Encyclopedia of Muhammad

خود مختار شہری حکومتیں

قدیم عرب کے کچھ مقامات پر چھوٹی بستیا ں آباد تھیں جودوسری بستیوں کے ساتھ سیاسی الحاق کرکے ایک خود مختار حکومت اور ریاست کی شکل اختیار کر گئیں۔وقت کے ساتھ ان کی نمو اور ترقی ہوئی اور یہ آبادیاں چھوٹی بستیوں اور تجارتی قصبوں سے بڑھ کر خودمختار شہری حکومتوں میں تبدیل ہو گئیں۔ 1یہ خود مختار شہری حکومتیں حجاز کے خطہ میں پائی جاتی تھیں۔

خطۂِ حجاز کی شہری ریاستوں میں مکّہ سب سے اہم اور سرِ فہرست ریاست تھی جہاں حضوراکرمﷺ کے جدِ امجد قصئ بن کلاب نے چارسوچالیس(440)عیسوی میں باقاعدہ انتظامی ڈھانچہ قائم کیا۔ اس سے پہلے یہاں بنو خزاعہ، بنو جرہم اور بنو اسماعیل کی حکومتیں قائم رہی تھیں۔ مکّہ کے علاوہ یثرب ، طائف اور خیبر کو بھی حجاز کےاہم شہروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہ شہر تمام عرب میں تجارتی و ثقافتی لحاظ سےاہمیت کے حامل تھے۔ یہاں قدیم زمانوں سے ہی باضابطہ سیاسی و انتظامی ڈھانچےموجو دتھے جن کے تحت یہ شہری ریاستیں اپنے سیاسی و انتظامی امور سرانجام دیتی تھیں۔اس خطے کی اہم خصوصیت جو اسے دوسرے تہذیبی مراکز سے ممتاز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ یہ خطہ پڑوس میں موجود حکومتوں اور ریاستوں کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی ،مذہبی اور معاشی تسلط سے آزاد تھا اس لیے وہاں ہونے والی سیاسی وتمدنی تبدیلیوں کے اثرات اس خطے پرمرتب نہیں ہوتے تھے۔اس کے راستوں کی ناہمواری، سخت آب و ہوا، اس علاقے کی خشکی اور اس کی ویران صحراؤں میں گھری ہوئی زمینوں کے بنجر پن نے اسے ایک ایسا خطہ بنا دیا تھا جس میں کوئی غیر ملکی قوم کسی بھی لالچ کے سبب مہم جوئی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ غیر ملکی افواج کےلئے اس خطہ کے نا قابلِ رسائی ہونے کی ایک مثال 24 قبل مسیح میں رومیوں کی طرف سے آگسٹس سیزر(Augustus Caesar) کے دور ِحکومت میں مصر سےشروع ہونے والی دس ہزار(10,000) سپاہیوں پر مشتمل ایک مشہور مہم ہے جس میں ان کے نبطی اتحادی بھی شامل تھے مگر یہ مہم بری طرح ناکام ہوگئی تھی۔2حجاز کےدشوار گزار ہونےاور ارد گرد کے سیاسی اثر و رسوخ سے محفوظ رہنے کے سبب یہاں عرب تہذیب اپنی اصل حالت میں محفوظ رہی اور غالباًیہی وجہ تھی کہ یہاں قائم ہونے والی شہری ریاستیں بھی بیرونی دنیا میں قائم شہری ریاستوں سے مختلف تھیں اور ان پر قبائلی اثرات زیادہ غالب تھے۔ذیل میں حجاز کی اہم شہری ریاستوں کے نام اور ان کی تفصیل دی جارہی ہے:

  1. مکّہ۔
  2. یثرب۔
  3. طائف۔

ریاست ِ مکّہ

حجاز میں قائم ہونے والی سب سے پہلی حکومت مکّہ مکرّمہ میں حضرت اسماعیل کی سرداری کی صورت میں قائم ہوئی تھی۔ حضرت ابراہیمنے اپنے بیٹےحضرت اسماعیل کو ان کی والدہ کے ساتھ یہاں آبا دکیا تھا۔ 3آپ یہیں جوان ہوئے اور پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد جرہم قبیلہ میں دوسری شادی کی 4جس سے ہونے والی اولاد مکّہ میں ہی آباد ہوئی۔5مکّہ اسماعیل کے دور میں ہی ایک قبائلی بستی کی صورت اختیار کر چکا تھا۔6آپکی سرداری اس وقت مکّہ مکرّمہ میں آباد قبیلوں پر تھی جن میں جرہم، قطورا اور عمالقہ شامل تھے۔ اس وقت مکّہ مکرّمہ میں یہی قبائل آباد تھے اور آپ ہی نے ان قبائل کے بے شمار افراد کو دینِ حنیف میں داخل کیا تھا۔7

بنو اسماعیل کی حکومت

حضرت اسماعیل کے بعد مکّہ کا اقتدار ان کی اولاد میں منتقل ہوا اور ان کے فرزند نابت اور پھر قیدار یہاں کے سردار بنے۔8ابن جریر طبری حضرت اسماعیل کی اولاد کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں:

  ولد لإسماعيل ابن إبراهيم اثنا عشر رجلا، وأمهم السيدة بنت مضاض بن عمرو الجرهمي: نابُت بن إسماعيل، وقيدر بن إسماعيل، وأدبيل بن إسماعيل، ومبشا بن إسماعيل، ومسمع بن إسماعيل، ودما بن إسماعيل، وماس بن إسماعيل، وأدد بن إسماعيل، ووطور بن إسماعيل، ونفيس بن إسماعيل، وطما بن إسماعيل، وقيدمان بن إسماعيل.9
  اسماعیل بن ابراہیم کےبارہ (12)بیٹے ہوئے جن کی ماں سیّد ہ بنت مضاض بن عمروالجرہمی ہیں۔بارہ بیٹے نابُت بن اسماعیل، قیدربن اسماعیل، ادبیل بن اسماعیل، مبشابن اسماعیل، مسمع بن اسماعیل، دمابن اسماعیل، ماس بن اسماعیل، اددبن اسماعیل، وطوربن اسماعیل، نفیس بن اسماعیل، طمابن اسماعیل اورقیدمان بن اسماعیل ہوئے۔

المسعودی نےبھی بارہ (12)ہی کا ذکر کیا ہے البتہ چند ناموں میں اختلاف ہے اور کچھ مختلف بھی ہیں۔ المسعودی لکھتے ہیں:

  وولدلإسماعيل اثنا عشر ولداً ذكراً وهم: نابُت، وقيدار، وأدبيل، ومبسم، ومشمع، ودوما، ودوام، ومسَّا، وحداد، وثيما، ويطور ونافش.10
  حضرت اسماعیل کے بارہ (12) بیٹے ہوئے اور وہ نابُت، قیدار، ادبیل، مبسم، مشمع، دوما، دوام، مسّا، حداد، ثیما، یطور اور نافش ہیں۔

البتہ مؤرخین ان کی تعداد اور نابُت کے سب سے بڑے ہونے پر متفق ہیں ۔ طبقات ِابن سعد میں بھی اسی طرح منقول ہے11نیز اس حوالہ سے فاکہی مکی حضرت علی سے روایت کرتے ہوئے تحریر کرتےہیں:

  ولد إسماعيل اثني عشر رجلا وأمهم بنت الحارث بن مضاض بن عمرو الجرهمي فاكبر أولاد إسماعيل نابُت وقيدر.12
  حضرت اسماعیل کےبارہ(12) لڑکےتھےاوران کی ماں حارث بن مضاض بن عمروجرہمی کی بیٹی تھی، حضرت اسماعیل کےسب سےبڑےفرزندنابُت اورقیدرتھے ۔

اس سے واضح ہواکہ حضرت اسماعیل کے بیٹے بارہ (12) ہی تھے البتہ ناموں میں اختلاف منقول ہے۔ ان میں سب سے بڑے فرزند نابُت اور قیدر تھےجن کی عمر میں غالباًزیادہ تفاوت نہیں تھاجس وجہ سے ان دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیا گیاہے۔حضرت اسماعیل کے وصال کے بعد حضرت نابُت اور پھرحضرت قیدریکے کے بعد دیگرے مکّہ کے والی اور کعبہ کے نگران ہوئے ۔13روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکّہ مکرّمہ کی سرداری اور انتظامی امور زیادہ تر بنو اسماعیل ہی کے ہاتھ میں رہے ۔

اس وقت تک مکّہ مکرّمہ میں دو ہی قبائل یعنی جرہم اور عمالیق آباد تھے۔ ابن اسحاق کے قول کےمطابق بنواسماعیل اور بنو نابُت اپنے نانا مضاض بن عمر اور ماموں سمیت جرہم کے ساتھ آباد رہے۔ 14یہ پرسکون انداز سے زندگی بسر کرتے رہےاور انہوں نے سرداری کے سلسلے میں کوئی لڑائی یا اس پر اعتراض نہيں كيا کیونکہ یہ آپس میں ننھیالی رشتہ دار تھے۔ حضرت قیدر کے بعد حکومت بنی اسماعیل سے منتقل ہوکر بنوجرہم کو مل گئی ۔15

جرہم کی حکومت

جرہم کا تعلق یمن سے تھااور وہ قحطان کی نسل سے تھے۔ان کے جدِ امجد کا سلسلۂِ نسب عابر بن سبا بن قطن بن عابر بن شالخ سے ملتا ہے جو یعرب کے بنو عم تھے۔ 16یہ ایک بڑا قبیلہ تھا جو مؤرخین کے مطابق دوسو( 200) خیموں پر مشتمل تھا۔17جرہم اور مکّہ کے باسی قبیلہ قطورا کا اصل وطن یمن تھا جو و ہاں سے ہجرت کرکے مکّہ مکرّمہ میں آباد ہوگئے تھے۔ 18

ان دونوں قبیلوں نے شہر مکّہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا ۔ 19مکّہ کے بالائی حصہ میں بیت اﷲ شریف کے قریب جرہم قبیلہ نے رہائش اختیار کرلی اور مکّہ کے نشیبی علاقے میں بنو قطورانے رہائش اختیار کرلی جسے بنو قبطون بھی کہاجاتا ہے۔20مکّہ کے بالائی حصہ کے سارے محصولات جرہم وصول کرتے تھے اور نشیبی حصہ کے قطورا۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ بنو قطورا اسفلِ مکّہ (زیریں مکّہ ) میں رہتے تھے اور جو شخص بالائی طرف سے مکّہ میں آتا تھا اس سے (جرہم کا سردار)مضاض محصول وصول کرتا تھا اور جو شخص زیریں مکّہ کی جانب سے مکّہ میں داخل ہوتا تھا اس سے قطوراکاسردار سمیدع محصول لیتا تھا ۔21ابو البقاء بنو اسماعیل سے بنو جرہم کی طرف اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے تحریرکرتےہیں:

  إن نابُت بن أسماعيل ولي سدانة البيت بعد أبيه عليه السلام، فلما هلك نابُت كان ولده أطفالاً فتولى السدانة أخواله من جرهم، وكان أول من ولي ذلك منهم مضاض بن عمرو بن غالب الجرهمي، ثم بنوه بعده كابراً عن كابر فمن ثم صارت جرهم ولاة الحرم.22
  نابُت بن اسماعیل اپنےوالدکےبعدبیت اللہ کی خدمت کےذمہ داربنے، جب ان کاوصال ہواتوان کےبچےچھوٹےتھےاس لیےبیت اللہ کی خدمت کی ذمہ داری جرہم میں ان کےننھیال نےسنبھالی، ان میں سب سےپہلےجس نے ذمہ داری لی وہ مضاض بن عمروبن غالب الجرہمی تھا، پھراس کےبیٹوں میں وراثت اور بیت اللہ کی خدمت کی ذمہ داری منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ جرہم ہی حرم بیت اللہ کےوالی بن گئے۔

اس تفصیل کو ابن جوزی نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ 23بنی اسماعیل کی طرف سے بھی جرہم کی حکومت کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی اور بغیر کسی جنگ کے جرہم نے مکّہ کی سرداری کا اعلان کردیا لیکن اس وقت مکّہ مکرّمہ میں آباد دوسرا قبیلہ بنو قطورا نے بھی اپنی حکومت کا اعلان کردیا ۔اس طرح دونوں قبیلے آمنے سامنے ہوگئے تاہم اس لڑائی میں بنی اسماعیل نے جرہم کا ساتھ دیا کیونکہ جرہم ان کے ماموں تھے۔اس طرح سرداری حاصل کرنے کے لیے دونوں قبیلوں کے درمیان مکّہ مکرّمہ کی سرزمین پر لڑائی ہوئی جو سرزمینِ مکّہ پرکعبۃ اللہ کی دوبارہ تعمیر کے بعد ہونے والی سب سے پہلی جنگ گردانی جاتی ہے۔ اس وقت جرہم کےسردار مضاض بن عمروتھے ۔24اس خونی لڑائی میں قطورا قبیلہ کا سردار سمیدع مارا گیا اور اس کے بعد جرہم قبیلہ کے سردار مضاض بن عمرو باقاعدہ دونوں قبیلوں کے سردار بن گئے اور مکّہ مکرّمہ کی سرزمین سے بنو قطورا کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔ 25

اس طرح بنی اسماعیل کے بعد مکّہ مکرّمہ کے پہلے حاکم اور سردار مضاض بن عمرو جرہمی بنے اور مکّہ مکرّمہ کی حکومت قبیلۂِ جرہم کے ہاتھ میں آئی26) جو نسل در نسل ان ہی میں رہی ۔27یوں یہ حکومت کئی صدیوں تک جرہم قبیلہ میں رہی لیکن جب انہوں نے مکّہ میں ظلم وستم شروع کیاتو یہ وہاں سے نکال دیے گئے۔

مکّہ مکرّمہ سے جرہم کی جلاوطنی

جب بنی جرہم نے مکّہ مکرّمہ کی پاک زمین پر ظلم وفساد اور لوٹ مار شروع کی تو اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مکّہ مکرّمہ سے نکال دیا۔ان لوگوں کی بے باکیاں یہاں تک پہنچ گئی تھیں کہ ان میں سے دو لوگوں نے بیت اﷲ شریف کے اندر زنا کرڈالا جس کے نتیجے میں ان دونوں پر اسی وقت عذابِ الٰہی نازل ہوا اور یہ دونوں پتھر کے مجسموں میں تبدیل ہوگئے۔ زنا کرنے والے کا نام اساف بن بغی اور عورت کا نام نائلہ بنت وائل تھا۔28یہ دو وہی بُت تھے جو اساف ونائلہ کے نام سے عرب میں مشہور ہوگئےاور جن کی کفارِ مکّہ پوجا کیاکرتےتھے۔

اس عذابِ الہٰی کے باوجود یہ لوگ گناہوں کے کاموں سے باز نہ آئے اور اپنی روش پربرقرار رہے یہاں تک کہ عمروبن حارث کا زمانہ آگیااور یہ جرہم کا مکّہ میں آخری سردار ثابت ہوا ۔29خزاعہ نے زبردست حملہ کرکے نہایت ذلت ورسوائی سے بنو جرہم کو مکّہ سے بے دخل کردیا اور وہ مکّہ کے فراق کا حزن وملال دل میں لیے یمن کی طرف کوچ کرگئے۔30اس طرح مکّہ مکرّمہ سےقبیلہ جرہم کی حکومت کا اختتام ہوگیا۔ اس بارے میں اختلاف ہے کہ مکّہ مکرّمہ پر قبیلہ جرہم کی حکومت کتنے عرصے تک قائم رہی۔ بعض علماء اس کا دورانیہ دوہزار( 2000) سال بتاتے ہیں کیونکہ مکّہ میں قبیلہ جرہم کا وجود اکیس سو(2100) برس تک رہا ہے 31جبکہ بعض کے نزدیک جرہمی حکومت تقریبا اٹھارہ سو(1800) سے ساڑھے اٹھارہ سو(1850) سال تک قائم رہی ۔ 32بنو جرہم کی مکّہ مکرّمہ سے جلاوطنی کے بعد یہاں کا اقتدار بنو خزاعہ کے پاس چلا گیا یوں یہ حکومت بنو اسماعیل اور بنو جرہم کے بعد مکّہ مکرّمہ پر قائم ہونے والی تیسری حکومت تھی جو صدیوں تک جاری رہی۔

بنو خزاعہ کی حکومت

قبیلہ خزاعہ سباء میں آباد تھا مگر ایک کاہن نے پیش گوئی کی کہ سبا کا بند ٹوٹ جائے گا اور سیلاب ہر جانب تباہی مچادے گا جس سےڈر کر اکثر قبائل وہاں سے وطن چھوڑ کر مختلف مقامات پر آباد ہوگئے تھے۔ اس حوالہ سے ابن کثیر لکھتے ہیں:

  خزاعة فرقة ممن كان تمزق من قبائل سبا حين ارسل اﷲ عليهم سيل العرم.33
  جب اللہ تعالیٰ نے ان پرعرم کاسیلاب بھیجا تو تب خزاعہ بھی قبائلِ سبا سےعلیحدہ ہوجانےوالےگروہوں میں سے ایک گروہ تھا ۔

اس طرح اس قبیلہ نے بھی ترکِ وطن کرکے مکّہ مکرّمہ کے قریب وادئِ مرالظہران میں پڑاؤ ڈالا اور وہاں اقامت کا ارادہ کیالیکن پھر مکّہ مکرّمہ کی طرف کوچ کرلیا۔ جب بنو جرہم نے انہیں وہاں سکونت سے روکا تو ان کے درمیان شدید قتل وغارت گری ہوئی ۔ 34فریقین کے مابین یہ لڑائی تین دن تک جاری رہی جس میں جرہم کو شکست ہوئی اور خزاعہ کا مکّہ مکرّمہ پر قبضہ ہوگیا ۔ اس طرح بنو خزاعہ میں یہ تولیتِ کعبہ باپ سےبڑےبیٹے کونسل در نسل منتقل ہونے لگی۔35

کچھ عرصہ کے بعدبنو خزاعہ بھی اسی ظلم و ستم میں ملوث پائے گئےجس میں بنوجرہم تھے۔ اسی قبیلہ کے ایک سردار عمرو بن لحئ خزاعی نے بیت اللہ میں مظاہرِ شرک کو داخل کیا جس وجہ سے مکّہ میں بُت پَرستی شروع ہوگئی۔ وہ مختلف ممالک میں آتا جاتا تھا، ایک مرتبہ شام کے سفر سے واپس آیا تو اپنے ساتھ عمالقہ کا بُت "ہبل" بھی لےآیاجس کو اس نے عین کعبہ کے پاس نصب کیا اور لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت کا نقش بٹھا نے کی کوشش کی چنانچہ لوگ اہم امور میں اس بُت سے برکت کی دعائیں مانگنے لگے۔ پھر مزید بُتوں کا اس میں داخلہ آسان ہو گیااور ہوتے ہوتے اس مرکزِ توحید کو مرکزِ شرک میں تبدیل کر دیاگیا۔36لوگوں نے اس کی بات اس لیے مانی کہ یہ لوگوں کا سردار تھا اور ان پر اپنا مال بے دریغ خرچ کیا کرتا تھا جس وجہ سے وہ لوگوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھااور اس کی باتوں کو لوگ اہم سمجھ کر عمل پیرا ہوتے تھے۔37یوں یہ خزاعی سردار اپنی قوم کی ہلاکت وبربادی کا باعث بنا اور اسی مشرک سردار کی وجہ سے مکّہ میں خزاعی حکومت مطعون ٹھہری۔38اس قبیلے کا آخری حکمران حلیل بن حبشیہ تھا ۔ اس حوالہ سے محمد بن اسحاق سے نقل کرتے ہوئے ابن ہشام لکھتے ہیں:

  ثم إن غبشان من خزاعة وليت البيت دون بني بكر بن عبد مناة، وكان الذي يليه منهم عمرو بن الحارث الغبشاني، وقريش إذ ذاك حلول وصرم، وبيوتات متفرقون في قومهم من بني كنانة، فوليت خزاعة البيت يتوارثون ذلك كابرا عن كابر، حتي كان آخرهم حليل بن حبشية بن سلول بن كعب بن عمرو الخزاعي.39
  کعبہ کا انتظام وانصرام بنو خزاعہ کی شاخ بنو غبشان کے سپرد ہوا اور بنو بکربن عبد مناۃ کو یہ منصب حاصل نہ ہوسکا۔ بنی غبشان میں سے کعبہ کے منتظم کا نام عمرو بن الحارث الغبشانی تھا۔ قریش ان دنوں مختلف علاقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے تھے اور بنی کنانہ کے ساتھ مل کررہتے تھے، اس لیے خانہ کعبہ کی تولیت بنی خزاعہ میں نسل درنسل چلتی آرہی تھی، حتی کہ ان کی طرف سے خانہ کعبہ کا آخری متولی اور منتظم حلیل بن حبشیہ بن سلول بن کعب بن عمرو خزاعی ہوا۔ 40

ا س کے بعد بنو خزاعہ سے بھی بیت اللہ کی تولیت کا منصب اور مکہ کی حکمرانی واپس لے لیے گئے۔بنو خزاعہ کی مدتِ حکومت سے متعلق مختلف اقوال کتبِ تاریخ میں بیان کیے گئے ہیں۔ایک قول کے مطابق بنو خزاعہ نے مکّہ مکرّمہ پر پانچ سو( 500) سال حکومت کی41جبکہ المسعودی 42اور ابن کثیر 43سمیت اکثرعلماءنے بنو خزاعہ کی حکومت کا عرصہ تین سو (300)سال لکھا ہے۔ اس کے بعد یہ حکومت قبیلہ قریش میں منتقل ہوگئی۔

قریش کی حکومت

بنو خزاعہ کے آخری سردار نے اپنی بیٹی کی شادی قصئ سے کی اور مرتے ہوئے اپنی بیٹی کو جانشین بناگیا لیکن بیٹی نے اس بارِگراں کو اٹھانے سے منع کردیا اور روایت کےمطابق اپنے بھائی کو سردار بنا دیا جس سے قصئ نے شراب کے مشکیزہ اور جوان اونٹ کے بدلے یہ حکومت لے لی۔بنو خزاعہ نے اس کا انکار کیا اور قریش سے جنگ کی جس کا بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں کے درمیان صلح کامعاہدہ اس شرط پرہوا کہ قصئ حکمران رہیں گے۔44

حمزہ نے قصئ کو فیروز بن یزد گرد کا اور مقدسی نے منذر بن نعمان اور بہرام گور کا معاصر بتایا ہے۔ بہرام گور کا زمانہ چار سوبیس(420)عیسوی سے چار سو اڑتیس (438)عیسوی تک تھا اور اس کے بعد یزدگرد دوم چارسو ستاون (457)عیسوی تک حکومت کرتا رہا تھا۔ اس کے بعد فیروزبن یزدگردچار سو چوراسی( 484)عیسوی تک حکمران رہا جبکہ منذر کا زمانہ چارسو بتیس( 432)عیسوی سےچار سوتہتر(473) عیسوی تک تھا۔یوں قصئ کا عہدپانچویں صدی عیسوی کا عہدِ وسط بنتا ہے۔45قصئ سے پہلے مکّہ مکرّمہ میں جتنی بھی حکومتیں تھیں وہ صرف قبائلی سرداری اور تولیت کعبہ تک محدود تھیں لیکن جہاں تک قصئ کی حکومت کا تعلق ہے تویہ صحیح معنوں میں ایک منظم حکومت تھی اور اس حکومت میں دیگر حکومتوں کی بنسبت مکی تہذیب وتمدّن عروج پر تھا۔ قصئ بن کلاب کے اقتدار سے مکّہ مکرّمہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کو مؤرخین تاریخ ِ مکّہ کےسنہری دور کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

مکّہ کا سیاسی نظام

قصئ نے مکّہ کی حکومت سنبھالنے کے بعد اس کے معاملات کو منظّم کرنا شروع کیا۔ اس نے قریش کی مختلف شاخوں کو جو بکھری ہوئی تھیں اکٹھا کیا، پھر مکّہ کو اپنے لوگوں کے درمیان حصوں میں تقسیم کیا۔ قریش کے مختلف بطون (شاخوں) کو مکّہ کے مختلف علاقوں میں کعبہ کے قریب آباد کیا اور ان کے محلے بنائے۔ قصئ نے جو نظام ِ حکومت قائم کیا وہ حکمرانی کی ایک ایسی قسم تھی جو اگر چہ ظاہری طور پر شہری حکومت تھی لیکن اپنی اصل میں یہ ایک قبائلی تنظیم تھی جوداخلی استحکام اور قریش کے وسیع عالمی تجارتی تعلقات کے پیش نظر اپنائی گئی تھی۔ 46

سربراہی سنبھالتے ہی قصئ نے مکّہ میں کچھ اداروں کا قیام کیا جس سے شہر کے انتظام کو سنبھالا جاسکے۔قصئ کا گھر ایک سرکاری ہیڈکوارٹر کی مانند تھا جہاں ہر طرح کے معاشرتی، معاشی، سیاسی و جنگی فیصلے کئے جاتے تھے۔تمام معاملات پر مشاورت ضرور ہوتی تھی لیکن قصئ کا فیصلہ حرف ِ آخر ہوتا تھااور کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکتا تھا۔ جن اداروں کو قصئ نے قائم کیا ان کے نام درج ذیل ہیں:

  1. الحجابۃ:.............کعبہ کا نگران۔
  2. اللّواء:.............جنگ کے معاملات کا نگران۔
  3. السقایۃ:............پانی کی ضرورت پوری کرنے والا، خاص کر حاجیوں کی پانی کی ضرورت۔
  4. الرفّادۃ:............حاجیوں کی دیگر ضروریات کی دیکھ بال کرنے والا۔
  5. النّدوۃ:............معاشرہ کے فیصلہ کرنے والا۔
  6. القیاضۃ:...........سیاسی معاملات کا سربراہ ۔

ان تمام اداروں کے سربراہ قصئ خود تھے اور جب وہ ضعیف ہوگئے تو یہ ساری ذمہ داریاں انہوں نے اپنے بڑے بیٹے عبد الدار کے حوالہ کردیں جو ان کوزندگی بھر بخوبی نبھاتا رہا۔ 47

مکّہ میں جس نظام ِ حکومت کو اپنایا گیا اس کی خصوصیات کافی حد تک اشرافیائی نظام (Aristocracy) سے ملتی ہیں جس میں بڑے تاجر اور تجارتی قافلوں کے مالکان حکومت کانظام سنبھالتے تھے اور اس میں انتظامیہ، سیاست، تجارت، مذہب اور جنگ کا اشتراک پایا جاتا تھا۔ قریش کی شاخوں نے عہدوں کو کچھ معاملات میں شورائی حکمرانی کے نظام کی طرح بانٹ رکھا تھااور ہر ایک شاخ سے ممتاز شخصیات نے مملکت یا نظامِ حکومت سے متعلق مختلف ذمہ داریاں سنبھالی ہوئیں تھیں۔ ظہورِ اسلام کے وقت مکّہ کی یہ شہری ریاست اتنی ترقی کر چکی تھی کہ ان کے یہاں کئی شعبوں کےلئے باقاعدہ ادارے قائم ہو چکے تھے جوالسدانۃ،السقایۃ،الرفادۃ،الرایۃ،القیادۃ،الاشناق (الدیات)،القبۃ،الاعنۃ،السفارۃ،الایسار،المشورۃ،الاموال المحجرۃاور دارالندوۃنام سے جانے جاتے تھے۔ 48

مکّہ کی اس سیاسی تشکیل اور نظم میں دار الندوہ کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ قریش کے لیے کوئی ایسی دلچسپی یا اہمیت کا معاملہ نہ تھا جس پر یہاں بحث و مباحثہ نہ ہوتا ہو۔ جنگ کے موقع پر یہیں عسکری جھنڈا لہرایا جاتا، تجارتی قافلے یہیں تیار ہوتے اور یہیں سے روانہ ہوتے ۔ واپسی پر وہ سامان سے لدے دارالندوہ کے صحن میں اترتے۔ یہاں تک کہ شہر کے تمام مسائل اسی میں حل ہو تے تھے۔بنو قصئ اور ان کے حلیف قبا ئل کے سردار ، صاحب الرّائے افراد اور صاحبان ِ دانش و حکمت یہاں ہونے والی مشاورت میں شریک ہوتے تھے۔ اگرچہ وہ کسی تحریری قانون پر عمل نہیں کرتے تھےلیکن ان کے معاملات اور فیصلوں میں قبائلی روایات اور رسم و رواج کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ وہ ان فیصلوں پر عمل کرنے کے پابند نہیں تھے جن پر وہ متفق نہیں ہو پاتے یا وہ ان کے مزاج کے مطابق نہ ہوتا۔49

ریاستِ یثرب

حجاز کی اہم شہری ریاستوں میں سے ایک یثرب بھی تھی جو مکہ سے تقریباً چار سو پچاسن (450)کلومیٹر شمال میں ایک اونچے میدان میں واقع تھی۔ اس کے شمال میں جبلِ احد اور پھر جبلِ سیلا واقع ہیں جبکہ جنوب مغرب میں جبلِ عیر واقع ہے۔ اس کے مغرب میں زمین بحیرہ احمر کے ساحل کی طرف تیزی سے اترتی ہے ۔ یہ ان تجارتی مراکز میں سے ایک تھا جس میں قافلے کچھ وقت قیام کرتے تھے۔ یثرب کا شہر قدیم معینی تحریروں میں اسی نام سے جانا جاتا تھا جو اس کے قدیم ہونے اور اس کے ریاست معین کے ساتھ تعلقات کا ثبوت ہے۔ 50مشہور یونانی جغرافیہ دان بطلیموس(Ptolemy)نے اپنے جغرافیہ میں اس کانام یثربہ (Jathripa) دیا ہے۔51

جنوبی عرب کے قبائل میں سے کچھ یثرب میں آباد ہوئے۔ ان میں سے سب سے مشہور قبیلہ ازد ہے جس میں سے اوس اور خزرج قبائل ہیں۔52ماہرین انساب ان کو عمرو مذیقیاء بن عامر مآء السماءسے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ہجرت کس دور میں ہوئی اس کا تعین کرنا مشکل ہے تاہم جدید مؤرخین اسے چوتھی صدی عیسوی کے آخرکا واقعہ قرار دیتے ہیں ۔یہودیوں اور ان مذکورہ قبائل کے درمیان تعاون کی فضاء رہی اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہمسائیگی کا معاہدہ کر لیا تھا۔ یہودیوں نے جلد ہی اس عہد کو توڑ دیا کیونکہ انہیں اپنے مفادات اور مستقبل کے لیے خطرہ دکھا ئی دینے لگااور انہیں ڈر تھا کہ اس معاہدہ سے عربوں کی طاقت بڑھے گی۔ یہودیوں کی بدعہدی کی وجہ سےدونوں فریقین کے درمیان جھگڑا اور دشمنی پیدا ہوگئی۔ جب عربوں نے دیکھاکہ وہ یہودیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ وہ ان کی تعداد سے زیادہ اور طاقتور تھے توانہوں نے شام میں اپنے غسانی چچازاد بھائیوں سے رابطہ کیا۔ یثرب میں اس وقت عربوں کا سردار مالک ابن العجلان قبیلۂِ خزرج سے تھا ۔ غسان کا ایک شہزادہ ابو جبیلہ ایک بڑی طاقت کے ساتھ ان کی مدد کو آیااور اس نے یہودیوں کی بڑی تعداد کوقتل کر کے یہودیوں کے اثر و رسوخ اور ان کی سیاسی اور سماجی زندگی کے اثرات کو کم کر کے یثرب میں اوس اور خزرج کے اثر و رسوخ کو مضبوط کردیا۔یہودیوں نے اس کے بعد اوس و خزرج کے ساتھ خفیہ جنگ شروع کردی اور اوس و خزرج کو آپس میں لڑا کر معاشی و سیاسی عوامل پر کنٹرول حاصل کرنا شروع کردیا۔ یہودیوں نے تقسیم کے عوامل کی حوصلہ افزائی کرنے اور دونوں قبائل کے درمیان حسد اور دشمنی کے جذبے کو ہوا دینے اور انہیں کمزور کرنے کی پوری کوشش شروع کردی ۔ اس دوران یہودیوں نے ہتھیاروں کی فروخت اور سودی قرضوں سے بے پناہ دولت کمائی جسے سیاسی اثر ورسوخ حاصل کرنے کےلئے استعمال کیا گیا۔یہودیوں نے دونوں قبیلوں کو آپس میں لڑوادیا جس کے نتیجے میں اوس و خزرج کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگیں شروع ہو گئیں یہاں تک کہ نبی اکرمﷺ ہجرت فرما کر یہاں جلوہ گر ہوگئے۔اوس اور خزرج میں سے ہر ایک کا مدینہ سے باہر کسی نہ کسی عرب قبیلے کے ساتھ اتحاد تھا کیونکہ بیرون یثرب قبائل کے درمیان کشمکش اور مقابلہ اوس اور خزرج کے درمیان مقابلے اور کشمکش سے کسی طور پرکم نہیں تھا۔ ہر قبیلے کا مقصد اتحاد کے معاہدے کے پیچھے خود کو مضبوط کرنا اور اپنے حریف پر فتح کو یقینی بنانا تھا ۔ اوس و خزرج کا یہود سے بھی اتحاد تھا۔قبیلۂِ خزرج نے بنو قینقاع کے ساتھ جبکہ قبیلۂِ اوس نے بنو قریظہ کے ساتھ اتحاد کررکھا تھا۔ دونوں فریقوں کے درمیان ہونے والی سب سے مشہور جنگیں یومِ سمیر، یومُ السرارہ، یومِ حاطب اور یومِ بعاث تھیں ۔ جنگ نے دونوں قبیلوں کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا اور دونوں قبیلوں کے لوگوں کی بڑی تعداد ماری گئی جن میں قابل ذکر اور ممتاز رہنما بھی شامل تھے۔ یومِ بعاث نے یثرب کے تمام عرب قبائل کو کمزور کر دیا اس لیے ان میں متحد ہونے کا رجحان شدت اختیار کر گیا۔ دونوں فریقوں نے صلح کی دعوت پر لبیک کہا اور خزرج کے سرداروں میں سے عبداللہ بن اُبی بن سلول، جس نے جنگ کے بارے میں غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کیا تھا، اسے اس گروہ بندی اور تنازعہ کے حل کے لیے ثالث بنانے پر اتفاق کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب چھ سو بائس عیسوی (622 ء )میں نبی اکرمﷺاہلِ یثرب کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے اور یہاں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔53

مندرجہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ یثرب کی شہری ریاست میں بھی قبائلی نظام تھا جس میں افراد کی وابستگی شہر کے بجائے قبیلہ سے تھی اور وہ اس سے اپنی نسبت پر فخر کرتے اور اسی نسبت سے پہچانے جاتے تھے ۔ شہر کا حوالہ ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں کا سیاسی نظام یہود کی یہاں موجودگی اور ان کی عرب قبائل سے عداوت اور ایک خفیہ نوعیت کی جنگ کے سبب تباہی و انتشار کا شکا ر تھا۔ عرب قبائل، غسانیوں سے اپنے تعلقات اور رشتہ داری کے سبب مضبوط تھے تاہم یہود نے انہیں باہم دست و گریباں کر کے بھرپور معاشی و سیاسی فوائد سمیٹے تھے۔

ریاست ِطائف

یہ اس خطے کا تیسرا اہم شہر تھا جس کا نام عمالقہ کے وج نامی ایک شخص کی نسبت سے رکھا گیا تھا۔54اسی حوالے سے عبد المالک مجاہد لکھتے ہیں کہ بنوصدف کا ایک مالدار مفرور آدمی "وج "پہنچا جو اپنے چچازاد کا قاتل تھا۔ اس نے شہر کو عرب قبائل کی یلغار اور لوٹ مار سے بچا نے کے لیے ایک دیوار بنانے کی تجویز دی چنانچہ اس کی مدد سے بنوثقیف نے دیوار بناکر "وج" کو قلعے کی شکل دے دی چونکہ یہ دیوار چاروں طرف سےشہر کو گھیر ے ہوئے تھی اس لیے وہ اسے طائف کہنے لگے۔55یہاں کے مشہور علاقوں میں النخب، العرج ،لیۃ اور جلدان وغیرہ شامل تھے۔یہاں ایک نخلستانی وادی ہے جسے "عکاظ" کہا جاتا ہے۔ عربوں کا میلا پہلے یہیں لگا کرتا تھا اور یہیں "فجار" کی جنگیں لڑی گئیں۔ عرب یہاں ایک چٹان کا طواف کیا کرتے تھے اورزیارت کے لیے یہاں آیا کرتے تھے۔ 56یہاں کے باغات ہرے بھرے اور سرسبز و شاداب تھے۔ سردیوں میں یہاں پانی جم جاتا تھا۔یہ علاقہ اپنے موسم و آب و ہوا کی وجہ سے موسم ِ گرما میں مالدار لوگوں کےلئے تفریحی مقا م کا درجہ رکھتا تھا۔ طائف کے روابط مکّہ کے لوگوں سے مضبوط تھے بالخصوص ان کے ساتھ جن کی جائدادیں اور زرعی زمینیں طائف میں موجود تھیں۔مکّہ کے مالدار لوگ اپنا پیسہ طائف کے لوگوں کی تجارت میں شریک کے طور پراستعمال کرتے تھے۔ طائف میں ثقیف قبیلہ آباد تھا جس نے زراعت اور تجارت کو بہت زیادہ فروغ دیا تھا۔ اہلِ طائف نے لوٹ مار کرنے والے حملہ آوروں سے بچنے کےلئے فصیل بنالی تھی جس نے اس شہر کوایک محفوظ شہر بنا دیا تھا۔ 57

بعض روایتوں کے مطابق عدوان بن عمرویہاں کا پہلا بادشاہ تھا۔ یہ بھی منقول ہے کہ عمالقہ کے بعد قوم ِ ثمود یہاں آباد ہوئے تھےاور انہوں نے عمالقہ سے اقتدار لے لیا تھا۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ طائف کے سب سے قدیم باشندےبنو مھلائل بن کنان ہیں اور انہوں نے ہی طوفان سے پہلے اس شہر کو بنایا اور آباد کیا تھا۔یہ سرکش قوموں کے ساتھ ہلاک ہوگئے تھے ۔ ان کے بعد بنو ہانی بن ہزلول یہاں آباد ہوئے تھے یہاں تک کہ عمرو بن عامر کے دور میں الازد قوم نے انہیں یہاں سے نکال دیا۔جب ظہورِ اسلام ہوا تب مختلف اقوام کے زیرِ تسلط رہنے کے بعد بالآخر یہ شہر بنو ثقیف کے زیرِ تسلط آ گیا تھا۔ اہلِ مکّہ اور اہلِ طائف کے درمیان تھوڑی بہت دشمنی اور حسد بھی پائی جاتی تھی کیونکہ اہلِ مکّہ طائف میں اپنا تسلط بڑھانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور انہوں نے وہاں زمینیں خرید لی تھیں جس کی بدولت انہوں نےطائف پر اپنا اختیار بڑھا لیا تھااور وہاں نجی اور مشترکہ اقتصادی منصوبےشروع کر دیے تھے۔58

ان تما م تر تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ حجاز کا خطہ جسے عام طور پر تہذیب وتمدن سے دور، مہذب دنیا سےکٹےہوئے بے آب و گیاہ اور دنیا کےسب سے پس ماندہ و درماندہ ترین خطہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ دراصل ہزاروں سال پہلے ہی تہذیب و تمدن سے آشنا ہو چکا تھا اور یہاں کے مرکزی شہرمکّہ میں قدیم ترین حکومت طوفانِ نوح کے کچھ ہی عرصے بعد جرہم ِ اولیٰ کے دور میں قائم ہوچکی تھی۔ جرہمِ اولیٰ کی تباہی کے کئی ہزار سال بعدحضرت ابراہیم کے دوبارہ تعمیر ِ کعبہ کی بدولت یہ شہر ایک بار پھر آباد ہوا تو اسی مقام پر حضرت اسماعیل کی حکومت قائم ہوئی جو کعبۃُ اللہ کی دوبارہ تعمیر کے بعد یہاں قائم ہونے والی پہلی حکومت تھی۔اس کے بعد یہاں مختلف ادوار میں بنو اسماعیل، بنو جرہم ،بنو خزاعہ اور قریش کی حکومتیں قائم رہیں جنہوں نے یہاں سیاسی عمل اور تہذیب و تمدن کے تسلسل کو آگے بڑھایا۔اسی طرح یثرب اور طائف بھی خطۂِ حجاز کے ثقافتی و تہذیبی دھاروں کے اہم مراکز رہے جنہوں نے اس خطے کی سیاسی ،معاشی، سماجی، معاشرتی ، تہذیبی اور ثقافتی تدوین اور نمو میں اہم کردار اد کیا۔اس خطے کی تاریخ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ جزیرہ نما عرب میں حجاز کی مرکزی حیثیت ہر طرح سے واضح و مسلم رہی ہے ۔اس کی اہمیت کی سب سے بڑی وجہ یہاں کعبۃُ اللہ کی موجودگی تھی جس کے وجودِ مسعود نے اسے جزیرہ نما عرب کے مرکز سے بڑھا کر تمام دنیا کا مرکز بنا دیا ہے جبکہ یثرب، مدینۃُ النبیﷺکے قالب میں ڈھل کر چودہ سو(1400 ) سال سے اہلِ ایمان کی عقیدتوں اور محبتوں کا دوسرا اہم ترین مرکز بنا ہواہے ۔

 


  • 1 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة ، دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ ، مصر، 2000م، ص: 357-358
  • 2 Phillip K. Hitti (1970), History of the Arabs, Macmillan Education Ltd., London, U.K., Pg. 46.
  • 3 القرآن، سورۃ ابراہیم14: 37
  • 4 أبو الحسن علي بن أبي الكرم ابن الأثير الجزري، الكامل في التاريخ، ج-1، مطبوعة: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان، 1997م، ص: 112
  • 5 الشيخ أحمد مغنية، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الصفوة، بيروت، لبنان، 1994م، ص: 18
  • 6 أبو جعفر محمد بن جرير الطبري، تاريخ الطبري، ج-1، مطبوعة: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387ھ، ص: 314
  • 7 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 47
  • 8 محمد بن احمد قطب الدین الحنفی، الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام، مطبوعۃ: المکتبۃ التجاریۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص : 72
  • 9 أبو جعفر محمد بن جرير الطبري، تاريخ الطبري، ج-1، مطبوعة: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387هـ، ص: 314
  • 10 ابو الحسن علی بن حسین المسعودی، مروج الذھب ومعادن الجواھر، ج-2، مطبوعۃ: دار الھجرۃ، قم، ایران، 1409ھ، ص:21
  • 11 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:43
  • 12 ابو عبداﷲ محمد بن اسحاق الفاکہی، اخبار مکۃ فی قدیم والدھر وحدیثہ، ج-5، مطبوعۃ: دار خضر للنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1414 ھ، ص: 95
  • 13 محمد بن احمد قطب الدین الحنفی، الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام، مطبوعۃ: المکتبۃ التجاریۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص : 72
  • 14 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ:شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، مصر، 1955م، ص: 111-112
  • 15 أبو الفرج عبدالرحمن بن علي ابن الجوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوك، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1992م، ص: 305 -306
  • 16 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-2، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 12
  • 17 قاضی داؤد عبد الباقی المجاہد، تاریخ وفضائل ِمکّۃ المکرّمہ (مترجم: وسیم اکرم القادری)، مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور، پاکستان، 2014ء، ص: 256
  • 18 الشيخ أحمد مغنية، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الصفوة، بيروت، لبنان، 1994م، ص: 18
  • 19 ابو عبداﷲ محمد بن اسحاق الفاکہی، اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ، ج-4، مطبوعۃ: دار خضر للنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1414 ھ، ص: 90
  • 20 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، التیجان فی ملوک حمیر، مطبوعۃ: مرکز الدراسات والابحاث الیمنیۃ، صنعاء، الیمن، 1347ھ، ص: 412
  • 21 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 395
  • 22 أبو البقاء محمد بن نما الحلي، المناقب المزيدية في اخبار الملوك الأسدية، ج-1، مطبوعة: مكتبة الرسالة الحديثة، عمان، الأردن، 1984م، ص: 305
  • 23 أبو الفرج عبدالرحمن بن علي ابن الجوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوك، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1992م، ص: 305 - 306
  • 24 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، التیجان فی ملوک حمیر، مطبوعۃ: مرکز الدراسات والابحاث الیمنیۃ، صنعاء، الیمن، 1347ھ، ص: 412
  • 25 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 395
  • 26 ابو محمدعبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 113
  • 27 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 284
  • 28 ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص:233
  • 29 ابو الفرج علی بن ابراہیم حلبی، سیرۃ حلبیہ (مترجم:محمد اسلم قاسمی)، ج-1، مطبوعہ :دار الاشاعت، کراچی، پاکستان، 2009ء، ص: 60
  • 30 قاضی داؤد عبد الباقی المجاہد، تاریخ وفضائل مکّۃ المکرّمہ (مترجم: وسیم اکرم القادری)، مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور، پاكستان، 2014ء، ص: 256
  • 31 ڈاکٹر محمد عمر خان، نور ام النور نور رحمۃ للعالمین، ج-1، مطبوعہ : شبیر برادرز، لاہور، پاکستان، 2007ء، ص: 496
  • 32 محمد رفیق ڈوگر، الامین ﷺ ، ج-1، مطبوعہ: دید شنید پبلشرز، لاہور، پاکستان، 2000 ء، ص: 98
  • 33 ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر، بیروت، لبنان، 1976 م، ص: 4
  • 34 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 6 39
  • 35 ابو شھبۃ محمد بن محمد، السیرۃ النبویۃ علی ضوء القرآن والسنۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار القلم، دمشق، السوریا، 1427 ھ، ص: 147
  • 36 ابوالفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 24
  • 37 ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 17
  • 38 ابوالفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص:24
  • 39 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، مصر، 1955م، ص: 117
  • 40 عبدالملک بن ہشام، سیرۃالنبی ابن ہشام(مترجم: قطب الدین احمدمحمودی)، ج ـ1، مطبوعہ:الفیصل ناشران کتب، لاہور، پاکستان، 2006ء، ص: 130
  • 41 قاضی داؤد عبد الباقی المجاہد، تاریخ وفضائل مکّۃ المکرّمہ (مترجم: وسیم اکرم القادری)، مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور، پاكستان، 2014ء، ص: 257
  • 42 ابو الحسن علی بن حسین المسعودی، مروج الذھب ومعادن الجواھر، ج -2، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 46
  • 43 ابوالفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 24
  • 44 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 273- 274
  • 45 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-2، مطبوعہ : مطبع شاہی لکھنؤ، اعظم گڑھ، ہند، 1918ء، ص: 116
  • 46 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 175
  • 47 صفی الرحمن المبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 1431ھ، ص: 40
  • 48 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 180-183
  • 49 ایضا، ص: 175-176
  • 50 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 184-186
  • 51 اخلاق احمد، حرمین شریفین کا تاریخی جغرافیہ، مطبوعہ: بک فورٹ ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2018ء، ص: 157
  • 52 احمد بن محمد الاندلسی، العقد الفرید، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1404ھ، ص: 331
  • 53 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 184-191
  • 54 ابو عبدالله یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-4، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 9
  • 55 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 201
  • 56 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم :ڈاکٹر محمد حسن)، ج-1، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص: 425
  • 57 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 192-193
  • 58 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج-7، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 142- 150