Encyclopedia of Muhammad

جاہلی ایامِ عرب

ایامِ عرب سے مراد عربوں کی وہ جنگیں ہیں جو عرب قبائل کے مابین ہوئیں یا عرب اور دیگر اقوام کے درمیان۔ عربوں کی تاریخ کے مطالعہ میں یہ ایام بڑی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ جنگی ایام ہی عربوں کی تاریخ کا بنیادی ماخذ ہیں،ان سے ہی قدیم عرب کے اخلاق و اطوار کا علم ہوتا ہے، ان کی اچھائیوں ،برائیوں اور ان کی تقالید واعراف کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔اہلِ عرب اس کی حفاظت کے لیے بڑا اہتمام کرتے تھے،اسے خود بھی زبانی یاد رکھتے اور اپنے بچوں کو بھی حفظ کرواتے ۔ان جنگوں کے بہت سے اسباب تھے،کبھی یہ غیرت،انتقام، حسد،بغض اورباہمی فخر کے لیے لڑی جاتیں اور کبھی مال غنیمت کا حصول ان جنگوں کا باعث بنتا جبکہ بدویت اور اجڈ پن بھی بہت سی جنگوں کا سبب تھا ، یہی وجہ تھی کہ قحطانی قبائل کے مقابلے میں عدنانی قبائل میں جنگیں بکثرت لڑی گئیں ۔

ایامِ عرب کا معنی

اہل لغت کےمطابق ایام کالفظ "نعمت" اور "وقائع" کے معنی میں استعمال ہوتاہے1اورفتح و كامیابی كے دن كو بهی ایام سے تعبیر كیا جاتا ہے۔2ایامِ عرب سے مراد وہ واقعات اور جنگیں ہیں جو عرب دور جاہلیت میں قبائل کے مابین پیش آئیں۔3ایامِ عرب کا اطلاق صرف قبائل کے درمیان ہونے والی جنگوں پر ہی نہیں بلکہ ان جنگوں پر بھی ہوتا ہے جو یمن کے بادشاہوں وقبیلوں اور اہلِ فارس وعرب کے بیچ واقع ہوئیں ، اسی طرح ان جنگوں پر بھی ہوتا ہے جو عرب بادشاہوں اور قبائل کے مابین لڑی گئیں4یعنی بنیادی طورپریوں کہا جاسکتاہے کہ عربوں کی لڑائیوں کوایامِ عرب کہاجاتا ہے ۔ 5

اہمیت

جاہلی ایام ِعرب کاشمار ایک اہم تاریخی مصدر کے طور پر بھی کیاگیا ہےکیونکہ اس میں مختلف انواع کےقصےمنقول ہوئے جو اہم تاریخی واقعات پرمشتمل تھے۔ ان میں بہت سے قیمتی نثر اور شعر کے نمونے بھی مذکور ہوئےجن کا صدور دوران ِ جنگ ہوا تھا۔6ان ایام کی اہمیت مسلّمہ ہے کیونکہ ان ایام کے ذریعے عربوں کی طبائع اور جنگ و صلح میں ان کے رویے کو جاننےاور عربوں کے عرف سمیت قیدی بنانے اور فدیہ لینے کے اصول معلوم ہوتے ہیں۔اس طرح ان کےایفائے عہد اور قبیلے سے ان کی وفاداری کو جانا جاتاہے۔ ان کے ذریعےمیدانِ جنگ میں ان کی برداشت،بردباری اورتحمل کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ان ہی کی بدولت عربوں کی خوبیوں کاعلم ہوتا ہے۔ 7اسلام کے بعد قبائل میں جو جھگڑے رونما ہوئےوہ بھی ان ایام سےسمجھے جاسکتےہیں۔8جاہلیت کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے مؤرخین نے ان ایام پر ہی اعتماد کیا 9کیونکہ ان میں عرب معاشرے کی اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہی موجود تھیں۔

تدوین

عربوں کے پاس کوئی مدون تاریخ نہیں تھی۔ وہ جن باتوں کو محفوظ رکھنا چاہتے تھےانہیں خود یاد کر لیتے تھے اور اپنی اگلی نسلوں کو بھی یاد کروا دیتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ حسب و نسب اکثر عربوں کو یاد ہوتا،اپنے قبیلے کےافراد کی بہادری کے قصے انہیں حفظ ہوتےاورجنگوں کی فتوحات کے واقعات انہیں رَٹے ہوئےہوتے تھے۔بچوں کو یہ امور یاد کروانے کا مقصد یہ ہوتا کہ انہیں اپنی عظمت و شوکت کا احساس رہے اورخاندانی و قبائلی عصبیت زندہ رہے۔اگر کسی موقع پر انہیں شکست ہوتی تو وہ بھی اپنی نسلوں کو یاد کروا دیتے تھے تاکہ وہ ان کا انتقام لے سکیں ۔10

ایامِ عرب کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا،انہیں پہلے پہل عینی شاہدین نے بیان کیا تھا پھر ان سے ان کی نسلوں نے حفظ کیا اور اگلی نسلوں کو منتقل کر دیا،یہ سلسلہ یوں ہی نسل در نسل چلتا رہا حتی کہ جب تدوین کا وقت آیا تو انہیں کتابی صورت میں مدون کر لیا گیا۔عرب میں ایامِ عرب کو بیان کرنے کے لیے خاص مجالس منعقدہوا کرتی تھیں جہاں لوگ بڑے شوق سے جاہلیت کے اشعار سمیت ان واقعات کو بھی سنا کرتےتھے۔11

تعداد

ایام ِ عرب کی کل تعداد کتنی تھی؟اس حوالے سے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں،کچھ کا کہنا ہےکہ ایامِ عرب فقط تین ہیں:یومِ جبلہ،یومِ کلاب ثانی اور یومِ ذی قار 12جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ایامِ عرب کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں ایک کتاب میں جمع کرنا بھی ناممکن ہے ۔ 13

اس حوالے سے جو کتب موجود ہیں ان میں بھی ایام کی تعداد مختلف مذکور ہوئی،کچھ میں فقط ایک ہی یوم کا تذکرہ ہوا،کچھ میں پچاس سے زائد ایام مذکور ہوئے،14کچھ میں سات سو پچاس(750) ایام کا تذکرہ کیاگیا، کچھ میں بارہ سو (1200)ایام بھی مذکور ہوئے 15جبکہ کچھ نے تو ایک ہزار سات سو ایام(1700) تک کا تذکرہ بھی اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔ 16اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ مولفین نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق ایام کو جمع کیا ۔بعض نےفقط کسی خاص واقعے کی اہمیت کے پیش نظر اس پر کتاب لکھی،بعض نے فقط اہم اور عظیم ترین ایام کو ہی ذکر کرنا مناسب سمجھا جن کی تعدادصرف تین ہی ہے ۔ 17بعض نے مشہور ایام یا معین قبائل کے ایام کو ذکر کیاجبکہ بعض نے کل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔18جن کاقول ہے کہ ان کو ایک کتاب میں جمع کرنا ممکن نہیں ہے19ان کی بات بھی درست ہے کیونکہ قبائل کےمابین معرکہ آرائیوں کا سلسلہ شب و روز جاری رہتا تھاجن کو کلیتا ً شمار کرنا یقیناً نا ممکن تھا ۔

ایامِ عرب کی جنگیں

جاہلیت کے ایامِ عرب صرف بڑی جنگوں پر ہی مشتمل نہیں تھے بلکہ ان میں بعض انتہائی چھوٹے معرکے بھی شامل تھے جن میں چند افراد ہلاک ہوئے تھے۔20بعض لڑائیاں تو دو قبائل کے مابین تھیں البتہ کچھ جنگیں اس قدر شدیدبھی تھیں جن میں اطراف کے تمام حلیف قبائل بھی شامل ہوگئےتھےاور جن میں لقمہ اجل بننے والوں کی تعدادسینکڑوں میں تھی۔ کچھ لڑائیاں اس قدر طویل بھی تھیں کہ ان کا دورانیہ کئی سالوں پر محیط تھا۔21

جنگوں کے اسباب

تاریخِ عرب کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایام ِعرب کی جنگیں بعض اوقات بالکل چھوٹی چھوٹی باتوں پر بپاہو ئیں، مثال کے طور پروہ عظیم جنگ جو عبس اور ذبیان کے دوران چالیس (40)سال تک جاری رہی،اس کا سبب گھڑ دوڑ تھی، ایامِ فجار کی لڑائی کا سبب ایک شخص کی توہین و تحقیر تھی اور ایک جنگ فقط فرد واحد کی جہالت کی وجہ سے شروع ہو گئی تھی جس نےکہاتھا کہ "جو خود کو مجھ سے زیادہ معزز قبیلے والا سمجھتا ہے وہ میری ٹانگ پر تلوار مارے"، ایک شخص اٹھا اور اس نے اس کی ٹانگ کاٹ دی اور یوں دو قبائل میں جنگ چھڑ گئی، لیکن ہمیشہ ہی ان جنگوں کے اسباب ایسے نہیں ہوتے تھے بلکہ بعض اوقات یہ اقتصادی اسباب کے باعث بھی وقوع پذیر ہوتی تھیں جیسے "حربِ بسوس" اور "حربِ اوس و خزرج"۔کبھی کبھی یہ ایسے اجنبی عوامل کے باعث بھی پیش آئیں جو بازنطینی یا فارسی نفوذ کی وجہ سے پید ا ہوئے ۔ 22اورکبھی قوی قبائل کی طرف سےزیادہ لگان بھی جنگوں کا سبب بنتا تھاجبکہ کمزور قبائل طاقتور سے نجات پانے کے لیے بھی جنگ لڑتے تھے،ایسا عموماًاس وقت ہوتا جب کمزور قبائل میں کسی قوی شخصیت کا ظہور ہوتا۔23انتقام بھی ان جنگوں کا ایک بڑا سبب تھا ۔ 24بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ قبائل کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ان کا عمومی سبب مویشی،چراہ گاہ یا پانی ہی تھا ۔ 25

ایامِ عرب کے نام

عربوں کی عادت تھی کہ وہ ان جنگوں کو نام دیا کرتےتھے اورنام دینے کے لیے ان کے کچھ خاص اصول تھے۔وہ کبھی اس جنگ کو اس جگہ کے نام سے موسوم کر دیتے جہاں یہ معرکہ پیش آتا،کبھی اس چیز کے نام سے منسوب کر دیتے جو اس دوران خوب ظاہر ہوتی اورکبھی وہ شریک قبائل کے نام سے اس کا نام اخذ کر لیتے تھے ۔26یومِ ذی قار،یومِ عین اباغ، یومِ نساروغیرہ مقام سے منسوب جنگوں کی مثالیں ہیں ۔یومِبسوس،یومِداحس و غبراء،یومُ الصفہ اور ایام ِفجار وغیرہ جنگ میں خوب ظاہر امور سے منسوب جنگوں کی مثالیں ہیں جبکہ ایامِ اوس و خزرج شرکاءِ جنگ سے منسوب جنگوں کی مثالیں ہیں۔

ترتیب

ایامِ عرب جن تصانیف سے پہنچےہیں ان میں زمانی ترتیب کا خیال نہیں رکھا گیا ۔مستشرقین نے انہیں زمانی ترتیب دینے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی اپنی مرضی کے نتائج تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔27بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ ایامِ عرب کو زمانی ترتیب کے حساب سے ترتیب دینا ممکن نہیں البتہ انہیں شرکاء کے اعتبار سے تقسیم کرنا ممکن ہے ۔28اس لیے یہاں بھی انہیں شرکاء کی ترتیب سے ہی ذکر کیا جا رہا ہے :

قبائل کی جنگیں

ایامِ عرب میں جو جنگیں قبائل کے مابین لڑی گئیں،ان میں سے کچھ قحطانی و عدنانی اور بعض قحطانی وان قبیلوں کے درمیان ہوئیں جنہیں اہلِ نسب مضر،ربیعہ،معد اور عدنان کی طرف لوٹاتے ہیں۔بہر حال یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام معرکےدو جماعتوں کے درمیان ہی ہوئے،جنہیں اہل ِنسب کے عرف میں قحطانی اور عدنانی کہاجاتا ہے کیونکہ ہر عرب قبیلہ ان دونوں میں سے کسی ایک سےہی تعلق رکھتا تھا ۔

قحطانی قبائل کے ایام

ذیل میں اولاً قحطانی قبائل کے مابین ہونے والی جنگوں کا تذکرہ کیاگیاہے جن میں مختلف ایام شامل ہیں جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

یومِ بردان

قحطانی قبائل میں لڑی جانے والی جنگوں میں ایک جنگ یومِ بردان کے نام سے منقول ہوئی۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ حجر بن عمرو جو نجدِ عرب اور عراق کے نواحی علاقوں کا بادشاہ تھا،وہ ربیعہ اور کندہ کو بحرین کے خلاف جنگ پر ابھار چکا تھا۔ یہ خبر شام کے بادشاہ زیاد بن ھبولہ کو ملی تو وہ حجر اور ربیعہ کے اہل خانہ اور اموال کے طرف چلا گیا چونکہ ان کے مرد جنگ میں جا چکے تھے اور یہاں صرف خواتین ہی رہ گئی تھیں تواس نے مال پر قبضہ کر لیا اور عورتوں کو قیدی بنالیا،ان قیدیوں میں ظالم بن وھب کی بیٹی ھند بھی تھی جو حجر کی بیوی تھی ۔جب حجر،کندہ اور ربیعہ کو زیاد کے حملے کی خبر ملی تو وہ لوگ ابن ھبولہ کی طلب میں واپس لوٹ آئے۔حجر کےقبیلہ کے ساتھ ربیعہ کے اشراف بھی تھے ۔حجر نے پہاڑ کے دامن میں پڑاؤ ڈالااور اس کے ساتھ بکر، تغلب اورکندہ کے لوگوں نے بھی پہاڑ کےنیچے صحصحان کے چشمۂِ حفیر کے پاس پڑاؤ ڈالا ۔عوف اور عمرو زیاد کے پاس گئے کیونکہ عوف اور زیاد کے درمیان بھائی چارہ تھا،اس نے کہاکہ اے بہترین نوجوانو! میری بیوی امامہ مجھے واپس کر دو۔زیاد نے اس کی بیوی واپس کر دی اوراس وقت وہ حاملہ تھی۔عمرو بن ابی ربیعہ نے زیاد سے کہا اے بہترین نوجوان! میرے اونٹ مجھے واپس کر دے تواس نے وہ اونٹ واپس کر دیے۔ ان میں ایک نر اونٹ بھی تھا جو دوسرے اونٹوں سے جھگڑنے لگا تو عمر و نے اسے تلوار سے زمین پر گر ادیا ۔اس پر زیاد نے کہا،اےعمرو اگر تم مردوں کو بھی اسی طرح پچھاڑ دیتے جیسے تم نے اونٹ کو پچھاڑا ہے تو پھرتم لوگ بڑے عالی شان ہوتے ۔اس کے جواب میں عمرو نے کہا تم نے بہت تھوڑاد یا ہے لیکن باتیں بہت بڑی کر رہے ہواور یہ کہہ کر تم نے مجھ پر اپنی جان کے حوالے سے بڑی ہلاکت لازم کر لی ہےجسے تم مجھ سے ضرور پاؤں گے۔اللہ کی قسم میں اس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھوں گا جب تک میرے دانت تمہارے خون سے سیراب نہ ہو جائیں،پھر وہ گھوڑے پر بیٹھا اور حجر کے پاس چلا گیا لیکن اسے اس معاملہ کی خبر نہ دی ۔29

سدوس بن شیبان اور صلیع بن عبد غنم کو جاسوسی کے لیے بھیجا گیا،یہ دونوں عسکری علوم جانتے تھے چنانچہ رات کے وقت یہ لشکر میں شامل ہو گئے جس وقت مال ِغنیمت تقسیم ہو چکا تھا،ایک شمع لائی گئی او ر لوگوں کو گھی کے ساتھ کھجوریں کھلائیں جا رہی تھیں۔جب سب لوگ کھا چکے تو اعلان کیا گیا کہ جو لکڑیوں کی ایک گٹھڑی لے کر آئے گااسے کھجوروں سے بھری ایک ہنڈیا ں دی جائے گی ۔سدوس اور صلیع ایک ایک گھٹڑی لے آئے توانہیں دو کھجوروں سے بھری ہنڈیا ں ملیں۔وہ دونوں زیاد کے خیمے کے پاس ہی بیٹھ گئے،پھر صلیع فورا ہی حجر کے پاس چلا گیا اور اسے زیاد کے لشکر کی خبر دے دی اور وہاں کی کھجوریں بھی دکھائیں۔سدوس نے کہا میں تو کوئی بڑی خبر ہی لے کر جاؤں گا چنانچہ وہ لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور ان کی باتیں سنتا رہا،ھند جو حجر کی بیوی تھی وہ زیاد کے پیچھے تھی ۔اس نے زیاد سے کہا کہ یہ کھجوریں حجر کی طرف سے ہدیہ کی گئی ہیں اور گھی دومۃ الجندل کا ہے،اس کے بعد زیاد کے لوگ متفرق ہو گئے،سدوس نے اپنا ہاتھ برابر والے شخص پر مار کر بے تکلفی کے انداز میں پوچھا،تم کون ہو ؟یہ سوال اس وجہ سے پوچھا تھا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے پھر سدوس زیاد کے خیمے کے مزید قریب ہوگیا تاکہ وہ اس کی باتیں سن سکے۔30اس وقت زیاد حجر کی بیوی کے قریب ہوا،اس کو چوما اور خوش طبعی کی اور پوچھا اب تمہارا حجر کے بارے میں کیا خیال ہے ؟اس نے کہا کہ اللہ کی قسم وہ تمہاری تلاش ہرگز نہیں چھوڑے گا حتی کہ وہ سرخ محلات دیکھ لے گویا کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ اس کے ساتھ بنو شیبان کے بہت سے شہسوار ہیں جو ایک دوسرے کو جوش دلاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں،غصہ کی وجہ سے اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے اور وہ کہہ رہا ہے جلدی کرو، جلدی کرو۔ زیاد غورتو کرو کہ تمہارے پیچھے بہت تیز رفتا ر لشکر ہے جو تمہاری ہی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے، وہ کوئی معمولی انسان نہیں بلکہ بہت چالاک اور صائب الرائے آدمی ہے۔31

یہ باتیں سن کر زیاد نے اسے ایک طمانچہ مارا اور کہا یہ سب تم اس لیے کہہ رہی ہو کیونکہ تم اس سے محبت کرتی ہو۔اس پر ھند بولی،مجھے اس سے زیادہ کسی سے نفرت نہیں ہے لیکن میں نے اس سے زیادہ ہوشیار آدمی بھی نہیں دیکھا کیونکہ اگر اس کی آنکھیں سو بھی جاتی ہیں تو اس کے بعض اعضاء جاگ رہے ہوتے ہیں ۔وہ جب سونے کا ارادہ کرتا ہے تو مجھے کہتا ہے کہ میں اس کے پاس دودھ کا ایک پیالہ رکھ دوں،ایک رات وہ سویا ہوا تھا اور میں اس کے قریب سےاسے دیکھ رہی تھی کہ ایک سانپ اس کے سر کے پاس آیا تو اس نےسر وہاں سے ہٹا لیا، سانپ ہاتھ کی طرف آیا تو اس نے ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا،پاؤں کی طرف آیا توا س نے پاؤں وہاں سےہٹا لیا،پھر سانپ برتن کی طرف آیا اور اس میں سے دودھ پیا اور اس میں واپس کلی بھی کردی ۔میں نے دل ہی دل میں کہا کہ وہ بیدار ہو کر اسے پئے گا اور مر جائے گا اوراس طرح میری جان اس سے چھوٹ جائے گی لیکن وہ جب بیدا ر ہوا تو ا س نے پیالہ اٹھا کر سونگھا تو اسے سانپ کی بو آئی،اس نے سارا دودھ گرا دیا اور پوچھا سانپ کہاں ہے ؟ اس پر میں نے کہا میں نے تو کوئی سانپ نہیں دیکھا،اس پر حجر نے کہاکہ اللہ کی قسم ! تم جھوٹ بو ل رہی ہو ۔یہ سب کچھ سدوس جاسوس بھی سن رہا تھا تووہ یہ خبر لے کر حجر کے پاس گیا اور جو سنا تھا وہ سب اسےبتا دیا۔یہ باتیں سنتے ہوئے مرار نامی جڑی بوٹی بھی اس کے ہاتھ میں تھی جس کو وہ پہلے توادھر ادھر کر رہا تھاپھر غصے میں اسے کھانے لگا۔غصہ کی وجہ سےاسے یہ احسا س بھی نہیں ہوا کہ وہ سخت کڑوا پودا کھا رہا ہے۔جب سدوس نے اپنی بات ختم کی تو اسے احساس ہوا کہ وہ مرار کھا رہا ہےجو شدید کڑوا پودا ہوتا ہے،اس کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے جانور بھی کھا لے تو زندہ نہیں رہتا ۔یہ سب سن کر حجر نے جنگ کا حکم دےدیا اور ایک بڑا لشکر لے کر وہ زیاد کے پاس پہنچ گیا، شدید لڑائی کے بعد اہل شام اور زیاد کو شکست ہوئی،ان کے بہت سے آدمی بھی مارے گئے اوربکر اور کندہ والوں نے بھی اپنا سارا مال اور قیدی واپس چھڑا لیے ۔32

سدوس نے زیاد کو دیکھ کر پہچان لیا اور اس کو گلے سے پکڑ کر پچھاڑا پھر اسے قیدی بنا لیا،اسی دوران عمرو بن ربیعہ نےجب اسے دیکھا تو حسد کرتے ہوئے زیاد کو نیزہ مار کر قتل کر دیا،سدوس کو بہت غصہ آیا اور اس نے کہا تم نے میرا ایسا قیدی مار دیا ہے جس کی دیت بادشاہوں جیسی ہے۔وہ دونوں اپنا معاملہ حجر کے پاس لے گئے،اس نے عمرو اور اس کی قوم کے خلاف فیصلہ دیا اور کہا کہ بادشاہوں جیسی دیت سدوس کو دو ۔پھرحجر نے اپنی بیوی ھند کو پکڑا اور دو گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر انہیں مخالف سمت میں دوڑادیا جس سے اس کے دو ٹکڑے ہو گئے ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو جلوا دیا تھا ۔اس کے بارے میں چند اشعار بھی منقول ہوئے جن کا خلاصہ یوں ہےکہ "ہند کے بعد عورتیں جسے بھی کسی چیز سے ورغلا لیں تو وہ یقینا جاہل اور مغرور شخص ہی ہوگا،آنکھیں اور باتیں تو میٹھی ہیں مگر ہر وہ چیز کڑوی ہے جس پر دل فریفتہ ہو جاتا ہے ۔ہر عورت جس سے تیرے لیے محبت کی علامت ظاہر ہوتو یاد رکھ اس کی محبت عارضی اور بدل جانے والی ہے"۔33

یوم کلاب اول

قحطانی جنگوں میں سے ایک یوم کلاب اول بپا ہوئی۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ قباذ بن فیروز کا دور تھا جو فارس کا بادشاہ اور دین مزدکیت کا حامل تھا ۔یہ اپنے دین کی طرف لوگوں کودعوت دیتا تھا چنانچہ اس نے منذر بن ماء السماء کو اس کی دعوت دی، قبول نہ کرنے پر اسے برخاست کردیا اور حارث بن عمرو بن حجر آکل المرار کو دعوت دی اوراس نے یہ دعوت قبول کی جس کے نتیجہ میں وہ حیرہ کا بادشاہ بن گیا ۔حیرہ میں وہ اپنے امور کی نگرانی کرتا رہا پھر کچھ مسائل پیدا ہوئے تو اشراف نے آکر شکایت کی کہ ہم پر بے وقوف لوگ غالب آگئے ہیں اور طاقتور لوگ بھی حاکم بنے ہوئے ہیں،برائے مہربانی آپ اپنے بیٹوں کو ہم پر حاکم بنا دیں تاکہ ہمارے مسائل حل ہو جائیں ۔اس تجویز کے بعد حارث نے اپنے بیٹوں کو مختلف قبائل پر حاکم بنا دیا، حجر کو بنو اسد اور بنو غطفان کا،شرحبیل کو بکر بن وائل اور بنو حنظلہ کا،معدیکرب کو بنو تغلب،نمر بن قاسط اور سعد بن زید کا اور سلمہ کو قیس عیلان کا۔ایک دن حارث شکار کے لیے نکلا تو اس نے وحشی گدھے کو دیکھ کر قسم کھا لی کہ وہ اس کے جگر سے پہلے کچھ نہیں کھائے گا۔شہسواروں نے تین دن تک اس کا پیچھا کرنے کے بعد اس کو پکڑلیا،اس وقت تک حارث کی حالت بھوک سے مرنے والی ہو چکی تھی چنانچہ گدھے کا جگر نکال کر اسے آگ پر پکایا گیا اور گرما گرم حارث کے سامنے پیش کر دیا گیا ۔ بھوک کی وجہ سے اس سے صبر نہ ہوسکا اوراس نے انتہائی گرم ہی کھا لیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی ۔34

حارث کی موت کے بعد اس کی اولاد متفرق ہو گئی اور آپس میں جنگ و جدال میں مصروف ہو گئی ۔سب سے زیاده شرحبیل اور سلمہ کے درمیان دشمنی ظاہرہوئی،دونوں نے اپنے اپنے لشکر جمع کیے اور جنگ کی تیاری کرنے لگے۔شرحبیل نے اپنے لشکر سمیت کلاب کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اورسلمہ بھی لشکر لے کر سامنے آگیا،ان دونوں بھائیوں کے خیر خواہوں نے انہیں فساد،باہمی حسد اور جنگ سے روکنے کی کوشش کی لیکن یہ باز نہیں آئے ۔ان دونوں کے لشکروں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی پھرجب دن کا آخری حصہ ہوا تو شرحبیل نے اعلان کروا دیا کہ جو بھی سلمہ کا سر میرے پاس لے کر آئے گا اس کو سو اونٹ بطور انعام دیے جائیں گے اورایسا ہی ایک اعلان سلمہ نے بھی کروادیا۔یہ اعلان سن کر جنگ مزید شدید ہو گئی،اس وقت سلمہ اور اس کے پیروکار غالب تھے توشرحبیل کو شکست ہو گئی اور وہ بھاگ نکلا،اس کا پیچھا بنی تغلب کےذوسنینہ نے کیا تو شرحبیل نے پلٹ کر اس کی ٹانگ کاٹ دی۔ذوسنینہ کا ایک اخیافی بھائی بھی تھا جس کی کنیت ابو حنش تھی،اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا،مجھے اس آدمی نے قتل کیا ہے اور یہ کہتے ہوئے فوت ہو گیا،ابو حنش نے شرحبیل سے کہا کہ اگر میں تجھے قتل نہ کروں تو اللہ مجھے مارد ے ۔اس نے جب شرحبیل کو اپنے قابو میں کر لیا تو اس نے کہا کہ دیت لے لو،اس کے جواب میں ابو حنش نے کہا کہ تم تو پہلے ہی بہت سی دیت ضائع کر چکے ہواس پر شرحبیل نے کہا:کیا تم ایک عام آدمی کے بدلے بادشاہ کو قتل کرو گے،ابو حنش نے جواباً کہا کہ میرا بھائی میرے لیے بادشا ہ ہی تھا۔پھر اس نے اپنا نیزہ مارا جس کے ذریعہ اسے گھوڑے سے گرا کراس کا سر اتار لیا اور اپنے چچازاد بھائی کے ہمراہ اسے سلمہ کے پاس لے گیا،پھر اس نے اس کے بھائی کا سرسلمہ کے سامنے پھینک دیا۔35سلمہ نے دیکھ کر کہا،اگر تم اسے ذرا آرام سے پھینکتے تو بہتر تھا ۔ ابو حنش نے جوابا کہا کہ اس نے اپنی زندگی کے دوران جو میرے ساتھ کیا وہ اس سے زیادہ برا تھا،سلمہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے روتے ہوئے کہا،کیا تم نے اسے قتل کیا ہے ؟ابو اجا جو ابو حنش کا چچا زاد تھا،اس نے کہا،نہیں،میں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اسے ابو حنش نے قتل کیا ہے،ابو اجا نے نے سلمہ کے چہرے پر ندامت کے آثار دیکھ لیے تھے اس لیے وہ اور ابو حنش وہاں سے بھاگ گئے،اس کے بعد سلمہ نے اپنی بھائی کے سر کی طرف دیکھا اور کہا:

  الا ابلغ ابا حنش رسولا
فما لك لا تجيء الي الثواب
تعلم ان خيرالناس طرا
قتيل بين احجار الكلاب
تداعت حوله جشم بن بكر
واسلمه جعاسيس الرباب.
  وبلغت الابيات اباحنش فقال مجيباً:
  احاذر ان اجيئك ثم تحبو
حباء ابيك يوم صنيبعات
فكانت غدرة شنعاء تهفو
تقلدها ابوك الي الممات.36
  اے مخاطب ایک قاصد بھیج کر ابو حنش کو پیغام پہنچا دو کہ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو بدلہ اور انعام لینے کے لیے کیوں نہیں آتا تاکہ تجھے معلوم ہو جائے کہ تمام لوگوں میں سے بہتر وہ شخص ہے جو کہ کلاب کی پتھریلی زمین پر مارا گیا ہے،جشم بن بکر اس کے ارد گرد جمع ہونے کے لیے ایک دوسرے کو بلا رہے ہیں اور رباب کے کمینے لوگوں نے اس کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ۔
جب یہ اشعار ابو حنش تک پہنچے تو اس نے کہا :
مجھے ڈر ہے کہ میں تیرے پاس آؤں تو پھرتم اپنے باپ کی طرح جنگ صنیبعات والی روش اختیار نہ کرو کہ وہ انتہائی گندی غداری تھی جو موت تک تمہارے باپ کے گلے کا ہار رہی۔

اس طرح ابو حنش نے سلمہ کو اپنے انعام نہ لینے کی وجہ بیان کرکے اس کی دھوکہ دہی کو واضح کردیا۔

یوم عین اباغ

قحطانی قبائل کی جنگوں میں سے ایک جنگ یو م عین اباغ تھی۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ منذر بن ماء السماء جو عرب کا بادشاہ تھا،قبیلہ معد کو ساتھ لے کر حیرہ سے چلا اور ذات الاخیار میں عین اباغ پر پڑاؤ ڈالا۔اس نے شام کے بادشاہ حارث اعرج کے نام پیغام بھیجا کہ" مجھے خراج دینے پر راضی ہو جاؤ تاکہ میں اپنی فوج یہاں سے ہٹا لوں ورنہ لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ"۔حارث نے جواب دیاکہ" آپ ہمیں مہلت دیں تاکہ ہم اپنے معاملے پر غور کر لیں"۔ پھر اس نے اس مہلت میں اپنا لشکر جمع کیا اور منذر کی طرف چل دیا اور اسے پیغام بھیجا۔"ہم دونوں بوڑھے ہوچکے ہیں ہمیں اپنے لشکر بلاوجہ تباہ نہیں کرنے چاہیے لہٰذا میری اور تمہاری اولاد کا آپس میں مقابلہ ہونا چاہیے،ان میں سے جو مارا جائے تو اس کی جگہ دوسرا مقابلہ کے لیے آجائےگا،جب یہ سب ختم ہو جائیں گے تو میرا تم سے مقابلہ ہوگا اور ہم میں سے جو مارا گیا وہ دوسرے کی بادشاہت پر قبضہ کر لے گا،اس طرح دونوں کا اس پر معاہدہ ہوگیا۔منذر نے اپنے ایک بہادر شہسوار کو کہا کہ جا کر مبارزہ کرواور یہ ظاہر کرنا کہ تم منذر کے بیٹے ہو،جب یہ مقابلے کے لیے نکلا تو حارث نے اپنا بیٹا ابو کرب بھیجا،جب اس نے مدمقابل کو دیکھا تو واپس باپ کے پاس آکر کہاکہ یہ شخص منذر کا بیٹا نہیں ہے بلکہ اس کا غلام ہے یا اس كا کوئی بہادر سپاہی ہے۔اس پر حارث نے کہا کہ بیٹا کیا تم موت سے ڈر رہے ہو؟جاؤ لڑو کیونکہ قبیلے کا سردار دھوکہ نہیں دے سکتا۔پھر وہ اس کی طرف لوٹا اور لڑائی ہوئی تو شہسوار نے اسے قتل کرکے اس کا سر منذر کے سامنے ڈال دیا ۔ 37

حارث نے اپنا دوسرا بیٹا لڑائی کے لیے بھیجا،اس نے بھی مد مقابل کو دیکھ کر کہا کہ ابوجی ! اللہ کی قسم یہ منذر کا غلام ہے۔اس پر حارث نے کہا قبیلے کا سردار دھوکہ نہیں دےسکتا پھر شدید قتال کے بعد یہ بھی مارا گیا ۔جب یہ سب معاملہ شمر بن عمرو حنفی نے دیکھا تو اس نے کہا کہ دھوکہ بازی تو بادشاہوں اور عزت دار لوگوں کا شیوہ نہیں ہے، یہ سن کر منذر کو غصہ آگیا اور اس نے حکم دیا کہ اسے یہاں سے نکال دیا جائے ۔وہ یہاں سے نکلنے کے بعد حارث کے لشکر میں چلا گیا اور اسے پوری بات بتا دی تواس نے جوابا کہا کہ اس خبر کے عوض تمہیں کیا چاہیے؟اس پر شمر نے کہا کہ مجھے تمہاری میزبانی اور دوستی چاہیے۔اس سے اگلے دن حارث نے اپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا اوراس کے ساتھ چالیس ہزار(40000) کا لشکر جرار تھا پھر انتہائی خوفناک جنگ ہوئی،اس دوران منذر مارا گیا اور اس کا لشکر بھاگ گیا ۔38اس کے بعد اس نے اپنے دونوں بیٹوں کی لاشوں کو اونٹ پر لدوایا اور منذر کو ان دونوں کے اوپر ڈال دیا گیا اور کہا :

  يا لعلاوة دون العدلين.
  ترجمہ: اے وہ گٹھیا بلند شخص جوہم وزنوں سے بھی کم تر ہے ۔

اس کے بعد یہ ضرب المثل بن گئی اور لوگ اسے استعمال کرنے لگے پھر یہ حیرہ گیا ا ور وہاں خوب طوفان برپا کیا اور اپنے دونوں بیٹوں کو بھی وہیں دفن کیا ۔ 39اس کے علاوہ قحطانی ایام میں یوم حلیمہ،یوم یحامیم اور ایام اوس و خزرج بھی شامل ہیں جو اپنے وقتوں کی مشہور ومعروف جنگیں رہی تھیں۔

قحطانی اور عدنانی ایام

ایامِ عرب میں بعض ایسی جنگیں بھی ہوئیں جو قحطانی اورعدنانی دونوں قبائل کے مابین بپا ہوئیں،ان میں سے بعض کا ذکر حسب ذیل ہے:

یوم بیضاء

قحطانی وعدنانی قبائل کی آپسی جنگوں میں سے ایک یوم بیضاء تھی۔اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ عدنانی قبائل جنوب سے شمال کی طرف قحطانی قبائل کی آمد اور پانی و چراہ گاہوں پر فخر سے تنگ ہوتے تھے ۔جب مذحج کا قحطانی قبیلہ یمن سے آیا اور اس نے تہامہ کی اس نرم زمین میں پھیلنا چاہاجو علاقہ قدیم زمانے سے معد کا وطن شمار کیا جاتا تھا،اس پر تصادم شروع ہوگیا اور عدوان کا قبیلہ میدان میں جنگ کے لیے نکل آیا جس کا سردار عامر بن ظرب عدوانی تھا۔ اس نے معد کے تمام قبائل اور ان کے خاندانوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کر لیا اور یمن سے آنے والے قبیلے پر اچانک حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں یمنی مہاجرقبیلہ کو مقام بیضاء پر شکست ہوئی ۔مورخین عامر بن ظر ب کو قدیم عرب حکمرانوں میں سے شمار کرتے ہیں جو مبارزت کرنے والا حاکم تھا اورلوگ اس کے پاس اپنے درمیان فیصلے کروانے کے لیے آیا کرتے تھے پھراس کے احکام ایسی سنت بن جاتے تھے جس کی پیروی کی جاتی تھی۔یہ عقل مند اور صاحب حکمت مشہور تھا،اس کے اقوال ضرب المثل بن جاتے تھے اوریہ بھی کہا گیاہے کہ یہ پہلا شخص تھا جس نے اسلام سے بہت پہلے شراب کو حرام قرار دیا تھا ۔مورخین کا کہنا ہے کہ یوم البیضاء پہلا موقع تھا جس میں تمام قبائل معد ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہوئے،اس کے بعد یہ معاملہ صرف دو بار ہوا،ایک بار ربیعہ بن حارث کے ماتحت اور دوسری مرتبہ کلیب بن ربیعہ کے جھنڈے تلے ۔ 40

یوم طِخفَہ

اسی طرح کے ایام میں سے ایک یوم طخفہ تھا۔یہ یوم نعمان بن منذر کے لشکروں پر بنو یربوع کے حملے پرمشتمل تھا۔اس جنگ کا سبب ردافہ کا عہدہ تھاجو وزارت کی ہی مثل تھا اور ردیف کی شان یہ ہوتی تھی کہ وہ بادشاہ کے دائیں طرف بیٹھتا تھا ۔یہ کافی عرصے سے تمیم کے بنو یربوع کے پاس نسل در نسل چلا آرہا تھاپھر نعمان یا اس کے بیٹے منذ ر کے دور میں حاجب بن زرارہ تمیمی نے نعمان سے کہا کہ وہ حارث بن بیبہ تمیمی کو ردیف بنا دے تو نعمان نے اس بارے میں بنو یربوع سے بات کی اور ان سے رائے طلب کی توانہوں نے اس کو تسلیم کرنےسے انکار کر دیا۔اس پر ناراض ہو کر نعمان نے اپنے بیٹے قابوس اور اپنے بھائی حسان کو لشکر کے ہمراہ بھیج دیا چنانچہ یہ طخفہ کے مقام پر پہنچے جہاں ان کی یربوع سے جنگ ہوئی ۔اس لڑائی میں یربوع نے صبر کیا اور قابوس اور اس کا لشکر فرار ہو گئے،اس وقت ابو عبیدہ طارق نے ایک ضرب لگاکراس کے گھوڑے کی ٹانگ کاٹ دی اور اسے قیدی بنا لیا۔وه اس كا سر كاٹنا چاہتا تھا لیکن پھر اس خیال سے کہ بادشاہوں کے سر نہیں کاٹے جاتے تواس نے اسے چھوڑ دیا ۔حسان کو بشر بن عمرو نے قیدی بنا لیا لیکن پھر اس پر احسان کرتے ہوئے اسے آزاد کر دیا ۔شکست کھا کر بھاگنے والے واپس نعمان کی طرف لوٹے تواس وقت شہاب بن قیس یربوعی بھی بادشاہ کے پاس تھا ۔نعمان نے شہاب سے کہاکہ میرے بیٹے اور بھائی کو اگر تم نے زندہ بچا لیا تو بنو یربوع کی مرضی ہی چلے گی،میں ردافت کا عہدہ بھی انہیں دے دوں گا، جتنے لوگ انہوں نے قتل کیے ان کا خون بھی معاف کر دوں گا، جو غنیمت انہوں نے حاصل کیا وہ بھی ان کا ہوگا اور میں انہیں مزید دو ہزار (2000)اونٹ بھی دوں گا ۔یہ سن کر شہاب گیا اور انہیں آزاد کروا لیا جس پر بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا اور جو کچھ کہا تھا اس پر عمل کیا ۔اس کے بعدپھر کسی نے بھی ان کی ردافت پر معارضہ نہیں کیا ۔اس پر مالک بن نویرہ نے کہا تھا کہ "ہم نے قابوس کے گھوڑے کو کاٹ دیا اس کے بعد کہ جب قوم نے اس کی موت اور گھوڑے کو شور مچا تے دیکھا،اس پر چمک دار بُنا ہوا کپڑا تھا اوراس کی تلوار ہندوستانی لوہے سے بنی ہوئی سفید درانتی تھی"۔41

یوم اوارۃ الاول

ان قحطانی و عدنانی لڑائیوں میں سے ایک یوم اوارۃ الاول بھی تھی اوریہ لڑائی منذ ر بن امرء القیس اور بکر بن وائل کے مابین واقع ہوئی تھی ۔اس کا سبب یہ تھا کہ جب بنو تغلب نے سلمہ بن حارث کو اپنے ہاں سے نکالا تو اس نے بکر بن وائل سے مدد طلب کی۔جب سلمہ،بکر بن وائل کے پاس پہنچا +تو وہ اس کے ماتحت ہو کراس کی فرمان برداری کے لیے حاضر ہو گئے اور اس سے کہا "ہمارا بادشاہ تمہارے سوا کوئی نہیں ہوسکتا " ۔جب منذر نے انہیں اپنی اطاعت کا پیغام بھیجا تو انہوں نے انکار کر دیا جس پر منذر نے قسم کھائی کہ وہ ان پر چڑھائی کرے گا اور اگر فتح پائی تو انہیں اوارہ پہاڑ کی چوٹی پر ذبح کرے گا حتی کہ خون پہاڑ کی زیریں زمین تک جا پہنچے ۔اس قسم کو پورا کرنے کے لیےوہ اپنی قیادت میں لشکر لیے ان کی طرف بڑھا،اوارہ میں مڈبھیڑ ہوئی اور سخت لڑائی ہوئی ۔اس جنگ میں بکر کو شکست ہوئی،یزید بن شرحبیل کندی کو قیدی بنا لیا گیا اور پھر منذر کے حکم پر اسے قتل کر دیا گیا ۔معرکے میں بہت سے لوگ کام آئے اور منذر نے بکر کے بہت سے لوگوں کو قیدی بنایا پھر اس کے حکم سے انہیں پہاڑ کی چوٹی پر ذبح کیا گیا لیکن یہ خون وہیں جم جاتا تھا جس وجہ سےاس کی قسم پوری نہیں ہو رہی تھی ۔اسے لوگوں نے کہا اگر تم روئے زمین کی ساری بکریاں بھی ذبح کر دو گے تب بھی یہ خون زمین تک نہیں پہنچے گا البتہ اس کی ایک صورت ہے اگر تم اس پر پانی بہادو تو یہ زمین تک پہنچ جائے گا،اس نے پانی بہانے کا حکم دیا اور یوں خون زمین تک آگیا ۔42

اس کے بعد اس نے ان کی خواتین کو زندہ جلانے کا حکم دیا،ایک آدمی جو سب سے منقطع ہو کر منذر کے پاس ہی رہتا تھا،اس نے بکر بن وائل کی قیدی خواتین کی سفارش کی اور انہیں آزاد کروا دیا جس پر اعشی شاعر فخر کرتے ہوئے کہتا تھا :

  منا الذي اعطاه بالجمع ربه
علي فاقة و للملوك هباتها
سبايا بني شيبان يوم اوارة
علي النار اذ تجلي له فتياتها.43
  ہم ہی میں سے ہے وہ شخص جس کو محتاجی کے باوجود بادشاہ نےبہت بڑی جماعت بطور ہبہ دی تھی اورشاہوں کے عطیات ایسے ہی ہوا کرتے ہیں جبکہ جنگ اوارہ کے دن بنو شیبان کے قیدیوں میں سے ان کی عورتوں کو آگ پر پیش کیا گیا تھا ۔

اس کے علاوہ قحطانی اور عدنانی ایام میں یوم اوارۃ الثانی،یوم السلان،یوم خزار،یوم حجر،یوم الکلاب الثانی،یوم فیف الریح اوریوم ظہرالدھناء بھی شامل ہیں۔

مذکورہ بالا جنگیں وہ تھیں جو فقط قحطانی قبائل کے مابین لڑی گئیں یا قحطانی وعدنانی قبائل کے مابین لڑی گئیں جبکہ ایامِ عرب میں ایسی بھی جنگیں مذکور ہوئیں جو فقط عدنانی قبائل کے مابین لڑی گئیں اور ایامِ عرب کی یہ تیسری قسم تھی جس کا ذکر حسب ذیل ہے:

عدنانی جنگیں

عدنانی قبائل میں ایام کی تعداد قحطانی قبائل کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اجڈ پن زیادہ تھا۔ 44عدنانی قبائل کے مابین لڑی جانے والی جنگوں میں وہ جنگیں شامل ہیں جو ربیعہ کے مابین بپا ہوئیں یا قبائل مضر کے درمیان بپا ہوئیں۔45ان میں وہ جنگیں بھی شامل ہیں جو ربیعہ اور تمیم کے درمیان پیش آئیں یا جو قبائل قیس کے درمیان واقع ہوئیں،اسی طرح ان میں وہ جنگیں بھی شامل ہیں جو قیس اور کنانہ کے درمیان واقع ہوئیں یا قیس اور تمیم کے درمیان بپاہوئیں جن میں ایام ضبہ وغیرہ شامل ہیں ۔46ان جنگوں کی تفصیل بالترتیب حسب ذیل ہے:

عدنانی ربیعہ کے ما بین جنگیں

وہ جنگیں جو فقط عدنانی قبیلہ ربیعہ کے مابین بپا ہوئیں ان میں حرب بسوس سر فہرست ہےجو کئی ایام پر مشتمل ہے اور کئی جنگوں کا سبب بنی۔

حرب بسوس

یہ جنگ ربیعہ کے دو قبائل بنو بکر اور بنو تغلب کے درمیان واقع ہوئی تھی اوریہ کئی سالوں پر محیط جنگ تھی جس وجہ سے اس میں متعددایام شامل ہوئے۔ وائل بن ربیعہ جو کلیب کے لقب سے مشہور تھا اور بنو تغلب سے تعلق رکھتا تھا،اس کا اثر و رسوخ بہت پھیل چکا تھا اورتمام معد قبائل اس کے جھنڈے تلےجمع ہو گئے تھے۔اس کی عزت و عظمت ضرب المثل بن چکی تھی یہاں تک کہ لوگ کہا کرتے تھےکہ " وہ کلیب وائل سے بھی زیادہ عزت والا ہے "اوریہی غرور وتکبر اسے حد سے تجاوز تک لے گیا ۔اس نے اپنے لیے ایک ایسی چراہ گاہ بنوائی جس میں کسی دوسرے کو چلنےا ور جانور چَرانے کی اجازت نہیں تھی اور وہاں کی کسی چیز کو تکلیف پہنچانا بھی ممنوع تھا۔یہ چراہ گاہ جاہلیت کی عبادت گاہوں کے حرم کی مثل تھی بلکہ یہ بعض معاملات میں ان سے بھی آگے تھی۔اس نے اپنی زمینوں کے شکار کو ممنوع کر رکھا تھا،اپنے اونٹوں کے ساتھ دوسروں کے اونٹوں کی شمولیت کو حرام قراردے دیا تھا،اس کی آگ کےساتھ دوسری آگ جلانے کی اجازت نہیں تھی،ان کے گھروں کے درمیان سے گزرنا بھی ممنوع تھا۔47یہاں تک کہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیرکسی جگہ حملہ کرنے کی اجازت تک نہیں تھی چنانچہ یہی امور ان کے آپسی جنگ کا سبب بنے ۔ کلیب کی شادی قبیلہ بکر کی ایک عورت جلیلہ بنت مرہ سے ہو ئی تھی جو جساس بن مرہ کی بہن تھی۔ایک دن جساس کی خالہ بسوس كے گهر ایك مہمان آیا،اس کی اونٹنی بھی تھی جو جساس کے اونٹنیوں کے ساتھ کلیب کی چراہ گا ہ میں چر رہی تھی توکلیب نے منع کیا کہ یہ آئندہ اگر مجھے نظر آئی تو میں اسے قتل کردوں گا پھر کچھ دن بعد دوبارہ کلیب نے دیکھا کہ وہ اونٹی یہاں چر رہی ہے تو اس نے ایک تیر اس کے تھن پر ماردیا۔جب اونٹنی کے مالک کو اس کا علم ہوا تو اس نے اوربسوس نے غم کا اظہار کیا جس پر جساس نے کہا کہ تم خاموش ہو جاؤ! میں عنقریب اس اونٹنی سے زیادہ قیمتی اونٹ کو قتل کردوں گا ۔اس کی مراد کلیب کو قتل کرنا تھی چنانچہ اس نے موقع دیکھ کر کلیب کی پیٹھ میں نیزہ مارا اور اسے قتل کر دیا ۔ایک دوسری روایت کے مطابق جساس نے کلیب کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ اس کے ساتھ اس کا چچازادبھائی عمرو بن ابی ربیعہ تھاجس نے نیزہ مار کر کلیب کی کمر توڑ دی تھی ۔48

ایک روایت یہ بھی منقول ہوئی کہ اس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ اس نے جساس کے قبیلے پر بہت زیادہ سرکشی شروع کر دی تھی مثلااس نے انہیں پانی سے روک دیا تھاتو بکر بن وائل پانی کی تلاش میں ممنوع غدیر سے گزرا جسے شُبیث کہتے تھے،کلیب نے اسے وہاں سے ہٹا دیا چنانچہ وه ایك قطره بهی پانی نہیں پی سکا،پھر وہ مقام احص پر گیا کہ کلیب نے اسے وہاں سے بھی روک دیا،پھر یہ بطن جریب پر گیا جو نجدکی ایک بڑی وادی تھی توکلیب نے اسےوہاں سے بھی پانی نہیں لینے دیا۔ بکر نے پھر نجد کی ہی ایک جگہ زنائب میں پڑاؤ ڈالا،کلیب اور اس کے لوگ یہاں بھی آگئے اورانہوں نے بھی اسی مقام پر پڑاؤ ڈال لیاپھر جساس یہاں سے گزرا ۔اس نے کہا تو نے میرے لوگوں کو پانی سے دور کر دیا ہےاور تو یقینا انہیں پیاسا مارنا چاہتا تھا ۔اس کے جواب میں کلیب نے کہا کہ ہم نے ہی انہیں پانی نہیں پینے دیا،جساس نے کہا یہ وہی کام ہے جو تو نے میری خالہ کی اونٹنی کے ساتھ کیا تھا ۔پھر اس نے اپنے گھوڑے کو آگے بڑھایا اور کلیب کے پہلو میں ایک نیزہ ماردیا چنانچہ کچھ دیر بعد جب اسے موت کا احساس ہونے لگا تو اس نے کہاکہ جساس مجھے پانی پلا دو،اس پر جساس نے کہاتم نے اتنا عرصہ میرے قبیلہ والوں پر پانی بند رکھا،میں نے توصرف اس گھڑی کے لیے ہی تم پر پانی بند کیا ہے اور تمہیں اتنی مشکل پیش آرہی ہے ۔اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب کلیب کاظلم و استبداد تھا ۔49

جب اس سارے واقعے کا علم کلیب کے بھائی مہلہل کو ہوا تو اس نے اپنے بال كاٹ دیے،کپڑے پھاڑ لیےا ور خود پر شراب اور كھیل کود کو حرام کر لیا ۔اس نے کہا میں خوشبو نہیں سونگھوں گا،تیل نہیں لگاؤں گا جب تک میں کلیب کے ہر عضو کے بدلے بنو بکر بن وائل كے ایک آدمی کو قتل نہ کردوں لیكن اس کی قوم کی رائے یہ تھی کہ دشمن سے لڑنے سے پہلے اس سے بات چیت کر لینی چاہیے چنانچہ ایک وفد جسا س کے والد کے پاس گیا اور اسےتین امورمیں سے ایک کو چننے کا اختیار دیا،وہ جساس کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ اسے کلیب کے بدلے قتل کیا جائے یا جساس کے بھائی ہمام کوہمارے حوالے کردیں تاکہ اسے کلیب کے بدلے قتل کیا جاسکے کیونکہ وہ کلیب کا ہم پلہ ہے یا تیسری صورت یہ ہے کہ تم خود کو ہمارے حوالے کر دو مگر جساس کے والد نے ان تمام باتوں کو ماننے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ جساس ایک نوجوان کم عمر لڑکا ہے اوراب وہ فرار ہو چکا ہے جس کا مجھے علم بھی نہیں ہے ۔ہمام دس بچوں کا باپ ہے اور دس کا رشتہ میں بھائی لگتا ہے،اگر میں اسے تمہارے حوالے کر دوں تو اس کے بچے مجھ پر چیختے رہیں گے کہ تو نے ہمارے باپ کو کسی دوسرے کے گناہ کے سبب قتل کے لیے پیش کر دیا۔میرا معاملہ یہ ہے کہ میں جلدی مرنانہیں چاہتا،کیا تمہارے پاس اس حوالے سے کوئی اورامر نہیں ہے ؟یہ میرے باقی قبیلے والے ہیں،ان میں سے کسی کو بھی اس کے بدلے قتل کردو اوراگر تم چاہو تو میں تمہیں ایک ہزار اونٹ بھی دینے کو تیار ہوں ۔انہیں یہ سن کر بہت غصہ آیا،انہوں نے کہا ہم اس لیے تمہارے پاس نہیں آئے کہ خود ذلیل ہو کر تمہارے بیٹے کی دیت قبول کریں ۔وہ چلے گئے اور پھر بالآخرجنگ شروع ہو گئی جو چالیس (40) سال تک جاری رہی ۔اس میں چھ(6) معرکے ہوئے،سب سے آخری معرکہ "تحلاق اللمم" تھا،یہ جنگ حیرہ کے بادشاہ منذر بن ماء السماء کے ذریعے ختم ہوئی تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جنگ حارث بن عمرو کندی کے ذریعے ختم ہوئی تھی۔50

حرب بسوس کی وجہ سے دیگر کئی جنگیں بھی ان دونوں قبائل کے درمیان بپا ہوئیں جن میں مورخین نے کئی ایام کا تذکرہ کیا ہے۔ان ایام میں یوم نہی،یوم ذنائب،یوم واردات،یو م عنیزہ،یوم قصیبات اور یوم تحلاق اللمم بھی شامل ہیں جن سب کا بنیادی سبب مذکورہ حرب بسوس تھی۔51

ربیعہ اور تمیم کے ایام

عدنانی قبائل کی جنگوں میں کچھ جنگیں ایسی بھی ہوئیں جو ربیعہ اور مضر قبیلہ کی شاخ تمیم کے مابین بپا ہوئیں جن میں یوم الوقیط سر فہرست ہے اور اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

یوم الوقیط

اس جنگ کا واقعہ یہ ہے کہ بنولہازم یعنی قیس اور تیم بنو تمیم پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے جبکہ بنو تمیم اس حملے سے لا علم تھے ۔جب ناشب بن بشامہ عنبری نے یہ صورت حال دیکھی (جو قیس بن ثعلبہ کے پاس قیدتھا )تو اس نے کہا کہ مجھے اپنے گھر والوں کو ایک کام کے بارے میں کچھ کہنا ہے لہذا مجھے ایک آدمی دو ۔انہوں نے کہا تم پیغام ہمارے سامنے دوگےجس پراس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔انہوں نے ایک کم سن بچے کو اس کے پاس بھیج دیا جس پراس نے سامنے والے سے کہا کہ تم ایک بے وقوف کو میرے پاس لے آئے ہو ۔بچے نے جوابا کہا کہ میں بے وقوف نہیں ہوں توناشب نے کہا کہ میں تمہیں پاگل سمجھتا ہوں،بچے نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم میں بالکل بھی پاگل نہیں ہوں،ناشب نے کہا کہ کیا تم عقل رکھتے ہو ؟بچے نے کہا ہاں،ناشب نے اس سے امتحان لینے کے لیے پوچھاکہ ستاروں کی تعداد زیادہ ہے یا اس جہان میں آگ زیادہ ہے؟لڑکے نے کہا ستارے زیادہ تعداد میں ہیں ۔ پھرناشب نے اپنی مٹھی میں ریت لی اور پوچھا کہ میری مٹھی میں ریت کے کتنے ذرے ہیں ؟لڑکے نے کہا ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ناشب نے سورج کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ وہ کیا ہے ؟اس نے کہا کہ سورج ہے،ناشب کو اندازہ ہو گیا کہ یہ بچہ عقل مند ہے ۔52

اب اس نے اسے پیغام بتانا شروع کیا اور کہا :تم پہلے میری قوم کو سلام کرنا پھرانہیں کہنا کہ اپنے قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ میں ایسے لوگوں کے پاس ہوں جو میرا خیال رکھتے ہیں۔انہیں کہنا کہ میرے سرخ رنگ کے اونٹ چھوڑ و اور میری بھورے رنگ والی اونٹنی کو سواری میں استعمال کرو ۔ا ن سے مزید کہنا کہ بنو مالک والوں کو بھی میری یہ بات دھیان سے پہنچا دینا،یہ بھی کہنا کہ عوسج نامی کانٹے دار درختوں کے پتے نکلنے شروع ہو گئے اور کہنا کہ عورتیں بیمار ہو کر شکایت کر رہی ہیں،ان سے یہ بھی کہ دینا کہ وہ ھشام بن بشامہ کی بات نہ مانیں کیونکہ وہ منحوس اور بدبخت آدمی ہے جبکہ ا س کے برعکس ہذیل بن اخنس کی بات مانیں کیونکہ وہ بابرکت اور عقل مند آدمی ہے اور یہ ضرور کہنا کہ تم حارث سے میرے حالات پوچھ لینا ۔یہ پیغام قبیلہ والوں کے پاس پہنچا لیکن وہ اس کا مطلب نہ سمجھ سکے تو وہ اس کو حارث کے پاس لے گئے اور اسے ساری بات بتائی گئی ۔53

اس نے قاصد سے کہا کہ مجھے اول سے آخر ساری بات بتاؤ تواسے مکمل تفصیل بتائی گئی ۔پھرحارث نے قاصد کو کہا تم بھی واپس جاکر اس کو ہمارا سلام پیش کرنا اور کہہ دینا کہ ہم تمہاری باتوں پر جلد ہی عمل کریں گے۔یہ قاصد واپس گیا تو حارث نے بنو عنبر سے کہا کہ تمہارے ساتھی نے تمہیں رمزیہ انداز میں پیغام بھیجا ہے۔ مٹھی میں ریت سے مراد یہ تھا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے،سورج کی طرف اشارہ سے مراد یہ تھا کہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے،سرخ اونٹ چھوڑنے سے مراد یہ ہے کہ تم صمان کا علاقہ چھوڑ دواور بھورے رنگ کی اونٹنی پر سواری سے مراد یہ ہے کہ تم مقام دھنا ء میں پڑاؤ ڈالواورعوسج نامی پودے کے پتے نکلنے سے مراد یہ ہے کہ دشمن اپنی پوری تیاری کر چکا ہے۔اس کے بعد بنو عنبر نے دھناء کے مقام پر جا کر پڑاؤ ڈال لیا اور بنو مالک کو بھی یہ بات بتا دی گئی تھی لیکن ان پر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔54

لہازم،عجل اور عنزہ،بنی حنظلہ کے علاقے میں گئے تو معلوم ہوا کہ آبادی نقل مکانی کر چکی ہے چنانچہ انہوں نے وقیط کے مقام پر جاکر بنو دارم پر حملہ کیا اورسخت لڑائی ہوئی ۔ربیعہ نے بنو تمیم کے سرکردہ افراد کو قیدی بنا لیاجن میں ضرار بن قعقاع بھی شامل تھا پھرانہوں نے اس کے سر کے بال کاٹ کر اسے آزاد کر دیا ۔عثجل بن مامو ن اور جویرہ بن بدر کو بھی قیدی بنا لیا گیا،نعیم اور عوف جوقعقاع بن معبد کے بیٹے تھے یہ بھی قیدی بنا لیے گئے،ان کے علاوہ دوسرے سردار بھی قیدی بن گئے ۔حکیم بن جذیمہ جو قبیلۂ نہشل سے تھا وہ اس جنگ میں مارا گیا اورنہشل قبیلے کا یہ ایک ہی آدمی اس جنگ میں شریک تھا ۔واپسی پر بنو بکر جنگ کے بعد اس راستے سے گذرے تو وہاں بنو عنبر کے تین آدمی پھر رہے تھے اوران تینوں نے اپنی قوم کےساتھ کوچ نہ کیا تھا۔جب انہوں نے بکروالوں کو دیکھا تو انہوں نے اپنے اونٹوں کو ہانکنا شروع کر دیا اور انہیں بچاکر لے گئے ۔اس جنگ کے متعلق بہت سے اشعار ہیں جن میں سے ابو مہوش فقعسی کے درج ذیل اشعار بھی ہیں جن میں اس نے جنگ وقیط کے بارے میں بنو تمیم کو عار دلائی ہے چنانچہ اس نے کہا:

  فما قاتلت يوم الوقيطين نهشل
ولا الأنكد الشؤمى فقيم بن دارم
ولا قضبت عوف رجال مجاشع
ولا قشر الأستاه غير البراجم.55
  جنگ وقیط کے دن نہ بنو نھشل والوں نے جنگ کی اور نہ ہی منحوس مرد فقیم بن دارم نے جنگ میں حصہ لیا، نہ ہی عوف بنو مجاشع کے آدمیوں کو مارا اور نہ ہی بنو براجم کے علاوہ کسی دوسرے کو خراش آئی" ۔

اس یوم کے علاوہ ایک یوم جدود بھی تھا جو ربیعہ اور مضر قبیلہ کی شاخ تمیم کے درمیان وقوع پذیر ہوا۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

یو م جدود

جدود وہ جگہ تھی جس میں کلاب نامی ایک چشمہ تھا، حارث بن شریک جو حوفزان کے لقب سے مشہور تھا،اس نے بنو سعد پر حملہ کیا اور ان کی بکریوں اور ان کے جانوروں پر قبضہ کر لیا نیززرقاء کو بھی قیدی بنالیا۔اسے وہ لڑکی اچھی لگی اور اسے بھی وہ مرد اچھا لگا لیكن انہیں ملاپ کا موقع نہیں مل سکا۔جب وه جدود كے مقام پر پہنچےتو بنویربوع نے انہیں پانی پرآنے سے منع کر دیااور ان کا رئیس عتیبہ بن حارث تھا پھراس مقام پر لڑائی ہوئی لیکن حوفزان کے پاس ان کے مقابلے میں طاقت کم تھی اس لیے یہاں بعض مالِ غنیمت دینے پر صلح ہوئی،پھر یہ پانی سے گزرے اور قیس بن عاصم نے ان کے قدموں کے نشانات پر ان کا پیچھا کیا،اس کے ہمراہ بنو سعد بھی تھے ۔قیس نے حارث کو دیکھ لیا کہ اس نے زرقاء کو اپنے پیچھے گھوڑے پر بٹھا کر اس کے بالوں کو اپنے سینے سے باندھ رکھا تھا توقیس نے اسے آواز دی اور کہا کہ اے گدھے تیرے لیے بیابان اور پیاس سے زیادہ عمدہ جگہ ہے تو ا س نے زرقاء کے بال کاٹ دیے اور اسے گھوڑے سے نیچے پھینک دیا ۔56

قیس نے حارث کو ایک نیزہ مارا جواس کی سرین میں جاکر لگا اوراس سے وہ چند دن بعد فوت ہو گیا پھرقیس نے زرقاء کو بنی ربیع کے طرف لوٹا دیا ۔اس پر سوار بن حیان منقری نے کہا تھا :

  نحن حفزنا الحوفزان بطعنة
سقته نجيعا من دم الجوف اشكلا.57
  ہم نے حوفزان کو پیچھے سے نیزہ مارکراسے پیٹ کا سرخ اور کالا خون پلایا ۔

اس کے علاوہ ربیعہ اور تمیم کے ایام میں یوم ثیتل، یوم زرود،یوم ذی طلوح،یوم الایاد،یوم الغبیط،یوم قشاوۃ،یوم زبالہ،یوم مبایض،یوم زوربن،یوم عاقل،یوم شیطین،یوم الوقبی اور یوم الشباک بھی شامل ہیں۔

عدنانی قیس کے ایام

ایامِ عرب میں کچھ جنگیں ایسی بھی ہوئیں جو عدنانی قبیلہ قیس کے درمیان لڑی گئیں جن میں یوم داحس وغبراء سر فہرست ۔

یوم داحس والغبراء

یہ معرکہ عبس اور ذبیان کے درمیان پیش آیا جو غطفان کی دو شاخیں تھیں اوریہ حرب بسوس کے تھوڑے عرصے بعدہی وقوع پذیر ہوا ۔اس کا سبب قبیلہ ذبیان کے سردار حذیفہ بن بدراورعبس کے سردار قیس بن زہیر کا گھڑ دوڑ پر اختلاف تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قیس اور اس کی قوم نے حذیفہ اور اس کے قبیلے والوں کے پاس پڑاؤ ڈالا اس حال میں کہ ان کے درمیان نسبی رشتہ بھی تھا۔قیس کے پاس ایسے گھوڑے تھے جیسے گھوڑےعرب میں کسی کے پاس بھی نہیں تھے جس سےحذیفہ کو حسد ہوا ۔اس نے بڑی بے صبری سےاسے نکالنے کی کوشش شروع کر دی لیکن اسے کوئی معقول وجہ نہیں مل رہی تھی پھر اس نے ایک منصوبہ کے تحت اسے گھڑ دوڑ کی دعوت دی اور کہا کہ داحس اور غبر اء کو میرے گھوڑے اور گھوڑی کے مقابلے میں لاؤ جن کا نام خطّار اور حنفاء ہے پھر ہم میں سےجو جیت گیا بیس اونٹنیاں اس کا انعام ہو گا۔58

دوڑ شروع ہوئی تواسی دوران حذیفہ کو احساس ہو گیا کہ اس کےگھوڑے جیت نہیں سکیں گےتو اس نے ایک حیلہ کیا جس کی تدبیر وہ پہلےہی کر چکا تھا تاکہ قیس کاگھوڑا نہ جیت سکے۔قیس کو اس چال کا علم ہوگیا،حذیفہ نے شرط کے مطابق بیس اونٹنیاں دینے سے انکار کر دیا اور یہ جھگڑا جنگ تک جا پہنچا جو طویل عرصہ جاری رہی ۔اس میں متفرق بہت سے معرکے ہوئے اوراس میں حذیفہ اور بہت سے دیگر سردار قتل بھی ہوئے۔یہ جنگ زمانہ اسلام تک جاری رہی پھر بعض سرداروں کے توسط سے اس جنگ کا خاتمہ ہوا اورزائد ہلاکتوں کی دیت اداکی گئی ۔یہ جنگ چند وجوہ سے دیگر سے ممتاز رہی کیونکہ اس میں متعدد معرکے ہوئے،جن میں عبس اور ذبیان کے علاوہ شیبان،ضبہ،اسد اور دیگر قبائل بھی شامل ہو گئے تھے،اس کے بہادر بڑی بہادری سے لڑے،اس میں عنترہ جیسا شاعر تھا جس کی شہرت داحس و غبر اء سے بھی زیادہ تهی اور اس میں زہیر بن ابو سلمی جیسے شاعر کا بھی ذکر ملتا ہے ۔اس کےعلاوہ قیس کے ایام میں یوم منعج،یوم نفراوت،یوم بطن عاقل، یوم الرقم،یوم النتاءۃ،یوم حوذۃ الاول،یوم حوذۃ الثانی، یوم اللوی، حدیث ابن صباِاوریوم ھرامیت بھی شامل ہیں۔59

ایام قیس و کنانہ

ایامِ عرب میں کچھ جنگیں وہ بھی برپا ہوئیں جو عدنانی قبیلہ قیس اور کنانہ کے درمیان لڑی گئیں جن میں یوم فجار اول سر فہرست ہے۔

یوم فجار اوّل

فجار میں ایک طرف قریش اور پورے کنانہ تھے اوران کے مقابلے میں قیس عیلان تھے۔اس کاسبب یہ ہوا کہ کنانہ کے ایک شخص نے نصر کا قرض دینا تھا اور اس کے مالی حالات بالکل ٹھیک نہیں تھے،نصری نے عکاظ کے بازار میں اس کے قبیلے کو شرم دلائی اوراسی بات پر باہم جھگڑا ہوا لیکن لوگوں نے صلح کروا دی اور بات ختم ہوگئی ۔ایک روایت یہ ہے کہ قریش کے کچھ نوجوانوں نے بنی عامر کی ایک پردہ دار خاتون کو کہا کہ اپنی زیارت ہمیں کروادو تواس نے انکار کیا ۔ایک لڑکے نے چالاکی سے اس کا دامن اس کی پشت کی طرف کر دیا اور اسے پتا نہ چلنے دیا،جب وہ اٹھی تو اس کی قمیص پھٹ گئی اور بدن ننگا ہوگیا ۔اس پر لڑکے ہنسے اور بولے کہ تم نے چہرہ نہیں دکھایا تو کیا ہوا ہم نے تمہارا بدن دیکھ لیا،اس حرکت پر عورت چلائی اور اس نے کہا کہ اے بنو عامر میں رسوا ہوگئی،لوگ جمع ہوئے اورمعمولی جھگڑا ہوا لیکن پھر صلح ہو گئی۔دوسری روایت یہ بھی ہے کہ اس کا سبب بنو غفار کا ایک شخص تھا جو طاقتوراور بہادر تھا،وہ عکاظ کے بازار میں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا اور کہا کہ اگر کوئی مجھ جیسا عزت دار شخص ہے تو میری ٹانگ پر تلوار مارے۔ یہ سن کر قبیلہ قیس کے احمر بن مازن نے اس کی ٹانگ پر تلوار ماردی جس وجہ سےہلکی پھلکی لڑائی ہوئی لیکن پھرصلح ہوگئی ۔ 60

یوم فجارثانی

یہ جنگ اصحاب فیل کے واقعہ کے بیس سال بعد ہوئی اوراس وقت حضرت عبد المطلب کی وفات کو بارہ سال ہو چکے تھے ۔یہ بڑی مشہور جنگ تھی اوراس کا نام فجار اس لیے پڑا کیونکہ کنانہ اور قیس قبائل نےحرام کردہ (مہینوں ) کو حلال کر دیا تھا ۔

اس کا سبب یہ تھا کہ نعمان بن منذر ہر سال ایک مشک بردار تجارتی قافلہ عکاظ بھیجا کرتا تھا،نعمان کے پاس براض اور عروہ بن عتبہ موجود تھے تواس نے پوچھا کہ کون ہے جومیرےاس تجارتی قافلے کی عکاظ تک حفاظت کرے گا؟براض نے کہا کہ میں اسے کنانہ کے پاس سے گزاروں گا ۔نعمان نے پوچھا کہ کون اسے کنانہ اور قیس دونوں کے پاس سے گزارے گا؟عروہ نے کہا کہ میں اسے شیح،قیصوم، اہل تہامہ اور اہل نجد سے بحفاظت گزاردوں گا جس پربراض نے غضبناک ہو کر کہا :کیا تم اسے کنانہ کے پاس سے بحفاظت لے جاؤ گے؟عروہ نے کہا کہ ہاں میں سب کےپاس سے لے جاؤں گا ۔نعمان نے عروہ کو قافلہ لے جانے کا حکم دیا جبکہ براض بھی اس کے تعاقب میں نکل گیا پھر جب عروہ فدک کے نواح میں تھا تو براض نے اسے تلوار سے قتل کر دیا ۔ قافلے کے نگرانوں نے جب اس کی لاش دیکھی تو وہ پلٹ گئے،براض نے قافلہ لیا اور خیبر چلا گیا ۔قیس کے دو آدمیوں نے اسے پکڑنے کے لیے تعاقب کیا،جب یہ خیبر پہنچے تو انہیں سب سے پہلے جو شخص ملا وہ براض ہی تھا ۔انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو تو براض نے انہیں دھوکہ دیتے ہو ئے کہا کہ میرا تعلق قیس سے ہے اور میں براض کو قتل کرنے کے لیے آیا ہوں،انہوں نے اس کی بات پر یقین کرلیا اوربراض نے ان کے اونٹ باندھ دیے،پھربہانے سے ایک کو اپنے ساتھ لے گیا اور اسے قتل کر دیا پھر دوسرے کے پاس آکر اسے بھی بہانے سے قتل کر دیا اور قافلہ لے کر مکّہ پہنچ گیا ۔وہاں وہ بنو اسد کے ایک آدمی سے ملا اور کہا میں تمہیں دس اونٹ دوں گااگرتم میرا یہ کام کردوگے۔پھر کہا جاؤ،حرب بن امیہ اور میری قوم کے پاس جاؤ اور انہیں مطلع کرو کہ براض نے عروۃ الرحال کو قتل کر دیا ہے لہذا وہ قیس قبیلہ سے محتاط رہیں ۔ 61

اس شخص نے حرب بن امیہ کو پیغام پہنچا دیا توحرب نے عبد اللہ بن جدعان تمیمی اور ہشام بن مغیرہ مخزومی کو بلوایا کیونکہ یہ دونوں شرفاء اور عمر رسیدہ تھے ۔اسی طرح قریش کی ہر شاخ کو اوراحابیش کے سردار کو بھی پیغام بھیج دیا،سب ملے اور مشاورت کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ وہ ابوبراء عامر بن مالک ملاعب الاسنہ کے پاس جائیں گے جو قیس کا معزز سردار تھا ۔اس سے کہیں گے کہ یہ قتل نجد اور تہامہ کے مابین ہوا ہے اور اس کا علم ہمیں نہیں ہوا لہذاتم لوگوں کو گزرنے کی اجازت دو۔یہ سب لوگ اس کے پاس گئے اور اسے یہی بات کہی،اس نے اپنے لوگوں کو بھی اس سے مطلع کر دیا،پھر عامر مراعب الاسنہ کو اطلاع ملی کہ قریش نے اس سے بے وفائی کی ہے اوراسے دھوکہ دیا ہے تو وہ ان کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔نخلہ کے مقام پر ان کا آمنا سامنا ہوا اوریہاں لڑائی بھی ہوئی، قریب تھا کہ قریش شکست کھا جاتے مگر وہ حدود حرم میں داخل ہو گئے۔قیس یہ دیکھ کر واپس آگئےا ور پیغام دیا کہ ہم عروہ کا خون ترک نہیں کریں گے لہذایاد رکھنا آئندہ سال ہماری میعاد عکاظ ہے ۔پھر وہ واپس قوم میں گئے اور اپنی قوم کو جنگ پر ابھارتے رہے،قریش بھی تیار ی کرتے رہے اورقریش نے لوگوں میں اسلحہ تقسیم کر دیا۔قریشں نے اپنی تمام شاخوں کو جمع کیا،قریش کی ہر شاخ کا ایک سربراہ تھا اوراحابیش کے دو سردار تھے ۔اس متحدہ لشکر کی قیادت حرب بن امیہ کر رہا تھا کیونکہ وہ عبد مناف میں عمر اور مرتبہ کے لحاظ سے بڑا تھا ۔ 62

قیس بھی مکمل تیاری کے ساتھ قریش سے پہلے ہی عکاظ پہنچ گئے پھر جب قریش نے عکاظ میں پڑاؤڈالا تو وہاں پہلے سے ہی قیس موجود تھے ۔حرب بن امیہ کے ساتھ اس کا بھائی سفیان،ابو سفیان،العاص اور ابوالعاص بھی تھا۔حرب نے اپنے آپ کو باندھ لیا،ان تینوں نے کہا ہم میں سے کوئی اس وقت تک اپنے مقام سے نہیں ہٹے گا جب تک فتح یا موت نہ آجائے۔سخت لڑائی ہوئی،دن کے پہلے حصے میں قیس نے فتح پائی،دوپہر سے پہلے تک قیس کو قریش اور کنانہ کے مقابلے میں فتح ملتی رہی لیکن اس کے بعد قریش اور کنانہ کو فتح نصیب ہوئی ۔انہوں نے قیس کے خوب آدمی مارے،اس دن بنی حارث بن عبد مناۃ کے پرچم تلے سو آدمی پا مردی سے لڑتے ہوئے مارے گئے،بالآخر قیس نے شکست کھائی اور ان کے اشراف میں سے عباس بن زعل سلمی وغیرہ مارے گئے ۔جب مالک بن عوف نصری کے چچا ابو السید نے کنانہ کو دیکھا کہ وہ دشمن کو خوب قتل کر رہے ہیں تو پکار کر کہا،اے بنی کنانہ کے گروہ تم لوگوں نے قتل کرنے میں زیادتی کی جس پرابن جدعان نے جواب دیا کہ ہم لوگ حد سے بڑھنے والے ہی ہیں۔سبیع بن ربیعہ نے جب قبائل قیس کو شکست ہوتے دیکھی تو اپنے آپ کو باندھ کر لیٹ گیا اور کہا کہ میرے تحفظ کے لیے لڑو یا بھاگ جاؤ چنانچہ بنی نصر،جشم،سعد بن بکر،فہم اور عدوان اس کی طرف آئے جبکہ قیس کے باقی قبائل نے شکست کھائی۔ان لوگوں نے جم کر لڑائی کی پھر فریقین نے صلح کی طرف دعوت دی اور اس بات پر صلح ہوئی کہ جس کے مقتول زیادہ ہوں گے اسے دیت دی جائے گئی ۔مقتولین کو گنا تومعلوم ہوا کہ بنو قیس کے بیس آدمی زیادہ مار ے گئے تھے،اس وقت دیت کی مکمل ادائیگی ہونے تک حرب بن امیہ نے ابو سفیان کو رہن رکھوا دیا تھا،دوسرے سرداروں نے بھی کئی چیزیں رہن رکھوادیں،یوں یہ جنگ ختم ہوگئی اور یہ معاہدہ ہوا کہ کوئی بھی شخص آئندہ براض اور عروہ کے معاملہ میں کسی کو تکلیف نہیں دے گا ۔ 63

کچھ مورخین نے فجار اول میں ذکر کردہ تین روایات کو الگ الگ یوم شمار کرتے ہوئے،یوم فجار اول،یوم فجارثانی اور یوم فجار ثالث کا نام دیا ہے اور مقالہ میں ذکر کردہ یوم فجار ثانی کو یوم فجار رابع شما ر کیا ہے ۔اس کے علاوہ قیس اور کنانہ کے ایام میں یوم الکدید،یوم برزہ،یوم نخلہ،یوم شمطۃ،یوم عبلا ء،یوم عکاظ اوریوم حریرہ بھی شامل ہیں۔

ایام قیس و تمیم

کچھ وہ جنگیں بھی برپا ہوئیں جو قیس اور تمیم قبائل کے درمیان لڑی گئیں اور ان میں یوم رحرحان سرفہرست ہےجس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

یوم رحرحان

یہ معرکہ حارث بن ظالم مری اور خالدبن جعفر کلابی کے قتل کے بعد پیش آیا ۔اس کا سبب یہ تھا کہ حارث کی قوم کو اس کے کام اچھے نہیں لگتے تھے،وہ اسے ملامت کرتے رہتے تھے لہذاوہ ان سے الگ ہو کر تمیم سے مل گیا جس سےبنو عامر کو تکلیف ہوئی ۔انہوں نے بنو تمیم سے حارث کو سپرد کرنے کا مطالبہ کیا،جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو بنو عامر نے ان پر اچانک حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی اوراسی ارادے سے وہ نکل پڑے ۔بنو تمیم کو ان کے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنا قیمتی مال اور گھر والوں کو بنو بغیض کےعلاقوں میں بھیج دیا ۔ 64جب وہ رحرحان کے مقام پرپہنچے تو بنی عامر سے ان کا سامنا ہوا اور اس وقت ان کا رئیس الاحوص تھا ۔بنو تمیم کو اس مقام پر شکست ہوئی اور ان میں سے معبد بن زرارہ کو قیدی بنا لیا گیا ۔اس کو عامر اور طفیل نے قیدی بنایا تھاجو مالک بن جعفر بن کلاب کے بیٹے تھے،ان کا ہم شریک ابو عمیرہ عصمہ بن وھب تھا اوراسی دوران معبد کی وفات بھی ہوئی۔انہوں نے اس کو کھال میں لپیٹا اور طائف لے گئے،انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ انہیں خوف تھا کہ بنو تمیم اسےچھڑوا لیں گے ۔لقیط بن زرارہ بھی لشکر جمع کر رہا تھا اور تیاریاں کر رہا تھا تاکہ وہ بنی عامر سےشکست کا انتقام اور اپنے بھائی معبد کا بدلہ لے سکے جسے انہوں نے قیدی بنا لیا تھا اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے اس کی وفات ہو گئی تھی۔ لقیط، نعمان بن منذر کے پاس گیا، ھجر کے بادشاہ جون کلبی کے پاس گیا،ہر اس گروہ کے پاس گیا جو بنو عامر اور عبس سے دشمنی رکھتا تھا کیونکہ اس کا سینہ غصے سے بھرا ہوا تھا۔بنو ذبیان بھی اس کے ساتھ ہوگئےکیونکہ وہ بھی داحس و غبراء کی جنگ کی وجہ سے عبس کے دشمن بن چکے تھے۔بنو اسدبھی اس کے لشکر میں شامل ہو گئے کیونکہ ان کے اور بنو ذبیان کے درمیان حلف تھا ۔جب یوم رحرحان کو ایک سال گزرا تو تمام قبائل کے سردار اور ان کے لشکر جمع ہو گئے،یہ بڑا عظیم لشکر تھا جس سے بڑے لشکر کا ذکر عرب جاہلیت میں نہیں پایا جاتا ۔بنو عامر کو جب اس لشکر کے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے تیاری شروع کر دی اور پہاڑ کی گھاٹی میں پناہ لے لی۔انہیں یہ خبر کرب بن صفوان سعدی نے دی تھی جو اشراف قوم میں سے تھا اور اس لشکر کے ساتھ نہیں گیا تھا ۔انہیں خطرہ بھی محسوس ہوا تھا کہ وہ کہیں یہ راز ظاہر نہ کر دےاسی لیے انہوں نے اس سے یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ بنی عامر کی طرف ہماری پیش قدمی کی اطلاع انہیں نہیں دے گا۔کرب بن صفوان نے ان کے لیے بنی تمیم کے حملے کی کچھ علامات ظاہر کیں لیکن صاف صاف نہیں بتا یا کیونکہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرنا چاہتا تھا۔وہ ان علامات سے ہی سمجھ گئے اور انہوں نے تیاری شروع کر دی ۔یہ لشکر جب دیار بنو عامر کے پاس پہنچا تو اس وقت بنو اسد کی رائے تبدیل ہو گئی اور وہ اسی مقام سے واپس لوٹ گئے۔ لقیط کے ساتھ ان کے صرف چند لوگ ہی شامل ہوئے اور جب بنو تمیم اور ان کے حلیف جبلہ کی گھاٹی کے پاس پہنچے تو بنو عامر مکمل طور پر تیار تھے،گھاٹی میں انہوں نے دشمن کے حملے سے محفوظ مقامات سنبھال رکھے تھے ۔انہوں نے یہ سمجھ کر حملہ کیا کہ وہ غافل ہیں حالانکہ اس کے برعکس وہ بالکل تیار بیٹھے تھے،ان کی ساری منصوبہ بندی الٹ گئی اور انہیں پسپائی کا سامنا کرنا اور بنو عامر کی تلواریں ان کا پیچھا کر رہی تھیں۔یہ ذلت آمیز شکست تھی جو بنو تمیم اور اس کے حلیفوں کے حصے میں آئی،بعض روایات کے مطابق یہ یوم مولد النبی ﷺ کے سال پانچ سو ستر (570)عیسوی میں پیش آیا تھا ۔65اس کے علاوہ قیس اور تمیم کے ایام میں یوم شعب جبلہ،یوم ذی نحب،یوم الصرائم،یوم الرغام،یوم جزع ظلال اوریوم المروت بھی شامل ہیں ۔

ضبہ وغیرہ کے ایام

عدنانی قبائل کے ایام میں کچھ جنگیں ضبہ کے نام سے بھی منقو ل ہوئیں جن میں یوم نسار سر فہرست ہے اور اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

یوم نسار

نسا ر چند پہاڑوں کا نام ہے جہاں یہ جنگ ہوئی تھی۔اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ بنو ضبہ والوں نے بنو تمیم کے ایک قبیلےپر حملہ کیا اور ان کا مال وغیرہ لوٹ لیا۔ جب اطلاع ملی کہ بنو تمیم پیچھے آرہے ہیں تو ان لوگوں نے پھلوں کے شیرے میں ہاٹھ ڈبو کر ایک معاہدہ کیا چونکہ اس شیرے کو رباب کہاجاتا تھا اسی لیے اس جماعت کو بھی جماعت رباب کہا جاتا ہے۔انہوں نے اپنے مزید حلیفوں سے بھی مدد مانگ لی،جب بنو تمیم کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے بھی بنو عامر سے مدد طلب کرلی،انہوں نے ان کی بھرپورمدد کی،نسار کے مقام پر ان لشکروں کا ٹکراؤ ہوا اور شدید لڑائی ہوئی جس میں بنو عامر جم کر لڑے۔ ان کی استقامت کی وجہ سے بنو تمیم کو عارضی طور پرفرار ہو نا پڑا لیکن بعد میں انہیں ہی فتح نصیب ہوئی ۔66اس جنگ میں حتمی شکست بنو عامر کی ہوئی اور ان کے بہت سے سردار قتل ہو گئے،ان کی بہت سے خواتین بھی قیدی بنیں۔67اس کے علاوہ ایام ضبہ وغیرہ میں یوم الشقیقۃ،یوم بزاحۃ،یوم دارۃ ماسل،یوم النقیمۃ،یوم جدیس،یوم ذات الاثل اوریوم صوءر بھی شامل ہیں۔

عرب اور فارس کے ایام

اندرونی جنگوں کے علاوہ عرب کی کچھ جنگیں بیرونی طورپر بھی لڑی گئیں جن میں سر فہرست یوم صفقہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

یوم صفقہ

اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ یمن میں باذان نامی شخص جو کہ کسری پرویز کا نائب تھا،اس نے کسری یمن کو ہدیے کے طور پر کئی چیزیں روانہ کیں،جب قافلہ نجد کے علاقے نطاع میں پہنچا تو بنو تمیم نے اس پر حملہ کرکے سب کچھ لوٹ لیا اور ان کے کنگن اور کپڑے بھی چھین لیے ۔یہ لوگ برہنہ یمامہ کے سردار ھوذہ بن علی حنفی کے پاس چلے گئے،اس نے ان کو کپڑے دیے اور ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ۔انہوں نے کہا کہ بادشاہ آ پ کی ملاقات کے خواہش مند ہیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس سے پہلے جب بھی کسری یمن میں مشک فروخت کرنے کے لیے بھیجتا تو یہ اس کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرتا تھا۔اس بار یہ بھی اس کے لوگوں کے ساتھ ہی روانہ ہو گیا، کسری نے اس کا بہت اعزاز و اکرام کیا اور اسے اپنا تاج پہناکر ھجر کا علاقہ جاگیر کے طور پر عطا کیا۔کسر ی نے حکم دیا کہ تم اور مکعبر میرا لشکر لے کر جاؤ اور بنو تمیم پر حملہ کرو،جب یہ لوگ ہجر پہنچے تو مشقر کے علاقے میں پڑاؤ ڈالااور دہشت کی وجہ سے بنو تمیم میں داخل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے بنو تمیم کے کچھ لوگوں کو یہ کہہ کر بھیج دیا کہ آج خوراک تقسیم ہو گی آپ سب قلعہ میں آجائیں۔اس وقت بنو تمیم کے حالات بہت تنگ تھے، جب کافی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے تو مکعبر انہیں پانچ یا دس کی تعداد میں کرکے کہتا قلعے کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل جاؤ۔جو شخص بھی اندر داخل ہوتا تو یہ اس کی گردن اڑا دیتا،جب کافی دیر گذر گئی تو لوگوں کو شک ہوا کہ آدمی اندر تو جار ہے ہیں لیکن باہر نہیں آرہے لہذاانہوں نے تحقیق کے لیے کئی آدمی بھیجے تو عبس کے ایک آدمی نے اس راز کو فاش کیا،اس وقت مکعبر نے حکم دیا کہ قلعے کے دروازے بند کر دو اور جتنے لوگ بھی اندر موجود ہیں،سب کو قتل کر دو،اس دن کو یوم فصح بھی کہتے ہیں اوردروازے بند کرنے کا حکم دینے کی وجہ سے یوم صفقہ بھی کہتے ہیں ۔68اس کے علاوہ عرب اور فارس کے ایام میں یوم ذی قار بھی شامل ہے ۔

ان جنگوں کے نتائج

ان لڑائیوں کے عرب قبائل پر کیا اثرات مرتب ہوئے،اس حوالے سے تاریخِ عرب یہ بتاتی ہے کہ عرب قبائل ان جنگوں کی وجہ سے نہایت ضعف کا شکار ہو گئے،یہ جد اجدا ہو كر بکھر گئے اور کبھی مل نہ سکے،ان کے حکومتی معاملات میں بھی بیرونی طاقتیں دخل اندازی کرنے لگیں69لیکن پھر وہ انقلاب آیا جس نے ان کے ضعف کو قوت اور ان کے انتشار ومنافرت کو اتحاد ومواخات میں تبدیل کردیا۔پھر وہ عرب جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ پڑتے اورہمیشہ متفرق اور جدا جدا رہتے،انہیں پیغمبر آخر الزمان ﷺ نے اخوت و اتحاد کی ایسی لڑی میں پَرویا جس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ بھائی بھائی بن گئے اور پھر اسی وحدت کے ساتھ قیصر و کسری جیسی عظیم طاقتوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے دنیا پر چھا گئے۔آج بھی اہل عرب ایک بہت بڑی تعداد ہیں اور اگر یہ اپنے ساتھ اپنے مسلمان عجمی بھائیوں کو ملا کراس امت مسلمہ کی قیادت اور رہنمائی کریں تو شاید دنیا کا کوئی ملک ان کی قوت، حشمت،طاقت اور استقامت کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ عربوں کی ان جنگی صلاحیتوں کوجن کو نبی ﷺ نے اللہ کے دین اور پیغام کی سربلندی کے لیے استعمال کیا تھا دشمن نےعیاری سےایک مرتبہ پھرعربوں کواپنے ہی مسلمان بھائیوں سے لڑواکرضائع کر دیا ہے کیونکہ یہ بات دنیا کی تمام اقوام آج بھی بخوبی جانتی ہیں کہ جنگی جذبہ اور صلاحیتیں جو عربوں کی تاریخ کا ہمیشہ سے حصہ رہی ہیں اگر وہی جذبہ اور صلاحیتیں آج ایک مرتبہ پھر اسلام کے لیے استعمال ہونا شروع ہو جائیں تو کسی قوم میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ ان کو روک سکے اور نہ ہی کسی ملت میں یہ طاقت ہے کہ ان کے مقابلے میں ڈٹ سکے۔اسی لیے دشمن ہمیشہ کی طرح آج بھی عربوں کی صلاحیتوں اور پیسو ں کو ان کی باہمی لڑائیوں اور عیاشیوں میں خرچ کروا کر انہیں نقصان پہنچا رہا ہے اور عربوں کے بچوں کو مغربی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے نام پر لے جا کر ان کی ذہن سازی بلکہ قلبِ ماہیت کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ کے دین کے مجاہد اپنے مقصد حیات سے غافل ہو گئے ہیں اور دشمن ان کے وسائل پر قبضہ کرکے مزے کر رہا ہے

 


  • 1 ابو الفضل محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی، لسان العرب، ج-12، مطبوعۃ:دار صادر، بیروت، لبنان،1414ھ،ص:651
  • 2 القرآن،سورۃ آل عمران140:3
  • 3 الدکتور احمد مختار، معجم اللغة العربية المعاصرة، ج-3، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان،2008م،ص:2522
  • 4 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-10، مطبوعۃ:دارالساقی، بیروت، لبنان،2001م،ص:13
  • 5 ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی،تاریخ ادب عربی،مطبوعہ :قدیمی کتب خانہ،آرام باغ،کراچی،پاکستان،2013ء،ص:103
  • 6 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ:مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاھرۃ، مصر،1372ھ،ص:1
  • 7 توفیق برو،تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت،لبنان،2001م،ص :203
  • 8 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم،ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاھرۃ،مصر،1372ھ،ص:1
  • 9 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-10، مطبوعۃ:دارالساقی، بیروت،لبنان،2001م،ص:13
  • 10 ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی،عربی ادب کی تاریخ، ج-1، مطبوعہ: ترقی اردو بیورو،نئی دہلی،ہند،1904ء،ص:35-36
  • 11 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام،ج-10، مطبوعۃ:دارالساقی، بیروت،لبنان،2001م،ص:13
  • 12 أبو البقاء هبة الله محمد بن نما الحلي،المناقب المزيدية في أخبار الملوك الأسدية،ج-1، مطبوعۃ:مكتبة الرسالة الحديثة، عمان،1984م،ص:192
  • 13 أبو المعالي محمد بن الحسن البغدادی،التذكرة الحمدونية، ج-7، مطبوعۃ: دار صادر، بيروت،لبنان،1417 ھ،ص:382
  • 14 ابوعبیدة معمر بن المثني التيمي،کتاب ایام العرب قبل الاسلام، مطبوعۃ: مطبعۃ دار الجاحظ للطباعۃ والنشر، بغداد، عراق، 1976م،ص:18
  • 15 توفیق برو،تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م، ص :205
  • 16 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-10، مطبوعۃ:دارالساقی، بیروت،لبنان،2001م،ص:14
  • 17 أبو عبيدة معمر بن المثنى التيمى، الديباج، مطبوعۃ: لیس بمطبوع، مخطوطۃ موجودۃ فی المکتبۃ الشاملۃ،ص:13
  • 18 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام،ج-10، مطبوعۃ:دارالساقی، بیروت، لبنان،2001م،ص:14
  • 19 أبو المعالي محمد بن الحسن البغدادی،التذكرة الحمدونية، ج-7، مطبوعۃ: دار صادر، بيروت، لبنان،1417 ھ،ص:382
  • 20 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-10، مطبوعۃ: دارالساقی، بیروت، لبنان،2001م،ص:15
  • 21 توفیق برو،تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م،ص :203
  • 22 ايضا،ص :205
  • 23 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-10، مطبوعۃ: دارالساقی، بیروت، لبنان،2001م،ص:15
  • 24 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م،ص :205
  • 25 الدكتور فيليب حتي، تاریخ العرب(مترجم:الدکتور ادوردجرجی و الدکتور جبرائیل جبور)، ج-1، مطبوعۃ: دار الکشاف للنشر والطباعۃ،القاهرة، مصر،1949 م، ص:119
  • 26 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-10، مطبوعۃ: دارالساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:16
  • 27 ايضا، ص:14
  • 28 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001ء، ص :206
  • 29 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 458- 459
  • 30 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ:مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاھرۃ، مصر،1372ھ،ص:43
  • 31 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 459
  • 32 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ:مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاھرۃ، مصر،1372ھ،ص:44-45
  • 33 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 459- 460
  • 34 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 46
  • 35 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 495
  • 36 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 47- 49
  • 37 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 487
  • 38 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 52
  • 39 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 487 - 488
  • 40 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م، ص: 209- 210
  • 41 ابراہیم شمس الدین، مجموع ایام العرب فی الجاھلیۃ والاسلام، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص:110
  • 42 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص:497
  • 43 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 99
  • 44 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-10، مطبوعۃ: دارالساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:16
  • 45 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م، ص :213
  • 46 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-10، مطبوعۃ: دارالساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:16
  • 47 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 142-143
  • 48 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م، ص: 213 - 214
  • 49 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 145-146
  • 50 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م، ص: 213 - 216
  • 51 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-10، مطبوعۃ: دارالساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:29
  • 52 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص:561
  • 53 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 170-171
  • 54 أبو المظفر يوسف بن قِزْأُوغلي سبط ابن الجوزی، مرآة الزمان في تواريخ الأعيان،ج-2، مطبوعۃ: دار الرسالة العالمية، دمشق، السورية،2013م،ص:546
  • 55 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص:562- 563
  • 56 أبو المظفر يوسف بن قِزْأُوغلي سبط ابن الجوزی، مرآة الزمان في تواريخ الأعيان،ج-2، مطبوعۃ: دار الرسالة العالمية، دمشق، السورية،2013م،ص: 529
  • 57 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 180
  • 58 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م،ص: 216
  • 59 ایضاً،ص: 216- 217
  • 60 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص:527
  • 61 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 326-327
  • 62 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص:529- 531
  • 63 ایضاً، ص:531- 533
  • 64 علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاھلیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکائہ، القاهرة، مصر، 1372ھ، ص: 344-347
  • 65 الدکتور جواد علی، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام،ج-10، مطبوعۃ: دارالساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:43- 45
  • 66 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت،لبنان، 1997م، ص:552-553
  • 67 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001ء، ص: 380
  • 68 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری،الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص:555
  • 69 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م، ص :206