خطۂِ عرب میں یہودیوں کےورود و وجود کی تاریخ کے تانے بانے حضرت ِ موسیٰ کے عہد یعنی تیرہویں صدی قبل مسیح سے جوڑے جاتے ہیں تاہم کئی مؤرخین پانچ سو چھیاسی 586قبل مسیح میں بخت ِ نصر کے بیت المقدس پر حملے اور ہیکل ِ سلیمانی کی شہادت کو اس کا نقطۂِ آغاز قراردیتے ہیں۔ جیوش انسائکلوپیڈیا (Jewish Encyclopedia) جو کہ عہدِ حاضر کی اہم یہودی دستاویز ہے، وہ بھی اسی نظرئیے کی تائید و توثیق کرتی نظر آتی ہے۔ قوم ِ یہود ذلت و رسوائی کا شکار ہونے کے بعد بخت ِ نصر کے قہر و غضب سے بچنے کے لیے مہاجرین کے روپ میں خطۂِ عرب کے بے آب و گیاہ ریگزار وں میں داخل ہوئے ۔ان میں سے کچھ نے تو یمن کےلیے رخت ِ سفر باندھا تاہم کچھ قبائل نےیثرب و خیبر کے سرسبز علاقوں کو ہی اپنا مسکن بنا لینے کا فیصلہ کیا اور یہاں آباد ہوگئے۔ کچھ ہی نسلوں کے بعد یہ مہاجر یہودی قبائلِ عرب کے رنگ ڈھنگ اور تہذیب و تمدّن میں ڈھل چکے تھے۔ ان کا لباس، کھانا، رہن سہن، طور طریقے حتی کے ان کے نام تک خطۂِ عرب کےقالب میں ڈھل گئے۔ عرب میں آباد ہونے کے بعد انہوں نے اپنے میزبان عرب قبائل کا ہی استحصال شروع کردیا۔ اپنی تخریب کارانہ خصلت سے مجبور ان یہودی قبائل نے یثرب کےعربوں کےدرمیان نہ ختم ہونے والی جنگوں کاایک ایسا سلسلہ شروع کروا دیا جس نے تباہی و بربادی کی ایک بھیانک تاریخ رقم کی جس کی مثال نہیں ملتی۔
یہودیوں کی تاریخ میں یہ بات واضح طور پر مذکور نہیں کہ یہ عرب کے خطہ میں کب داخل ہوئے تھے البتہ
وقد انتشرت اليهود جماعات استقرت في مواضع المياه والعيون من وادي القري وتيماء وخيبر إلي يثرب فبنوا فيها الآطام لحماية أنفسهم وأرضهم وزرعهم من إعتداء الأعراب عليهم.2
گروہوں کی صورت میں یہودی وادی القریٰ، تیماء،خیبریہاں تک کہ یثرب(مدینۃ المنوّرہ) کےچشموں اورپانیوں والےمقامات میں پھیل گئے، انہوں نے وہاں پراپنی جان، مال، زمین ومحصولات کی بدولت عربوں کی زیادتیوں سےمحفوظ رہنے کے لئے محلّات وقلعےتعمیر کر لیے تھے۔
مدینہ اور خیبر کے یہودی جو عرب کے ان سرسبز علاقوں پر قابض ہوگئے تھے کاشتکاری کے علاوہ بعض اہم صنعتوں مثلاً اسلحہ سازی، آہنگری اور زرگری میں بھی ماہر تھے 3اس لیے انہوں نے کم ہی عرصے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔ بظاہر ان میں اور عرب لوگوں میں زیادہ فرق نہ تھا کیونکہ ان لوگوں نے عرب کے تمام رسوم و رواج کو اپنا لیا تھایہاں تک کہ ان یہودیوں کے نام بھی عربی تھے۔عرب میں یہودیت آہستہ آہستہ پھیلتی گئی لیکن اس کو عروج ذونواس کے دور یعنی چھٹی صدی عیسوی میں ملا ۔ 4
بعض مؤرخین کے نزدیک عرب میں پہلی بار یہودیت اور بالخصوص بنی اسرائیل کا آباد ہونا سیّدنا موسیٰ کے دور سے شروع ہواکہ جب آپ حج کے لیے اپنے لوگوں کے ساتھ مکّہ تشریف لائے اور حج بیت اللہ ادا فرمایا۔حج سے واپسی پر وہ یثرب (یعنی مدینہ منوّرہ) تشریف لے گئے۔یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ یہ اس نبی(ﷺ) کا شہر ہے جن کا ذکرِ خیر تورات میں یوں آیا ہے کہ" وہ خاتم النبیین ہوں گے" چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا اور وہ اس مقام پر ٹھہرے جہاں بعد میں بنوقینقاع کامشہورگاؤں آباد ہوا اور پھر دیگر کئی عربی قبائل بھی یہاں آباد ہوکران کے دین میں داخل ہوتے رہے اگرچہ یہ تعداد میں بہت کم تھے۔
اس حوالہ سے امام ابو الحسن سمہودیحضرت عمار بن یاسر کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپنے فرمایا:
بلغنا أنه لما حج موسيٰ صلوات ﷲ عليه حج معه أناس من بني إسرائيل فلما كان في إنصرافهم أتوا علي المدينة فرأوا موضعها صفة بلد نبي يجدون وصفه في التوراة بأنه خاتم النبيين فاشتورت طائفة منهم علي أن يتخلفوا به فنزلوا في موضع بني قينقاع ثم تألفت إليهم أناس من العرب فرجعوا علي دينهم فكانوا أول من سكن موضع المدينة.5
ہمیں معلوم ہوا کہ جب حضرت موسیٰ نے حج کیا تو ان کے ہمراہ بنواسرائیل کے کچھ لوگوں نے بھی حج کیا تھا اور جب ان کا واپسی کاارادہ ہوا تو وہ مدینہ پہنچ گئے، یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ یہ اس نبی کا شہر ہے جن کا ذکرِ خیر تورات شریف میں یوں آیا ہے کہ "وہ خاتم النبیین ہوں گے" چنانچہ ان لوگوں میں سے کچھ نے مشورہ کیا کہ یہاں کچھ انتظار کریں چنانچہ وہ بنوقینقاع کےمقام پرٹھہرگئےپھرعرب کے دیگر لوگ بھی ان سے آملےاوران کے دین کی طرف رجوع کرلیا ۔ یہ وہ لوگ تھے جو مدینہ میں سب سے پہلے ٹھہرے تھے۔
بعض مؤرخین کے نزدیک عرب میں یہودیت کا آغاز اس طرح ہوا ہے لیکن اس ضمن میں ایک ہی روایت ملتی ہے لہٰذا حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہودی حضرت موسیٰ کے دور سے ہی عرب میں آباد ہونا شروع ہوگئےتھے۔اس حوالہ سے دوسرا تاریخی واقعہ بھی منقول ہے جس کے مطابق جب بختِ نصر نے بیت المقدس پر حملہ کیا اور ہیکلِ سلیمانی کو شہید کیا تو اس وقت یہودیوں کے کچھ قبائل اس حملے سے بچ نکلے اور ہجرت کرکے یثرب میں آباد ہوگئے6جن سے بعد میں بھی کئی قبائل بن گئے اور یوں عرب میں یہودیت کو ان ہی قبائل سے فروغ ملا۔ 7
یہ باقاعدہ ایک بڑی تعداد میں یہودیوں کی ہجرت تھی اور تمام عرب میں یہودیت کو فروغ ملنے کا سبب بھی۔ یہودیوں کی یہ ہجرت بیت المقدس سے عرب علاقوں کی طرف دو مرتبہ ہوئی تھی : پہلی مرتبہ سات سو بائیس(722) قبل مسیح میں اور دوسری پانچ سو چھیاسی( 586) قبل مسیح میں ۔ 8جیوش انسائیکلوپیڈیا میں مذکور عبارت 9بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خطۂِ عرب میں یہودی پہلی بار اس وقت داخل ہوئے جب بختِ نصر نے ہیکلِ سلیمانی کو پہلی بار تباہ و برباد کردیا اور یہودیوں کو وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔
یہا ں اس امر کو بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ دونوں ہجرتیں یہودیوں نے اللہ اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری یا محبت کے لیے نہیں کیں اور نہ ہی اپنے ایمان کو دشمنوں سے بچانے کے لیے کی تھیں بلکہ مسلسل نافرمانیوں اور قتل انبیاء کے سبب ان کو ان کے شہروں سے ذلیل کرکے نکالا گیا اور ان لوگوں نے صرف اپنی جان بچانے کے لیے اس دور دراز اور بے آب و گیاہ خطہ کا رخ کیا تاکہ اپنے بچے کچے مال کے ساتھ سکون سے زندگی بسر کرسکیں۔ البتہ اس بات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ یثرب میں چند حنفاء بھی موجود تھے جو تورات میں مذکور پیش گوئی کے پورا ہونے کے انتظار میں یثرب تشریف لائے تھے اور ان کی ہجرت کسی حملہ سے متعلق بالکل نہیں تھی بلکہ محض اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے تھی۔
عرب میں آغازِ یہودیت کا پہلا دور یثرب اور اس کے آس پاس علاقوں تک ہی محدود تھا لیکن بعد میں عربوں میں یہودیت صرف ان ہی علاقوں تک محدود نہ رہی بلکہ یہ حجاز سے نکل کر عرب کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل چکی تھی بالخصوص یمن میں اس کو حکومتی سطح پر بھی منوا لیا گیا تھا۔ اس طرح اس کو حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہوگئی اور پھر یہودیت کوعرب کے اکثر علاقوں میں فروغ بھی مل گیاتھا۔یوں ظہورِ اسلام کے وقت دیگر مذاہب کی طرح رفتہ رفتہ یہودیت کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہو چکی تھی اگرچہ عیسائیت جتنی اہمیت تو حاصل نہ کرسکی تھی تاہم پھر بھی یہ عیسائیت اور بعض دیگر مذاہب کے شانہ بشانہ خطۂِ عرب کا ایک اہم مذہب بن چکی تھی۔ مدینہ طیبہ کے گرد و نواح سے لے کر خیبر تک کے علاقے میں یہودی کافی تعداد میں آباد تھے۔اقلیت ہونے کے باوجود یہودیوں نے اسلحے کی تجارت اور سودی قرضوں کے اصول پر کام کرنے والے بینکاری نظام کے ذریعے عربوں کے معاشی استحصال اور عرب قبائل کے درمیان باہمی انتشار و تفریق پیدا کرنےکی بدنام ِ زمانہ پالیسی اپنا کر یثرب کے قرب و جوارسے لیکر خیبر تک کے خطے میں کافی سیاسی و معاشی اثر و رسوخ حاصل کرلیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ یمن بھی یہودیوں کا عرب میں ایک اہم مرکز تھا۔ یمن میں یہودیت کے فروغ کا اہم سبب یمن کا بادشاہ تبع اسعد ابوکرب اور یہود کے دو ممتازمذہبی عالم تھےجن کی وجہ سے یہودیت کو یمن میں فروغ ملا یوں بعد میں کئی صدیوں تک یہودیت یمن کا سرکاری مذہب رہا ۔
کچھ اساطیر کے مطابق اسعد تبع یہودیت قبول کرنے والا پہلا حمیر ی حاکم تھا ۔روایت کے مطابق اسعد نے شمالی علاقوں پر بازنطینی تسلط کو کم کرنے کے لیے متعدد حملے کیے۔ جب وہ یثرب پہنچا تو وہاں اس نے بغیر کسی مزاحمت کے شہر پر قبضہ کرلیا۔ چند دنوں قیام کے بعد وہاں سے جاتے وقت اسعد نے اپنے بیٹے کو وہاں کا حاکم بنایا لیکن کچھ ہی دنوں بعد یثرب کے لوگوں نے اپنے حاکم کو قتل کردیا اور جب یہ خبر اسعد تبع تک پہنچی تو اس نے اپنی فوج کو لیا اور انتقام کی نیت سے یثرب کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ یثرب پہنچ کر اس نے وہاں کے تمام پھل دار درخت کٹوادیے جو کہ اہلِ یثرب کی معاش کا اہم ذریعہ تھے اور وہاں کا محاصرہ کرلیا۔10
محاصرہ کے دوران اسعد تبع علیل ہوگیا۔ موقع دیکھ کر دو یہودی علماء جن کے نام کعب اور اسد تھے اس بیمار حاکم تک پہنچ گئے اور اس سے محاصرہ ختم کرنے کی درخواست کی۔ 11ان علماء نے اس حاکم کو یہودیت کی تبلیغ بھی کی جس کو اسعد نے قبول کرلیا۔ 12کچھ روایات کے مطابق اسد اور کعب یہودی نہیں بلکہ حنفاء میں سے تھے اور انہوں نے اسعد تبع کو دینِ حنیف کی دعوت دی اور آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺکی نشانیاں تورات سے بیان کرکے ان کا تعارف بھی کرایا جس کے نتیجہ میں اسعد نے دین ِ حنیف کی دعوت قبول کرلی۔ 13تبع اپنے ساتھ ان علماء کو یمن واپس لے گیا تھا جہاں ان کی محنت سے یمن کے اکثر لوگوں نے دینِ حنیف قبول کرلیا تھا۔ بعد ازاں اسعد تبع ہندوستان کی طرف چلا گیا اور اس کے جانے کے بعد اس کے لوگوں نے دینِ حنیف کو چھوڑ کر یہودیت اختیار کرلی۔14اہلِ یہود اس روایت کی بڑی شد و مد سے مخالفت کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اس روایت کی حیثیت کسی دیومالائی کہانی سے زیادہ نہیں ہے لیکن تمام تر قوت لگانے کے باوجود اب تک اس روایت کو رد کرنے کے لیے ٹھوس دلائل نہیں دےپائے ہیں۔کچھ مؤرخین کے نزدیک اسد اور کعب کی محنت کے باوجود یمن کے تمام لوگوں نے یہودیت قبول نہیں کی تھی بلکہ ان میں سے آدھے لوگوں نے قبول کی تھی 15اور بقیہ لوگ مشرک ہی رہے تھے۔ 16یہاں ایک اور بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ یہودیوں کی اپنی تعلیمات کے مطابق کوئی بھی جینٹائیل(Gentile)یعنی نسلاً غیر یہودی کبھی بھی کسی بھی طرح سے ان کےمذہب میں داخل نہیں ہوسکتا لہٰذا اس چیز کا بھی امکان محال لگتا ہے کہ اسد اور کعب نے یہودیت کی دعوت دی ہو بلکہ لگتا یہی ہے کہ انہوں نے دین ِ حنیف کی دعوت دی ہوگی۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اسد اور کعب نے یہودیت ہی کی دعوت دی تھی تو اس بات کا ماننا لازم آتا ہے کہ اس وقت کے یہودیوں نے دنیاوی منفعت کے لیے یا بادشاہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنے مذہب کی تعلیمات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ کام کیا ہوگا کیونکہ یہودیت ایک غیر تبلیغی و غیر دعوتی مذہب رہا ہے جس کا سبب ان کا بنی اسرائیل کی افضلیت کے مقابلے میں غیر بنی اسرائیل کا نسلاً کم تر درجہ اور مرتبہ کا حامل سمجھناہے۔ ان کے نزدیک فضیلت کے معیار کا تعلق حسب و نسب اور خون و نسل ہے یعنی سوائے پیدائشی یہودی کے کوئی بھی شخص محض یہودی ہونے کے دعویٰ کی بنیاد پر افضل و اعلیٰ نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی کے عقیدہ بدل لینے سے اس کا حسب و نسب اور خون و نسل کا تعلق نہیں بدل سکتا ہے۔
ایک عربی مؤرخ اس واقعہ کی ایک اور تفصیل پیش کرتے ہیں جو کہ تھوڑی مختلف ہے۔ ان کے مطابق چونکہ اہلِ یمن میں سے اکثر مشرک، مجوسی اور سورج پرست تھے لہٰذا ان میں یہودیت کی تبلیغ کرنا اسعد تبع کے لیے کافی مشکل ثابت ہوئی 17لیکن جب یمن کے مشرکوں کا ان دو یہودی علماء کے ساتھ مناظرہ ہوا جو یثرب سے تبع کے ساتھ آئے تھے اور مشرکوں کو مناظرہ میں شکست ہوئی تو پھر تمام اہلِ یمن نے یہودیت کو قبول کرلیا۔ یوں یہودیت پورے یمن میں پھیل گئی اور یہودیت یمن کا سرکاری مذہب بھی بن گیا ۔18
مدینہ اور خیبر کے علاوہ طائف، مقنا، تیما، جرش اور وادی القریٰ میں ان کی بستیاں قائم تھیں۔اسی طرح یمن، عمان اور بحرین میں بھی یہودی پھیلے ہوئے تھے۔ یہ سب قلعہ بند محلوں میں رہتے جو معاشی نقطہ نظر سے خودکفیل تھے۔ خطرے کے وقت یہودی اپنے اپنے محلوں کے پھاٹک بند کرکے اندر بیٹھ جاتے اور کافی عرصے تک محض اندرونی ذرائع کی طاقت پر تکیہ کرکے دشمن کا مقابلہ کرتے تھے۔ظہورِ اسلام کے وقت عرب میں مشہور یہودی قبائل کے نام بنونضیر، بنومصطلق، بنوقریظہ، بنوقینقاع، بنی کنانہ، بنی کندہ،بنی الحرث بن کعب تھے چنانچہ امام ابن قتیبہعرب کے یہودی قبائل کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں:
وكانت اليهودية في حمير وبني كنانة وبني الحارث بن كعب وكندة.19
یہودیت، قبیلہ حمیر، بنی کنانہ، بنوحارث بن کعب اور قبیلہ کندہ میں تھی۔ 20
نیز اسی طرح محمود شکری آلوسی لکھتے ہیں:
وكانت اليهودية أيضاً في بني كنانة وكندة وبني الحرث بن كعب ولعلها سرت إليهم من مجاورة اليهود لهم في يثرب وخيبر وغير ذلك.21
یہودیت بنی کنانہ، کندہ اور بنی الحرث بن کعب میں بھی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ لوگ یثرب اور خیبر میں یہودیوں کے پڑوسی تھے تواس لیے ان میں بھی یہودیت سرایت کرگئی ہوگی۔ 22
بنو کندہ کے حوالہ سے یہ بھی بیان کیاجاتا ہے کہ نجد میں کندہ کی حکومت میں اشعث بن قیس کی بیوی بھی یہودیہ تھی جس کا نام ہند بنت یامین تھاجس کی طرف ذیلی اقتباس میں اشارہ ملتا ہے:
وفي نجد وفي مواضع من العربية الجنوبية ولما ارتد بنو وليعة والأشعث بن قيس بن معد بن يكرب بن معاوية الكندي وتحصن الأشعث في النجير وهو حصن لهم كانت فيه إمرأة من يهود عرفت بشماتتها بوفاة الرسول اسمها هند بنت يامين اليهودية مما يدل علي وجود اليهود في هذا المكان.23
نجد اورجنوبی عرب کےکئی علاقوں میں جب بنو ولیعہ اوراشعث بن قیس بن معد بن یکرب بن معاویہ الکندی مرتدہوئے اوراشعث اپنی حفاظت کی غرض سے النجیر میں پناہ گزیں ہوگئےجو ان کاقلعہ تھا، اس میں ایک یہودی عورت تھی جورسول اکرمﷺکی وفات پرخوشی منانےمیں مشہورہوئی جس کا نا م ہندبنت یامین الیہودیہ تھا، اس سے معلوم ہوتاہےکہ اس جگہ یہودی موجودتھے۔
مذکورہ حوالہ جات بتاتے ہیں کہ مدینہ،خیبر اور دیگر مقامات سمیت عرب کے جنوبی علاقوں میں بھی یہودی موجود تھے ۔
ظہورِ اسلام کے وقت عرب میں یہودیوں کی جو مذہبی حالت تھی وہ اصل یہودیت سے بہت مختلف ہوچکی تھی۔ صدیوں سے عربوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی وجہ سے ان لوگوں کی تہذیب و تمدّن میں بھی کافی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ اگرچہ یہودیوں کی اصل تعلیمات تو الہامی تھیں لیکن ان کا دین سچے اور پاکیزہ اصولوں سے ہٹ کر مشرکانہ رسم ورواج میں تبدیل ہوگیا تھا جس میں انسانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کو روا رکھا جاتا تھا اور اﷲ کے لیے اولاد کو ثابت کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عرب کےبعض یہود حضرت عزیر کو اﷲ تعالیٰ کا بیٹا مانتے 24اور خود کو اﷲ تعالیٰ کا برگزیدہ اور جنتی قوم سمجھتے تھے۔ان یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ جہنم ان کے لیے نہیں ہےاور اگرکسی وجہ سے ان میں سے کسی کو جہنم میں بھیجا گیا تو بھی معمولی عرصے کے لیے25کیونکہ وہ خود کو اﷲ تعالیٰ کے بیٹے اور محبوب سمجھتے تھے۔ 26
قرآن شریف نے ان دعووں کو باطل قراردے کر اعلان کردیا کہ یہودیوں کو بھی جزاوسزا ان کے اعمال کی بنا پرملے گی اور کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ صرف اﷲ اور آخرت پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربت حاصل ہوسکتی ہے ورنہ نہیں۔ 27یہودیوں نےاپنی مقدس کتاب تورات میں تحریف کی۔ ان میں سے بہت سے یہودی تورات کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکتے تھے پھر بھی غلط باتیں مشہور کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے محض دنیوی منفعت کی خاطر تورات کی آیتیں بدل دیں اور حرام کو حلال قرار دے دیا، اسی لیے تورات کے ایک حصہ پر ان کا ایمان قائم نہیں رہا۔28پھر انہوں نے بہت سے احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کی یا پھر اپنی مطلب برآوری کے لیے تورات کی آیتوں کی تشریح وتاویل کی غرض سے انہوں نے اس کی اصلی عبارات کو چھپادیا 29یعنی یہودی خود یہودی ہی نہ رہے بلکہ اپنے نفس اور چاہتوں کے غلام بن گئے۔
عرب کے یہودی خود اپنی یہودیت پر بھی قائم نہیں تھے اور نہ یہودی شریعت کے پابند تھے ۔ یہ کتابِ مقدس کا علم بھی برائے نام ہی رکھتے تھے جو لائقِ اعتنانہ تھا چنانچہ ان کے قبائل، خاندان اور افراد کے نام عربوں کی طرح تھےیعنی عبرانی نہ تھے۔ ان کے اشعار میں عربی طبع، بدوی خصوصیت اور عربی فکرنمایاں تھی۔ یہ اپنی سیاسی زندگی میں عربوں سے مختلف نہیں تھے بلکہ اکثر امور میں عربوں کی طرح تھے صرف دین کا فرق تھا۔ ان یہودیوں کی بودوباش، لباس وغیرہ سب عربی تھا۔عربوں کے ساتھ ان کی شادیاں بھی ہوتی تھیں۔ یوں ان کے اور عربوں کےتہذیب و تمدّن میں کوئی بڑافرق نہیں تھاصرف اعتقاد اورایمان مختلف تھا۔ غالباً اس کا سبب یہ تھا کہ یہودیت اختیار کرنے والے عربوں کایہاں غلبہ تھا جبکہ ہجرت کرکے عرب میں آنے والے اصل یہودی اقلیت میں تھے لہٰذا یہودی عرب اسی طرح اپنے رسم ورواج اور تہذیب وتمدّن پر قائم رہےاور ان کی فکروطبع میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ ان چند مہاجر یہودیوں کی اولاد پر بھی جو باہر سے آئے تھے شادی بیاہ کے بعد انہیں کا رنگ چڑھ گیا۔ ان یہودیوں کے نام تمام عربی ہیں کوئی نام عبرانی نہیں پایاگیا سوائے "زعوار" کے جو عبرانی الاصل ہے اور دوسرے "یساف" جو یوسف اور نبتل جو نفتالی سے نکلےتھےلیکن ان گیارہ(11) خاندانوں کے ناموں میں جو ظہور ِاسلام کے وقت حجاز میں تھے، ان میں کوئی بھی نام "زعوار" کے سوا ایسا نہیں ہے جس پر عبرانی اثر ہو حالانکہ یہاں یہودیوں کو جو آزادی حاصل تھی وہ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اس زمانے میں انہیں حاصل نہیں ہوئی۔ 30
مذکورہ بالا تفاصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کے ظہور کے وقت یہودی اپنی اصل تعلیمات سے دور ہوگئے تھے اور عیسائیوں کی طرح انہوں نے بھی اپنے دین کو کفر وشرک میں بدل ڈالا تھا نیز جس نبی آخر الزماںﷺکی بشارت انہیں سینہ بسینہ حضرت موسیٰکے ذریعہ سے منتقل ہوتی چلی آرہی تھی اس بشارت کو جاننے اور پھرحضرت سیّدنا محمد رسول اللہﷺکی ذاتِ اقدس میں ان نشانیو ں کو پہچاننے کے باوجود بھی انہوں نے حضر ت سیّدنا محمد رسول اللہﷺکی نہ صرف معاذ اللہ تکذیب کی بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ آپﷺکی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ یہ سب اسی شقاوت کا نتیجہ تھا جو انہوں نے اپنے دین کو کفر وشرک میں تبدیل کیا تھا اور احکاماتِ الہیہ کی نافرمانی کے سبب اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں لگ گئے تھے جبکہ یہودیوں کو تو بالخصوص حضرت موسیٰکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونےکے دعویٰ کی وجہ سے آپﷺکی مد د ونصرت کرنی چاہیے تھی لیکن ان کی مخالفت نے یہ واضح کردیا کہ یہ یہود خوداپنے دیِن سے بھی عملاً و اعتقاداًمنحرف ہوچکےتھے۔