Encyclopedia of Muhammad

اہلِ عرب کی سخاوت وفیاضی

جزیرہ عرب کا اکثر حصہ لق و دق صحراؤں اور ریگستانوں پر مشتمل تھا، بارش بھی بہت کم مقدار میں برستی تھی اور معیشت کے دیگر ذرائع کا بھی فقدان تھا۔ اس لیے اہل عرب کی معاشی حالت اس وقت بڑی ناگفتہ بہ تھی لیکن اس غربت و ناداری کے باوجود اللہ تبارک تعالیٰ نے سخاوت و فیاضی کی جو صفت ان کو عطا فرمائی تھی اس کی تفصیلات پڑھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ ان کے اشعار کا بہترین حصہ وہ ہے جن میں انہوں نے اپنی فیاضیوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کا یہ دستور تھا کہ رات کو اونچے ٹیلوں پر آگ روشن کردیتے 1تاکہ اگر رات کے وقت کسی مسافر کا وہاں سے گزر ہو تو وہ اس آگ کو دیکھ کر ان صحرانشین بدوؤں کے خیموں تک پہنچ سکے اور جب کوئی بھٹکا ہوا مسافر آدھی رات کے وقت ان کے ہاں پہنچ جاتا تو اس کی خوب خاطر مدارت کرتے۔2یہ عربوں کا بنیادی وصف تھا، اس وصف کی ادائیگی میں عرب اس قدر پابند تھے کہ اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک ہی او نٹنی ہوتی تو مہمان کی آمد پر اسے بھی ذبح کر دیتا۔ بعض لوگ انسانوں کو تو کیا جنگلی جانوروں اور پرندوں کو بھی کھلاتے پلاتے رہتے تھے۔ حاتم طائی کی سخاوت زبان زد عام تھی اور اس کی مثالیں بیان کی جاتی تھیں ۔3

عربوں کے خصائص حمیدہ میں مہمان نوازی وہ اعلیٰ درجہ کا وصف تھا جو ان کے دوست ودشمن کے درمیان بھی کوئی امتیاز نہیں رکھتا تھا، بدترین سے بدترین دشمن بھی اگر کسی طرح مہمان بن جاتا تو اس کے ساتھ بھی ان کا برتاؤ نہایت شریفانہ اور اعلیٰ درجہ کا ہوتا تھا ۔وہ ہر طرح سے اس کی خاطر تواضع کرتے اور ہر ممکن آرام و سہولت کے ساتھ اس کی جان کی حفاظت کے بھی ذمہ دار رہتے تھے۔4وہ اپنی اس خصلت پر فخرکیا کرتےتھے، عروہ بن ورد کہتا ہے:

  سلي الطارق المعتر يا أم مالك
إذا ما أتاني بين قدري ومجزرى
أيسفر وجهي أنه أول القرى
وأبذل معروفي له دون منكري.5
  اے ام مالک رات کے آنے والے محتاج سائل سے دریافت کر جب وہ میری ہنڈیا اور ذبح خانہ کے درمیان میرے پاس آتا ہے۔کیا (اسے دیکھ کر) میرا چہرہ روشن ہو جاتا ہے (یا نہیں) اور کیا میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہوں یا برے طریقے سے پیش آتا ہوں۔

اسی طرح قبیلہ بنی الحارث بن کعب کا فرد عُتبہ بن بُجَیر حارثی اپنی اس صفت ممدوحہ یعنی سخاوت کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

  ومستنبح بات الصدى يستتھیه
إلى كل صوت فهو في الرحل جانح
فقلت لأهلي ما بغام مطية
وسار أضافته الكلاب النوابح
فقالواغريب طارق طرحت به
متون الفيافي والخطوب الطوارح
فقمت ولم أجثم مكاني ولم تقم
من النفس علات البخيل الفواضح
وناديت شبلاً فاستجاب وربما
ضمنا قرى عشر لمن لا نصافح.6
  ایک مسافرِ شب کو گونج کی آواز نے رات بھر پریشان کیے رکھا کہ وہ ہر آواز کی طرف لپکتا اور بالآخر میرے ہی ڈیرے کی طرف مائل ہوا۔اس پر میں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ یہ اونٹنی کی اور رات کو چلنے والے کی آواز کیسی ہے جسے بھونکنے والے کتے ضیافت کی طرف بلارہے ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک پردیسی مسافر شب ہے، جسے بیابانوں کی وسعتیں اور دھکیلنے والی مصیبتوں نے گردش میں ڈال رکھا ہے۔یہ سن کر میں اٹھ کھڑا ہوا، اپنی جگہ سے چمٹا نہیں رہا اور میرے ساتھ بخیل آدمی کو رسوا کرنے والے اسباب نہیں اٹھے۔میں نے شیر کے بچے (اپنے بیٹے) کو پکارا اور وہ آگیا اور ایسا کئی بار ہوا کہ ہم نے ایسے اجنبیوں کی دس دس راتوں تک مہمان نوازی کرنے کا ذمہ لے لیا جن سے ہم نے کبھی مصافحہ بھی نہ کیا ہوتا تھا۔

ان اشعار میں جاہلی شعراء نے اپنی ضیافت کو فخریہ انداز میں بیان کیا ہےجس سے واضح ہوا کہ اہل عرب سخاوت کو انتہائی اہمیت دیا کرتے تھے اور ان کے معاشرے میں یہ صفت محمود اور فخر کا سبب تھی۔

دعوت ضیافت کےانداز

عرب میں دعوت ضیافت کے لیے مختلف الانواع طریقے رائج تھے جن میں اہم ترین آگ جلانا،کتے باندھنا اور بخور جلانا شامل تھے۔عرب دعوت ضیافت کےلیےرات کے اوقات میں اونچے اونچے ٹیلوں پر آگ جلایا کرتے تھے۔7وہ صرف اونچی جگہوں پر آگ ہی نہیں جلایا کرتے تھے بلکہ اس خیال سے کہ شاید رات کا مسافر بینائی سے محروم ہو اور وہ آگ کو نہ دیکھ سکے اس لیے وہ خوشبودار بخور بھی آگ پر چھڑک دیتے تھے جس کی خوشبو دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اندھا مسافر بھی اگر آگ کو دیکھنے سے قاصر ہے تو خوشبو سونگھ کر ہی وہ ان کے پاس پہنچ جائے۔

آگ روشن کرنا

اہل عرب کا عمومی طریقہ تو یہ تھا کہ وہ آگ روشن کرکے حاجتمندوں اورمسافر وں کو پیغام دیتے تھے کہ روشنی والی جگہ پر اس کےلیے کھانے اور پینے کا انتظام موجود ہے۔حاتم طائی کی بابت منقول ہے کہ جب اندھیری رات ہوتی تھی تو یہ اپنے غلام سے کہا کرتا کہ آگ روشن کرے تا کہ حاجتمند لوگ اور مسافر اپنی حاجات کی بر آوری کے لیےدور سے ہی متوجہ ہو جائیں۔حسبِ حکم اس کا غلام آگ روشن کردیا کرتا تھاتاکہ اس کو دیکھ کر مہمان آئیں اور حاتم اس سے یہ بھی کہتا تھاکہ اگر تو ایسا کرنے میں کا میاب ہو گیا تو تجھے آزاد کر دیا جائےگا چنانچہ صاحب مجانی الادب اس بارے میں یوں وضاحت کرتے ہیں:

  أوقد فإن الليل ليل قر
والريح يا موقد ريح صر
عسى يرى نارك من يمر
إن جلبت ضيفاً فأنت حر .8
  آگ روشن کر اس لیے کہ رات جاڑے کی ہے اور اے روشن کرنے والے ہوا بھی انتہائی شدید ہے۔شاید کہ تیری آگ کو راہ گیر دیکھ سکیں اور اپنی حاجات کی تکمیل کے لیے آ جا ئیں۔اس ذریعہ سے اگر تو کسی مہمان کو بلانے کا سبب ہوگا تو تو اپنے آپ کو آزاد خیال کرنا۔

سمؤال بن عادیا ٫نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ قصص العرب میں اس حوالہ سے اس کا شعر یوں مذکورہے:

  وما اخمدت نار لنا دون طارق
ولا ذمنا فیالنازلین نزیل.9
  رات کو آنے والے مسافر کے بغیر ہماری آگ کبھی نہیں بُجھتی اور نہ کسی مہمان نے کبھی ہماری مذمّت کی ہے لہذا اے پڑاؤ کرنے والوں (ہمارا مہمان خانہ )پڑاؤ کرنے کا مقام ہے۔

یعنی ہماری جلائی جانے والی آگ ہمیشہ روشن رہتی ہے یہاں تک کہ کوئی مسافر آ جائے اور جب وہ آجاتا ہے تو ہم اس کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

کتے باندھنا

اہل عرب مہمان نوازی میں اتنے فیاض تھے کہ انہوں نے اس خصال حمیدہ کو جاری رکھنے کے لیے مختلف موسموں کے حساب سے مختلف انتظامات کیے ہوئے تھے۔مناسب موسم میں تو وہ آگ روشن کرکےمسافروں کو پیغامِ ضیافت دیا کرتے تھے لیکن جب سردی نہایت زور پکڑتی، ہوا تھمنے لگتی اور آگ نہ سلگتی تو اہل عرب نے اس موسم کے لیے کتے پالے ہوئے تھے ۔ اپنے ریوڑوں کی حفاظت کے علاوہ ان کتوں کے پالنے کا یہ مقصد بھی تھا کہ وہ رات کو سناٹے میں بھونکیں گے تو ان کی آواز دور دور تک پہنچے گی اور رات کے صحرا نورد مسافر ان کے خیموں تک بآسانی پہنچ جائیں گے۔10وہ اس موسم میں اپنے کتوں کو جا بجا قبیلہ کے اطراف خیموں کی میخوں اور ستونوں سے باندھ دیا کرتے تھے تاکہ ان کے بھونکنے سے راستہ کے بھولے بھٹکے لوگ آبادی کا راستہ پالیں اور ان کے بھونکنے پر مہمان بنےچلے آئیں۔11

ایک شاعر علی بن جہم نے اپنا کتا کسی کو ہدیہ کیاتو اس نے تحفہ لینے والے کو وصیت کرتے ہوئے 12تحفہ سمیت درج ذیل اشعار لکھ کے بھیجے:

  أوصيك خيرا به فإنّ له
سجيّة لا أزال أحمدها
يدلّ ضيفى علىّ فى غسق الليل
إذا النار نام موقدها. 13
  اے شخص! میں تجھے اس کتے کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ تم اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا کیونکہ اس میں ایسی خوبیاں ہیں جن کو میں بہت پسند کرتا ہوں۔ یہ رات کی تاریکی میں میرے مہمان کو اس وقت میرے پاس لے آتا ہے جب آگ جلانے والا سوجایا کرتا ہے۔

ایسی ہی وصیت اپنے کتے کی بابت حاتم طائی سے بھی منقول ہے کیونکہ ایک روز حاتم اپنے بیٹے کی پٹائی کر رہا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے بیٹے نے اس کتے کو مارا تھا جو حاتم نے دعوتِ ضیافت کے لیے باندھا ہوا تھا توحاتم طائی نے وصیت کرتے ہوئے درج بالا اشعار کہے تھے۔ 14

کتے کے ناموں کی وجہ کثرت

جار اللہ زمخشری نےاہل عرب کی میزبانی کی صفات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب میں کتےکو کئی ناموں سے محض اس لیے پکاراجاتاتھاکہ وہ مہمان نوازی کا سبب تھےچنانچہ وہ لکھتے ہیں:

  وكانت العرب تسمي الكلب داعي الضمير، وهادي الضمير، وداعي الكرم، ومتمم النعم، ومشيد الذكر، لما يجلب من الأضياف بنباحه والضمير الضيف الغريب، من أضمرته البلاد إذا غيبته وكانوا إذا اشتدّ البرد وهبت الرياح ولم تثبت النيران فرقوا الكلاب حوالي الحي، وجعلوا لها مظال وربطوها إلى العمد لستوحش فتنبح فتھدي الضلّال.15
  اہل عرب کتے کو"داعی الضمیر" ،"ہادی الضمیر"، "داعی الکرم" ،"متمم النعم"اور"مشید الذکر"کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بھونکنے سے مہمانوں کو بلانے کا سبب بنتا ہے۔اگر ٹھنڈ بڑھ جاتی یا ہوا تیز چلتی اورآگ سردپڑجاتی تو وہ اپنے کتوں کو علاقےکےاردگردچھوڑدیتے،ان کےلیے چھاؤں دارجگہ بناتے اورانہیں ستونوں کےساتھ باندھ دیتےکہ وہ متوحش ہوکر بھونکیں جس سے بھٹکےہوئے راہ پاجاتے۔

"داعی الضمیر "اور "ہادی الضمیر" کا مطلب "مسافروں کو بلانے" اور"ان کی رہنمائی کرنے والا"،"داعی الکرم " کا مطلب "مہمانوں کولانے والا" ،" متمم النعم" کا مطلب "نعمتوں کو پورا کرنے والا" اور"مشید الذکر" کا مطلب" ذِکر خیر کو مضبوط کرنے والا" ہے۔یہ تمام نام اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ اہل عرب کے ہاں ان کتوں سے مال ومویشی کی حفاظت کے علاوہ مہمانوں،مسافروں اور حاجتمندوں کو مہمان نوازی کے لیے بلانےکا کام بھی لیاجاتاتھا۔دعوت ضیافت کے یہ مختلف انداز اہل عرب کا خاصہ تھے ،اس طرح وہ اپنے مہمانوں کو اپنی طرف کھینچتے تھے اور پھر دل کھول کر ان کی خاطر مدارات کرتے تھے۔یہ مہمان نوازی کرنے جیسا وصف ان میں موجود سخاوت وفیاضی کے نمایاں ترین اوصاف ہی کا کرشمہ تھا لیکن ان کی سخاوت وفیاضی اس سے بھی بڑھ کر تھی جس کی مثال عمومی طور سےدیگر معاشروں میں ملنا مشکل تھا۔

سخاوت و فیاضی

اہل عرب کی سخاوت وفیاضی کا وصف ایسا نمایاں ترین وصف تھا جو عرب معاشرے میں عمومی طور پر رائج تھا، اس ضمن میں مُرہ ابن محکان التمیمی السعدی اپنی اس صفت ممدوحہ (سخاوت) کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

  یا ربةالبیت قومی غیر صاغرة
سضمی الیک رحال القوم والقربا
ماذا ترین اند نیيم ام لا رحلنا
فی جانب السبت ام نبنی لهم قببا
لمرمل الزاد معنی بحاجته
من كان یکرہ ذمًّا او یقی حسبا
و قلت لما غدو اوصی قعید تنا
غدي بنیک فلن تلقیھم حقبا
ادعی أبا هم ولم أقرب بامهم
و قد عمرت ولم اعرف لهم نسبا.16
  اے گھر والی ذلیل ہوئے بغیر اُٹھ کھڑی ہو اور ان لوگوں کے پالانوں اور اسلحہ کو اکٹھا کرکے رکھ لے۔تمہارا کیا خیال ہے کیا ہم انہیں اپنے گھر کے پہلو میں اپنے ڈیرے کے قریب لے آئیں یا ان کے لیے الگ خیمے دیں؟ (ہم یہ خیمے ان لوگوں کے لیے گاڑیں) جن کا زادِ راہ ختم ہوچکا ہو اور وہ اپنی حاجت لے کر کسی ایسے شخص کے پاس آئے ہوں جو مذمت کو ناپسند کرتا ہو اور اپنی عزت کو بچانا چاہتا ہو۔جب صبح ہوئی تو میں نے اپنی بیوی کو حکم دیا کہ ان اپنے بیٹوں (مہمانوں) کو صبح کا کھانا دو کیونکہ تو کئی سالوں تک انہیں پھر نہ دیکھ سکے گی۔مجھے ان کا باپ کہا جاتا ہے حالانکہ مجھے ان کی والدہ کے ساتھ متہم نہیں کیا گیا اور باوجود اس قدر عمر گزار دینے کے مجھے ان کے نسب تک کا پتانہیں۔

اہل عرب کی سخاوت وفیاضی کے لیےکسی قسم کی دلیل یا ثبوت پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس لیے کہ دوست و دشمن سب اس بات کے گواہ اور قریب و بعید سب اس کے معترف ہوئےکہ جب ان کے یہاں کوئی مہمان آجاتا یا وہ خود کسی مہمان کو اپنی طرف کھینچ لینے میں کامیاب ہوجاتے تو اسے گویا اپنا حاکم بنالیتے اور اس کی خاطر اپنی کسی بھی قیمتی چیز کو جو انہیں میسر آسکتی کوئی وقعت نہ دیتےتھے۔یہ صرف مہمان نوازی کا معاملہ تھا تو ان کی یہ حالت تھی وہ تو اس سے بڑھ کر سخاوت کرگزرتےتھے ۔ ابو عبیدہ عرب کے فیاضوں کے بارےمیں ذکر کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ عرب میں تین بڑے سخی گزرے ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

  أجود العرب ثلاث: كعب بن مامة، وحاتم الطائي، وكلاهما ضُرب به المثل، وهرم بن سنان صاحب زهير.17
  عرب میں سب سےزیادہ سخی تین ہی گزرے ہیں،کعب بن مامہ،حاتم طائی اور زہیر کا دوست ہرم بن سنان۔

اسی وجہ سے اہل عرب کے ہاں کچھ لوگ تاریخی اعتبار سے صفتِ سخاوت کےحامل نمایاں ترین افراد تصور کیے جاتے تھے جن کا تذکرہ نسل در نسل بھی یاد رکھا جاتاتھا اور اپنے بچوں میں ان کے بار بارذکر سےاس نمایاں وصف کو پروان چڑھایا جاتاتھا۔

سخی افراد

عرب میں ایسے ایسے عدیم المثال فیاض گزرے ہیں جن کی فیاضی اور سخاوت کے باعث تاریخ ان کو ہمیشہ یاد کرنے پر مجبور ہے۔ اس طویل فہرست میں سے سب سے پہلے عرب کے تین سب سے بڑے سخی افراد جن کےنام کرم و سخا میں ضرب الامثال کے طور پر لیے جاتے ہیں18 یعنی حاتم طائی،کعب بن مامہ الایادی اورہرم بن سنان کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے۔

حاتم طائی

اس کا نام حاتم بن عبداللہ بن سعد بن حشرج الطائی قحطانی ابو عدی تھا۔19الحور العین میں ان کے نام کی بابت مذکورہے:

  حاتم بن عبد الله بن سعيد الحشرج الطائي، الجواد، أكرم الناس جميعاً، وأسخاهم.20
  حاتم بن عبد اللہ بن سعید الحشرج الطائی سخی، تمام لوگوں میں سب سےزیادہ عطاکرنےوالااورسب سےزیادہ سخاوت والاتھا۔

شرح شواہد المغنی میں اس حوالہ سے یوں مذکور ہے:

  حاتم الطائي هو ابن عبد الله بن سعد بن الحشرج بن امرء القيس بن عديّ الجواد المشهور، شاعر جاهلي يكنى أبا سفانة بابنته، وابنه عديّ بن حاتم الصحابي المشهور.21
  حاتم طائی،وہ عبد اللہ بن سعد بن الحشرج بن امرؤالقیس بن عدی کا بیٹا اور سب سے مشہور سخی تھا۔ دور جاہلی کا شاعر بھی۔ اپنی بیٹی سفانہ کے نام سے اپنی کنیت رکھتا تھا۔ان کے صاحبزادے(عدی بن حاتم) مشہور صحابی ہوئے۔

حاتم کو عربوں کے مشہور شعراء میں شمار کیا جاتا ہے چنانچہ صاحب خزانۃ الادب لکھتے ہیں:

  قال ابن الاعرابی: كان حاتم من شعراء الجاھلیة. 22
  ابن اعرابی نے کہا: حاتم جاہلی شعرا٫ میں سے بھی تھا۔

زیاد الاعجم حاتم کی جوان مردی ،مروت اور سخاوت کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

  إن السماحة والمروة والندى
في قبة ضربت على ابن الحشرج .23
  جوان مردی، مروت اور سخاوت اُس خیمہ میں ہے جو ابن حشرج کے لیے لگایا گیا ہے۔

سخاوت میں حاتم طائی کی مثال دی جاتی اور کہا جاتا کہ"اکرم من حاتم طئی"یعنی فلاں شخص حاتم طائی سے بھی بڑا سخی ہے کیونکہ حاتم بڑا سخی اور خرچ کرنےوالاتھا ۔حاتم طائی زمانہ جاہلیت میں سب سے بڑا فراخ دل، کشادہ دست اور سخی مانا جاتا تھا اور اس کی سخاوت کے ہر طرف چرچے تھے نیز لوگ ہر وقت اس کی مدح میں رطب ا للسان رہتے تھے۔ حاتم کے بیٹے عدی نے بھی زمانہ اسلام میں سخاوت میں بڑا نام پیدا کیا تھا۔ حاتم طائی کی سخاوت اور دریا دلی کے سینکڑوں طویل اور عجیب و غریب قصے مشہور ہیں تاہم ان میں سے ثقہ راویوں کے حوالے سے جو قصے کتبِ تاریخ میں درج کیے گئے ان میں سے چند یہ ہیں کہ اس نے کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا، ایک بار مہمانوں کے لیے اپنی سواری کا واحد گھوڑا تک ذبح کردیا، ایک یتیم لڑکے کو اپنی سو (100)بکریوں کا ریوڑ پورےکا پورا دے دیا، خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلایا پلایا وغیرہ۔24

حاتم کی سخاوت اہلیہ کی زبانی

ماویہ حاتم کی بیوی نے اس کی سخاوت کا ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ شدید قحط پڑا یہاں تک کہ بھوک سے سارے جانور بھی ہلاک ہوگئے۔ ایک رات ہم سخت بھوکے تھے اور بچے بھی بھوک کی شدت کے باعث رو رہےتھے۔ حاتم نے اپنے بیٹے عدی کو بہلانا شروع کیا اور میں نے سفانہ بیٹی کو بہلانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ سوگئے، پھر حاتم نے باتوں سے میری دلجوئی شروع کی تاکہ میں بھی سوجاؤں۔ مجھے اس کی حالت زار پر رحم آیا اور میں نے یوں ظاہر کیا گویا میں سوگئی ہوں۔ اس نے بار بار پوچھا: کیا تم سوگئی ہو؟ میں نے جواب نہ دیا تاکہ اسے میرے سوجانے کا یقین ہوجائے۔ حاتم بھی خاموش ہوگیا پھر اس نے خیمہ کے باہر نظر دوڑائی اور اس نے دیکھا کوئی چیز اس کے قریب آرہی ہے۔ اس نے سر اٹھاکر دیکھا تو وہ ایک عورت تھی جو یہ کہہ رہی تھی: اے سفانہ کے باپ! میں بھوک سے بلکتے ہوئے معصوم بچوں کے پاس سے آئی ہوں۔ حاتم نے کہا : جاؤ ان بچوں کو لے آؤ۔ بخدا! میں ان کو پیٹ بھر کر کھلاؤں گا۔ میں اٹھ بیٹھی، میں نے کہا: حاتم! یہ تم نے کیا کہا ہے؟ ان بچوں کو کیا کھلاؤگے؟ تمہارے اپنے بچے تو بھوک کے مارے روتے روتے سوگئے۔ وہ خاموشی سے اٹھا، اپنے گھوڑے کے پاس گیااور اسے ذبح کرڈالا۔ پھر آگ جلائی، پھر اس پر گھوڑے کے گوشت کو بھونا اور اس عورت سے کہا: اپنے بچوں کو خوب کھلاؤ اور خود بھی کھاؤ اور مجھے کہا: تم بھی اپنے بچوں کو جگاؤ۔ میں نے انہیں جگایا۔ اس نے کہا : بخدا! یہ خسا ست اور کمینگی کی انتہا ہے کہ تم لوگ کھاؤ اور میرے قبیلہ والے بھوکے رہیں چنانچہ وہ اپنے قبیلہ کے ہر گھر میں گیا اور ان کو دعوت دی کہ جہاں آگ جل رہی ہے وہاں آئیں اور ضیافت میں شامل ہوں۔ سب جمع ہوگئے، سب نے پیٹ بھر کر کھایا۔ حاتم اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ تمام لوگوں نے خوب سیر ہوکر کھایا لیکن حاتم نے ایک لقمہ بھی اپنے منہ میں نہ ڈالا۔ 25

حاتم طائی کا عجیب واقعہ

ایک مرتبہ قبیلہ طئی پر دشمنوں نے حملہ کردیا تو قبیلہ طئی نے ان کو شکست دےدی۔اس موقع پر حاتم طائی کے ساتھ ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا جس سے اس کی سخاوت میں برتری کا اندازہ ہوتا ہے چنانچہ اس واقعہ کو المستطرف میں یوں نقل کیا گیا ہے:

  وأغار قوم على طي فركب حاتم فرسه وأخذ رمحه ونادى في جيشه وأهل عشيرته، ولقي القوم، فهزمهم وتبعهم، فقال له كبيرهم: يا حاتم هب لي رمحك، فرمى به إليه، فقيل لحاتم: عرضت نفسك للهلاك، ولو عطف عليك لقتلك فقال: قد علمت ذلك، ولكن ما جواب من يقول هب لي؟ولما مات عظم على طي موته، فادعى أخوه أنه يخلفه، فقالت له أمه: هيھات شتان والله ما بين خلقتيكما، وضعته، فبقي والله سبعة أيام لا يرضع حتى ألقمت إحدى ثديي طفلا من الجيران، وكنت أنت ترضع ثديا ويدك على الآخر، فأنّى لك ذلك قال الشاعر:
يعيش الندى ما عاش حاتم طيّ
وإن مات قامت للسخاء مآتم. 26
  ایک مرتبہ قبیلہ طئی پر دشمن نے حملہ کر دیا،اپنی قوم کے ساتھ حاتم طائی نے بھی ان پر ہلہ بول دیا اور اپنا نیزہ لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑا، ایسا حملہ کیا کہ دشمن کو پسپا کر دیا اوردشمن بھاگ کھڑا ہوا۔ حاتم نے ان کا پیچھا کیا اور کچھ دور جاکر پکڑ لیا ، مخالف سردار کو حاتم کی سخاوت کا معلوم تھا تواس نے کمال ہوشیاری سے بر وقت اور بر جستہ کہا :اے حاتم میں تیرا نیزہ ہدیہ میں لینا چاہتا ہوں، یہ سننا تھا کہ حاتم نے اپنا نیزہ اس کے حوالہ کر دیا اور خود نہتا ہو گیا۔ وہ (دشمن)لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔اس پر حاتم کو قبیلہ والوں نے کہا تو نے تو اپنی جان گنوا ہی دی تھی اگر تجھ پر مہربانی نہ ہو تی تو تو مار دیا گیا ہوتا۔ حاتم نے جواب دیا: یہ میں بھی جانتا ہوں لیکن اگر کوئی مجھ سے کچھ طلب کرے تو اس کو ہدیہ کرنے کے علاوہ مجھے کچھ جواب نہیں آتا، کیا کروں؟۔جب اس کاانتقال ہوا تو اس کے بھائی نے اس کاخلیفہ ہونے کا دعوی کردیا تواس پر اس کی والدہ نے کہا: تم دونوں میں کتنا فرق اورفاصلہ ہے ۔خداکی قسم!جب وہ پیداہواتواس نے سات روزتک دودھ نہیں پیا یہاں تک کہ میں نےپڑوسی کے بچےکےمنہ میں ایک طرف کی چھاتی دی جبکہ تم دودھ پیتے وقت دوسرا ہاتھ دوسری جانب کی چھاتی پررکھتے تھے۔تجھے اس کی جانشینی کیسے مل سکتی ہے؟اس پر ایک شاعر نے کہا:
کہ فیاضی حاتم طئی کے زندہ رہنے تک باقی رہی جبکہ اس کی موت کے بعد سخاوت(کے خاتمہ) پرماتم ہوگئے۔

شاعر کا مطلب یہ ہے کہ حاتم طائی کے مرنے سے حاجتمندوں کو تو نقصان اٹھانا ہی پڑا لیکن خود سخاوت کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ حاتم طائی کی وفات کےبارےمیں خیر الدین زرکلی نے الاعلام میں ذکر کیاہے:

  وأرخوا وفاته في السنة الثامنة بعد مولد النبي صلى الله عليه وسلم.27
  مؤرخین نے تاریخوں میں لکھاہےکہ اس کی وفات ولادت نبوی ﷺکے آٹھویں سال ہوئی۔

یعنی جب رسول مکرم ﷺ کی عمر مبارک آٹھ (8)سال ہوئی تو اسی سال حاتم طائی بھی فوت ہوگیا۔

حاتم کی قبر میں بھی سخاوت

حاتم طائی کی وفات کے بعدبھی سخاوت کا ایک واقعہ ابن عبد ربہ نے ذکرکیا ہے کہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک گروہ حاتم کی قبر کے پاس سے گزرا۔ اس کے نزدیک انہوں نے رات بسر کرنے کے لیے پڑاؤ کیا تو درج ذیل واقعہ پیش آیا جس کو نقل کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

  أن رجلا يعرف بابي الخيبريّ مر بقبر حاتم فنزل به وجعل ينادي: ابا عدي: أقر أضيافك قال: فيقال له: مهلا ما تكلم من رمّة بالية؟ فقال: إن طيئا يزعمون أنه لم ينزل به أحد إلا قراه، كالمستھزيء فلما كان في السحر وثب أبو الخيبرى يصيح: واراحلتاه: فقال له أصحابه: ما شأنك؟ قال: خرج والله حاتم بالسيف حتى عقر ناقتي وأنا أنظر إليھا فتأملوا راحلته فإذا هي لا تنبعث فقالوا: قد والله أقراك فنحروها وظلوا يأكلون من لحمها، ثم أردفوه وانطلقوا، فبينما هم في مسيرهم إذ طلع عليھم عديّ ابن حاتم ومعه جمل قد قرنه ببعيره، فقال إن حاتما جاء في النوم فذكر لي قولك وأنه أقراك وأصحابك راحلتك، وقال أبياتا ردّدها عليّ حتى حفظتھا، وهي:
أبا الخيبريّ وأنت امرؤ
حسود العشيرة شتّامها
فماذا أردت إلى رمّة
بداوية صخب هامها
أتبغي أذاها وإعسارها
وحولك غوث وأنعامها
وإنّا لنطعم أضيافنا
من الكوم بالسيف نعتامها
وأمرني بدفع راحلة عوض
راحلتك، فخذها فأخذها.28
  ایک آدمی جس کا نام ابوالخیبری تھا، اٹھا اور اس نے آکر حاتم کی قبر پر کہا: ہم تیرے مہمان ہیں، ہماری مہمان نوازی کرو۔ کسی نے اس کو کہا: رکو! کیاسڑی ہوئی ہڈیوں سے بات کی جاتی ہے؟ اس نےتمسخر بھرےاندازسے کہا: بنی طے کہتے ہیں کہ اب بھی اگر کوئی شخص حاتم کی قبر کے پاس جائے اور رات وہاں بسر کرے تو وہ ان کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ جب رات ہوگئی اورسب سوگئے تو آدھی رات کے وقت ابوالخیبری گھبرایا ہوا اٹھا۔ وہ کہہ رہا تھا: واراحلتاہ! واراحلتاہ! ہائے میری سواری! ہائے میری سواری! لوگوں نے کہا: تجھے کیا ہوگیا؟ اس نے بتایا: میں نے حاتم کو خواب میں دیکھا۔ اس نے اپنی تلوار سے میری اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالی ہیں۔ میں سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ ہم اٹھے اور اس شخص کی اونٹنی کے پاس گئے،اس کا ایک پاؤں کٹا ہوا تھا چنانچہ ہم نے اس کو ذبح کیا۔ اس کا گوشت خوب پیٹ بھر کر کھایا۔ لوگوں نے کہا: حاتم نے ہماری ضیافت کی ہے اور اس آدمی کوجس کی اونٹنی ذبح کی گئی تھی، اسے پیچھے سوار کرلیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں انہیں ایک شترسوار ملا۔ اس کے ہاتھ میں ایک دوسرے اونٹ کی نکیل تھی، اس نے پوچھا: تم میں ابوالخیبری کون ہے؟ اس آدمی نے کہا: میں ہوں۔ اس نے کہا: یہ اونٹ پکڑلو، میں حاتم کا بیٹا عدی ہوں۔ وہ مجھے خواب میں ملا اور اس نے کہا: اس نے (تمہاری اونٹنی ذبح کرکے) تمہاری اور تمہارے ہمسفر ساتھیوں کی ضیافت کی ہے ۔ حاتم نے چند شعر کہے جو مجھے یاد ہیں اور وہ یہ ہیں:
ابوالخیبری! تم ایسے آدمی ہو جس نے قبیلہ پر ظلم کیا اور اسے برا بھلا کہا ۔تم اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک ایسے گڑھے پر مہمانی طلب کرنے کے لیے آئے ہو جس میں مدفون شخص کی کھوپڑی گل گئی ہے۔کیا تو رات کےوقت میرے لیے مذمت کا ارادہ کرتا ہے جبکہ تیرے اردگرد بنی طے قبیلہ آباد ہے اور اس کے اونٹ بھی موجود ہیں۔ہم اپنے مہمانوں کو سیر کرتے ہیں اور اپنی اونٹنیوں کو دیر کے بعد دوہتے ہیں۔اس نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہیں سوار ی کے بدلے ایک سواری پہنچادوں لہذا اس کو لےلو چنانچہ اس نے سواری کو لےلیا۔

مذکورہ تفصیل سے واضح ہوا کہ اہل عرب میں سب سے مشہور سخی افراد میں سے ایک حاتم طائی تھا۔اس کی یہ سخاوت ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے جو نسل در نسل یاد رکھی جاتی ہے ۔ اس کی بابت نبی کریمﷺسے ایک حدیث مبارکہ بھی منقول ہے کہ حاتم طائی کے بیٹے عدی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہﷺ! میرا باپ بڑا سخی اور بڑا بامروت تھا کیا اس کا اجر قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی سے اس کو ملے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ نے ایک مقصد کے لیے سخاوتیں کی تھیں، مقصد یہ تھا کہ دنیا میں اس کی سخاوت کا چرچا ہو، اس نے یہ مقصد دنیا میں پالیا چنانچہ قیامت تک اس کا ذکر رہے گا اور سخاوت کے باعث لوگ اس کی توصیف کرتے رہیں گے۔29 اسی لیےحاتم طائی نے سخاوت ودریادلی میں عربوں کے ہاں تو نام کما یا ہی ساتھ ہی ساتھ اہل عرب کی تاریخ جاننے والی اقوا م میں بھی نام کمایا۔

کعب بن مامہ

کعب بن مامہ بھی عرب کے مشہور اور نامور فیاضوں میں شمار ہونے والا سخی گزرا ہے ۔اس نے سخاوت میں اپنی جان نچھاور کردی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ اس کےدوست کو پیاس لگی،اس کے پاس جو پانی تھا وہ اسی کے لیے رکھ چھوڑا اور خود پیاسا ہی مرگیا۔ قصص العرب میں اس کا قصہ کچھ یوں مذکور ہے:

  خرج كعب بن مامة الإيادي في قفل معهم رجل من بني النمر بن قاسط، وكان ذلك في حر الصيف، فضلوا وشح ماؤهم، فكانوا يتصافنون الماء، وذلك أن يطرح في القعب حصاة، ثم يصب فيه من الماء بقدر ما يغمر الحصاة، فشرب كل واحد منھم قدر ما يشرب الآخر ولما نزلوا للشرب ودار القعب بينھم حتى انتھى إلى كعب رأى الرجل النمري يحد النظر إليه، فآثره بمائه على نفسه، وقال للساقي: اسق أخاك النمري، فشرب النمري نصيب كعب من الماء ذلك اليوم! ثم نزلوا من الغد منزلهم الآخر فتصافنوا بقية مائھم فنظر إليه كنظره أمس وقال كعب كقوله أمس، وارتحل القوم وقالوا: يا كعب! ارتحل، فلم يكن له قوة للنہض، وكانوا قد قربوا من الماء، فقالوا: رد يا كعب! إنك وارد، فعجز عن الجواب ولما أيسوا منه خيموا عليه بثوب يمنعه من السبع أن يأكله وتركوه مكانه فمات ونجا رفيقه. 30
  ایک مرتبہ شدیدی گرمی کے موسم میں کعب بن مامہ ایادی ایک قافلہ میں سفر پرنکلا،قافلے کے ساتھ بنی نمر بن قاسط کا ایک شخص بھی تھا۔وہ راستہ بھٹک گئے اور پانی کا ذخیرہ ضائع ہوگیا۔ اب پانی احتیاط سے خرچ کرنا پڑا ، طریقہ یہ طے ہوا کہ پیالہ میں پتھر ڈالا جائے گا اور جب وہ پانی میں ڈوب جائے گا تو اسی قدر پانی پینے کو ملے گا تاکہ ہر ایک اتنا ہی پیے جتنا دوسرا پی سکے۔اب جب پانی پینے لگے تو پیالہ گھوم پھر کر جب کعب کے پاس پہنچا تو اس کے نمری ساتھی نے للچائی نظروں سے دیکھا ۔ کعب نے پانی پینے کے لیے اپنے آپ پر اسے ترجیح دی اور ساقی سے کہا: اپنے نمری بھائی کو پانی دو۔ پس نمری نے کعب کےاس دن کے پانی کے حصہ سےبھی پیا۔ اگلے دن پھردوسری منزل پر پڑاؤ کے لیے رکے تولوگوں نے بقیہ پانی میں جلدی کی تو اس دفعہ بھی اس نمری شخص نے کل کی طرح ہی کعب کو دیکھا اور کعب نے کل والا قول ہی ساقی سے کہا۔قوم پھر چل پڑی اور لوگوں نے کعب سےکہا کہ چلو تواب کعب میں پیاس کی شدت کی باعث نقاہت اس قدر بڑھ گئی کہ اٹھنے اور مزید سفر کرنےکے قابل نہ رہا۔ لوگوں نے اسے کہا کہ کعب! چلو قافلہ روانہ ہوگیا ہے مگر اس میں جواب دینے کی ہمت بھی نہ رہی جبکہ وہ پانی والی جگہ سے قریب تھے۔ اہل قافلہ نے بعد از کوشش بسیار مایوس ہوکراسے ایک خیمہ لگاکر (تاکہ درندوں سے محفوظ رہے) اس میں چھوڑ دیا اور خود روانہ ہوگئے۔اس طرح اس کا نمری دوست بچ گیااور کعب وہیں پر جاں بلب ہوکر فوت ہوا۔

اور یوں یہ سخاوت میں امر ہوگیا۔ اسی حوالہ سےالعقد الفریدمیں مذکور ہے:

  وأما كعب بن مامة الإياديّ فلم يأت عنه إلا ما ذكر من إيثاره رفيقه النّمريّ بالماء حتى مات عطشا ونجا النّمريّ، وهذا أكثر من كل ما أثنى لغيره وله يقول حبيب:
يجود بالنّفس إن ضنّ البخيل بھا
والجود بالنّفس أقصى غاية الجود
وله ولحاتم الطائي يقول:
كعب وحاتم اللذان تقسّما
خطط العلا من طارف وتليد
هذا الذي خلف السحاب ومات ذا
في الجدّ ميتة خضرم صنديد. 31
  اور کعب بن مامہ الایادی کے بارےمیں سوائے اس کے ایثار کے واقعہ کے کچھ زیادہ نہیں ملتاجواس نے اپنے نمری دوست کےلیے پانی کی قربانی دےکرکیایہاں تک کہ وہ خودپیا سامرگیا اور نمری بچ گیا۔یہ مدح دیگر اسخیاء کی تعریفوں میں جوبھی کہاگیاان سب سے بڑھ کرہے۔اس کے لیےحبیب نے کہا:
اگر کوئی کعب بن مامہ کو بخیل سمجھتا ہے تو وہ سخت نادان ہے کہ وہ تو جان دے کر سخاوت میں امرہو گیا، اور یہ بات دھیان میں رہے کہ جان دے کر سخاوت کر جانا سخاوت کی انتہا٫ ہے ۔ اسی کعب اور حاتم طائی کی بابت شاعر کہتا ہے۔کعب اور حاتم نے اپنے کسی اور موروثی مال سے اعلیٰ مراتب کو تقسیم کرلیا، حاتم نے تو ابر کو سخاوت کی وجہ سے پیچھے ڈال دیا اور دوسرا اپنی بزرگی و ایثار اور شجاعت میں مرگیا۔

تیسرے مصرعہ میں"خلف السحاب"کے جو الفاظ ہیں اس سے حاتم مراد ہے کیونکہ وہ ایسا سخی تھا جیسے ابر اپنی بارش سے سخاوت کرتا ہے۔ اور مصرعہ ثالث اور رابع کے الفاظ"مات فی المجد میتة الخضرم الصندید"سے مراد کعب بن مامہ ہے۔ اس لیے کہ اس شخص نے ایسی سخاوت کی جس کی بدولت وہ مرگیا کیونکہ اس نے اپنے حصے کا پانی دو دن تک ایک نمری شخص کو پلایا، یہ شخص اس کا ہم سفر تھا اور چونکہ موسم گرمی کا تھا نیز پانی محدود مقدار میں تھا اس لیے پانی کو تقسیم کرکے پیتے تھے ۔ یہ نمری آدمی اس کو نہیں پہچانتا تھا بلکہ جب پیاس کی شدت ہوتی تھی تو وہ کعب کے اشارہ سے بتا تا تھا کہ مجھ پر تشنگی کاغلبہ ہے۔ یہ دیکھ کر کعب بن مامہ اپنے حصے کا پانی بھی اس کوپلادیتا تھا ۔ کعب نے نمری شخص کو اپنی ذات پر ترجیح دی تھی اس لیے اس کی مثال دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے’’ اجود کعب ابن مامۃ ‘‘یعنی کعب ابن مامۃ سے زیادہ سخی۔

ہرم بن سنان

ہرم بن سنان ابو حارثہ المبری کا بیٹا تھا جس کی سخاوت کی مثال بھی زبان زدعام ہوئی۔ کہا جاتا ہے "اجودمن ہرم" یعنی ہرم سے زیادہ سخی۔ اس کی نسبت زہیر بن ابی سلمی شاعر کہتا ہے:

  إن البخيل ملوم حيث كان
ولكن الجواد على علاته هرم
هو الجواد الذي يعطيك نائله
عفوا ويظلم أحيانا فيظلم.32
  بخیل پر ہر حالت میں ملامت ہوتی ہے لیکن سخی اگر کوئی مشہور ہے تو وہ ہر م ہے جو ایسا سخی ہے کہ وہ تجھ کو اپنے عطیات عفو سے بخشش کرتا ہے اور کبھی اس سے ایسی چیز بھی مانگی جاتی ہے جو اس کی طاقت اور استطاعت سے زیادہ ہوتی ہے تو وہ اس تکلیف کو برداشت کرتا ہے۔

ڈاکٹر جواد علی اس کاتعارف بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  "وهرم بن سنان المُريّ"، من أجواد الجاهلية أيضا وهو سيد غطفان وكان والده سيّد غطفان كذلك وقد مدحه الشاعر زهير بن أبي سلمى في أبيات لا يزال الناس يحفظونھا ويذكرونھا عن هرم وقد كان هرم أعطاه مالًا كثيرًا من خيل وإبل وثياب وغير ذلك مما أغناه، وفيه ورد المثل: "أجود من هرم"وقد أدركت بنت له أيام عمر فسألها عن أبيھا وعن صلته بزهير.33
  ہرم بن سنان مری بھی زمانہ جاہلیت کے نامور سخی لوگوں میں سے ایک گز را ہے۔یہ اور اس کا والد قبیلہ غطفان کے سردار تھے۔اس نے اپنے وقت کے مشہور شاعر زہیر بن ابی سلمی کو مالِ کثیر (گھوڑے،اونٹ اور کپڑے وغیرہ)سے نوازا تھاجس پر اس نے اس کی شان میں ایسا عمدہ قصیدہ مدحیہ کہا جو زبان زد عام ہو گیا اور ہرم بن سنان کی سخاوت کو امر کرگیا۔اسی بابت یہ ضرب المثل بنی کہ"أجود من هرم"یعنی ہرم سے زیادہ سخی۔ہرم بن سنان کی بیٹی نے حضرت عمر کا زمانہ پایا توایک مرتبہ حضرت عمر نے اس سے اس کےوالداورزہیر سےاس کے تعلق کی بابت استفساربھی فرمایا تھا۔

حضرت عمر بن خطاب زہیربن ابی سلمی کےہرم بن سنان کی شان میں کہے اشعاردہرایاکرتےتھے جس کا ایک مصرعہ یہ ہے:

  لَو كنتَ من شيء سوى بشر
كنتَ المضيَّ لليلةِ الْبَدْر34
  اگر تم انسان كے علاوه كچھ ہوتے تو چودہويں كا چاند ہوتے۔

جس چاند سے تمام عالم يكساں منور رہتا ہے۔حضرت عمر بن الخطاب نے ہرم کی کسی اولادسےفرمایا کہ زہیر نے تم لوگوں کے بارےمیں جوقصیدےکہے ہیں ان میں سے کچھ سناؤ، تو اس نے سنایا، آپ نے فرمایا:بےشک وہ تمہارےبارےمیں شعر کہتاتھااورخوب اچھاکہتاتھا۔ اس پراس نے کہا: اےامیر المؤمنین!ہم اسے کثرت سےعطا بھی توکرتےتھے۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا کہ تم نے زہیر کو جو دیا وہ تو فنا ہو گیا لیکن زہیر نے تم کو جودیا وہ باقی رہ گیا۔35

مذکورہ بالاتین افراد اہل عرب کے انتہائی مشہور ومعروف سخی گزرے جن کی سخاوت عرب معاشرہ میں پلنے والے بچوں تک کو یادرہی اور چونکہ سخاوت وفیاضی عرب معاشرہ کاجزوِلاینفک تھی اسی لیے ان کی سخاوت زبان زد عام ہونے کے ساتھ ساتھ ضرب المثل بھی بن گئی ۔ ابو المعالی نے ذکرکیاکہ اہل عرب میں وہ لوگ جن پر سخاوت ختم ہوئی اور جن کی سخاوت میں مثال دی جاتی ہے حاتم طائی ،کعب بن مامّہ الایادی ، ہرم بن سنان اور خالد بن عبداللہ ہیں لیکن ان میں زیادہ مشہور کعب اور حاتم ہوئے۔36

ان تین افراد کے علاوہ بھی عرب معاشرہ میں بعض ایسے افراد موجود تھے جو سخاوت میں اپنا ایک نام رکھتےتھے گو کہ ان کا تذکرہ زبان زدعام نہیں ہوا لیکن ان کے نام کتب تاریخ میں منقول ہیں۔ اہل عرب میں یوں تو یہ صفت عمومی طور پر معاشرہ کے ہر فردمیں پائی جاتی تھی لیکن ذیل میں چند ایسے اشخاص کاتذکرہ کیاجارہا ہےجو عربی النسل تھے اور اس صفت میں ممتاز ترین عرب جانے جاتے تھے ۔

خالد بن عبداللہ

خالد بن عبداللہ جو بڑا سخی تھا اس سے حکایت کی جاتی ہے کہ اس کے پاس کوئی شاعر ایسی حالت میں آیا کہ اس کا پاؤں رکاب میں تھا اور وہ سوار ہو کر لڑائی پر جانے کے لیے تیار تھا تواس شاعر نے درج ذیل شعر پڑھا:

  یا واحد العرب الذى مافی الانام له نظیر
لو كان مثلک آخر ماكان فی الدنیا فقیر.37
  اےعربوں کے یکتا ئے زمانہ و روزگار تمام مخلوق میں جس کی کوئی نظیر ہی نہیں۔ اگر تجھ جیسا کوئی دوسرا بھی ہوتا تو دنیا میں کوئی فقیر نہ ہوتا۔

یہ سن کر خالد نے اس کو بیس ہزار دینار دیے اور وہ لے کر چلا گیا،اس بابت یہ بھی سخاوت میں مشہور ہو گیا۔ اس کا نام آج بھی کرم و سخا میں ضرب الامثال کے طور پر لیا جاتا ہے۔38

سالم بن قحفان

سالم بن قحفان کے پاس اس کی بیوی کا بھائی آیا تو اس نے اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ اسے دیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ جا کررسی لے آؤ تا کہ وہ اس اونٹ کو اپنے اونٹوں کی قطاروں کے ساتھ باندھ دے۔ پھر اس نے دوسرا اونٹ دیا اور بیوی سے رسی طلب کی، پھر اس نے تیسرا اونٹ دیا اور اپنی بیوی سے رسی طلب کی، یہاں تک کہ بیوی نے کہا میرے پاس تو کوئی رسی نہیں ہے توسالم نے کہا:

  علي الجمال وعليك الحبال فرمت إليه بخمارها وقالت اجعله حبلا لبعضها فأنشأ يقول:
لا تعذليني في العطاء ويسري
لكل بعير جاء طالبه حبلا
فإني لا تبكي على إفالها
إذا شبعت من روض أوطانھا بقلا
فلم أر مثل الإبل مالا لمقتن
ولا مثل أيام العطاء لها سبلا.39
  اونٹ دیتے جانا میرا کام ہے اور اونٹوں کی رسیاں مہیا کرنا تیرا کام ہے ۔اس کی بیوی نے اوڑ ھنی اتار کر اس کی طرف پھینکی اور کہا اس کو پھاڑ پھاڑ کر رسیاں بناتے جاؤ تو اس موقعہ پر سالم نے فی البدیہہ یہ اشعار کہے:
تو مجھے بخشش اور عطا میں ملامت نہ کر اور اونٹ کا طلب کرنے والا جب بھی کوئی آئے تو اس کے لیے رسی مہیا کر کیونکہ اونٹوں کے بچے جب تک ان کو گھاس ملتا رہے میری موت پر نہیں روئیں گے ، میں اونٹوں کی مانند کوئی دوسر امال نہیں دیکھتا جس کو بچا کر اپنے پاس رکھا جائے اور جب حق ادا کرنے کا وقت آئے تو ان سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

اس کی بیوی بھی سخاوت اور فصاحت میں اپنے خاوند سے کم نہ تھی،یہ شعر سن کر اس نےبھی فی البد یہ درج ذیل اشعار کہے:

  حلفت يميناً يا ابن قحفان بالذي
تكفل بالأرزاق في السهل والجبل
تزال حبال مبرمات أعدها
لها ما مشي يوماً على خفه جملفأعط ولا تبخل إذا جاء سائل
فعندي لها عقل وقد زاحت العلل. 40
  اے قحفان کے فرزند میں اس ذات کی قسم کھاتی ہوں جس نے میدانوں اور پہاڑوں میں ہر چیز کی رزق رسانی کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ جب تک اونٹ اپنے پاؤں پر چلتے رہیں گے میں رسیاں بٹ کر تیار کرتی رہوں گی۔ تم دیتے چلےجاؤ ،جو مانگنے کےلیے آئے اس کے سامنے بخل کا مظاہرہ نہ کرو کہ میرے پاس ان اونٹوں کے لیے رسیاں موجود پاؤ گے اور ساری علتیں دور ہوجائیں گی۔

یعنی اب جو بھی مانگنے آئے انہیں خالی ہاتھ واپس مت لوٹاؤ، رسی کے حوالہ سے کسی پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اب سارے بہانے ختم ہوگئے۔

ابن عنقاء فزاری

اسید ابن عنقا ٫ فزاری بھی ایک مثالی سخی شخص تھا ،نشوۃ الطرب میں اس کی بابت سعید اندلسی تحریر کرتے ہیں:

  كان من أكثر أهل زمانه مالا وأشدهم عارضة ولساناًوطال عمره ونكبه دهره فخرج عشية يتقبل لأهله، فمر به عميلة الفزاري، فقال: يا عم، ما الذي أصارك إلى ما أرى؟ فقال: بخل مثلك بماله، وصون وجهي عن المسألة فقال: والله لئن بقيت إلى غد لأغيرن حالك فرجع إلى أهله وأخبرها، فقالت: غرك كلام غلام جنح ليل فكأنما ألقمته حجراً فبات متململا بين رجاء ويأس فلما كان السحر سمع رغاء الإبل، وثغاء الشاء، وصهيل الخيل، ولجب الأموال، فقال: ما هذا؟ قيل: عميلة ساق جميع ما عنده فاستخرجه، ثم قسم ماله شطرين، وساهمه عليه فقال فيه أسيد:
رآني على ما بي عميلة فاشتكى
إلى ماله حالي أسر كما جهر
دعاني فآساني ولو ضن لم ألم
على حين لا بدو يرجى ولا حضر
فقلت له خيراً وأثنيت فعله
وأولاك ما أثنيت من ذم أو شكر
ولما رأى المجد استعيرت ثيابه
تردى رداء سابغ الذيل وأئتزر
غلام رماه الله بالحسن يافعاً
له سمياء لا تشق على البصر
كأن الثريا علقت فوق نحره
وفي أنفه الشعرى وفي خده القمر
إذا قيلت العوراء أغضى كأنه
ذليل بلا ذل ولو شاء لانتصر؟ .41
  ابن عنقاء الفزاری اپنے زمانےکافصیح ترین اور امیرترین آدمی تھا،جب وہ عمر رسیدہ ہوا تو زمانےکی شدتوں کا شکارہوکرایک مرتبہ رات کے وقت اپنے اہل خانہ کے لیے کھانےکا انتظام کرنے نکلا، ( وہ اپنی بھیڑ بکریوں کے لیے سوکھی گھاس کاٹ رہا تھا۔ بعض کہتے ہیں سبزیاں کھود کر کھا رہا تھا) اس کےپاس سے عمیلہ فزاری کا گزرہوا، عمیلہ نے کہا :اے چچا تمہاری یہ حالت کیسے ہوگئی؟ ابن عنقاء نے جواب دیا: تمہارے جیسے مال داروں کے اپنے مال کے ضمن میں بخل کرنے اورمیری خودداری نے میری یہ حالت کردی ہے ۔(یہ سن کر) عمیلہ نے کہا ،:خدا کی قسم!اگر میں کل تک زندہ رہا تو تمہاری حالت بدل ڈالوں گا۔ ابن عنقاءاپنے گھرلوٹ آیا اوراہلیہ کو اس کی خبردی۔ ابن عنقاء کا خیال عمیلہ کے الفاظ کی طرف لگا رہا اس وجہ سے وہ رات بھر بستر پر بے قرار رہا اور اسے نیند نہ آئی۔ اس کی بیوی نے (اس کی یہ حالت دیکھ کر) کہا: تو سٹھیا گیا ہے اور تیری عقل جاتی رہی ہے، اسی لیے تو نے ایک کم سن نوجوان کی باتوں سے امید وابستہ کرلی ہے۔ اسےلگاجیسے اس کی بیوی نے اسےپتھردےماراہوپس وہ تلملاکرآس وامیدکےجذبات کےساتھ پڑارہا۔پس جب صبح ہوئی تو اس نے اونٹوں، بھیڑوں،بکریوں،گھوڑوں کی ہنہناہٹ اورمال ومویشی کی آوازیں سنیں تو پوچھایہ کیسی آوازیں ہیں؟ تو اسے بتایاگیاکہ عمیلہ اپنا سارا مال ومتاع جمع کرلایاہے۔ پس اس نے پورےمال کو دوحصوں میں بانٹ کرایک حصہ ابن عنقاءکو دیدیا۔اس کےبارے میں اسید بن عنقاء الفزاری نےکہا:عمیلہ نے میری اس بری حالت کو دیکھا جس میں میں مبتلا تھا تو اس نے اس کا شکوہ اپنے مال کے پاس کیا۔ اس کا باطن ایسا ہی تھا جیسا کہ ظاہر۔اس نے مجھے بلایا اور ایسے وقت میں اپنے مال سے میری غم خواری کی جب نہ کسی دیہاتی سے امید رکھی جاسکتی تھی نہ شہری سے ۔ اگر وہ بخل کرتا تب بھی میں اسے ملامت نہ کرتا۔وہ نوجوان ہے جسےاللہ نے جوانی ہی میں مال و دولت عطا کردیا ہے۔ اس کے چہرے پر ایسا نور و جمال ہے جس کا دیکھنا آنکھ کو ناگوار معلوم نہیں ہوتا۔ 42

اس سے اہل عرب کی سخاوت ودریا دلی کا بہترین ثبوت میسر آتا ہے کہ ایک شخص کو جسے غربت نے امیری سے غریبی کی طرف پھیردیا تھا اس کی تنگدستی کی حالت میں دوسرے شخص نے اپنا آدھا مال ومتاع اسے دیا تاکہ وہ خاندان کے لیے بہترین کفالت کرسکے۔ اگر اس قسم کی مثالوں کو پورے طور پر بیان کیاجائےتویہ باعث طوالت ہو گا لہذا مذکورہ احوال و واقعات پر کفایت کیاگیا ہے کیونکہ تمول و سخاوت کے یہ نمونہ جات ایسے ہیں جن سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ قوم عرب سخاوت اور بذل و احسان کے خمیر سے بنی تھی۔

بنت الکرم اورقمار

اہل عرب انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے 43اوراسی کرم کا نتیجہ تھا کہ یہ لوگ شراب نوشی پر بھی فخر کرتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ یہ بذات خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم و سخاوت کو آسان کر دیتی تھی کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہنے کی وجہ بھی یہی سخاوت تھی۔ جاہلی اشعار کے دواوین پر نظر ڈالیے تو یہ مدح و فخر کا ایک اہم باب نظر آئے گاچنانچہ عنترة بن شداد عبسی اپنے معلقہ میں کہتا ہے:

  ولقد شربت من المدامة بعدما
ركد الهواجر بالمشوف المعلم
بزجاجة صفراء ذات أسرة
فرنت بأزهر بالشمال مفدم
فإذا شربت فإنني مستهلك
مالي، وعرضي وافر لم يكلم
وإذا صحوت فما أقصر عن ندى
وكما علمت شمائلي وتكرمي.44
  میں نے دو پہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام سے دینار کے عیوض شراب خرید کر پی، جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خم کے ساتھ تھی۔ جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں لیکن میری آبرو بھر پور رہتی ہے اوراس پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میر ااخلاق و کرم جیسا ہے، تمہیں معلوم ہی ہے۔

ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا بھی کھیلتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے۔ انہیں جو نفع حاصل ہوتا یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دےدیتے تھے۔ اسی لیے قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا :

  وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا.45
  مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔

اہل عرب فیاض اور مہمان نواز بھی تھے، ہمسایوں اور پناہ گزینوں کی امداد میں اپنی جان تک لڑا دیتے تھے۔ کھڑے کھڑے اونٹوں کو ذبح کرکے کھلادینا، جوئے میں جیتی ہوئی رقم کو دوستوں کی دعوت میں اڑا دینا اور شراب کی محفلوں پر سینکڑوں ہزاروں لٹادینا ان کا قومی شعار تھا۔ ان کی فیاضی کا یہ عالم تھاکہ شراب نوشی اورقماربازی کوبھی باعث سخاء سمجھتے تھے۔ اسلام نے ان کے اس جذبے کی اصلاح کرکے اسے خدا کی راہ میں صدقہ و خیرات میں تبدیل کردیا اور ان کا یہ اصلاح شدہ جذبہ اسلام کے لیے بہت ممد و معاون ثابت ہوا۔

یہ بات تو اپنی جگہ مسلم ہے کہ اہل جاہلیت میں خسیس وردیل عادتیں اور وجدان و شعور اور عقل سلیم کے خلاف بھی باتیں پائی جاتی تھیں لیکن ان میں ایسے پسندیدہ اخلاق فاضلہ بھی تھے جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے مثلا کرم و سخاوت کے احوال و واقعات جو بیان ہوئے یہی وہ قیمتی اخلاق تھے جن کی وجہ سے اہل عرب کو بنی نوع انسان کی قیادت اور رسالت عامہ کی عظیم ذمہ داری اٹھانے کے لیے منتخب کیا گیا کیونکہ یہ اخلاق اگر چہ بعض اوقات شروفساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آجاتے تھے لیکن یہ فی نفسہ بڑے قیمتی اخلاق تھے جو تھوڑی سی اصلاح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے اور یہی کام اسلام نے انجام دیا۔

عرب آج بھی اپنے آباء و اجداد کی مثل سخاوت اور فیاضی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اس سخاوت کا عملی مظاہرہ اگرچہ کہ ان کی عام زندگی میں دن و رات دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کی عملی شکل بڑے پیمانے پر حرمین شریفین میں ایامِ حج میں اور ماہِ رمضان المبارک میں ہر شخص دیکھ سکتاہے جہاں لاکھوں زائرین کے لیے بڑے پیمانے پر ماکولات و مشروبات کا ہمہ وقت بغیر کسی قیمت کے افراد اور اداروں کی طرف سے بھر پور اور شاندار انتظام کیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے عربوں کی اس اچھی عادت کو مزید اس طور پر نکھار دیا کہ ان کی صفتِ سخاوت کو شخصی، خاندانی اور قبائلی نام و نمود اور اس پورے عملِ خیر کو انسانی شکر و سپاس کی طلب و چاہت سے بلند کرکے تمام اعمالِ حسنہ کو اللہ کی رضا کے لیے سرانجام دینے کی انہیں ترغیب دی۔

پوری دنیا میں آج مال و دولت کی کمی نہیں اور نہ ہی مالدار افراد کی تعداد کم ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس قدر آج سرمایہ دار روئے زمین پر موجود ہیں شاید پوری انسانی تاریخ میں اس سے قبل موجود نہیں رہے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جتنے لالچی اور حریص یہ سرمایہ دار ہیں شاید ہی اس سے قبل تاریخ میں اتنی حرص اور ہوس مالداروں کی رہی ہو۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ یہ سرمایہ دار مال و دولت کی فراوانی کے باوجود کوئی بھی کام رضائے الہٰی، اجر و ثواب، حقیقی انسانی فوز و فلاح اور جذبہ خدمتِ خلق کے تحت ہر گز سرانجام نہیں دیتے ۔اس تناظر میں ماضی و حال کے عربوں کی سخاوت و فیاضی مسلمانوں سمیت پوری انسانیت کے لیے خیر و منفعت کا وہ رویہ ہے جس نے دولت مند عربوں کو نیکی و فلاح کے کاموں پر برضاو رغبت اس لیے آمادہ کر رکھا ہے کہ وہ مال و دولت کو اللہ کا فضل اور تمام انسانوں کو اللہ کا کنبہ سمجھ کر اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے بغیرکسی مادی منفعت ولالچ کے خرچ کرنا اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں۔ یہ اسلامی تعلیمات کی اُن کی شخصیت پر اثرات کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے کہ وہ تمام انسانوں کو بلا تفریق ِ رنگ و نسل اور قوم و مذہب انسان ہی سمجھتے ہیں اس لیے ہر انسان کی قدر اور ضروریات کی تکمیل اپنی استطاعت سے بڑھ کرکرنا اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔ عربوں کے اس فیاضانہ رویہ نے اسلام کی دعوت و تبلیغ اور تالیفِ قلوب میں بھی ہمیشہ کلیدی کردار اداکیاہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آج و کل کے عرب اپنے اسلاف کے ا س اعلی وصف کے حامل بنے رہیں گے۔

 


  • 1 رزق اللہ بن یوسف شیخو، مجانی الادب فی حدائق العرب، ج4-، مطبوعۃ: مطبعۃ الباء الیسوعیین، بیروت، لبنان، 1913م،ص : 288
  • 2 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الفكر، بیروت، لبنان، 2001 م،ص:262
  • 3 أبو شهبۃ محمد بن محمد، السيرة النبوية على ضوء القرآن والسنة، ج- 1، مطبوعۃ: دار القلم، دمشق، السوریۃ، 1427 ھ، ص:95
  • 4 پروفیسرسید ظہیر احمد زیدی ،تاریخ تمدّن عرب ،مطبوعہ: فرید بک اسٹال،لاہور، پاکستان،2002ء،ص:51-52
  • 5 أبو على أحمد بن محمدالأصفهاني، شرح ديوان الحماسة، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2003م، ص: 1102
  • 6 ابو علی احمد بن محمد اصفہانی، شرح دیوان الحماسۃ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص : 89 -90
  • 7 رزق اللہ بن یوسف شیخو، مجانی الادب فی حدائق العرب، ج -4، مطبوعۃ: مطبعۃ الا بائ الیسوعیین، بیروت، لبنان، 1913م، ص :288
  • 8 ایضا
  • 9 محمد احمد جاد، قصص العرب، ج -1، مطبوعۃ: مطبعۃ عیسیٰ البابي الحلبی،القاہرۃ، مصر، 1939م، ص : 155
  • 10 أبو عمرأحمد بن محمد ابن عبد ربه الأندلسي،العقد الفريد، ج -7، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1404هـ، ص:313
  • 11 شیخ ابن سعيد الأندلسي، نشوة الطرب في تاريخ جاهلية العرب، ج-1، مطبوعة: مكتبة الأقصى، عمان، الأردن،(لیس التاریخ موجوداً)، ص:83
  • 12 سیدمحمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب(مترجم: ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج -1، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ ، لاہور، پاکستان ،2011ء، ص:70
  • 13 شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب النویری، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج-9، مطبوعۃ:دار الكتب والوثائق القومية، القاهرة، مصر، 1423 ھ، ص: 255
  • 14 أبو عمر أحمد بن محمد ابن عبد ربه الأندلسي، العقد الفريد، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1404هـ، ص:243
  • 15 ابوالقاسم محمود بن عمروالشھیربجار الله الزمخشري، ربيع الأبرار ونصوص الأخيار، ج-5، مطبوعة: مؤسسة الأعلمي، بيروت، لبنان، 1412 هـ، ص:383
  • 16 ابو الحسن علی بن ابی الفرج البصری، الحماسۃ البصریۃ، ج -2، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 235 -236
  • 17 الدکتورجواد علي،المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج -8، مطبوعة: دار الساقي، بیروت، لبنان،2001م، ص: 170
  • 18 أبو المعالي محمد بن الحسن البغدادي،التذكرة الحمدونية، ج-1 ، مطبوعة: دارصادر، بيروت، لبنان،1417 هـ، ص: 290
  • 19 عبد القادر بن عمر البغدادي، خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، ج-3 ، مطبوعۃ:مكتبة الخانجي، القاهرة، مصر، 1997م، ص:128
  • 20 نشوان بن سعيد الحميرى،الحور العين، مطبوعۃ: مكتبة الخانجي، القاهرة، مصر، 1948 م، ص: 115
  • 21 جلال الدین عبد الرحمن بن أبي بكرالسيوطي، شرح شواهد المغني، ج-1 ، مطبوعۃ: لجنة التراث العربي، بیروت، لبنان، 1966 م، ص:208
  • 22 عبد القادر بن عمر البغدادي، خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، ج-3 ، مكتبة الخانجي، القاهرة، مصر، 1997 م، ص: 128
  • 23 أبو يعقوب یوسف بن ابی بکر الخوارزمی، مفتاح العلوم، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1987م، ص : 407
  • 24 ابو الفداءاسماعیل بن عمر ابن كثير الدمشقی، تاریخ ابن کثیر(مترجم: پروفیسر کوکب شادانی)، ج -1 ، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی ، کراچی ،پاکستان،1987ء، ص : 139
  • 25 أبو منصور عبد الملك بن محمد الثعالبي، ثمار القلوب في المضاف والمنسوب، مطبوعۃ: دار المعارف، القاهرة، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)،ص: 98
  • 26 أبو الفتح محمد بن أحمد الأبشيهي، المستطرف في كل فن مستطرف، ج-1 ، مطبوعة: عالم الكتب، بيروت، لبنان، 1419هـ، ص: 180
  • 27 خیر الدین بن محمود الرزکلی، الاعلام، ج -2، مطبوعة: دارالعلم للملائیین، بيروت، لبنان، 2002م، ص : 151
  • 28 أبو عمرأحمد بن محمد بن عبد ربه الأندلسي، العقد الفريد، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1404هـ، ص: 243- 244
  • 29 أبو الحسن علي بن أبي بكر الهيثمي، موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان، ج-1، مطبوعۃ: دار الثقافة العربية، دمشق، السورية، 1992 م، ص: 165
  • 30 محمد احمد جاد، قصص العرب، ج-1، مطبوعة: مطبعۃ عیسیٰ البابی الحلبی، القاهرة، مصر، 1939م، ص : 155
  • 31 أبو عمر أحمد بن محمد بن عبد ربه الأندلسي، العقد الفريد، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1404 هـ، ص:246
  • 32 أبو ہلال الحسن بن عبداللہ العسکری، جمہرۃ الامثال، ج-1، مطبوعة: دارالفکر، بیروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:338- 339
  • 33 الدكتورجواد علي،المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج -8، مطبوعة: دار الساقي، بيروت، لبنان،2001م، ص:170
  • 34 عز الدين عبد العزيز بن محمد المصري،المختصر الكبير في سيرة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، مطبوعة: دار البشير، عمان، اردن، 1993م،ص: 72
  • 35 الدکتورجواد علي، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج -8، مطبوعة: دار الساقي، بیروت، لبنان،2001م، ص:110
  • 36 أبو المعالي محمد بن الحسن البغدادي،التذكرة الحمدونية، ج-1، مطبوعة : دارصادر، بيروت، لبنان، 1417هـ،ص: 289
  • 37 تقي الدين أبو بكر بن علي الحموي، ثمرات الاوراق، ج -2، مطبوعۃ: مکتبۃ الجمہور العربیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص : 247
  • 38 أبو الفتح محمد بن أحمد الأبشيهي، المستطرف في كل فن مستطرف، مطبوعة: عالم الكتب، بيروت، لبنان،1419هـ، ص:178-179
  • 39 أبو على أحمد بن محمد الأصفهاني ، شرح دیوان الحماسة، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت ، لبنان،2003 م، ص: 1107
  • 40 ایضا، ص: 1212
  • 41 شیخ ابن سعيد الأندلسي، نشوة الطرب في تاريخ جاهلية العرب، مطبوعۃ: مكتبة الأقصى، عمان، اردن،(لیس التاریخ موجوداً)، ص: 554
  • 42 سیدمحمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب(مترجم: ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج -1، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص: 86 -102
  • 43 تقی الدین ابوبکر بن علی، ثمرات الاوراق، ج -2، مطبوعۃ: مکتبۃ الجمہور العربیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص : 247
  • 44 أبو بكر محمد ابن القاسم الانباري، المعلقات السبع، مطبوعۃ: مکتبة الكويت الوطنية،کویت، 1424ھ، ص: 64 -65
  • 45 القرآن ، سورۃ البقرۃ219:2