Encyclopedia of Muhammad

عرب موحدین و حنفاء

عہدِ جاہلیت میں اہلِ عرب نے جس قسم کے مذاہب کو اپنا رکھا تھا ان میں دینِ حنیف،یہودیت،بت پرستی، مظاہر پرستی،عیسائیت اوردہریت شامل تھی تاہم اس دور میں جب کہ ہر طرف کفر و شرک اور فسق وفجور کا دور دورہ تھا ایسے حالات میں بھی بعض نفوسِ قدسیہ جو اگرچہ تعداد میں کم تھے لیکن اﷲ تعالیٰ کی توحید پر ان کا یقین محکم تھا اور وہ تمام بتوں اور باطل و شرکیہ عقائد سے بیزار تھے۔یہ لوگ بالخصوص مکّہ مکّرمہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے افکار و عقائدکی بنیاد دینِ ابراہیمی پر تھی۔ حضرت ابراہیم کی اولاد کے یہاں بسنے کے بعد سے تمام اہل ِعرب دینِ ابراہیمی کے ہی پیرو کار تھے مگر وقت کے ساتھ ان کے اعتقادات میں بگاڑ آتا چلا گیا اور بعد ازاں چند ہی نفوس بچے تھے جن کو اس وقت ایمان کی سلامتی نصیب ہوئی جب بت پرستی کی وباءمیں ساراعرب مبتلا ہو چکاتھا۔ اس حوالہ سے جواد علی تحریر فرماتے ہیں:

  ومذهب أهل الأخبار، أن العرب كانوا على دين واحد، هو دين إبراهيم، دين الحنيفية ودين التوحيد الدين الذي بعث بأمر الله من جديد، فتجسد وتمثل في الإسلام وكان العرب مثل غيرهم، قد ضلوا الطريق، وعموا عن الحق، وغووا بعبادتهم الأصنام حببها لهم الشيطان ومن اتبع هواه من العرب، وعلى رأسهم ناشر عبادة الأصنام في جزيرة العرب: "عمرو بن لحي". 1
  اہلِ تاریخ کی رائے کےمطابق تمام عرب ایک دین، دینِ ابراہیمی پرتھے جودینِ حنیف ودینِ توحید ہی ہے،ایسادین جواللہ تعالیٰ کےحکم سے اسلام کی عملی وتمثیلی صورت میں دوبارہ بھیجاگیا۔دیگر لوگوں کی طرح عرب بھی راستہ سےبھٹک گئے،حق سے چشم پوشی کی اوربتوں کی پرستش میں گمراہی کاشکار ہوگئےجن کی محبت شیطان نے اور خواہشات نفسانی کے پیروکار عربوں نےان کےدلوں میں ڈال دی تھی جن کا رئیس جزیرہ عرب میں بتوں کی پرستش عام کرنے والا عمروبن لحی تھا۔

یعنی اہلِ عرب میں بت پرستی کے رواج سے پہلے دینِ ابراہیمی کے پیروکار تھے اور اطاعت واحکام الہیہ کے فرمانبردار تھے ۔

موحدین

اہل ِعرب میں بت پرستی اور دیگر مذاہب کےماننے والوں کی کثرت کے باوجود چند اشخاص تھے جو دینِ ابراہیمی سے ہی منسوب تھے اور انہیں موحدین کہاجاتاتھا۔علامہ آلوسی اس حوالے سے لکھتے ہیں:

  وهم من استبصر ببصيرته فاعترف بوجودالله وتوحيده ولم يدرك دعوة محمد صلي الله عليه وسلم بل بقي علي اصل فطرته ونظر بعين بصيرته فلم يغيرولم يبدل وهم البقايا ممن كان علي عهد ابراهيم واسماعيل عليهماالسلام ملتزمين ماكانوا عليه من تعظيم البيت والطواف به والحج والعمرة والوقوف علي عرفة وهدالبدن والاهلال بالحج والعمرة وغير ذلك وهؤلاءافترقوافمنهم من بقي علي اصل التوحيد….ومنهم من اتبع من بقيت شريعته ولم تنسخ ملته كعيسي بن مريم عليها السلام وهذاالصنف نزر يسيرلم يكونوا الاعدداً معلوماً في كل عصرالي زمن البعثة المحمدية. 2
  یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے نورِ باطن کے ذریعے اللہ کے وجود اور اس کے واحد ہونے کا اعتراف کیا۔ انہوں نے محمد ﷺکی بعثت کا زمانہ نہیں پایا مگر وہ حقیقی فطرت پر قائم رہے ۔ انہوں نے بصیرت کی آنکھ سے دیکھا لہذا انہوں نے اس فطرت میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کیا۔ یہ ان لوگوں کے راستے پر تھے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی اتباع کرنے والے تھے۔ اور وہ ان تمام امور پر استقلال کے ساتھ کار بند تھے جو پہلےسے چلے آرہےتھے مثلا ً خانہ کعبہ کی تعظیم کرنا ، اس کے گرد طواف کرنا، حج اور عمرہ کرنا، عرفات کے مقام پر ٹھہرنا ، قربانی کے جانور لے جانا، حج اور عمرہ کے لیے احرام باندھنا وغیرہ۔ پھر یہ لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے، کچھ لوگ تو حقیقی توحید پر قائم رہے۔۔۔ ( ان موحدین میں ) بعض وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ان رسولوں کی پیروی کی جن کی شریعت کسی وقت تک باقی تھی اور ان کی ملت منسوخ نہ ہوئی تھی مثلاً عیسی ٰ بن مریم مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ایسے لوگ ہر زمانے میں قلیل التعداد رہے یہاں تک کہ بعثتِ محمدیہ کا زمانہ آگیا۔3

یہ مُوحدّین اللہ کی خالقیت کی تصدیق کرتےتھے، حشر ونشر کے بھی قائل تھے اور ان کا اس امر پر بھی یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اطاعت گزار بندوں کو اجر دے گا اور معصیت کاروں کو سزا ۔

حنفاء

بت پرستی سے انحراف کی وجہ سے ان موحدین لوگوں کا لقب حنفاء پڑگیا تھاجو دورِ جاہلیت کے عربی ادب میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن شریف میں ابراہیمی دین کو "حنیف" کہا گیا ہے اور یہودی و عیسائی مذہب اور دینِ ابراہیم میں تفریق پیدا کرنے کے لیے اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے اپنے دین کو بدل ڈالا اور اس میں اپنی ذاتی منفعت کی خاطر بہت سی لغوباتیں شامل کرلیں لیکن دینِ ابراہیمی وہ دین ہے جو ان تمام خراب عقیدوں سے بالکل پاک وصاف ہے۔ ایسے پاک وصاف دین کو حنیف کے نام سے بھی یاد کیا گیا چونکہ اسلام یہودی وعیسائی مذہبوں کی برائیوں سے بالکل پاک وصاف ہے اس لیے اسے بھی "دینِ حنیف" اور "ملتِ ابراہیمی" کا نام دیا گیا۔اہلِ عرب کے نزدیک حنیف حضرت ابراہیمکا لقب تھا اس لیے ان کے مذہب کا نام ملتِ حنیف انہوں نے رکھا تھا ۔عرب کے بعض نیک دل لوگ جو عرب کے تمام موجودمذاہب، بت پرستی، یہودیت اور عیسائیت کے مفاسد سے گھبرا کر تلاشِ حق میں نکلے تھے وہ آخر اسی آستانۂِ دینِ حنیف پر آکر تسلی اور اطمینان پاتے تھے۔ 4

حنفاء سے مراد وہ اشخاص تھے جو بت پرستی اور عرب کے دیگر باطل مذاہب سے بیزار تھے اور توحید کے قائل تھےجیسا کہ درج ذیل اقتباس سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے:

  وقد عرف هؤلاء بالحنفاء وبالأحناف، ونعتوا بأنهم على دين إبراهيم، ولم يكونوا يهودا ولا نصارى، ولم يشركوا بربهم أحدا سفهوا عبادة الأصنام وسفهوا رأي القائلين بها…. و يذكر أهل الأخبار أن الجاهلين جميعا من قحطان و عدنان كانو قبل عمرو بن لحي الخزاعي علي هذا الدين كانوا موحدين يعبدون الله جل جلاله وحده لا يشركون به ولا ينتقصونه. 5
  انہیں حنفاءاوراحناف کہاگیا، ان کی صفات میں کہاگیاکہ وہ دینِ ابراہیمی پرتھے، نہ وہ یہودتھے نہ ہی نصرانی اورنہ انہوں نے اپنے ربِ واحد کاکسی کوشریک ٹھہرایا، نہ انہوں نے بتوں کی پوجا کی بلکہ اس کے ماننے اورکہنےوالوں کواحمق بتایا۔۔۔انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تھا، نہ وہ یہودیت میں داخل ہوئے اور نہ نصرانیت میں اور نہ ہی انہوں نے بتوں کی پوجا کو ایک دین سمجھا بلکہ اس پرستش پر طعن کیا اور اس کے قائلین پر تنقید کی، اہل اخبار بیان کرتے ہیں کہ قحطان و عدنان کے تمام جاہلی عرب عمرو بن لحی الخزاعی سے پہلے اس دین پر تھے۔ وہ موحدین تھے اور صرف اللہ جل جلالہ کی عبادت کرتے تھے، نہ اس کے ساتھ شرک کرتے تھے، اور نہ اس کے حقوق سے غفلت کرتے۔

اسی حوالہ سےابن منظور افریقی لکھتے ہیں:

  الحنيف المسلم وكان في الجاهلية يقال من اختتن و حج البيت حنيف لأن العرب لم تتمسك في الجاهلية بشيء من دين ابراهيم غير الختان و حج البيت فكل من اختتن و حج قيل له حنيف فلما جاء الاسلام تمادت الحنيفية فالحنيف المسلم. 6
  حنیف مسلم، جاہلیت میں کہاجاتاتھا کہ جس نے ختنہ کی اورحج کیا وہ حنیف ہےکیونکہ عرب نے دینِ ابراہیمی میں سے ختنہ اورحج کے سواکچھ نہ لیا تھاچنانچہ جوبھی ختنہ اورحج کرتا وہ حنیف کہلاتا۔پس جب اسلام آیا تو (اصل)حنیفیت غالب آگئی اورمسلمان حنیف ہوا۔

اس دین میں بت پرستی سے انحراف تھا، اس لیے اس کو حنفی کہتے ہیں کیوں کہ "حنف" کے معنی انحراف کے ہیں۔7اسی طرح حنیفیت سے مراد توحید الہی ہے اور شرک و بت پرستی سے گریز کرنا بھی اس کے معنی میں داخل ہے۔8

حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیلکے مبارک زمانے سے دینِ ابراہیمی کا رواج عربوں میں رہا اور جب جاہلیت نے اس اصل دین کو مسخ کیا تب بھی اس کے بہت سے احکام و رسوم اور اعمال و مناسک عربوں میں برقرار و جاری رہے، توحیدِ الٰہی اور اصل دین کے عقائد و ارکان پر ایمان و عمل بھی ان میں سے تھا جو بہت سے علاقوں میں ہمیشہ سے پایا جاتا رہا۔ شرک و بت پرستی کے رواجِ عام کے باوجود عرب کے مختلف قبائل میں حنفاء و احناف ہمیشہ موجود رہےچنانچہ اس حوالہ سے مؤرخوں نے جو تحقیق پیش کی ہے وہ حسب ذیل ہے:

معروف عرب حنفاء

امام ابن ہشام نے بت پرستی کی مخالفت کرنے والوں میں چارکا نام لکھا ہے لیکن تاریخی شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں متعدد اہل نظر پیدا ہوگئے تھے جنہوں نے بت پرستی سے توبہ کی تھی۔ شرک و بت پرستی کے رواجِ عام کے باوجود عرب کےمختلف حصوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک کا انکار اور توحید کااقرار کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ بتوں کےلئے قربانیاں کرنے کی اعلانیہ مذمت کرتے تھے۔خود نبی کریمﷺکے عہد سے بالکل قریب کے زمانے میں کئی لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حنفاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ان حنفاء کے نام حسب ذیل ہیں:

  1. قیس بن ساعد الا یادی
  2. زید بن عمر بن نفیل
  3. امیہ بن ا بی الصلت
  4. ارباب بن رئاب
  5. سوید بن عمر المصطلقی
  6. اسعد ابو کرب الحمیری
  7. وکیع بن سلمہ بن زہیر الایادی
  8. عمیر بن جندب الجہنی
  9. عدی بن زید العبادی
  10. ابوقیس حرمہ بن ابی انس
  11. سیف بن ذی یزن عبید اللہ بن حجش
  12. ورقہ بن نوفل القرشی
  13. عامر بن الظرب العدوانی
  14. عبد الطابخۃ بن ثعلب بن وبرۃ بن قضاعۃ
  15. علاف بن شہاب التمیمی
  16. المتلمس بن امیہ الکنانی
  17. زہیر بن ابی سلمٰی
  18. خالد بن سنان بن غیث العبسی
  19. عبداللہ القضاعی
  20. عبید بن الابرص الاسدی
  21. کعب بن لؤی بن غالب 9
  22. عثمان بن الحویرث
  23. عبید اللہ بن جحش 10

اور ایسے بہت سے لوگوں کے حالات تاریخ میں منقول ہیں جنہیں حنفاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ سب لوگ علی الاعلان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے، ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ خیال انبیاء کی تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیاتھا۔11

چند مشہور موحدین

موحدین میں سےچند مشہور اشخاص کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے جن کے تذکرہ سے اندازہ ہوگا کہ اہلِ عرب میں دینِ ابراہیمی کی بازگشت موجود تھی اوربعض اہل عرب اس کی پیروی میں کمربستہ تھے۔

کعب بن لؤی بن غالب

یہ رسول اکرمﷺکےجدّ اعلیٰ تھے۔یہ ہر جمعہ قریش کو ایک خطبہ کے لیے جمع کرتے اور اس میں انہیں، اطاعت وفرمانبرداری،تعلیم وتعلم،زمین وآسمان کی پیدائش،رات ودن کے بدلنے اور اولین وآخرین کے حالات کی تبدیلی میں غوروفکر کی دعوت دیتےتھے۔ساتھ ہی ساتھ انہیں صلہ رحمی،امن وسلامتی کے فروغ،قرابت داری کی پاسداری اور ایفائے عہد جیسی نیک خصلتوں پر عمل پیرا ہوکر راہِ استقامت اختیار کرنے پر ابھارتےتھے۔اس کے علاوہ یہ اپنی نسل میں سے ہی رسول اکرمﷺکی بشارت بھی دیتے تھے اور یہ وعدہ بھی لیتے تھے کہ اگر لوگ ان کے زمانہ کو پالیں تو ان پر ایمان لے آئیں نیز ان کی اطاعت واتباع کریں۔12

قِس بن ساعدہ الایادی

قس بن ساعدہ اللہ پر یقین رکھتے تھے اور عرب میں حکیم و دانا مانے جاتے تھے ۔ 13یہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے"امابعد"کہنے کا رواج ڈالا۔14قس بن ساعدہ ایادی نجران کے کعبہ میں عبادت کیا کرتے تھے بایں سبب ان کو" قس نجرانی" بھی کہا جاتا تھا۔ یہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عصا پر ٹیک لگانے کا رواج ڈالا، 15اسی طرح سب سے پہلے انہوں نے ہی یہ بات کہی کہ مدّعی پر گواہ ہے اور مدّعی علیہ پر قسم ہے۔16یہ باقاعدہ طور پر وعظ و نصیحت کے لیے بازارِ عکاظ تشریف لایا کرتے تھے اور اپنے وقت کے بلند پایہ خطیب،شاعر اور حکیم تھے۔17نبی کریمﷺ سے منقول ہوا کہ آپﷺ نے انہیں اپنے بچپن کے دوران بازارِ عکاظ میں سرخ اونٹ پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا تھا۔18

خطبہ قس بن ساعدة

حضرت عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ کی خدمت میں ایادی وفد آیاتو نبی ﷺ نے ان سے قس کی بابت باقاعدہ استفسار فرمایا:اے ایادی وفد کے لوگو!قس بن ساعدہ ایادی کا کیا حال ہے؟ انہوں نے جواب دیا، وہ تو فوت ہو گئے یا رسول اللہ ﷺ! نبی ﷺ نے جواب میں فرمایا :

  لقد شهدته يوما بسوق عكاظ على جمل أحمر يتكلم بكلام معجب مونق لا أجدني أحفظه. 19
  میں نے ان کو ایک روز بازارِ عکاظ میں سرخ اونٹ پر بیٹھے دیکھا تھا میں نے ان کا کلام یاد تو نہیں رکھا لیکن وہ نہایت عمدہ کلام کر رہے تھے ۔

یہ سن کر ان کی قوم کا ایک قصہ گو شخص کھڑا ہوا اور بولا:مجھے ان کے خطبہ کا کلام یاد ہے، اگر آپ سننا چاہیں تو پیش خدمت کروں؟نبی ﷺ یہ سن کر نہایت درجہ مسرور ہوئے اور آپﷺ نے وہ کلام سنا ۔ ان کے خطبہ کاکلام مندرجہ ذیل ہے:

  أيها الناس اسمعوا وعوا وإذا وعيتم فانتفعوا، إنه من عاش مات، ومن مات فات، وكل ما هو آت آت، مطر ونبات، وأرزاق وأقوات، وآباء وأمهات، وأحياء وأموات، جميع وأشتات، وآيات بعد آيات، إن في السماء لخبرا وإن في الأرض لعبرا، ليل داج وسماء ذات فجاء وبحار ذات أمواج، مالي أرى الناس يذهبون فلا يرجعون أرضوا بالمقام فأقاموا أم تركوا هناك فناموا، أقسم قس قسما حقا لا حانثا فيه ولا آثما، إن للَّه دينا هو أحب إليه من دينكم الذي أنتم عليه ونبيا خاتما حان حينه وأظلكم أوانه وأدرككم إبانه، فطوبى لمن آمن به فهداه، وويل لمن خالفه وعصاه ثم قال: تبا لأرباب الغفلة من الأمم الخالية والقرون الماضية، يا معشر إياد أين الآباء والأجداد وأين المريض والعواد، وأين الفراعنة الشداد، أين من بنى رشيد، وزخرف ونجد وغره المال والولد، أين من بغى وطغى وجمع فأوعى وقال: وقال: أنا ربكم الأعلى، ألم يكونوا أكثر منكم أموالا وأولادا وأبعد منكم آمالا وأطول منكم آجالا طحنهم الثرى بكلكله ومزقهم الدهر بتطاوله، فتلك عظامهم بالية وبيوتهم خالية عمرتها الذئاب العاوية كلا بل هو اللَّه الواحد المعبود، ليس بوالد ولا مولود. 20
  اے لوگو!سنو اور یاد رکھو۔اگر کچھ یاد کر لو تو اس سے نفع اٹھاؤ۔ہر زندہ نے مرنا ہے،ہر مرنے والے نے فنا ہونا ہے،ہر آنے والے نے آکر رہنا ہے۔بارش اور نباتات کی قسم، رزق اور اقوات کی قسم، والدین کی قسم، زندوں اور مردوں کی قسم،متفرق اور مجتمع کی قسم،یکے بعد دیگر نشانیوں کی قسم! بلا شبہ آسمان میں خبر ہے، زمین میں عبرت ہے، رات تاریک ہے، آسمان برجوں والا ہے، سمندر موجوں والا ہے، میں لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ جاتے ہیں لیکن واپس نہیں آتے، کیا وہ اس مقام پر راضی ہو گئے ؟اور وہیں ٹھہر گئے ؟یا وہ سب کچھ وہیں چھوڑ کر سو گئے ۔قس ایسی قسم اٹھاتا ہے جو سچی ہےجس میں وہ جھوٹا نہیں ہے،جس میں وہ گنہگار نہیں ہے، رب تعالیٰ کا ایک ایسا دین ہے جو اسے اس دین سے پسندیدہ ہے جس پر تم ہو۔خاتم النبیین(ﷺ)کے ظہور کا وقت قریب آچکا،ان کے ظہور کی با برکت گھڑیاں تم پر سایہ فگن ہونے والی ہیں،اسے بشارت ہو جو ان پر ایمان لایا،اسے ہدایت نصیب ہو گئی،اس کے لیے ہلاکت ہو جس نے ان کی مخالفت کی اور نا فرمانی کی۔گذشتہ اقوام اور نسلوں میں سے بھی ان کے لیے ہلاکت ہے جو غافل رہے، اے گروہ ایاد!کہاں ہیں آباؤ اجداد؟مریض اور ان کی عیادت کرنے والے کہاں ہیں؟ فرعون اور شداد کہاں ہیں؟پختہ عمارات بنانے والے کہاں ہیں؟وہ زیب و زینت والے،شرف و قدر والےاور مال و اولاد والے کہاں ہیں؟وہ کہاں ہیں جنہوں نے بغاوت وسرکشی کی اور کہا :انا ربکم الاعلی، کیا وہ اموال و اولاد میں تم سے زیادہ نہ تھے، وہ امیدوں اور عمروں میں تم سے زیادہ نہ تھے، مٹی نے انہیں اپنے سینے میں پیس کررکھ دیا،زمانہ نے انہیں اپنی طوالت سے روند دیا،ان کی ہڈیاں بوسیدہ ہو گئیں ،ان کے گھر خالی ہو گئے، چیخنےوالےبھیڑیوں نے ان کے گھروں میں بسیراکرلیا۔ہرگز نہیں، بلکہ وہ خدائے بر تر و یکتا ہے، وہ بر حق معبود ہے، وہ نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا۔

یہی وہ خطبہ تھا جس کی طرف نبی کریمﷺنے اشارہ فرمایا تھا اور سننے کی خواہش ظاہرفرمائی تھی۔حضور نبی کریمﷺ نے ایک موقع پر فرمایاکہ تم میں سے کون ہے جو مجھے قس کے شعر سنائے گا ۔ جناب سیّد صدیق اکبر نے آپ ﷺ کو اس کے چند اشعار سنائے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے:

  ہم سے پہلے جانے والوں میں ہمارے لیے کئی بصیرت افزاء باتیں ہیں ۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ موت میں جانے کے لیے تو کئی راستے ہیں لیکن اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری قوم کے چھوٹے بڑے اسی طرف رواں دواں ہیں، نہ ہی گزرنے والا میری سمت لوٹنے والا ہے اور نہ ہی بقیہ لوگوں میں سے کوئی واپس لوٹنے والا ہے ۔ میں نے یقین کر لیا ہے کہ مجھے بھی یقیناً اسی طرف لوٹنا ہے جس طرف میری قوم گئی ہے ۔ 21انہوں نے چھ سو سال کی عمر پائی۔22

ورقہ بن نوفل

اسی طرح ان میں سے ایک ورقہ بن نوفل بھی تھے جو موحدین میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کا تعلق قریش کی بنو اسد شاخ سے تھا،23مکمل نام ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی بن قصی تھا۔24والد کانام نوفل بن اسد اور والدہ کاہند بنت ابی کثیر تھا۔25اہلِ عرب انہیں عالم ودانشور سمجھتے تھے اور یہ بھی ذبیحہ، اصنام وبت پرستی سے بیزار وگریزاں تھے۔26وقت کے متبحر عالم تھے اور احوالِ انبیاءسے باخبر تھے۔27رسول مکرم ﷺپر پہلی وحی کے بعد انہوں نے ہی آپﷺسے کہا تھا کہ کاش میں اس وقت آپ کی مدد کرسکتا کہ جب آپ کو آپ کی قوم یہاں سے نکالے گی۔28اسی وجہ سے بعض علماء جن میں طبری،بغوی، ابن قانع، ابن سکن اور دیگر شامل ہیں، انہوں نے ان کو صحابہ میں بھی شمار کیا ہے۔29ان کے صحابی ہونے کی دلیل کے طور پر چند روایات بھی ملتی ہیں مثلاً ایک روایت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا کہ میں نےورقہ کو سندس کا لباس پہنے جنت کی وادیوں میں ٹہلتے دیکھا ہے۔30ان کی وفات رسول مکرمﷺکے اعلانِ نبوت کے بعد اورقبل از دعوت رسالت ہوئی۔31

امیہ بن ابی الصلت

عہدِ جاہلی کے مشہور شاعر امیہ بن ابی الصلت ربیعہ بن وھب ثقفی کو احناف میں شمار کیا گیا ہے۔امیہ بن ابی الصلت ثقفی بنیادی طور پر طائف کے باشندے تھے اور قریشِ مکّہ سے قریبی ربط رکھتے تھے۔ ان کی ماں اموی عبشمی سردارِ مکّہ عبدالشمس بن عبد مناف کی دختر رقیہ تھیں، اس بنا پر وہ بنو عبد شمس بنو امیہ کے قریبی عزیز تھے، حضرت ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس کا ان سے رشتہ بہت قریبی تھا ، ان کے کلام کی صداقت کی تائید رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے اور ان کی حنیفیت کی بھی، حضرت ابو ہریرہ () کی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:وکان امیہ بن ابی الصلت ان یسلم یعنی کہ ممکن تھا کہ امیہ بن ابی الصلت مسلمان ہوجاتے۔32

حنفاء قبائل

مذکورہ اشخاص کی طرح اہلِ عرب کے بعض قبائل بھی حنفاء تھے۔ان قبائل و طبقاتِ عرب میں طائف و ہوازن کے بنو ثقیف، بنو سعد بن بکر، بنو کنانہ، ہمدان، کندہ ، ہیر، غفار، اسلم، لیث، ایاد بنوبکر بن وائل، عبدالقیس، عبس و ذبیان، مزینہ و جہینہ،طئ و اسد،خزیمہ، حمیر و حضر موت، بنو عامر بن صعصعہ، بنو المصطلق، بنو عاد ،تمیم، قضاعہ اور کئی دوسرے طبقات شامل تھے ۔ ان میں سے کچھ قبائل کی تفصیل جن میں حنفیت موجود تھی درج ذیل ہے:

بنو عبس بن بغیض

بنو عبد کا قریبی رشتہ غطفان اور اس کی ذیلی شاخ سے تھا اور وہ ایک عظیم و طاقتور قبیلہ تھا، اسے غطفان میں بھی بہت اہم مقام حاصل تھا۔ ان کی طاقت سیاسی، سماجی، فوجی اور عددی تھی۔ وہ مکّہ و مدینہ کے مابین بستے تھے اور ان کے ایک اہم صحابی حضرت نعیم ابن مسعود اشجعی تھے جو بنو عبس بن بغیض کے بھی عاملِ صدقات مقرر کیے گئے تھے۔ اس قبیلہ کے ایک حنیف و موحد کا نام خالد بن سنان بن غیث تھا 33جن کو ان کی قوم نے ضائع کردیا۔ وہ عبادتِ اوثان ترک کرچکے تھے، دینِ ابراہیمی کے متلاشی تھے اور قیامت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ان کی دختر نیک اختر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ ﷺ کو سورہ اخلاص تلاوت کرتے ہوئے سنا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ میرے والد بھی یہی کہا کرتے تھے کہ اللہ ایک ہے۔ 34

عبد القیس

عرب کے مشرقی سواحل پر ایرانی کے قریب عبدالقیس کا طاقتور قبیلہ بڑی آبادی رکھتا تھا، وہ موحدین و اہل ِ ملت کی جماعت بھی رکھتا تھا اور متعدد دوسرے مردانِ حق اور متلاشیانِ حق کے وجود سے بھی مشرف تھا۔جاہلی دور میں رئاب بن البراء عبد القیسی کو حنیف یا متلاشی حق مانا گیا ہے بعد میں وہ نصرانی بن گئے تھے، ان کو اپنے دور کے بہترین افراد میں گردانا جاتا تھا۔ 35

حمیر

جنوبی عرب کی جو زرخیز ساحلی پٹی یمن سے ہجر تک جاتی ہے وہ عظیم و کبیر قبیلۂِ حمیر کی سر زمین تھی۔ 36اس کے ایک عظیم فرد اور بطلِ جلیل اسعد ابوکرب الحمیری تھے، اگرچہ وہ جنوبی عرب کے فرد تھے مگر بیت اللہ سے ان کو خاص تعلق تھا اور روایت کے مطابق وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے خانہ کعبہ پر چمڑ ے اور کپڑے کی چادریں ( انطاع و البرود) کا غلاف چڑھایا تھا، یہ اشارہ ان کے صاحبِ ایمان و عقیدہ ہونے کی طرف ہے۔ ان کا زمانہ ابن قتیبہ کے مطابق رسول اکرم ﷺ سے سات سو سال قبل کا تھا۔ 37

قبایلِ و جنوبی عرب

یمن میں چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثارِ قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیرو، الرحمٰن اور رب السماء و الارض ہی کو الٰہِ واحد تسلیم کرتے تھے۔ 378ء کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد" الہ دوسموی" یعنی الہ الاسماء یا رب السماء کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے۔ 465ء کے ایک کتبے میں بنصر ورداً اثمن بعل سمین و ارضین و ابنصرین و بعون الا الہ رب السماء والارض (یعنی زمین وآسمان کےپرودگارکی مدد ونصرت سے) کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدہ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں ۔ اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بخیل رحمنن ( یعنی استعین بحول الرحمن ) کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح شمال میں دریائے فرات اور قنسرین کے درمیان زَبد کے مقام پر 512ء کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسم الالہ لا عزالا لہ لا شکر الا لہ (یعنی معبودکےنام سے، اسی کی عزت ہےاوراسی کا شکر )کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے انبیائے سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے۔ 38

قبیلہ ایاد/بکر بن وائل

بکر بن وائل کے ہی ایک عظیم جاہلی شاعر اعشیٰ بن قیس بن ثعلبہ کا ذکر ابن ہشام نے کیا ہے ۔ ان کی روایت تو یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لانے کے ارادے سے وطن سے نکلے تھے اور اس ضمن میں ایک مدحیہ قصیدہ بھی کہا تھا، ابن ہشام نے اسے نقل کیا ہے۔ روایت کے بہ موجب جب وہ مکّہ مکرّمہ پہنچے تو قریش نے ان کو ورغلا دیا اور وہ یہ کہ کر لوٹ گئے کہ اگلے سال اسلام قبول کریں گے مگر موت نے مہلت نہ دی اور وہ اسی سال جاں بحق ہو گئے۔ ان کے مدحیہ قصیدہ میں کچھ اشعار بتوں کی پرستش سے ان کی بے زاری ، اللہ کی عبادت گذاری اور موت کی جاں گساری کا ذکر کرتے ہیں:

  ولا النصب المنصوب لا تنسكنه ولا تعبد الاوثان والله فاعبدا. 39
  یعنی ان بتوں کےلیے قربانیاں نہ کر، ان مورتیوں کی پرستش چھوڑدےاوراللہ تعالیٰ کی عبادت کر۔

بنوعامر بن صعصہ

ایک بڑے قبیلہ ہوازن کا عظیم ترین بطن بنو عامر بن صعصہ تھا جو مکّہ مکرّمہ اور طائف سے مربوط رہا تھا۔ وہ اپنی عددی طاقت اور عظمتِ افراد کے سبب خود ایک عظیم قبیلہ بن گیا تھا۔ اس کو قریش کے بعد بڑے قبائل میں سمجھا جاتا تھا۔ وہ مختلف علاقوں میں پھیلا ہوا تھا لیکن اس کی بیشتر شاخیں مکّہ، طائف اور مدینہ کے قرب و جوار میں آباد و سکونت پذیر تھیں۔40اس قبیلہ کے ایک عظیم شاعر النابغہ الجعدی تھے ۔ جاہلیت کے زمانے میں دینِ ابراہیمی اور حنیفیت کا ذکر کیا کرتے تھے ۔ روزے رکھتے تھے اور استغفار کرتے تھے، ان کے زمانہ جاہلیت کے کلام میں توحید، حیات بعد موت، جزا و سزا اور جنت و دوزخ کا ذکر ملتا ہے، بعد میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔41

حضرت لبید بن ربیعہ عامری بنو عامر بن صعصعہ کے دوسرے بڑے شاعر اور حنیف تھے اگرچہ ان کا ذکرِ خیراحنافِ جاہلیت میں بالعموم نہیں کیا جاتا۔ ان کا تعلق ایک دوسری شاخ قبیلہ بنو کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ سے تھا۔ امیہ بن ابی الصلت ثقفی کے ذکر کے ضمن میں جن حضرت لبید اور ان کے صادق کلمہ شاعر کا حوالہ آیا ہے وہ یہی حضرت لبید ہیں اور وہ بعد میں مسلمان بھی ہوگئے تھے۔ ان کے اشعار میں الٰہِ واحد، اللہ عزو جل اور توحید کے علاوہ آخر ت و بعث بعد الموت اور نبوت و رسالت وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔قریش اور اکابر مکّہ سے ان کے قریبی روابط تھے اور انہیں کی ایک مجلس میں انہوں نے اپنے مذکورہ حمدیہ اشعار سنائے تھے، یہ اشعار اور دوسرے حنیفی اشعار عہدِ نبوی کے ابتدائی مکّی دور میں مقبول و رائج بھی تھے ۔ 42

بنو سُلَیم

مكّہ اور یثرب كے درمیانی علاقہ میں بطن ِ بنو سلیم آباد تھا۔ یہ قیس عیلان قبیلہ كا عظیم ترین جزو تھا۔ ان كے مكہ اور یثرب دونوں سے قریبی تعلقات تھے۔ بنو سلیم كی ایك شاخ تو بنو ہاشم كی حلیف و معاون بھی رہی تھی۔ وہ اپنی عددی قوت، فوجی طاقت بالخصوص شہ سواروں كے لیے ممتاز تھے اور ان میں مردان كار كی كمی نہیں تھی۔ ان میں سے بعض كے ہاں حنیفیت كا رجحان پایا جاتا تھا۔ وہ اپنی عرب موحدانہ روایات كے لیے معروف تھے اور دوسری عرب اقدار كے لیے بھی۔ حضرت عمرو بن عبسہ سُلَمی مشہور صحابی ہیں، اسلام لانے سے قبل ہی وہ بتوں كی پرستش سے بے زار ہوگئے تھے۔ امام احمد نے اُن كا اپنا قول نقل كیا ہے كہ :میں جاہلیت كے زمانے میں لوگوں كو گمراہی پر سمجھتا تھا اور بتوں كے متعلق میرا خیال تھا كہ یہ كچھ نہیں ہیں۔ اُن كا ایك اور قول یہ نقل كیا گیا ہے كہ میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی كہ بتوں كی پرستش باطل ہے۔ ایك شخص نے میری یہ باتیں سنیں تو كہا كہ مكّہ میں ایك شخص ہے جو ایسی ہی باتیں كہتا ہے چنانچہ میں مكّہ آیا، رسول اللہ ﷺ سے مل كر آپﷺ كی تعلیمات دریافت كیں اور آپﷺ كی رسالت پر ایمان لے آیا۔43ابنِ سعد نے ان كے تذكرہ میں ان كی حنیفیت كے تعلق سے یہی باتیں لكھی ہیں۔ 44

بنو غفار/ كنانہ

قبیلہ كنانہ قریشِ مكہ كا حلیف بھی تھا اور قریبی عزیز بھی۔ وہ بہت بڑا قبیلہ تھا اور اس كی متعدد شاخیں تھیں۔ ان میں غفار اور اسلم كے دو قبیلے بھی تھے جو پڑوسی تھے اور مكّہ مكرّمہ كے قریب كے علاقے میں رہتے تھے۔حضرت ابوذر غفاری مشہور ترین صحابی ہیں۔ وہ زمانہ جاہلیت ہی میں رواجی دین سے بے زار ہوگئے تھے۔ رسول اكرم ﷺسے ملاقات و قبولِ اسلام سے تین سال قبل وہ بتوں كی پوجا چھوڑ چكے تھے اور اللہ كے لیے نماز پڑھنے لگے تھے۔ نماز جس طرح چاہتے پڑھتے اور جدھر اللہ رخ كردیتا اُدھر منہ كرلیتے۔ رات بھر نمازیں پڑھتے تاآنكہ صبح ہوجاتی۔ اسی زمانہ میں ان كے بھائی انیس ضرورت سے مكّہ گئے تو واپس آكر حضرت ابوذر غفاری كو خبر دی كہ مكّہ میں ایسے شخص سے ملا جو تمہارے دین پر ہے اور اس كا خیال ہے كہ اللہ نے اسے رسول بناكر بھیجا ہے۔ 45

دیگر قبائلی احناف

  1. عمیر بن جندب الجہنی عہدِ جاہلی میں ان لوگوں میں شمار ہوتے تھے جو اللہ كی توحید كے قائل تھے اور اپنے رب كے ساتھ كسی كو شریك نہیں كرتے تھے۔ اسلام سے كچھ پہلے ان كا انتقال ہوا۔ 46
  2. عدی بن زید عبادی كا قبیلہ بنوتمیم تھا جو قبایلِ پراگندہ كا ایك عظیم ترین قبیلہ تھا اور شمال مشرقی علاقہ میں خاص سكونت ركھتا تھا۔ سعدی شعر جاہلیت میں فصیح سمجھے جاتے تھے۔ وہ خاندانی لحاظ سے نصرانی تھے۔ اُن كے سگڑ دادا ایوب تھے جو عرب میں اس نام سے موسوم ہونے والوں میں اوّلین جانے جاتے تھے۔ اُن كے شاہانِ حیرہ سے بہت گہرے تعلقات و روابط تھے۔ خود عدی بن زید دیوانِ كسریٰ سے وابستہ تھے اور اولین كاتب تھے جس نے وہاں عربی زبان استعمال كی۔ ان كا رجحان بھی دھیرے دھیرے حنیفیت كی طرف ہوگیا تھا اگرچہ اس پر شك و شبہ كا اظہار كیا گیا ہے۔ 47
  3. سیف بن عدی یزن والی و شاہِ یمن كا ذكر بھی آلوسی نے اصحابِ دین میں كیا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے كہ انہوں نے رسولِ اكرم ﷺ كی ولادتِ شریفہ كے چند سال بعد آپﷺ كی بعثت كی بشارت آپﷺ كے دادا عبدالمطّلب كو دی تھی جب وہ اكابرِ قریش كے ساتھ ان كو غیر عربوں (اہلِ حبشہ) پر فتح حاصل كرنے اور یمن میں عرب حكومت قائم كرنے كی مبارك باد دینے گئے تھے۔ ان كو صاحبِ علم و وجدان اور اہلِ مجد شمار كیا گیا ہے۔ غالباً قدیم كتبِ سماویہ كے عالم بھی تھے۔ 48
  4. عامر بن الظرب العدوانی كے نام كے اسی املا كے ساتھ آلوسی نے ذكر کر کے ان كو عرب كے حكما و خطبا میں شمار كیا ہے۔ ان كی ایك طویل وصیت سے ان كے افكار نقل كیے گئے ہیں۔ اس میں موت، حیات، بعد موت، خالقِ سماوات و الا رض وغیرہ كا ذكر ہے۔ 49اسی لئے ان کو بھی حنفاء میں شمار کیا گیا ہے۔
  5. عبدالطانجہ بن ثعلب بن وبرہ بن قضاعہ خالق عزوجل اور تخلیقِ آدم پر ایمان ركھتے تھے۔
  6. زہیر بن ابی سُلَمی ذبیانی جب بھی كانٹے دار جھاڑی كے قریب سے گذرتے تو فرماتے كہ اگر عرب مجھے برا بھلا نہ كہتے تو اس بات پر ایمان لے آتا كہ جو ذات تجھے سوكھنے كے بعد زندہ كردیتی ہے وہ ہڈیوں كے گلنے كے بعد بھی ان كو زندہ كردے گی۔ ان كے معلّقہ كے اشعار میں اللہ كے عالم الغیب ہونے اور سینوں كے راز جاننے والے اور یوم الحساب، حساب كتاب اور اللہ كی قدرت وحیات وغیرہ كا ذكر ہے۔ 50
  7. عبداللہ بن تغلب بن وبرہ بن قضاعہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان ركھتے تھے اور عرب كے حكما و فضلا میں شمار ہوتے تھے۔ ان كے طریقہ كو دینِ حنیفیت كا طریقہ كہا گیا ہے، جیسے ان كے معاصرین، سابقین وغیرہ تھے۔ ان كے دینی افكار كا نمونہ ان كے كلام میں ملتا ہے۔
  8. عبید بن الابرص اسدی خزیمی عظیم جاہلی شاعر تھے۔ ابن سلام جُمحی نے "طبقات الشعرا"میں ان كو طبقہ چہارم میں ركھا ہے 51اور ان كو طُرفہ اور علقمہ بن عبدہ كا ہم پلّہ كہا ہے۔ ابن قتیبہ نے "كتاب الشعرا"میں بیان كیا ہے كہ ان كی عمر تین سو سال سے زیادہ ہوئی تھی۔ 52مشہور شاہِ حیرہ نعمان بن منذر كے دادا بن امراؤ القیس سے ان كے تعلقات تھے اور ان كی ایك جنگ میں وہ مقتول ہوئے تھے۔ ان كے روابط دوسرے اكابرِ وقت سے بھی بہت عمدہ تھے۔ ان كے اشعار توحیدِ الٰہی كے عقیدہ كا اثبات كرتے ہیں، مثلاً ایك شعر ہے:
  ولیفنین ھذا و ذاك كلاھما
الا الا له و وجه المعبود.53
  یہ زندگی اور وہ زندگی دونوں فنا ہوجائیں گی
خدا اور اس کی معبود ذات کے سوا۔

ان تفصیلات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عرب کا اصل دین دینِ ابراہیمی تھا جبکہ بت پرستی ان کے ہاں عمرو بن لحي نے شروع کی تھی۔ جب عمرو بن لحي کی دعوت عرب میں خوب پھیلی اور پروان چڑھی کہ اکثر لوگ اس میں داخل ہوگئے اور دینِ ابراہیمی کی حفاظت کرنے والے اور دینِ توحیدِ حنیف کے احکام کی رعایت کرنے والے کم سے کم ہوتے گئے۔ ان عربوں میں صرف ایک محدود تعداد ہی بعثتِ محمدی ﷺ کے زمانے تک اس دین ِحنیف پر باقی رہ سکی، ختنہ، حجِ بیت اللہ، جنابت کا غسل، بت پرستی سے اجتناب ہی وہ فرق و امتیاز کرنے والی علامات رہ گئیں جو حنفاء کو مشرکین سے الگ کرتی تھیں۔

ان احناف ِعرب اور دین حنیفی کے پیروؤں نے دہرا فرض انجام دیا جس کا تعلق ماضی کی میراث کی حفاظت سے بھی تھا اور مستقبل کے دینِ حنیف کی تعمیر اور ہمواری سے بھی۔ انہوں نے دینِ حنیفی کو زندہ رکھنے اور اس کی ترویج کی کوشش کی اور اسی کے ساتھ ساتھ بعثتِ محمدی ﷺ کو قبول کرنے والوں کے ہراول دستہ کا کام کیا۔ عرب سماج میں یہی وہ فکری اور دینی طبقہ تھا جس نے اپنے عقیدہ و عمل سے ایک دنیا کو نبی آخر الزمانﷺکی تشریف آوری کا منتظر بنایا اور جب آپ ﷺ کے وجود گرامی اور اعلانِ نبوت سے عرب کی سرزمین گونج اٹھی تو انہی احناف اور دین ابراہیمی کی تعلیمات کا اثر تھا جس نے تمام نیک اور سعادت مند روحوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔

 


  • 1 الدكتور جواد علي، المفصل في تاريخ العرب قبل الاسلام، ج-11، مطبوعة: دار الساقي، بيروت، لبنان،2001م، ص: 34
  • 2 السیّد محمود الشکری الآلوسی، بلوغ الأرب فی معرفۃ أحوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ابن تيمية للنشر والتوزيع، 2012م، ص: 196
  • 3 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3، مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ ، لاہور ، پاکستان ، 2002ء، ص:66
  • 4 سیّد سلیمان ندوی،تاریخ ارض القرآن، ج-1،مطبوعہ : معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ،انڈیا،1916ء، ص: 227
  • 5 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج-12، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص: 25-26
  • 6 أبو الفضل محمد بن مكرم ابن منظور الافريقي، لسان العرب، ج-9، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1414هـ، ص: 57
  • 7 مولانا شبلی نعمانی ،سیرت النبی ﷺ ، ج-1،مطبوعہ: معارف پریس ،اعظم گڑھ، انڈیا، 1983ء، ص : 126
  • 8 سیّد ابو الاعلیٰ مودودی، سیرت سرور عالم ﷺ، ج-2،مطبوعہ: مرکزی مکتبہ اسلامی،دہلی،انڈیا، 1989ء، ص :70-72
  • 9 السیّد محمود الشکری الآلوسی، بلوغ الأرب فی معرفۃ أحوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ابن تيمية للنشر والتوزيع، القاہرۃ، مصر، 2012م، ص: 196
  • 10 أبو محمد عبدالملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 223
  • 11 سیّد ابو الاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن، ج-4،مطبوعہ: مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی، انڈیا، 1984ء، ص :37
  • 12 السیّد محمود الشکری الآلوسی، بلوغ الأرب فی معرفۃ أحوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ابن تيمية للنشر والتوزيع، 2012م، ص: 282
  • 13 أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري، المعارف، ج-1، مطبوعۃ: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة، مصر، 1992م،ص:61
  • 14 أبو جعفر محمد بن جرير الطبري، تاريخ الرسل والملوك ، ج-6، مطبوعۃ: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387 هـ، ص: 179
  • 15 شیخ ابن سعيد الأندلسي، نشوة الطرب في تاريخ جاهلية العرب، مطبوعۃ: مكتبة الأقصى، عمان، اردن، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:668
  • 16 أبو المظفر يوسف بن قِزْأُوغلي سبط ابن الجوزي، مرآة الزمان في تواريخ الأعيان، ج-2، مطبوعۃ: دار الرسالة العالمية، دمشق، السوريۃ، 2013 م، ص: 549
  • 17 أبو الفرج عبد الرحمن بن علي ابن الجوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوك، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1992م، ص: 298
  • 18 أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري، المعارف، ج-1، مطبوعۃ: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة، مصر، 1992 م، ص:61
  • 19 عبد الملك بن حسين المكي، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1998م، ص:249
  • 20 امام محمد بن يوسف الصالحي الشامی، سبل الهدى والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1993م، ص:186 -187
  • 21 امام محمد بن یوسف صالحی شامی،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ(مترجم: ذو الفقار علی ساقی)، ج-2، مطبوعۃ: زاویہ پبلشرز، لاہور،پاکستان، 2012ء،ص:708-709
  • 22 أبو الفداء إسماعيل بن عمر ابن كثير الدمشقی، البداية والنهاية، ج-2، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 232
  • 23 أبو عبد اللہ محمد بن اسحاق المکی، اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ، ج-3، مطبوعۃ: دار خضر، بیروت، لبنان، 1414 ھ، ص: 263
  • 24 عبد الحق بن عبد الرحمن ابن الخراط، الاحکام الشرعیۃ الکبری، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 2001م، ص: 194
  • 25 تقی الدین محمد بن احمد الفاسی، العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)،ص:191
  • 26 أبو عبد اللہ محمد بن احمد الذھبی، سیر اعلام النبلاء، ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، 1956م، ص: 87
  • 27 عبد اللہ بن عفیفی الباجوری، المراۃ العربیۃ فی جاھلیتھا واسلامھا، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الثقافۃ، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ، 1932 م، ص: 105
  • 28 ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:1 -2
  • 29 ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 47
  • 30 خیر الدین بن محمود بن محمد الزرکلی، الاعلام، ج-8، مطبوعۃ: دارالعلم للملایین، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 114
  • 31 تقی الدین محمد بن احمد الفاسی، العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 191
  • 32 أحمد بن عبد الرحيم الشاه ولي الله الدهلوي، حجة الله البالغة، ج-1، مطبوعة: دار الجيل، بيروت، لبنان، 2005م، ص: 221
  • 33 أبو الفداء إسماعيل بن عمر ابن كثير الدمشق، البداية والنهاية، ج-2، مطبوعة: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1988هـ، ص: 268
  • 34 أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النیسابوری، المستدرك على الصحيحين، حديث: 4172- 4173، ج-2، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، 1990م، ص: 654
  • 35 السیّد محمود شکری الالوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 2012م، ص: 258
  • 36 أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموي، معجم البلدان، ج-5، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1995م، ص:393
  • 37 أبو محمد عبد الله بن مسلم الدينوري، المعارف، مطبوعة: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة، مصر، 1992م، ص: 60
  • 38 سیّد ابو الاعلی مودودی، تفہیم القرآن، ج-4، مطبوعہ: ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، پاکستان،2008ء، ص:37
  • 39 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية، ج-1، مطبوعة: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، القاهرة، مصر، 1955هـ، ص: 387-388
  • 40 عمر بن رضا كحالة، معجم قبائل العرب القديمة والحديثة، ج-2، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 1994م، ص: 708-710
  • 41 سیّد ابو الاعلی مودودی، سیرتِ سرورِ عالم، ج-2، مطبوعہ: ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، پاکستان،2013ء، ص:71
  • 42 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية، ج-1، مطبوعة: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، القاهرة، مصر،1955هـ، ص:533
  • 43 أبو عمر يوسف بن عبد الله القرطبي، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج-3، مطبوعة: دار الجيل، بيروت، لبنان،1992م، ص:1192
  • 44 أبو عبد الله محمد بن سعد البغدادي، الطبقات الكبرى، ج-4، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1990م، ص:164-465
  • 45 ایضاً، ص: 166
  • 46 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 2012م، ص: 261 -262
  • 47 ایضا، ص: 262- 265
  • 48 ایضاً، ص:266-269
  • 49 ایضاً، ص:275-276
  • 50 أبو عبد الله حسين بن أحمد الزوني، شرح المعلقات السبع، مطبوعة: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان،2002م، ص:128
  • 51 أبو عبد الله محمد بن سلّام الجمحي، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعة: دار المدني، جدة، السعودية، ص:137-138
  • 52 أبو محمد عبد الله بن مسلم الدينوري، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعة: دار الحديث، القاهرة، مصر، 1423هـ، ص: 259 -260
  • 53 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 2012م، ص: 278 -280