اہلِ عرب کی شجاعت وبسالت کسی تعارف کی محتاج نہیں کیونکہ عرب تاریخ میں ان کی بہادری اور شجاعت کے کئی محیر العقول واقعات منقول ہیں۔ عام طور پرعرب کروفر سے لڑنے کے عادی تھے تاہم دورانِ جنگ صورتِ حال کے پیشِ نظر کروفر سے لڑنے والے افراد کے پیچھے ایک حفاظتی و تقویتی صف بھی قائم کیا کرتے تھے جس میں مقدم افراد بحالتِ ضرورت پناہ لیتے تھے،ان کے ہاں شجاعت وبسالت کا یہی مطلب تھا کہ ہر شخص انفرادی طور پر اپنی بہادری کے جوہر دکھائےچنانچہ تیرکمان، نیزہ اور تلوار سے آگے بڑھ کرلڑتے تھے ، البتہ مکمل طور پر زحف کے طریقہ سے لڑنا عجمیوں کا طریقہ تھا جس میں فوج صف بندی کے بعد مخالف پر دفعۃً ٹوٹ پڑتی تھی، اہلِ عرب کی فتح وشکست کے اصول بھی دوسروں سے مختلف تھے یعنی اگر ایک جنگ میں انہیں شکست ہوتی تو وہ اگلی جنگ کی تیاری کرتے اور اس میں فتح یاب ہوکر پہلی شکست کا بدلہ چکاتے۔فتح کے بعد شکست خوردہ قوم کے ما ل ومتاع کو حاصل کرتے اور آپس میں غنیمت کے طور پربرابرتقسیم کرلیتے۔1
مالِ مفتوحہ میں شیخِ قبیلہ کا حصہ مخصوص نوعیتوں کا ہوتا۔شیخ، غنیمت میں (ربع)یعنی چوتھا حصہ خود لے لیتا اورباقی دوسروں میں تقسیم ہو جاتا۔شیخ کو یہ بھی اختیار حاصل تھا کہ تقسیم کرنے سے پہلے اپنی پسند سے جو چیز چاہے لے لے اور ایسی پسندیدہ شے کو صفی کہتےتھےنیز تقسیم کے بعد جو کچھ بچتا یعنی(فضول) وہ بھی اسی کا حق ہوتا تھا۔ 2اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئےڈاکٹر احمد شریف لکھتے ہیں:
ولشيخ القبيلة حقوق ادبية ومادية فاما الادبية فاهمها توقيره واحترام شخصه ورايه كما انه له الامرة العامة علي الجند اما حقوق المادية فقد كان له في كل غنيمة تغنمها القبيلة المرباع وهو ربع الغنيمة.3
اورقبیلہ کے شیخ کے حقوق دوطرح کےہوتےتھے: ذاتی اور مادی۔ ذاتی یعنی اس کی عزت واحترام، اس کی رائے کا احترام جیسے اس کےحکم کا ماننافوج پرلازم تھاجبکہ مادی حقوق میں سے مال غنیمت کا چوتھائی حصہ دیاجاتا تھاجوتمام قبیلے کے مالِ غنیمت کا چوتھائی ہوتاتھا۔
تاہم دورِ جاہلیت میں عربوں کے ممتاز بادشاہ نعمان بن منذر کی فوج کا قدرے بہتر نظام موجود تھا ۔نعمان بن منذر کی فوج پانچ حصوں دَوسر، رہائن، صنائع، وضائع اور اشاہب پر مشتمل ہوتی تھی ۔
یہ فوج کا وہ حصہ تھا جو حملہ آوری اور گرفت میں بہت زور دار تھا یہاں تک کہ وہ ضرب المثل میں استعمال ہوا جیسا کہ تاریخ میں مذکور ہے:
وقد اشتهرت دوسر بشدة ضربتها حتي قيل أبطش من دوسر.4
دوسر قوت کےساتھ ضرب لگانے میں اتنازیادہ مشہورہوا کہ یہ کہہ کر مثال دی جاتی ہے: دوسر سےزیادہ طاقتور۔
"دسر "کے معنی بھالا مارنے اور دفع کرنے کے ہیں اوراس کی وجہ تسمیہ بھی یہی بیان ہوئی ہے جیسا کہ درج ذیل عبارت سے وضاحت ہوتی ہے:
سميت دوسرا اشتقاقا من الدسر وهو الطعن بالثقل لثقل وطئتها.5
انہیں اس لیے دوسر کہا گیا کہ یہ لفظ"دسر "سے مشتق ہے اور دسرکے معنی "خوب زور سے نیزہ مارنے" کے ہیں اوریہ (دشمن کو)بری طرح رگیدتے تھے۔ 6
دسر کو ایک شاعر نے اسی معنی میں استعمال کیا ہے چنانچہ شعر نقل کرتے ہوئےابو منصور ہروی لکھتے ہیں:
ضربت دوسر فيهم ضربة
أثبتت أوتاد ملك فاستقر.7
دوسر فوج نے انہیں خوب مارا جس سے ملک کی میخیں مضبوط گڑگئیں اور ملک میں استحکام آگیا۔
نعمان بن منذر کی فوج کےاس حصہ میں کُل قبائلِ عرب کے سپاہی تھے لیکن زیادہ تر لوگ اس میں قبیلہ ربیعہ کے تھے۔
فوج کے دوسرے حصے کو رہائن کہا جاتا تھا اورفوج کا یہ حصہ عموماً پانچ سو(500)فوجیوں پر مشتمل ہوتا تھا جو غلام ہوا کرتے تھے نیز ان فوجیوں کو ایک سال کے لیے بھرتی کیا جاتا تھا، پھر ایک سال بعد ان کو برخاست کرکے نئے پانچ سو (500)فوجیوں کو بھرتی کیا جاتا تھا جیسا کہ ذیلی اقتباس سے اشارہ ملتا ہے:
أما الرهائن فذكروا أنها كانت تتألف من خمسمائة رجل رهائن لقبائل العرب يقيمون علي باب الملك سنة ثم يجئ بدلهم خمسمائة أخري.8
جبکہ رہائن کےمتعلق ان کا بیان ہےکہ وہ دستہ پانچ سوافراد(500)پر مشتمل ہوتاتھا، رہائن کا یہ دستہ بادشاہ کے دروازہ کے باہر فرائض انجام دیتاتھاپھرایک سال بعد اس کےبدلے دوسرا پانچ سوافراد کا دستہ اس سےفرائض بدل لیتا۔
ابو البقاء حلی رہائن کی اس تعدادکے حوالہ سے لکھتے ہیں:
ان عدةالرهائن كانت بما بلغت خمس مائة غلام.9
بلاشبہ رہائن کا دستہ بمطابق اس خبر کے جومجھ تک پہنچی ہے پانچ سو(500)غلاموں کادستہ ہوتاتھا۔
اس کی برطرفی اور دوسرے دستہ کے کمان سنبھالنے کے حوالہ سے نوفل طرابلسی لکھتے ہیں:
ایک سال کے بعد رہائن کی فوج برخاست ہوجاتی تھی اور دوسرے پانچ سو(500) فوجی ان کی جگہ پر آجاتے تھے، اس حصہ سے خاص بادشاہ جب کبھی موقع ہوتا لڑتا اور اپنے خاص کاموں میں اس کو مصروف رکھتا۔ بادشاہ ِعرب کے پاس ہر سال موسمِ ربیع (موسم بہار) میں عربوں کے سرکردہ گروہ اور رہائن کے افسر آتے تھے اور وہ ان کو اپنے پاس سے کھانا دیتا تھا نیز یہ لوگ "ذو الاکال" کہلاتے تھے۔ یہ لوگ اس کے پاس ایک مہینہ رہتے، اس سے اپنی خوراک لیتے، اپنے رہائن کو بدل دیتے اوراس کے بعد وہ اپنے قبیلوں کو چلے جاتے تھے۔ 10
بادشاہ کے خواص اور مصاحبین والے دستے کو "الصنائع" کہا جاتا تھا۔ فوج کے اس صنائع حصہ میں بنوقیس اور بنوتمیم اللّات جو ثعلبہ کے بیٹوں کی اولاد سے تھے رہا کرتے تھے۔ یہ لوگ بادشاہ کے خواص اور مصاحبین ہوتے تھے اور وہ اس کا دروازہ چھوڑکر نہیں جاتے تھےچنانچہ اس حوالہ سے سیّد محمود شکری لکھتے ہیں:
الصنائع فبنو قيس وبنو تميم اللات ابني ثعلبة وكانوا خواص الملك لا يبرحون بابه.11
صنائع ثعلبہ کے دونوں بیٹوں بنوقیس اور بنوتمیم اللّات پر مشتمل تھا۔یہ بادشاہ کے خواص تھے اور ہر وقت بادشاہ کا پہرہ دیا کرتے تھے۔ 12
اس دستہ سے اولین مقصد بادشاہ کی جانی حفاظت کرنا تھی تاکہ وہ دشمنوں کے قاتلانہ حملہ سے محفوظ رہے۔
یہ نعمان بن منذر کی وہ فوج تھی جو اہلِ فارس پر مشتمل ہوتی تھی اور عرب بادشاہوں کی مدد کے لیے تیار رہتی تھی ۔ فوج کے اس حصہ میں ہزار(1000) سوار رہتے تھے جن کو مقامِ حیرہ میں متعین رکھا جاتا تھا اور مشکل وقت میں ان سے مدد لی جاتی تھی جیسا کہ درج ذیل عبارت میں مذکور ہے:
الوضائع وقوامها الف رجل من الفرس يعضهم ملوك الفرس بالحيرة نجدة لملوك العرب.13
الوضائع ہزار(1000)فارسی افراد پرمشتمل فوجی دستہ ہوتاتھا اورحیرہ میں عرب بادشاہوں کی مددکے لیے فارس کا بادشاہ ان دستوں کومستحکم کیاکرتاتھا۔
یہ لوگ بھی رہائن کی طرح ایک سال رہتے تھے اور جب ان کے عوض ہزار(1000) سپاہی آجاتے تو یہ چلے جاتے تھےچنانچہ اس حوالہ سے ابو منصور ہروی لکھتے ہیں:
الوضائع الذي وصفهم فهم شبه الرهائن.14
وضائع جن کی صفات بیان کیں وہ رہائن کےمشابہ ہیں۔
یعنی وضائع کےدستہ کی تبدیلی کی مدّت رہائن کے دستہ کی طرح تھی جو مکمل ایک سال تھی اور بدلنے کا طریقہ کار بھی وہی تھا۔
شاہی خاندان کے افراد پر مشتمل فوجی حصے کو "الاشاهب" کہتے تھے۔ان میں بادشاہِ عرب کے بھائی، بنی عم، ان کے اتباع اور دوسرے مدد گار رہتے تھے۔ یہ سفید چہرے والے تھے چنانچہ مؤرخین اس کی وجہ تسمیہ بھی یہی بیان کرتے ہیں کہ ان کو "الاشاهب"اس لیے کہتے تھے کہ یہ لوگ گورے اور شان دار ہوتے تھے۔ اس حوالہ سے ابو الحسن مرسی لکھتے ہیں:
سميت بذل لبياض وجوههم وإياهم عني الأعشي بقوله: "وبنو المنذر الأشاهب".15
ان کے چہروں کی سفیدی کی وجہ سے انہیں "ذل" بھی کہاجاتاتھااعشی نےاپنے اشعار میں(موجود ان الفاظ سے) انہیں کومراد لیاہے:"اوربنو المنذراشاہب ہیں"۔
نیز ابوبکر ازدی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
وكانت العرب تسمي بني المنذر الملوك الأشاهب لجمالهم.16
اورعرب بنو المنذرکوان کےحسن وجمال کی وجہ سے "اشاهب" کہتے تھے۔
مذکورہ بالا پانچوں حصے فوج کی قوت وطاقت سمیت بادشاہِ عرب کی بہترین فراست وذہانت کے نمائندے بھی تھےکیونکہ بادشاہ نے اس طرح اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرتے ہوئے اپنے لیے اس قسم کی محافظت بنالی تھی جس کو توڑ کر بادشاہ کو نقصان پہنچانا انتہائی مشکل تھا گویا کہ اس نے ان پانچوں حصوں کوملکی سلامتی وبقاء کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کی بقاء کےلیےبھی رکھا ہوا تھا۔نعمان بن منذرکے بنائے ہوئے اس عسکری نظام کو اس کے بعد کے کئی بادشاہوں نے بھی جاری وساری رکھاجس کی وجہ سے عرب کے عمومی عسکری نظام میں اس کو بیان کرناان کے فوجی نظام کی بہتری کی عکاسی کرتا ہے۔
دورِ جاہلیت میں اہل عرب کے ہاں بہت سخت او ردیر پا لڑی جانےوالی جنگیں ہوا کرتی تھیں۔یہ جنگیں چھوٹے چھوٹے قبائل میں بھی لڑی جاتیں اور ملکوں کے درمیان بھی۔ ان میں اہل عرب کئی طرح کااسلحہ استعمال کرتے جوعربستان کے مختلف علاقوں میں بنایا جاتاتھا ۔ ان میں سے بعض کا ذکر حسبِ ذیل ہے :
عربستان کے آلاتِ حرب میں سب سے پہلے تلوار تھی جو عربوں کا سب سے بہترین اور مشہور ہتھیار تھا۔ عربوں کے تلواروں سے تعلق کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اہل ِعرب کے ہاں تلوار کے بے شمار نام ہیں اور عربی شعراء اپنے اشعار میں بڑے شوق کے ساتھ ان کا ذکر کرتے ہیں۔عربوں کے نزدیک "مشرفی تلواریں" بہترین تلواریں خیال کی جاتی تھیں اورانہیں سے وہ اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے تھے جیسا کہ درج ذیل اشعار میں ہے:
ولو سئلت عنا جنوب لخبرت
عشية سالت عقرباء وملهم
عشية لا تغني الرماح مكانها
ولا النبل الا المشرفي المصمم.17
اگر جنوب (عورت کا نام) ہمارے متعلق دریافت کرتی تو اسے اس رات کا پتا دیا جاتا جس رات عقرباء اور ملہم(وادیوں) میں خون بہنے لگا تھا۔جس رات تلواروں کی جگہ نہ نیزے کچھ کام دے سکتے تھے اور نہ تیر (البتہ اگر کوئی چیز کام آسکتی تھی تو وہ) ٹھوس مشرفی تلوار تھی۔
عربوں کی اس سب سے بہترین تلوار کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ تلوار وہاں کے کس علاقے کی طرف منسوب تھی چنانچہ اس بارے میں حسبِ ذیل اقوال منقول ہیں :
وهي قرية باليمن كانت السيوف تعمل بها.20
وہ یمن کا ایک گاؤں تھاجس میں تلواریں بنتی تھیں۔
اسی طرح نوفل طرابلسی لکھتے ہیں:
سیوف مشرفیہ (مشرفی تلواریں) مشاف کی طرف منسوب تھیں، شیخ ناصیف الیازجی نےاپنی کتاب "مجمع البحرین" میں کہا کہ یہ یمن کا ایک قریہ تھا۔ 21
اور اس بارے میں جو دیگر اقوال ہیں ان کا رد کرتے ہوئے ابن رشیق لکھتے ہیں:
وليس قول من قال إنها منسوبة إلي مشارف الشام أو مشارف الريف بشئ عند العلماء.22
جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ مشارف شام یا مشارف ریف کی طرف منسوب ہے، ان کا یہ قول علماء کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتا۔
نیز بنی اسد کے ایک شخص سریج کی بنائی ہوئی تلواریں بھی عرب میں بہت مشہور تھیں چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن رشیق لکھتے ہیں:
السيوف السريجية منسوبة إلي سريج رجل من بني أسد.23
سریجیہ تلواریں سریج کی طرف منسوب تھیں جوبنی اسد کا ایک شخص تھا۔
قدیم زمانہ میں تلواروں میں جو خوبیاں ہوتی تھیں اس حوالہ سے سیّد محمود شکری نے ایک روایت بیان کی ہے كہ جب عمرو حمیری سے اس کے باپ نے جو قوم کا بادشاہ تھا پوچھا کہ اسے کونسی تلوار زیادہ پسند ہے تو اس نے کہا:
الصقيل الحسام الباتر المجذام الماضي السطام المرهف الصمصام الذي إذا هززته لم يكب وإذا ضربت به لم ينب.24
جو صَیقَل شدہ، بُرَّاں ہو، خوب کاٹنے والی ، دھار تیزمگر مڑنہ جائے، جسے جب تومارنے کے لیے حرکت دے تو نشانے سے اچک نہ جائے اور مارے تو نشانہ خطا نہ ہو۔ 25
اس کے بھائی ربیعہ نے اس کے جواب میں کہا:
نعم السيف نعت وغيره أحب إلي منه وهو الحسام القاطع ذو الرونق اللامع الظمآن الجائع الذي إذا هززته هتك وإذا ضربت به بتك.26
اس نے ایک اچھی تلوار کی تعریف کی ہے مگر مجھے تو اور ہی قسم کی تلوار زیادہ پسند ہے اور وہ یہ ہے: کاٹنے والی ہو، آب وتاب والی اور چمکدار ہو، پیاسی اور بھوکی ہو کہ جب تو اسے حرکت دے تو پھاڑ دے اور مارے تو کاٹ دے۔ 27
دونوں کی بیان کردہ خصوصیات سے اہلِ عرب کے ہاں تلوار کی نوعیت کا اندازہ بآسانی لگایاجاسکتا ہے کہ وہ صیقل شدہ، تیز دھار اور ساتھ ہی چمکدار وشفاف تلوار پسند کیا کرتے تھے۔
عربوں کے آلاتِ حرب میں نیز ہ بھی بہت اہمیت کا حامل تھاجس کو عربی میں"رُمحٌ" کہا جاتا ہے۔یہ وہ ڈنڈا ہوتا تھاجس کے سرے پر نوک دار لوہا لگاہوا ہوتا۔ عربوں کے نزدیک دو قسم کے نیزے بہترین سمجھے جاتے تھے:
ازنیہ نیزے اہلِ عرب کے سب سے بہترین نیزے سمجھے جاتے تھے ۔یہ یمن کے علاقہ "یزن" میں بنائے جاتے تھے جو یمن کے بادشاہ ذویزن حمیری کی طرف منسوب تھے۔اسی وجہ سے ان نیزوں کو" ازنیہ یایزنیہ"کہاجاتا تھاچنانچہ اس حوالہ سے امام ابو نصر فارابی لکھتے ہیں:
ذويزن ملك من ملوك حمير تنسب إليه الرماح اليزنية.28
ذویزن حمیری بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا جس کی طرف یزنیہ نیزے منسوب ہوتے ہیں۔
ابو الحسن مرسی لکھتے ہیں:
منسوبة الي ذي يزن.29
(یزنیہ نیزے)ذی یزن کی طرف منسوب ہیں۔
نیز امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
يزن اسم موضع باليمن أضيف إليه ذو.30
یزن یمن میں ایک جگہ کا نام ہے جس کی طرف" ذو"کی اضافت ہے۔
ان نیزوں کو یزنی، آزنی، یزانی اور ازانی بھی کہاجاتا تھاچنانچہ امام ابن منظور افریقی "ایزنی" اور "آزنی" اوزان کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
ايزني ووزنه عيفلي وقالوا آزني ووزنه عافلي.31
ایزنی بروزن"عیفلی" اور آزنی بروزن "عافلی" بھی کہا جاتا ہے۔
نیز ازنیہ نیزوں کے بارے میں ذومہ شاعر کہتا ہے:
ارين الذي استودعن سوداء قلبه
هوي مثل شك الازناي النواجم.32
وہ ظاہر کرتی ہیں جو انہوں نے اس کے دلوں کے بیچ میں رکھ دیا ہے۔یہ راز اس کے دل پر ایسا آکر پڑا ہے جس طرح آزنی نیزے (جسم کو) پھاڑ کر دوسری طرف سے نکل جاتے ہیں۔
یعنی شاعرنے عورتوں کے چھپے ہوئے راز ظاہر کرنےکو آزنی نیزے سے تشبیہ دی ہے جس سے دل اسی طرح چھلنی ہوتاہے جیساکہ آزنی نیزے سے ہوتا ہے۔
خطی نیزے بھی عربوں کے بہترین نیزوں میں شمار ہوتے تھے۔ یہ نیزے بحرین کے علاقہ "خط" میں بنائے جاتے تھے اور اسی نام سے یہ نیزے موسوم تھےچنانچہ ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
الرماح الخطية من الرماح الجيدة المعروفة وتنسب إلي الخط.33
خطی نیزے مشہورو ممتاز نیزےہیں اوریہ خط کی جانب منسوب کیے جاتے ہیں۔
نیز امام ابن رشیق لکھتے ہیں:
الخط جزيرة بالبحرين تنسب اليها الرماح.34
"الخط" بحرین کا ایک جزیرہ تھاجس سے نیزے منسوب ہوتے تھے۔
بعض علماء یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ نیزے ہندوستان میں بنائے جاتے تھے اور پھر ان نیزوں سے بھری ہوئی کشتیاں بحرین کے علاقہ خط میں آکر ٹھہرتی تھیں لہٰذا اسی مناسبت سے ان نیزوں کو خطی کہا جانے لگاجیسا کہ تاریخ میں مذکور ہے:
نسبته إلي الخط خط البحرين وإليه ترفا السفن إذا جاء ت من أرض الهند.35
اس کی نسبت بحرین کے جزیرۂ خط کی طرف تھی، سرزمینِ ہند سےکشتیاں آتیں تو اسی بندرگاہ پرٹھہرتی تھیں۔
جبکہ امام ابو نصر فارابی کے نزدیک یہ نیزے یمامہ کے ایک علاقہ خط کی طرف منسوب تھے ۔ 36
ردینیہ نامی نیزے بھی عرب میں مشہور تھے جو ردینہ نامی ایک عورت اور اس کا شوہر بنایا کرتے تھے اور اسی عورت کے نام سے یہ نیزے منسوب ہوئے۔ اسی طرح سمہریہ نیزے ایک سمہر نامی شخص کی طرف منسوب تھے جیسا کہ درج ذیل عبارت سے وضاحت ہوتی ہے:
الرديني ينسب إلي إمرأة يقال لها ردينة تباع عندها الرماح والسمهرية منسوب إلي سمهر وهو رجل.37
ردينی نیزے ایک ردینہ نامی عورت کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں جس کے ہاں نیزے بیچے جاتے تھے اورسمہری نیزے سمہر نامی آدمی سےمنسوب ہیں۔
ان کے علاوہ کئی اور نیزے عربستان میں مشہور تھے جن میں "قعضبیہ " اور "شرعبیہ "کا نام بھی آتا ہے۔
نیزہ آلات ِحرب میں بہت اہم سمجھا جاتا تھا اور تمام اہل عرب اس کو جنگوں میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ان کے ہاں مختلف قسموں کے نیزوں کے مختلف نام بھی رکھے گئے تھے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
"نیزک " و "مطرِد " ان نیزوں کو کہا جاتا تھا جن کے بانس چھوٹے ہوا کرتے تھے اور اس میں لوہے کا پھل باریک ہوتا تھاجیسا کہ ذیلی اقتباس سے اشارہ ملتا ہے:
نيزك وهو رمح القصير.38
نیزک چھوٹے نیزے کوکہتے ہیں۔
نیز امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
رمح نيزك قصير لا يلحق.39
نیزک وہ چھوٹانیزہ ہےجس سے یکبارگی حملہ کیاجاتاہے۔
نیز قربِ قیامت میں حضرت عیسیٰ ابن مریم دجال کو جس نیزے سے قتل کریں گے اس کے بارے میں ابن جوزی اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
إن عيسيٰ يقتل الدجال بالنيزك.40
بے شک حضرت عیسیٰدجال کو نیزک سے قتل کریں گے۔
یعنی جس نیزے سےدجال قتل کیاجائےگا وہ لوگوں کے درمیان " نیزک" نام سے متعارف ہوگا۔
"حربہ " ان نیزوں کو کہا جاتا تھا جن کے بانس مطرد کے بانسوں سے لمبے ہوتے تھے اور اس میں لوہے کا پھل چوڑا ہوتا تھا۔ 41اسی طرح "قناۃ " و "رمح،" یہ عام نیزوں کو کہا جاتا تھا جن کے بانس بہت لمبے ہوتے تھے۔ 42
"صعدہ " وہ نیزے کہلاتےتھے جن کے بانس بالکل سیدھے ہوتے تھے اورانہیں خودسے سیدھا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی جیسا کہ درج ذیل عبارت سے اس کی وضاحت ہوتی ہے:
هي القناة المستوية تنبت كذلك لا تحتاج إلي التثقيف.43
یہ وہ( نیزے تھےجن کی) سیدھی بانس نمالکڑی اسی طرح اگتی اور(خود ) سیدھی نہیں کرنی پڑتی(تھی)۔
سیّد محمود شکری کے مطابق یمن کے حمیری بادشاہ کے بیٹےنے بہترین نیزوں کے اوصاف بیان کی ہیں۔ جب حمیری بادشاہ نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ جنگ کے دوران جب دونوں طرف سے نیزے چل رہے ہوں تو اس وقت کونسے نیزے تمہیں زیادہ پسند ہوں گے توعمرو نے جواب دیا:
أحبها إلي المارن المثقف المقوم المخطف الذي إذا هززته لم ينعطف وإذا طعنت به لم ينقصف.44
میرے نزدیک سب سے پسندیدہ نیزہ وہ ہے جو ٹھوس، لچکدار اور سیدھا ہو، آنکھوں کو چندھیا دینے والا ہو، جب اسے حرکت دوں تو مڑے نہیں اور ماروں تو ٹوٹے نہیں۔ 45
اس کے بعد اس کے بھائی ربیعہ سے پوچھا تمہارا اس بیان کے متعلق کیا خیال ہے؟ توربیعہ نے جواب دیا:
نعم الرمح نعت، وغيره أحب إلي منه قال: وما هو؟ قال: الذابل العسال، المقوم النسال، الماضي إذا هززته، النافذ إذا همزته.46
اس نے ایک اچھے نیزے کا وصف بیان کیا ہے مگر مجھے تو کوئی اور ہی نیزہ زیادہ پسند ہے۔باپ نے پوچھا: وہ کونسا ہے؟جواب دیا: جو پتلا اور بہت لچکدار ہو، سیدھا اور تیزی سے جانے والا ہو، جب ہلاؤں تو اندر گھس جائے اور ماروں تو پار ہوجائے۔ 47
جس طرح نیزے اہل ِعرب کے ہاں بہترین آلاتِ حرب میں سے ایک تھے اور مختلف اوصاف وانواع والے تھے جنہیں وہ زیرِ استعمال رکھتے تھے اسی طرح کمان وتیربھی ان کے ہاں اسی مقصد کے لیے مستعمل تھے۔
عربستان کے آلات حرب میں ایک "کمان" بھی تھی جس کو عربی میں "قوس" کہا جاتا ہے۔اہلِ عرب کے نزدیک سب سے بہترین کمانیں "عصفوریہ" کمانیں سمجھی جاتی تھیں اور یہ عرب کے ایک شخص عصفور کی طرف منسوب کی جاتی تھیں جس کا ذکر جاحظ نے یوں کیا ہے:
عطف السيات موانع في بذلها
تعزى إذا نسبت إلى عصفور.48
یہ ایسی کمانیں ہیں جن کے خم مڑے ہوئے اور اچھی طرح مڑے ہوئے ہیں، جب ان کی نسبت بیان کی جائے تو یہ عصفور نامی شخص کی طرف منسوب ہوتی ہیں۔ 49
یعنی یہ کمانیں عصفور نامی شخص نے بنائی تھیں جس وجہ سے یہ اسی کی طرف منسوب ہوئیں۔
"ماسخیہ " کمانیں، قبیلہ ازد کے ماسخہ نامی کسی شخص کی طرف منسوب تھیں۔ ماسخہ پہلا شخص تھا جس نے یہ کمانیں بنائی تھیں چنانچہ اس حوالہ سے ابو منصور ہروی لکھتے ہیں:
أول من عمل القسي الماسخية من العرب ماسخة وهو رجل من الأزد. فلذلك قيل للقسي ماسخية وانشد غيره:
كقوس الماسخي ارن فيها
من الشرعي مربوع متين.50
قومِ ازدکے ماسخہ نامی ایک شخص نےسب سےپہلے کمان بنانےکا کام کیاچنانچہ وہ ماسخیہ کہلائیں۔ایک شاعر نے بیان کیا :ماسخی کمانوں کی مانند میرےمضبوط اونٹ کی لمبی گردن سےآواز نکلتی ہے۔
نیزامام ابو نصر فارابی بھی لکھتے ہیں:
والماسخي: القواس: وقال أبو حنيفة: زعموا أن ماسخة رجل من أزد السراة كان قواسا.51
ماسخی کمان بنانے والے کو کہتے ہیں، ابو حنیفہ نے کہا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ "ماسخہ" ازدِ سراۃکاآدمی تھا جو کمانیں بناتا تھا۔
یعنی ماسخیہ کمانیں کافی مضبوط ہوتی تھیں جن کی مدد سے دشمن کو مارنے کےلیے دور سےہی تیر پھینکا جاتا تھا۔اس تیر کےلیے لی جانے والی لکڑی کے مرحلہ وار نام بھی تھے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
تیر کے لیےجب پہلے پہل لکڑی کو کاٹ کر چھڑی سی بنالی جاتی تو اسے اہل عرب کے نزدیک "قِطع" کہا جاتا پھر اسے تراشتے اورقبل اس کے کہ اسے سیدھا کیا جائے اسے "بَرِی" کہتے۔ پھر جب اسے سیدھا کرلیا جاتا اور پر اور وہ پھل لگانے کے قابل ہوجاتا تو اسے "قِدح "کہتے اور جب اسے پھل اور پر لگادیا جاتاتو یہ" سَهم" اور"نَبل" بن جاتا ۔ اس حوالہ سے ابوعبیدہ لکھتے ہیں کہ بہترین تیر جن کی عربوں نے تعریف کی ہے وہ "سہامِ بلاد" اور "سہامِ یثرب" ہیں جو حجر الیمامہ کی دو بستیاں تھیں۔ اس نے اپنے دعویٰ کے دلیل کے طور پر اعشیٰ کا درج ذیل شعر پیش کیا ہے:
بسهام يثرب….او سهام بلاد.52
یثرب کے تیروں ۔۔۔ یا شہر کے تیروں سے۔
اس تیر کو رکھنے کےلیے جو چیز استعمال کی جاتی تھی اہل عرب اسے"کنانہ" کہتے تھے۔
ترکش کے لیے اہلِ عرب "کنانہ" کا لفظ استعمال کیاکرتے تھےجس میں تیروں کو محفوظ رکھا جاتا۔ زغریہ ترکش، شام کے ایک زغر نامی شہر کی طرف منسوب تھا۔ زغریہ حضرت لوطکی بیٹی کا نام ہے جو اس علاقہ میں رہائش پذیرہوئیں تھیں اور اسی وجہ سے اس علاقہ کا نام "زغر" مشہور ہواجیسا کہ تاریخ میں مذکو ر ہے:
زغر اسم بنت لوط نزلت بهذه القرية فنسبت اليها فسميت باسمها.53
زغر لوط کی بیٹی کا نام تھا جو اس گاؤں میں ٹھہریں توانہی سے یہ گاؤں منسوب ہوا اور آپ ہی کے نام پر نام پڑگیا ۔
یہاں سرخ رنگ کے ترکش بنائے جاتے تھے جن پر سونا چڑھا ہوتا تھا چنانچہ علامہ صغانیابودؤادکے حوالہ سے بیان کرتے ہیں :
ككنانة الزعري زينها من الذهب الدلامص.54
زعری ترکش کی طرح جسے اس نے چمکدار سونے سے مزین کر رکھا ہو۔
ان ترکشوں میں رکھے جانے والے تیروں کی مختلف اقسام ہوا کرتی تھیں جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
ان کے علاوہ بھی تیروں کے بہت سے نام عربوں میں مشہور تھے۔اہلِ عرب کے آلاتِ حرب میں سے ایک زِرہ بھی تھی جس کو وہ جنگ یا حملہ آوری کےدوران اپنے استعمال میں لاتے۔
زِرہ کو بھی آلاتِ حرب میں بہت اہمیت حاصل تھی۔یہ ایک لوہے کی تاروں کی بنی ہوئی قمیص تھی۔زِرہ بنانے کے حوالہ سے یہ بالکل واضح ہے کہ اس کے بنانے والوں میں سیّدنا حضرت داؤداور پھر آپ کے فرزند حضرت سیّدنا سلیمانکا نام سرِفہرست ہے۔ ان زرہوں کو حضرت داؤداور سیّدنا سلیمانکی طرف منسوب کیا جاتا ہےچنانچہ اس حوالہ سے امام سراج الدین حنبلی لکھتے ہیں:
وإنه أول من اتخذها.60
اور تحقیق سب سے پہلے آپ ( یعنی حضرت داؤد ) ہی نے زِرہ بنائی ۔
اسی حوالہ سے امام بغوی لکھتے ہیں:
ويقال أنه كان يبيع كل درع بأربعة آلاف درهم فيأكل ويطعم منها عياله ويتصدق منها علي الفقراء والمساكين. إنه كان يعمل كل يوم درعا.61
کہا جاتا ہے کہ آپ(حضرت داؤد ) ایک زِرہ چار ہزار(4000) درہم میں فروخت کرتے تھے، جس سے خود بھی کھاتے، گھر والوں کو بھی کھلاتے، غریبوں اور مسکینوں کو خیرات بھی دیتے تھے۔آپ روزانہ ایک زِرہ بنالیا کرتے تھے۔
آپ کے علاوہ ان زِرہوں کو تبع اور محرق کی طرف بھی منسوب کیاجاتا ہے جبکہ بعض شعراء نے اس کوفرعون کی طرف بھی منسوب کیا چنانچہ عرب کے ایک شاعر نے یوں کہا:
بكل فرعونية لونها
لون قضيض البغشة الغادية.62
ہر فرعونی زِرہ کے ساتھ جس کا رنگ ہلکی ہلکی (صبح کی بارش کے) بکھرے ہوئے پانی کی طرح ہو۔
نیز عربوں کے نزدیک سب سے بہترین زرہیں"الحُطَمِیَّۃ"تھیں ۔یہ زِرہیں حطم بن محارب بن عمرو بن ودیعہ الکیز بن عبد القیس بن افصی کی طرف منسوب تھیں جو ابن ثعلبہ میں سے تھاجیسا کہ ذیلی اقتباس سے اشارہ ملتا ہے:
هي منسوبة إلي حطم أحد بني عمرو بن مرثد من بني قيس بن ثعلبة.63
وہ اس حطم کی طرف منسوب ہیں جو بنی عمرو بن مرثد کا ایک فرد تھا اور بنی عمرو بن مرثد بنی قیس بن ثعلبہ کی ایک شاخ ہے۔ 64
حطمی زِرہوں کے علاوہ عربوں کے نزدیک سلوقی زِرہیں بھی بہترین سمجھی جاتی تھیں جو یمن کے ایک علاقہ "سلوق" کی طرف منسوب تھیں جیسا کہ ذیلی اقتباس سے اشارہ ملتا ہے:
هي قرية باليمن عرفت بدروعها.65
وہ یمن کا ایک گاؤں ہے جو وہاں کی زِرہوں کی وجہ سے مشہورہوا۔
نیز سیّد محمود شکری لکھتے ہیں:
الدروع السلوقية منسوبة الي سلوق قرية باليمن واليها تنسب ايضاً الكلاب السلوقية.66
سَلوقی زِرہیں یمن کی ایک سلوق نامی بستی کی طرف منسوب ہیں جس کی طرف سلوقی کتے بھی منسوب ہیں۔ 67
نیز دورِ جاہلیت کے مشہور شاعر نابغہ نے بھی اپنے اشعار میں "سَلوقِیۃ "زرہ کا ذکر کیا چنانچہ اس نے کہا:
يقد السلوقي المضاعف نسجه
ويوقد في الصفاح نار الحباحب.68
تہہ درتہہ سلوقی زرہ پتھر کی مانند سخت ہے، اورلڑائی کے دوران جگنو کی طرح شرارے جلاتی ہے۔
اس شعر میں نابغہ شاعر نے مذکورہ زرہ کی سختی اور اس کی بناوٹ کو بیان کرکے اس کی تعریف کی ۔
عربوں کے اسلحہ میں ایک خود(یعنی آہنی ٹوپی) بھی تھی جس کو "آلہ بیضہ" کہا جاتا ہے۔تاہم دورِ جاہلیت میں عربوں کے ہاں اس کا استعمال بہت کم تھاجیسا کہ تاریخ میں مذکور ہے:
إذا كانت الخوذ قليلة الإستعمال في معظم أنحاء جزيرة العرب.69
جبکہ سارےجزیرہ نما عرب میں خود کم استعمال ہوتے تھے۔
ان آلاتِ حرب میں سے مجن یعنی ڈھال بھی تھی ۔عربی میں "مِجَنُّ،" "تُرْس " اور "دَرَقَہ " اسی کے نام تھے اور سب کے ایک ہی معنی ہیں ۔یہ بعض قسم کے چمڑوں سے بنائی جاتی تھی اور اس میں کسی اور چیز کی ملاوٹ نہ ہوتی تھی جیسا کہ درج ذیل عبارت سے وضاحت ہوتی ہے:
بلا خشب ولا عقب.70
اس میں نہ لکڑی ہوتی ہےاور نہ پشت پر کوئی اور چیز۔ 71
یہ آج بھی عرب قبائل میں پائی جاتی ہے جس سے تلوار کا بچاؤ کیا جاتا ہے تاکہ بدن زخم لگنے سے محفوظ رہےچنانچہ ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
وهي لوقاية الجسم من ضربات السيوف.72
یہ تلواروں کی ضربوں سےجسم کی حفاظت کےلیےہوتی ہے۔
اس سے واضح ہواکہ اہل عرب کے ہاں عسکری نظام میں کئی ایک چیزیں حفاظتی طور پر مستعمل تھیں جن میں سے ایک ڈھال تھی اور اس کا مقصد تلوار کی کاٹ سے بچنا تھا۔
اہل ِ عرب لڑائی کو قومی کھیل کا درجہ دیتے تھے اور جنگ کو شریف و غیور لوگوں کا نصب العین گردانتے تھے۔73 یہی وجہ تھی کہ وہ بلا تامل لڑائیوں میں کود جاتے اور نتائج سے بے پرواہ خوب قتال کرتے۔اس جنگی غیرت کی وجہ سے اہلِ عرب کے نزدیک سپہ گری ایک قومی کھیل بن گئی تھی۔ جنگ و جدل کا بامقصد ہونا زیادہ اہمیت کا حامل نہ تھا بلکہ میدانِ جنگ میں سپہ گری کے جوہر دکھانا ہی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا چنانچہ اس حوالہ سے اپنی قوم کی یہ خوبی بیان کرتے ہوئے سموال بن عادیا کہتا ہے:
وإنا لقوم لا نرى القتل سبه
إذا ما رأته عامر وسلول74
تسيل على حد الظبات نفوسنا
وليست على غير الظبات تسيل
فنحن كماء المزن ما في نصابنا
كهام، ولا فينا يعد بخيل.75
ہم وہ قوم ہیں جو لڑائی میں موت کو عار نہیں سمجھتے جبکہ بنی عامر اور بنو سلول اس کو عار سمجھیں۔ہمارے خون تلواروں کی دھاروں پر بہتے ہیں اور اس کے سوا کہیں اور نہیں بہتے۔ہم پاکیزگیِ خاندان میں آب باراں کی طرح ہیں اور ہماری نسل میں کوئی بخیل اورکندنہیں ہوتا ۔
نیزاہل عرب جنگ جوئی کو عزت و تکریم کے زمرے میں لیتے تھے۔ ان کے نزدیک تیرو تلوار تیز کرنا اور اس میں مہارت حاصل کرنا باعثِ فخر تھا۔ تیاری اور مہارت کا دوسروں پر استعمال کرنا بہادری اور دلیری جانا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ کئی سپہ سالار میدانِ جنگ کو اپنی قوت و طاقت دکھانے کی غرض سے بھی سجا دیتے تھے۔ ایک شاعر اس کا تذکرہ یوں کرتا ہے:
قوم إذالشر أبدي ناجذيه لهم
طاروا إليه زرافات ووحدانا.76
وہ ایسی قوم ہیں کہ جب لڑائی اپنی کچلیاں نکال کر ان کو ڈراتی ہے تو وہ گروہ درگروہ اور فرداً فرداً اس کے مقابلے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور شاعر کہتا ہے:
فوارس لايملون المنايا
إذا دارت رحي الحرب الزبون.77
وہ ایسے شہ سوار ہیں کہ جب شدید جنگ کی چکی چلتی ہے تو وه موت سے نہیں گھبراتے ۔
چونکہ عرب عموماً جنگ و جدل میں مصروف رہتے تھے اس لیے سپہ سالار کے لیے لوگوں کوجمع کرنے کا ایک خاص طریقہ بنایا گیاتھا چنانچہ جب وہ جنگ کے لیے جمع ہوتے تو فوج کا سپہ سالار جھنڈا سربلند کرتاتا کہ اس کی چھاؤں میں تمام افراد جمع ہو جائیں اور جنگ کی حکمتِ عملی طے کریں۔جس طرح اس پر چم کی عزت ہوتی ویسے ہی اس پرچم کے تھامنے والے کی اہمیت ہوتی تھی لہٰذا اس عہدے یعنی سپہ سالاری کی عرب معاشرے میں بہت زیادہ قدر و منزلت اورعزت و اہمیت تھی ۔
دور ِ جاہلیت میں حجاز کی سپہ سالاری کا منصب بنوامیہ اور بنی مخزوم میں سے خالد بن ولید کے پاس تھا اور اس کو "قیادۃ" بھی کہا جاتا تھا یعنی "جنگ میں لشکر کی قیادت کرنا"، فوجی کیمپ کا انتظام، شاہسواروں کی قیادت اور تجارتی قافلوں کی رہبری اور امامت کرنا اس عہدے کے فرائض میں سے تھا چنانچہ اس کی وضاحت درج ذیل عبارت سے یوں ہوتی ہے:
وأما القيادة وهي إمارة الركب فقام بها بعد عبد مناف ولده عبد شمس ثم كانت بعد عبد شمس لابنه أمية ثم لابنه حرب ثم لابنه أبي سفيان فكان يقود الناس في غزواتهم قاد الناس يوم أحد ويوم الأحزاب ومن ثم لما قال الوليد بن عبد الملك لخالد بن يزيد بن معاوية لست في العير ولا في النفير قال له: ويحك العير والنفير عيبتي أي وعائي....جدي أبو سفيان صاحب العير وجدي عتبة بن ربيعة صاحب النفير.78
منصبِ قیادت سے مراد قافلۂِ سالاری ہے۔ اس منصب پر عبد مناف کے بعد اس کا بیٹا عبد شمس فائز ہوا، اس کے بعد عبد شمس کا بیٹا امیہ، اس کے بعد اس کا بیٹا حرب پھر اس کا بیٹا ابو سفیان جو غزوات اور لڑائیوں میں فوج کی قیادت کیا کرتا تھاچنانچہ اس نے ہی غزوہ احد اور غزوہ احزاب میں کفار کی فوج کی سالاری کی۔ اسی لیے (ایک دفعہ) ولید ابن عبد الملک نے خالد بن یزید بن معاویہ سے جب کہا کہ نہ تم قافلے کی سرداری کرتے ہو اور نہ فوج کی سالاری تو خالد نے جواب دیا: کیا کہتے ہو؟ قافلے اور فوج (کی سرداری وسالاری) تو میرے صندوق ہیں (یعنی گھر کی چیزیں ہیں) ۔۔۔میرے دادا ابو سفیان () سردارِ قافلہ تھے اور میرے دادا عُتبہ ابن ربیعہ سالار ِلشکر تھے۔ 79
نیز اس حوالہ سے توفیق برو لکھتے ہیں:
وكانت القيادة في بني عبد شمس تعاقب عليها بعده ابنه امية بن عبد شمس ثم حرب بن امية الذي قاد قريشا في الفجارين الاول والثاني وخلفه فيها ابو سفيان.80
قیادت بنو عبد شمس میں تھی، ان کے بعد ان کا بیٹا امیہ بن عبد شمس قائدہواپھر حرب بن امیہ جس نے فجارین اولی ٰوثانیہ میں قریش کی قیادت کی تھی اوراس میں ابوسفیان کو اپنا خلف(جانشین) بنایاتھا۔
سپہ سالاری، گھوڑے کی لگام اور سواروں کے رسالے کی سپہ سالاری کا یہ منصب بنو مخزوم کے پاس بھی تھا اور اس منصب پر خالد بن ولید فائز تھےچنانچہ اس حوالہ سے امام ابن عبد ربہ اندلسی لکھتے ہیں:
ومن بني مخزوم خالد بن الوليد وكانت إليه القبة والأعنة وأما الأعنة فإنه كان علي خيل قريش في الحرب فأما القبة فإنهم كانوا يضربونها ثم يجمعون إليها ما يجهزون به الجيش.81
بنی مخزوم میں سے خالد بن ولید تھے جن کے ذمہ "قبہ" اور "اعنہ " تھا۔ اعنہ یہ تھا کہ خالد بن ولید جنگ کے موقع پر گھڑ سواروں کے سردار ہوتے جبکہ قبہ یہ تھا کہ وہ لوگ اس چھوٹے خیمہ کو بناتے اور اس کے گرد جمع ہوجاتےتھے جہاں سے وہ اپنےلشکر کی تیاری کرتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ دورِ جاہلی میں بھی عرب کا عسکری نظام انتہائی مضبوط تھا اور یہ جنگی میدان میں جنگی جوہر دکھانے کو ہی قوت وشجاعت سے تعبیر کرتے تھے۔
اہلِ عرب کے عسکری نظام میں سب پہلے منذر نے بہترین تبدیلیاں کیں جو آگے چل کر مزید بہتر ہوئیں اور اسی کی بدولت اہلِ عرب میں کئی طرح کے جنگی داؤ پیج عام ہوئے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ عسکری نظام اپنی قوم وقبیلہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے دفاع کے لیے بھی کارگر تھااور مزید برآں کہ یہ نظام سردارانِ قبیلہ و بادشاہانِ مملکت کی جان ومال وخاندان کی حفاظت کے لیے بھی اپنی خدمات پیش کیا کرتا تھا۔اس عسکری نظام میں کئی طرح کے عہدے اور منصب ہوا کرتے تھے جن کی مدد سے جنگی لشکر کے پورے نظام کو سنبھالنااور وقت وموقع کے حساب سے اپنے دشمن پر ا ن کے ذریعہ کاری ضرب لگانا قدرے آسان تھا۔اسی عسکری نظام کی وجہ سے اہلِ عرب کے ہاں شجاعت وبسالت اور قوت وطاقت کے جوہر دکھانا میدان جنگ میں ہی ممکن تھا اور یہ نظام قوت وطاقت کےاس جوہر کی مزید ترقی کا باعث تھا جس سے گو کہ قتال کی کثرت تھی لیکن ساتھ ہی قصاص اور دیت بھی رائج تھی یعنی دوسرے الفاظ میں یہ عسکری نظام انسانی جان ومال کی حفاظت کا عمدہ ذریعہ بھی تھا۔
دورِ جدید کے عرب ممالک اور ان کی اقوام کے لیے بھی ان کی تاریخ کے اس پہلو میں بڑی رہنمائی موجود ہے۔آج عرب ممالک میں عسکری نظام وقیادت مزید مضبوطی،پختگی اورمہارت کا متقاضی ہے۔یقیناً عرب ممالک پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کے ساتھ فوجی تعلیم وتربیت کے معاہدات اور پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ پرمشتمل عسکری پروگرام میں شریک کے طور پر موجود ہیں لیکن اس کا زیادہ انحصاربالخصوص اسلحہ کی درآمد وتیاری کے حوالہ سےغیر مسلم ممالک پر ہے جس میں بتدریج کمی کی ضرورت ہے تاکہ عرب ممالک روایتی اور غیر روایتی اسلحہ کی تیاری میں خود کفالت کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔ عسکری قوت کی کمزوری ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم عرب آبادی دشمن کے رحم وکرم پر ہے اور دشمن جب چاہتا ہے ان میں خانہ جنگی کروادیتا ہے اور کبھی ان کی مالی قوت کو دیگر طریقوں سے نقصان پہنچادیتا ہے۔اگر عرب اقوام بالعموم اپنی تاریخ سے سبق لیتے ہوئےنعمان بن منذر کی فوج کو جدید خطوط اور دورِ حاضرکے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئےدوبارہ تیار کریں اور اپنی قوم کے اسی بہادری ودلیری والے مزاج کو اسلام کی سر بلندی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے آج بھی استعمال کریں تو بعید نہیں کہ عالم ِ دنیاپر اسلام کادوبارہ غلبہ ہوجائے اور مسلمان پھر ایک مرتبہ عرب وعجم اور مشرق ومغرب کے حقیقی حکمران بن جائیں۔