جاہلی عرب میں بت پرستی کی مثل مظاہر پرستی کا رواج بھی عام تھا۔ جس طرح اہلِ عرب کا ایک بڑا طبقہ بت پرستی کے فعلِ قبیح میں مبتلا تھا اسی طرح ان میں سے ایک گروہ مظاہر پرست بھی تھا۔ بت پرستی اور مظاہر پرستی اصلاً تو غیر خدا کی پوجا کرنے کے ہی دو علیحدہ نام تھے مگر ان دونوں میں جو بنیادی فرق تھا وہ یہ تھا کہ بت پرستی میں پوجا ان اصنام کی ہوتی تھی جن کو عرب خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے تھے جبکہ مظاہر پرستی جیسا کہ اپنے نام سے ظاہر ہے ان اشیاء کی عبادت کو کہا جاتا تھاجو قدرت کے کرشمے کے طور پر عالم دنیا میں موجود تھیں مگر ان کو اہلِ عرب نے خدا بنا کر پوجنا شروع کر دیا تھا جن میں نباتات، جمادات، حیوانات یہاں تک کہ ستاروں اور غاروں تک کی عبادت شامل تھی۔
ان میں سے بعض لوگ ان بُتوں کی پرستش کرتے تھے جنہیں انہوں نے اپنے خیال میں ستاروں کی شکل اور ان کی روحانیت کے مطابق بنایا ہواتھا، انہوں نے ان کے لیے مندراور عبادت گاہیں بنائی ہوئی تھیں۔ ہرستارے کے لیے ایک خاص مندر، خاص بت اور خاص عبادت تھی۔ ان تمام لوگوں کا مرجع بُتوں کی پوجا تھا کیونکہ ان کا طریقہ صرف ایک خاص جسم اور خاص شکل کے ساتھ ہی جاری رہ سکتا تھا جس کی طرف یہ دیکھ سکیں اور جس کے پاس معتکف ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ روح پرستوں ا ور ستارہ پرستوں نے بت گھڑ رکھےتھے۔ 1ان کا خیال تھاکہ یہ بت ان ستاروں کی شکلوں پر ہیں، لہٰذا یہ بت بنالینا دراصل ایک غالب معبود کی شکل پر تھا جس کی شکل، ہیئت اور صورت پر اس کابت بنایا گیا تاکہ یہ بت اس کا نائب اور قائم مقام ہو ورنہ یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی عقلمند لکڑی یا پتھر کو اپنے ہاتھ سے تراشنے کے بعد یہ اعتقاد نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس کا خدا اور معبود ہے۔ 2اسی لیےجاہلیت کے بعض عرب ستارہ پرست تھےاوراس حوالہ سے تفصیل حسبِ ذیل ہے:
وقد رأى بعض العلماء أن عبادة أهل الجاهلية هي عبادة كواكب في الأصل وأن أسماء الأصنام والآلهة، وإن تعددت وكثرت، إلا أنها ترجع كلها إلى ثالوث سماوي، هو: الشمس والقمر والزهرة وهو رمز لعائلة صغيرة، تتألف من أب هو القمر، ومن أم هي الشمس، ومن ابن هو الزهرة.3
بعض علمائےتاریخ کاخیال ہےکہ زمانۂِ جاہلیت میں عرب کی اصل عبادت ستارہ پرستی تھی جبکہ بُتوں اورخداؤں کےنام اگرچہ متعددوکثیرہیں لیکن سب تثلیث سماوی کی طرف لوٹتےہیں جوکہ سورج، چانداور ستارے(کامجموعہ)ہیں،یہ ایک چھوٹےکنبہ کی علامت ہےجوباپ(چاند)ماں(سورج)اوربیٹے (ستارہ، زہرہ)پرمشتمل ہے۔
جب عربوں میں کسی قدر تہذیب وتمدّن پیداہواتو انہوں نےمخلوقاتِ ارضی سے ہٹ کردیکھا،آسمان کے بلنداورروشن ستارےان کوخدائی کے سب سے زیادہ مستحق نظرآئےچنانچہ ان کی پرستش شروع ہوئی، بقول مسعودی چونکہ یہ ستارےنکلتےاورڈوبتے رہتے اس لیےان کی متخیل شبیہیں بناکرلوگوں نے ان کو پوجناشروع کیااوراس طرح بُت پَرستی کی ابتداء ہوئی ۔4ڈاکٹر جوادعلی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ويلي الشمس والقمر "الزهرة"، وهي ذكر في النصوص العربية الجنوبية، ويسمى "عثتر" وهو بمثابة "الابن" للشمس والقمر، وهذا الثالوث الكوكبي يدل، في رأي الباحثين في أديان العرب الجنوبيين، على أن عبادة العربية الجنوبية هي عبادة نجوم وهو يمثل في نظرهم عائلة إلهية مكونة من ثلاثة أرباب.5
سورج اورچاندکےبعدستارہ(زہرہ)آتاہے، اس کا ذکر جنوبی عرب کی روایات میں ہےاوروہ"عثتر" کہلاتاہے، وہ سورج وچاندکے لیے بمنزلہ "بیٹے"کےہے، جنوبی عرب کےادیان کی تحقیقات کرنے والوں کےرائےمیں یہ تیسراتثلیثی ستارہ (جس کی پوجا کی جاتی تھی اس بات کی)دلیل ہےکہ جنوبی عرب کی عبادت ستارہ پرستی ہے۔ان کی نظرمیں یہ تین افراد الوہی خاندان کےعکاس ہیں۔
گویا آسمان میں ان کےمعبودانِ باطلہ کا پوراخاندان آبادتھاجونظامِ کائنات چلارہاتھاجبکہ زمین پران کےمجسمےان کی قدرتوں کےمظاہرتھےجن کےآگےیہ سجدےکیاکرتےتھے۔یہی نہیں بلکہ ان کےہاں دیگرمختلف ستاروں کوبھی یہ مقام حاصل تھاچنانچہ مؤرخین بیا ن کرتےہیں:
ففي كتب الأخباريين أن طائفة من تميم عبدت "الدبران"....وبعض قبائل لخم وخزاعة وحمير وقريش عبدوا "الشعرى العبور" وأن أول من سن ذلك لهم، وأدخل تلك العبادة إليهم "أبو كبشة" 6 وهو "جزء بن غالب بن عامر بن الحارث بن غبشان الخزاعي"، أو "وجز بن غالب"، وهو من خزاعة ثم من بني غبشان، أحد أجداد النبي من قبل أمهاته خالف قريشا في عبادة الأصنام وعبد الشعرى العبوروكان "وجز" يقول: إن الشعرى تقطع السماء عرضا، فلا أرى في السماء شيئا، شمسا ولا قمرا ولا نجما، يقطع السماء عرضا….و"الشعرى" (Sirius) هي المقصودة في الآية7: (وأنه هو رب الشعرى)8 كان ناس في الجاهلية يعبدون هذا النجم9 الذي يقال له الشعرى.10
اہلِ اخبارکی کتب میں ہےکہ بنی تمیم کی ایک جماعتالدبرانکی پرستش کرتی تھی ۔۔۔اورلخم، خزاعہ اورقریش کےبعض قبائل "الشعری العبور"کی پرستش کرتےتھے، سب سے پہلےیہ طریقہ ان کےلیے ابوکبشہ نے ایجادکیااوراس عبادت کوان میں رائج کردیا۔ ابو کبشہ جزء بن غالب بن عامر بن الحارث بن غبشان الخزاعی یاوجزبن غالب تھا۔وہ قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنی غبشان سےتھاجونبی اکرم ﷺ کےننہیال کی جانب سےآپﷺ کےاجدادمیں سےتھا،اس نے بُتوں کی پوجاکرنےمیں قریش کی مخالفت کرتےہوئے الشعری العبورکی عبادت کی۔وجز کہاکرتاتھا: شعری آسمان کو عرض (چوڑائی) میں عبورکرتاہےجبکہ آسمان کی کوئی شےسورج، چاند، ستارےکچھ بھی آسمان کو عرض میں عبورنہیں کر تے، سورہ نجم کی آیت"وأنه هو رب الشعرى"(یعنی"اور یہ کہ وہی شِعرٰی (ستارے) کا رب ہے")میں یہی شعری مرادہے۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ اس ستارےکی پرستش کرتےتھے اوراسے شعری کہاجاتاتھا۔
امام قرطبی شعری ستارہ کے متعلق مزید وضاحت کرتے ہوئےتحریر کرتےہیں:
(الشعرى) الكوكب المضي الذي يطلع بعد الجوزاء، وطلوعه في شدة الحر، وهما الشعريان العبور التي في الجوزاء والشعرى الغميصاء التي في الذراع، وتزعم العرب أنهما أختا سهيل وإنما ذكر أنه رب الشعرى وإن كان ربا لغيره، لأن العرب كانت تعبده، فأعلمهم الله عز وجل أن الشعرى مربوب وليس برب واختلف فيمن كان يعبده، فقال السدي: كانت تعبده حمير وخزاعة وقال غيره: أول من عبده أبو كبشة11 أحد أجداد النبي صلي الله عليه وسلم من قبل أمهاته، ولذلك كان مشركو قريش يسمون النبي صلي الله عليه وسلم ابن أبي كبشة حين دعا إلى الله وخالف أديانهم، وقالوا: ما لقينا من ابن أبي كبشة! وقال أبو سفيان يوم الفتح وقد وقف في بعض المضايق وعساكر رسول الله صلي الله عليه وسلم تمر عليه: لقد أمر أمر ابن أبي كبشة وقد كان من لا يعبد الشعرى من العرب يعظمها ويعتقد تأثيرها في العالم قال الشاعر:
مضى أيلول وارتفع الحرور
وأخبت نارها الشعرى العبور
وقيل: إن العرب تقول في خرافاتها: إن سهيلا والشعرى كانا زوجين، فانحدر سهيل فصار يمانيا، فاتبعته الشعرى العبور فعبرت المجرة فسميت العبور، وأقامت الغميصاء فبكت لفقد سهيل حتى غمصت عيناه، فسميت غميصاء لأنها أخفى من الأخرى.12
شعری ایسا روشن ستارہ ہے جو جوزاء کے ساتھ طلوع ہوتاہے۔ اس کا طلوع سخت گرمی میں ہوتاہے۔ دونوں شعر ی ہیں،عبورجوجوزاء میں ہوتاہے اورشعری غمیصاءجوذراع میں ہوتاہے۔ عرب گمان کرتےہیں کہ یہ دونوں سہیل کی بہنیں ہیں۔ (خاص)یہ ذکر (کیوں)کیاکہ وہ شعری کا رب ہے اگرچہ وہ دوسروں کا بھی رب ہے؟ کیونکہ عرب شعری کی تعظیم بجالاتےتھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آگاہ کیا کہ شعری رب نہیں مربوب ہے۔اس میں اختلاف ہےکہ کون اس کی عبادت کرتاتھا؟سدی نے کہا: حمیر اورخزاعہ قبیلہ اس کی عبادت کرتاتھاجبکہ دوسرےعلماءنےکہا: سب سے پہلےجس نے اس کی عبادت کی وہ ابوکبشہ تھاجونبی کریمﷺ کی امہات کی جانب سے اجداد میں شامل تھا،اس وجہ سے قریش کے مشرکوں نے نبی کریمﷺ کو ابن ابی کبشہ کا نام (اس وقت)دیا جب آپﷺ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اوران کےدینوں کی مخالفت کی۔انہوں نے کہا: ہم نے ابن ابی کبشہ سے کیا پایاہے؟ابوسفیان نے فتح مکّہ کےروز کہاتھاجبکہ وہ ایک تنگ راستہ میں کھڑاتھااوررسول اللہﷺ کے لشکر اس کےپاس سے گزررہےتھے: ابن ابی کبشہ کامعاملہ قوی ہوگیا۔جو عرب شعری کی پوجانہ کرتےتھےوہ بھی اس کی تعظیم کرتے اورعالم میں اس کی تاثیرکا اعتقادرکھتے تھے۔شاعرنے کہا:
ماہ ستمبر گزر گیا اور گرمی ختم ہو گئی
اور شعری عبور نے اس کی آگ کو بجھا دیا
ایک قول یہ کیا گیاہے:عرب اپنی خرافات میں کہتےتھےکہ سہیل اورشعری میاں بیوی تھے۔ سہیل نیچےاتراتووہ یمانی ہوگیا شعری عبو رنے اس کا پیچھاکیا اورکہکشاں کو عبور کیا تو اس کا نام عبور ہوگیا۔ غمیصاء کھڑی ہوئی اور سہیل کے گم ہونے پروہ روئی یہاں تک کہ اس کی آنکھیں کیچڑبہانےلگیں تو اس کا نام میصاءہوگیاکیونکہ یہ دوسرےسےزیادہ مخفی ہوتاہے۔ 13
مذکورہ تفصیلات صاحبِ محررالوجیز14اورصاحبِ تفسیر مقاتل15نےبھی اسی طرح بیان کی ہیں۔زمانۂِ جاہلیت کےعرب ستارہ پرستوں میں خزاعہ کے علاوہ بھی چند قبیلےپیش پیش تھےجن کی نشاندہی ذیلی اقتباس سے ہوتی ہے:
ويذكرون أن بعض طيء عبدوا "الثريا"، وبعض قبائل ربيعة عبدوا "المرزم"، وأن "كنانة" عبدت القمر16ويتبين من بعض الأعلام المركبة، مثل: عبد الثريا، وعبد نجم، أن الثريا ونجما، كانا صنمين معبودين في الجاهلية وقد ذهب بعض المفسرين إلى أن "النجم" المذكور في سورة "النجم" ( والنجم إذا هوى) الثريا17 والعرب تسمى الثريا نجما "وقال بعض آخر: " إن النجم ههنا الزهرة لأن قوما من العرب كانوا يعبدونها" وعبد بعض الجاهليين "المريخ"، واتخذوه إلها، كما عبد غيرهم "سهيلا" (Canapus)، و "عطارد" (Markur)، و "الأسد" (Lion)، و "زحل"وقد ذكر أهل الأخبار، أن أهل الجاهلية يجعلون فعلا للكواكب حادثا عنه، فكانوا يقولون: مطرنا بنوء كذا وكذا، وكانوا يجعلون لها أثرا في الزرع وفي الإنسان فأبطل ذلك الإسلام، وجعله من أمور الجاهلية جاء في الحديث:18 "ثلاث من أمور الجاهلية: الطعن في الأنساب، والنياحة، والاستسقاء بالأنواء".19
علماءِتاریخ ذکرکرتےہیں کہ بعض اہلِ طئی"ثریا"کی عبادت کرتےتھے اورقبیلہ ربیعہ کے بعض لوگ "مرزم"کی نیزقبیلہ کنانہ قمر(چاند)کی پرستش کرتےتھے۔بعض مرکب اسماء سےبھی اس امرکی وضاحت ہوتی ہےجیسے: عبدالثریااور عبد نجم،ثریااورنجم زمانۂِ جاہلیت میں دومعبودبت تھے۔ بعض مفسرین کاخیال ہےکہ سورہ نجم میں مذکور"النجم"سےمرادثریاہےکہ عرب ثریاکونجم کہتےہیں۔دیگر کی رائےہےکہ یہاں النجم سےمرادزہرہ ہے کیونکہ عرب کی ایک قوم اس کی پرستش کرتی تھی جبکہ بعض اہلِ جاہلیت نے"مریخ"کومعبودبنالیاتھااوراسی کی پوجاکرتےتھےجیسے ان کےعلاوہ دیگرعرب سہیل، عطارد،اسداورزحل کی عبادت کرتےتھے۔اہلِ اخبار ذکرکرتےہیں کہ اہلِ جاہلیت ستاروں سےافعال کاصادرہوناثابت کرتےتھےچنانچہ وہ کہتےتھے: ہمیں فلاں فلاں ستارےکےذریعےبارش ملی۔وہ ان کاانسان اورکھیتیوں پرمؤثرہوناثابت کرتےتھے، پس اسلام نے اس کا رد کردیا اور اسے امور جاہلیت قراردیا۔ حدیث شریف میں آیاہے: جاہلیت کی عادتوں میں سے یہ تین عادتیں ہیں۔ نسب کے معاملہ میں طعنہ مارنا، میت پر نوحہ کرنااورستاروں کو بارش کی علت سمجھنا تھی۔
کوکب پرستی پران کا ایسا اعتقاد تھاکہ وہ سمجھتےتھےکہ جس قدر حوادث اس عالمِ سفلی میں واقع ہوتے ہیں جیساکہ مینہ برسنا ،قحط ہونا ،بیمار و تندرست ہونا اور غنی و فقیر ہونا جو کچھ بھی ہوتا ہے سب ستاروں کی گردش سے ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ لوگ خرید وفروخت، شادی بیاہ اور سفر وغیر ہ تک ستاروں کے طلوع وغروب کے حساب سے کیا کرتے تھے۔20
تاریخ کےمزیدقدیم صفحات کامطالعہ کریں تو معلوم ہوتاہےکہ سامیوں اور قدیم عربوں میں سے بعض کا یہ اعتقاد تھاکہ تمام دنیا ارواح سے بھری ہوئی ہے جن میں زیادہ تر ارواحِ خبیثہ اور کچھ ارواحِ طیبہ ہیں۔ان کے مذہب کاخلاصہ ارواحِ خبیثہ کونذرونیاز ،قربانی اور چڑھاوے سے خوش رکھنا اور ارواحِ طیبہ کی مدح و ثنا گا کر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے تیار کرنا تھا۔ ان کے اعتقادمیں ہر روح کا مسکن ایک ستارہ تھا ۔ بابل کے کھنڈروں میں جو تختیاں اور ہیکلوں کے جو کتبات پڑھے گئے ان میں بیسیوں معبودوں کے نام ملتے ہیں ۔ ذیل میں شہروں کے نام کے ساتھ ان کے کچھ دیوتاؤں کے نام درج کئے جارہے ہیں:
شہر کا نام | معبود کا نام | معنی |
لارسہ | شمس | آفتاب |
اشتار | ستارہ زہرہ ’’محبت اور حسن کی دیوی‘‘ | |
کشن | زمامہ | |
اکّاد | انیتو | چاند خوش حالی کا دیوتا |
اشور | اشور | لڑائی کا دیوتا |
نینویٰ | اشتار | ستارہ زہرہ |
اربابل ’’اربل‘‘ | اشتار | ستارہ زہرہ’’محبت اور حسن کی دیوی‘‘ |
حران | سِن | چاند |
مذکورہ شواہد سےیہ پتا چلتاہےکہ جاہلیت کےعرب ستاروں میں بھی ارواح کومانتےاوران کےبت بناکران ارواح کاقرب چاہتےتھےتاکہ معبودِحقیقی تک پہنچ سکیں۔اگرچہ ان میں شرکیہ عقائدرائج ہوچکےتھے مگر یہ ان کےتمام عقائد کی علت تھی۔مظاہرپرستی میں جہاں ستاروں کی عبادت رائج ہوئی وہیں سورج اورچاندبھی اسی طرح کے عقائدکےمحمول ٹھہرےاوران کی پوجابھی کی جانےلگی۔21
اہلِ عرب میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جو سورج کی پوجا کرتے تھے اورسورج کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جس کا نفس بھی ہے اور عقل بھی، چاند اور تمام ستارے اسی سے اکتسابِ نور کرتے ہیں اور عالمِ سفلی کے تمام موجودات اسی سے پیدا ہوئے ۔ ان کے نزدیک سورج افلاک و سموات کا بادشاہ ہے لہٰذا اس کی تعظیم کی جائے، اس کو سجدہ کیا جائےا ور اس سے مدد مانگی جائے۔اہلِ عرب میں سے حمیر میں آبادعرب قبائل سورج کے پجاری تھے۔ملکہ بلقیس جو حمیر کے سلاطین میں سےا یک نامور ملکہ گزری ، اس کے بارے میں ہدہد نے جو اطلاع حضرت سلیمان کو دی قرآن میں اس کو یوں بیان کیا گیا ہے:
وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ 24 22
میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کے بجائے سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اَعمالِ (بد) ان کے لیے خوب خوش نما بنا دیے ہیں اور انہیں (توحید کی) راہ سے روک دیا ہے سو وہ ہدایت نہیں پا رہے۔اسی وجہ سے اہلِ تاریخ نےبیان کیا کہ اجرامِ سماوی میں ستاروں کےساتھ ساتھ عرب جاہلی سورج کی بھی عبادت کیاکرتےتھے اور اسی وجہ سے قرآن مجیدمیں ان کواس باطل پرستش سے روکتے ہوئے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ37 23
اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، نہ سورج کو سجدہ کیا کرو اور نہ ہی چاند کو، اور سجدہ صرف اﷲ کے لیے کیا کرو جس نے اِن (سب) کو پیدا فرمایا ہے اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو۔
آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ عرب سورج و چاند کی پرستش کرتے تھے جس سے ان کو روکا گیا۔ اس مظاہر پرستی کا عر ب میں عام چلن تھا اور خصوصاًسورج پرستی سے ان کا لگاؤ کافی زیادہ تھا،اس لگاؤکایہ عالم تھاکہ وہ سورج کےنام پراپنے اوراپنی اولادوں کےنام رکھاکرتےتھے۔ اس حوالہ سے درج ذیل عبارت سےاشارہ ملتا ہے:
والشمس من الأصنام التي تسمى بها عدد من الأشخاص، فعرفوا "بعبد شمس" وقد ذكر الأخباريون أن أول من تسمى به سبأ الأكبر لأنه أول من عبد الشمس، فدعي "بعبد شمس".24
اورسورج ان بُتوں میں سےہےجس کےنام پرکئی لوگوں کےنام ہوئےپس وہ عبدشمس کہلائے، اہل اخبارنےذکرکیاکہ سب سےپہلےسبأاکبرکانام اس کےنام پرپڑاکیونکہ اس نے سب سےپہلےسورج کی پوجاکی تو اسے عبدشمس کے نام سے پکاراگیا۔
بلادِیمن کے قبیلۂ حمیر کا ایک عظیم گروہ یہودیت اختیار کرنے سے پیشترسورج کی پر ستش کیا کرتا تھا۔ ان کے خیال کے مطابق یہ چانداور ستاروں کے نور کی اصل ہے اور یہ خود فلک کے فرشتے کے پاس رہتا ہے اسی لیے یہ تعظیم، سجدہ اور دعا کا مستحق تھا۔ ان کے یہاں اس کی عبادت کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے اس کے لیےا یک بت بنا رکھا تھا۔ اس گھر کے لیے انہوں نے کئی ایک شہر اور جاگیریں وقف کر رکھی تھیں، اس گھر کے محافظ، نگران اور دربان مقرر تھے، وہ یہاں آتے اور دن میں تین بار اس بت کے لیے نماز پڑھتےتھے، مریض یہاں آکر اس بت کے نام کا روزہ رکھتے، عبادت کرتے، اس سے دعائیں مانگتے اور اس کو وسیلہ بناتے تھے۔ 25جب سورج طلوع ہوتا تو یہ سب کے سب اس کے سامنے سجدہ ریزہوجاتے، اسی طرح جب سورج غروب ہوتا یاجب وسط آسمان میں ہوتا تو سجدہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تینوں وقتوں میں شیطان سورج کے ساتھ ہوتا ہے تاکہ ان سورج پرست لوگوں کی عبادت اور سجدہ جو کچھ ہو وہ شیطان کے لیے ہو، 26اسی لیے نبی اکرمﷺنے ان اوقا ت میں قطعی طور پر نمازپڑھنے سے منع فرمایا 27کیونکہ اس میں بظاہر کفار سے مشابہت پائی جاتی ہے نیز اس لیے بھی منع فرمایا کہ شرک اور بُتوں کی پرستش کے ہر ذریعے کو بند کردیا جائے۔ انہیں (سورج کی پرستش کرنے والوں ) میں سے ملکہ بلقیس کی قوم(سبا) تھی۔ 28قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کا ایک بادشاہ سے مناظرہ کا حال مذکور ہے جو خدائی کا مدعی تھا:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ258 29
(اے حبیب!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس وجہ سے کہ اﷲ نے اسے سلطنت دی تھی ابراہیم() سے (خود) اپنے رب (ہی) کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا، جب ابراہیم () نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ (بھی) کرتا ہے اور مارتا (بھی) ہے، تو (جواباً) کہنے لگا: میں (بھی) زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم () نے کہا: بیشک اﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے تُو اسے مغرب کی طرف سے نکال لا! سو وہ کافر دہشت زدہ ہو گیا، اور اﷲ ظالم قوم کو حق کی راہ نہیں دکھاتا۔
حضرت ابراہیم نے اپنی اس دلیل میں بادشاہ کی بےچارگی وعاجزی ثابت کرنےکےعلاوہ آفتاب دیوتاکی بندگی اورغلامی بھی ثابت کی ہےکہ اس کوکوئی اورادھرسےاُدھرچلانے والاہے۔ 30سورج کے متعلق عرب کےیہ خیالات بعثتِ نبویﷺ تک رہے۔ان کے خیال میں کسی بڑے آدمی کی وفات پر سورج گرہن ہوجاتا تھا اور رسول اللہﷺنے ہی اس خیال کو اپنے بیٹے ابراہیمکی وفات پر باطل قرار دیا۔31عرب میں سورج پرستی کا غلبہ اسلام کےظہورکےبعدنہ صرف کم ہوگیا بلکہ حضوردوعالمﷺ کی تردید کےبعد اپنےاختتام کوپہنچ گیا۔
اہلِ عرب میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو چاند کا بت بناکر اس کی پرستش کیا کرتے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ چاند تعظیم و عبادت کا مستحق ہے کیونکہ اس سفلی جہاں کی تدبیر اسی کے سپر دہے۔ ا س کی عبادت کا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے بچھڑے کی شکل کا ایک بت اس کےلیے بنا رکھا تھا اوربت کے ہاتھ میں ایک موتی تھا۔ 32یہ لوگ اس بت کی عبادت کرتے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے، اس کے لیے ہر ماہ چند مخصوص دنوں میں روزے بھی رکھتے پھر کھانے پینےکی اشیاءکےساتھ خوشی اور سرور کی اشیاء لے کر اس کے پاس آتے، کھانے سے فارغ ہوکر یہ لوگ ناچ،گانےا ور ساز بجانے میں لگ جاتے۔ 33اسی اعتقادکےردمیں اللہ تعالیٰ نے ان کو سورج کے ساتھ چاند کی پرستش سےبھی منع فرمایا۔34
سورج گرہن کی طرح عرب چاندگرہن کو بھی عظیم الشان واقعات اور انقلابات کی علامت اور آسمانی دیتاؤں کی ناراضگی کا مظہر سمجھتےتھے۔ایسےہی بعض عرب صابئیت اختیار کیے ہوئے تھے جو نجومیوں کی طرح ستاروں کے خانے، ان کی گردش اور ان کے اثرات وغیرہ کا اعتقاد رکھتے تھے۔ان کےمتعلق تاریخی کتب میں تفاصیل ملتی ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:
عرب کے کچھ لوگ صابئین بھی تھے اور ان کے آباءواجداددر اصل حضرت ابراہیم کی قوم میں سے تھے جن کی طرف آپکو مبعوث کیاگیا تھا۔عرب صابئین کا تذکرہ کرنے سےپہلے ان کی اصل کا تذکرہ کرنااس لیے اہم ہےتاکہ قرآن مجید میں ان کے کیے گئے تذکرہ کو سمجھاجاسکے۔ان صابئین کی دوقسمیں تھیں، ایک دینِ حنیف پر قائم تھے اور دوسرے مشرک تھے۔35اسی وجہ سےقرآن مجید میں مسلمان، یہودیوں اور نصرانیو ں کے ساتھ صابیوں کا تذکرہ بھی فرمایاگیا۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان سب مذاہب کے وہ لوگ جنت میں جائیں گے جو اللہ پر حقیقی ایمان لائے، یومِ آخرت کو تسلیم کرلیا اور نیک کام (عملِ صالح) کیے چنانچہ قرآن مجید میں مذکور ہوا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ 6236
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کیے، تو ان کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صابیوں کا ان چار امتوں میں شمار کیا جن میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں، ناجی اورہالک۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر ان چھ امتوں میں بھی فرمایا جو نجات پانے والی اور ہلاک ہونے والی دونوں قسموں میں منقسم ہیں جیساکہ باری تعالیٰ نے ارشادفرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ17 37
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور ستارہ پرست اور نصارٰی (عیسائی) اور آتش پرست اور جو مشرک ہوئے، یقیناً اﷲ قیامت کے دن ان (سب) کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ بیشک اﷲ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوایسی امتوں کا ذکر فرمایاجن کےپاس نہ کوئی کتاب ہے اورنہ ہی ان میں بدبخت یا سعادت مند کی تقسیم،یہ دو قومیں مجوس اورمشرک ہیں، ان دونوں کا ذکرصرف اس آیت میں ہواہےجس میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کرنےکا ذکرہےجبکہ گزشتہ آیت جس میں جنت کےوعدہ کاذکرہے اس میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن صائبین کا کیا گیا ہےجس سے معلوم ہواکہ صابئین میں خوش بخت اوربدبخت دونوں تھے۔ 38
قرآن بتاتا ہے کہ صابئی قوم کی ہدایت و اصلاح کے لیے سب سے پہلے حضرت ابراہیم مامور ہوئےنیز تورات میں تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم کا عراق کےشہر اُوْراورحَراّن سے تعلق تھا 39اور ان کا خاندان غیر خداؤں کو سجدہ کرتا تھا40 قرآن مجید حضرت ابراہیم کی زبانی ان صابئی مجسمہ پرستوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے:
قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ 95 وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ 96 41
ابراہیم () نے (اُن سے) کہا: کیا تم اِن (ہی بے جان پتھروں) کو پوجتے ہو جنہیں خود تراشتے ہو؟حالانکہ اﷲ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خَلق فرمایا ہے۔
اسی طرح حضرت ابراہیمکا فرمان ایک اور مقام پر یوں مذکورہوا:
أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً….7442
کیا تم بُتوں کو معبود بناتےہو؟
ایک مقام پر یوں ہوا:
مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ 52 43
جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے فرمایا: یہ کیسی مورتیاں ہیں جن (کی پرستش) پر تم جمے بیٹھے ہو۔
مزید مذکورہوا:
إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ….1744
تم تو اللہ کے سوا بُتوں کی پوجا کرتے ہو اور محض جھوٹ گھڑتے ہو۔
اپنے چچا آزر سے مخاطبت کو قرآن نے یوں بیان کیا:
يَاأَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا 4445
اے ابّا! شیطان کی پرستش نہ کیا کرو، بیشک شیطان (خدائے) رحمان کا بڑا ہی نافرمان ہے۔
مذکورہ بالاقرآنی آیات سے واضح ہوا کہ صابی قوم کی طرف حضرت ابراہیممبعوث ہوئے اور آپ نے ان کو مختلف طریقوں سے توحید کا پیغام پہنچایا۔
اسی توحید کا پیغام پہنچانے کے لیے اس قوم سے کیے گئے ایک مناظرہ کو قرآن مجید نے بیان کیاہے۔ حضرت ابراہیم نے کواکب پرستی کے بارےمیں اس قوم سےمناظرہ کیا ، ستارہ ، چاند اور سورج کےغروب ہونے سے ان کو قائل کیا کہ یہ اجرامِ فلکی معبود بننے کی قابلیت نہیں رکھتے کیونکہ یہ زوال پذیر ہیں، ایک حالت پر قائم نہیں رہتے اور معبود وہ ہونا چاہیے جو لم یزل ہو۔ستارہ پرستی کی تردید میں ابراہیم کا مکالمہ سب سےروشن دلیل ہے چنانچہ قرآن مجید میں مذکورہوا:
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ 76 فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ 77فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَاقَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ 78 إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ 79 46
پھر جب ان پر رات نے اندھیرا کر دیا تو انہوں نے (ایک) ستارہ دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا، پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھرجب وہ (بھی) غائب ہوگیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی ضرور (تمہاری طرح) گمراہوں کی قوم میں سے ہو جاتا، پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا اب تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے (کیونکہ) یہ سب سے بڑا ہے؟ پھر جب وہ (بھی) چھپ گیا تو بول اٹھے: اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اﷲ کا) شریک گردانتے ہو، بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
آیت کے آخری ٹکڑے سے ثابت ہوتا ہے کہ صابئی خدا کے منکر نہیں تھے بلکہ خدائی میں اوروں کو بھی شریک ٹھہراتے تھے، یہ آیت بھی اسی ستارہ پرستی کی طرف اشارہ ہے۔ 47صابئین کےمعتقدات اورستارہ پرستوں میں ستاروں کی عبادت مشترک ہونےکی بناپر بظاہرلگتاہےکہ ان میں کوئی فرق نہیں مگر اس آیت مبارکہ سےمعلوم ہواکہ صابئین میں بھی تصورِخداموجودتھاالبتہ ان میں مشرک صابئین اور ستارہ پرست ایک جہت پرتھےجبکہ حنفاءصابئین مؤمنین تصورِخداکےساتھ معبودحقیقی کےدین اسلام پرتھے۔
غرض جس قوم کی ہدایت کےلیے حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے تھےوہ قوم صابی کہلاتی تھی۔ صابی کی دو قسمیں تھیں، پہلی حنفاء اور دوسری مشرکین۔ان مشرکین کے قبیل سے ہی عرب میں بھی ستارہ پرست موجود تھے۔
ان صابئین نے سات سیاروں یعنی شمس، قمر،زہرہ، مشتری ،مریخ، عطارد اور زحل کے لیے علیحدہ علیحدہ ہیکل بنائے ہوئے تھے جن میں ان کی تصویریں تھیں۔ ان ستاروں کے لیے ان کے ہاں خاص خاص عبادتیں اور دعائیں مقرر تھیں۔48صابئہ کےہاں جن ستاروں کی عبادت کی جاتی تھی ان کےبڑےبڑےمعبدقائم تھے۔صابئہ نے اپنے جو بت خانے تعمیر کیے تھے انہوں نے ان کی بنیادیں اپنے نزدیک عقل کے تصورات اور مختلف کواکب کی اشکال و حرکات پر رکھی تھیں۔ صابئین کےجملہ ہیکلوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام مسعودی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
ومن هياكل الصابئة هيكل السلسلة وهيكل الصورة، وهيكل النفس، وهذه مُدورات الشكل، وهيكل زحل مسدس، وهيكل المشتري مثلث، وهيكل المريخ مربع مستطيل، وهيكل الشمس مربع، وهيكل عطارد مثلث الشكل، وهيكل الزهرة مثلث في جوف مربع مستطيل، وهيكل القمر مثمن الشكل.49
اورصابئین کےہیکلوں میں ہیکل سلسلہ، ہیکلِ صورہ،ہیکلِ نفس،ہیکلِ زحل،ہیکلِ مشتری،ہیکلِ مریخ، ہیکلِ شمس، ہیکلِ عطارد،ہیکلِ زہرہ اور ہیکلِ قمر تھے ۔ ان ہیکلوں میں ہیکلِ صورہ و ہیکلِ نفس گو ل بنائی گئی تھی ،ہیکلِ زحل شش پہلو تھی،ہیکلِ مشتری مثلث،ہیکلِ مریخ مربع مستظیل،ہیکلِ شمس مربع، ہیکلِ عطارد کی شکل مثلث،ہیکلِ زہرہ بیچ میں مثلث ویسے مربع مستطیل اور ہیکلِ قمر ثُمن الشکل تھی۔50
ان کےمعابدکےمتعلق ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں یوں تفصیل بیان کی ہے:
وكان بها هيكل العلة الأولى هيكل العقل الأول هيكل النفس الكلية هيكل زحل هيكل المشتري هيكل المريخ هيكل الشمس وكذلك الزهرة وعطارد والقمر.51
اس(حرّان) میں ہیکل علت اولی، ہیکلِ عقل اول، ہیکلِ نفس کلیہ، ہیکلِ زحل، ہیکلِ مشتری، ہیکلِ مریخ، ہیکلِ شمس تھی نیززہرہ، عطارد اورقمرکی ہیکل بھی اسی میں تھی۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ صابئین نے ہر ستارہ کے لیے علیحدہ ہیکل تعمیر کیاہوا تھااور ان سب میں اس بات کا بھی خصوصی طور پر خیال رکھا گیا تھا کہ ہر ایک ہیکل ان کے نزدیک معتبر تصویر کے مطابق ہی تعمیر ہو اور انہوں نے ان سب کے لیے مختلف النوع عبادات بھی قائم کررکھی تھیں۔
کتب تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤرخین نےان کےعقائدکےمتعلق تفصیلات قلمبند کی ہیں چنانچہ ابن حزم اندلسی نےصابئین کے عقائد کےحوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
يعبدون الكواكب ويصورون الأصنام على صورها وأسمائها في هياكلهم ويعيدون لها الأعياد ويذبحون لعا الذبائح ويقربون لها القرب والقرابين والدخن ويقولون أنها تعقل وتدبر وتضر وتنفع ويقيمون لكل كوكب منها شريعة محدودة.52
وہ ستاروں کی پرستش کرتےتھے،ان کی شکلوں میں بت تراشتےاوران کےناموں پرعبادت خانے بناتے تھے، ان کی مناسبت سےعیدیں مناتے، ان کےلیے ذبح کرتے، ان کا قرب حاصل کرنےکےلیے قربانیاں پیش کرتےاوربخور(اگربتیاں)جلاتےتھے، ان کاکہناتھاکہ یہ ستارےعقل رکھتےہیں،تدبیر کرتے،نفع ونقصان پہنچاتےہیں اوران میں ہرستارےکی ایک محدودشریعت ہے۔
ان کےعقائد کے مطابق زہرہ، عطارد،چاند،زحل،مشتری،مریخ، آفتاب جس کا دوسرانام قادوش یعنی
مذکورہ تفصیلات کا خلاصہ یہ ہوا کہ صابئین کی دو اقسام تھیں جو موحدین ومشرکین میں تقسیم تھیں ،عرب میں موجود صابئین مشرکین تھےاور اپنے ماقبل آباءواجداد کی ہی پیروی کیاکرتےتھے۔ غالب گمان یہی ہے کہ جاہلی عرب کے صابئین بھی ستارہ پرستی میں مذکورہ عقائد کےہی حامل تھے اور ستاروں کو ہی نجات دہندہ سمجھتے تھے اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ اسلام اور اہلِ کتاب کے ساتھ ساتھ صابئین کو بھی اس فیصلہ میں شامل فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان کے ساتھ ساتھ عملِ صالح کرنے پر نجات مل سکتی ہے۔اس سے واضح ہوا کہ عرب جاہلی میں دیگر مذاہب کی طرح صابئین بھی موجود تھے جو باطل عقائد کے حامل تھے اور انہیں بھی نجات یافتہ ہونے کےلیے شرائطِ مذکورہ پر عمل پیرا ہونا ضروری تھا۔
زمانۂ جاہلیت میں بعض عرب دیگر اشیاء کی طرح درختوں کی پرستش بھی کرتےتھے،ان پرچڑھاوےچڑھاتے، تحفےتحائف پیش کرتےاوربطورِعیدسالانہ تہوار منعقدکرتےتھے۔تاریخی دستاویزات میں ان کےبارےمیں مؤرخین نےتحریرکیاہے:
عبادة الشجر، وهي عبادة شائعة معروفة عند الساميين. وقد أشار "ابن الكلبي" إلى نخلة "نجران"54 وهي نخلة عظيمة كان أهل البلد يتعبدون لها، "لها عيد في كل سنة. فإذا كان ذلك العيد علقوا عليها كل ثوب حسن وجدوه وحلي للنساء، فخرجوا إليها يوما وعكفوا عليها يوما55 "ومنها العزى وذات أنواط"، ذات أنواط: شجرة خضراء عظيمة، كانت الجاهلية تأتيها كل سنة تعظيما لها،56 فتعلق عليها أسلحتها وتذبح عندها، وكانت قريبة من مكة57 وذكر أنهم كانوا إذا حجوا، يعبقون أرديتهم عليها، ويدخلون الحرم بغير أردية، تعظيما للبيت، ولذلك سميت "ذات أنواط".58
درخت کی پوجا:سامی عربوں کےہاں درختوں کی پرستش مشہوروعام تھی،ابن کلبی نے نجران کے ایک درخت کی طرف اشارہ کیا کہ وہ درخت اہلِ علاقہ کےہاں بہت عظمت والاتھا،ہرسال اس کی عیدہوتی تھی، جب وہ عید آتی تو حسبِ استطاعت اس پراچھےکپڑےاورعورتوں کےزیورڈال دیتے، مخصوص دن اس کےپاس جاکرپورادن اعتکاف کرتے۔ ان ہی میں سےعزیٰ اورذاتِ انواط بھی تھے۔ ذاتِ انواط ایک عظیم ہرابھرادرخت تھا، ہرسال اہلِ جاہلیت اس کےپاس آتے،اپنااسلحہ اس کی شاخوں سےلٹکادیتے اوراس کےپاس جانورذبح کرتےتھےچونکہ یہ مکّہ کےقریب تھاچنانچہ ذکرہواکہ جب وہ حج کرتےتواپنی چادریں اس پرلٹکادیتےاورتعظیمِ حرم کی خاطر بغیرچادروں کے حرم میں داخل ہوتے،اسی لیےیہ درخت ذاتِ انواط کہلاتاتھا۔
زمانہ جاہلیت میں درختوں کی پوجا کےساتھ ساتھ اہلِ عرب کے ہاں ان سےرشتہ داری بھی قائم کی جاتی تھی، جیسا کہ درج ذیل اقتباس سے اشارہ ملتا ہے:
أما الشجر فلم يكن أقل شأنًا في حياة العرب الاجتماعية، فكان العربي يجعل القرابة بينه وبين النخل كما روي عن النبي صلي الله عليه وسلم: "أكرموا عماتكم النخل" وقال القزويني: إنما سماها عماتنا لأنها خلقت من فضلة طينة آدم عليه السلام59 وأما الضمير في عماتكم فيدل على أن النبي صلي الله عليه وسلم أراد به إظهار عقلية الجاهلية فكلم الناس على قدر عقو لهم.60
البتہ عرب (جاہلیت)کی معاشرتی زندگی میں درخت بھی کم شان والےنہ تھے، دیہاتی شخص اپنے اوردرخت کےمابین رشتہ داری قائم کرلیتاتھاجیساکہ نبی کریمﷺ سےایک روایت بیان ہوئی کہ"اپنی پھوپھو کھجورکااحترام کرو"،مؤرخ قزوینی کہتےہیں: آپﷺنےاسے ہماری پھوپھو فرمایاکیونکہ وہ حضرت آدمکی(تخلیق کے بعداس) بچے ہوئے گارےسےپیداکی گئی ہے( جس مٹی سے خود آدمکی تخلیق ہوئی تھی)جبکہ"عماتکم" کی ضمیر اس کی دلیل ہےکہ نبی اکرمﷺ نے اس کلام کےذریعے جاہلی عرب کی(کھجور کے متعلق) عقلیت کااظہارفرماکرلوگوں سےان کی عقلوں کےمطابق کلام کیا۔
حدیث مبارکہ کےبیان سےیہ مراد نہیں کہ موجودہ زمانہ میں کھجورکوانسانوں کی"پھوپھو" بتایاجائےبلکہ اس کے بارے میں صاف توضیح ہےکہ حضورﷺکا ایسا فرماناکھجورکابےبہا سودمندہونےکی وجہ سے تھا تاکہ اس کا خیال رکھاجائے اور ضائع ہونے سے بچایاجائے۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملا کہ اہلِ عرب کے ہاں جاہلی دور میں کھجور سے قرابت داری روا تھی جس کی بنا پر نبی مکرمﷺ نے یہ ا لفاظ ارشادفرمائے۔
عرب جاہلی میں اہلِ عرب کے ہاں درختوں سے انتہائی گہرا لگاؤ تھا اور یہی وہ سبب تھاجس بنا پر ان میں درختوں کی پوجا رائج تھی۔ اسی وجہ سے نبی مکرمﷺ نے چند مخصوص درختوں کو کاٹ دینے کاحکم صادرفرمایا جیساکہ انواط نامی درخت کےبارےمیں روایت منقول ہوئی۔روایت میں اسی درخت کاحوالہ دیتے ہوئے صحابہ کرامکا سوال اور آپﷺکا جواب بھی منقول ہے جس کو نقل کرتے ہوئے امام ازرقی اپنی کتاب میں روایت کرتے ہیں:
فرأينا يوما ونحن نسير مع النبي صلي الله عليه وسلم شجرة عظيمة خضراء، فسايرتنا من جانب الطريق، فقلنا: يا رسول الله، اجعل لنا ذات أنواط كما لهم ذات أنواط فقال لهم رسول الله صلي الله عليه وسلم: الله أكبر، الله أكبر، قلتم والذي نفس محمد بيده كما قال قوم موسى: (اجعل لنا إلها كما لهم آلهة قال إنكم قوم تجهلون) «إنها السنن، سنن من كان قبلكم».61
ہم نے ایک دن نبیﷺ کے ساتھ چلتے ہوئے ایک گھنا اور ہرا بھرادرخت دیکھا جو راستہ کے کنار ے ساتھ ساتھ (موجود)تھا، ہم نےعرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذاتِ انواط مقرر فرما دیجیے جیسا کہ مشرکین کا ایک ذاتِ انواط ہے؟تورسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ اکبر! اللہ اکبر! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تم نےوہی بات کہی جو موسیٰ کی قوم نے کہی تھی کہ "ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجیے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے تو موسیٰ نے کہا کہ تم جاہل قوم ہو"یہ تم سےپہلےگزری اقوام کی عادات ہیں۔
اس سے واضح ہوا کہ عرب جاہلی میں ان درختوں سے انتہائی گہرا لگاؤ تھا اور اسی وجہ سے نبی مکرمﷺ نے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔اس پر مستزاد یہ کہ اس طرح کہ درختوں کو کاٹنے کا حکم فرمایا چنانچہ منقول ہوا کہ حضرت خالد بن ولید کو باقاعدہ اس کا حکم فرمایاکہ بطنِ نخلہ میں موجود خاص تین درختوں کو کاٹو اور مجھے خبردو،خالد بن ولید نے یکے بعد دیگرے دو درخت کاٹے اور رسول مکرمﷺکو اس کی خبر دی اور ہربار نبیﷺ نے پوچھا کٹتے ہوئے کچھ عجیب دیکھا تو آپنے ہر بار منع کیا لیکن تیسرے درخت کو کاٹنے کےبعد نبی مکرمﷺکے دریافت فرمانے پر عرض کی وہاں ایک جنی کودیکھا،جس کے بال بکھرے تھے،پستان کندھوں پر تھے،دانت پیس رہی تھی تو میں نے اس کے سر پر حملہ کیا اور درخت کاٹ دیا۔نبی مکرمﷺنے یہ سن کر فرمایا کہ آئندہ عرب میں یہ نہیں ہوگی۔62
عرب جاہلیت نے بعض جانوروں کوبھی درجۂ الوہیت دیاہواتھا،یہ ان کی پرستش کرتےاوران کی مدح وتوصیف بیان کرتےتھے۔ ان کےمتعلق مؤرخین کا بیانیہ نقل کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی تحریر کرتےہیں:
وتعبد بعض أهل الجاهلية لبعض الحيوانات فقد ورد أن جماعة الشاعر "زيد الخيل"، وهم من طيء، كانوا يتعبدون لجمل أسود فلما وفد وفدهم على الرسول،63 قال لهم: "ومن الجمل الأسود الذي تعبدونه من دون الله عز وجل"64 وورد أن قوما كانوا بالبحرين عرفوا "بالأسبذيين"، كانوا يعبدون الخيل65 ذكر أنهم قوم من المجوس، كانوا مسلحة لحصن المشقر من أرض البحرين66 فهم فرس وأن بعض القبائل مثل "إياد"،67 كانت تتبرك بالناقة.68
اوربعض اہل جاہلیت کچھ جانوروں کی پرستش کرتےتھے۔روایات میں ہےکہ شاعر"زید الخیل"کاگروہ جوطئ سےتھا، کالےاونٹ کی پوجاکرتاتھا۔پس جب ان کا وفدرسول کریمﷺ کی بارگاہ میں آیاتو آپﷺ نے ان سےفرمایا:(میں) اس کالےاونٹ سے ( بہتر ہوں) جس کی تم خداکےسوا پرستش کرتے ہو۔ روایات میں ہےکہ بحرین میں"الاسبذ"نامی ایک مشہورقوم تھی جوگھوڑوں کی عبادت کرتی تھی۔مذکورہےکہ وہ مجوس میں سےتھی اوربحرین کےقلعۂ مشقر کی مسلحہ محافظ تھی، پس وہ فارسی تھے۔ اسی طرح بعض دیگر قبائل جیسے"ایاد"اونٹنی سےتبرک حاصل کیا کرتے تھے۔
ایک عربی مؤرخ نےابن سعد کی طبقات الکبری سے روایت کیا ہےکہ بنی بکر اونٹ کےبچے کی پرستش کرتے تھے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
ومن ذلك ما كان من عمرو بن حبيب الموصوف "بذي الكيود" أي كثير الكيود، وهو آكل السقب، وذاك إنه أغار على بني بكر ولهم سقب يعبدونه فأخذ السقب فأكله69 كانوا يعبدونه من دون الله فأراد إغاظتهم فنحره وأكله.70
اسی(حیوان پرستی کے) ضمن میں عمروبن حبیب ذی کیودیعنی تدبیرسازاورسقب (اونٹ کا بچہ)کھانے والامشہورتھا، وہ ایسے کہ اس نےایک مرتبہ بنی بکرپرحملہ کیا،ان کےہاں ایک اونٹ کا بچہ معبود تھا اس نے اس پرقبضہ کرکےکھالیا۔وہ(بنوبکر)اللہ تعالیٰ کےسوااس کی عبادت کرتےتھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کاغضب بھڑکانا چاہتا تھا اسی لیے اس اونٹ کے بچے کو کاٹ کرکھالیا۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ اہلِ عرب میں جانوروں کی پرستش کا بھی رواج تھا اور یہ طریقہ بعض قبائل میں خصوصی طور پر مروج تھا۔
عہدِ جاہلیت کےعرب کےہاں مظاہر قدرت میں آگ کوبھی مقامِ معبودیت حاصل تھااسی لیے عہدِ جاہلیت کےبعض عرب آگ کی پوجابھی کیاکرتےتھے۔ ایسے لوگ عربوں میں متفرق تھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہب ایرانیوں اور مجوسیوں کے ذریعے ان میں سرایت کر گیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ آگ کی پرستش دنیا میں قابیل کے زمانہ سے چلی آ رہی ہےجیسا کہ ابو جعفر بن جریر نے ذکر کیا ہے کہ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کر ڈالا اور اپنے باپ آدم سے بھاگا تو ابلیس نے اس کے پاس آکر کہا:ہابیل کی قربانی اس لیے قبول کی گئی اور آگ نے اسےاس لیے کھا یا کیونکہ وہ آگ کی خدمت اور پوجاکیا کرتا تھالہٰذا تو بھی آتش کدہ تعمیر کر دے جو تیرے اور تیری اولاد کے لیےہو ۔ اس پر اس نے ایک آتش کدہ بنا دیا لہٰذا قابیل وہ پہلا شخص ہے جس نے آتش کدہ بنایا اور اس کی عبادت کی۔ پھر یہ مذہب مجوسیوں میں سرایت کر گیا اور انہوں نے آگ کے لیے بہت سے گھر بنائےاور اس کے لیے وقف، محافظ اور دربان مقرر کیے۔آتش پرست آگ کو مٹی سے افضل سمجھتے ہیں ،اس کی تعظیم کرتےہیں اور ابلیس کی رائے کو صحیح قرار دیتے ہیں۔71بشار بن برد کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اس مذہب کا قائل تھا کیونکہ اس نے ایک قصیدہ میں یہ شعرکہا تھا:
الارض سافلة سوداء مظلمة
والنار معبودة مذ كات النار.72
زمین نیچے کو جانے والی سیاہ اور قالین ہے اور آگ کی پوجا تو اس زمانے سے ہوتی چلی آئی ہے جب سے آگ موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آگ کی برکات تمام عناصر کی برکات کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے۔ اس کا جسم سب سے بڑا ہے، اس کی منزلت زیادہ وسیع ہے، اس کا جوہر زیادہ شرف والا ہے اور جسم زیادہ لطیف ہے۔ دنیا میں ہرچیز کا وجود اسی کی بدولت ہے،اس کے امتزاج کے بغیر نہ نشونما ہو سکتی ہے اور نہ کوئی چیز وجود میں آ سکتی یا ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ 73
مسعودی آگ سےمتعلق ان کےعقائدذکرکرتےہوئے لکھتےہیں:
جب ان سے آگ پرستی کےبارے میں سوال کیا جاتاتو وہ کہتے: آگ جو نار ہے وہ خالقِ کائنات اور اس کی مخلوق کے درمیان ایک واسطہ ہے جو نوری اشیاء میں بھی شمار ہوتی ہے۔ انہوں نے نور کے بھی درجات اور مراتب مقرر کر رکھے تھے۔ وہ نار و نور کے طبائع میں فرق بھی بیان کرتے، آگ کے متعلق وہ کہتے کہ اس میں جاذبیت ہے، مثال میں وہ اس طائر کو پیش کرتے جو رات کے وقت اپنے چہار جانب آگ محسوس کرتا ہے اور اس کی جاذبیت کی بناء پر اس میں جل کر بھسم ہو جاتا ہے، وہ اس سلسلے میں شمع و پروانے کی مثال بھی دیتے۔ نور میں وہ کل کائنات کی بھلائی کےقائل تھے، انہوں نے عناصر کے مراتب پر بھی اظہارِ خیال کیا تھا۔ وہ آگ کے متعلق کہتے تھےاسے ظلمت پر ترجیح ہے اس لیے وہ قابلِ تعظیم ہے۔74
مسعودی کےبیان سے یہ واضح ہوجاتاہےکہ آگ سےمتعلق جاہلی عرب کےعقائدایرانی مجوسیوں کےعقائد سےخوب مطابقت رکھتے تھے چنانچہ محمودشکری کی رائے کےمطابق عرب میں آگ پرستی ایران سےہی آئی تھی۔وہ لوگ آگ کی پرستش کیسےکرتےتھےاوران میں ان کےکتنےگروہ تھے؟اس حوالہ سے منقول ہے کہ اس کی عبادت کا طریقہ یوں تھا کہ یہ لوگ اس کے لیے ایک مربع (چوکور)گڑھا زمین میں کھودتے اور اس کے گرد چکر لگاتے۔ آتش پرستوں کی کئی قسمیں تھیں چنانچہ ان میں سے ایک فرقہ وہ تھا جو آگ میں کسی نفس کو ڈالنے اور آگ سے بدن کے جلنے کو حرام قرار دیتا تھا اور بیشتر مجوسی اسی عقیدے کے پیرو تھے۔آتش پرستوں کا ایک اور فرقہ تھا جو اس کی پوجا کرنے میں اس حد تک چلے گئے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو آگ پر قربان کر دیتے تھے۔75جاہلی عرب کےمجوسیوں کےبارےمیں ابن قتیبہ نے المعارف میں لکھاکہ مجوسیت کا رواج بنو تمیم میں تھا۔ زرارہ بن عُدُس التمیمی اور اس کا بیٹا حاجب بن زرارہ اسی میں سے تھا۔ اس نے اپنی بیٹی سے شادی کرلی تھی مگر بعد میں نادم ہوا۔ ان ہی میں سے اقرع بن حابس تھا وہ بھی مجوسی تھا۔ وکیع بن حسان کا دادا ابوالاسود بھی مجوسی تھا۔76
مظاہرِکائنات میں مذکورہ بالااشیاء کےعلاوہ بھی کئی ایک ظاہری چیزیں تھیں جن کی جاہلی عرب تقدیس وعبادت کرتےتھے۔جیسےان کا عقیدہ تھا کہ غاروں میں مافوق الفطرت طاقتیں رہتی ہیں لہٰذا وہ انہیں بھی مقدس مانتے تھے۔ نخلہ میں ایک غار "غبغب" تھاجسے وہ بہت ہی مقدس مانتے تھے۔ کہا جاتا ہےکہ اسی غار میں عزی کے نام پر بھینٹ چڑھائی جاتی تھی جبکہ ایک اور روایت کے مطابق یہاں پر صرف اونٹوں کی قربانی دی جاتی تھی۔ ریگستانوں میں صاف و شفاف پانی کا قحط ہوتا تھا اسی لیے جاہلِ عرب میٹھے پانی کے چشمو ں او ر کنوؤں کو مقدس مانتے تھے۔ چاہِ زمزم اور چاہِ عروہ کو عرصہ دراز سے تقدس حاصل تھا۔ یاقوت کے مطابق لوگ چاہِ عروہ کا پانی لے کر اپنے دوستوں اور عزیزوں کو تحفے کے طور پر دیتے تھے۔77
عربِ جاہلیت کی نظروفکر پسماندگی کی پستیوں میں کھوچکی تھی، یہی نہیں بلکہ بعض عرب نے مظاہر پرستی کےعلاوہ فرشتوں، جنات اورنورو ظلمت کےبارےمیں بھی عقائدگھڑے ہوئےتھےاگرچہ ملائکہ وجنات اورنورو ظلمت کاشمارحقیقی مظاہر میں نہیں ہوتا مگرحكمی طورپریہ بھی مخلوق ہونےکی بناپرمظاہرمیں شامل ہیں لہٰذا یہاں ان کا بھی ذکرحسبِ ذیل ہے:
مظاہر پرستوں میں سے بعض وہ لوگ بھی تھے جو ملائکہ پرستی میں بھی مبتلا تھے البتہ ایسےلوگ عربوں میں چیدہ چیدہ پائے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے درج ذیل فرمان میں ان کی تردید فرمائی:
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ 40قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُونِهِمْ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُؤْمِنُونَ 4178
اور جس دن وہ سب کو ایک ساتھ جمع کرے گا پھر فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا: کیا یہی لوگ ہیں جو تمہاری عبادت کیا کرتے تھے، وہ عرض کریں گے: تو پاک ہے تو ہی ہمارا دوست ہے نہ کہ یہ لوگ، بلکہ یہ لوگ جنات کی پوجا کیا کرتے تھے، ان میں سے اکثر اُن ہی پر ایمان رکھنے والے ہیں۔
اوراسی طرح ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ 17 قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا 18فَقَدْ كَذَّبُوكُمْ بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا وَمَنْ يَظْلِمْ مِنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا 19 79
اور اس دن اللہ انہیں اور ان کو، جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے، جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: کیا تم نے ہی میرے ان بندوں کو گمراہ کر دیا تھا یا وہ (خود) ہی راہ سے بھٹک گئے تھے، وہ کہیں گے: تیری ذات پاک ہے ہمیں (تو) یہ بات (بھی) زیبا نہ تھی کہ ہم تیرے سوا اوروں کو دوست بنائیں (چہ جائے کہ ہم انہیں تیرے غیر کی عبادت کا کہتے) لیکن (اے مولا!) تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو (دنیوی مال و اسباب سے) اتنا بہرہ مند فرمایا، یہاں تک کہ وہ تیری یاد (بھی) بھول گئے، اور یہ (بدبخت) ہلاک ہونے والے لوگ (ہی) تھے، سو (اے کافرو!) انہوں نے (تو) ان باتوں میں تمہیں جھٹلا دیا ہے جو تم کہتے تھے پس (اب) تم نہ تو عذاب پھیرنے کی طاقت رکھتے ہو اور نہ (اپنی) مدد کی، اور (سن لو!) تم میں سے جو شخص (بھی) ظلم کرتا ہے ہم اسے بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
اسی طرح عرب میں کچھ لوگ جن پرستی میں مبتلا تھےاور ان پر ایمان رکھتے تھے،یہ بادیہ نشینوں کی جماعت تھی جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں یوں فرمایاہے:
بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُؤْمِنُونَ41 80
بلکہ یہ لوگ جنات کی پوجا کیا کرتے تھے، ان میں سے اکثر اُن ہی پر ایمان رکھنے والے ہیں۔
اسی طرح ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ نے یوں ارشادفرمایا:
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَابَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ 60وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ 61 81
اے بنی آدم! کیا میں نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پرستش نہ کرنا، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، اور یہ کہ میری عبادت کرتے رہنا، یہی سیّد ھا راستہ ہے۔
آیتِ مذکورہ کا اسلوب اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ قرآن کے مخاطبین غیرمسلمین، شیطان اور اس کے حواریوں کی عبادت وپرستش میں لگے ہوئے تھے تو انہیں اس طرح تنبیہ فرمائی گئی۔اسی مفہوم سے ملتی جلتی ابن مسعود سے ایک روایت بھی منقول ہے جس کو ذکر کرتے ہوئے امام مسلم نقل کرتے ہیں:
عن عبد الله بن مسعود "أولئك الذين يدعون يبتغون إلى ربهم الوسيلة" قال: نزلت في نفر من العرب كانوا يعبدون نفرا من الجن، فأسلم الجنيون والإنس الذين كانوا يعبدونهم لا يشعرون.82
عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے، "أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ" (یعنی وہ لوگ جن کو یہ پکارتے ہیں اپنے مالک کے پاس وسیلہ ڈھونڈتے ہیں) اس وقت نازل ہوئی جب بعض آدمی چند جنوں کی پرستش کرتے تھے، وہ جن مسلمان ہو گئے اور ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ ہوئی وہ لوگ ان کو پوجتے رہے۔
یہ اہلِ عرب نہ صرف ان کی عبادت کرتے تھے بلکہ ان سے حد درجہ ڈرتے بھی تھے۔ اس ڈر کا یہ عالم تھا کہ وہ ان سے پناہ دینے کی درخواست کرتے کیونکہ جب کوئی شخص کسی ویرانے میں ہوتا تو کہتا: میں اس وادی کے سردار کے پاس اس کی قوم کے بیوقوفوں کے شرسے پناہ لیتا ہوں۔اہلِ عرب کی اس حالت کو باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا:
وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا 683
اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض اَفراد کی پناہ لیتے تھے، سو اُن لوگوں نے اُن جنات کی سرکشی اور بڑھا دی۔
یعنی ان انسانوں کے جنات سے پناہ لینے کی وجہ سے جنات کی سرکشی میں اضافہ ہوا اور وہ نافرمانی و طغیانی میں تجاوز کرتے چلے گئے۔فرشتوں اورجنوں کےبارےمیں ان کےتصورات کایہ عالم تھاکہ ان ہی کی عبادت کرنےلگے، اسی طرح نوروظلمت کےمتعلق بھی ان کی آراء کچھ زیادہ مختلف نہیں تھیں کیونکہ دونوں میں شرک خطِ مشترک تھا۔نوروظلمت کےبارےمیں توان کےعقائد کا باقاعدہ فرقہ بھی تاریخ میں گزراہےجوزنادقہ یا ثنویت کےنام سےمشہورہوا۔
زنادقہ کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب قاموس تحریرکرتے ہیں:
الزنديق، بالكسر: من الثنوية، أو القائل بالنور والظلمة، أو من لا يؤمن بالآخرة وبالربوبية، أو من يبطن الكفر ويظهر الإيمان، أو هو معرب: زن دين، أي: دين المرأة، ج: زنادقة أو زناديق، وقد تزندق، والاسم: الزندقة.84
الزِندیق (کسرہ کے ساتھ) یہ دو خداؤں کو ماننے والوں میں سے تھے یا وہ لوگ تھے جو نور اور ظلمت (کی خدائی) کے قائل رہے یاوہ جو آخرت اور ربوبیت پر ایمان نہیں رکھتے یا وہ جو درپردہ کافر ہوں اور بظاہر مؤمن، یا یہ لفظ"زن دین" یعنی "عورت کا دین" سے معرب ہے ،اس کی جمع زنادقہ یا زنادیق آتی ہے اور اسی سے اسم زندقہ ہے۔
یہ فرقہ جہان کے دو خالق مانتا تھا۔ ایک خیر اور نور کا اور دوسرا شر اور ظلمت کا البتہ یہ فرقہ قریش قبیلہ میں تھا چنانچہ ابن قتیبہ نے معارف میں اس فرقہ کا ذکر یوں کیا :
وكانت الزندقة في قريش، أخذوها من الحيرة.85
قریش میں کچھ لوگ زندیق تھے جنہوں نے اس مذہب کو حیرہ سے لیا تھا۔
ابن قتیبہ نے فقط اتنا ہی ذکر کیا ہے اور اس فرقہ کے عقائد کا کچھ ذکر نہیں کیا۔ قرینِ قیا س یہ ہے کہ حیرہ چونکہ بلادِفارس میں واقع تھا اور اس میں جو عرب رہتے تھے وہ پارسی دین رکھتے تھے یا عیسائی پس جو عقائد حیرہ سے ماخوذ ہوں گے وہ لا محالہ پارسی ہوں گے کیونکہ عیسائی عقائد والوں کو زندیق کہنے کے کوئی معنی نہیں۔ غرض ابن قتیبہ کی تحریر سے ثابت ہوتا ہےکہ عرب میں یہ مذہب پارس سے آیا تھا اور چونکہ پارسیوں کے عقائد میں سب سے مقدم یہ عقیدہ ہے کہ وہ خیر و شر کے علیحدہ علیحدہ دو خالق مانتےہیں، ا س لیے اس فرقہ کا یہ عقیدہ لکھا گیاہے کہ وہ دو خالق مانتا تھا۔86
ان کے عقائد میں ہے کہ بنانے والے دو ہیں خیر کا بنانے والانور ہے اور شر کا ظلمت، یہ دونوں قدیم، ازلی اور ابدی ہیں، قوی ہیں، حساس ہیں، ادراک کے مالک ہیں، سمیع ہیں اور بصیر ہیں۔ یہ دونوں اپنی ذات میں مختلف اور فعل و تدبیر میں ایک دوسرے کی ضد ہیں چنانچہ نور صاحبِ فضیلت، خوبصورت، صاف، خوشبودار اور خوش منظرہے، اس کی ذات نیک، رحیم، کریم اور نفع رساں ہے، اسی سے نیکیاں، مسرتیں اور اچھائیاں صادر ہوتی ہیں، اس میں کسی قسم کا ضرر نہیں پایا جاتا اور ظلمت اس کے بر عکس ہے یعنی اس میں گدلا پن، نقص، بدبو اور بدصورتی ہے، اس کا نفس شریر، بخیل، بےوقوف، بدبودار اور ضرر رساں ہیں۔ اس سے شر اور فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ مختلف ہو جاتے ہیں چنانچہ ایک گروہ کہتا ہے: نور ازل سے تاریکی سے بالا رہا ہے۔ دوسرا فرقہ کہتا ہے: ہر ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو ہے۔ ایک اور فرقہ کہتا ہے: نور ہمیشہ شمال کی جانب اٹھتا رہتا ہے اور ظلمت جنوب کی جانب نیچے کو جاتی رہتی ہے،یہ ازل سے ایک دوسرے کے مخالف چلے آئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے چار بدن ہیں اور پانچواں روح چنانچہ نور کے چار بدن ماء، نور، ہوا اور پانی ہیں جبکہ روح جاری پانی ہے نیزیہ ان چاروں بدنوں میں ازل سے متحرک چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح ظلمت کے چار بدن آگ، اریکی، بادِسموم اور کہر ہیں، اس کی روح دھواں ہے۔ انہو ں نے روح کے بدنوں کا نام ملائکہ رکھا ہے اور ظلمت کے بدنوں کا نام شیاطین اور بھوت۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں: ظلمت سے شیاطین پیدا ہوتے ہیں اور نور سے ملائکہ۔ نور نہ شر پر قدرت رکھتا ہے اور نہ اس سےشر پیدا ہو سکتا ہے۔ شر نہ خیر پر قدرت رکھتا ہے اور نہ اس سے خیر سرزد ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں کے نہایت عجیب عقائد تھے۔ ان پر عمر کے ساتویں حصے کے روزے فرض تھے،ان کی شریعت یہ تھی کہ کوئی بھی ایک دن کی خوراک سے زیادہ ذخیرہ نہ کرے، جھوٹ، بخل، سحر اور بُتوں کی پرستش، زنا اور چوری سےپرہیز کرے۔ 87
زمانۂ جاہلیت کےعرب کےمذکورہ بالا عقائدونظریات سےروزِ روشن کی مانند یہ ثابت ہوگیاکہ ان کےہاں معتقدات اگرچہ مختلف تھےمگران کی زندیقیت، مجوسیت، اجرام پرستی و دیگر نظریات کےپیچھےقربِ الہی کے حصول کا تصورہمیشہ سےموجودرہا، جس کےقرب کےلیے انہوں نے مختلف حیلے بہانےاپنائے، قربانیاں پیش کیں، نذرانےچڑھائے،روزےرکھےمگر درست سمت سےہٹ کرسرگرداں رہے، حالانکہ دینِ حنیف ہی ان کی اصل جائے پناہ تھی جس سےانحراف کی بدولت انہیں ذلت ورسوائی کی خاک چھانناپڑی۔ اس کاواضح ثبوت ان کااپنےہاتھوں بنائے ہوئے پتھرولکڑی کےبُتوں کےآگےسجدریز ہوناتھا۔گمراہی کی ان زنجیروں کوکاٹنےاورانہیں کفروالحاد کی شرکیہ قیدسےآزادکروانےکےلیےہی اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی مکرم شافعِ روزِمحشرﷺکودینِ مبین اسلام کےساتھ مبعوث فرمایا۔جس کی بدولت انہیں دینِ حنیف کی طرف لوٹنےکا موقع ملااوروہ اسلام قبول کرنےکےبعد عالمِ انسانیت کےلیے نشان راہ بنے۔