Encyclopedia of Muhammad

عرب میں دہریت

(حوالہ: علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سیّد محمد خالد محمود شامی، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-5، مقالہ:32، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان،2022ء، ص: 1031-1035)

دورِ جاہلیت کے اہلِ عرب میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جو یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ عالم ِرنگ وبو، آسمان، زمین، پانی، ہوا اور ساری کائنات اپنے تمام تر تنوعات کے باوجود از خود پیدا ہوئی اوراس کو کسی ایسی ذات نے پیدا نہیں کیا جو قدیم، علیم، حکیم جیسی صفات سے متصف ہے۔انسانی زندگی بس یہی زندگی ہے جس میں جتنا عیش وعشرت کرلیا جائے، جتنے اعلیٰ وارفع مناصب پر فائز ہواجائے بس یہی کچھ کامیابی ہے۔ مرنے کے بعد نہ کوئی برزخ ہے، نہ عالمِ آخرت اور نہ کہیں انسان کے اعمالِ نیک و بدکا محاسبہ ہوگاچنانچہ دورِ جاہلیت کے یہ بعض عرب اللہ تعالیٰ کی توحید، قیامت اور حشر ونشر کا انکار کرتے تھے یعنی یہ لوگ کائنات کے خالق کے منکر تھے اور قیامت کو بھی نہیں مانتے تھے نیز نبوت کا بھی انکار کرتے تھےجیسا کہ اﷲ تعالیٰ نےاپنےارشاد میں ان کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا:

  وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ 24 1
  اور وہ کہتے ہیں: ہماری دنیوی زندگی کے سوا (اور) کچھ نہیں ہے ہم (بس) یہیں مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانے کے (حالات و واقعات کے) سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا (گویا خدا اور آخرت کا مکمل انکار کرتے ہیں)، اور انہیں اس (حقیقت) کا کچھ بھی علم نہیں ہے، وہ صرف خیال و گمان سے کام لے رہے ہیں۔

آیت مبارکہ کی تفصیل ذکرکرتے ہوئے ابن کثیرلکھتے ہیں:

  الدهرية من الكفار ومن وافقهم من مشركي العرب في إنكار المعاد (وقالوا ما هي إلا حياتنا الدنيا نموت ونحيا) أي: ما ثم إلا هذه الدار، يموت قوم ويعيش آخرون وما ثم معاد ولا قيامة وهذا يقوله مشركو العرب المنكرون للمعاد، ويقوله الفلاسفة الإلهيون منهم، وهم ينكرون البداءة والرجعة، ويقوله الفلاسفة الدهرية الدورية المنكرون للصانع المعتقدون أن في كل ستة وثلاثين ألف سنة يعود كل شيء إلى ما كان عليه وزعموا أن هذا قد تكرر مرات لا تتناهى، فكابروا المعقول وكذبوا المنقول، ولهذا قالوا (وما يهلكنا إلا الدهر).2
  یہاں عرب کےدہریہ کفار اور ان کے ہم عقیدہ مشرکین کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے منکر ہیں "اور کہتے ہیں کہ دنیا ہی ابتداء اور انتہاء ہے کچھ جیتے ہیں کچھ مرتے ہیں" یعنی قیامت کوئی چیز نہیں۔ فلاسفہ اور علمِ کلام کے قائل یہی کہتے تھے یہ لوگ ابتداء اور انتہاء کے قائل نہ تھے اور فلاسفہ میں سے جو لوگ دہریہ تھے وہ خالق کے بھی منکر تھے ان کا خیال تھا کہ ہر چھتیس ہزار(36000) سال کے بعد زمانے کا ایک دور ختم ہوتا ہے اور ہر چیز اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے اور ایسے کئی ادوار کے وہ قائل تھے دراصل یہ معقول سے بھی بیکار جھگڑتے تھے اور منقول سے بھی روگردانی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ "گردشِ زمانہ ہی ہلاک کرنے والی ہے"۔3

علامہ قرطبی مذکورہ آیت کے ذیل میں زمانہ جاہلیت کے ایک گروہ کا تذکرہ کرتےہولکھتے ہیں کہ ابن عینیہ نے کہا:

  كان أهل الجاهلية يقولون: الدهر هو الذي يهلكنا وهو الذي يحيينا ويميتنا، فنزلت هذه الآية وقال قطرب: وما يهلكنا إلا الموت.4
  دورِ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے اور وہی زندہ کرتا ہے اور ہمیں مارتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ قطرب نے کہا : (اس کا معنی ہے) ہمیں موت ہی ہلاک کرتی ہے ۔5

اس قول میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا انکار کیا اور اس طرح انہوں نے پہلے قول میں قیامت اور حشر ونشر کا انکار کیا تھا اور اب اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا انکار کیا، ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اشیاء کے طبعی خواص سے ہورہا ہے یا افلاک کی حرکات سے ہورہا ہے 6جبکہ بعض اہل ِعرب دہر کو برا بھلا بھی کہتے تھےجس کی تائیدحضرت ابوہریرہکی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا :

  قال الله: يسب بنو آدم الدهر، وأنا الدهر، بيدي الليل والنها.7
  اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا : ابن آدم دہر کو برا کہتا ہے جبکہ میں (خالق) دہر ہوں، میرے ہی ہاتھ میں رات اور دن کی گردش ہے۔

ا س سےمعلوم ہوا کہ اہلِ عرب میں بعض افراد اشیاء میں زمانہ کومؤثر حقیقی سمجھتے تھے جبکہ بعض ان کے برعکس بھی تھے جو زمانہ کو برابھلا کہتے تھے جن کی تردید کرتے ہوئے فرمایاگیا کہ زمانہ مؤثر حقیقی نہیں ہے بلکہ خالقِ کائنات کےحکم کا محکوم وتابع ہے ۔

دہریت کا معنی

دہر عربی لفظ ہے جس کاترجمہ ''زمانہ'' ہے۔ 8یہ لفظ منکرِ مذہب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مکہ کے بہت سارے لوگ خدا کی تخلیق اور خدا کے پیغام کے جواب میں نبی کریم ﷺکو یوں کہتے کہ ہم کو موت خدا نہیں دیتا بلکہ زمانہ ہی ہم کو ہلاک کرتا ہے گویا ان کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا کی کوئی ہستی نہیں ہے، جینا اور مرنا سب "دہر "یعنی زمانہ کے تغیرات ہیں ۔9

لفظِ دہر سے اخذ کرکے مذکورہ قرآنی مطلب میں لفظ"دہریہ" مستعمل ہے۔ اسی طرح سورۃ الدھر اور پھر سورۃ الجاثیہ میں یہ مفہوم اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے گمراہ اور غیر خدائی لوگوں کے لیے استعمال ہوا۔اس "دہریہ" کا معنی بیان کرتے ہوئےالموسوعۃ الفقہیۃ کے مصنفین لکھتے ہیں:

  الدهري في اللغة منسوب إلي الدهر والدهر يطلق علي الأبد والزمان ويقال للرجل الذي يقول بقدم الدهر ولا يؤمن بالبعث والدهريون في الاصطلاح فرقة من الكفار ذهبوا إلي قدم الدهر وإسناد الحوادث إليه منكرين وجود الصانع المختار سبحانه.10
  دہری لغت میں"دہر" سے منسوب ہے اور دہر کا اطلاق: اَبد (یعنی ہمیشگی) اور زمانہ پر ہوتا ہے، یہ اس آدمی کو کہاجاتاہے جو دہر کی قدامت کا قائل ہو اور آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو ۔دہریہ اصطلاح میں کفار کا ایک فرقہ ہےجو دہر کی قدامت کا قائل ہے اور حوادث کو اسی سے منسوب کرتا ہے نیزوہ صانع مختار سبحانہ کے وجود کا منکر ہے۔

ان دہریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ کائنات کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ یہ کہتے تھے کہ عالم قدیم ہےیعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ اس میں کوئی جوہری تغیر وتبدل وقوع پذیر نہیں ہوتا اور عالم بذات خود کائنات کے تمام اجزا کو آپس میں وابستہ کیے ہوئے ہے نیزانہیں معطلہ بھی کہاجاتاہے چنانچہ سیّد محمود شکری عرب کےدہریوں کے اسی عقیدہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  إن الأشياء ليس لها أول البتة وإنما تخرج من القوة إلي الفعل فإذا خرج ما كان بالقوة إلي الفعل تكونت الأشياء مركباتها وبسائطها من ذاتها لا من شئ آخر۔ وقالوا إن العالم لم يزل ولا يزال ولا يتغير ولا يضمحل ولا يجوز أن يكون المبدع يفعل فعلا يبطل ويضمحل إلا وهو يبطل ويضمحل مع فعله وهذا العالم هو الممسك لهذه الأجزاء التي فيه وهؤلاء هم المعطلة حقا.11
  اشیاء کی قطعاً کوئی ابتداء نہیں، اشیاء تو صرف"قوۃ" سے"فعل" کی طرف نکل کر آتی ہیں لہٰذا جو چیز پہلے بالقوہ ہو جب وہ فعل کی طرف نکل کر آجائے تو اشیاء کے مرکبات اور بسائط خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں، کسی اور چیز سے نہیں پیدا ہوتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جہان ازل سے ہے اور یہ اسی طرح ابد تک چلتا رہے گا۔ نہ اس میں تغیر پیدا ہوگا اور نہ ہی اس کے فعل کے باوجود اسے زوال ہوگا اور یہ جہان خود ہی ان اجزاء کو جو اس کے اندر ہیں مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہے۔یہی لوگ درحقیقت معطلہ ہیں۔ 12

عرب کے دورِ جاہلیت میں دہری عقیدہ رکھنے والے بہت کم لوگ تھےتاہم امام ابن عبد البرنے اس کو دورِ جاہلیت کے بعض قریشیوں کے حوالہ سے بھی بیان کیا ہےچنانچہ امام ابن عبد البر مالکیلکھتے ہیں:

  وأما أهل الجاهلية فإنهم كانوا منهم دهرية زنادقة لا يعقلون ولا يعرفون اﷲ ولا يؤمنون وفي قريش منهم قوم.13
  البتہ جاہلیت کے لوگوں میں دہریےزنادقہ تھےجواللہ کو نہ سمجھتے تھے،نہ جانتے تھےاورنہ ہی ایمان رکھتے تھے اورقریش میں بھی ان میں سے کچھ لوگ تھے۔

جبکہ ڈاکٹر جواد علی نے حارث بن قیس بن عدی بن سعد بن سہم کو بھی دھریہ لکھا ہے۔ 14اسی طرح ابو الفداء المؤیدنے بھی امام شہرستانیسے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :

  والعرب الجاهلية أصناف فصنف أنكروا الخالق والبعث وقالوا بالطبع المحيي والدهر المفني كما أخبرهم عنهم التنزيل.15
  اورجاہلی عرب کی اقسام ہیں: ان میں سے بعض نے خالق اورقیامت کا انکارکرکےدہریت کاعقیدہ اپنایا کہ زمانہ ہی زندہ کرتااورفناکرتاہےجیسا کہ قرآن کریم نے ان کےبارےمیں خبردی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ عرب میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جو دہریہ تھے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے انکاری تھے۔ مبداءومعاد،قبر وآخرت، حشرونشراورجزاءوسزاکے قائل نہیں تھے۔

مذکورہ بالا تفصیلات اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ اہلِ عرب میں کئی مذاہب سمیت ایک مذہبی فرقہ دہریوں کا بھی تھا جن کا ماننا یہ تھا کہ در حقیقت زمانہ ہی ہے جو نظام ِعالم کو چلارہا ہے۔اس کے چلانے میں کسی خالق ومالک کی کسی بھی قسم کی کوئی حکمت شامل نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں ان کا یہ بیانیہ نقل کرکے ان کی تردید کی گئی ہے اور دیگر دلائل وبراہین سمیت ان کو کئی اشیاء کے مشاہدات کی جانب نظروفکر کی دعوت دی گئ ہے تاکہ وہ اپنے اس باطل گمان سے نکل کر حقیقت کو دیکھ سکیں۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ الجاثیۃ45: 24
  • 2 ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-7، مطبوعۃ: دار طيبة للنشر والتوزيع، بیروت، لبنان، 1999م، ص :501
  • 3 ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی ،تفسیر ابن کثیر(مترجم:پیر محمد کرم شاہ الازہری)،ج-4،مطبوعہ :ضیاء القرآن،پبلی کیشنز،کراچی،پاکستان، 2017ء، ص:284
  • 4 ابو عبداﷲ محمد بن احمد القرطبی، تفسیر القرطبی، ج-24، مطبوعۃ: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 1964م، ص :501
  • 5 ابو عبداﷲ محمد بن احمد قرطبی، تفسیر قرطبی (مترجم:پیر محمد کرم شاہ الازہری)، ج-8، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور ،پاکستان،2014ء، ص:563
  • 6 غلام رسول سعیدی ،تفسیر تبیان القرآن ، ج -10، مطبوعہ: فرید بک اسٹال ، لاہور ، پاکستان ،2000ء،ص:814
  • 7 أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، صحيح البخاري، حديث: 6181، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 1077
  • 8 ابو القاسم الحسين بن محمد الاصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، ج-1، مطبوعۃ: دار القلم، دمشق، السوریۃ، 1412ھ، ص: 319
  • 9 غلام رسول سعیدی ،تفسیر تبیان القرآن ،ج -10، مطبوعہ: فرید بک اسٹال ، لاہور ، پاکستان ،2000ء،ص:814
  • 10 وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ج-21، مطبوعۃ: مطابع دار الصفوۃ، القاهرة، مصر، 1427ھ، ص: 31
  • 11 السیّد محمود الشکری الآلوسی، بلوغ الأرب فی معرفۃ أحوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ابن تيمية للنشر والتوزيع، القاھرۃ، مصر، 2012م، ص: 220
  • 12 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم :ڈاکٹر پیر محمد حسن)،ج-3،مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور،پاکستان، 2011ء، ص: 110
  • 13 أبو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر المالکی، الاستذکار، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 553
  • 14 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج-7، مطبوعۃ: دار الساقی، بيروت، لبنان،2001م، ص: 110
  • 15 أبو الفداء إسماعیل بن علی الملک المؤید، المختصر فی أخبار البشر، ج-1، مطبوعۃ: المطبعۃ الحسینیۃ المصریۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 98