اہلِ مد ر جو شہروں میں رہائش پذیر تھے ان کے ہاں متمدن ریاستیں قائم تھیں لہٰذا وہاں پر با قاعدہ ایک قانونی و عدالتی نظام موجود تھا جبکہ اہل وبر جو بادیہ نشین قبائلی لوگ تھے، ان کے ہاں ایک منظم قانونی نظام یا ادارہ تو نہ تھا لیکن تمام قبائل میں کچھ ایسے اصول طے تھے اور ایسے لوگ موجود تھے جو لوگوں کے ان معاملات کو حل کیا کرتے تھے۔
اسلام کی آمد سے بہت پہلے عربوں میں پانچ متمدن سلطنتیں گزریں ہیں:معینی،سبائی،حضر موتی،قتبانی اور نابتی۔ان کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ معینی سلطنت حضرت عیسیٰ سے پندرہ سو (1500)برس قبل موجود تھی اورسبائی دور حضرت عیسیٰ سے سات سو (700)برس قبل تھا ۔ 1سب سے قدیم مملکت معین میں کس قسم کا نظام رائج تھا،وہاں مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری کن کی تھی،اس حوالے سے پیر کرم شاہ ازہری لکھتے ہیں:
ہر شہر کی الگ الگ مجلسِ شوریٰ ہوا کرتی تهی جوجنگ اور امن کے حالات میں انتظام کرتی تهی ۔اس کی یہ بھی ذمہ دار ی تھی کہ وہ لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرے،اسی طرح ہر قبیلہ کا الگ الگ ایک ہال ہوتا تھا،جس میں وہ اکھٹے ہوتےاورملکی معاملات پر تبادلہ خیال کرتے،ان عمارات کو "مزود " کہا جاتا تھا ۔ 2
معینی سلطنت میں مختلف ادارے قائم تھے،جن میں سے ایک "مزود" کا ادارہ بھی تھا جو بڑی اہمیت کا حامل تھا،اس کے حوالے سے ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں :
أن ملوك معين كانوا مقيدين في حالات معينة بأخذ رأي "المزود" عند اتخاذ قرار خطير.3
بے شک معین کے بادشاہوں کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ اہم اور بڑے معاملے میں مزود کی رائے لیتے تھے۔
اس ادار ے کو "مسود " بھی کہا جاتا تھا چنانچہ اس حوالے سےمزیدتفاصیل بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد سہیل لکھتے ہیں :
كان ملوك اليمن يستشيرون رؤساء القبائل والكهنة في المشكلات التي تتعرض لها الدولة و بخاصة في قضايا السلم والحرب وشكل هولاء مجلسا سمي بمزود او مسود.4
بے شک یمن کے بادشاہ قبائلی سرداروں اورکاہنوں سے پیش آنے والی مشکلات میں مشورہ طلب کرتے تھے،خاص طور پر جنگ اور سلامتی کے معاملات میں انہوں نے ایک مجلس تشکیل دے رکھی تھی جس کو "مزود " یا "مسود " کہتے تھے ۔
ان کے ہاں اہلِ مذہب کا بھی خاصا اثرو رسوخ تھا اوراہم معاملات میں ان سے بھی رائے لی جاتی تھی چنانچہ اس حوالے سے ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں :
ويؤخذ رأي المعبد أيضا.5
عبادت گاہ (والوں)کی رائےبھی لی جاتی تھی۔
مزود کی مجلس قانون سازی کرتی تھی اور اس مجلس میں وہ لوگ شامل ہوتےتھےجو شہروں اور قبیلوں کے سردار ہوتے تھے ۔یہ مجلس قانون سازی کرنے کے بعد اسے بادشاہ کے سامنے پیش کرتی تھی چنانچہ ڈاکٹر محمدسہیل لکھتے ہیں :
يقوم بوضع القوانين ثم يعرضهاعلي الملك لاقرارها واعطاء الامر بتنفيذها.6
مجلسِ مزود قانون سازی کرتی تھی پھر اسے منظوری کے لیے بادشاہ کے سامنے پیش کرتی تھی اور وہ اسے فافذ کرنےکا حکم صادر کرتا تھا ۔
ان کی باہمی متفقہ رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی چنانچہ اس حوالے سے ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
وكان لرأي هؤلاء أهمية كبيرة بالنسبة للملوك، لما كان لهم من نفوذ وكلمة في المجتمع.7
بادشاہوں کے نزدیک ان کی رائے کی بہت اہمیت تھی کیونکہ معاشرے میں ان کا نفوذ اور ان کی خاص شان تھی ۔
یمنی حکومتوں کے متعلق جو کچھ معلومات حاصل ہو سکی ہیں اس کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہاں مقامی حکومتی نظام (Local Government System)رائج تھا ۔اس حوالے سے تفصیل بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد سہیل لکھتے ہیں:
عرفت مدن هذه الدولة مايمكن ان يسمي بنظام الحكم المحلي.8
اس ملک کے شہروں کے متعلق جس قدر معلومات ہیں ا س کے مطابق انہیں مقامی حکومتی نظام کا نام دیا جا سکتا ہے ۔
قتبان کا مشہور بادشاہ یدعاب ذیبان تھا جس نے کچھ قانونی اصول وضوابط بھی وضع کیے تھے۔اس کے متعلق ڈاكٹر محمد سہیل لکھتے ہیں :
وضع اصول التشريعات القانونية.9
اس نے قانون سازی کے اصول بھی وضع کیے تھے ۔
عملی طور پر جملہ اختیارات کا مرکز بادشاہ ہوا کرتا تھا لیکن امورِ مملکت کو طے کرنے میں وہ شاہی خاندان کے بزرگوں،مذہبی شخصیات،مختلف قبائل کے سرداروں اور بڑے شہروں کے رؤسا سے مشورہ کیا کرتاتھاجو اپنے فیصلہ کو ایک حکم کی صورت میں صادر کرتے۔فیصلے کےابتداء میں ان کے معبودوں کے نام ہوتے پھر بادشاہ کا نام ذکر کیا جاتا پھر حکم لکھا جاتا۔10اسی حوالہ سے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتا ب میں تحریر کرتے ہیں:
ولم يكتف الملوك بأخذ رأي الطبقات المذكورة عند إقرار قانون، بل كانوا يرسلون آرائها ووجهة نظرها إلى مجالس القبائل وإلى سادات ووجوه المدن والقرى والمستوطنات للوقوف عليها ولبيان رأيهم فيها، وذلك في القضايا العامة التي تشمل كل الدولة، مثل تنظيم أمور استثمار الأرض وفرض الضرائب والقوانين التجارية، لتدرس وتعالج على ضوء مصالح كل المتنفذين من ذوي الرأي والجاه في المملكة، على قدر الإمكان، وليكون في الإمكان تطبيقها وتنفيذها دون كبير اعتراض ومتى جاء رأيهم ووقف الملك على كل الآراء وأحاط علما بها، عمل برأيه فيها واتخذ قرارا باتا بموجبها. ويعبر عن اتخاذ قراره هذا بلفظة "جزمن" أي: "الجزم".11
بادشاہ قانون منظور کرنے کےلیے صرف ان ہی مذکورہ طبقا ت کی رائے پر اکتفاء نہیں کرتےتھے بلکہ وہ ان کی آراء اور تجاویز کو دوسرے قبائل کی مجالس،ان قبائل کے سرداروں،دوسرےشہروں، دیہاتوں اور نو آباد یات کے وجیہ لوگوں کی طرف بھی بھیجا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر مطلع ہوجائیں اور اس پراپنی رائے دیں۔ایسا عام طور پر ان فیصلوں کے بارے میں ہوتا تھا جو ہر حکومت سے تعلق رکھتے تھے۔مثال کے طور پر زمینوں سے پھل حاصل کرنے کے امور کو منظم کرنا،لگان کو مقرر کرنا،تجارتی قانون بنانا تاکہ جتنا ممکن ہوسکے مملکت کے زیرک و ذی جاہ قانون نافذ کرنے والے لوگ اس کو پڑھ کر اپنی اپنی مصلحتوں کے مطابق حل تلاش کریں تا کہ بغیر کسی بڑےاعتراض کے اس قانون کی تطبیق وتنفیذ ممکن ہوسکے۔جب ان سب کی رائے آجاتی،بادشاہ ان سب آراء سے اچھی طرح واقف ہوکر ان کا علمی احاطہ کرلیتاتو پھر اپنی صوابدیدی رائے پر عمل کرتے ہوئے قانون کی حتمی منظور ی دے دیتا تھااوراس قانون کی منظوری کو لفظ "جزمن" یعنی جزم سے تعبیر کیا جاتا تھا۔
یہ تو قدیم مملکتیں تھیں جن کے نظامِ عدل وقانون میں ان کے بادشاہ کی حیثیت قانون ساز مجلس کے صدر کی سی تھی اور اس حوالہ سے اس کی رائے ہی حتمی و آخری سمجھی جاتی تھی،گو کہ وہ تمام سرداروں اور عہدیداروں سے مشورہ کرنے کے بعد ہی کسی منطقی نتیجہ تک پہنچتا تھا لیکن اس میں مکمل عمل دخل اس کی اپنی رائے کا ہی تھا۔البتہ جب جزیرۃ العرب پر خورشید ِ اسلام کی تابناک شعاعیں ضوءفگن ہوئیں تو وہاں دو قسم کے حکمران تھے،ایک تاج پوش بادشاہ جو درحقیقت مکمل طور پر آزاد و خود مختار نہ تھے اور دوسرے قبائلی سردار جنہیں اختیارات و امتیازات کے اعتبار سے وہی حیثیت حاصل تھی جو تاج پوش بادشاہوں کی تھی لیکن ان کی اکثریت کو ایک مزید امتیاز یہ بھی حاصل تھا کہ وہ پورے طور پر آزاد و خود مختار تھے ۔تاج پوش حکمران یہ تھے:شاہانِ یمن،شاہانِ آلِ غسان (شام ) اور شاہانِ حیرہ (عراق ) بقیہ عرب حکمران تاج پوش نہ تھے ۔ 12بعض سیرت نگاروں نے حکمرانوں کی ایک تیسری قسم بھی بیان کی ہےاور وہ یمن کے گورنر وں کی تھی جو براہِ راست دربارِ فارس کے نامزد شدہ تھے ۔13
حکمرانوں کی یہ تقسیم عرب کے جزیرہ نما ہونے کی وجہ سے تھی لہٰذا عرب وسطی کے قبائلی سردار تو ہمیشہ سے خود مختاراور بلا شرکت غیر حکمران رہے البتہ عرب کے علاقہ عمان، بحرین اور حیرہ سلطنتِ فارس کے ماتحت رہ کر حکمرانی کرتے تھے جبکہ غسانی عرب سلطنتِ روما کی باجگزار رہ کر حکمرانی کرتی تھی۔14ان تاج پوش بادشاہوں کی نیم آزادی وخودمختاری اور نیم باجگزاری کی وجہ سے ہی یہ اپنے لوگوں پر آزادانہ وبلاشرکت ِغیر اختیار رکھتےتھے لیکن اس وقت کی دو بڑی طاقتور سلطنتوں یعنی روم و فارس میں سے کسی کے باجگزار بھی ہوتےتھے لہٰذا ان تابع فرمان حکمرانوں نے ان کا قانون بھی اپنے علاقوں میں نافذ کر رکھا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رومن لا(قانون) نہ صرف پوری سلطنتِ روما میں رائج رہا بلکہ ان علاقوں میں بھی رائج رہا جہاں رومی حکومت کے باج گزار فرمانروا حکمران تھے اور جہاں رومی سلطنت کے اثرات تھے۔ 15قرین قیاس یہی بات ہے کہ سلطنتِ روما کے باجگزار تاج پوش بادشاہوں کی طرح جو خطے سلطنتِ فارس کے باجگزار تھے وہاں بھی فارسی قانون ہی رائج تھا۔
اسلام سے قبل زمانۂِ جاہلیت میں عرب قبائلی زندگی گزار رہے تھے،ان کے پاس باقاعدہ عدالتی ادارے نہیں تھے چنانچہ اس حوالے سےڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں :
ولم يكن فيها مؤسسات ثابتة مثل المحاكم.16
وہاں عدالتوں جیسے قائم شدہ ادارے نہیں تھے۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے محمد رافت عثمان لکھتے ہیں :
أن العرب في الجاهلية لم يعرفوا القضاء لأن القضاء أحد المظاهر التي تدل على التنظيم الحكومي ولم يكن للعرب قبل الإسلام حكومة بالمعنى الذي نعرفه للحكومات الآن….وإنما كانوا بدوا أو شبه بدو يعيشون في قبائل شتى.17
عرب جاہلیت میں قضاء کو نہیں جانتے تھے کیونکہ قضا ء تو ایک منظم حکومت کے مظاہر میں سے ہے ۔ اسلام سے قبل عربوں کے پاس کوئی ایسی حکومت نہیں تھی جیسی آج کل کی حکومتیں ہوتیں ہیں ۔۔۔ وہ بدوی یا بدویوں جیسی زندگی متفرق قبائل میں گزارتے تھے ۔
اسی طرح مکّہ،یثرب اور طائف کی حکومتوں کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئےڈاکٹر جواد علی یوں لکھتے ہیں:
لم تكن ذات حكومة لم يكن يحكمها ملك، ولم يحكمها رئيس، وكذلك كان أمر "يثرب" و "الطائف" وسائر قرى العربية الغربية لم يكن فيها أي شيء من هذه المؤسسات الثانية التي تكون الحكومة، والتي تتعاون لتدبير أمور الناس.18
وہ حکومت نہیں تھی،کوئی بادشاہ اس کا حاکم نہیں تھا،کوئی رئیس اس کا حاکم نہیں تھا،اسی طرح یثرب،طائف اور دیگر مغربی عرب کے قریوں کا حال تھا،اس میں دوسرا کوئی ایسا ادار ہ نہیں تھا جس سے حکومت کی تشکیل ہوتی اور جو لوگوں کے امور کو سنبھالنے میں مدد کرتا ۔
یعنی قبائلی حکومتیں ایسی نہیں تھیں جیسی کہ آج کل کی حکومتیں ہوتی ہیں،جن میں باقاعدہ ادارے ہوتے ہیں،ہرادارے میں مخصوص صفات کے حامل لوگ ہوتے ہیں اورہر ادارے کی اپنی مخصوص ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ اسلام سے قبل عرب بدویانہ قسم کی زندگی گزارتے تھے البتہ تمام عرب اہل البادیہ جیسی زندگی نہیں گزار تے تھے بلکہ جزیرہ نما عرب کی آبادی کا غالب حصہ انہی بدوی قبائل پرمشتمل تھا ۔19البتہ وہاں مختلف شہری اور دیہی قبائلی حکومتیں تھیں ۔20
وہ عرب جو شہری یا نیم شہری زندگی گزار رہے تھے،ان کا طرِز معاشرت بہر حال قبائلی تھا۔21ان بدویوں کے پاس کوئی منظم یا لکھا ہوا قانون نہیں تھا جس کے مطابق وہ فیصلے کرسکتے ہوں چنانچہ اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے رافت عثمان لکھتے ہیں :
الحكام الذين كان يقصدهم الناس للفصل في قضاياهم لم يكونوا يحكمون بقانون مدون.22
لوگ اپنے قضایا میں فیصلوں کے لیے جن حکام کا قصد کرتے تھے وہ بھی کسی مدون قانون کے تحت فیصلہ نہیں کرتے تھے ۔
اسی حوالے سے صالح احمد لکھتے ہیں :
لم يكن للبدو قانون منظم مكتوب.23
دیہاتیوں کے پاس لکھا ہوا اور منظم قانون نہیں تھا ۔
اس کی وجہ بھی واضح ہےکہ عربوں کے ہاں لکھنے کا رواج انتہائی کم تھا اور وہ اپنی قوتِ حافظہ ہی پر انحصار کیا کرتے تھے۔
عربوں کے فیصلہ کرنے کے معیارات اور طریقۂِ کار سے متعلق وضاحت کرتے ہوئےرافت عثمان لکھتے ہیں :
وكان لكل قبيلة عرف وتقاليد خاصة قد تخالف ما للقبائل الأخرى من أعراف وتقاليد، وقد تتفق معها في كثير أو قليل.24
ہر قبیلے کا اپنا عرف اور مخصوص تقالید ہوتی تھیں، دوسرے قبائل کے عرف اور تقالید ان کے باہم مخالف بھی ہوتے تھے اور کبھی کبھی یہ تھوڑے یا زیادہ متفقہ بھی ہوتے تھے ۔
نیز اسی حوالے سے صالح احمد لکھتے ہیں :
كانت لهم تقاليد بسيطة واضحة يتمسكون بها اشد التمسك.25
ان کے پاس واضح تفصیلی تقالید تھیں جن سے وہ مضبوطی سے چمٹے ہوئے تھے ۔
یہ عرف اور تقالید کچھ تو ان کو اپنے تجربات سے ہی حاصل ہوئے تھے اور کچھ ان تک یہودیوں کی سنگت اور ان سے میل جول کی بنا پر پہنچےتھے چنانچہ اس حوالے سے رافت عثمان لکھتے ہیں :
التي كونتها تجاربهم أحيانا، وما وصل إليهم عن طريق اليهودية أحيانا.26
(عرف )جو کبھی کبھی ان کے تجربات سے تشکیل پاتے تھے اور کبھی کبھی یہودیوں سے ان تک پہنچے تھے۔
جن تقالید وعرف کی بنا پر فیصلہ کیا جاتاتھا وہ ان میں رائج تھیں۔فیصلہ کرنے والوں کے لیے لازمی تھا کہ وہ اہل علم ہوں یعنی قبیلہ کی روایات کو جانتے ہوں تاکہ ان کے عرف وتقالید کے مطابق فیصلہ کرسکیں۔ زمانۂِ جاہلیت میں جو لوگ فیصلہ کیا کرتے تھے انہیں "حکام" کہا جاتا تھا چنانچہ اس حوالے سےوضاحت کرتے ہوئے رافت عثمان لکھتے ہیں :
تبين كتب الأدب أنه كان في الجاهلية من يسمون بالحكام الذين يفصلون بين الناس في الخلافات و المنازعات.27
کتبِ ادب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زمانۂِ جاہلیت میں جو لوگوں کے درمیان اختلافات اور جھگڑوں کی صورت میں فیصلہ کیا کرتے تھے انہیں "حکام" کہا جاتا تھا ۔
ہر قبیلے کے اپنے حکم تھے،جو اپنے عرف اور اپنی روایات كےمطابق فیصلے كیا كرتے تهے ۔اس حوالے سے محمود شکری صاحب لکھتے ہیں :
و كان لكل قبيلة من قبائلهم حكم يتحاكمون اليه.28
قبائل میں سے ہر قبیلہ کے حکم ہوتے تھے، لوگ اپنے جھگڑے ان کے پاس لے جایا کرتے تھے ۔
عرب معاشرے میں نجومی اور کاہن لوگوں کو بھی خاص مقام حاصل تھا،اسی لیے لوگ اپنے مقدمات ان کے پاس بھی لے جایا کرتے تھے اور اسی طرح شیخِ قبیلہ بھی فیصلہ صادر کرتا تھا چنانچہ اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے رافت عثمان لکھتے ہیں :
الاحتكام إلى شيخ القبيلة والعراف والكاهن....وكان شيخ القبيلة حكما بين الناس في منازعاتهم وخلافاتهم.29
لوگ اپنے مقدمات کو قبیلے کے سردار،نجومی اور کاہن کے پاس لے جایا کرتے تھے ۔۔۔ اختلافات اور جھگڑوں کی صورت میں قبیلے کا سردار لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہوتا تھا۔
ہر قبیلے میں ایک دو گھر شرف و ریاست کی وجہ سے دوسروں سے ممتاز ہوتے تھے ۔ ایسے شریف گھرانوں کی ممتاز شخصیتیں فیصلہ کرنے کا فرض ادا کرتی تھیں 30البتہ ان کے جج آج کے ججوں کی طرح نہیں تھے بلکہ ان دونوں میں تین طرح کے فرق تھے ۔ جن کی تفصیلی نشاندہی حسبِ ذیل عبارت سے ہوتی ہے:
ولم يكن هؤلاء كما قد يظن البعض قضاة بالمعنى المفهوم للقضاة اليوم، بل كانوا "محكمين" يقصدهم الناس برضاهم دون إجبار من أحد….أولا: أن القاضي موظف خصصته الدولة ليقضي بين الناس وليس له الحق في أن يرفض النظر في الخصومات، أما الحكم أو "المحكم" فهو شخص عادي ليس له صفة رسمية، يلجأ إليه الناس للفصل في منازعاتهم فإن شاء قبل أن يقوم بهذه المهمة، وإن شاء أبى، وليس لأحد حق إجباره على هذه المهمةثانيًا: أن المدعي أو صاحب الحق إذا رفع دعواه إلى القاضي فإنه يصبح المدعى عليه ملزمًا بمخاصمة المدعي والحضور إلى مجلس القاضي، فإذا لم يحضر حكم القاضي عليه غيابيا، أما التحكيم فليس لأحد الخصمين حق في إجبار خصمه على المخاصمة والحضور أمام الحكم، ولا عبرة للتحكيم إلا إذا رضي الخصمان كلاهما به وحضر كل منهما باختياره إلى الحكم ثالثًا: قضاء القاضي ملزم لكلا الطرفين في القضية التي نظرها، وإذا لم ينفذ المحكوم عليه ما حكم به القاضي اختيارا، فإن الدولة تجبره على التنفيذ ولو باستعمال القوة، أما حكم الحكم في الخصومات التي يحكم فيها فإنه لا ينفذ إلا إذا كان كل من الخصمين راضيًا بهذا الحكم.31
یہ فی زمانہ قاضی کی طرح جج نہیں تھے جیسا کہ بعض لوگوں نے ایساگمان کیا ہے بلکہ وہ محض فیصلہ کرنے والے تھے جن کے پاس لوگ اپنی رضاورغبت سے بغیر کسی کے مجبورکیے جاتے تھے۔۔۔ پہلا یہ کہ قاضی وظیفہ دار ہوتا ہے جس کو حکومت لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کےلیے مقرر کرتی ہے اور اسے یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کے جھگڑوں کو بنا فیصلہ کے چھوڑدے جبکہ حکم یا محکم وہ عام آدمی ہوتا تھا جس کی کوئی رسمی صفات نہیں ہوتی تھیں،لوگ اس سے اپنے جھگڑوں کے فیصلہ کروانے کےلیے التجا کرتے تھے،اگر وہ چاہتا تو اس اہم کام کو پورا کرنے کے لیے رضامند ہوجاتا اور اگر چاہتا تو انکار کردیتا۔کسی کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اس کام کو مکمل کرنےپر اس کو مجبور کرسکے۔ دوسرا فرق یہ ہےکہ مدعی یا صاحبِ حق جب اپنا دعوی قاضی کے پاس لے جاتے تو مدعی کے جھگڑے اور قاضی کی مجلس میں حاضر ہونے کی وجہ سے مدعی علیہ ملزم بن جاتاہے،پس اگر مدعی علیہ قاضی کےپاس حاضر نہ ہوتو وہ اس پر مفرور ی کا حکم لگادیتاہے جبکہ تحکیم میں دونوں فریقوں میں سے کسی کے لیے بھی مد مقابل کو مقدمہ پر مجبور کرنے یازبردستی حکم کے سامنے پیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتاتھا۔تحکیم کاماسوادونوں فریقوں کی باہم رضامندی کےکوئی اعتبار نہیں تھا اور ہر ایک اپنے اختیار سےہی حکم کے پاس آتاتھا۔ تیسرافرق یہ کہ قاضی کا صوابدیدی فیصلہ دونوں فریقوں کو لازم ہوتاہےاور جب محکوم علیہ قاضی کے فیصلہ کو رضامندی سے تسلیم نہیں کرتا تو حکومت اس کو تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے اگرچہ اسے طاقت کا استعمال کرنا پڑے جبکہ حکم کا فیصلہ ان جھگڑوں میں جن میں وہ فیصلہ صادر کرتا تھا وہ اسی صورت میں نافذہوتا تھا جب دونوں فریق اس فیصلہ سےراضی ہوں۔
اس اقتباس سے یہ واضح ہوا کہ قضاء وتحکیم میں بنیادی طور پر تین طرح کا فرق ہے،پہلایہ کہ قاضی پر مقدمات کی سماعت لازم ہے جبکہ حکم میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی۔دوسرا یہ کہ قاضی کے سامنے حاضری سے مدعی علیہ ملزم اور غیر حاضری سے مفرور قرارپاتا ہے جبکہ حکم میں ایسا کچھ نہیں ہوتاتھااور تیسرایہ کہ قاضی کا فیصلہ دونوں فریقوں پر بغیر رضامندی کے واجب ہوجاتا ہے لیکن حکم میں ایسا نہیں ہوتاتھا۔اس کی بنیادی وجہ حکومت کا ہونا یا نہ ہونا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ہر قبیلے کی اپنی مجلسِ شوریٰ تھی جسے "سقیفہ" کہتے تھے32اور کسی کے سماجی بائیکاٹ کا فیصلہ بھی قبیلے کی مجلسِ بزرگان ہی کرتی تھی33لیکن منظم حکومت کی نایابی کی وجہ سے کوئی عدالتی نظام نہیں تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب تک یہاں کوئی منظم حکومت قائم نہیں ہوئی تھی لیکن ایسا ہمیشہ نہیں رہا بلکہ جب چھٹی صدی عیسوی کا دور آیا تو اس وقت سب سے منظم و مشہور شہر مکّہ تھا جس کے متعلق ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں :
وقد كانت من أبرز مدن الحجاز في القرن السادس للميلاد.34
چھٹی صدی عیسوی میں حجاز کے شہروں میں سے مشہور ترین شہر مکّہ تھا ۔
اس کی مشہوری کی وجہ اس کا نظام ہی تھاجس میں کئی طرح کے محکمے قائم کردیے گئے تھے۔یہ مختلف محکمےپہلی مرتبہ چارسو چالیس(440)عیسوی میں قائم کیے گئے تھے اور اسی وجہ سےسب سے زیادہ معروف ومنظم حکومت مکّہ کی تھی جسے حضور ﷺکے جد ِ امجدقصئ بن کلاب نے قائم کیا تھا ۔35اس حوالے سےڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں :
قریشِ مکّہ نے ایک شہری ریاست قائم کر لی تھی جس کا انتظام قریش کے دس(10) بڑے خاندانوں کے نمائندوں پر مشتمل کونسل چلاتی تھی ۔36
ان سب تفصیلات سے معلوم ہوتا ہےکہ زمانۂِ جاہلی میں کوئی مدونہ قانونی نظام نہیں تھا بلکہ قبائل وخاندان کی اپنی روایات و عرف ہی کی تقلید و حفاظت کی جاتی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کوئی ریاست قائم نہیں تھی بلکہ ہر قبیلہ کا سردارانہ نظام علیحدہ ہوا کرتا تھا اور باہمی تعلقات کی خاص نوعیت کے حساب سے سب برابری کی حیثیت کےحامل تھے تا آنکہ نبی مکرمﷺ کے جدِ امجد قصئ بن کلاب نے پانچویں صدی عیسوی میں مشترکہ طور پر ایک ریاست قائم کردی ۔
اسی مشترکہ ریاست نے کئی طرح کے اداروں اور عہدوں کو منظم انداز میں ایجاد ورائج کیا تھا جن میں کچھ عدالتی عہدے بھی شامل تھے۔اس ریاست کے قیام کے نتیجہ میں ظہورِ اسلام سے قبل مکّہ میں چار(4) عدالتی عہدے تھے،"ندوہ"، "مشورہ"، "اشناق " اور"حکومہ" ۔ ان کی ذمہ داریاں مختلف قبائل کے پاس تھیں۔ "ندوہ " بنو عبد الدار کے پاس تھا،"شوری" بنو اسد کے پاس تھی، "اشناق" بنو تیم کے پاس تھی اور "حکومہ" بنو سہم کے پاس تھی ۔37ا س کے علاوہ دار الندوہ کو بیک وقت بہت سی حیثیتیں حاصل تھیں جس کی طرف ذیلی اقتباسے اشارہ ملتاہے :
ان دار الندوة تملك ما يشبه السلطات التشريعة والتنفيذية والقضائية والا دارية مجتمعة في هيئة واحدة اي هي الفيئة العليا من قريش.38
بے شک دار الندوہ بیک وقت قانون سازی،تنفیذی،عدالتی،انتظامی اوراداراتی اختیار ات رکھتا تھایعنی یہ قریش کا اعلیٰ ترین طبقہ تھا ۔
رہا یہ سوال کہ اس کی بنیاد کب رکھی گئی تھی؟تو اس کے متعلق فلپ ہٹی لکھتے ہیں :
ابتني في الشطر الاخير من القرن السادس دار الندوة ليجتمع فيها كبراء اهل مكة تحت امرته ليتشاوروا في مهام بلدتهم.39
قصئ نے دار الندوہ کی بنیاد چھٹی صدی عیسوی کے آخری حصے میں رکھی تھی تاکہ اس میں اہلِ مکّہ کے بڑے لوگ شہر کے اہم معاملات کی مشاورت کے لیے اس کےتحت جمع ہو سکیں ۔
اس عہدے کی نامزدگی اور اس مجلس کے عہدے دار بننے کے لیے کچھ شرائط بھی تھیں،جن میں سب سےبڑی شرط عمر کی تھی چنانچہ اس حوالے سے ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں :
دار الندوہ کے اجلاس میں اکیس (21)سال اور اس سے زیادہ عمر کے تمام مردوں کو شریک ہونے کی اجازت تھی۔40
البتہ کچھ مخصوص لوگوں کو خاص استثنا ء حاصل تھا جس کی وضاحت کرتےہوئے ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں :
أنه لم يكن يدخلها من قريش من غير ولد قصي إلا ابن أربعين سنة للمشورة.41
اس میں قصی کی اولاد کے علاوہ مشورہ کے لیے چالیس (40)سال سے کم عمر آدمی کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔
اسی طرح بعض اوقات کم عمر ذہین لوگوں کو بھی اس میں داخلے کی اجازت مل جاتی تھی جیسے ابو جہل اس میں پہلی مرتبہ اس وقت داخل ہوا تھا جب اس کی مونچھیں بھی صحیح سے نہیں آئیں تھیں کیوں کہ وہ اسی نو عمری میں سردار بنادیاگیا تھا۔ 42
اسلام سے قبل عرب معاشرے میں موجود جرائم كے ليے ان كے عرف وتقاليد كے مطابق چند سزائیں بھی موجود تھیں ۔عرب معاشرے میں مختلف امورکو جرم سمجھا جاتا تھا،جن میں قوم کے دین و عقائد کی مخالفت،اپنے قبیلے کے عرف و عادات کی مخالفت،کسی کومارنا یا زخمی کرنا،کسی کو قتل کرنا، غیر کے حقوق تلف کرنا جیسا کہ غصب کرنا اورچوری کرنا اوراسی طرح دوسروں کی ملکیت میں زیادتی کرنا شامل تھے ۔ان جرائم پر سزائیں بھی مقرر تھیں،کوڑے مارے جاتے تھے،قید کیا جاتا تھا،بے گھر کیا جاتا تھا،قبیلے سے نکال دیا جاتا تھا،جلا وطن کر دیا جاتا تھا اوربدلہ اور قصاص لیا جاتا تھا ۔43
قتل عرب معاشرے میں ایک بڑا جرم تھا ۔اس کی دو صورتیں تھیں،جان بوجھ کر قتل کرنا اور غلطی سے قتل کردینا ۔اسلا م کی طرح جاہلیت میں بھی لوگ اس میں فرق کیا کرتے تھے جیسا کہ اس حوالہ سے درج ذیل عبارت سے یوں مذکور ہے :
القتل نوعان: القتل العمد، والقتل الخط وقد فرق الجاهليون بين النوعين.44
قتل کی دو قسمیں ہیں، قتلِ عمد اور قتلِ خطا۔ زمانۂِ جاہلیت میں بھی لوگ ان دونوں قسموںمیں فرق کیا کرتے تھے ۔
قتلِ عمدیعنی جان بوجھ کر قتل کرنے کی صورت میں قاتل کوبدلے میں قتل کیا جاتا تھا البتہ قتلِ خطا کی سزا عربوں کے نزدیک بھی کم تھی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں :
فتجعل القتل الخطأ دون القتل العمد في الدرجة وفي الحكم المترتب عليه.45
وہ قتلِ خطا کو قتلِ عمدسے کم درجے میں رکھتے تھے اور اس پر دی جانے والی سزا بھی کم تھی ۔
ایسے مواقع پر اگر قاتل فرار ہو جاتا تو وہ اسی قبیلے کے کسی ایسے دوسرے شخص کو قتل کر دیتے تھے جو شریکِ جرم بھی نہیں ہوتا تھا چنانچہ امام قرطبی لکھتے ہیں :
كانت العرب تتعدى فتقتل غير القاتل.46
عرب تعدی کرتے تھے، وہ قاتل کے علاوہ دوسرے شخص کو بھی قتل کر دیتے تھے ۔
اس معاشرے میں قصاص کی باقاعدہ سزا تلوار سے دی جاتی تھی جیسا کہ تاریخ میں یوں مذکور ہے :
ويكون قتل القاتل عند الجاهليين بحد السيف.47
جاہلیت میں قاتل کا قتل تلوار سے ہی ہوتا تھا ۔
یعنی قاتل کو پھانسی،عمارت سے نیچے پھینکنا، گڑھے میں زندہ دبانا یا اس جیسی دیگر قتل کی صورتوں کے بجائے ایک ہی صورت میں قتل کیا جاتاتھا اور وہ تلوار سے قتل کیا جانا تھا تاکہ معاشرہ میں اس جرم کی سفاکیت کے مطابق ہی اس کا بدلہ دیاجائے۔
عرب معاشرہ میں سزا کے نفاذ میں امیر و غریب اور طاقتور و کمزور کا فرق موجود تھا، مثال کے طور پر اگر کمزورشخص یا کمزورقبیلہ کسی کو قتل کردیتا تو اس سے نہ صرف قصاص لیا جاتا تھا بلکہ قصاص میں زیادتی بھی کی جاتی تھی،عدالت و انصاف کے پیمانوں کو پسِ پشت پھینک دیا جاتا تھا،طاقتور قبیلےکی عورتوں کے بدلے ان کے مرد قتل کیے جاتے تھے۔ اس حوالے سے وضاحت سمیت دو قبائل کی آپسی رنجش پر ایک قبیلہ کی قسم بیان کرتے ہوئے ابو سعود عمادی لکھتے ہیں :
كان في الجاهلية بين حيين من أحياء العرب دماء وكان لأحدهما طول على الآخر فأقسموا لنقتلن الحر منكم بالعبد والذكر بالأنثى.48
جاہلیت میں عرب کے محلوں میں سے دو محلوں کے درمیان قتل کے معاملات تھے، ایک دوسرے سے زیادہ طاقتور تھا توانہوں نے قسم کھائی کہ ہم ضرور غلاموں کے بدلےتمہارے آزاد مرد اور عورتوں کے بدلے تمہارے مردوں کو قتل کریں گے ۔
اس قبائلی معاشرے میں چونکہ سردار بالکل خود مختار ہوتے تھے اورانہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا،اس وجہ سے بعض اوقات یہ سردارسزائیں دیتے وقت اپنا غصہ بھی نکال لیا کرتے تھے ۔اس حوالہ سے ذیلی اقتباس میں یوں اشارہ کیاگیا ہے :
والظاهر أن المعاقبين كانوا أحيانا يقسون على المخالفين في فرض عقوباتهم، فيظلمونهم، ويعذبونهم عذابا لا يتناسب مع ما قاموا به من جرم.49
ظاہر ہے کہ سزا دینے والے کبھی کبھی سزائیں مقرر کرنے میں سخت دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،ظلم بھی کرتے تھے اور ایسا عذاب دیتے تھے جو جرم سے مناسبت نہیں رکھتا تھا ۔
اس طرح طاقتور لوگ ایک مرد کے بدلے میں دو یا چار مرد وں کو بھی قتل کر دیتے تھے ۔50ایسا بھی ہوتا تھا کہ طاقتور لوگ اور طاقتور قبائل اپنے زخموں کا بدلہ دُگنا لیتے تھے،اس حوالے سے امام رازی لکھتے ہیں :
وكانوا يجعلون جراحاتهم ضعف جراحات خصومهم.51
وہ اپنے مدمقابل سے زخموں کا دگنا بدلا لیتے تھے ۔
طاقتور قبائل اپنے مقتول کے بدلے قاتل کے قبیلے کی عورتوں سے جبراً نکاح کر لیا کرتے تھے چنانچہ اس حوالے سےامام خازن لکھتے ہیں :
كانوا ينكحون نساءهم بغير مهر.52
وہ ان کی عورتوں سے بغیر مہر کے نکاح کر لیا کرتے تھے ۔
یعنی قتل کی سزاؤں کا نفاذ تو تھا لیکن طاقتور اور کمزورکا فرق بھی نمایاں طورپر نظر آتا تھا جس سے انصاف کی فراہمی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوجاتی تھی اور پھر اس کے منطقی نتیجہ میں ظلم وزیادتی اور معاشرہ میں فساد وانتقام کے جذبات شدت سے بیدار ہوکرمعاشرہ کے امن وسلامتی کو تہس نہس کردیا کرتے تھے۔
عرب معاشرے میں انتقام کی بڑی اہمیت تھی۔ وہ لوگ قسم کھاتے تھے کہ جب تک اپنے رشتہ دار مقتول کا بدلہ نہیں لیں گے تب تک فلاں اشیاء اور فلاں کام کرنا ہم پر حرام ہیں کیوں کہ بدلہ نہ لینے سے مقتول کو اذیت ہوگی اور محبت و رشتہ داری پر بھی حرف آئےگا۔اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر احمد حوفی لکھتے ہیں :
ان کا اعتقاد تھا کہ مقتول کی روح کو قرار نہیں ملتا جب تک اس کا انتقام نہ لے لیا جائے،جب انتقام لے لیا جاتا ہے تو اسے قرار آجاتا ہے ۔53
لوگ بدلہ لینے تک اپنے اوپر مختلف چیزیں حرام کر لیتے تھے مثلاً امرؤ القیس کو جب علم ہوا کہ اس کا باپ قتل ہو گیا ہے تو اس نے اسی طرح کی ایک قسم کھائی جسے بیا ن کرتے ہوئے ابن سعد اندلسی لکھتے ہیں:
ألا يأكل لحماً، ولا يشرب خمراً، ولا يدهن، ولا يصيب امرأة، ولا يغسل رأسه من جنابة حتى يدرك ثأره.54
وہ گوشت نہیں کھائے گا،شراب نہیں پیے گا،سر پر تیل نہیں لگائے گا، عورت سے ہمبستری نہیں کرے گا،اور غسلِ جنابت نہیں کرے گا جب تک کہ انتقام نہ لے لے ۔
عربوں میں انتقام کی روایت ا س درجہ تک پختہ تھی کہ ایک بدو شخص بھی اس کی اہمیت سے آگاہ تھا چنانچہ اس حوالے سے ایک دیہاتی کا درج ذیل قول پڑھ کر ان کی جاہلیت کا اندازہ لگانا آسان ہو گا:
قيل لأعرابي: أيسرك أن تدخل الجنة ولا تسيء إلى من أساء إليك؟ فقال: بل يسرني أن أدرك الثأر وأدخل النار.55
ایک دیہاتی سے کہا گیا،کیا یہ بات تمہیں خوش کرتی ہے کہ جس نے تمہارے ساتھ برائی کی،تم اس کے ساتھ برائی نہ کرو اور تم جنت میں داخل ہو جاؤ،اس نے کہا :(نہیں) بلکہ مجھے اس بات سے خوش ہوگی کہ میں انتقام لے سکوں اور جہنم میں داخل کر دیا جاؤں ۔
جہالت نے دماغوں پر اس قدر قبضہ جما رکھا تھا کہ وہ دیت وقصاص کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ بلکہ ایک انسان کے قتل ہونے پر اس کے ایک ایک عضو کے بدلے ایک ایک انسان قتل کرنا چاہتے تھے چنانچہ جب مرہ کے دونوں بیٹے حساس اور ہمام قتل کردیے گئے توحارث نے اپنے بھائی عمرو کے بیٹے بحیرکو مہلہل کےپاس اس کے نام ایک خط دے کر بھیجا جس کا مضمون یہ تھا کہ تونے بہت کشت و خون کیا اور قتل و غارت گری کافی ہوچکی ہے، تونے اپنا انتقام لے لیا ہے بلکہ بکر کے کچھ آدمی اور بھی مار ڈالے ہیں لہٰذا میں اپنے بھتیجے کو تیرے پاس بھیج رہا ہوں، چاہے تو اسے اپنے بھائی کے بدلے میں مار ڈال یا بلا قتل کیے صلح کرلے کیوں کہ ان لڑائیوں میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جب مہلہل نے خط پڑھا تو اس کے بھتیجے کو گرفتار کرکے قتل کردیا اور کہا:" کلیب کے جوتے کے تسمے کے عوض تجھ کو مارا جاتا ہے"۔ 56ان سب کی وجہ ان کی روایات میں ایک مشہور اصول تھا کہ خون کو خون سے ہی دھویا جا سکتا ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسری چیز اس زخم کا مداوا نہیں کرسکتی۔
عرب کی اس تاریخ کو پڑھنےاور سمجھنے کے بعد موجودہ دور کے عربوں کے احوال پر حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ وہ کس طرح عالمی استعمار، ظالم و خائن مغربی ممالک اوران کے تمام ظلم و ستم،قتل وغارت گری،معاشی و معاشرتی استحصال وغیرہ کو دیکھنے اور جھیلنے پر تیار ہیں اور اسرائیل کو صرف اس بنیاد پر تسلیم کرنے کےدرپہ ہیں کہ اس کے بدلے میں ان کو کاروباری اور سرکاری سطح پر چند ٹکوں کافائدہ ہو جائے گا اور ان کے دنیاوی خدا ان سے راضی ہو جائیں گےجبکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عرب چند روپوں اور پیسوں کے بدلے نہ اپنے مقتولوں کوبھولتے تھے اور نہ ہی اپنے دشمنوں کو بھولتے تھے جیسا کہ آج کے عربوں کو دیکھ کر پوری امتِ مسلمہ نہ صرف حیران ہے بلکہ شرمندہ ہے کہ ہمارے عرب بھائی آج کس طرح اپنےخونی، نسلی اور روحانی بھائیوں اور بہنوں کے قتل کو بھلا کر اسرائیل اور بھارت سے سمجھوتے کر رہے ہیں، حالانکہ ایک طرف یہ اسرائیل غزہ، عراق، فلسطین اور دیگر مقامات پر قتل و غارت گری مچا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت ایشیا میں اس کو بھر پور تعاون فراہم کر رہا ہے جس کے نتیجے میں نقصان سراسر یاتو خالص عربوں کا ہو رہا ہے یا ان کے دینی اور مذہبی کلمہ گو مسلمان بھائیوں کا۔
قتل کے بدلے قتل پر حریص ہونے کےباوجود عرب میں دیت کا رواج تھا،مختلف نوعیتوں اور مصالح کی بنیاد پرلوگ دیت دیتے بھی تھے اور لیتے بھی تھے۔دیت میں اصول یہ تھا کہ اگر قاتل خود دیت دینے پر قادر ہو تو وہ خود دیتا تھا ورنہ اس کے ذو رحم رشتہ دار دیت دیتے تھے ۔دیت کا قانون عربوں میں رائج توتھا لیکن عرب دیت لینے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے،ان کے کمزور لوگ ہی دیت لیا کرتے تھے ۔یہ دیت بھی بندوں اور قبیلوں کے حساب سے مختلف ہوتی تھی،عام آدمیوں کی دیت دس (10) اونٹ تھی اور بادشاہوں کی دیت ایک ہزار (1000) اونٹ تک تھی ۔عام لوگوں کی دیت کو " دیۃ الصریح"اور بادشاہوں کی دیت کو "دیۃ الملک" کہتے تھے جیسا کہ ذیلی اقتباس سے نشاندہی ہوتی ہے:
وتختلف الدية باختلاف درجات القبائل ومنازل الناس، فقد تكون عشرة من الإبل، وقد تبلغ ألف….وتكون دية المرأة نصف دية الرجل.57
دیت قبائل کے درجوں اور لوگوں کی منازل کے اعتبار سے مختلف ہوتی تھی،کبھی یہ دس(10) اونٹ ہوتی تھی اور کبھی یہ ہزار(1000) اونٹ تک پہنچ جاتی تھی ۔۔۔ عورت کی دیت آدمی کی دیت سے آدھی ہوتی تھی ۔
عربوں کے یہاں مقتول کی دیت عام طور پر ایک سو اونٹ ہوا کرتی، قاتل پوری دیت کو ساتھ لے کر اور اپنی قوم کے معززین کی جماعت کی ہمراہی میں مقتول کے وارثوں کے پاس جاتا اور ان سے دیت قبول کرنے اور قتل معاف کرنے کی درخواست کرتا ۔ اگر مقتول کےورثا ءطاقتور ہوتے تو دیت کو مسترد کر دیتے اور قصاص لینے پر اصرار کرتے اور اگر وہ اتنے طاقتور نہ ہوتے کہ قاتل کے قبیلہ کا مقابلہ کر سکیں تو پھر اپنا پردہ رکھنے کے لیےوہ یہ کہتے کہ ہم خود تو اپنے مقتول کو ان سو اونٹوں کے بدلے میں فروخت نہیں کر سکتے البتہ اگر اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ فرمادے تو پھر ہم دیت لے لیں گے اور قصاص سے دست کش ہو جائیں گے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی رائے معلوم کرنے کی صورت یہ تھی کہ کمان میں تیرر کھ کر آسمان کی طرف پھینکا جاتا اگر وہ خون سے آلود ہو کر واپس آتا تو وہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے دیت لینے کی اجازت نہیں دی بلکہ قصاص لینے کا حکم دیا ہے اس لیے ہم مجبور ہیں اور اگر واپس آنے والا تیر خون سے آلود نہ ہوتا تو کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے دیت لینے کے بارے میں فیصلہ کردیا ۔ یہ حیلہ محض عوام کو خاموش کرنے کے لیے کیا جاتاتھا ورنہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ تیر پھینکا گیا ہو اور خون سے رنگین ہو کر واپس آیا ہو۔ 58
قتل کے فیصلہ کا ایک طریق قَسامَت تھا، عربوں میں قسامت کا عام رواج تھا جس کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
وهي الأيمان تقسم على أولياء القتيل.59
یہ قسمیں ہیں جو قتیل کے اولیاء کھاتے ہیں ۔
قَسامَت کا عام فہم مفہوم یہ ہے کہ جب قاتل معلوم نہ ہوتا تو اس محلہ یا گاؤں کے پچا س (50)آدمیوں سے جہاں مقتول پایا جاتا، رکنِ یمانی کے درمیان اس بات پر قسم لیتے کہ نہ ہم نے مقتول کو مارا اور نہ ہمیں اس کے قاتل کا حال معلوم ہے ۔ اسی طرح اگر کسی قبیلہ کے کسی ایک یا چند آدمیوں پر قتل کا شبہ ہوتا تو اس قبیلہ کے پچاس (50)آدمیوں سے رکنِ یمانی اور مقامِ ابراہیم کے درمیان قسم لیتے کہ نہ ہم نے اسے مارا، نہ ہمارے آدمی نے اور نہ ہمیں اس کے قاتل کا حال معلوم ہے ۔ جب وہ پچاس (50)آدمی اس بات کی قسم کھا لیتے تو انہیں مقتول کے قصاص اور خون بہا سے بری کر دیا جاتا۔ یہ قسمیں نہایت سخت ہوتی تھیں اور اس تجویز کے نکالنے والے ابو طالب تھے۔60یہ قسامت دورِ جاہلیت میں رائج تھی چنانچہ اس حوالے سے علامہ عینی لکھتے ہیں :
القسامة التي كانت في الجاهلية.61
قسامت جاہلیت میں تھی ۔
عرب معاشرہ اس طرح کسی بھی قتل کو رائیگاں نہیں جانے دیتا تھا اور مقتول سمیت اس کے ورثاء کو انصاف کی فراہمی کے لیے اس طریقہ کو اپنایاگیا تھا تاکہ ایسا نامعلوم قتل بھی حدود وقیود کی زنجیروں میں جکڑ اہو اور اس طرح قتل کرنا بھی مشکل تر ہوجائےمگر موجودہ دور میں فلسطینی، عراقی اور غزہ وغیرہ کے عربوں کو دیکھ کر اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ یا تو وہ عرب نہیں ہیں یا ان کےعرب بھائی اپنی تاریخ کو بھلا کر ان کے قاتلوں سے سمجھوتہ بلکہ یارانا لگائے بیٹھےہیں جو خود تاریخِ عرب کا ایک سیاہ باب ہے۔
قتل کی طرح عرب معاشرے میں چوری بھی ایک جرم تھا جس کی پاداش وسزا میں دایاں ہاتھ کا ٹ دیا جاتا تھا جیسا کہ تاریخ میں مذکور ہے :
وكانوا يقطعون يد السارق إليمنى.62
عرب جاہلیت میں چور کا دایاں ہاٹھ کاٹتے تھے ۔
جبکہ چوری سے بڑھ کر اگر کوئی ڈاکہ مارتا توڈاکہ مارنے والے کو سولی کی سزا دی جاتی تھی جیسا کہ ذیلی عبارت سے معلوم ہوتاہے:
أن الصلب كان في الجاهلية عقوبة قاطع الطريق.63
بے شک دورِ جاہلیت میں ڈاکو کی سزا مصلوب کرنا تھی ۔
اور اس سزا کو بھی اہلِ عرب شدت سے نافذ کرتے تھے جیسا کہ درج ذیل عبارت سے نشاندہی ہوتی ہے :
يصلبون قاطع الطريق.64
وہ ڈاکو کو مصلوب کرتے تھے ۔
اسی طرح اہلِ عرب میں گو کہ زنا عام تھا لیکن شادی شدہ عورت کا زنا جیسے فعلِ قبیح میں ملوث ہونا ان کے ہاں انتہائی معیوب و بےحدقبیح سمجھا جاتا تھا اور اس نوعیت کے جرم میں اس کی سزا موت تھی ۔ اس حوالہ سے ذیلی اقتباس سے یوں اشارہ ملتا ہے:
والخيانة الزوجية تستوجب عقوبة صارمة لأنها زنا، وعقوبتها الموت عند العرب، كما أشار إلى ذلك "سترابون" في أثناء كلامه على العرب والزاني هو من يتصل بامرأة محصنة غريبة عنه....وقد كان الزنا معروفا في الجاهلية يفعله الرجال علنا، إذ لم يكن هذا النوع من الزنا محرما عندهم….ولا يعد الزنا نقصا بالنسبة للرجل ولا يعاب عليه؛ لأن الرجل رجل، ومن حق الرجال الاتصال بالنساء، وقد كانوا يفتخرون به....والزنا الذي يعاقب عليه الجاهليون، هو زنا المرأة المحصنة من رجل غريب بغير علم زوجها، وهو خيانة وغدر….لذلك عيرت المرأة الحرة المحصنة، إن زنت ومست به….أما الرجل، فلا يلحقه أذى إن زنى بامرأة، بل كان كما قلت يفتخر باتصاله بالنساء، ويعد ذلك من الرجولة وليس لامرأته ملاحقته شرعا على زناه. وقد يلحقه أذى من ذوي امرأة محصنة إن زنى بها، انتقاما منه، لهدره شرفهم وإلحاقه الضرر بهم.65
ازدواجی خیانت سخت سزا کو لازم کردیتی تھی کیونکہ وہ زنا تھا جس کی سزا اہلِ عرب کے نزدیک موت تھی جیساکہ اس طرف اسٹربون(Strabo) نے عرب پر کلام کے دوران اشارہ کیا ہے۔زانی وہ شخص تھا جو کسی اجنبیہ شادی شدہ عورت سے زنا کرتا تھا۔۔۔دورِ جاہلیت میں زنا عام تھا جس کو مرد اعلانیہ کیا کرتے تھے کیونکہ زنا کی یہ قسم ان کے نزدیک حرام نہیں تھی۔۔۔زنا کو بنسبت مرد کے کوئی نقص شمار نہیں کیا جاتاتھا اور نہ ہی معیوب سمجھا جاتا تھا کیونکہ مرد تو مرد ہوتا ہے اور عورتوں سےتعلقات ہی تومردوں کا حق ہےجس پر وہ فخر بھی کیا کرتے تھے۔۔۔البتہ وہ زنا جس پر عرب جاہلیت سزا دیتے تھے وہ فقط شادی شدہ عورت کا اپنے شوہر کے علم کے بغیر کسی اجنبی سے زنا کرنا تھا اور وہ درحقیقت بددیانتی اور دھوکہ ہے۔۔۔اسی وجہ سے شادی شدہ آزاد عورت کوعار دلائی جاتی تھی اگر وہ اجنبی مرد سے زنا کرتی یا ملامست کرتی۔۔۔تاہم مردکوکسی تکلیف کا سامنا نہیں تھا اگر وہ عورت کے ساتھ زنا کرے بلکہ وہ مذکورہ قول کے مطابق عورتوں سے تعلقات پر فخر کرتے تھے اور اس کو مردانگی تصور کرتے تھے جبکہ اس کی بیوی کو اس کے زنا کرنے پر کسی شرعی سزا دلوانے کا حق حاصل نہیں تھا۔ہاں شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کرنے کی وجہ سے، عورت کے رشتہ دار وں کی طرف سے ان کی عزت کی پامالی اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے کبھی کبھی انتقام کے طور پر اسے تکلیف پہنچتی تھی ۔
اس تفصیل سے اس بات کا پتا بخوبی چلتا ہے کہ جاہلیت کے لوگوں میں زنا عام تھا اور مرد فخریہ طور پر اس فعلِ شنیع کو مردانگی تصور کرتے ہوئے سرانجام دیتے تھے البتہ محض زنا کی ایک مخصوص قسم جس میں کسی شخص کی بیوی سے اجنبی مرد تعلق بناتا تو وہ اس کو نہایت قبیح خیال کرتے تھے جس کی سزا موت تھی کیونکہ یہ عورت کے خاندان کی عظمت و شرافت پر بدنما داغ تصور ہوتاتھا۔اس مخصوص صورتحال کے علاوہ وہاں زنا کی کسی قسم کی کوئی سزا نہیں تھی کیوں کہ یہ عرب جاہلی میں ایک عام سی بات تھی بلکہ فخریہ کام تھا۔
اہلِ عرب کے ہاں مذکورہ جرائم اور ان پر دی جانے والی سزائیں اس بات کا واضح پیغام دیتی ہیں کہ کوئی بھی معاشرہ خواہ وہ کتنا ہی سفاکیت و وحشت کا حامل کیوں نہ ہو اس کے لیے ہر حال میں سزاؤں کا نظام برقرار رکھنا عدل وانصاف کی فراہمی کے لیے یقینی ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح مذکورہ بالا تفاصیل سے یہ بھی واضح ہوتا ہےکہ دورِ جاہلی میں یہ سزائیں اپنے قبائل کے عرف وتقالید کی پابندیوں سمیت رائج تھیں اگرچہ کہ غیر مدون تھیں لیکن ان پر سختی سے عمل کیاجاتا تھا جو معاشرہ کے لیے مفید بھی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی ان میں سے بعض کو برقرار رکھا جیساکہ قسامت کےبارے میں علامہ عینی نے لکھا ہے۔66 بالکل اسی طرح کئی دیگر سزاؤں کو بھی اسلام نے عرب کے عرف کے مطابق باقی رکھا کیونکہ معاشرہ میں امن وسلامتی برقرار رکھنے اور فتنہ وفساد کی روک تھام سمیت جان،مال اور عزت کے تحفظ کےلیے اس طرح کی سزائیں یقینی طور پر معقول ومقبول تھیں تاکہ کسی ناحق جان و مال کی تباہی وبربادی سے معاشرہ میں تخریب کاری کو کلی طور پر مسدود کردیا جائے نیز انصاف کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے تاکہ معاشرہ جرائم کی کثافت و غلاظت سے محفوظ رہ کر پاکیزگی ونظافت کے ساتھ پروان چڑھے اور نئی نسل اس پاکیزہ وخوب صورت معاشرہ میں اپنی زندگی کے مراحل طے کرتے ہوئے پرورش پا سکے۔