلیت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔جاہلیت کی یہ اصطلاح انتہائی جامع اور وسیع ترمفہوم کی حامل ہےکیونکہ جاہلیت اس بات کا نام نہیں ہے کہ کسی مخصوص معاشرے کے لوگ مادی تہذیب و تمدن کے لوازمات یا ترقی کے موجودہ یا سابقہ معیارات سے آگاہ نہ ہوں بلکہ جاہلیت کی اصطلاح سے لی جانے والی اصل مراد انسانوں کا وہ داخلی اضطراب اور نفسیاتی کشمکش ہےجس میں پھنس کر انسان اللہ تعالیٰ کا انکار کر بیٹھے اور اس کی دی ہوئی ہدایت کو قبول کرنے سے انکاری ہوجائے۔اس طرز عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک فرد یا معاشرہ جب جاہلیت کا شکار ہوتا ہے تو وہ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے مقابلے میں، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو اختیار کرلیتا ہے۔ قرآن کریم کی رو سے جہا ں بھی اللہ کے قانون کو پسِ پشت ڈال کر اس کے مقابلے میں کسی بھی دوسرے قانون کے اتباع کی کوشش کی جائے تو انسانوں کی یہ روش جاہلیت پر مبنی ہوا کرتی ہے۔1
اس لفظ كےتمام تر اطلاقات كو سمیٹتے ہوئے صاحب تاج العروس امام راغب اصفہانی كے حوالہ سے بيان كرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقال الراغب: الجهل على ثلاثة أضرب: الأول: هو خلو النفس من العلم، وهذا هو الأصل،….والثاني: اعتقاد الشيء بخلاف ما هو عليه والثالث: فعل الشيء بخلاف ما حقه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحيحا أم فاسدا، كتارك الصلاة عمدا وعلى ذلك قوله تعالى: أتتخذنا هزوا قال أعوذ بالله أن أكون من الجاهلين2 فجعل فعل الهزؤ جهلا.3
امام راغب نےکہا کہ جہل کی تین اقسام ہیں: پہلی،نفس کا علم سے خالی ہونا اور یہی اصلی معنی ہے۔۔۔دوسرا کسی چیز کے بارے میں حقیقت کے برخلاف اعتقادرکھنا اور تیسرا کسی صحیح کیے جانے والےکام کے برخلاف کام سرانجام دینا خواہ صحیح سمجھ کر ہویا غلط جیساکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا اور اسی معنی پر باری تعالیٰ کا یہ فرمان بھی محمول ہے"قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ۭ قَالَ اَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِيْنَ"(وہ بولے: کیا آپ ہماراتمسخر کرتے ہیں؟ موسیٰ () نے فرمایا: اللہ کی پناہ مانگتا ہوں (اس سے) کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔)پس اس قول میں مسخرہ پن کو جہالت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ حقیقت کے برخلاف کسی بھی کام،نظریہ اور اعتقاد کو جہالت سے تعبیر کیاجاتاہے اور بالخصوص اس کے معنی میں اسلام کے مقابلہ میں ایک دوسرا نظام اور ماقبل از اسلام دور بھی شامل ہے ۔قرآن مجید میں بھی اس لفظ کو ان معانی ومفاہیم میں استعمال کیاگیاہے۔
قرآن مجید نے چار مقامات پر اس لفظ کو قبل ازاسلام کےان نظریات واعمال کے لیے استعمال کیا ہے جو بعد میں اسلام کی حقیقی تعلیمات،افکارونظریات اورمزاج کے برخلاف تھیں جیساکہ درج ذیل آیت کریمہ میں مذکورہے:
ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَى طَائِفَةً مِنْكُمْ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ……4
پھر اس نے غم کے بعد تم پر (تسکین کے لئے) غنودگی کی صورت میں امان اتاری جو تم میں سے ایک جماعت پر چھا گئی اور ایک گروہ کو (جو منافقوں کا تھا) صرف اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی وہ اللہ کے ساتھ ناحق گمان کرتے تھے جو (محض) جاہلیت کے گمان تھے۔
اسی طرح ایک اورمقام پر ازواج ِمطہرات رضوان اللہ علیھن سے خطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا33 5
اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا اور پرانی جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا، اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا اور اللہ اور اس کے رسول (محمد ﷺ) کی اطاعت گزاری میں رہنا، بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (ﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔
تیسری آیت کریمہ میں کفار کے حوالہ سے اس لفظ کا استعمال فرمایاگیا جیساکہ ذیلی آیت سے واضح ہوتاہے:
إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا 26 6
جب کافر لوگوں نے اپنے دلوں میں متکبّرانہ ہٹ دھرمی رکھ لی (جو کہ) جاہلیت کی ضِد اور غیرت (تھی) تو اﷲ نے اپنے رسول (ﷺ) اور مومنوں پر اپنی خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں کلمہء تقویٰ پر مستحکم فرما دیا اور وہ اسی کے زیادہ مستحق تھے اور اس کے اہل (بھی) تھے، اور اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
چوتھے مقام پر اس لفظ کے اطلاق سے اس بات کی تائید وتوثیق ہوجاتی ہے کہ ماقبل اسلام کے نظریات وخیالات پر اس لفظ کا اطلاق کیاگیا ہے چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان ذی شان ہے:
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ 50 7
کیا یہ لوگ (زمانۂ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لیے حکم (دینے) میں اﷲ سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔
اس آیت مبارکہ كی تفسیر کرتے ہوئے ابن كثير تحرير كرتےہیں:
ينكر تعالى على من خرج عن حكم الله المحكم المشتمل على كل خير، الناهي عن كل شر وعدل إلى ما سواه من الآراء والأهواء والاصطلاحات التي وضعها الرجال بلا مستند من شريعة الله، كما كان أهل الجاهلية يحكمون به من الضلالات والجهالات مما يضعونها بآرائهم وأهوائهم….قال تعالى: أفحكم الجاهلية يبغون أي يبتغون ويريدون، وعن حكم الله يعدلون.8
اللہ تعالیٰ ہر اس شخص پر زجر وتوبیخ فرماتاہے جو ہرخیر پر مشتمل اور ہر شر سے دور حکمِ الہٰی کو چھوڑ کر اس کے ماسوا آراءوخیالات اور ان اصطلاحات کی طرف جھکتاہے جنہیں بندوں نے اللہ کی شریعت سے استناد کیے بغیر وضع کیاہے جیساکہ اہل جاہلیت تھے کہ وہ ان گمراہیوں اور جاہلیتوں کےاعتبار سے فیصلے کرتے تھے جنہیں خود انہوں نے اپنی سوچوں اور خواہشوں سے گھڑا تھا۔۔۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نےارشادفرمایا کہ اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ یعنی کیا یہ لوگ (زمانۂ) جاہلیت کا قانون چاہتے اوراس کو حاکم بنانے کاارادہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم (اسلام)سے اعراض کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ جہالت کو اگر ایک مفہوم میں بیا ن کیاجائے تو وہ حکم ِالہٰی کی عدولی ہے یعنی حکمِ الہٰی کو چھوڑکر اس کے برخلاف کام ،خیال،خواہش،نظام،قانون الغرض کچھ بھی ہو تو وہ جہالت ہے اور قرآن کریم میں اسے اسی مفہوم میں بیان کیاگیاہے جس میں قبل از اسلام عرب مبتلا ء تھے۔
جاہلیت علوم و فنون اور مادی و معاشی ترقی میں پیچھے رہ جانے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی موجودگی کے باوجود اُس سے صرف نظرکرنا یااعلانیہ طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حکم عدولی کرنا اور رب تعالیٰ کی عطاکردہ ہدایت کے مقابلے میں انسانی قوانین ،اصول وضوابط اورتجاویز کو اختیار کرنا ہے۔قرآن و حدیث کا مطالعہ ہمیں قطعاً یہ نہیں بتاتاکہ عربوں کی جاہلیت اُن کی متداولہ علوم و فنون سے عدم آگاہی یا پھر عالمی تجارت و اقتصادیات میں اُن کے بھر پور شرکت کے نہ ہونے کے سبب تھی۔اسی طرح عرب شہروں کی خستہ حالی، شہری منصوبہ بندی کی کمی،غربت و افلاس کی کثرت، فلاحی و رفاعی اداروں کی عدم موجودگی اور سماجی کاموں سے قبائلی سرداروں کی غفلت یاپھر لوگوں کے فلاح و بہبود سے اجتماعی لاپروائی یا عرب معاشرے میں مہذب طور طریقوں سے لاعلمی کو بھی جاہلیت قرار نہیں دیا گیا۔اگر ایسا ہوتاتو نبی کریم ﷺکو اعلان نبوت کے بعد فوری طور پر سب سے پہلے عرب معاشرے کی مادی تعمیرو ترقی اور سماجی فلاح و بہبود کے کاموں کا حکم دیاجاتا۔اسی طرح اگر جہالت سے مراد عربوں کا مقامی و عالمی سیاسی معاملات سے لاعلم ہونا ہوتاتو انہیں نئے سیاسی افکارو نظریات عطاکردیے جاتے۔اگر جہالت سے مراد تجارت کے معاملات سے لاعلمی ہوتی تو انہیں تجارت کے وہ گُر سکھا دیے جاتے جن سے وہ اپنی تجارت کو عالم گیر سطح پر فروغ دے کر بھاری بھرکم منافع کماتے ۔اگرعرب جاہلیت سے مرادعربوں کی صرف بری عادتیں ہی ہوتیں تو اسلام انہیں ان عادات ِ قبیحہ کے مقابلےمیں اچھی عادات کا مجموعہ عطا کردیتا۔9اسی طرح محض اخلاق و کردار کے معاملے میں ہی عرب جاہلیت کو مطعون کرناہوتاتو انہیں عمدہ اخلاق و کردار کا ایک تحریری ضابطہ و دستور دےدیا جاتا تاہم اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں پایا جانے والا تصورِ جاہلیت صرف مذکورہ بالا معاملات تک محدود نہیں ہے۔
قرآن کریم کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کلام ِ الہٰی میں صرف مذکورہ معاملات ہی کو جاہلیت قرار دینے کی طرف اشارہ نہیں ملتا بلکہ قرآن جس چیز کو جاہلیت قرار دیتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو معبود بناکر اُس کا یوں بندہ بن جائے کے وہ اپنے نفس کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنا ہی اپنا شعار اورمقصد حیات بنالے۔اس کے نتیجے میں انسان نفس کی چاہت پرہر دوسری چاہت کو قربان کرنے کےلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اوراس کےلئے دیگر تمام چاہتوں کو اپنے نفس کی چاہت پر قربان کرنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے تاہم یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ نفسانی خواہشات کی اتباع کا نتیجہ ہمیشہ حقیقی مقصدِ حیات سے غفلت کی صورت میں ہی برآمد ہوتا ہے۔ نفس کی سفلی خواہشات کی اتباع میں انسان عبدیت کے اعلیٰ مقام سے گر کر محض زر، زن اورزمین کابندہ بن کر رہ جاتا ہے اور یوں اس کی زندگی الہامی ہدایت سے دور ہو کر نفسانی چاہتوں کے زیر اثر آجاتی ہے۔10اگر خطہ ِعرب میں پائی جانے والی جاہلیت پر گہری نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ عرب جاہلیت سے مراد زماں و مکاں کی قیود میں جکڑی ہوئی عرب جاہلیت نہیں تھی بلکہ اس جاہلیت سے مراد ہدایت کے مقابلے میں پائی جانے والی ہروہ گمراہی تھی جو مختلف ناموں اور شکلوں میں نزول آدم سے لے کر عرب قبل ازاسلام تک کی جاہلانہ روش،جاہلیت پر مبنی عقائد و نظریات اور جاہلانہ مظاہرِ حیات کی عظمت پر یقین کی صورت میں جاری رہی تھی اور یہی وہ جہالت تھی جس کا آج کے دور میں دوبارہ جدید مغربی تہذیب کی صورت میں احیاء ہو گیا ہے ۔ اس جہالت زدہ تہذیب کو مقدس و محترم جان کر ، اس کی خودساختہ عظمت پر ایمان لاکر اس کی تقدیس کو قبول کرنا بھی سراسر جہالت ہی ہے۔
انسانِ اوّل حضرت آدم ، اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر، کل انسانیت کے ابوالآباء اور ہدایتِ الہٰی کے نور سے منور، اوّلین انسانی شخصیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کےلئے اپنا سب سے پہلاپیغمبر چنا اور آپ کو الہامی ہدایت کی روشنی عطا فرمائی ۔11یہی وہ چراغ ِ ہدایت ہے جس سے آپ کے بعد مبعوث ہونے والے تمام انبیاء و رُسُلاپنی اپنی اُمتوں کو متعارف کراتے رہے۔ اس ہدایت کے مقابلہ میں ہر طرح کی سوچ و فکر اور وہ تمام خود ساختہ نظریات و خواہشات جو انسان کی عقل ِناقص نے زندگی گزارنے کےلئے بطور ِ ہدایت و رہنمائی وضع کیے ہیں اُنہیں جاہلیتِ خالصہ ہی کہا جائے گا کیونکہ سونے(Gold)کے مقابلے میں کسی اور دھات کو سونے(Gold)کے طور پر پیش کیاجائےیا ہیرے کے مقابلے میں تراشیدہ قیمتی پتھر،شیشہ،پلاسٹک یا کوئی اور چیز پیش کی جائے اور بظاہرخواہ وہ کتنی ہی خوبصورت اور حسین وجمیل کیوں نہ ہو، درحقیقیت وہ جعلی اور نقلی ہی قرار پائے گی لہٰذا ہر وہ فکر و فلسفہ جو اللہ کے بندوں کے لئے اللہ کی عطا کردہ ہدایت کے مقابلے میں پیش یا قبول کیا جائے وہ بنیادی طور پر ابلیسی فکراور شیطانی فلسفہ ہی قرار دیا جائے گا ۔یہی وجہ ہے کہ تمام ادیان و مذاہبِ عالم میں متفقہ طور پرشیطان و ابلیس کو اللہ تعالیٰ کے نافرمان و سرکش اور انسانیت کے کھلےدشمن کے طور پر پیش کیا گیا ہے لہٰذا وہ تمام علمی و فکری نتائج جن کےپیچھے عقلی کاوش اور فکری و نظریاتی کوشش نظرآتی ہو لیکن اُس کی پشت پر ہدایتِ الہٰی کی قصداً یا غیر ارادی مخالفت پائی جاتی ہو وہ شیطانی و ابلیسی فکر کا ہی نتیجہ ہواکرتا ہے جو انسان کے دل و دماغ میں ابلیس اور اس کے چیلوں کی طرف سے بطور وسوسہ القا ء کیا جاتاہے لہٰذا شیطانی طرزِ زندگی کے لیے سب سے کم تر درجہ میں "جاہلیت" ہی کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے جس سےہدایت کو پس پشت ڈال کر انسان کےنفس اور خواہشات کا غلام بننے کے تصور کی وضاحت ہوتی ہے اور یہ کیفیت قبل از اسلام کے اہل عرب میں موجود تھی۔
عرب کی جا ہلیت کا اگر عہدِ قدیم کی یونانی اور رومی جہالت سے مقابلہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عرب جاہلیت،روم ویونان کی جاہلیت کے بر عکس اپنی فطرت اور مزاج کے لحاظ سے نہایت سادہ اور تکلفات سے عاری جاہلیت تھی جس کی کوئی سنجیدہ علمی(Scholarly) و علمیاتی(Epistemological) بنیادیں ہر گز نہیں تھیں کیونکہ روم اور یونان کی جاہلیت انسان کی خودوضع کردہ افکار و نظریات، علوم و فنون ، فکر و دانش اور گمراہ فلسفیوں کی فلسفیانہ موشگافیوں کا نتیجہ تھی جنہوں نے نام نہاد عقل و خرد کی بنیاد پر اپنے وقت کی جاہلیتوں کو نہ صرف وضع کیا بلکہ ان کےلئے علمی و فلسفیانہ دلائل فراہم کرنے کی بھی کوشش کی تھی ۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ روم و یونان کے فلسفیانہ افکار اورعلمی نظریات کو جاہلیت سے اس لیے تعبیر کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں کسی معلّمِ حقیقی یا نبیِ مرسل کی تعلیمات اور ان کی قبولیت کا کوئی پتا نہیں چلتا لہٰذا جو کچھ ان دونوں تہذیبوں بالخصوص اور دنیا کی دوسری تہذیبوں مثلاً چینی، ہندوستانی، ایرانی، مصری، افریقی اور دیگر قدیم تہذیبوں نے انسانی علوم و فنون اور فکر و دانش کے میدان میں انسانیت کو عطا کیا ہے وہ ہدایت ِ ربانی یا صراط مستقیم اور راہ حق کا متبادل ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ ان تہذیبوں کی مادی کاوشوں کا انکار کسی بھی صورت روا نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان تمام تہذیبوں کا سارا زور ظاہر پرستی اور مادیت پرستی پر ہی رہا ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ یہی نکلا کہ انسانوں کے لیے مقصدِ حیات صرف حیاتِ ظاہری کاسدھاراوراس کے اسباب و سامان ِ زندگی کی ترقی وبڑھوتری بن کر رہ گیا۔ اسی تناظر میں علوم و فنون یا آج کی اصطلاح میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جو بھی کوششیں اور محنتیں کی گئیں ان کا نتیجہ انسان کے لیے مادی اسباب ِ راحت اور سامانِ عیش و عشرت کی فراوانی کی صورت میں تو ضرورنکلا ہےلیکن اس ترقی نے انسانوں کی مشکلات کو کم کرنےکے بجائے مسائل و تکالیف کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام ایجادات اور نت نئی اشیاء کے ظہور کے پسِ پشت کبھی یہ مقصد نہیں رہا ہے کہ ان اشیاءو ایجادات کے ذریعے انسان کو اس کے حقیقی مقصدِ زندگی سے آگاہ یا پھر عبودیت اور بندگی رب پر آمادہ کیا جائے بلکہ ان کا اصل مقصود یہی رہا ہے کہ یہ نت نئی ایجادات اورسائنسی ترقیاں انسان کی جسمانی راحت اور ذہنی عیاشیوں میں مزید اضافہ کا باعث بنیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان حقیقی تصورِ بندگی اور انبیاء و رسل کی لائی ہوئی ہدایتِ ربانی سے غافل یا بے بہرہ ہو جاتے ہیں۔ بنی نوع انسان کامعاشرتی،سماجی اور تہذیبی مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں مادیت کا غلبہ ہوتا چلا جاتا ہے وہاں وہاں مذہب اور روحانیت کے ساتھ لوگوں کا رشتہ کمزور ہوتاچلاجاتا ہے اور اگر مادی فکر انسانوں کی سوچ وفکر دل و دماغ پر مسلط ہوجائے تو پھر روحانیت اور مذہب یعنی مذہبی معاملات و عبادات، مادیت زدہ انسانوں کو اجنبی چیز لگنے لگتی ہیں۔ اسی لئے ہدایت ربانی سے غفلت یا اس کو جان بوجھ کر ٹھکرا دینے کا عمل ، انسانی زندگی کی ایک ایسی تعبیر فراہم کرتا ہے جس کے نتائج خدا بیزاری ، مذہب بیزاری، روحانیت سے انحراف اور آخرت سے غفلت کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔اس طرح کے معاشروں میں انسانوں کے مابین پائے جانے والے انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، اخلاقی اور جنسی تعلقات بھی تباہی اور بربادی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ انسان حق کا علمبردار بننے کے بجائے باطل کا پیرو کار بن جاتا ہے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر حق سے بر سر پیکار ہو جاتا ہے حالانکہ وہ اپنی اصل فطرت کے اعتبار سے اس بات کا مکلّف ہے کہ وہ ہدایت اور راہِ حق سے سرکشی اختیار نہ کرے لیکن راہ ِ حق سے دوری کا شکا ر یہ انسان مفاد پرستی ، دنیا پرستی اور زر پرستی کی طلب میں راہ حق کی اہمیت پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ اگر بنظرِ عمیق دیکھا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ جاہلیتِ قدیمہ سے لے کر جاہلیتِ جدیدہ تک فساد کی اصل جڑ انسانوں کا اللہ سے دور ہو جانا ہے کیونکہ جس چیز کو ہم مذہب کہتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان تعلق کا ہی نام ہے لیکن انسانی تاریخ کی یہ ستم ظریفی رہی ہے کہ جاہلیت کےشکار معاشرے اپنےپیدائشی اور اصلی عقیدے یعنی عقیدہِ توحید سے یا تو خود دور ہوگئے یا اس دور کے جاہلی حالات، واقعات اور معاملات نے انہیں عقیدہ توحید سے دور کر کے ان کا اپنے رب سے تعلق کمزور کردیا۔
عرب جاہلیت کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں بھی ایک اللہ کی عبادت سے انحراف پایا جاتاتھا جس نے ان کے عقیدہ اور طرزِ زندگی میں شدید قسم کا بگاڑ پیدا کردیا تھا۔ اس انحراف کی صورت یہ تھی کہ بظاہر وہ ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بتوں کی بھی پوجا کرتے تھے تاہم عملی زندگی میں ان کا ہدایت ِربانی اور قانونِ الہٰی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا بلکہ ان کے یہاں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی بھرپور اتباع اور پیروی کی جاتی جن کی شکل و صورت شخصی، معاشرتی، قبائلی یا کسی بڑے سردار کے وضع کردہ قوانین کی سی تھی۔اس جاہلیت زدہ معاشرے میں جو بھی قانون عملی زندگی میں برتا جاتا تھا اس کی اساس اور بنیاد ذاتی، خاندانی ، قبائلی اور نسلی عصبیت ہوا کرتی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھاکہ کمزور مظلوم ہوکر بھی کمزور رہتا اور طاقتور ظالم ہوکر بھی طاقتور ہی رہتا۔ ان کے یہاں فیصلوں کی بنیاد حق اور باطل نہیں تھی بلکہ جائز و ناجائز، صحیح و غلط اور حلّت و حرمت کے فیصلےذاتی چاہتوں اور مصلحتوں کو سامنے رکھ کرکئے جاتے تھے۔ ان کے اس خود ساختہ قانون کے تحت انصاف، مساوات، عدل اور خود قانون وہی ہوا کرتاتھا جو کسی انسان یا انسانی گروہ کی چاہت ہوا کرتی تھی اور صاف ظاہر ہے کہ یہ چاہت اللہ تعالیٰ کی چاہت کے مقابلہ میں نافذ کی جاتی تھی جس کی وجہ سے اس معاشرے میں عدل و انصاف اور انسانی فلاح کے نام پر ہر طرح کی ناانصافی اور ظلم و ستم روا رکھے گئے تھے۔ انبیائے کرام کی لائی ہوئی ہدایت اور پیش کردہ الہامی تعلیمات سے روگردانی کے نتیجہ میں پورا معاشرہ بدترین فساد کا شکار ہوگیا تھا ؛ شراب و شباب ، شہوات و لذات، قتل و غارت گری، لوٹ مار اور خونریزی، انتقام در انتقام، زندہ بچیوں کا درگور کرنا ، عبادت کے نام پر قبیح رسومات کی ادائیگی، بیت اللہ شریف کا برہنہ طواف، دوسروں کی کھیتیوں اور باغات کو ناحق تباہ کرنا ، زندہ جانوروں کا گوشت کاٹ کر استعمال کرلینا ، سود خوری، زنا اور نکاح ِ محرمات جیسی تمام مذموم اور رذیل حرکات کا ارتکاب ان کا روز مرّہ کا معمول بن چکا تھا۔
یہاں یہ با ت بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئے کہ دنیا کی تمام جاہلیتیں جنہیں مؤرخین تہذیب کا نام دیتے ہیں اپنی جاہلیت میں یکساں اوصاف کی حامل رہی ہیں۔ خواہ وہ جاہلیت ِ عربیہ ہو یا ایرانی ، ہندوستانی جاہلیت ہو یا مصری ، یونانی جاہلیت ہو یا رومی، چینی جاہلیت ہو یا افریقی یا پھردور جدید کی جاہلیت ِ جدیدہ ہو۔ان تمام جاہلیتوں میں پائی جانے والی قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ تمام جاہلیتیں اللہ تعالیٰ کی توحیدِ خالص اور اس کی طرف سےنازل کردہ الہامی ہدایت کی منکر رہی ہیں ا ور ان کا پورا نظامِ زندگی اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت سے انحراف اور سرکشی کے اصول پرہی قائم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہرایک جاہلیت نے اپنے اپنے عہد میں اپنے لیےاس طرح کے امتیازات کا انتخاب کیا جو ان کی روحانی ترقی کے بجائے مادی ترقی بلکہ مادیت پرستی کے فروغ میں معاون ثابت ہوئے ،مثلاًمصری جاہلیت فراعنہ کی عبادت اور مصری قوم کی دیگر اقوام پر برتری اور خود پرستی کے اصولوں پر قائم تھی۔ ہندوستانی جاہلیت نسلی و طبقاتی امتیازکے اصول پر ترقی کی خواہاں تھی۔یونانی جاہلیت کا امتیاز عقل و جسم کی پرستش تھا جبکہ رومی جاہلیت وحشت اور بربریت پر مبنی لہو و لعب کے اصولوں کو اپنا شعار بنائے ہوئے تھے۔ اسی طرح آج کی جدید جاہلیت بھی ترقی کے مزعومہ اصول پر قائم ہے ۔ واضح رہے کہ جن جاہلیتوں کا ہم نے ذکر کیا ہے ان تمام جاہلیتوں میں پایا جانےوالا مشترکہ امتیازی وصف یہ تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے ہاتھوں سے جھوٹے خدا تراشے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حسب ِ ضرورت ان خداؤں کی تعداد میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ خارج میں پائے جانے والے ان باطل خداؤں کی اندھی تقلید اور پرستش نے جب ان نفس پرست انسانوں میں دین ِ حق سےبیزاری پیدا کرنا شروع کی تو انہوں نے خود اپنے تن اور من کو مختلف اصطلاحات اور شکلوں میں خدا یا اس کا نمائندہ بنانا شروع کردیا۔ جاہلیت میں یہ ترقی بیسوی صدی میں اس وقت بامِ عروج پر پہنچ گئی جب انسان نے خود اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کرڈالا کہ وہ قائم بالذّات ہستی ہے جسے کسی خالق یا رب نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود ایک فطری سببِ تخلیق کے ذریعے پیدا ہوا ہے لہٰذا جو ذات خود اپنے آپ کو پیدا کرسکتی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ وہ خود اپنے لئے نظامِ ہدایت کو اس طور پر مرتب کرے جو اس کی انفرادی، اجتماعی ، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی زندگی کی صورت گری کسی خارجی سانچہ میں ڈھالنے کے بجائے خود اپنے وضع کردہ سانچہ کے مطابق کر سکے ۔ بالفاظ دیگر انسان کی سب سے بڑی صفتِ بندگی جو اسے اللہ کی ہدایت کو ماننے اور انبیائے کرام کی اطاعت کرنے پر آمادہ کرتی ہے، اس کا انکار کرکے انسان اپنے خود مختار ہونے کا اقرار اس طور پر کرے کہ ہر انسان ایک ہی کلمہ پڑھنے والا بن جائے اور وہ کلمہ ہو لا الہ الّا الانسان جس کا مطلب یہ ہے کہ اس پوری کائنات میں اپنی عظمت و رفعت اور خالقیت و معبودیت کے لحاظ سے اگر کوئی ذا ت واجب التعظیم ہے تو وہ اللہ عزوجل کی ذات ِ پاک نہیں بلکہ انسان کی اپنی ذات ہے کیونکہ جدید مغربی فلسفہ اور سائنس نے انسان کی حیثیت کو اس کی صفتِ ایجاد کی وجہ سے موجد بمعنی "الخالق" کے تسلیم کرلیا ہے اور جو خود خالق ہو اسے دوسرے کسی خالق کو ماننے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ جدید مغربی فکر سے متاثرہ انسان کی نادانی یہ ہےکہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھا ہے کہ اس نے کائنات اور فطرت سے چیزوں کو اخذ کرکے اشیاء کی صناعت کی ہے بذات خود اس نے کسی چیز کو تخلیق(Create) یا پیدانہیں کیا ہے اس لئے وہ اشیاء کا موجد تو کہلا سکتا ہے مگر( عدم سے وجود عطا کرنے والا خالق )یا صانعِ حقیقی کسی صور ت میں بھی نہیں کہلا سکتا۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ آج اگر زمین سے دھاتوں کا نکلنا بند ہوجائے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بطور ِ نعمت عطا کی ہیں، تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے سارے دعوےدھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور وہ جلد ہی دوبارہ حجری دور(Stone Age) کے دروازے پر دستک دے رہا ہو گا۔ اسی طرح انسان کی ہمہ وقت بدلتی ہوئی حالتیں جو کمزوری، بے بسی، ناکامی، ضعیفی، بڑھاپے، بیماریوں، وباؤں، آفتوں، مصیبتوں اور بھوک و پیاس و تھکاوٹ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں اسے ہر لمحہ یاد دہانی کرواتی ہیں کہ انسان بہت کمزور اور کسی بالادست قائم بالذات مطلق ہستی (Absolute Being) کا محتاج ہے جس کی مدد و معاونت کے بغیر اس کے لئے زندہ رہنا اور اس کرّہ ِ ارض پر زندگی گزارنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا روزمرّہ کا مشاہدہ ہے کہ کتنے ہی محنت کرنے والے ہیں لیکن ان کی محنتیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔اسی طرح کتنے ہی بنانے والے ہیں جن کا بنانا بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے۔ نہ ہونے والا کام ہوجاتا ہے اور ہونے والا کام ہوکر نہیں دیتا۔مریض شفایاب ہوجاتا ہے اور صحتمند موت سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پرسکون وادیاں اچانک فسادکا شکار ہوجاتی ہیں اور فساد زدہ علاقے سکون کے گہواروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کے ہاں جاہل پیدا ہوجاتے ہیں اور جاہلوں کے ہاں نابغہ روزگار ہستیاں جنم لیتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی انسان کتنا احمق ہے کہ فطری اشیاء ، عناصر اور مرکبات سے گنتی کی چند محدود چیزیں بنانے کے بعد خود کو خالق و صانع کہلوانا پسند کرتا ہے اور اپنے حق میں دلائل کے انبار لگا ڈالتا ہے مگرانتہائی شاندار اور بے عیب طریقےسے منظم اورناقابل یقین وسعت کی حامل اس کائنات کے خالق کے وجود کا انکار کرنے کے لئے عجیب و غریب باتیں اورعذرو بہانے تراشتاہے۔بہت ہی عجیب ہے یہ انسان جو لکڑی کے تیار شدہ ٹکڑوں سے کسی مخصوص شکل کے فرنیچر کے بنانے میں بھی کسی کاریگری کا محتاج ہے لیکن اتنی بڑی اور نہایت منظم کائنات اور اس کائنات کی سب سےشاہکار تخلیق انسان کا مشاہدہ کرکے بھی اِس کے بغیر کسی خالق کے خود بخود پیدا ہونے کا خیال حضرت ِ انسان کے ذہن میں جگہ بنا لیتا ہے اور وہ اس پر دلائل گھڑنے کی سعی شروع کردیتا ہے۔ یوں وہ شرف ِ انسانیت کے اعلیٰ مرتبے سے خود کو قعرِ مَذلَّت کی پستیوں میں گرا دیتا ہے حالانکہ رب تعالیٰ نے قرآن حکیم میں انسان کو زمین پر خلیفہ 12اور احسن ِتقویم قرار دیا ہے۔13
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالقوۃ زمین پرخلیفہ بنا یا ہے جبکہ بالفعل اسے آزادی و اختیار عطا فرمایا ہے ۔ اس خلافت کا تقاضا یہ تھا کہ انسان دوسرے اوصاف کے ساتھ ساتھ صفت ِ خالقیت اور صناعیت کا بھی پرتو ہو اور اس کے اظہار کےذریعے اپنی زندگی گزارنے، ضروریات پوری کرنے اور راحت کا سامان تخلیق کرنے کا عمل بجالاسکے۔اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس صفت کی بنیاد پر انسان کواپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا لیکن بجائے شکر گزاری کے انسان نے صرف کفران ِ نعمت پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ خالقِ دوجہاں کی ذات کا ہی انکار کر ڈالا اور خود اپنے آپ کو مقام ِ ربوبیت اور معبودیت پرفائز کرنے کی کوشش شروع کردی ۔
تاریخ کا سب سے بڑا سچ اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس کا ئنات کا ایک خالق و مالک ہے جس کی عبادت ہر مخلوق پر لازم ہے جبکہ تاریخ و کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق و مالک اور معبودِ حقیقی نہیں ہے۔ کتنی حیران کن بات ہے جسے ہر شخص بآسانی سمجھ اور قبول کرسکتا ہے کہ بے جان اشیاء اپنی منزل کی طرف خود بخود گامزن نہیں ہوسکتیں جب تک انہیں صاحبِ علم و حکمت ہستی صحیح راستے پر گامزن نہ کردے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ تیر اپنے نشانے کی طرف خود بخود نہیں جاتا بلکہ کوئی نہ کوئی تیر انداز ہی اُسے اُس کے نشانے کی طرف پھینکتا ہے ۔اسی بات کو ذہن میں رکھ کر ہم نہایت یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کائنات میں ایک نہایت ہی علیم و حکیم ہستی ہے جس نے تمام اشیاء کی منزل کا تعین کرکے انہیں اس منزل کی جانب رواں دواں رکھا ہوا ہے اور اسی ہستی کو اہل ِ ایمان" اللہ "کہہ کر پکار تے ہیں۔ اس کے باوجود آج اگر کوئی شخص " اللہ "کے بارے میں کسی مغالطے یا مخمصے کا شکار ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ انسان خود ہی اپنا خالق، مالک اور مختارِ کُل ہے تو اس کا یہ طرزِ عمل سوائے خود فریبی کے کچھ نہیں ہے کیونکہ عرب جاہلیت کم از کم درجے میں اللہ کے وجود کی قائل تھی اور وہ اللہ کو پہچانتے اور مانتے بھی تھے اور بالواسطہ اس کی عبادت بھی بجا لاتے تھے جس طرح قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ25 14
اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا۔ تو وہ ضرور کہہ دیں گے کہ اﷲ نے، آپ فرما دیجئے: تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ87 15
اور اگر آپ اِن سے دریافت فرمائیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے: اللہ نے، پھر وہ کہاں بھٹکتے پھرتے ہیں۔
ان آیات کا مصداق یہ حقیقت ہے کہ عرب جاہلیت رب تعالیٰ کی پہچان سے بالکل قاصر نہ تھی بلکہ ان کا یہ پختہ ایمان تھا کہ وہ ہی تمام اشیاء کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی اس کائنات کا سچا اور حقیقی مالک و بادشاہ ہے لیکن دوسری طرف ان کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ وہ اللہ کو ویسے نہیں پہچانتے تھے جس طرح اس کو پہچانے جانے کا حق ہے۔اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے جملہ معاملاتِ زندگی میں حاکم بنانے پر بھی تیار نہ تھے بلکہ وہ اللہ کو بتوں کے وسیلے سے مانتے اور جانتے تھے اور عملی زندگی میں اپنا خود ساختہ نظام نافذ رکھنا چاہتے تھے یعنی ان میں اعتقادی خرابی تو تھی ہی لیکن اس اعتقادی خرابی کے نتیجہ میں وہ عملی طور پر رب تعالیٰ کی ہدایت اور وحیِ الہٰی کی رہنمائی سے دور ہوگئے تھے ورنہ ان کے یہاں باقاعدہ علم و دانش اور فکر و فلسفہ کی بنیاد پر توحید ِ باری تعالیٰ اور اس کی عبودیت کا انکار نہیں پایا جاتا تھا بلکہ رواجی عقیدہِ شرک نے ان کے تصورِ توحید کو اس طور پر گدلا دیا تھا کہ ان کی عملی زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے احکامات سے دور ہو گئی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمانِ خالص کا مطلب اور تقاضا ہی یہ ہے کہ زندگی کے ہر معاملہ میں اسی کو خالق و مالک مانا جائے اور اسی کی بندگی اور ہدایت کی غیر مشروط اتباع کی جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عقیدہ ءِ توحید اور شریعت ایک ہی منبع سے پھوٹنے والے دو سوتے ہیں یا ایک ہی بیج سے نکلی دو شاخیں ہیں جو کسی نہ کسی مقام پر لازماً آپس میں ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور اسی کو ہم اللہ عزوجل کی ذات و صفات پر ایمان اور اسلام کے مطابق زندگی گزارنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے کے بارے یہ جاننے کےلئے کہ آیا یہ معاشرہ الہامی ہدایات پر کارفرما ہے یا پھر ایک جاہلیت زدہ معاشرہ بن چکا ہے، اُس معاشرے میں پائے جانے والےچند امور کو سامنے رکھ کر اس معاشرے کی جانچ پرکھ کرنا انتہائی ضروری ہوتاہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ اگرکسی معاشرہ میں ایمان باللہ مضبوط نہ ہو یا اس معاشرہ کی عملی زندگی کا اسلام، الہامی ہدایات یعنی وحیِ الہٰی سے کوئی عملی واسطہ نہ ہو تو یقیناً وہ معاشرہ ایک جاہلیت زدہ معاشرہ کہلائے گا۔یوں یہ بات کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے کہ ہر وہ معاشرہ جو ایمان باللہ کی نعمت سےمحروم ہو اور الہامی تعلیمات کو نظر انداز کر دے تو وہ لازمی طور پر چند مخصوص افراد یا چند مراعات یافتہ گروہوں کی خواہشات کا مرکز بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ وہ لوگ جو اپنا مفاد اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ وابستہ نہیں کرسکتے ان کے پاس اپنے مفاد کو شیطان اور نفسانی خواہشات کے ساتھ وابستہ کرنے کے ماسواہ کوئی دوسرا رستہ نہیں رہتا لہٰذا نفس پرستی اور شیطانی خواہشات کی جانب میلان جیسے عوامل معاشروں سے توحید ِ باری تعالیٰ پر ایمان اور احکامِ الہٰی کی عظمت و اہمیت کو ختم کردیا کرتے ہیں۔ان دیمک زدہ معاشروں میں افرادِ معاشرہ ، قانون کے نام پر چند عام انسانوں کے محدود عقل وخرد سے حاصل ہونے والےتجربات و مشاہدات اور نفسانی خواہشات کی اتباع کی صورت میں سامنے آنے والے فیصلوں اور ان کے نظائر کو قانون کا نام دے کر اس کی اتباع پر بڑے خلوص کے ساتھ عمل پیرا ہوجاتے ہیں جو یقینا ان کی دنیاوی زندگی کی چاہتوں اور لذتوں میں وقتی اور عارضی اضافہ کا سبب تو ہوسکتا ہے لیکن اپنے حقیقی نتائج کے اعتبار سے اس کا نتیجہ معاشرتی فساد، سماجی انتشار، قومی اور نسلی عصبیتوں اور زر، زن اور زمین کے لئے نہ ختم ہونے والی دوڑ، نفرت انگیز مسابقت اور ہم جہت معاشرتی فساد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
دوسرا اصول جس کو سامنے رکھ کر کسی بھی معاشرہ کے جاہلیت زدہ ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ طاغوت کی اطاعت ہے ۔اس سے مراد معاشرے کے وہ افراد ہیں جن کے ہاتھ میں قوت و اختیار ہو اور وہ انسانوں کو اللہ کی بندگی اور اطاعت سے حکماً یا جبراً روکیں اور براہ راست یا بالواسطہ اپنی اور اپنے جیسے چند انسانوں کی بندگی کا حکم دیں ۔سادہ الفاظ میں ہم انہیں معبودانِ باطل بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ انسانی معاشرے کو گمراہی کی ایسی راہ پر گامزن کردیتے ہیں جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیائے کرام کے طریقوں سے انحراف کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔سرمایہ دارانہ، اشتراکی، اشتمالی،کمیونسٹ، جرنیلی، جمہوری اور انسانوں کے بنائے ہوئے وہ تمام معاشرے جہاں انسانوں کو خدا کی بندگی کے بجائے انسانوں کی بندگی اور اطاعت کا بالجبر حکم دیا جاتا ہے، سب کا تعلق اسی زمرہ سے ہے۔
جاہلی معاشرہ کو سمجھنے کا تیسرا معیار انسانوں کی اکثریت کا شہوات اور نفسانی خواہشات کی رو میں بہہ جانا ہے۔ اس اصول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جہاں جہاں جاہلیت پائی جائیگی وہاںوہاں اس کے ساتھ حرص اور ہوس کی صورت میں شہوتوں کا سیلاب لازماً اُمنڈ آئے گا۔ انسانی تاریخ کی وہ ساری تہذیبیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے انکار کے اصولوں پر قائم تھیں وہ تمام کی تمام خواہ رومی و یونانی معاشرےہوں یا ہندوستانی و مصری یا پھر ایرانی اور چینی تہذیبیں ہوں وہ سب کی سب اس بگاڑ کا شکار رہی ہیں۔ اس بگاڑ کی وجہ یہ رہی ہے کہ انسانوں نے حلال و حرام ، جائز و ناجائز اور صحیح و غلط کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے احکامات سے اخذ کرنے کی بجائے خود اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی جس کا انجام لذت پسندی ، عیش پرستی اور شہوتوں کے فروغ کی صورت میں رونما ہوا۔ وہ معاشرے جہاں مقدسات کا مذاق اڑایا جائے، وحیِ الہٰی کا انکا ر کردیا جائے، انبیاء و رسل کی عظمت کو نہ مانا جائے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے معبود حقیقی ہونے کی حیثیت کو جھٹلادیا جائے ان کے پاس زندگی میں اطمینان و سکون کے حصول کے لئے خود اپنے نفس کی پوجا اور لذتوں کے حصول کے ماسوا کچھ زادِ حیات باقی نہیں بچتا۔ 16
جاہلی معاشروں میں پائی جانے والی چوتھی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ الہامی ہدایت کے مقابلے میں عقل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور الہامی ہدایت کو خالقِ کائنات کی طرف سے عطا کردہ ہدایت و رہنمائی کے طور پرقبول ہی نہیں کرتے بلکہ ایسے معاشروں میں عقلِ انسانی کو اتنا اونچا مقام دے دیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے وہ وحیِ الہٰی اور ہدایتِ ربانی کا تنقیدی جائزہ لینا اہلِ عقل و دانش اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اسی لئے وہ جب چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ ، انبیائے کرام ، وحیِ خدا وندی، مذہب اور جملہ ایمانیات پر تنقید وتنقیص کرنا اور ان کا مذاق اڑاناضروری سمجھتے ہیں۔ عقل کی برتری کا نظریہ اس تصور سے برآمد ہوتا ہے کہ ان کے یہاں عقل جملہ ایجادات کا وسیلہ اور ذریعہ ہے لہٰذا انسان یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جس طرح ہم ہزاروں ایجادات کرکے اپنی زندگی کو پرسکون اور اپنی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں ویسے ہی عقل کی بنیاد پر ہم اپنے لئے نظام ِ ہدایت اور بہتر طرز زندگی بھی تخلیق کرسکتے ہیں حالانکہ پوری انسانی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ عقل کے ذریعہ مصنوعات ،اسباب ِ زندگی اور سامانِ راحت کی تخلیق اس لئے ممکن ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ محدود سی عقل دی ہی اس لئے ہے کہ وہ لامحدود کائنات کے اندر چھوٹی سی دنیا میں انتہائی مختصر زندگی گزارنے والے انسان کی وقتی اور عارضی ضرورت اور اس کے اہم تقاضوں کو پورا کرسکے۔ انسان خود بھی اس بات کو جانتا ہے کہ تمام تر ترقی کے باوجود وہ اپنی عقل کے ذریعے اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی وسیع و عریض کائنات کا احاطہ نہیں کرسکا ہے بلکہ کائنات تو دور کی بات ہے انسان کا خود اپنا وجود ہی آج تک اس کے لئے ہزارہا جہتوں سے نامعلوم ہے۔لہٰذا انسان کا محض عقل پر اعتماد کرتے ہوئے ہدایتِ ربانی اور اطاعتِ انبیاء و رسل سے مستغنی ہونے کادعویٰ ، اس کی لاعلمی بلکہ جہالت کا شاخسانہ ہے کیونکہ اہلِ علم، عقل کی تمام تر امتیازی خوبیوں کے باوجود اس کی محدودیتوں سے شناسا ہیں ۔ تمام آسمانی مذاہب میں اہل عقل کی ستائش کی گئی اور قرآن کریم نے اہل عقل ہی کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے کیونکہ ہدایتِ ربانی کو سمجھنے اور پیغمبرانہ دعوت عظمت کو جاننے کے لئے عقلِ انسانی ہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کو اللہ کی عبودیت اور انبیائے کرام کی اطاعت پر بخوشی آمادہ کرتی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ محدود انسانی عقل کوئی ایسا معیار نہیں ہے جس کے ذریعے الہٰیات و مغیبات کو جانچا اور پرکھا جاسکے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ نظر کے چشمہ سے نظام شمسی یا اجرام فلکی کامطالعہ کیا جائے۔
جاہلی معاشروں کی پانچویں علامت و صفت ان کے یہاں پایا جانے والا ترقی کا تصور یا نظریۂِ ترقی (Progress) ہوا کرتا ہے۔ ہر جاہلی معاشرہ صرف اور صرف مادی میدان میں ترقی کرنا چاہتا ہے اور اس راہ میں آنے والی ہررکاوٹ کو کسی بھی قیمت پر برداشت کرنے کا روادار نہیں ہوتا۔ انبیاء و رسل کی تعلیمات کے ذریعے مطلق ترقی کے تصور میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے تو ایسےجاہل معاشرے اپنے زعم میں اسے دقیانوسیت قرار دے کر یکسر مسترد کردیتے ہیں۔ ایسے معاشرے لوگوں کو اس بات سے ڈراتے ہیں کہ یا تو آپ علم اور ترقی کے رستے کو منتخب کرلیں یا پھر مذہب، اخلاق اور روایات کے ساتھ جڑے رہیں۔ بالفاظ ِ دیگر یا تو آپ آگے بڑھنے، پیسے کمانے اور زیادہ سے زیادہ سامانِ زندگی کو جمع کرنے کے لئے تیار ہوجائیں یا پھر غربت و پسماندگی اور انحطاط کے لئے تیار رہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بظاہر مذہب کو ترک کرکے انسان نے اکیسویں صدی میں بہت ترقی کی ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے نتیجہ میں نت نئےسامانِ زندگی کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے لیکن یہ کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے ۔ اسلامی تاریخ میں مذہب اور مذہبی احکامات کو پیش نظر رکھ کر اس وقت کے لحاظ سے انسانوں اور مسلمانوں نے علم و دانش کے میدان میں بہت ترقی کی تھی اور اس ترقی کا مقصد علم کے ذریعے اللہ عزوجل کی نشانیوں کا کھوج ، اکتشاف ِ فطرت، تسخیرِ نفس و کائنات اور عرفانِ رب تھا۔آج کی طرح مسلمانوں کے پیش ِ نظر ترقی برائے ترقی، ترقی برائے آسائش و راحت و لذت نہیں تھا۔ اسی لئے موجودہ ترقی کے نتیجہ میں لذت پرستی، شہوت پرستی، اناپرستی اور آسائش پسندی عہدِ جاہلیت کی قدیم صورتوں کی طرح عام ہوگئی ہے۔حصولِ لذت کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ نے انسان کی انسانیت کو تباہ کرڈالا ہے کیونکہ آج کا انسان وقتی، عارضی اور مادی منفعت کے خاطر ہر چیز کو تباہ کرنے پر دل و جاں سے راضی ہے لہٰذا انسان کے اعلی اخلاق و کردار ختم اور اس کی شخصیت تباہ ہوگئی ہے نیز اس کا خاندان اور اس کی روحانیت برباد ہو کر رہ گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ زمینی ماحول اور سماجی تعلقات کاتانابانا بکھرگیاہے۔ اس تباہی کا اصل سبب انسان کا اپنی محدود زندگی میں محدود وسائل کے ساتھ لامحدود ترقی کی خواہش کرناہے جس نے ہر زمانہ کے انسان کو اپنے رب اور اس کی تعلیمات اور حقوق العباد سے غافل کرکے ترقی کے نام پر ایک سراب کے پیچھے لگائے رکھا ہے۔ حقیقی ترقی یہ ہے کہ انسان اپنی خود شناسی، معرفت ِ رب، قبولیتِ احکامِ الہٰی، اطاعتِ تعلیماتِ انبیاء کرام اور اپنے اخروی نجات کے لئے تگ و دو اور کاوش کرے اور زندگی کو بامعنی بنانے کے لئے اپنے مقصد ِتخلیق کو ہمہ وقت پیش نظر رکھے۔ دوسری طرف یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ ہدایتِ ربانی اور وحیِ الہٰی کسی بھی جائز اور فائدہ مند مادی ترقی کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں ہے ۔ انسانی ضروریات اور سامانِ راحت یا پھر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والی ایجادات اگر ایک مسلمان کے ایمان میں اضافہ، اعمالِ خیر میں بہتری، اعلی اخلاق میں بڑھوتری ، اچھی سیرت و کردار میں اضافہ، اس کی دنیاوی کامیابی اور اخروی فوز و فلاح میں اضافہ کا سبب بن سکتیں تو شاید ترقی کے موجودہ تصور کو رد کرنے کی کوئی عقلی، فکری، نظریاتی، علمی، تاریخی اور مذہبی بنیاد باقی نہ بچتی لیکن پوری انسانی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ ترقی برائے ترقی کا انجام ہمیشہ انسان کے لئے ہلاکت کا ہی سبب بنا ہے لہٰذا انسان کی حقیقی ترقی یہ ہے کہ وہ معرفتِ حق اور راہِ عبودیت و اطاعت میں اس طرح ترقی کرے کہ خود اس پر اپنی حقیقت کا انکشاف عرفانِ رب کی صورت میں ہوسکے۔
جاہلی معاشروں کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہاں ہر فردِ معاشرہ بالخصوص طبقۂِ اشرافیہ اپنے آپ کو ہر طرح سے آزاد و خودمختار سمجھتا ہے اور اس تصورِ آزادی کی دل و جان سے حفاظت کرنا اپنا فریضہ جانتا ہے جبکہ انسان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مطلقاً آزاد نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت عبد بمعنیٰ بندہ ہونے کی ہے جبکہ اس کی عبدیت کی معراج عبدِ کامل ہونے کی حیثیت سے ہے ۔ کسی انسان کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ آزادئِ اظہار رائے کا علم بلند کرکے آزادی کے اِس بیہودہ تصور کو اپنا حق جانے کہ وہ اللہ کی بندگی اور انبیاء کرام کی پیروی سے خود کو آزاد تصور کرے ۔ انسان اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات کے جبر ، مصائب و مشکلات اور خود اپنے جیسے انسانوں کی جسمانی ، فکری اور نظریاتی غلامی سے آزادی کا پیدائشی حق رکھتا ہے لیکن اس کی ساری دنیاوی آزادیاں جب تک اللہ تعالیٰ کے سامنے مکمل سپرد اندازی اور انبیاءو مرسلین کی غیر مشروط اطاعت پر منتج نہ ہوں اس وقت تک اس کی آزادی ، دراصل غلامی اور جبر ہی رہتی ہے ورنہ آزادی کا مطلق تصور انسان کی ذات کو رفتہ رفتہ اتنا مقدس بنا دیتا ہے کہ اس کی نگاہ میں حقیقی مقدسات اپنی اہمیت کھونا شروع کردیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب انسان خود ہی مقدس ہستی یا وجود بن جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے، جس طرح چاہے، جب چاہےاور جہاں چاہے کرے، اسے ہر عمل کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے یوں کوئی فرد یا معاشرے کا اجتماعی نظم کسی غلط کام پر بھی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا کیونکہ جو انسان اپنی ذات میں الٰہ اور دیوتا کی حیثیت حاصل کرلے تو الٰہ و دیوتا کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے اور دوسروں کے لئے جو چاہے کرے بلکہ اگر دوسرے انسانوں کو اپنی عبادت اور پرستش کا حکم دے تو یہ بھی اس کا حق بن جاتا ہے۔
جاہلیت قدیم ہو یا جدید انسانیت کے لئے ہمہ گیر تباہی وبربادی ،قلق و اضطراب اورفکر و عمل میں پراگندگی کا سبب بنی ہے جس سے نجات صرف اور صرف اسلام کی صورت ہی میں ممکن ہے ۔یہاں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اسلام کسی نئے دین کا نام نہیں بلکہ یہ ان تعلیمات کا مجموعہ ہےجوتمام انبیائے کرام بشمول حضرت آدم ، حضرت نوححضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسی ٰ اور حضور ﷺ کی مشترکہ اور یکساں تعلیمات ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ اور پسندیدہ دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ 17
اسلام نظریات کے میدان میں محض ایک مزید نظریہ نہیں اور نہ ہی فلسفہ کے میدان میں مذہبی فلسفہ کے عنوان سے ایک اضافہ ہے۔ اسلام چند ظاہری رسوم و رواج، عادات و اخلاق اور معاملات و عبادات کا نام بھی نہیں اور نہ ہی انسان کی زندگی کے ساتھ کسی غیر ضروری لاحقہ کا نام ہے۔اسی طرح اسلام دوسرے مذاہب کی طرح انسان کی انفرادی زندگی بالخصوص چند روحانی مشقوں کے ذریعے دھیان و گیان اور غور و فکربرائے خود شناسی و رب شناسی بھی نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ جو اپنی ذاتی و انفرادی، روحانی و اخلاقی ارتقاء تک مذہبی احکامات کو قابلِ عمل سمجھتے ہیں یہ لوگ انسانی معاشروں کے حقیقی مسائل سے ناواقف اورانسانوں کے سمندر میں اپنے نہایت چھوٹے سےجزیرے بنا کر کارِ دنیا سے الگ تھلک رہنے والے لوگ ہوتے ہیں جنہیں خلقِ خدا کی دنیاوی زندگی اور اس کے حقیقی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا لہٰذا عام لوگوں کو بھی ان کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اسلام عقائد کا چیستاں بھی نہیں کہ آپ کی ساری عمر صرف عقائد کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے میں صرف کردیں اور نہ ہی بے جا اور ناقابلِ قبول ایمانیات کا مجموعہ ہےجن کی تشریحات و تأویلات گورکھ دھندہ بن کر رہ جائے۔اسلام محض چند اخلاقی مواعظ کا مجموعہ بھی نہیں جن کا عمومی طور پر انسان کی عملی زندگی سے لینا دینا نہیں ہوتا۔اسلام چند مذہبی رسوم و رواج کا نام بھی نہیں جن کی ظاہری شکل کھیل کود، میلے ٹھیلےاور لایعنی تفریحات کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ اسلام کسی خاص خطے ، ملک اور قوم کا مذہب بھی نہیں جوکسی ایک قوم کی نجات کا ضامن اور دوسری تمام اقوام کے معاملات اور ان کی فلاح و بہبود سے لاتعلق ہو۔اسلام عبادات کے نام پر چند ریاضتوں اور مشقتوں کا نام بھی نہیں جسے کچھ لوگ بجا لاسکیں جبکہ باقی دوسرے لوگ عبادات بجالانے والوں کو اپنا نجات دہندہ بنا کر بیٹھ جائیں۔اسلام کسی ملک گیری کی ہوس اور توسیعِ حدود ِ ریاست کانام بھی نہیں جس کے لئے جنگ و جدال اور فتنہ و فساد برپا کرکےلاکھوں معصوم لوگوں کا خون بہایا جائے۔ اسلام محض ریاست و اقتدار کا حصول بھی نہیں جس کے حصول کے جدوجہد میں ہی پوری زندگی کھپانے کو سعادت اور حاصلِ حیات سمجھ لیا جائے۔ اسلام کسی انسانی غور و فکر اور تدبر و تعقل کی کاوش کا نتیجہ بھی نہیں جو اپنے لئے علیحدہ اور فائدہ مند قانون وضع کرے اوردوسروں کو اسی قانون کے بم و بارود سےملیامیٹ کردے۔اسلام کسی گروہی، نسلی، طبقاتی، لسانی، مفاد کے حصول کےلیے پیش کردہ فکر و فلسفہ کا نام بھی نہیں جس سے مخصوص طبقات اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔ اسلام کسی ایسے خوبصورت نظریۂِ زندگی کا نام بھی نہیں جو صدیوں قبل نتیجہ خیز ثابت ہواہو لیکن اب اس کی افادیت غیر متعلق ہو کر رہ گئی ہو۔اسلام محض مسجد کے میناروں اور گنبدوں کا نام بھی نہیں جن کی باوقار اور پُر شکوہ ایستادگی دلوں میں ہیبت اور وقار پیدا کردیتی ہو لیکن کاروانِ زندگی سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہو۔ اسلام صرف حجاب، داڑھی، ٹوپی اور عربی لباس کا نام بھی نہیں جسے دیکھ کر اسے کم فہم لوگ صرف عربوں کے دین و مذہب ہونے پر محمول کرلیتے ہیں۔ اسلام بھولی بسری داستان اور کسی قصہ پارینہ کا نام بھی نہیں جس کی رقت آمیز زمزمہ سنجی کانوں میں رس گھولنے والی رہی ہو لیکن اب وہ قلوب کے ذریعے عقل و روح کو متاثر نہ کرسکتی ہو بلکہ اسلام ایک زندہ شعور کا نام ہے۔ 18اسلام ان ہمیشہ قائم رہنے والی حقیقتوں، دائمی انسانی اقدار، اعلیٰ اخلاق، سادہ عقائد، جامع نظام ِ عبادت اور کامل نظریۂِ حیات کے مجموعے کا نام ہے جنہیں زمین و آسمان کے مالک نے انسانوں کی ابدی ہدایت کے لیے اپنے انبیاء کے ذریعے سے بیان فرمایا ہے اور جن کو اپنی مکمل ترین شکل میں آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنےقول، فعل اور عمل کے ذریعے سے انسانیت کو عطا فرمایا ہے۔ اسلام ان عالمگیر صداقتوں کا نام ہے جو ہر دور اور ہر زمانے کے لیے یکساں طور پر سچی ہیں اور جن میں وقت کے گزرنے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ کسی انسان کے ذہن کی پیدا وار نہیں ہے کہ وقت اور جگہ کی حدود اس کے پاؤں کی زنجیر بن سکیں۔ اس کو جس خالقِ حقیقی نے بیان کیا ہے اُس کے لیے ماضی، حال اور مستقبل برابرہیں اور اسے قوت یا جگہ کی کوئی مجبوری نہیں۔ جس طرح سورج پرانا ہونے کے باوجود ہر نئی صبح کو نئی روشنی سے بھر دیتا ہے، اسی طرح اسلا م کی تعلیمات بھی تہذیب کی ہر گردش اور تاریخ کے ہر نئے موڑ کے لیے تازہ پیام لاتی ہیں۔ 19
اسلام پوری انسانیت کے لئے نورِ ہدایت ہے اور اس دین کے دروازے کسی مخصوص رنگ و نسل کے لئے نہیں بلکہ کل بنی نوعِ انسان کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔یہ ایک مکمل دین ہے جس میں عقائد وعبادات ،رسومات وطرززندگی سمیت معاشرتی ومعاشی،قانونی وعسکری نظام حتی کہ ولادت تا موت اور بعد از موت کی زندگی کی رہنمائی بھی موجود ہے جو اہلِ عرب کے اُس جاہلیت زدہ ماحول میں برپا ہوا اور پوری انسانیت کو ابدی جاہلیت سے نکالنے کا پیغام بن گیا۔اس کامختصر تذکرہ بالترتیب حسبِ ذیل ہے:
عرب قبل از اسلام کے عقائد کا مطالعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت بہت سی وجوہات کی وجہ سے اللہ کو صحیح طرح نہیں پہچانتی تھی۔کسی نے مظاہر پرستی میں خدا کو ڈھونڈنا چاہا تو کسی نے مٹی و لکڑی کے بتوں میں کچھ افراد نے مسخ شدہ عیسائیت کی تعلیمات کو قبول کیا جبکہ کچھ نے مسخ شدہ یہودیت کے نظریات کو۔چند تو ایسے لوگ بھی تھے جن کے نزدیک خدا کا وجود تھا ہی نہیں۔ یہی وہ جاہلیت کا عظیم ترین اظہارتھا جس کی وجہ سے تمام انحرافات (Deviations) رونما ہوئے اور انسانیت شقاوت و بدبختی کا شکار ہوئی۔ صرف چند لوگ تھے جو دینِ حنیف کے پیروکار تھے اورصحیح معنوں میں خدا کی معرفت بھی رکھتے تھے لیکن چونکہ ان کی تعداد کافی کم تھی اس لئے عرب کا اکثر حصہ گمراہیوں کے گھڑے میں تھا۔
ان لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ عقیدہ کوئی جامد شئےنہیں بلکہ ایک متحرک فکری سیلاب ہے۔یہ ایک ربانی چشمہ ہےجو کسی بندہ خدا کے سینہ میں بہہ پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسی روشنی ہے جس سے انسان کا پورا وجود جگمگا اٹھتا ہے۔یہ دنیا میں رہتے ہوئے خدا تعالیٰ تک پہنچ جاناہے 20لیکن اگر اس میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو اس کے بہت بھیانک نتائج ہوتے ہیں جس سے مکمل معاشرے اور تہذیبیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ اسی لئے قرآن کریم نے پورے تیرہ (13) سال عقیدۂِ الوہیت اور اعتقاد کی پختگی پر صرف کئے۔ یہ عقیدہ نہایت ہی سادہ، حد درجہ آسان اور غیر معمولی طور پر واضح تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔21اس کے بعد انبیاء کرام پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی کیونکہ یہ ہی وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کے ذریعہ انسانوں کو ہدایت دی گئی۔ پھر فرشتوں،کتب وصحفِ سماوی،انبیاء ورسل،تقدیر، قیامت، سزاو جزا پر ایمان لانے کا کہا گیا۔مزید یہ کہ یہ عقائد بنیادی طور پر ان سوالات کے جوابات تھےجو ہر دور کے انسان کے ذہن میں رونما ہوتے ہیں اور جواب نہ ملنے کی صورت میں وہ زندگی بھر بھٹکتا رہتا ہے۔ ان عقائد کی مختصرتفصیل درج ذیل ہے:
اسلام کے پورے اعتقادی اور عملی نظام میں پہلی اور بنیادی چیز ایمان باللہ یا عقیدۂِ توحید کا اقرار ہے۔ عقیدۂِ توحید کے اقرار سے مراد حاکمیتِ الہٰیہ کو اپنے قلب وذہن میں پختہ کرنے کے بعدزبان سے اس کا اقرار کرکے دل سےاس کی تصدیق کرنا ہے۔22اس پختہ یقین کو درجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ظاہر کرکے اپنے اسلام لانے کا اقرار کیاجاتاہے:
اشهدان لااله الاالله واشهد ان محمدا رسول الله.23
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔
یعنی اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود مان کر رسول اللہ ﷺکواللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا آخری رسول مان لیتاہے اور عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے مذکورہ بالا معنی کا اعلان اپنے الفاظ میں کردیتاہے تو وہ بھی مسلمان ہی شمار ہوگا۔ 24
"لا الہ الا للہ"سے مراد یہ ہے کہ الوہیت کو پوری کائنات کی تمام اشیاء سے ختم کرکے صرف ایک حقیقی ذات کے لئے تسلیم کیا جائے اور تمام جذبات، خیالات، اعتقادات، عبادات اور فرمانبرداریوں کو جو الوہیت کے لئے مخصوص ہیں اسی ایک ذات (اللہ)سے متعلق کردیا جائے۔بشمول عرب، دنیا کی تمام قوموں اور مذہب میں یہ تصور کسی نہ کسی طور پر موجود تھا لیکن اکثر جگہ غلط یا نا مکمل تھا۔ کہیں ، "الوہیت" نام تھی صرف اول ہونے کا، کہیں اس سے ابتداء مراد لی گئی تھی، کہیں وہ صرف محبت کا مرکز تھا، کہیں وہ صرف خوف اور رعب کی چیز تھا، کہیں اس کا مفہوم صرف ضرورتیں پوری کرنے والے اور دعائیں قبول کرنے والےکا تھا، پھر کہیں وہ قابلِ تجزیہ و تقسیم تھا، کہیں اس کو تجسیم و تشبیہ اور تناسل سے آلودہ کیا گیا تھا۔ کہیں وہ آسمانوں پر رہنے والی ہستی تھااور کہیں وہ انسانی بھیس بدل کر زمین پر اتر آیا تھا۔ ان تمام غلط یا نامکمل تصورات کو درست اور مکمل جس کتاب نے کیا ہے وہ صرف قرآن ہے جو کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ پر نازل کی گئی۔ اسی کتاب نے "الوہیت" کے مفہوم کو پاک صاف کیا اور اسے عظمت و بزرگی عطا کی۔ اسی نے بتایا ہے کہ "الٰہ" صرف وہی ہو سکتا ہے جو بےنیاز (صمد) اور قیوم ہو، جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے۔ جو مکمل قدرت رکھنے والا اور سب پر حاکم ہو۔ جس کا علم سب پر حاوی، جس کی رحمت سب پر وسیع، جس کی طاقت سب پر غالب ہو، جس کی حکمت میں کوئی کمی نہ ہو۔ جس کے عدل میں ظلم کا نشان تک نہ ہو، جو زندگی کے بخشنے اور زندگی کے اسباب مہیا کرنے والا ہو جو نفع و نقصان کی تمام قوتوں کا مالک ہو، اس کی بخشش اور نگہبانی کے سب محتاج ہوں، اسی کی طرف تمام مخلوقات کی واپسی ہو، وہی سب کا حساب لینے والا ہو اور اسی کو جزا و سزا کا اختیار ہو۔ پھر یہ الوہیت کی صفات نہ تجزیہ و تقسیم کے قابل ہیں کہ ایک وقت میں بہت سےالٰہ ہوں اور وہ ان صفات یا ان کے ایک ایک حصہ سے آراستہ ہوں، نہ یہ وقتی اور زمانی ہیں کہ ایک الٰہ میں کبھی تو یہ پائی جائیں اور کبھی نہ پائی جائیں، نہ یہ منتقل ہو سکتی ہیں کہ آج ایک الٰہ میں پائی جائیں اور کل دوسرے میں۔الوہیت کا یہ مکمل اور صحیح تصورپیش کرنے کے بعد قرآن اپنے انتہائی زور بیان کے ساتھ یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ کائنات کی جتنی اشیاء اور جتنی قوتیں ہیں ان میں سے کسی پر بھی یہ مفہوم درست ثابت نہیں ہوتا۔ کائنات کی تمام اشیاء محتاج ہیں، مسخر ہیں، مخلوق ہیں، نفع و نقصان پہنچانا تو دور کی بات خود اپنی ذات سے نقصان کو دور نہیں کر سکتیں۔ ان کے افعال اور ان کے اثرات کا سرچشمہ ان کی اپنی ذات میں نہیں ہے بلکہ وہ سب کی سب کہیں اور سے اپنے وجود ، عمل اور ان کے اثرات کی قوت حاصل کرتی ہیں۔ لہٰذا کائنات کی کوئی شے ایسی نہیں جو الوہیت کا نشان بھی اپنے اندر رکھتی ہو اور جس کو ہماری عقیدت مندیوں میں سے کسی ایک حصہ کا بھی حق پہنچتا ہو۔
اس نفی کے بعد قرآن مجید نے جس وحدہ لاشریک ذات کے لیے "الوہیت" (خدائی) ثابت کی ہے اُس کا نام "اللہ" ہے اور انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسی پر ایمان لاؤ، اسی کے آگے جھکو، اسی کی عزت کرو، اسی سے محبت کرو، اسی سے خوف کھاؤ، اسی سے امید رکھو، جو کچھ مانگو اسی سے مانگو، ہر حال میں اسی پر بھروسہ کرو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ اسی کے پاس جانا ہے، اس کو حساب دینا ہے اور تمہارا اچھا یا برا انجام اسی کے فیصلے پر منحصر ہے۔25
جس طرح قدیم عرب کے بیشتر حصہ میں عقیدۂِ توحید کو مسخ کیا گیا تھا اسی طرح ان کے ہاں فرشتوں کے متعلق بھی عجیب و غریب عقائد گھڑے ہوئے تھے۔ بعض اہل عرب کے نزدیک یہ خدا کی بیٹیاں تھی،26 (نعوذباللہ) بعض کے نزدیک یہ دیوتا تھے جبکہ مسخ شدہ عیسائیت و یہودیت نے ان کے متعلق الگ عقائد گھڑے ہوئے تھے۔ اسی لئے نبی کریمﷺ نے توحید کے حقیقی نظریہ کو بیان کرنے کے بعد فرشتوں سے متعلق عقائد کو درست کیا کیونکہ ان پر بھی صحیح معنوں میں ایمان لانا ضروری ہے اور اگر ان کے متعلق غلط عقائد رکھے جائیں تو انسان ہدایت سے دور اور گمراہیوں کے عمیق گھڑے میں گر جاتا ہے۔ فرشتوں کے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ285 27
(وہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر ایمان لائے۔الخ
فرشتےایسی مخلوق ہیں جن کی پیدائش انس وجن سے علیحدہ طریقہ پر ہوئی ہے۔ان کے دو، چار یا اس سے زائد پر ہوتےہیں28اور انہیں نورانی مخلوق کہاجاتاہے۔29یہ انسانِ اوّل کے خمیر کو گوندھےجانے سے پہلےبھی موجود تھے30اور حمد وثناء میں مشغول رہتےتھے۔31
ان میں مرد و عورت اور مذکرو مونث کی تقسیم نہیں ہےکیونکہ قرآن مجید نے انہیں نہ ہی مونث بیان کیاہے اور نہ ہی مذکر۔32البتہ قرآن مجید نے ان کے بارے میں یہ خبر ضروردی ہے کہ وہ انسانی شکلوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں جیساکہ حضرت مریم کے لیے حضرت جبریل مکمل انسانی صورت میں متمثل ہوئے 33یا حضرت ابراہیم کے سامنے انسانی شکل میں ظاہر ہوئے تاکہ انہیں بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سنائیں34اور رسول مکرمﷺ کے سامنے بھی بشری صورت میں ظاہر ہوئے ۔35قرآن نے انہیں "عباد الرحمان"کے نام سے موسوم کیا ہے جس کا واضح ترین مطلب یہ ہےکہ وہ فقط حکمِ الہٰی کے پابند ہیں اور اس سےسرِ مو انحراف نہیں کرتے جیساکہ قرآن مجید میں اس بات کو واضح طورپر بیان کیاگیاہے۔36فرشتوں کے ذمہ مختلف فرائض ہیں جن میں سب سے اہم انبیائےکرام کے پاس اللہ کا پیغام یعنی وحی لانا تھا۔ 37فرشتوں کی تعداد شمار سے باہر ہے جس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔38تمام فرشتوں میں چار فرشتے مقرب تر ہیں جنہیں عالم کے بڑے بڑے امور اور ملک و ملکوت کے عظیم کام سپرد ہیں39یعنی حضرت جبرائیل،میکائیل،عزرائیل اور اسرافیل۔
ایمان کے اہم ترین حصوں میں سے ایک حصہ تمام آسمانی کتابوں اور صحائف پر اور اُن میں جو کچھ ہدایت کےلیے بیان ہوا سب پر ایمان لانا ہے۔40ان کتبِ سماویہ اور صحفِ سماویہ میں اللہ کی احدیت وصمدیت، نبوت ورسالت، فرشتوں، الہامی کتب اور بعثت وآخرت جیسے بنیادی عقائد سے متعلق ہدایت موجود ہےجن کی حقیقی تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے تاہم مسلمان پر یہ ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ تمام صحیفےآسمانی ہدایت کے سرچشمے ہیں اور مُنَزل مِنَ اللہ ہیں۔ قرآن مجید میں جن کتب وصحف کا ذکرکیاگیا ہے ان میں صحفِ ابراہیم ،41 حضرت موسیٰ پرنازل کردہ تورات،42حضرت داؤد پر منزّل زبور،43اورحضرت عیسیٰ پر نازل شدہ انجیل44اور خودقرآن ِ حکیم جو نبی آخرالزماں ﷺ پر نازل کیا گیا ہے45شامل ہیں۔ کتب سماویہ میں قرآن مجید ہی اپنی اصل صورت میں موجود ہے اور جیسا نازل ہوا تھا ویسا ہی اب بھی اپنی اصلی شکل میں مامون ومحفوظ ہے کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود لی ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ9 46
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
قرآن مجید ہی آخری الہامی صحیفہ ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت جبریل کے ذریعے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کے قلبِ اطہر پر 47تئیس(23) سال کی مدت میں نازل فرمایااور جس کی جمع وترتیب کی ذمہ داری بھی خود باری تعالیٰ نے لی۔ 48قرآن مجید کا پیغام تاقیامِ قیامت ہر عہدکے انسان اورہر طرح کے حالات کے لیے جامع و مانع ، کامل و اکمل اور حتمی وآفاقی ذریعۂِ رُشد و ہدایت ہے۔ قرآن مجید میں تمام انسانیت کےلیے جامع اُلُوہی ہدایت موجودہے،یہ عقائد، عبادات، اخلاقیات اور پچھلی ا قوام کے واقعات کے تذکرہ سمیت کونیاتی مسائل، تاریخ اور انسانی فطرت سے متعلق علوم پر روشنی ڈالتاہے نیز یہ کلامِ الہٰی اس کائنات کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں بھی ہدایت فراہم کرتا ہے اور اس طرح تمام چیزوں کی مکمل وضاحت کرتا ہے۔49
دیگر تہذیبوں کے اہل ِفکر کی طرح قدیم عرب کے باشندے ذہین، فطین، فصیح و بلیغ ہونے کے باوجود عقل کے محدود ہونے کی وجہ سے اس بات سے قاصر تھے کہ وہ ایک حقیقت پر مبنی نظام ِ ہدایت کو تشکیل دیتے جس کے ذریعہ لوگ الحق یعنی خدا تعالیٰ کی اور اس کی مشیت کی معرفت حاصل کرتے۔ اسی لئے جب انسان تاریخِ عرب کا مطالعہ کرتا ہے تویہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب عربوں کی اکثریت نے دینِ حنیف کو ترک کرکے اپنے لئے نظام ہدایت وضع کرنے کی کوشش کی تو اپنی کم عقلی و مفاد پرستی کی وجہ سے ایسے عقائد و نظریات وضع کئے جس کے نتیجہ میں پورے پورے معاشرے تباہ برباد ہوگئے۔ دیگر اقوام کی طرح عربو ں کو بھی راہ ہدایت پر گامزن کرنے کے لئے انبیاء و رسل بھیجے گئے اور ان پر ایمان لانا دین کا جزء قرار دیا گیا۔
اسلام میں سیّدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت وختم نبوت پر ایمان لانے کی طرح یہ بھی لازمی ہے کہ تمام گزشتہ انبیاءکرام کی نبوت پر بھی ایمان لایاجائے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لئے بھیجا تھا۔50یہ انبیاء کرام ہر زمانے اور ہر قوم میں بھیجے گئےجنہیں خداتعالیٰ کی طرف سے حمایت و نصرت کے لیے واضح نشانیاں اور معجزے دیے گئے تھے۔ تمام انبیاء کرام انسان تھے اور کسی نبی نے کبھی بھی خدا یا خدا کا بیٹا ہونے کا دعوی نہیں کیا تھا۔51یہ انبیاء کرام کامل انسان تھے جن کا وجود پاک اور خالص تھا اور انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی نیز اللہ کی راہ میں مشکلات برداشت کیں تاہم انہیں اس دنیا کی کوئی مادّی خواہش نہیں تھی۔ 52
ان انبیاء کرام میں سب سےپہلےحضرت آدم ہوئے53اورسب سے آخری حضرت محمدﷺ ہوئے،54ان کے مابین بعض انبیاء کرام کا واضح ذکر قرآن مجید میں موجود ہے جن میں حضرت آدم ، حضرت نوح ،55 حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب ،56 حضرت یوسف ،57 حضرت موسٰی ، حضرت ہارون ،58 حضرت شعیب ،59 حضرت لوط ،60 حضرت ہود ،61 حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ،62 حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ(یوحنا) ، حضرت الیاس،63 حضرت عیسیٰ، حضرت ایوب، حضرت یونس،64 حضرت الیسع،65 حضرت ادریس(حنوک) ،66 حضرت ذوالکفل،67 حضرت صالح،68 حضرت عزیر،69 اور حضور سیّد المرسلین محمد رسول اللہ ﷺ70شامل ہیں۔71
حضرت سیّدنا محمدرسول اللہ ﷺ کی ختم ِ نبوت کا عقیدہ اسلام کا اہم ترین اور بنیادی عقیدہ ہے کیونکہ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے ایک مقام پر یوں فرمائی ہے:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا40 72
محمد ﷺ تم میں سے کسی آدمی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔اور اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔
اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتاہے کہ حضرت محمد ﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد جس نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کیا مثلاً مسیلمہ، سجاح، طلیحہ، مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ اور ان کے پیروکار مسلمان نہیں ہیں ۔
انبیاءکرامکے سلسلہ کی آخری کڑی حضرت سیّدنا محمدرسول اللہ ﷺ نے چار اہم فرائض سرانجام دیے جن میں آیاتِ ربانی کی تلاوت کرنا، لوگوں کے دلوں کو پاک وصاف کرنا ، آیاتِ ربانی کی تعلیم دینااور حکمت و بصیرت سکھانا شامل تھے 73اور دیگر بقیہ تمام افعال ان چاروں فرائض کی ذیلی شاخیں متصور ہوتے ہیں مثلاًقوانینِ خداوندی کانفاذ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت یعنی صوم وصلوۃ وزکوۃ وحج کا قیام، عدل کاقیام اور اسلامی ریاست کا قیام وغیرہ جو انسانیت کے لیے ان کے پروردگار کا متعین کردہ مبنی بر وحی فلاحی نظامِ زندگی ہے۔
اس کے بعد اہلِ عرب کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سےمقرر کردہ تقدیر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی اور یہ بتایا گیا کہ تقدیر پر ایمان لانا بھی دین کا اہم جزء ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ "قادرِ مطلق" اور" علاّم الغیوب "ہے لہٰذا کائنات میں جو کچھ ہےاس کی مرضی واجازت سے مقررکردہ ہےاور وہ ہر انسان کا ماضی،حال اور مستقبل حتی کہ دلوں کا حال اور اس کےتمام انتخابات کواپنے علمِ ازلی سےجانتا ہے نیز چونکہ وہ "قادرِ مطلق"ہے لہٰذا اس کائنات ومافیہامیں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات وحوادثات اس نے پہلے سے مقدّر کیے ہوئےہیں جو لوح ِ محفوظ میں مکتوب و محفوظ ہیں۔74اس نے یہ نظام ِ کائنات ایک خاص انداز اور اصولوں کے مطابق تخلیق کیاہے75تو اس کی اجازت و منظوری کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔76
تقدیر کے متعلق اسلام کا نظریہ ہے کہ انسان نہ تو پوری طرح سے اپنی تقدیر کا مالک ہے اور نہ ہی وہ کلیۃ تقدیرکے قانون میں جکڑا ہوا ہے77بلکہ اس کو جزوی آزادی حاصل ہے جس پر آخرت میں سزاوجزا کا مدار رکھاگیا ہے۔اسی وجہ سےانسانوں کو صرف ان افعال کا جوابدہ ٹھہرایا جائے گا جوانہوں نے اپنی مرضی سے سرانجام دیے ہوں گےنہ کہ دیگراعمال کا78جیساکہ قرآن مجید میں اس کو ایک مقام پریوں بھی واضح کیاگیا ہے:
وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى39 79
اور بیشک انسان کے لئے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرے۔
اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ اسلام میں تقدیر کے تصور کا مطلب،بے بسی اور مجبوری کے ساتھ ناپسندید ہ قسمت کو قبول کرنا نہیں ہے بلکہ تقدیر پر ایمان اطمینان، راحت اور حوصلہ افزائی کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔
بعض اہلِ عرب اس بات کے منکر تھےکہ اس فانی زندگی کے بعد بھی انسان کی بعثت ہوسکتی ہے۔80اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انسان اپنی ہر مرضی بغیر کسی پکڑ کے خوف سے پورا کرتا چلا جائے اور جس کے چاہے حقوق پامال کرتا رہے۔ان کو راہِ راست پر لانے کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام انبیاء و مرسلین کے ذریعہ انسانیت کو ہدایت فرمائی کہ دنیاوی زندگی ایک دن ختم ہونے والی ہے جس کے بعد تمام انس وجن سب اپنے کیے ہوئے افعال کی جوابدہی کےلیے دوبارہ اٹھائے جائیں گےنیزاسلام نے بھی اسی کا حکم دیا جیساکہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:
وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ7 81
اور بیشک قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے اور بیشک اللہ انہیں اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔
اسی لیےاسلام نے مسلمانوں پر یہ عقیدہ رکھنا بھی لازمی قراردیا ہے کہ ہمیشگی اور بقاءصرف اللہ تبارک وتعالیٰ کےلیے ہے82اوراس کے علاوہ تمام مخلوق نے ایک دن فنا ہوجانا ہے83جس فناکے بعدانسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے84ان کے اعمال کا حساب و کتاب کیاجائےگا۔85اچھے اعمال کی جزا( جنت) اور برے اعمال کی سزا( جہنم) دی جائے گی86نیز ہر ایک کا فیصلہ مکمل عدل کے ساتھ ہوگا۔87
اہلِ عرب جو کہ بے پناہ جسمانی و ذہنی خصوصیات کے حامل تھے ان پرجب نبی کریم ﷺ کے ذریعہ اسلام کے مذکورہ عقائد کو پیش کیا گیا تو اولاً وہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ وہ تھا جس نے اسلام کے آگے سر تسلیمِ خم کردیا جبکہ دوسرے گروہ نے اسلام کی دشمنی مول لے لی جو کہ بعد میں دینِ اسلام کی فتوحات اور مثبت نتائج دیکھ کر جوق درجوق اس میں شامل ہوتے چلے گئے اور اس طرح اہلِ عرب نے دینِ اسلام کی ہدایت کی روشنی میں اپنی مخصوص صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے مقصدِ حیات کو پا لیا اور نہ صرف خود خوف و غم سے بری ہوئے بلکہ اس دین کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا کر قیامت تک آنے والے انسانوں کو خوف و غم سے نکلنے اور اپنے حقیقی مالک کی معرفت حاصل کرنے کا نسخہ عطا کردیا۔
قبل از اسلام اہلِ عرب کی اکثر مذہبی رسومات ان کے عقائد کی طرح بے بنیاد اور گنجلک تھیں جن کا نتیجہ انتشار، عصبیت اور فساد کے علاوہ کچھ نہ تھا۔جب ان کے درمیان نبی کریم ﷺ کی بعثت ہوئی تو آپ نےاس عرب معاشرے کو ان عبادات و رسومات سے آشنا کرایا جن سے ان عربوں کی ذاتی و اجتماعی زندگی میں مذہبی، روحانی و معاشرتی انقلاب برپا ہوگیا۔ یہ ایسی عبادات و رسومات تھیں جن کےذریعے بندہ نہ صرف اپنے رب سے قریب ہوتا ہے بلکہ ان کے ذریعہ اپنا محاسبہ کرنے کے بھی قابل ہوتا ہے، لوگوں کے ساتھ خدا کے لئے حسن سلوک کرتا ہے جس سے معاشرے میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں سے رعونت ختم ہوجاتی ہے اور وہ اپنے رب کا عاجز بندہ بن جاتا ہے یعنی حقیقی معنوں میں بندہ اگر ان عبادات و رسومات کو ادا کرے تو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی جنتی کہلانے کا حقدار ہوجاتا ہے اور اس دنیا میں ہی اسے جنت کی بشارت مل جاتی ہے جیسا کہ بعض صحابہ کرام کو بھی ملی۔ ان عبادات کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو اسلام کی بنیاد قرار دیا ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا:
بني الاسلام علي خمس: شهادة ان لااله الا الله وان محمد عبده ورسوله، واقام الصلاة، و ايتاء الزكاة، والحج، و صوم رمضان.88
پانچ چیزیں اسلام کی بنیاد ہیں: شہادت دیناکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ کی ادائیگی کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کی ادائیگی۔
اس حدیث مبارکہ میں پہلا جزء توحید ہے (جس کی وضاحت اسی مقالہ میں کردی گئی ہے )جبکہ دیگر عبادات کی تفصیل درج ذیل ہے:
صلوٰۃ اہلِ عرب کی عبادات سے مختلف، سمجھنے میں آسان، قابلِ عمل اور ایک منفرد طریقۂِ عبادت ہے۔اس عبادت میں کسی قسم کے ثقافتی عوامل شامل ہیں اور نہ ہی کوئی فرقہ وارانہ طور طریقے بلکہ یہ عبادت کا ایک نہایت ہی سادہ سا طریقہ ہے جس کو انسان انفرادی طور پر بھی بجا لاسکتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی البتہ معاشرتی اتحاد و بھائی چارے کے فروغ کے لئے فرض صلوٰۃ کو جماعت سے ادا کرنا قابلِ ترجیح ا مرقرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ طریقہ ہےجس کے ذریعہ رب کا شکر بھی ادا کیا جاسکتا ہے، اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرکے توبہ و استغفار اور اس سے مزید مناجات بھی کی جاسکتی ہیں۔
نماز کا اولین مقصد ایک مسلمان کے قلب و ذہن میں بار بار یہ احساس اجاگر کرنا ہے کہ وہ خدائے وحدہ لا شریک کا بندہ ہے اوراسے اپنے ہر فعل و عمل میں اللہ عزوجل کی بندگی بجا لانی ہے۔شاہراہِ حیات کے ہر ہر قدم پر، احکامات ِ خداوندی کی بجا آوری کےلئے ضروری ہے کہ انسان میں اپنا فرض پہچاننے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اسے مستعدی سے انجام دینے کی عادت بھی ہو۔روزانہ مقررہ اوقات پر نماز قائم کرنے کا ایک مقصد مشق ِ اطاعت بھی ہے جس کی بدولت ایک مسلمان جیسے ہی اذان کی آواز سنتا ہے، اہم سے اہم کام اور اہم سے اہم معاشی، سماجی ، تعلیمی، تحقیقی یا سیاسی سرگرمی چھوڑ کر اپنے خالق و مالک کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت فراہم کرتا ہے کہ احکامات ِ خداوندی کی بجا آوری اس کےلئے تمام کاموں سے زیادہ اہم ہے جس کےلئے وہ ہمہ وقت مستعد اور تیار ہے۔ نماز ایک فردمیں خدا خوفی کا احساس اور قانونِ الہٰی سے واقفیت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ افرادِ معاشرہ میں اجتماعیت کا احساس بھی پیدا کرتی ہے۔پنج وقتہ نمازیں ، جمعہ کے ہفتہ وار اجتماعات اور عیدین کے سالانہ اجتماعات امت ِ مسلمہ کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مضبوط کرتے ہیں یوں اہلِ اسلام میں یک جہتی اور عملی اتحاد پیدا ہوتا ہے جو انہیں روزمرہ زندگی میں ایک دوسرے کا معاون اور ممد بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔89
مذہبِ اسلام میں فریضۂِ ِ عبادت انسانی روح اور عملی زندگی دونوں ہی کو پاک کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔90نماز کو ایک ایسے عمل سے تشبیہ دی جاتی ہے جو ایک فرد کا اخلاقی و روحانی تزکیہ کرتا ہے جس سے دل پر جمنے والی حوادث ِ زمانہ کی دھول چھٹ جاتی ہے۔ اسلام میں انسانی زندگی کو متاثر کرنے والے اور انسانی اذہان پر منفی اثرات ڈالنے والے عوامل کو دور کرنے کےلئے کئی ذرائع موجود ہیں تاہم نماز ان میں سب سے اہم ہے۔ 91
اقامتِ صلوٰۃ اسلام کا دوسرا اہم ستون ہے جسے ہر روز دن میں پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ طریقۂِ ِ کار کے مطابق انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے۔عبادت کا یہ انداز، انسانیت کو اللہ کی بارگاہ سے انبیا ئے کرام کے توسط سے عطا کیا گیا ہے جو اتنا جامع و کامل ہے کہ ایک انسان عبادت کےلئے اس سے بہتر انداز کا تصور بھی نہیں کر سکتاہے۔ 92فرض نمازوں کے علاوہ واجب نماز مثلاً صلوٰۃ الوتروغیرہ اور نفل نمازوں کی تعلیم بھی دی گئی ہے جو مخصوص اوقات اور مواقع کے لئے خاص کردی گئی ہیں ۔اس کے علاوہ کاموں یا منصوبوں میں اللہ سے مدد کی درخواست کےلئے صلوٰۃ الحاجات ادا کی جاتی ہے۔ 93اسی طرح دشمن سے خوف کی صورت میں صلوۃ الخوف،بارش کی کمی یا خشک سالی کا مسئلہ ہو تو صلوٰۃ الاستسقاء 94جبکہ سورج و چاند گرہن کے موقع پر صلوۃ الخسوف و صلوٰۃ الکسوف 95کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔اسی طرح رات کے آخری حصے میں نماز ِ فجر کاوقت شروع ہونے سے قبل ادا کی جانے والی نمازِ تہجد وہ خاص نفل نماز ہے جو اللہ کی قربت کا بہترین ذریعہ ہے۔ 96ان سب کا مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور اپنے ذہن وقلب کو اللہ کی بندگی اوراس کی اطاعت وفرمانبرداری کی جانب مائل کرنا ہے۔
قبل از اسلام اہلِ عرب یا تو تنہا عبادت کیا کرتے تھے یا پھر خانہ کعبہ میں اپنے مخصوص بت کی پوجا کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ بطورِ عبادت بتوں کے سامنے چڑہاوے دیا کرتے تھے اور ان کے نام پر جانوروں کی قربانی پیش کرتے تھے لیکن ان کی ایسی چند عبادت گاہوں کی موجودگی کے باوجود معاشرہ میں نہ اتحاد تھا نہ ہی نظم و ضبط۔جب نبی کریم ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر فرمائی جس کا لغوی معنی " سجدہ کرنے کی جگہ" کے ہیں۔ 97اس عمارت کی تعمیر کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں پنج وقتہ باجماعت نماز ادا کی جائے تاکہ مسلمانوں کوایک دوسرے سے ملنے کا موقع ملے اور وہ ایک دوسرے کے احوال جان کر باہمی دکھ درد میں شریک ہوسکیں۔ مزید یہ کہ اگر کوئی شخص بھی چاہے تو مسجد میں تنہا آکر بھی خدا کو یاد کرے، قرآن پاک کی تلاوت کرے اور دین کے احکام سیکھےیعنی مسجد کو تعلیم و تربیت کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔98مزید یہ کہ مسجد کی حیثیت فقط ایک عبادت گاہ کی نہیں تھی بلکہ یہ ہر طرح کی سماجی، معاشرتی و ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھی جس کی نظیر آج بھی کئی مقامامت پر موجود مساجد کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔
قدیم عرب ایک بے آب و گیا خطہ تھا جہاں وسائل کی فراوانی نہیں تھی اسی وجہ سے یہاں کی اکثریت کےلئے بنیادی ضروریات ِ زندگی کا حصول بھی کافی مشکل تھا۔تاہم تجارتی شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سےشہروں اور قصبوں میں تجارت ایک منافع بخش پیشہ بن چکی تھی۔یثر ب ، خیبر اور اس کے گرد و نواح کا خطہ زراعت کے سبب نسبتاً زیادہ خوشحال اور آسودہ حال تھا تاہم باہمی جنگوں اورسود کی لعنت کے سبب یہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پریشان حال تھا۔ خطۂِ ِ عرب میں معاشی لحاظ سے دو گروہ پائے جاتے تھے۔ معاشرے کا ایک گروہ انتہائی مالدار افراد پر مشتمل تھا تو دوسری طرف مفلوک الحال اورمحروم اکثریتی طبقہ تھا۔ان مالدار لوگوں کا ایک بڑا طبقہ مال و دولت جمع کر نے کی ہوس کے سبب گردش ِ دولت کی راہ میں رکاوٹ تھا جس کے سبب دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو چکی تھی ۔امیر و غریب کے درمیان یہ خلیج بہت گہری تھی جسے کم کرنے کےلئے اسلام نے نظامِ زکوٰۃ قائم کیا جس کے تحت، سالانہ بنیادوں پر ایک خاص حد سے زیادہ اثاثہ جات رکھنے والے امیر لوگوں سےا ن کے مال کا ایک مقررہ حصہ لے کر معاشرے کے مفلوک الحال اور وسائل سے محروم طبقہ کے لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کیا جس سے کچھ ہی عرصہ میں معاشرہ میں ایک معاشی توازن قائم ہوگیا۔99
زکوٰۃ سے متعلق الہامی احکامات کے مطابق تمام مسلمان، صا حبِ نصاب، عاقل و بالغ افراد پر ڈھائی فیصد(% 2.5) سالانہ کی شرح سے زکو ٰۃ فرض کی گئی ہے۔اسلامی اصطلاح میں صاحب ِ نصاب ہر وہ مسلمان ہے جس کی ملکیت میں ساڑھے سات( 7.5) تولہ یا اس سے زیادہ سونا یا ساڑھے باون( 52.5) تولہ یا اس سے زیادہ چاندی یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر مال و دولت موجود ہو اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو۔ اسی طرح جانوروں، زرعی اراضی اور معدنیات سے ہونے والی پیداوار کے بھی پیمانے متعین ہیں۔ 100مسلمان زکوٰۃ مسلم حکومت کو دینے کے پابند ہیں جو اسے مصارف زکوٰۃ پر خرچ کرتی ہے۔ قرآن حکیم میں بیان شدہ آٹھ مصارف زکوٰۃ میں فقراء ، مساکین ، زکوٰۃ وصول کرنے والے حکومتی عاملین ، تالیف قلب ، غلامی یا قید کا شکار افراد، مقروض افراد اور اللہ کے راستے میں جہاد میں مصروف مسلمانوں کی ضروریات شامل ہیں۔ 101حضور نبی کریمﷺ کے عہدِ مبارک اور شیخین کے عہدِخلافت میں تمام محصول حکومت جمع کیا کرتی تھی جس کو لوگوں پر قرآن حکیم کی ہدایات کے مطابق خرچ کیا جاتا تھا لیکن بعد میں اسلامی ریاستی حدود میں توسیع کی بناپر ہر جگہ سے حکومت کےلئے زکوٰۃ جمع کرنا انتہائی مشکل اور مہنگا عمل ہوچکا تھا اس لیے حضرت عثمان نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلمان زکوٰۃ ان افراد کو جن کا قرآن مجیدمیں ذکر کیا گیا ہے براہِ راست بھی دےسکتے ہیں۔102
زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا شمار اسلا م کے پانچ بنیادی ستونوں میں ہوتا ہے۔زکوٰۃ کے لفظی معنی "پاکی" اور "صفائی" کے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسے ایک مسلمان کے مال و دولت کے ساتھ ساتھ اس کے نفس کی پاکی اور صفائی کی بھی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ 103اسلام کے قائم کردہ معاشرے میں زکوٰۃ کو دنیا وی حکومتی ٹیکسوں کی طرح محض ایک ٹیکس نہیں سمجھا جاتاتھا بلکہ یہ اپنی اصل میں عبادت اور اسلامی معاشرے کی روح اور جان تھی۔ 104
قدیم عرب کے قبائلی معاشرے میں اسلام نے جب نظام ِ زکوٰۃ قائم کیا تو اس نظام نے اس معاشرے کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔زکو ٰۃ کے اس باہمی تعاون پر مبنی نظام نے انسان کو نہ صرف دنیاوی حرص و ہوس اور طمع و لالچ کا شکار ہونے اور مادہ پرستی کے دلدل میں گرنے سے روکا بلکہ یہ امیر و غریب کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کا بھی سبب بنی جس سے ان دونوں طبقات کے درمیان پائی جانے والی نفرت اور دوری کم ہوتی چلی گئی اور باہمی بھائی چارے اور اخوت کی فضا ہموار ہوئی۔ امیر کے دل میں نہ صرف غرباء اور ضرورتمند بھائیوں کی ضروریات کا احساس پید ا ہوا بلکہ ان ضرورت مند اور بد حال لوگوں کی ضروریات پورا کرنے سے حاصل ہونے والے دنیاوی اوراخروی ثمرات نے اہلِ ثروت میں نیکی کے جذبے کو خوب مہمیز دی اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا قربِ الہٰی کا ذریعہ بن گیا۔ اسلام سے قبل عرب ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور نام و نمود کی خاطر بے تحاشہ مال خرچ کرنے کےلئے تیار رہتے تھے تاہم اسلام نے اس جذبے کی صحیح سمت کا تعین کیا اور اعمال کی مقبولیت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اخلاص کو قراردیا۔ زکوٰۃ کا ایک مقصد دین کی حفاظت ، مدد اور نصرت بھی تھا۔ قرآن ِ حکیم میں جگہ جگہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔
اسلام نے مال و دولت اور دنیاوی جاہ و منصب اور قوت و اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت اور ذریعۂِ آزمائش قرار دیا یوں بظاہرنادار وفقیرلوگوں میں تقسیم کی جانے والی زکوٰۃ در حقیقت عبد اورمعبود کے تعلق کومضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ اور انسان کو انسان کےقریب کرنے کا مؤثرذریعہ بن گئی ۔ زکوٰۃ درحقیقت ایک ایسی عبادت تھی جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی و معاشرتی فلاح و بہبود کا ایک بہترین ذریعہ بھی تھی۔105زکوٰۃ کا نظام سماجی فلاح کی ایسی ہمہ گیر اسکیم تھا جس نے ملک و ملت کے غریب ونادار افراد کی نہ صرف مدد کی بلکہ انہیں زندگی کی جدوجہد میں برابر کی شرکت کے قابل بنا دیا۔ اسلام نے یہ تصور دیا کہ انسان جو کچھ کماتا ہے وہ صرف اور صرف اسکی محنت کا ثمر نہیں بلکہ اللہ عزوجل کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے اور اس میں فطرت کی بے شمار قوتیں اور پورا معاشرہ ہزاروں طریقے پر انسان کا معاون و مدد گار ہوتا ہے اس لئے ایک انسان کے مال میں دوسروں کا بھی حق ہے اس لئے مالدار افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشی جدوجہد میں پیچھے رہ جانے والوں کو سہارا دیں اور آگے بڑھائیں ۔ اسلام نے یہ تصور دیا کہ جو معاشرہ کمزوروں کی مدد نہ کرے، غریبوں کو سہارا نہ دے اور گرتوں کو تھا م نہ لے وہ انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ اسلام نے زکوٰۃ کے نظام سے معیشت کو صحیح بنیادوں پر استوار کیا اور امداد باہمی کی روح کو عملی صورت میں جاری کیا جس کے ذریعے سے تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کو یقینی بنایا گیا۔ مردم شماری کر کے باقاعدہ رجسٹر بنائے گئےاور ضرورت مندوں کو سرکاری وظیفے دیئے گئےاور تھوڑے ہی عرصے میں معاشی خوشحالی کی سطح اتنی بلند ہوگئی کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا۔ زکوٰۃ کے نظام کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ یہ دولت کی ذخیرہ اندوزی کو روکتا ہے ا ور مالداروں کو سرمایہ کاری کی طرف مائل کرتا ہے اوراگر دولت کو جمع رکھا جائے تو زکوٰۃ کے سبب سے کچھ سال میں وہ خود بخود خرچ ہو جائے گی۔زکوٰۃ نہ صرف پیداواری عمل کو تیز کرتی ہے بلکہ عوام کی قوتِ خرید میں بھی اضافہ کرتی ہے یوں یہ معیشت میں توازن کا خود کار آلہ (Automatic Stabilizer of Economy) بن جاتی ہے۔ 106
نماز، کی طرح جو دیگر عبادتیں مسلمانوں پر فرض کی گئیں ان کا اصل مقصد زندگی کے ہر فعل کو اللہ کی بیان کردہ حدود میں رہ کر ادا کرنا ہے۔روزہ کو فرض کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رمضان میں تیس دن تک صبح سے شام لوگوں کو بھوکا پیاسا رکھا جائے اور اس کے بعد انسان جو چاہے کرتا پھرے بلکہ ان عبادتوں کو فرض کرنے کی غرض یہی ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کی تربیت کی جائے اور اس کو اس قابل بنایا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے۔ روزے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ لمبی مدت تک شریعت کے احکام کی لگاتار اطاعت کراتا ہےکیونکہ روزہ ہر سال پورے ایک مہینے کے لئے شب و روز شریعت محمدی ﷺ کی اتباع کی مشق ہے۔ اس طرح ہر سال مہینہ بھر صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک تمام روزہ دار مسلمانوں کو مسلسل فوجی سپاہیوں کی طرح پورے قاعدے اور ضابطے میں باندھ کر رکھا جاتا ہے اور پھر گیارہ مہینے کے لئے اسے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ جو تربیت اس ایک مہینے میں اس نے حاصل کی ہے اس کے اثرات ظاہر ہوں اور جو کمی پائی جائے وہ پھر دوسرے سال کی ٹریننگ سے پوری کی جائے۔ 107
روزے سے انسان میں شکر گزاری کا احساس جاگتا ہے اورکھانے پینے سے عارضی طور پر محرومی اسےخدائی نعمتوں کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ پھر جب وہ بھوک اور پیاس کاایک طویل تجربہ کرنے کے بعد دوبارہ کھانے اور پانی تک رسائی حاصل کرتا ہے تب وہ محسوس کرسکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے فراہم کردہ کھانے اور پانی کی کیا اہمیت ہے اور ان کے بغیر زندگی کی بقاء کا تصور کس قدر مشکل ہے۔ یوں یہ تجربہ اللہ کے لئے شکرگزار ی کےجذبات کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔ روزے کے دوران پابندیوں پرعمل کرنے کے نتیجے میں انسان میں اخلاقی نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے اور وہ ہوس کا شکار ہو کر بے ضابطہ زندگی گزارنے کی بجائےضبطِ نفس اور تقویٰ پر مبنی زندگی گزارنے کی تربیت حاصل کرتاہے۔108
خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم نے لوگوں کو اللہ کے گھر کی طرف بلایا جس کے بعد تمام عرب سے لوگ ہر سال جوق در جوق اس گھر کی زیارت اور یہاں اللہ کی عبادت کےلئے آنا شروع ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ کے ظہور کے وقت یہ سلسلہ ہزارہا ل سال سے جاری و ساری تھا تاہم بت کے توہم پرست پجاریوں کی تحریفات کی وجہ سےحج کی حقیقی شکل بگڑ چکی تھی اور یہ صرف ایک رسم بن کر رہ گیا تھا جس سے نہ کوئی روحانی فوائد حاصل ہوتے تھے نہ ہی معاشرتی۔اہلِ عرب حج و عمرہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئےادا نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اپنے باطل معبودوں کو بھی اللہ کے ساتھ شریک کر لیتے تھے اور انہیں معبودِ حقیقی کے قرب کا وسیلہ تصور کرتے تھے ۔ نبی کریم ﷺنے ان گمراہ انسانوں کو راہ ہدایت کی روشنی دکھائی اور ان پر واضح کیا کہ حج کی ادائیگی صرف اور صرف اللہ ہی کے لئے ہے کیونکہ صرف اور صرف وہ ہی معبود ِ حقیقی، رب العالمین اور قادرِ مطلق ہے 109جو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔110
اسلام نے حج کو دین کا ستون قرار دیا ہے جو مسلمانوں میں اجتماعیت پیدا کرتا ہے۔حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں پوری دنیا سےمسلمان شریک ہوتے ہیں۔ اسلام نے ان سب کو برابر قرار دیا اور نسل، جنس یا معاشرتی حیثیت کی بنیاد پر رکھے جانے والے امتیازات کو ختم کردیا۔ 111اسلام سے قبل بھی عرب میں حج کی اہمیت تھی مگر اہل ِ عرب نے حج کے اصل مقاصد کو بھلا دیا تھا۔اسلام نے اس مقدس سفر کو حاجیوں کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاءسے تعلق قائم کرنے کا بہترین ذریعہ بنا دیا ۔ حج مسلمان کو اللہ کے برگزیدہ بندوں اور اولوالعزم پیغمبروں کی زندگی اور کردار کی یاد دلانے اور دنیا بھر کےمسلمانوں کو متحد کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ حج کی عبادت کی بدولت اہلِ ایمان کے اذہان اس حقیقت تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں کہ اگرچہ ان کا تعلق مختلف نسلوں اور اقوام سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی عالمگیر اتحاد کی مضبوط بنیاد ہے۔ مختلف خطوں کے انسان اگرچہ اپنی پرورش میں متنوع ہوسکتے ہیں اورکسی بھی ملک یا قوم سے ان کا تعلق ہو سکتا ہے لیکن ایک اللہ کے عبادت گزار بندےہونے کی بدولت وہ سب ایک ہیں اور ہمیشہ متحد رہیں گے۔ اپنی اصل میں حج ایک فرض عبادت ہے جس کے نتیجے میں عملی طور پر مسلم اخوت اورعالمگیر بھائی چارے کو فروغ دینے والے بے شمار فوائد حاصل ہوتےہیں جن میں سب سے اہم ملّی اتحادہے۔112اس فریضہ کے بدولت اہلِ عرب جو کہ مختلف طبقات اور قبائل میں بٹے ہوئے تھے، اسلام کے پرچم تلےمتحد ہوگئے تھے اور ہر سال اس اجتماعیت اور اتحاد کے عملی اظہار کا وسیلہ فریضۂِ حج ہی تھا۔اسلام کی بدولت عرب کی مذہبی، سیاسی اور سماجی تشکیل ایک ایسا انقلاب تھا جس کی نظیر اس سے پہلے کی پوری عرب تاریخ میں نہیں ملتی ۔اسی اتحاد نے نبی اکرم ﷺ کے دنیا سے جانے کے بعد قائم ہونے والی خلافت کی بنیادوں کو اتنا مضبوط کر دیا تھا کہ کچھ ہی سالوں میں اس کی سرحدیں کا شغر سے لے کر مراکش کے ساحلوں تک پہنچ چکی تھیں۔ خلفائے راشدین کے ان سنہری ادوار میں حج کو سالانہ بنیادوں پر اس وسیع و عریض حکومت کے انتظامی اور حکومتی امور کی نگرانی کا ذریعہ بنادیا گیا تھا جس کے سبب حج کے موقع پر خلافت اسلامیہ کےہر کونے سے آنے والے افراد گورنروں اور عمّالِ حکومت سے متعلق کسی بھی قسم کی شکایت براہِ راست خلیفۃ المسلمین سے کر سکتے تھے جس کی بدولت نہ صرف احتساب کا نظام مزید مضبوط ہو گیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خلافتِ اسلامیہ کے ہر شہری کی براہِ راست خلیفۃ المسلمین تک رسائی ممکن تھی۔
حج سے حاصل ہونے فوائد کی فہرست بہت ہی طویل ہے۔ یہ ایک ہمہ جہت عبادت ہے جس کے معاشروں پر دوررس طویل المیعاد روحانی، قلبی، سماجی ، معاشرتی اوراخلاقی اثرات رونما ہوتے ہیں۔ اس کے مناسک کے ہر جزء سے بندگی کا تصور ابھرتا ہے۔ حج کا سفر اور احرام کا خاص لباس فقیری اور عاجزی کے احساس، قربانی کے جذبے، مساواتِ انسانی اور اُخروی زندگی کے سفر کی یاد سے عبارت ہے۔ حاجی کی ظاہری حالت ہی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ صرف اور صرف اللہ کے در کا بھکاری ہے اور وہ اپنے پروردگار کی خاطر دنیا کی ہر لذت و آسائش ، ہر رشتہ وناطہ، وطن ، کاروبار یہاں تک کے بیوی بچے اور والدین تک سب چھوڑ چھاڑ کر، اپنے تن پر دو بغیر سلی چادریں لپیٹے طویل سفر کر کے لبیک اللھم لبیک کہتا اپنے معبود کے حکم کی تعمیل بجا لانے کےلئے حاضر ہو گیاہے جو اس کے اپنے معبود سے مضبوط تعلق کی دلیل ہے۔
احرام کا زیب تن کرنا اتحاد، مساوات اور عالمی مسلم بھائی چارے کا ثبوت ہے ۔ حج کا سالانہ اجتماع اس بات کی عملی دلیل ثابت ہوتا ہے کہ مسلم بھائی چارے اور اسلامی قومیت کا رشتہ تمام رشتوں سے زیادہ مضبوط ہے جو انسانوں کو نہ صرف حقیقی طور پر باہم جوڑتا ہے بلکہ ان کا اپنے خالق و مالک سے تعلق بھی مضبوط کرتا ہے۔ طواف ِ کعبہ رضائے الہٰی کی خاطر مشقت برداشت کرنے کا والہانہ اظہار ہے۔ صفا و مروہ کی سعی ، مقام ابراہیم پر نوافل اور جانوروں کی قربانی اس عزم کا اظہار ہے کہ ایک مسلمان ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ، حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل کا صبر و استقامت، اللہ پر بھروسے، شکر گزاری، عاجزی اور اللہ کی راہ میں سعی کے راستے کو اپنائے گا۔ جَمرات کے عمل سے ایک مسلمان شیطان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے اور اس کے بہکاوے سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے خود کو اپنے پروردگا ر کی پناہ میں دینے کا اعلان کرتا ہے۔ حج میں جہاں نماز کی مانند روحانی نمو اور تعلق باللہ کا جذبہ پایا جاتا ہے وہیں یہ زکوٰۃ کی مانند مالی اور جہاد کی مانند جسمانی عبادت بھی ہے۔ روزہ کی مانند حج میں بھی جنسی ملاپ ممنوع ہے اور زیب و زینت پر پابندی ہے یوں روزے کی مانند حج میں بھی نفس کی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی مشق ہوتی ہے۔113حج ایک ایسی جامع عبادت ہے جو استطاعت کی صورت میں زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے تاہم اس کے اثرات انسان کی پوری زندگی پر محیط ہوتے ہیں ۔ یہ فرض ایک مسلمان کےلئے ایک نئے سفر کے آغاز کا اولین قدم بن سکتا ہے۔
حج کے علاوہ مسلمان "عمرہ" بھی ادا کرتے ہیں جو کہ ایک سنت عبادت ہے۔ عمرہ ميں بھی زیارت کعبہ کے ساتھ صفا اور مروہ کی سعی کی جاتی ہے 114تاہم اس میں منی ، عرفات اور مذدلفہ کا قیام شامل نہیں ہوتا۔حج صرف مقررہ ایام میں ہی ادا کیا جا تا ہے تاہم عمرہ ایامِ حج کے علاوہ کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے۔ عمرہ کے ارکان میں طواف ِکعبہ، مقام ِ ابراہیم پرنوافل کی دو رکعات اور صفا ومروہ کی سعی اوراحرام شامل ہیں۔115
عرب کے قبل از اسلام جاہلیت زدہ معاشرے میں تہوار وں کا عملی مفہوم عیش و عشرت میں غرق ہو کر ہر طرح کی ذہنی و جسمانی عیاشی کی کھلی چھوٹ کے مترادف لیا جاتا تھا ۔ خوشی کے اظہار کو شراب و شباب کے نشے میں بد مست ہو کر دعوتِ نشاط و طرب اُڑانے سے تعبیر کیا جاتا تھا اور اس موقع پر خالق ِ کائنات کی عطا کردہ نعمتوں اور رحمتوں پر اس کی شکر گزاری کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔اسی طرح ان کے تہواروں میں جائز و ناجائز کی کوئی تخصیص نہ تھی بس بے لگام جانوروں کی مانند اپنی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل کو ہی خوشی کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ۔اسلام نے عربوں کے تہواروں کو غیر اخلاقی اور برے اعمال سے بالکل پاک و صاف کر دیا اور ان کا بنیادی مقصد انسانیت کو خوشی فراہم کرکے انہیں متحد کرنا اور خوشی کے موقع پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تربیت دینا قرار دیا ۔مسلمان اپنے تہواروں کے موقع پر اللہ عزوجل کی عبادت اور اس کےشکر سے تہوار کا آغاز کرتے ہیں اور شکر کے اظہار کی عملی شکل کے طور پر اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں کو زیادہ سے زیادہ تقسیم کرتے ہیں۔ اسلامی تہوار خوشیاں اور محبتیں بانٹنے اور اخوت و بھائی چارے کے فروغ کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرہ ، باہمی نظم و اتحاد ، اخوت و مروت، ایثارو قربانی ، احساس ذمہ داری اور تربیت کے اہم ذرائع بھی ہیں۔ اس موقع پر کئی ممالک میں قیدیوں کی سزاؤں میں تخفیف بھی کرد ی جاتی ہے اور بعض معمولی نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے قیدیوں کو آزاد بھی کر دیا جاتا ہے اور قرض داروں کے قرض بھی معاف کر دیئے جاتے ہیں۔مسلمانوں کے بڑے مذہبی تہواروں میں عیدالفطر، عید الاضحٰی، شب قدر اور جمعہ کی نماز کو شامل کیاجاتا ہے۔116
عید الفطرکا تہوار رمضان المبارک کے اختتام کے بعد اسلامی تقویم کے دسویں (10)مہینےیعنی شوال کی پہلی تاریخ کو منایا جاتا ہے جس کی ابتداء طلوع آفتاب کے بعد دورکعات اجتماعی نمازاداکرکے ہوتی ہے۔ 117نمازِ عید سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں تناول کرنا حضرت سیّدنامحمدرسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔118عید کے موقع پر آپﷺ کی سنت کے مطابق بہترین لباس زیب تن کرکے، خوشبو لگاکر کھلے میدان میں نمازِ عیدباجماعت ادا کی جاتی ہے۔ نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے119جس میں صدقۃُالفطر، اتباعِ رضائے الہٰی ، آخرت کی زندگی کی تیاری اور یہاں تک کہ امورِ مملکت کے حوالے سے بھی بات کی جاتی ہے۔ اس جماعت میں مسلمان مرد و خواتین اور بچے شریک ہوتے ہیں۔120عیدُ الفطر کے موقع پر رمضانُ المبارک کے روزوں کی ادائیگی اور عبادات کی توفیق پر اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ نماز کے اختتام پر تمام مسلمان ایک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں ۔ اسلام نے اس موقع پر غریب اور نادار مسلمان بھائیوں کی مدد کرنےاور انہیں خوشیوں میں شریک کرنے کےلئے صدقۂِ فطر کی صورت میں ایک ایسی مالی عبادت کا حکم دیا ہے جو عبادت کے ساتھ ساتھ ایک مسلم معاشر ے میں باہمی احساس ، باہم تعاون اور اخوت و بھائی چارے کے فروغ کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔
عیدالاضحیٰ دسویں (10) ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے جو اسلامی تقویم کابارہواں(12)اور آخری مہینہ ہے۔اس موقع پر مسلمان حلال جانوروں کی قربانی پیش کرتے ہوئے حضرت ابراہیم کی قربانی کی یادکو تازہ کرتے ہیں۔ اس تہوار کا آغاز طلوعِ آفتاب کے بعدعید کی دورکعت نماز پڑھ کر (پھر خطبہ سن کر) ہوتاہے،واپس آکرمسلمان جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں۔121حضوراکرمﷺنے مینڈھا،122بکری، گائے اور اونٹ کی قربانی پیش کرنے کا حکم فقط انہیں دیاہے جو اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔123اس کاطریقہ یہ ہے کہ تکبیر پڑھ کر اپنے ہاتھوں سے جانور کے گلے پر چھری پھیرکر خون بہادیاجائے۔تکبیر کا مطلب "اللہ اکبر" کہنا ہے جس کا معنی ہے کہ "اللہ سب سے بڑا ہے۔" 124نبی کریم ﷺ نے چونکہ گوشت غریبوں میں بانٹنے کی ترغیب فرمائی ہے 125اسی لیے قربانی کے گوشت کا ایک بڑا حصہ غرباء و مساکین اور ضرورت مند رشتہ داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں وارد ہونے والی سب سےاہم اور با برکت رات ، شب ِ قدر مسلمانوں کے لئے اللہ عزوجل کا ایک خاص انعام وا کرام ہے جس میں قرآن حکیم نازل فرمایا گیا اور اس شب میں اپنے گناہوں پر نادم ہوکر اللہ تعالیٰ کی بارگا ہ میں مغفرت طلب کرنے والے انسانوں کے گناہوں کی بخشش کردی جاتی ہے۔قرآن ِ حکیم میں اس رات کوہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے اور اس میں روح ِ امین اور ملائکہ کے نزول کی نوید دی گئی ہے اس لئے مسلمانانِ عالم اس رات جاگ کر اللہ عزوجل کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں استغفار و مناجات کرتے ہیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں شب ِقدرکی اہمیت اور وضاحت کے لیے ایک مکمل سورت نازل فرمائی ہے جو درج ذیل ہے:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ 1وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ 2 لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ 3 تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ 4 سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ 5 126
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے، اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے، شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس (رات) میں فرشتے اور روحُ الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں، یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔
شب ِ قدر کی رات متعین نہیں ہے ۔حضوراکرم ﷺ نے شب ِ قدرکو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے127اورآپﷺنے یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہ جو شخص اس رات اللہ کی خاطر عبادت اور توبہ و استغفار میں مصروف رہا اسے گزشتہ گناہوں کی معافی عطا کردی جاتی ہے۔128اسی وجہ سے یہ رات مسلمانوں کے یہاں ایک مذہبی تہوار شمار ہوتی ہے اورمسلمان اس رات کو پانے کے لیے انتہائی اہتمام کرتے ہیں۔
یوم ِ جمعہ اہل اسلام کا اہم ہفتہ وار تہوار ہے جس میں تمام شہر یا علاقے کے افراد جمع ہو کر اللہ عزوجل کی عبادت بجا لاتے ہیں ۔ اہلِ عرب اس د ن کو "یوم العروبۃ "کہتے تھے 129جسے بعد میں اسلام نے جمعہ کے نام سے موسوم کیا۔جمعہ "جَمَعَ"سے مُشتق ہے جس کا مطلب "جمع کرنا"ہے اور عملی طور پر یہ اصطلاح جمعہ کی نماز کے لیے لوگوں کو مجتمع کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ 130حضورﷺ نے قبُا کے مقام پر پہلی نمازِ جمعہ کی امامت فرمائی تھی 131پھر بعد میں ہر جمعہ کے دن نمازِ ظہر کی جگہ جمعہ کی نماز کو مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا۔132نمازِ جمعہ سے قبل لوگوں کو دنیاوی و مذہبی معاملات اور آخرت کے بارے میں آگاہی دینے کے لئے مقامی زبانوں میں خطبات دئیےجاتے ہیں جس کے بعد عربی زبان میں خطبہ دینا بھی واجب تصور کیا جاتا ہے۔ 133
نمازِ جمعہ جا مع مسجد میں ادا کرنےکی ترغیب دی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوسکیں جس سے باہمی اتحاد و اخوت کا اظہار اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے میل ملاپ اور روابط مقصود ہیں۔ اس دن مسلمانوں کے لئے غسل کرنا، مسواک کرنا، صاف ستھرےکپڑے پہننا اور خوشبو لگا نا مستحب ہے۔ 134جب نماز کے لئے اذان دی جائے تو مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے اوقات میں تمام کاروبار ترک کردیں اور نماز کے لیے مسجد میں آجائیں135تاکہ وہ اسلام کی تعلیم حاصل کرسکیں، نماز کی صورت میں اللہ کی عبادت کریں اور نماز کے بعد ان لوگوں سےبھی ملاقات کریں جن سے دیگر ایام میں نہیں مل پاتے ۔ اس طرح معاشرتی اتحاد کو بھی تقویت ملتی ہے۔ 136
جمعہ کے اس ہفتہ وار تہوار اور مذہبی و سماجی سرگرمی کی بدولت انتہائی قلیل عرصے میں ،شعوب و قبائل میں بٹے عرب معاشرے میں اتحاد و نظم پیدا ہو گیا۔ مختلف قبائل و ملل سے تعلق رکھنے والے اور ایک دوسرے سے مختلف حیثیت اور سماجی مرتبے کے حامل افراد کا ایک صف میں کھڑا ہو جانا اور ایک ہی خالق و مالک کی اطاعت کرنا، اہلِ عرب کےلئے ایک ناممکن خواب تھا جسے اسلام نے عملی شکل عطا فرمائی اور عربوں کو متحد کر کے عالمی طاقت بنا دیا جس نے انتہائی کم وقت میں قیصر و کسریٰ کے درو دیوار ہلا کر رکھ دیئے۔ روزانہ کی فرض نمازوں میں جہاں چند محلوں کے افراد ایک مسجد میں جمع ہوتے تھے وہیں نمازِ جمعہ میں پورے شہر سے مسلمان مرکزی جامع مسجد میں جمع ہوتے تھے جہاں گورنر یا قاضی خطبۂِ جمعہ دیتا اور امامت کراتا تھا۔ اسی طرح مرکز میں خلیفۂِ ِ وقت خو د امامت کی ذمہ داری انجام دیتا تھا یوں مرکز سے لے کر تمام صوبوں میں ریاستی و انتظامی نظام باہم مربوط خطوط پر استوار تھا جس میں جمعہ کے دن کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔
اسلام کا ہمہ گیر و ہمہ جہت سماجی انقلاب تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔اسلام نے عرب کے باہم دست و گریباں اورٹوٹ پھوٹ کا شکا ر معاشرے میں ایک ایسے سماجی انقلاب کی بنیاد رکھی جس نے عرب کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی اور انہیں گمنامی کے اندھیروں اور جہالت کی پستیوں سے نکال کر دنیائے ِ عالم کی امامت کی مسند پر فائز کر دیا ۔ اسلام نے معاشرے کو نسل، رنگ، زبان، ملک اورعلاقائی و قومی مفادات پر مبنی کم درجے کی شراکتوں اور تعلقات کے برعکس صرف عقیدے کی شراکت اور تعلق پر قائم کیاجس کےشاندار نتائج یہ سامنے آئےکہ اسلامی معاشرہ کشادگی کو اپنے اندر سمونے کا مظہر بن گیا جہاں مختلف نسلوں، قوموں، زبانوں اور رنگوں کے افراد بغیر کسی تنگی و پریشانی کے اس معاشرے کا حصہ بن گئے۔ مسلمان کہلانے والے ہرشخص کےلئے لازمی تھا کہ اس کا رہن سہن اور معاشرت اسلام کی تعلیمات سے بہرور ہوں اور ان کا طرز زندگی وہی ہو جو رسول مکرمﷺنے وحیِ الہٰی کی روشنی میں دیاتھا جوقانونِ الہٰی کی پاسداری اور اتباع سے عبارت تھا۔
اسلام کی تعلیمات کے مطابق معاشرے میں تمام انسان بلحاظ ِپیدائش برابر قرار دیےگئے کیونکہ یہ سب ایک مرد و عورت یعنی حضرت آدم و حوا سے پیداکیےگئے ہیں 137لہٰذا انسان کی پیدائش معاشرے میں اس کی حیثیت کا تعین نہیں کرتی اوراسی وجہ سے ذات پات کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ اسلام میں یہ واضح کیا گیا کہ تمام مؤمنین معاشرتی اور نسلی پس منظر سے قطع نظر برابر ہیں اور ایک ہی طرح کی مراعات سے لطف اندوزہونے کے حقدار ہیں اور یہ عالمی مسلم بھائی چارے کا حصہ ہیں۔ 138اسلام میں درجہ بندی کا معیار صرف تقویٰ کو قرار دیا گیا۔ حقیقی امتیاز اور اعلیٰ مراتب کوصرف تقویٰ و پرہیز گاری ، دیانت داری ،سچائی اور راست بازی پر منحصر قرار دیا گیا ۔139اسلام کی آفاقی تعلیمات کی رو سےکسی عرب کو کسی غیرعرب (عجمی ) پر، کسی غیرِعرب کو عرب پر،کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور سیاہ فام کو سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے بلکہ فضیلت کا واحد معیار صرف تقویٰ ہے۔ 140عرب جو کہ اپنی لسانی برتری کے زعم میں مبتلاء تھے اور غلاموں اور عورتوں کو جانوروں سے بدتر سمجھتے تھے اسلام کے برپا کردہ معاشرتی انقلاب کی بدولت، اخوت و مساوات کی ایسی مثال بن گئے کہ جس نے آنے والی کئی صدیوں تک انسانی تاریخ و تہذیب پر انمٹ نقوش ثبت کیے اور تاریخ کے صفحات پر مساواتِ انسانی کے ایسے تابناک باب رقم کیے جن کی مثال بلاشبہ تاریخ ِ عالم میں کہیں نہیں ملتی ۔
اسلام نے خاندانی نظام کو مضبوط کرنے کےلئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ایک انسان تب ہی اچھا مسلمان بن سکتا ہے جب وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتاؤ کرے جس کے سبب خاندان اور معاشرہ مضبوط ہوتا ہے۔اسی لیے اسلام میں کسی رہبانیت (Monasticism) کا تصورنہیں ہے 141لہٰذا معاشرتی زندگی سے الگ تھلگ ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ ایک انسان پر اس کے ماں باپ، بیوی بچوں کی ذمہ داریاں ہیں اسی لیے اسلام نے ماں ، باپ، بیوی، بچوں، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔142
اسلام نے معاشرے کی تعلیم و تربیت کا ایک مربوط نظام قائم فرما یاجس کی بنیاد انسان کی پہلی تربیت گاہ یعنی خاندان پر رکھی گئی ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق خاندانی زندگی انسانی معاشرے کی بنیاد قرار دی گئی جو والدین اور جوان ہوتے ہوئے بچوں کے لئےایک محفوظ، صحت مند اور تربیت کے لئے سازگارماحول مہیا کرتی ہے۔ والدین کو اولاد کا سرپرست مقرر کیا گیا143تاکہ وہ اپنے بچوں کو صحیح اور غلط میں تمیز سکھائیں۔144اسلامی معاشرے میں والدین کو اپنے بچوں کی جسمانی، مذہبی اور روحانی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تاکہ بچے نظم و ضبط اور اخلاقی خوبیوں سے آراستہ ہوکراپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے آزاد افراد کے طور پر پرورش پائیں اور اس کے نتیجہ میں وہ اپنے خالق کے سچے اور حقیقی فرمانبردار بن سکیں لہٰذا محبت، شفقت، رحمت، 145ہمدردی اوررحمدلی جیسی انسانی خوبیوں کومنتقل کرنے اور فروغ دینے کا بہترین مقام ایک مناسب خاندان کو قرار دیا گیا جس نے عرب معاشرے میں ایک شعوری سماجی انقلاب کی بنیاد رکھی جس نے اسے دنیا کا سب سے بہترین معاشرہ بنا دیا اور ایسے افرادِ معاشرہ تیار کیے جن کا مطمعِ نظر اور مقصودِ حیات اپنے خالق و مالک کی رضا کا حصول او ر دنیا و آخرت کی بھلائی تھا۔
اسلام نے عورت و مرد کے رشتے کو مضبوط کیا اور ان کے آپس کے تعلق کو خاندانی نظام اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا ضامن قرار دیا گیا۔ عورت و مرد کے تعلق کو جسمانی تسکین کے حصول سے کہیں آگے بڑھا کر خاندان، معاشرے اور نسلِ انسانی کی بقاء سے مربوط کر دیا گیا اور لذت پرستی کے سراب کے پیچھے بھاگنے والے انسانوں کو یہ سمجھایا گیا کہ مرد و عورت کا جائز تعلق اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور ان کی صحیح معنیٰ میں تکمیل ہی کسی قوم کو اخلاق و کردار کی بلندیوں تک پہنچا کر انہیں دنیا و آخرت کی سربلندیوں سے سرفراز کرتا ہے اور ایک ایسی قوم و ملت تیار ہوتی ہے جو نہ صرف مقاصدِ فطرت کی تکمیل میں معاون ثابت ہوتی ہےبلکہ دنیا کی امامت کا تاج اپنے سر پر سجانے کی اہل قرار پاتی ہے۔ خاندان کا اسلامی تصور نکاح کے معاہدے کے ذریعے مرد اور عورت کی یکجائی ہے۔146نبی اکرمﷺ کی ہدایات اور تعلیماتِ نکاح اور کنبہ کے قیام پر زور دیتی ہیں۔ 147اسلام نے مردوں اور خواتین کو اپنے اپنےدائرۂکار میں رہنما بنایا ہے تاہم شوہر کو کنبہ کا سربراہ قرار دیا ہے 148اور اسے خاندان کی کفالت، دیکھ بھال،ضروریات کی فراہمی، حفاظت اور مجموعی طور پر سربراہی کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ اسی طرح اسلام نے بیوی کو گھر کی ملکہ کا رتبہ دیاہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق نیک و پارسا بیویاں وہ ہوتی ہیں جو اپنے شوہروں کی دیانتداری سے فرمانبرداری کرتی ہیں اور گھر و خاندان کی عزت و احترام کا خیال رکھتی ہیں۔149قرآن ِ حکیم بیوی اور شوہر دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے 150تاکہ دونوں ایک دوسرے کا احترام اور دیکھ بھال کرکے ایک بہترین کنبہ بنانے میں کامیاب وکامران ہوسکیں۔ خاندان کا بنیادی مقصد ایسے قابل افراد پید اکرنا ہےجو علم، عمل، نیکی کو فروغ دینے اور برائی کی روک تھام کے ذریعہ معاشرے کی تعمیر کریں نیزایسے خاندانوں کا قیام ہے جو دوسروں کے لئے نمونہ ہوں اور جن کے طرزِعمل پر چل کر نبی اکرمﷺ کے اسوۂِ حسنہ اور ہدایت و رہنمائی کی پیروی کی جا سکے۔ عرب معاشرہ جو کہ بے حیائی ، زنا کاری ،عیش و عشرت ، غیر فطری جنسی تعلقات ، کثیر الازدواجی ، قتلِ اولاد اور اولا د کے فرائض سے غفلت کے سبب تباہی کے دھانے پر تھا اسلام کی مندرجہ بالا تعلیمات سے فیض یا ب ہو کر ایک ایسے پر امن ترین تعمیری اور فلاحی معاشرے میں تبدیل ہو گیا جہاں محبت، خلوص، عفت، پاکیزگی ، شرافت ، ذہنی و قلبی ہم آہنگی اور ذہنی و قلبی سکون کا دور دورہ ہوگیا اور ازدواجی تعلق اور خاندانی و عائلی نظام دین و دنیا کی فلاح کے راستے میں مُمِد و معاو ن عناصر کے طو ر پر شامل ہو گئے۔
عرب معاشرے میں عورتوں کو ملکیت تصور کیا جاتا تھا اور دیگر اشیاء کی طرح انہیں بھی بطورِ میرا ث قابلِ انتقال سمجھاجاتا تھا۔ بچی کی پیدائش کو عرب کے کئی قبائل میں باعثِ شرم سمجھا جاتا تھا اور کئی قبائل میں بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم بھی پائی جاتی تھی۔عورت کی سماجی حیثیت انتہائی پست تھی اور انہیں کم تر جنس تصور کیا جاتا تھا ۔ اسلام نےمر د و عورت کی جنسی مساوات کے بجائے دونوں کی صنفی تقسیم پر زور دیا اور اس تصور پرناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ مر د وعورت میں سے کوئی بھی جنس خود کو زیادہ قوی محسوس کرے یا خود کو کمتر تصور کرکے خود کو دوسری جنس میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔151اسی لیے اسلام نے عورتوں کےلئے ، مردوں کے ساتھ مخصوص لباس اور دستار وغیرہ پہننے اور اسی طرح مردوں کےلئے عورتوں کی طرح زیورات پہننا، ان کی طرح باتیں کرنا اور ان کا لباس اختیار کرنا ممنوع قرار دیاہے۔152
زمانۂِ جاہلیت میں باپ دادا کے ترکہ سے عورتوں کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا153ایسی ناگفتہ بہ حالت میں قرآن کی درج ذیل انقلاب آفرین آیت نازل ہوئی 154جس میں عورتوں کا بھی حقِّ وراثت بیان کیا گیا ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا7 155
مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔
اسلام نے عورتوں پر خاندانی اخراجات کا بار اٹھانے کی ذمہ داری عائد نہیں کی اور اسے فقط مرد ہی کی ذمہ داری قرار دیا گیا تاکہ مرد و عورت دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طور سےپورا کر سکیں۔ اسلام نے خواتین کو مہذب زندگی، تعلیم، جائیداد ، شادی ، بچوں کی دیکھ بھال ، وراثت ، ملازمت اور معاشرتی احترام کا حق دیا ۔ 156ا سی طرح بحیثیت ماں عورت کو اسلام نے انتہائی بلند مقام عطا فرمایا ہے۔ اسلام نے ماں کے حقوق کو باپ سے تین درجے زیادہ رکھا ہے157حتی کہ اتنی رعایت ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز پڑھ رہا ہے تو ماں کے بلانے پر اسے ماں کے پاس جانا واجب ہے۔158اسلام نے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے جس میں اہم ترین ذمہ داری ماں کی ہے۔ ایک بچّہ اور بچی ہی کل جوان ہوکر اسلامی معاشرے کے رکن بنتے ہیں اور باپ اور ماں کی صورت میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حضوراکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ میں بچوں کے متعلق خاص نصیحتیں اور تعلیمات بکثرت ملتی ہیں ۔
عرب معاشرے میں بھی دنیا کے دیگر خطوں کی طرح غلامی عروج پر تھی اور یہ اس استحصالی نظام ِ معیشت کا ایک بنیادی جز تھی ۔ آغاز سے ہی اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے اور غلامی کے خاتمے کے دروازے کھول دئیےتھے۔ اسلامی قانون نے ان طریقوں کو سختی سے محدود کردیا تھا جن سےغلاموں کی تعداد بڑھ سکتی تھی۔اسلام نے جنگ کی صورت میں جنگی قیدیوں کےلیے غلام بنانے کے بجائے دیگر طریقۂ کار مثلاً غیر مشروط آزادی او ر جنگی تاوان وغیرہ کو فروغ دیا۔159اس کے علاوہ ایک غلام اپنے مالک سے اپنی قیمت کی ادائیگی کا معاہدہ کرکے بھی آزادی حاصل کرسکتا تھاجسے "مکاتبت" کے نام سے جانا جاتا ہے160تاہم اسلام نےجہاں غلامی کے ذرائع کا سدِ باب کیا وہیں کفارات اداکرنے کا ایک ذریعہ غلاموں کو آزاد کرنا بھی قراردیا تاکہ غلامی کا خاتمہ ہوسکے ۔اس کے ساتھ ساتھ غلاموں کو آزاد کرنے کی فضیلت بھی بتائی گئی جسے پانے کےلیے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں غلاموں کو خرید کر محض اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے بھی آزاد کیا یوں اسلام نے انسانی مساوات کے تصور کو عملی طور پر عرب معاشرے میں رائج کیا جس کی بنا پر آزاد و غلام برابر قرار پائے نیز غلام رکھنے کی صورت میں غلاموں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا گیا اور انہیں بھائی قرار دیکر ان کے کھانے پینے، رہائش اور لباس کا ویسا انتظام کرنے کا حکم دیا گیا جیسا کہ مالک اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
اسی طرح جنگوں سے پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات کے نتیجے میں کئی عورتیں بے بس اور بے سہارا ہو جاتی ہیں لہٰذا اسلام نے ان عورتوں کو بطور ِملکیت رکھنےکی اجازت دی تھی ۔161جب ایسی عورتیں مسلمانوں کی تحویل میں آئیں تو اسلامی تعلیمات کے مطابق انہیں مناسب کھانا ، تحفظ ، لباس ، رہائش اور عزت سے نوازا گیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ان سےجنسی تعلقات رکھنےکی اجازت بھی دی گئی تھی لیکن ان عورتوں کے استحصال کو سخت ناپسند کیا گیا تھا ۔ اگر باندی سے بچہ ہوجائے تو وہ "اُم ِ ولد" کے درجے پر چلی جاتی تھی جسے کئی مراعات حاصل ہوتی تھیں یہاں تک کہ "اُم ِ ولد" کے مرتبے کی باندیوں کو آزاد کرکے ان سےباقاعدہ نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ 162
عرب معاشرہ جنسی بے راہ روی کی تمام حدیں عبور کر چکا تھا۔ ایک مرد لا تعداد عورتوں سے اعلانیہ اور خفیہ جنسی تعلقات قائم کر سکتا تھا۔ اپنی عورتوں کو بہتر صفات کی حامل اولاد کے حصول کےلئے غیر مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرانے کا چلن بھی عام تھا۔ان میں ایسے بھی لوگ تھے کہ اگر کسی کی شجاعت و بہادری کی تعریف سنتے تو اپنی بیوی کو اس کے پاس بھیج دیتے کہ اس سے بہادر اولاد پیدا ہو۔زنا کی اولاد کے متعلق عورت جس مرد کی طرف انگلی اٹھا دیتی وہی اس کا باپ قرار پاتا تھا۔ عارضی نکاح کا عام رواج تھا۔ بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہ تھی نیز داشتاؤں اور طوائفوں سے مراسم رکھنا اور جنسی تسکین حاصل کرنا بھی بہت زیادہ معیوب خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ والد کی موت کے بعد اس کی بیویاں بھی بیٹوں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں یوں سوتیلی ماں کو بیوی بنانے کو بھی جائز تصور کیا جاتا تھا۔ عرب معاشرے میں اسلام نے جنسی آزادی اور غیر ذمہ دارانہ سلوک کو ماضی کی بے ضرراور معمولی غلطیاں قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا بلکہ یہ تعلیم دی کہ نکاح کے علاوہ جنسی تعلقات (Extra Matrimonial Sexual-Relationships)رکھنے والے ہر شخص کو سزا ملے اور عوام سرِعام اس سزا کا مشاہدہ کریں 163تاکہ اس فعلِ شنیع سے معاشرہ کو پاک وصاف رکھاجائے اور لوگوں کے دل میں سزا کا خوف پیدا ہو ۔ اس کا اصل مقصد معاشرے کو ا ن تمام غیر اخلاقی انسانی سرگرمیوں سے پاک و صاف کرنا تھا جو اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتی اور مواقع فراہم کرتی ہیں۔ 164یوں اسلام نے ایک ایسا کامیاب معاشرہ تشکیل دیا جہاں ایک طرف عورت کی عزت و حرمت اور عفت و حیا کا مکمل تحفظ تھا تو دوسری طرف جسمانی ضروریات کی تسکین کے جائز مواقع فراہم کئے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ خاندان اور خاندانی ذمہ داریوں کے احساس اور ان کی تکمیل کے رویوں کو فروغ دیا گیا یوں عرب معاشرہ ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں ہوگیا اور اس کی ترقی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی ۔
اسلام نے نکاح (شادی)کو معاشرے کی اساس قرار دیاجس کے مقاصد میں نفس کو قابو میں رکھنا، بچوں کی پیدائش اور ان کی تعلیم و تربیت، بچوں کی جسمانی ، ذہنی اور نفساتی ضروریات کی تکمیل اورمعاشرے کی فلاح اور بہتری کا نظم و نسق شامل ہیں۔ اسلام نے نکاح کو ایک ایسا عہد قرار دیا جسے مرد و عورت نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ وفا کرتے ہیں بلکہ ان کا یہ عہداپنے معبود ِ حقیقی کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور اسلام میں نکاح ( شادی) کو اولین انسانی ضرورت، نیک عمل اوراخلاص و دینداری کا محرک سمجھا جاتاہے۔ اسلام نے نکاح کو انبیائےکرام کی سنتوں میں سے ایک قرار دیا اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے اور جو میری سنت کو ناپسند کرتا ہےاس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 165اسلام نے عرب میں رائج تمدن کے برخلاف خواتین کو نکاح کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کا حق دیا۔ مروی ہے کہ ایک لڑکی نےنبئ کریم ﷺ کے پاس آکر بغیر رضا کے نکاح کیے جانے کی شکایت کی تو آپﷺ نے اسےاختیاردیا کہ چاہے توشادی کو قبول کرلے یا اسے باطل قرار دے۔166یوں اسلام نے نکاح کے ذریعے مرد و عورت کے درمیان ایسا رشتہ قائم کرنے کی ترغیب دی جس کی بنیاد باہمی محبت اور احساسِ ذمہ داری قبول کرنے پر ہو۔
اسلام نے مرد و عورت کی جانب سے ایجاب و قبول کونکاح کی حقیقت قرار دیا 167جو گواہوں (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کے سامنے ہو ۔168اسلام نے نکاح کےلئےصداق یعنی مِہر (Dower)، ولی(Guardian)اور شاہِدَین (Witnesses)کو ضروری قرار دیا ۔169مِہر کوشوہرپر بیوی کا حق اوراس کا ادا کرنا فرض قرار دیا 170اور شادی کے زیادہ سے زیادہ اعلان کو اور اس خوشی کے موقع پر زیادہ سے زیادہ عزیز و اقارب اور رفقاء کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا مستحسن قرار دیا اسی لئے شادی کے موقع پر ولیمہ کرنا رسول اللہﷺ کی سنت ہے 171جس میں مہمانوں کی بکثرت شرکت مستحن ہے کہ اس سے شادی کا زیادہ وسیع پیمانے پر اعلان ہوتا ہےاور یوں کثرت سے برکت اور رحمت کی دعا حاصل کرنے کا موقع ملتاہے۔172
اسلام نے ایک شخص کو ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھنے کی اجازت دی تاہم یہ اجازت اس شرط سے مشروط ہے کہ وہ اپنی تمام بیویوں کے تمام حقوق یکساں طور پر ادا کرنے کے قابل ہو۔ اگر کوئی شخص ایسا کرنے سے قاصر ہے تو اسے صرف ایک عورت سے نکاح ( شادی) کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ 173دوسری طرف خواتین کوایک وقت میں صرف ایک مرد سے شادی(نکاح)کرنے کی اجازت ہے تاکہ بچے کی نسل اور اس کا نسب محفوظ رہے۔ شریعتِ مطہرہ کایہ حکم انسانی نفسیات اورمعاشرتی تقاضوں کے عین مطابق تھا جس نے عرب معاشرے سے جنسی بے راہ روی کا خاتمہ کر کے افراد ِ معاشرہ کو ذمہ دار شہری بنا دیا جن کا نکاح کے معاملے میں مطمعِ نظر جسمانی ، جذباتی اور نفسیاتی ضروریات کی جائز ذرائع سےتکمیل کے ساتھ ساتھ ضرورتمند عورتوں کی کفالت اور اسلامی سانچے میں تربیتِ اولاد تھا یوں اسلام کی تعلیمات کے نتیجے میں زوال و انحطاط کا شکا ر معاشرہ دنیا کے عمدہ ترین معاشرے میں تبدیل ہوگیا اور آنے والے ہر عہد کے انسان کےلئے ایک قابلِ عمل مثال ثابت ہوا۔
قبل از اسلام عرب معاشرے میں رشتوں ناتوں میں محرم و نامحرم کا کچھ خاص فرق موجود نہ تھا ۔اسلام نے اس حوالے سے جامع قوانین دئیے اور رشتوں کے احترام اور تقدس کادرس دیا جس سے نہ صرف ان رشتوں کی اہمیت اجاگر ہوئی بلکہ رشتوں میں باہمی احترام اورتقدس کا جذبہ پیدا ہوا جس نے عرب معاشرے کی اخلاقی سطح اور عائلی نظام کو دنیا کےلئے نظیر بنا دیا۔اسلام کی تعلیمات کے مطابق مسلمان مرد کےلئے کچھ عورتوں کوممنوع قرار دیا گیا۔ان میں سے کچھ تو دائمی طور پرحرام ہیں جن میں دادی، دادی کی ماں اور اس سے اوپر والی خواتین پھر اس کی اپنی سگی اور سوتیلی ماں، نانی، بیٹی، پوتی، نواسی اور اس کے بچے، قطع نظر اس سے کہ نسب نامے میں ان خواتین میں سے کوئی کتنا ہی اوپر یا نیچے ہو۔ بہنیں، خالہ، پھوپھی، بھتیجی، بھانجی، ساس، بیویوں کی دوسرے شوہروں سےبیٹیاں، باپ کی بیوی اور بیٹے کی بیوی شامل ہیں 174نیز بچے کی رضاعت سے قائم ہونے والا رشتہ بھی خون کے رشتوں کی طرح قرار دیا گیالہٰذا رضاعی بھائی اور بہن وغیرہ سےنکاح کو حرام قرار دیا گیا۔
ان کے علاوہ کچھ عورتوں سے نکاح عارضی طورپر حرام ہے جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
اسلام سے قبل کے عرب معاشرے میں شادی بیا ہ اور طلاق وغیرہ جیسے اہم اور سنجیدہ ترین معاملات کو بھی ایک کھیل بنا کر رکھ دیا گیاتھا۔جس طرح شادیوں اور بیویوں کی کوئی حد نہیں تھی اسی طرح مردطلاق دینے کے معاملے میں بھی کسی قاعدے و ضابطے کا پابند نہیں تھا ۔مرد جب چاہے ، بغیر کسی وجہ کے عورت کو طلاق دے دیتا تھا اور اس کا حق مہر بھی ادا نہیں کیا جاتا تھا۔عورتوں کے زیورات اور دیگر سامان وغیرہ بھی زبردستی چھین لیا جاتا تھا ۔ اسلام نے طلاق اور خلع کےلئے بھی قواعد و ضوابط بنائے اور انہیں اسلامی معاشرے میں نافذ العمل کیا۔ اسلام کی تعلیمات کی رو سےنکاح کے عہد کی تنسیخ یا نکاح کی پابندی اٹھادینے کےلئے طلاق کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔اگر طلاق کی صورت میں عورت فوراً نکاح سے باہر ہوجائے تواسے طلاقِ بائن کہتے ہیں اور عدت گزرنے پر باہر ہو تو اسےطلاقِ رجعی کہاجاتاہےجس کو دینے کے طریقے علیحدہ علیحدہ ہیں۔180بغیر کسی وجہ کے طلاق دینا شرعی طور پر ممنوع ہے تاہم حدود شرعیہ کی پابندی نہ ہونے کے خوف سے طلاق دینا جائز ہے ۔181اس حوالہ سے قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ 229 فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ 230 وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ 230 182
دوبارطلاق دینے کے بعد یا تو دستور کے مطابق روک لینا ہے، یا اس کو حسن ِسلوک کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لیے اس (مِہر یا ہبہ) سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے جو تم ان کودے چکے ہو، مگر جب دونوں فریقوں کو یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے ، سو (اے مسلمانو ! ) اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت نے جو بدلِ خلع دیا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ اللہ کی حدود ہیں سو تم اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرو، اور جنہوں نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ پھر اگر اس کو (تیسری) طلاق دے دی تو وہ عورت اس (تیسری طلاق) کے بعد اس پر حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت اس کے علاوہ کسی اور مرد سے نکاح کرے، پھر اگر وہ (دوسرا خاوند) اس کو طلاق دے دے تو پھر ان پر کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اس (طلاق کی عدت کے بعد) پھر باہم رجوع کرلیں اگر ان کا یہ گمان ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں جن کو اللہ اُن لوگوں کیلیے بیان فرماتا ہے جو علم والے ہیں۔ اور جب تم عورتوں کو (رجعی) طلاق دو، پھر وہ اپنی عدت (کی میعاد) کو پہنچیں تو انہیں دستور کے مطابق (اپنے نکاح میں) روک لو یا ان کو حسنِ سلوک کے ساتھ چھوڑ دو ، اور ان کو ضرر پہنچانے کے لیے نہ روکے رکھو تاکہ تم ان پر زیادتی کرو ، اور جس نے ایسا کیا تو بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا ، اور اللہ کی آیتوں کو مذاق نہ بناؤ ، اور تم پر جو اللہ کی نعمت کی گئی ہے (اس کو) یاد کرو اور اللہ نے تم پر جو کتاب اور حکمت نازل کی ہے وہ تم کو اس کی نصیحت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اور یقین رکھو کہ اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
اس آیتِ کریمہ سے واضح ہوتاہے کہ طلاق(Divorce) جیسی غیر معمولی صورتحال میں وقوع پذیر ہونے والے جذباتی معاملے کو بھی انصاف ، نرمی ،رحمدلی اور نیکی پر مبنی برتاؤسے نمٹایاجائےاور اس بات کو ہمیشہ مستحضر رکھا جائے کہ اسلام کے نزدیک حلال وجائز چیزوں میں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کو طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے 183لہٰذا ایک مسلمان سے یہ تقاضہ کیا جاتا ہے کہ وہ حتی المقدور اس سے بچے۔ ان احکامات کے نتیجے میں اسلام نے خطۂِ عرب کے خاندانی نظام میں استحکام اور توازن پیدا کیا جس کی بنیاد پر ایک مضبوط اور متوازن معاشرے کی تشکیل ہوئی جس نے نہ صرف اس عہد کے متوازی معاشروں پر بلکہ تاریخِ انسانی کے بعد میں آنے والے ہر دور اور معاشرے پر انمٹ نقوش ثبت کیے۔ اسلام کی یہی خوبیاں اس کی تیزی سے اشاعت اور خلافت ِ اسلامیہ کی تیز رفتار وسعت کا سبب بنیں۔
اسلام میں طلاق دینے کا حق اگرچہ مرد کو دیا گیا ہے تاہم اس کے بالمقابل عورت کو بھی خلع کا حق حاصل ہے جس کے نتیجے میں وہ نکاح کی تنسیخ کر ا سکتی ہے۔ اگر عورت کسی وجہ سے مرد کے ساتھ نہ رہنا چاہے مثلاً اسے اس مرد کی شکل و صورت پسند نہ ہو یا کسی اور طبعی نامناسبت کی وجہ سے وہ شوہر کو ناپسند کرتی ہو تو وہ اپنا مِہر چھوڑ کر یا کچھ مال دے کر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کی بیوی نبی کریمﷺکے پاس پہنچ کر عرض گزار ہوئیں کہ میں اسلام کے بعد کفر (ناشکری یا شوہر کے حقوق کو ادا نہ کرنا) کو ناپسند کرتی ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : کیا تم اس کا باغ واپس کردوگی ؟ (ثابت نے ان کو مِہر میں باغ دیا تھا) انہوں نے کہا : ہاں ! رسول اللہ ﷺ نے ثابت سے فرمایا : باغ لے لو اور اس کو طلاق دے دو۔184
اس حدیث سے واضح ہوا کہ جب کسی عورت کو کسی طبعی ناہمواری کی وجہ سے شوہر ناپسند ہو جس وجہ سےاس کے حقوق ادا نہ کرسکے تو پھر وہ قاضی سے رجوع کرے جو اسے مِہر واپس کرکے یا باہم متفقہ شرائط پر شوہر سے طلاق دلوادے۔اس معاملے میں قاضی شوہرسے طلاق دلوائے گا از خود نکاح فسخ نہیں کرے گا۔ 185خلع کے بعد طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے اور جو مال مقررہوا ہے، عورت پر اُس کا دینا لازم ہوجاتا ہے۔186یوں نکاح ختم کرنے کے معاملے میں بھی اسلام نے کچھ حدود و قیود اور قواعد و ضوابط کا پور ا کرنا ضروری قرار دیا ہےجس سے شوہر اور بیوی دونوں کے حقوق کا نہ صرف تحفظ ہو گیا بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلا سوچے سمجھے جذباتی ہو کر شادی جیسے مقدس رشتے کو ختم کردینے کا دروازہ بھی بند ہوگیا۔
اسلام نے جہاں عقائد اور عبادات معاملات میں اہل عرب اور پوری دنیا کی اصلاح فرمائی وہیں معاشرتی معاملات میں ان کی رہنمائی کے لئے جامع اصول ضوابط بیان فرمائے تاکہ کسی سطح پر بھی معاملات کے حل کے حوالے سے کوئی کمی باقی نہ رہ جائے ۔ اہل عرب کی معاشرتی برائیوں اور ان کی اصلاح کے حوالے سے چند امور کی وضاحت درج ذیل ہے:
زمانۂ جاہلیت میں کئی عرب قبائل کےلوگ اپنے کم عمر بچوں اور بچیوں کو فقر کے ڈر سے، 187بالخصوص لڑکیوں کو عسکری معرکوں اور وسائلِ معاش میں ساتھ نہ دے سکنے کی وجہ سے بوجھ سمجھ کر188قتل کردیاکرتےتھے۔ایسے سنگین حالات میں اسلام نے نہ صرف اس سفاکی وبربریت کی شدید مذمت کی بلکہ اس وحشیانہ رسم کو یکسر ختم کر کے ایک گھناونا جرم قرار دیا۔قرآن ِ حکیم کے الفاظ میں عرب جاہلیت کے ان حالات کا تذکرہ مندرجہ ذیل طریقے سے کیا گیاہے:
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ 58 يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ59 189
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خوش خبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے۔وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔
یہاں قرآن کی اس آیت میں "خوشخبری" کے الفاظ سے جہاں اسلام میں عورت کوحاصل عزت اور اہمیت واضح ہوتی ہے وہیں انسانیت کویہ حکم بھی دیاگیا ہے کہ وہ بھوک و افلاس ، غربت یا وسائل کی کمی کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کریں190کہ یہ اللہ پر ایمان میں کمزوری کی دلیل ہے کیونکہ ایک مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ دنیا کے ہر جاندارسمیت انہیں اور ان کی اولاد کو رزق دینے کی ذمہ داری خالقِ کائنات کی ہے191لہٰذا ایک مسلمان کیلئے صرف اپنے خالق ومالک پر بھروسہ کرنا اور اس فعل شنیع اور گناہ ِ عظیم کے ارتکاب سے ہر صورت بچنا ضروری ہے نیز اسے تنگیِ رزق کی صورت میں اللہ عزوجل سے کشادگئ رزق کی دعا مانگنی چاہیئے اور اسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا چاہیے ۔اسلام نے عربوں کے یہاں سے انسانی نسل کشی کو مکمل طور پر ختم کرکے انہیں اپنی اولاد کا محافظ بنا دیا اور لڑکیوں کو رحمت قرار دے کر، بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور انکی شادی کی ذمہ داریوں کی احسن طریقے سے انجام دہی کو جنت کی سند قرار دیا۔
دورِ جاہلیت میں عربوں کےیہاں جسم فروشی اور ناجائز جنسی تعلقات عام تھے جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی پستی اور زوال کی بدترین مثال بن چکا تھا۔ امراء نے شراب و شباب اور لہو ولعب کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا ۔اسلام نے معاشرتی بگاڑاورفسادوانتشار کا سب سے اہم سبب ناجائز تعلقات اورزنا کاری کو قرار دیا اسی لیے اسلام ایک مسلمان کو زنا کرنا تودور کی بات اس کے قریب تک جانے کی بھی اجازت نہیں دیتا ہے۔اسلام نے زنا کا ارتکاب کرنے والوں کےلئے سخت سزا کا اعلان کیا اور اس فعل کو حرام اور بڑا گناہ قرار دیا۔ ارشاد ربانی ہے:
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ 2 192
بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (100) کوڑے مارو (جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر اللہ کے دین (کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو۔
اس سزا کی شدت، خصوصاً نکاح کے بعد سنگسار کرنے کی سخت سزا اس جرم کی شدت کو ظاہرکرتی ہے۔ اس سخت سزا نےعرب معاشرے میں درحقیقت، جسم فروشی اور دوسرے ناجائز تعلقات سے باز رکھنےکے عمل کو یقینی بنا کر معاشرے کی پاکیزگی وطہارت میں ایک مؤثر اور شاندار کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں بہت کم عرصے میں معاشرے سے زنا، لواطت اور دیگر اخلاقی برائیوں کا سدِ باب ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو انسانی فطرت کے تقا ضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار ازواج کی اجازت دی تاکہ کوئی حرام راستہ کی طرف جانے کے بجائے نکاح کے ذریعے حلال راستہ اختیارکرے۔یوں اسلام نے ہر طرح کے ناجائز اور غیر فطری تعلقات پر پابندی لگا کر مسلمانوں کے نسب اور ان کے اخلا ق و کردار اور شرم و حیاء کا تحفظ یقینی بنادیا جس کے نتیجے میں ایک ایسا اعلیٰ معاشرہ تشکیل پایا جہاں مضبوط کردار اور اعلیٰ اخلاق کے حامل نفوسِ قدسیہ نے اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کےلئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیا اور تاریخ ِ انسانی کے صفحات پر ہمیشہ کےلئے اپنا نام امر کر گئے۔
قبل از اسلام دور میں اہلِ عرب کے یہاں کوئی باقاعدہ تعلیمی نظام موجود نہ تھا تاہم لکھناپڑھنا اور دیگر علوم و فنون سیکھنے کےلئے اس فن کے ماہرین کے پاس جا کر ان سے علم و فن کا اکتساب ممکن تھا۔باقاعدہ تعلیمی ادارے تھے اور نہ ہی زیادہ تر لوگوں کا لکھنے پڑھنے سے کوئی خاص شغف تھا تاہم زیادہ تر اہل ِ عرب شاعری اور زبان و بیان پر مہارت رکھتے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں اشعار زبانی یاد رکھتے تھے۔دراصل عربوں میں انہی علوم نے رواج پایا تھا جو ان کی فطرت کے لحاظ سے ضروری تھے کیونکہ ان پر بدویت غالب تھی۔وہ علم الانساب، خطابت، علم ِ نجوم ، علم ِقیافہ ، علم ِ کہانت، علمِ قدم شناسی و کھوج، گھوڑوں کی تربیت و پرورش ، امراض کے علاج ،علم الانواء اور موسمی ہواؤں کے علم میں مہارت رکھتے تھے 193تاہم ان علوم و فنون کےلئے باقاعدہ اداروں ، درس گاہوں اور تعلیمی نظام کی موجود گی کا ثبوت نہیں ملتا ۔ لوگ اپنی دلچسپی اور ضرورت کے مطابق دستیاب ماہرین کے پاس رہ کر اور ان کے ساتھ سفر کر کے مختلف علوم کی تحصیل کرتے تھے۔بعض افراد تحصیل ِ علم کےلئے حیرہ ، شام اور دیگر مراکزِ علم کا سفر بھی کرتے تھے۔ اسلام نے علم حاصل کرنے اور سیکھ کر اسے سکھانے پربہت زور دیا یہاں تک کہ پہلی وحیِ الہٰی میں بھی تحصیلِ علم ، پڑھنے لکھنے اور علم پھیلانے کا حکم دیا گیا تھا۔ 194اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے عام مسلمانوں پر اہلِ علم کو فوقیت وبرتری عطافرمائی 195بشرطیکہ وہ علم کو اپنے عمل وکردار سےمزین کرکے196 معاشرہ کو اس سے روشناس کروائیں۔اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ کتاب کو پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کےلئے علم کا حصول ضروری سمجھا گیا۔علم کی اس قدر اہمیت اور اسلامی معاشرے میں اہلِ علم کی خاص قدو منزلت کے سبب عرب میں ایک علمی ، شعوری اور فکری انقلاب برپا ہو گیا جس نے کچھ ہی عشروں میں عرب کے خانہ بدوشوں کو دنیائے علم کا امام بنا دیا ۔
اسلام نےصنف و جنس سے قطع نظر ہر انسان پر علم کا حصول فرض قرار دیا۔ 197 اسلام میں نہ صرف مذہبی تعلیم بلکہ مظاہر قدرت سمیت دنیا ومافیہا کے مختلف اجزا اور شعبوں سے متعلق علوم کو بھی لازم قراردیاہے۔ البتہ مذہبی علم انسان کی روحانی بالیدگی ونشونما کا اصل سبب ہے اوراعلیٰ ترین درجات کے حصول کا ذریعہ بھی ہے نیزقرآن مجید اسی علم کے حصول کی دعوت وترغیب دیتاہے198جو حضور اکرم ﷺکے مشکوٰۃ ِنبوت سے ماخوذ ہے۔
آپ ﷺنے ذہانت کی سطح، معاشرتی حیثیت یا کسی اور ایسی درجہ بندی کی بنیاد پر طلبا میں فرق نہیں فرمایا199بلکہ تعلیم کے حصول میں مردوعورت، بچہ، جوان اور بوڑھے سب کو مساوی حیثیت دےکر انہیں تعلیم دی حتی کہ ایک ہی مجلسِ تعلیم میں صاحب ِ ثروت اور صاحبِ فقر صحابہ بیٹھےہوتے تھےجو نبئ رحمت ﷺکی مجلس میں برابری و مساوات کی واضح علامت تھی نیز اسلامی نظامِ تعلیم کی یہی خوبصورتی تھی کہ مجلسِ تعلیم میں کسی قسم کا بھید بھاؤ یا برتری وکمتری کی جھلک تک نہ تھی ۔اسلام نے ہر عام و خاص تک تعلیم کی رسائی ممکن بنا دی۔اس مقصد کےلئے مدارس، مکاتب اور اساتذہ کا ایک جال بچھا دیا گیا جس نے عرب کے دور دراز گوشوں میں بھی ہر شخص تک علم کی روشنی پہنچا دی۔
اسلام لڑکیوں کی تعلیم وتعلم اور تربیت کا بھی خاص اہتمام کرتا ہے 200تاکہ اسلامی معاشرہ کسی بھی درجہ میں پستی کا شکار نہ ہو۔ علم کے حصول کےلیے غیر مخلوط نظامِ تعلیم رائج کیا گیا جس میں مردوں اور عورتوں کےلئے الگ الگ اہتمام کیا جاتا تھا۔ نبی اکرم ﷺنےعورتوں کے لیے ایک خاص دن مقرر کیاہوا تھا جس میں آپﷺ انہیں خصوصی طور پر درس دیتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتےتھے۔ 201ازواج مطہرات کے ذمہ تھا کہ وہ دیگر خواتین کو تعلیم دیں 202تاکہ معاشرے کی تمام خواتین تعلیم یافتہ ہوجائیں۔
اسلام نے غلاموں کو تعلیم فراہم کرنا بھی اتنا ہی ضروری قرار دیا جتنا انہیں آزاد کرنا اور بالخصوص باندی کو اچھا ادب سکھانے، اچھی تعلیم دےکر آزاد کر نے اور پھر اس سے نکاح کرلینےپر دُگنے اجر وثواب کاوعدہ کیاہے۔ 203اسلام کا یہی منشور تھا کہ ہر فرد کو تعلیم دی جائے چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقے اور گروہ سے ہو تاکہ افرادِ معاشرہ کو تعلیم وتعلم سے بہرور کرکے معاشرہ کا قابل فخر فرد بنایا جاسکے۔
اسلام سے قبل عرب کا معاشی نظام انتہائی فرسودگی کا شکار تھا جس کے سبب دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو چکی تھی اور زیادہ تر آبادی انتہائی غربت کا شکا ر تھی۔ایک طرف ایک خاص طبقے نے ذرائع معیشت پر اپنا کنٹرول قائم کر رکھا تھا تو دوسری طرف یثرب اور خیبر کے چند یہودی قبائل نے استحصالی ذرائع کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے معیشت کو یرغمال بنا لیاتھا۔ ہتھیاروں کی تجارت چمکانے کےلئے خانہ جنگی اور خون ریزی کرانے اور پھرجنگ کی عفریت کا پیٹ بھرنے کےلئے بہت زیادہ سود پر قرضے دینے کے یہودی کاروبار یا ایک طرح سے بینکاری کے استحصالی نظام نے اہل ِ یثرب اور عرب کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو قرض کے بوجھ تلےنڈھال کر دیا تھا۔سود خوری، جُوا و قماربازی اور مال کی محبت نے اکثر مالدار لوگوں کی آنکھوں پر لالچ ، حرص اور طمع کی پٹی باندھ دی تھی۔ سود کی لعنت اس حد تک ہمہ گیر ہو چکی تھی کہ عورتوں اور بچوں تک کو رہن رکھوالیا جاتا تھا۔ اگر معینہ مدت کے اندر ادائیگی نہ ہو پاتی تو مرتہن ان کا مالک ہو جاتا تھا۔ مزدوروں اور کاشتکاروں کا طبقہ سب سے زیادہ سودخوروں کے آہنی پنجے کی گرفت میں جکڑا ہوا تھا ۔ سرمایہ دار طبقہ، جن میں سے اکثر یہودی تھے انسانیت سوز طریقوں سے عام لوگوں کا خون چوس رہے تھے ۔معاشی نظام کی اس خرابی کے نتیجے میں سرکش طبع افراد اور قبائل لوٹ مار کی طرف مائل ہو گئے یہاں تک کے کچھ قبائل نے اپنا ذریعہِ معاش ہی رہزنی اور غارت گری کو بنا لیا تھا ۔ اسلام نے ان تمام معاشی برائیوں اور افراط و تفریط کو ختم کر کے ایسا نظام ِ معیشت عطا فرمایا جس نے دولت کی منصفانہ تقسیم اور اس کی ترسیل کو یقینی بنایا جس کے سبب کچھ ہی سالوں میں اتنا زیادہ توازن پیدا ہو گیا کہ خلفائے راشدین کے دور میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا۔
اسلام کے مطابق زمین پر موجود ہر شے، چاہے وہ دولت ہو یا ذرائع معیشت، سب کا حقیقی مالک اللہ عزوجل ہے جبکہ انسان ان امانتوں کا امین اور انہیں ان کے مالکِ حقیقی کے احکامات کے مطابق خرچ کرنے کا پابند ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا ومافیہابالخصوص زمین انسان کے نفع کےلیے تخلیق فرمائی ہے لہٰذا زمین سے اپنا رزق حاصل کرنے میں تمام انسان برابر کے شریک ہیں اور ا س حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتااور نہ ہی ایک کو دوسرے پرترجیح دی جاسکتی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے کرۂ ارض پر بے تحاشہ نفع بخش مادی وسائل پیدا فرمائے ہیں 204تاہم دنیاوی مادی فوائد کے حصول کے ساتھ ساتھ اخروی زند گی کے فوائد و نقصانات سے بھی ترجیحاً آگاہ اور باخبر کیا گیاہے۔205ان تمام چیزوں اور ذرائع سے حصولِ نفع اور حصولِ مال کی ممانعت فرمادی گئی جس میں کسی دوسرے انسان پر ظلم وجبر ہوتاہو یا اپنی اخروی زندگی داؤ پرلگتی ہو نیز جائز و ناجائز اشیاء کے فرق کی واضح انداز سے تعریف کردی گئی206تاکہ مسلمان حکمِ الہٰی کوقبول کرکے دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں۔
اسلام نے دوطرفہ باہمی رضامندی سے کاروبار کرنے اور دوسروں کی اشیاء اورملکیتوں کو ظلم و ناانصافی اور غلط طریقے سےغصب کرنے سے بچنے کی ہدایت دی ہے207بالخصوص ناپ اور تول کا پورا حساب رکھنے اور ان میں کسی قسم کی کمی یا بددیانتی نہ کرنے کا حکم دیا۔ 208ان قوانین کی پابندی کرنے والوں کو ہی سچا مومن سمجھا گیا ہے209جبکہ اس کے برعکس کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی لعنت کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔210
اسلامی نظامِ معیشت میں خمر یعنی شراب (211 و خنزیر 212کی تجارت اور سود213کے لین دین کو حرام قراردیاگیا نیزخرید و فروخت کی بھی کچھ اقسام ناجائز قراردی گئیں جن میں ملامسہ، منابذہ ، الحصۃ اور حبل الحبلیٰ وغیرہ شامل ہیں اور اس طرح کے لین دین کرنے والوں کی انتہائی شدید مذمت کی گئی کیونکہ اس طرح کے لین دین معیشت اور معاشرے کی بقاء وسلامتی کے لیے نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ غریب عوام کے استحصال پر مبنی تھے۔ان سب میں بالخصوص سب سے قبیح سود کا سلسلہ تھا جس کی مذمت بیان کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے ارشادفرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ 278 فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ 279 214
اے ایمان والوں! اگر تم سچے مسلمان ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود چھوڑدو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ قبول کرلو، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
اور اس کی مزید مذمت نبی اکرم ﷺنے سود سے جڑے ہر شخص پر لعنت فرماکر کی 215نیزفرمایا کہ سود کےستر درجات ہیں ، جن میں سے کم سے کم درجہ اپنی ماں سے زنا کرنا ہے۔216عرب کے اس جہالت زدہ معاشرے میں سود کا خاتمہ ایک معجزہ تھا جس نے ایک ایسے عظیم معاشی انقلاب کی بنیاد رکھی جس کا انسانیت ہزاروں سال سے خواب ہی دیکھ رہی تھی۔دنیا کا کوئی بھی انسانی فلاح کا دعویدار نظام ، نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں کوئی ایسی مثال پیش کر سکتا ہے جس میں اتنے بڑے پیما نے پر سود ی نظام کا خاتمہ کر کے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو۔ اسلام کا یہ ایسا عظیم الشان اقدام تھا جس نے فلاحِ انسانی کے ایک ایسے نظام کی داغ بیل ڈالی کہ جس کے تحت آنے والی کئی صدیوں تک امتِ مسلمہ سود سے مکمل طور پر پاک رہی اور معاشی مساوات اور توازن برقرار رہا۔
جُوا (Gambling) جو کہ عرب میں عام رائج تھا اور امراء کا پسندیدہ مشغلہ تھا، اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام قرار دیا گیااور اس کی بھی شدومد سے مذمت بیان کی گئی ۔جیساکہ باری تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ارشادفرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 90217
اے ایمان والو! شراب اور جُوا اور بت اور پاسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال ِشیطان میں سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔
جوے اور دیگر مذکورہ اشیاءسے اس لیے منع کیا گیا تاکہ مسلمان اپنی دنیاوی اوراخروی،روحانی واخلاقی اور اجتماعی زندگی میں کامیاب وکامران ہوجائیں۔اسلام نے صرف ان مالی وسائل اور مالیاتی ذرائع پر ہی پابندی عائد کی جو بنی نوع انسان کے مفادات کے خلاف تھے۔ خرید وفروخت کےجائز طریقوں یعنی مضاربہ،اجارہ، سَلَم اور مرابحہ کی اجازت د ی گئی جن کے سبب ایک مضبوط معیشت کی بنیاد پڑی۔218ان کا مختصر تذکرہ حسب ذیل ہے:
مضاربت اس عقد کا نام ہے جس میں ایک فریق کاپیسہ ہوتاہے اور دوسرا فریق اپنے عمل اور محنت و مہارت سے کاروبار کرتاہے۔219یہ دونوں افراد منافع اور خسارے کا تناسب اور دیگر شرائط طے کرنے کے بعد کاروبار یا تجارت کا باہمی معاہدہ کرسکتے ہیں۔
یہ ایک کرائے کا معاہدہ ہوتاہے جس میں کرائے دارصرف ایک مخصوص مدت کے لیےاثاثہ(Asset) اپنے پاس رکھ کے فوائد حاصل کرتاہے۔ 220کرایہ ان فوائد پر وصول کیا جاتا ہے جو کرائے دار اثاثہ رکھنے کے دوران وصول کرتا ہے221اورمتفقہ مدت کی تکمیل کے بعد اثاثہ مالک کو واپس کردیا جاتا ہے۔
کسی چیز کو خرید کراس پر کچھ اخراجات کرنے کے بعد مجموعی رقم پر منافع رکھ کر اسے فروخت کرنے کو مرابحہ کہتے ہیں۔222اس معاہدے کی رو سے سرمایہ کار ان مصنوعات میں سرمایہ کاری کرتا ہے جو خریدار کو مطلوب ہوتی ہیں اور وہ ان مصنوعات کو خرید کر منافع کی اعلان کردہ شرح کے ساتھ خریدار کو فروخت کردیتا ہے۔223خریدار سامان لے جاتا ہے لیکن بعد کی تاریخ یا قسطوں میں پہلے سے باہمی طے شدہ شرائط کے مطابق رقم ادا کرتا ہے۔
اس معاہدہ میں فصل یا کسی چیزکاخریدار تمام رقم پہلے سے ادا کرتا ہے اور بعدمیں فصل یاچیزکو وصول کرتا ہےاوراس عمل کی 224آپ ﷺ نےاجازت مرحمت فرمائی تھی۔225
اسلامی نظام ِمعیشت نے نہ صرف حلال طریقے سے مسلمانوں کو رزق کمانے کا طریقہ سکھایا بلکہ اپنے بہن بھائیوں اور پورے معاشرے کے ساتھ اس کے اشتراک کا طریقہ بھی بتا یا تاکہ معاشرے کی فلاح وبہبود کے ساتھ ساتھ اخروی طورپر بھی کامیابی وکامرانی مقدر ہوسکے۔یوں اسلام نے ایسے نظام ِ معیشت کی بنیاد رکھی جس نے ایسے تما م معاشی معاملات ، طریقوں اور ذرائع کے استعمال کی اجازت دی جن سے انسانیت کی دنیاوی و اخروی فلاح و بہبودممکن تھی ۔ لالچ، حرص،طمع، غرر، اشتباہ ، دھوکہ دہی اور ظلم کے تمام دروازے بند کر دئیے گئے اور انسانوں کے معاشی معاملات کوللّٰہیت ، سچائی، ایمانداری، عدل، انصاف، بے غرضی، دنیاوی و اخروی فلاح، خدمت ِ خلق اور دوسروں کےلئے آسانیاں پیدا کرنے کی بنیادوں پر استوار کیا گیا یوں عرب میں قائم کیا گیا یہ نظامِ معیشت ہر زمانے، خطے،قوم، ملت، مذہب ،معاشرے اور طبقے کے انسان کے لیے مثال بن گیا جس کو اپنا کر ہی انسان حقیقی فلاح اور ترقی حاصل کر سکتا ہے۔
عرب کسی بھی قسم کے قانون سے نا آشنا تھے اورصرف طاقت ہی کو ان کے یہاں کا قانون سمجھا جاتا تھا۔ قبیلے کا سردا ر یا طاقتور لیڈر قانون سازی کا اختیار رکھتا تھا جس کی بنیاد اکثر طاقتوروں کے اقتدار اورمعاشی و سیاسی فوائد کے تحفظ پر ہوتی تھی۔دورِ جاہلیت میں عربوں کے یہاں امیر کےلئے الگ قانون تھا جبکہ غریب اور کمزور کےلئے الگ نیز طاقتور اور امیر لوگ باآسانی قانون کے شکنجے سے نکل جاتے تھے۔اسلام نے جاہلیت کے قوانین کو مسترد کرتے ہوئے اہلِ عرب کو ایسا جامع و کامل الہامی قانون عطا فرمایا جس کے نفاذ سے چہار سو انصاف کا دور دورہ ہوگیا اور اسلامی حکومت کے عدل و انصاف کی شہرت دور دور تک پھیل گئی جس کے سبب مختلف قبائل، ریاستوں اور خطوں کے لوگوں نے اسلامی حکومت سے الحاق کو باعث فخرسمجھا اور اسلامی خلافت کا حصہ بن گئے ۔ اسلام نے ایک ایسا جامع نظام ِ قانون عطا فرمایا جس میں قانون کی بنیاد احکامِ الہٰی اور سنتِ رسول ﷺ تھی۔ اسلامی نظام ِ قانون کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ حاکم ِ اعلیٰ فقط اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے جس کےحکم کی توضیح وتشریح کرتے ہوئے اس کے رسولِ محتشمﷺ نے بقیہ قوانین واصول فراہم کیے نیز قرآن و سنت کےان اصولوں کی روشنی میں مجتہدین اہلِ علم نے ایک مکمل نظامِ قانون تشکیل دیا۔
اسلامی تعلیمات کےمطابق حکم دینے اور قانون مہیاکرنے والی ذات اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ہے 226اور انسان کی کثافت ِ مادی اور علمی و عملی حدبندیوں کےسبب یہ احکامِ الہٰیہ جماعتِ انبیاء و رسل کے ذریعہ سے انسانیت کو فراہم کیےگئے۔ 227اس کی آخری کڑی حضور اکرمﷺ ہیں جنہوں نے انسانیت کو قیامت تک کےلیے اسلامی قانون من وعن ایساہی پہنچایا جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر نازل فرمایا تھا 228لہٰذا یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ اسلامی قانون ان تمام تر عیوب اور نقائص سے مبرّا ومنزہ ہے جو انسانی ذہن کے وضع کردہ قوانین میں انسانی مفادات کی وجہ سے موجود ہوتے ہیں۔یوں اہلِ عرب کو عطا کردہ قوانین ایسے آفاقی و جامع قوانین تھے جنہوں نے انسانیت کو حقیقی فلاح وبہود کی عملی شکل سے روشناس کرایا۔
اسلام میں قانون کا اولین مصدر قرآن حکیم ہے 229جس کی توضیح وتبیین اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسول اکرمﷺ نے فرمائی ہے 230اوریہ تبیین ہی درحقیقت دوسرا مصدرہے جسےسنتِ رسولﷺکہاجاتاہے ۔ان دونوں مصادر میں حکم کی عدم دریافت کی صورت میں تیسرا مصدر سبیل المومنین یعنی اجماعِ امت کی اتباع کا ہے231جو درحقیقت قرآنی حکم ہی ہے۔ان تینوں مصاد رکے بعد چوتھا مصدر مجتہد کی رائے کا ہے232جو دراصل حکمِ نبویﷺکی اتباع ہی ہے اور اسے قیاس سے تعبیر کیاجاتاہے233لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرآن وسنت و اجماع اصلی مصادر ہیں جبکہ قیاس فروعی مصدر ہے ۔234
رسول اکرمﷺنےمدینہ منوّرہ ہجرت کرنے کے بعد اسے اپنی ریاست قراردیا اور پھر اس کے لیےہجرت کے پہلے سال بمطابق چھ سو بائیس(622) عیسوی میں ایک تحریری آئین جاری کیاجس میں حکمران اورمسلم وذمی شہریوں کے متعلقہ حقوق و فرائض، نظامِ انصاف کی نگرانی، قانون سازی،دفاعی تنظیم سازی وغیرہ اور اس عہد کی دیگر ضروریات سے متعلق مسائل کا حل درج کیاگیا تھا 235نیز یہ آئین مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دورسمیت ہردور میں مشعل راہ بنایا۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق کوئی بھی شخص اپنےفرائض اور ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں ہے حتی کہ نبئ اکرمﷺ خود بھی ان پابندیوں کی پیروی فرماتے تھے۔ اسلامی قانونی نقطۂِ نظر کے مطابق مردوعورت، غنی وفقیر، حاکم ومحکوم حتی کہ حکمرانوں کے مابین بھی کسی قسم کاکوئی فرق نہیں تھا۔اس کا مقصد عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرکے انسانی معاشرہ کو امن وسکون کا گہوارہ بنانا تھا۔ رسولِ اکرمﷺنے چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جوابدہی کا تصور عطافرمایا تھا، اس وجہ سے ہر مؤمن اپنی ذمہ داریوں کوکسی قانونی گرفت سے ڈرے بغیر پوراکرتارہتا تھاتاکہ وہ خود کواللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اورآخرت کی سزا سے بچاسکے لہٰذا یہ نظامِ قانون دیگر نظاموں سے کئی گنا اس لیے بہتر تھاکہ دوسرے قانونی نظاموں میں ذمہ داریاں کسی قانونی گرفت سے ڈرکر تواداکی جاتی ہیں لیکن فرض شناسی سے نہیں ۔236مسلمانوں کے اندر جوابدہی کا ایسا نظام قائم ہوگیا جس کی بنیاد خشیت ِ الہٰی تھی یوں یہ نظام دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی فلاح کا بھی ضامن بن گیا۔
اسلامی قوانین کا مقصد معاشرے کو پاکیزہ وپر امن بنانا تھا لہٰذا معاشرہ کے امن وسکون اور اس کی پاکیزگی وسلامتی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے جرائم کے حوالہ سے ذیل میں چند قوانین کا سرسری تذکرہ کیاجارہاہے جو کہ قدیم عرب میں دیگر تہذیبوں کی مثل تقریباً ناپید تھے۔
نکاح سے پہلے زنا کا ارتکاب عدالت میں ثابت ہو نے کے بعد زانی وزانیہ کو مسلم ہجوم کے سامنےسو(100) کوڑے مارے جانے کا قانون دیا گیا237تاکہ دیگر افراد عبرت ناک سزا دیکھ کر اس جرم سے باز آجائیں238جبکہ شادی کے بعد بدکاری کا ارتکاب عدالت میں ثابت ہو نےپر"رجم"کی سزا مقرر کی گئی239یعنی زانی یا زانیہ کو سنگسار کیاجائے240البتہ حاملہ عورت کو بچہ کی پیدائش اورپھر رضاعت مکمل کرنے کےبعد سزا دی جاتی تھی۔241
عصمت دری یا جنسی زیادتی چونکہ زنا کاری سے بڑا سفاک معاملہ ہے لہٰذا اسلامی قانون کے مطابق اس کی سزا بھی سنگسار کرنا تھی 242اور اس میں شادی شدہ وغیرشادی شدہ دونوں برابر تھے البتہ یہ حکم تعزیراً تھا۔
غیر فطری جنسی تعلقات یعنی ہم جنس پرستی، جانوروں کے ساتھ جنسی تعلقات یا محرم رشتوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی اسلام نے سخت سزا نافذ فرمائی ۔ ہم جنس پرستی میں ملوث فاعل ومفعول دونوں کی سزا موت مقرر کی گئی 243ا ور اسی طرح کسی جانور یا خونی رشتوں کے ساتھ جنسی فعل کے مرتکب کو بھی قتل کی سزادینے کاحکم دیا گیا۔244
زنا کو ثابت کرنے یا ہونے کے لئے اسلامی قانونِ شریعت میں کم از کم چار ایسے مرد گواہوں کا ہونا ضروری ہے جنہوں نے اس فعلِ قبیح کے ارتکارب کو خود اپنی انکھوں سے دیکھا ہو اور اس صورت میں دیکھا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی ہوتی ہےورنہ یہ زنا کی تہمت تصور ہوتی ہے جس کی سزاقرآنی حکم کے مطابق اسی(80) کوڑے ہے۔ مزید یہ کہ اس جھوٹے شخص کی گواہی ہمیشہ کے لئے مردود ہوجاتی ہے۔245نیزایسے شخص کو اچھےکردار کاحامل بھی قرار نہیں دیا جاتاتھا۔246
اسلامی قانون کے مطابق کسی قیمتی مال کی چوری کی سزاہاتھ کاٹنا مقرر کی گئی خواہ مرد چوری کرے یاعورت247لہٰذا چھوٹی موٹی چیزمثلاً کھانے پینے کی اشیاء کی چوری پرہاتھ کاٹنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ یہ حکومتی صواب دید ی پر موقوف رکھا گیا ہےبشرطیکہ مالک چور کو معاف نہ کرے ورنہ چور کو عدالت میں لانے کی ضرورت نہیں248البتہ اگر مجرم عدالت تک پہنچ گیا یا پہنچا دیا گیا تو اب قاضی پر فیصلہ کرنا لازمی ہوگا۔
عرب جاہلی میں چونکہ شراب صدیوں سے پانی کی طرح پیےجانے کا عام رواج تھا سوائے چند افرادکے249لہٰذا مسلم معاشرہ میں اس کی حرمت کا حکم تدریجی طور پر نازل ہوا 250اور بالآخرشراب اور اس جیسی دیگر نشہ آور چیزوں کو قطعی حرام قرار دے دیا گیا جیساکہ باری تعالیٰ کاارشادہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 90إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ 91 251
اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آؤ گے؟
اسلام میں شراب پینا گناہ کبیرہ اور اس کو عادت بنانا اس سے بھی بڑا گناہ قرار دیا گیا۔252دیگر نشہ آور اشیاء بھی حرام تھیں لیکن شراب کو سب میں بدتر قرار دیا گیا ۔253
حضور اکرمﷺ کے زمانہ مبارک میں اس کی کوئی خاص سزا مقرر نہیں تھی البتہ جوتے، لاتیں، مکے، بل دی ہوئی چادروں کے کوڑے اور کھجور کی ٹہنیوں سے زیادہ سے زیادہ چالیس(40) ضربیں لگائی جاتی تھیں اورحضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر کے ابتدائی زمانہ میں بھی چالیس(40)کوڑے ہی مارے جاتے تھے 254مگر کچھ عرصہ بعدصحابۂ کرام کے اجتماع میں ایک طویل بحث و مباحثے کے بعد حضرت علیکی مشاورت سے شراب نوشی کی سزا اسّی( 80) کوڑے مقرر ہوئی255جو اسلامی قانون کی حیثیت سے آج تک نافذ العمل ہے۔
اسلام سے قبل عرب قبائل میں ظالمانہ قصاص وخونریزی 256کے برخلاف معاشرے کے نظم و ضبط کو قائم رکھنےکے لیے قتل کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں درج ذیل حکم ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ178 257
اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے۔ پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔
اس آیتِ کریمہ کی روسےقصاص معاف بھی کیاجاسکتا تھا جس کے بدلے خون بہا یعنی دیت258دینالازم ہوجاتی تھی ۔ اسلام نے قصاص اس لیے لازم کیا کیونکہ قاتل کا قتل باقی معاشرے کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے نیز لواحقین کے انتقامی جذبات ٹھنڈے ہوجانے سے کسی اور جارحانہ اور ضرر رساں اقدام کا امکان ختم ہوجاتا ہے259البتہ اگر قتل غلطی سے ہوگیا ہو تو اس صورت میں قرآن مجیدمیں درج ذیل حکم دیاگیا ہے:
وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا92 260
جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام/ باندی کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام/ باندی کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام/ باندی کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔ پھر جس شخص کو (غلام / باندی) میسر نہ ہو تو (اس پر) پے در پے دو مہینے کے روزے (لازم) ہیں۔ اللہ کی طرف سے (یہ اس کی) توبہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر اوّلاً قصاص اور معافی کی صورت میں دیت لازم قرار دی گئی یعنی کسی مسلمان یا ذمی کافر کو ناحق قتل کرنے یا اس کے کسی عضو کو ناحق تلف کرنے کی وجہ سے جو شرعاً مالی تاوان لازم آتا ہے اسے دیت کہتے ہیں261جس کی مقدار قتل کی مختلف اقسام کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ مقرر کی گئی۔
قتلِ عمد میں دیت کی مقدارتین سال کی عمر کی تیس(30) اونٹنیاں، چار سال کی عمر کی تیس(30) اونٹنیاں ، پانچ سال کی عمر کی چالیس(40) اونٹنیاں اوراس کے علاوہ جس مقدار پر وہ صلح کرلیں 262مقرر ہے۔ قتلِ خطاء کی دیت ایک ہزار (1000) دینار یعنی چار ہزار تین سو چھتّر (4,374) کلو گرام سونایادس ہزار(10,000) درہم یعنی تین ہزار چھ سو اٹھارہ (30,618) کلو گرام چاندی 263مقرر ہے264اورقتل شبہ عمد کی دیت سو( 100) اونٹنیاں ہیں جن میں ایک سال کی عمر کی پچیس(25)اونٹنیاں، دوسال کی عمر کی پچیس(25) اونٹنیاں، تین سال کی عمر کی پچیس(25)اونٹنیاں اور چار سال کی عمر کی پچیس(25)اونٹنیاں مقررہیں۔ 265یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام مذکورہ بالا تمام جرائم کی سزائیں پاگل افراداور بچوں پر لاگو نہیں کرتااور صرف حکومت ِ وقت،عدالت اور قانون کا نفاذ کرنے والے بااختیار اداروں کو ہی ان سزاؤں پر عملدرآمد کرانے کا حق دیتاہے نہ کہ عام شہریوں کو۔ 266
جاہلی عرب میں عورت مظلوم ومقہور تھی اور مرد کو قبیلہ کی طاقت سمجھ کر وراثت کا واحد حقدار قرار دیا جاتا تھا جس کے نتیجہ میں عورتیں اور بچےوراثت سےمحروم ہوجاتے تھے۔267قرآن ِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے وراثت سے متعلق جامع قوانین عطافرمائے جن کی رو سے تما م ورثاء کو مناسب حصہ دیا گیا۔ ارشاد ربانی ہے:
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا 11وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ12268
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے، اور مُورِث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے۔
ان آیاتِ کریمہ سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ اسلامی نقطۂ ِنظر سےوراثت کے حصے خاندان میں مرد و عورت کی ذمہ داریوں کے مابین توازن برقرار رکھنے کے حوالہ سے مقرر کیے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی وراثت کے متعلق کئی قوانین موجود ہیں جن کو متعلقہ کتب میں دیکھاجاسکتاہے۔
عرب میں آمد ِ اسلام سے قبل کوئی باقاعدہ عدالتی نظام نہ تھا۔ قبائل کے سربراہ ان کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے اور ان کا فیصلہ آخری ہوتا تھا جس سے پس و پیش کی گنجائش نہ تھی۔اسلام نے قضاء کا ایک مکمل نظام عطا فرمایا جسے نبئِ اکر م ﷺ نے اور خلفائے راشدین نے اپنے ادوار میں نافذ فرمایا۔ حضراتِ انبیاءکرامکی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ترین ذمہ داری عدل وانصاف کاقیام تھی269اور رسولِ اکرمﷺکو بھی انصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا270کیونکہ معاشرہ میں بے انصافی اور ظلم وستم کبھی بھی خوشحالی وامن وامان نہیں لاسکتے لہٰذا رسولِ کریمﷺکو ماننے والے تمام اہلِ ایمان کو بھی عدل وانصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا 271جس سے یہی واضح ہوتاہے کہ انصاف کا قیام اسلامی عدالتی نظام کا بنیادی مقصد تھاتاکہ لوگوں کے مابین تنازعات کو عدل کے ساتھ حل کرکے معاملہ کاتصفیہ کیاجائے ورنہ لامحالہ یہ تنازعات قتل وغارت گری سے لےکر فسق وفجور، عصمت دری اور معاشروں کی تباہی وبربادی کا سبب بن سکتے ہیں جس سے پورا نظامِ زندگی درہم برہم ہوجاتا ہے۔اس لیےمعاشروں کی سلامتی وسکون اور ترقی کا باعث یہی ہےکہ وہاں عدل وانصاف کا دوردورہ ہوتاکہ ظالم ظلم نہ کرسکے اور فرائض وحقوق بآسانی اداہوتےرہیں۔در حقیقت نبئِ اکرمﷺ نے ہی جدیدعدلیہ کے نظام کی بنیاد رکھی تھی جس کی بدولت تمام شہریوں کو یہ موقع فراہم کیاگیا کہ وہ کسی بھی ریاستی عہدیدار کی ناانصافی کے خلاف اپنا معاملہ حل کرواسکتے تھے۔ اسلامی خلافت میں کئی ایسے واقعات تاریخ کے سینہ میں محفوظ ہیں جس میں گورنر یا کسی اعلیٰ عہدیدار کے بیٹے کو ایک کمزور کو ناحق طمانچہ مارے جانے کے لیے جمِّ غفیر کے سامنے جوابدہ ہونا پڑا تھا۔
اسلام سے قبل عرب میں باقاعدہ عسکری نظام اور قوانینِ جنگ کا تصور موجو د نہ تھا۔ قبائل کے جنگجو ، بغیر کسی قاعدے وضابطے کی پابندی کے دورانِ جنگ جہاں چاہتے لوٹ مار کر تے تھے۔ مالِ غنیمت میں سے طاقتوروں اور سرداروں کو خاص خاص مال دیا جاتا تھا۔ عورتوں ، بوڑھوں ، بچوں اور عام شہریوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ فوجیں جہاں سے گزرتیں تھیں تباہی و بربادی کی داستان رقم کرتی جاتیں تھیں۔ اسلام نے انسانی معاشرہ میں جان، مال، عزت اوراہل وعیال وخاندان کا تحفظ لازمی قرار دیا جس کے بغیر معاشرہ کی بقا وسلامتی ناممکن ہے لہٰذا اسلام نے اس ضرورت کے تحت ایک عسکری نظام تشکیل دیا جس کاواحد مقصد انسانیت کی بقاء وسلامتی اور اعلاءِ کلمۃ اللہ ہےیعنی فقط ایک خالق حقیقی اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمرانی اور اس کا عطاکردہ نظام ۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشادفرمایا:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ39 272
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (انقلابی) جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ (دین دشمنی کا) کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے۔
اس آیتِ کریمہ سے واضح ہوا کہ زمین سے فتنہ و فساد کا خاتمہ کرنے کےلیےاسلام نے ایسے حالات کا قیام ضروری ولازمی قرار دیا جن میں اطاعت واتباع فقط حکمِ باری تعالیٰ کی ہو اور یہی وہ واحد مقصد تھا جس کے لیے مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت تھی ۔273اسلام نے دیگر شعبوں کی طرح جنگ سے متعلق بھی ایسے قوانین دئیے جن کی تاریخ ِ انسانی میں مثال نہیں ملتی ۔ان میں سے اہم قوانین کی تفصیل درج ِ ذیل ہے:
اسلامی قانون کے مطابق اچانک حملہ کر کے قتل ِ عام شروع کر دینا غیر قانونی ہے اور اسی وجہ سے رسول اکرمﷺرات میں دشمن پر شب خون نہیں مارتے تھے بلکہ صبح ہونے کا انتظار کرتے اور پھر باقاعدہ پہلے اعلان کر کے عسکری مہم کا آغاز فرمایا کرتے تھے۔274
اسی طرح نبی اکرم ﷺنے مسلم افواج کو مکانات ، کھیتوں اور دشمنوں کی دیگر املاک کو جلانے سے کلیۃ منع فرمادیاتھا حتی کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ آگ سے جلانے کی سزا دے۔275
اسلامی تعلیمات کے مطابق دورانِ جنگ اور اس کے بعد کسی حالت میں بھی لوٹ مار یا قتل و غارت گری کرنا ممنوع ہے۔ مال ِغنیمت یعنی وہ مال جوجنگ کے نتیجے میں دشمن افواج اوران کے حکومتی خزانےسے حاصل ہو اسے بھی ریاست کے رہنما یا سپہ سالار کےسامنے لانا ضروری ہے تاکہ اسے اسلامی قوانین کے تحت ہی تقسیم کیاجائے۔اسی لیےایک موقع پر نبی اکرم ﷺنےارشادفرمایا:
ان النهبة ليست بأحل من الميتة.276
لوٹ مار کرنا مردارگوشت کھانے کی طرح ہے۔
اسی طرح دشمنوں کے گھر وں میں داخل ہونے، ان کی خواتین، بچوں، بوڑھوں اور پُر امن عام شہریوں کو چھونے یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی سختی سے ممانعت کی گئی حتی کہ درختوں کے پھل تک بغیر اجازت کھانا ممنوع قرار دیا گیااوراگر کوئی فرد خلاف ورزی کرتا پکڑاجاتا تو اس کی سخت سرزنش کی جاتی تھی۔277
اسلام میں دشمن کی لاشوں کو مسخ کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن یزید فرماتے ہیں:
نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن النهبى والمثلة.278
نبی اکرم ﷺنے لوٹ مار کرنے اور مثلہ کرنے (لاش کے ناک ،کان وغیرہ کاٹنے)سے منع فرمایا۔
مسلمان جہاد و قتال، نفسانی خواہشات کوپوراکرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے خاطر کرتاہے اس لئے ذاتی غم و غصہ کا اظہار یا کسی بھی انسانی لاش کی بے حرمتی سے منع کیا گیا ہے اگرچہ وہ کسی اسلا م دشمن ہی کی لاش کیوں نہ ہو۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق فتح کے بعد جنگی قیدیوں کو قتل کرنا ، ان پر تشدد کرنا اور بد سلوکی کرنا ممنوع ہے بلکہ اس کے برعکس قیدیوں کے ساتھ احسان وہمدردی کرنے کا حکم دیاگیاہے۔حضوراکرم ﷺ کی ان ہی تعلیمات سے متاثر ہوکر کثیر تعداد میں غیر مسلم قیدی مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔
اسلام نے کسی بھی حالت میں سفارتکاروں کے قتل پر مکمل پابندی عائد کی حتی کہ اسلام کے بدترین دشمنوں کے سفارت کاروں تک کوقتل نہیں کیاگیا جیساکہ ایک موقع پر جب نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب (لعنت اللہ علیہ)نے جب اپنے سفارتکار کو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے پاس بھیجا تواس کی گھٹیا باتوں کے باوجود بھی حضوراکرمﷺنے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اس سےفرمایاکہ تم سفیر ہونے کی وجہ سے مأمون ومحفوظ ہو۔279
قرآن مجید وعدوں کی تکمیل کا سختی سے حکم دیتاہے280اسی وجہ سے اسلام میں کسی بھی معاملے میں وعدہ یا معاہدہ توڑنے یا اس کی خلاف ورزی کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہےنیز حضوراکرمﷺ نے عہد شکنی کو سخت ناپسند فرما کراس سےنفرت کا اظہار فرمایا ۔281
عموماً فوجیں انتشار، انارکی، لاقانونیت اور دہشت کی فضا قائم کرتے ہوئے میدانِ قتال تک پہنچتی ہیں جس میں لوٹ مار ولاقانونیت کادوردورہ ہوتاہے لہٰذا اسلام نے ایسے اقدامات پرسختی سے قدغن لگائی حتی کہ ارشادنبویﷺ ہے کہ اگر کوئی اس طرح کی حرکتوں میں ملوث ہے تو پھر اس کے لئے کوئی جہاد نہیں لہٰذا جنگ میں ایک عام آدمی کو لوٹنے، سڑکیں اور راستے بند کرنے، رکاوٹیں پید اکرنےاور غیر ضروری انتشار اور خوف و ہراس پھیلانے کی اجازت نہیں ہے جس کی عمدہ مثال فتح مکّہ ہے ۔282
جاہلیت قدیم ہو یا جدید،اسلام اس کے بالکل برعکس احکاماتِ الہٰی کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ان کی اطاعت واتباع اور دین کی سربلندی کےلیے جدوجہد کرنےکانام ہے اور ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جس میں کوئی بھی شعبۂ زندگی جامع رہنمائی اور سنتِ نبوی ﷺ کی اتباع سے خالی نہیں ہے لہٰذا انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارنی چاہیے تاکہ اطمینانِ قلبی کے ساتھ ساتھ انہیں فلاحِ دارین بھی حاصل ہوسکے۔
اسلام ایک مکمل اور جامع ضابطۂ حیات ہے جس کی اساس توحید ِخالص پرہے لہٰذا حضور ﷺ نے جس تہذیب و تمدن کو سر زمینِ عرب میں ریاستِ مدینہ منوّرہ کے تحت قائم فرمایا اُس کے جملہ گوشوں میں جس حقیقت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان ،اُس کی ربوبیت پر یقین اور اُس کے الہٰ ہونے کا اعتراف ہے۔اس ایمان و یقین سے ہی اسلامی تہذیب وتمدّ ن کے جملہ گوشے سیراب ہوئے اور اسی اعتراف ِ الہٰ نے اہل ِ ایمان کو ظاہر و باطن،سفروحضر،علم و عمل، مادیت و روحانیت،سیرت و اخلاق،معیشت و معاشرت اور قانون و سیاست سمیت تمام تہذیبی رویوں میں احکامِ خداوندی کی عظمت واعتراف پر قائل کرکے اُنہیں زندگی کے کل معاملات میں اپنانے پرراضی کیا۔اسلام نے عربوں سمیت قیامت تک پوری انسانیت کو فکروعمل کی گمراہی اور نظریۂ حیات و مقصد زندگی کی جہالت اور جاہلیت سے نجات عطافرمائی۔نظریۂ توحید کی بنیاد پر پیش کردہ اسلامی علمیت نے تمام مہذب و غیر مہذب معاشروں کی کجیوں ،کمیوں ، خامیوں اور نقائص کو دور کر کے اُن معاشروں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا ۔اسلامی نظریۂ حیات نے فرد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ انسانی معاشروں اور حکومتوں کے لئے مربوط اور جامع اصول وضوابط پر مبنی لائحۂ عمل پیش کیا اور پھر اسلام کی تعلیمات صرف نظریہ تک محدود نہ رہیں بلکہ انسانی زندگی کی لیبارٹری میں کم وبیش چالیس (40) برس تک دورِ رسالت مآب ﷺ سے لیکر خلافتِ راشدہ کے اختتام تک اور اُس کے بعد بھی مختلف خلفاء کے ادوار میں آزمائش کے تمام مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزریں۔
اس کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلام مساواتِ انسانی کا درس دے کر تمام انسانوں کو بحیثیتِ انسان کے برابر قرار دیتاہے اور رنگ ونسل،زبان،قوم،قبیلہ، ذات پات، امیری و غریبی کے فرق کو مٹادیتا ہے۔اسلامی تہذیب اسی لئے کوئی محدود نسلی،قومی یا ملکی تہذیب نہیں ہے بلکہ اپنے حقیقی معنی میں عالمگیر، روحانی اور آفاقی تہذیب ہے۔اسلا می تہذیب نے سب سے پہلے عربوں اور پھر جہاں جہاں دنیا میں یہ تہذیب قائم ہوئی وہاں جملہ گوشہ ہائے حیات کی اصلاح کی ۔اس تہذیب نے پہلی مرتبہ دین اور دنیا میں مطابقت پیدا کرکے ہر دینی کام کو انسانی زندگی کے دنیا وی فائدے کے طور پر اور دنیا کے ہر صحیح اور جائزکام کوخود انسان کے اپنے اُخروی فائدے کے طور پر پیش کیا ۔اسلامی تہذیب اپنے تمام مظاہر میں سادگی کی علمبردار ہے اس لئے اس میں اسراف ،تعیش،تصنع ،بناوٹ، فضول خرچی اور نمود و نمائش کی کوئی گنجائش نہیں ہے اسی لئے دورِ رسالت مآب ﷺ میں تمام تر علمی ،فکری ،نظری اور عملی ترقیوں کے باوجود اسلامی تہذیب نے سادگی کو کسی قیمت پر ترک نہیں کیا۔یہ انتہائی پاکیزہ تہذیب اس معنی میں ہے کہ اس کا مطلوب فرد اور معاشرہ جب تک ظاہرو باطن،قلب ودماغ ،روح و نفس،جسم و لباس اور تمام معاشرتی و تمدنی معاملات اور اُمور میں طہارت و نظافت حاصل نہ کرے وہ ایمان کے بنیادی تقاضوں کو بھی پورا کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا اسی لئے یہاں کسی بھی قسم کی ظاہری و باطنی گندگی وغلاظت اور کسی بھی قسم کےغلط اور برے کاموں کی ہر ممکنہ صورت اور برائی کی ہر ممکنہ شکل قابلِ گرفت جرم ہے۔یہ تہذیب عدل وانصاف کی علمبردار اور عفوودرگزر کی پیامبر ہے۔ اس تہذیب نے اس کرّۂ ارض پر پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو اللہ کا نائب و خلیفہ اور باعثِ شرف وکرامت ٹہرایا ہے جس کا سادہ سا مطلب یہ ہےکہ کوئی انسان اپنے عہدے اور منصب کے لحاظ سے برترہونے کے باوجود دوسرے انسانوں سے اپنی عزت و عظمت کے لحاظ سے برتر نہیں ہے یعنی سب انسان اللہ کی یکساں مخلوق ہیں لہٰذا کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کسی صورت روا نہیں ہے۔اسلامی تہذیب اس معنی میں انسانی تاریخ کی سب سے انقلابی تہذیب ہےکہ اس نے انسانی فکرونظر،خِرَد و عقل، تصورات و نظریات،ایمانیات و اخلاقیات،عبادات و معاملات،تصورِعلم،تصورِ فرداور تصور ِ کائنات میں ایک جامع اور مکمل انقلاب برپا کرکے کُل روئے زمین کے انسانوں کو نہایت ہی سادہ انداز میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مکمل، جامع اور کامل بندگی اور نبی آخر زماں ﷺ کی کامل اطاعت کا حکم دے کر فوزوفلاح کا حقیقی تصور عطافرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب نے محض تین ہی عشروں میں تمام تر بے سروسامانی اور افرادی قلّت کے باوجود اپنے مضبوط نظریۂ حیات کی بنیاد پر اُس وقت کی دوعالمی طاقتوں سلطنت ِ روم و سلطنت ِ ایران سمیت کئی بلا دو ممالک کو اسلامی خلافت میں ضم کرلیا تھا۔اسلامی تہذیب کے پھیلاؤمیں سب سے زیادہ کارگر ذریعہ مسلمانوں کی طرف سے انفرادی طور پر کی جانے والی دعوت و تبلیغ کی سرگرمیاں اور اپنی عملی زندگی کو پیش کرنابنا جو کہ اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق تھی ۔اسلام دنیا میں طاقت یا تلوار کے زور پر نہیں پھیلا اور نہ ہی تلوار اور اسلحہ کے زور پر کسی نظریۂ حیات کو انسانوں کے دل ودماغ میں اُتارکرقابل قبول بنایا جاسکتا ہے اور وہ بھی کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کو حلقہ بگوش ِ اسلام کرنے کا دعویٰ کرنا ایک لطیفہ اور گپ تو ہوسکتی ہے لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک ناممکن کام ہے۔عرب سمیت دنیا کے وہ تمام خطے جہاں آج اسلام اور مسلمان موجود ہیں یہ صرف اسلامی نظریۂ حیات کی قوت،طاقت،حرارت اورمبنی برحق ہونے کی وجہ سے ہی ہے۔اسلامی تہذیب و تمدّن ہر خیر کو قبول اور ہر شرکورد کرتی ہے اسی لئے حصولِ علم وسائنس، اور انسانی مادی ترقی کے خیر پر مبنی جملہ گوشوں کو بخوشی قبول کرتی ہے البتہ ہر وہ فعل و عمل جس سے انسانوں کے مابین انسان ہونے کے باوجود امتیاز،نفرت،عداوت،فتنہ و فساد،جنگ و جدال،تعصب وعصبیت،حرص وہوس،مقصدِ حیات سے دوری ،بندگئِ رب سے انکار، وحیِ الہٰی اور احکامِ خداوندی کو قبول کرنے سے گریز پایا جائے اس کو جاہلیت قراردے کراُسے رد کردیتی ہے۔ اسی لئے اسلام کے مطابق قبل از اسلام کے عرب بھی جاہل کہلائے اور اس کے مطابق ہر وہ قوم، ملّت، تہذیب اور تمدن بھی جاہلیت زدہ ہے جو ربانی ہدایت کو ترک کرکے کسی انسان کے بنائے ہوئے اصول و قوانین کو اختیار کرلے۔