قدیم عرب محدود معاشی و تجارتی وسائل رکھتے تھے کیونکہ ان کا اکثر علاقہ خشک زمین یا صحراء پر مشتمل تھا۔ معاشی خوشحالی کے لیے وہ دور دراز شہروں اور ممالک کا سفر اختیار کرتے تھے۔ عربوں نے کرۂ ارض کے ہر اس خطہ تک اپنی تجارت کو فروغ دیا جہاں تک ان کی رسائی ہوسکتی تھی۔ اس کے لیے انہوں نے زمینی اور بحری دونوں راستوں کے سفر کو اختیار کیا۔ ان کی تجارت کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ بحر ِروم کی بحری تجارت ایک زمانے میں مکمل طور پر عربوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان، سری لنکا ، چین، مصر، یونان، افریقہ اور دنیا بھر کے دیگر ممالک تک ان کا تجارتی سفر آب و تاب کے ساتھ جاری تھا۔ وہ لوگ چین سے تو بلا کسی درمیانی واسطے کے یعنی براہ راست تجارت کرنے لگے تھے۔انہوں نے بڑی بڑی تجارتی منڈیاں قائم کیں تاکہ دیگر ممالک سے لوگ اپنے ممالک کی اشیاء عرب لائیں اور بدلے میں یہاں سے عرب کی تجارتی اشیاء خریدیں۔
قدیم زمانے میں جن اقوام کی تجارت کے متعلق تفصیلات کتبِ تاریخ میں موجود ہیں ان میں خصوصیت کے ساتھ اہل عرب کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔تاریخی اعتبار سے غور کیا جائے تو عرب کی تجارت کی تاریخ کا سراغ حضرت عیسیٰ سے قبل کے ادوار میں ملتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ عرب صدیوں پہلے تجارتی و کاروباری مشاغل اور مصروفیات رکھتے تھے۔ تورات اور قدیم یونانی تصنیفات میں عربوں کی تجارت کے بے شمار حالات کا تذکرہ موجود ہےجس سے تجارتِ عرب کی قدامت واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ایک قدیم روایت کے مطابق 2096 قبل مسیح میں جن تاجروں نے حضرت یوسفکو ان کے بھائیوں سے خرید کر مصر کے رئیس فوطیفار کے ہاتھ فروخت کیا تھا وہ عرب کے اسماعیلی قبائل کے تاجروں کا قافلہ تھا1جن کا تعلق مدین سے تھا۔
تجارتِ عرب کی وسعت چین کے مشرقی سواحل اور مجمع الجزائر سے لے کر جبل الطارق (Strait of Gibraltar) تک پھیل چکی تھی۔ عرب تاجروں کے جہازوں کا بیڑا بغرضِ تجارت افریقہ، ایران، ہندوستان، خطا،2ترکستان، روس اور ایشیائے کوچک کی سرزمینوں تک سفر اختیار کرتا تھا۔ غرض اقصائے عالم کی تجارت عربوں کے ہاتھ میں تھی اور دو ہزار برس تک ملکِ عرب تمام عالم کا مرکز ِتجارت تھا۔ یہی وجوہات تھیں جس کی بنا پر سکندر اعظم نے ارادہ کیا تھا کہ اپنے ملک کا مستقر وسطِ عرب کو بنا دے۔3
پہلی صدی قبل مسیح میں اہلِ عرب، فنیقی اور اہل ہند، سمندری اور زمینی راستوں سے مصالحۂ جات، سونا، قیمتی پتھر، چمڑا، دیگر ملکوں کے جانوروں کی کھالیں،
قدیم زمانے میں ہند اور مغربی ممالک کے درمیان تجارت کے تین راستے تھے جن میں سے دو راستے سرزمینِ عرب سے ہوکر گزرتے تھے۔ ان میں سے پہلا راستہ دریائے سندھ (Indus River)کے دہانے سے دریائے فرات تک جاتا تھا۔ یہ راستہ اس مقام تک لے جاتا جہاں سے انطاکیہ اور مشرقی بحیرۂ روم کی بندرگاہوں کو جانے والی سڑکیں الگ ہوتی تھیں۔ سلطنتِ بابل کے دورِ عروج میں یہ راستہ کافی اہمیت کا حامل ہوچکا تھا لیکن اس سلطنت کے زوال کے ساتھ یہ راستہ بھی ترک کردیا گیا تھا۔
دوسرا راستہ ہند کے ساحل سے لے کر یمن کے شہر حضر موت (Hadhramaut)تک اور پھر وہاں سے بحیرۂ احمر (Red Sea)کے ساحل کے ساتھ ساتھ شام اور پھر یورپ تک جاتا تھا۔ تیسرا راستہ مصر اور اسکندریہ سے ہوتے ہوئے عرب میں یمن سے براہِ حجازِ مقدس، فلسطین اور پھر شام تک جاتا تھا۔ اس راستے میں مدین اور اصحاب الایکہ کا علاقہ بھی پڑتا تھا۔5قرآن مجید میں اسی راستے کو امام مبین فرمایا گیا ہے6یعنی کھلی شاہراہ جس پر قافلے رواں دواں رہتےتھے۔
اس کے علاوہ مدین اور اصحاب الایکہ کا علاقہ بھی حجاز، فلسطین اور شام جاتے ہوئے راستے میں پڑتا تھا۔ 7آج بھی یہ علاقہ حجاز سے شام اور عراق سے مصر جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ قافلے کے لوگ ان اقوام کی تباہ حالی کے آثار دیکھتے ہیں۔8
عربوں کی معاش کا سب سے بڑا ذریعہ تجارت تھا اسی لیے کم و بیش تمام عرب باشندے تجارت پیشہ پائے جاتے تھےلیکن ان میں جو باشندے خاص طور پر تجارت سے منسلک تھے ان کا تعلق حجاز، یمن، عمان اور بحرین سے تھا۔
بنی اسمٰعیل حضرت عیسیٰ سے صدیوں قبل ایک ملک کی پیداوار کا دوسرے ممالک کی پیداوار سے تبادلہ کیا کرتے تھے۔ ایک قدیم روایت کے مطابق وہ قافلہ جس نے حضرت یوسف کو ان کے بھائیوں سے خرید کر مصر میں فروخت کیا تھا وہ مدین سے تعلق رکھنے والے اسماعیلیوں کا قافلہ تھا۔ یہ قافلہ جلعاد سے گرم مصالحے، روغن بلسان اور مُرّلے کر مصر جارہا تھا۔9بنی اسمٰعیل اپنی تجارت کی بدولت اس قدر مالدار تھے کہ ان کی دولت و حشمت ضرب المثل ہوگئی تھی۔اہل یہود نے جس دور میں مدین پر غارت گری کا بازار گرم کیاتھا تو ان کے ہاتھ وہاں کے تاجروں کے مال و اسباب میں سے بےشمار زر و جواہر، سونے کے عمدہ زیورات اور اونٹوں کی گردنوں میں ڈالنے والے طلائی حلقے آئے تھے۔ یہ بات اس امر کی شاہد ہے کہ اہل مدین کی قدیم زمانے میں تجارت بڑی وسعت اختیار کرچکی تھی۔10
بنی آدوم بھی عرب کے مشہور سوداگر تھے۔ ان کے شہر کودومہ کے نام سے جانا جاتا تھاجسے دومۃ الجندل بھی کہتے ہیں۔ یہ شہر زمانۂ قدیم سے شمال اور جنوب کے درمیان یعنی ایک سمت آرام اور بابل اور دوسری طرف ہند اور مصر کے سلسلۂ تجارت کو جاری رکھنے کے لیے شاہراہ کا کام دیتا تھا اور ان کی ترقی کا راز بھی یہ تھا کہ بنی آدوم اس خطہ میں مقیم تھے جہاں سے عرب اور بحیرۂ روم کا تجارتی راستہ گزرتا تھا۔ 11
نبطی قبائل شمال اور شمال مغربی عرب سے تعلق رکھنے والے بدوی عربی باشندے تھےجن کی تاریخ 647 قبل مسیح سے ملتی ہے۔ نبطیوں(Nabataean)نے چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل اور فلسطین کے مابین جنگ کی صورت میں خالی ہونے والے علاقے کو اپنا مسکن بنا لیا تھاجسے عربی زبان میں ٱلْبَتْرَاءاور انگریزی زبان میں پیٹرا(Petra)کہا جاتا ہے۔یہ خطہ ہیلینیائی (Hellenic)اور رومی (Roman)دور میں عرب کا مرکز مانا جاتا تھا۔12کچھ ہی عرصے میں انہوں نے وسائل اکھٹے کرکے پیٹرا کو ایک مشہور تجارتی مقام میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ لوگ اپنی معاشی ترقی اور خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے وہاں سے گزرنے والے تجارتی قافلوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے اور تجارت کے لیے جگہ فراہم کرنے کے عوض25 فیصد محصول وصول کرتے تھے۔13یوں گزرتے وقت کے ساتھ پیٹرا میں ایک مستقل تجارتی منڈی وجود میں آچکی تھی اور یہ خطہ عربیہ پیٹریہ کے نام سے مشہور ہوگیا تھا۔
312 قبل مسیح میں یونانی سلوکسی (Seleucid)حکمران اینٹیگونس (Antigonus)نے نبطی قبائل کی خطہ میں اجارہ داری کے خاتمہ کے لیے پیٹرا پر حملہ کیا۔ انہوں نے رات کے اندھیرے میں حملہ کرکے عورتوں اور بچوں کو ذبح کیا اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا تھا۔ وہاں سے انہوں نے چاندی، مرکلی اور لوبان جیسی قیمتی اشیاء اپنے قبضہ میں کرلیں جن کا شمار اس دور کی بہترین تجارتی اشیاء میں کیا جاتا تھا۔ اس حملہ کا مقصد تجارتی منڈی میں اپنی حکمرانی قائم کرنا اور اس کے منافع سے لطف اندوز ہونا تھا لیکن جلد ہی نبطیوں نے جوابی کاروائی کرکے ان کے حملے کو بالآخر پسپا کرکے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔14وقت گزرنے کے ساتھ پیٹرا قبل مسیحی دور کے بہترین تجارتی مرکز میں تبدیل ہوچکا تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت پیٹرا ہی وہ شہر تھا جو صحرا سے گزرنے والے تجارتی راستے پر واقع تھا۔15ہر گزرنے والا تجارتی قافلہ پیٹرا کے بازار میں اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے ٹھہرتا تھا۔ انہیں راستوں میں جنوبی عرب کے خطوں سے آنے والا راستہ بھی شامل تھا جہاں سے وسیع پیمانے پر خوشبودار اشیاء مثلا لوبان اور مرکلی کی فراوانی ہوتی تھی۔
اہل سبا جن کا مسکن جنوبی عرب میں یمن کا خطہ تھا عہدِ قدیم میں اپنے دور کی مادی کامرانیوں اور سیاسی تقویت کی بدولت ترقی یافتہ تجارت پیشہ قوم تھی۔ یہ قوم صنعاء اور حضر موت کے درمیان آباد تھی اور اس کا مرکزی شہر مآرب تھا۔16سبائیوں کی سلطنت 1000 قبل مسیح میں اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی اور یہ سلطنت 115 قبل مسیح تک قائم و دائم تھی۔17اہل سبا نے اپنے دور میں یمن سے شام تک حجاز کے تجارتی راستے پر اپنا تصرف قائم کرلیاتھا۔ قرآن پاک کی سورۃ سبا میں اللہ تعالیٰ نے اہل سبا کے تجارتی کاروانوں کا ذکر کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جن راستوں کو اختیارکرکے اہل سبا ایک بستی سے دوسری بستی سفر کیا کرتے تھےوہ علاقے خوشحال تھے۔ 18
ان کی تجارت کا دائرہ عراق تک پھیلا ہوا تھا اور یہ بہت دولت مند قوم تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عرب کے دیگر خطوں کی بنسبت جنوبی عرب کایہ خطہ قدرتی برکات سے مالا مال تھا۔ یہاں گرمیوں کے موسم میں بارشیں کثرت سے برستی تھیں اس کے علاوہ یہاں دریا کا پانی بھی وافر مقدار میں موجود تھا جس کے لیے انہوں نے نہریں کھودی ہوئی تھیں۔ اہل سبا کے متمدن عربوں کی اہمیت رومی اور ایرانی سلطنتوں کے نزدیک اس لیے بھی بڑھ گئی تھی کہ یہ لوگ بڑی تجارتی شاہراہ پر موجود تھے۔19یہاں وافر مقدار میں خوشبودار دھونی کے طور پر استعمال ہونے والی اشیاء جیسے لوبان(Frankincesse)، اس کے علاوہ مرکلی(Myrrh)، تیج پات (Cassia)اور لادن(Ladanum) کی پیداوار ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ یہاں موٹی دم والی بھیڑیں اور مختلف اقسام کے جانور کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے۔20علاوہ ازیں یہاں پھلوں کی بہتات تھی اور سونا اور چاندی بھی وافر مقدار میں موجود تھا۔ اہل سبا ان اشیاء کی وسیع پیمانے پر تجارت کرتے اور اپنے معاشی وسائل میں دن بدن اضافہ کرتے جارہے تھے۔ یمنی علاقہ میں جن قیمتی موتیوں اور خوشبودار اجناس کی پیداوار ہوتی تھی اسے اہل سبا کے عہد میں ہی بحیرۂ قلزم کے راستے کرۂ ارض کی بڑی بڑی منڈیوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ 21معاشی بلندیوں کو چھو جانے کے سبب ان کے بادشاہ کی دولت کا یہ عالم تھا کہ اگر بادشاہ کی ذات، اس کی بیوی اور دوستوں پر روزانہ ہونے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو 15 بابلی ٹیلینٹ بنتا تھا22جو دورِ حاضر کے سیکڑوں سونے اور چاندی کے سکوں کے برابر تھے جس کی مالیت موجودہ کرنسی میں روپوں کے اعتبار سے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے میں تھی۔
قریش تاجر قوم تھی۔ اگر لفظِ قریش پر غور کریں تو یہ تقرش سے نکلا ہے اور تقرش کا معنی ہی تجارت ہے۔23قریش کے تمام مردوعورت تجارتی عمل میں خود کو مصروف رکھتے تھے۔ ان کی اسی محنت کا ثمر تھا کہ پانچویں صدی عیسوی میں انہوں نے مکہ کا انتظام سنبھال لیا تھا، اس طرح قریشی قبائل تجربہ کار تاجر بن چکے تھے۔ 24قریشیوں کی تجارت کے مراکز شام، یمن، حبشہ، فارس اور مصر وغیرہ تھے۔ قریش شام کی طرف موسمِ گرما میں جایا کرتے تھے کیونکہ گرمی کا زمانہ شام میں کسی قدر آرام سے گزرتا تھا اور وہاں اس موسم میں آب وہوا اچھی ہوتی تھی اور موسمِ سرما میں یمن کا سفر کرتے تھے کیونکہ عرب کی بہ نسبت یمن کا ملک گرم تھا اور اسی وجہ سے گرمیوں میں وہاں رہنا دشوار سمجھا جاتا تھا۔
مؤرخ ابن ہشام لکھتا ہے کہ حضورﷺ کے جدّ امجد حضرت ہاشم بن عبد مناف نے پہلے پہل یمن و شام کے سفر کیے تھے۔25چھٹی صدی عیسوی کے وسطی ایام میں قبیلۂ قریش کے جو بڑے بڑے تجار تھے ان میں ہاشم بن عبد مناف، عبدالشمس، عبدالمطلب اور نوفل بن عبد مناف مشہور تھے۔
حضرت ہاشم ایک پروقار شخصیت کے مالک تھے۔ اہل ِمکہ نے انہیں اپنا سردار منتخب کیا تھا۔ انہیں مکہ کے معاشی احوال سے بخوبی واقفیت تھی جس کا ذکر کثیر تاریخ دانوں نے کیا ہے۔26حضرت ہاشم ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے اہلِ مکہ کے لیے معیشت کے اسباب کو منظم کیا اور قبیلۂ قریش میں تجارت کو فروغ دیا۔ ان کی کاوشوں سے ہی قریش نے معاشی ترقی حاصل کی اور تجارت کی بدولت مالا مال ہوگئے تھے۔27
مطلب بن عبد مناف بن قصی بن کلاب حضرت ہاشم اور عبد شمس دونوں کے بڑے بھائی تھے۔ انہوں نے یمن کے قبائلی سرداروں سے تجارتی معاہدے کیے تھے۔ 28
حضرت ہاشم کے بھائی عبد شمس حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس گئے اور ان سے تجارتی عہد کی تجدید کی اور واپس آگئے تاکہ حبشہ اور مکہ کے مابین تجارتی تعلقات قائم رہیں۔ 29
اسی طرح حضرت ہاشم کے بھائی نوفل بن عبد مناف جو بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، عراق گئے اور قریشی تاجروں کےلیے کسریٰ(شاہِ ایران) سے تجارتی معاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ راستے میں مقیم دیگر عرب قبائل سے بھی تجارتی معاہدات کرنے میں پیش پیش رہے تھے۔ 30
قدیم زمانے سے ہی عربوں کا مصر، ہندوستان، ایران، چین، روم، یونان، افریقہ، بابل اور شام کےممالک سے تجارتی تعلق تھا۔ عرب ان ممالک سے بحر و بر دونوں راستوں سے تجارت کرتے تھے۔ زمینی تجارت بڑے بڑے کاروانوں کے ذریعے کی جاتی جبکہ بحری تجارت کے لیے دور دراز مقامات پر سمندری جہازوں کے ذریعے آمدورفت اختیار کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ قرب و جوار کی آبادیوں اور قبائل سے تجارت کے لیے کشتیوں کا استعمال بھی رائج تھا۔ اگر قدیم عربوں کی زمینی اور بحری تجارت کا موازنہ کیا جائے تو بحری تجارت برّی تجارت پر حاوی تھی۔
عرب قدیم زمانے سے مصر، عراق اور شام کی متمدن آبادیوں کے ساتھ اپنی مقامی پیداوار کی تجارت کیا کرتے تھے۔ ان تجارتی اشیاء میں لوبان، مرکلی ، قہوہ اور دوسری جڑی بوٹیوں کی خریدو فروخت شامل تھی۔31یہ وہ دور تھا جب مصریوں کی تمام تر تجارت عربوں کے ہاتھوں میں تھی۔ مزید یہ کہ عربوں کا تجارتی تعلق بہ نسبت دیگر ممالک کے مصریوں سے نہایت قدیم تھا۔ عنطف رابع نے اپنے زمانے میں بحرِ احمر کے سواحل پر ایک تجارتی مشن روانہ کیا تھا جس کے ساتھ بیش قیمت اشیاء، جواہرات اور نادر حیوانات تھے۔ اسی طرح اٹھارہویں خاندان سے تعلق رکھنے والی ملکۂِ مصر ہتشیپت (Hatshepsut)نے بھی جہازوں کا ایک بیڑا مملکتِ عرب تجارت کی غرض سے روانہ کیا تھا۔
عربوں کی تجارت ملکۂ تشیپت (Hatshepsut) کے زمانے میں اور ان کے جانشینوں کے ایامِ حکومت میں عروج پر تھی۔ عرب اکثر بحر ِاحمر سے مصر جایا کرتے تھے نیز خلیج سوئس سے نیل تک انہوں نے ایک گزرگاہ بنالی تھی۔ اہل یمن کی تجارت مصر میں انیسویں خاندان کے خاتمہ تک قائم تھی۔ اس کے بعد مصریوں نے اپنے ملک میں تاجروں کے لیے بازار قائم کرلیے تھے۔
اہلِ مصر ہندوستان سے براہِ راست تجارت نہیں کرتے تھے بلکہ ہندوستان سے درآمد کیا جانے والا مال عربوں سے خریدا کرتے تھے۔ عرب مصر سے غلوں کے دانے، مویشی، برتن اور شیشہ ہندوستان برآمد کرتے تھے اور بدلے میں ہند سے خوشبو، پنبہ،32یاقوت اور دیگر اشیاء مصری چیزوں کے تبادلے میں لیا کرتے تھے۔ تاریخی کتب میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ تین ہزار(3000) قبل مسیح میں قدیم مصر میں متعدد اقسام کی خوشبودار دھونیاں استعمال کی جاتی تھیں لیکن ان کی خریداری خاص طور پر جنوبی عرب کے خطوں سے ہوتی تھی۔ اس حوالے سے تاریخ میں پہلی صدی قبل مسیح کے شواہد موجود ہیں۔33
عرب کا وہ خطہ جو قدیم دور میں دریائے نیل، دریائے فرات اور دجلہ کے قریب واقع تھا وہاں بڑے پیمانے پر کھیتی باڑی کی جاتی تھی، یہی وجہ تھی کہ اس دور میں وہاں کی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ عرب کا کنارہ ہونے کے سبب بڑی تجارتی منڈی اور صنعت کاری کا مرکز تھا۔ دور دراز سے ریگستانوں میں مقیم اندرونِ عرب سے تعلق رکھنے والے قبائل، مصر اور بابل سے تجارت کرنے کی خاطراس خطّہ کا رخ کرتے تھے۔ یہاں اشیاء کے بدلے اشیاء کی خریدو فروخت کا نظام رائج تھا۔ عرب قبائل یہاں سے اناج، سازو سامان اور ہتھیار خریدتے اور بدلے میں اہل مصر اور اہل بابل اونٹ، گھوڑے، بھیڑیں اور بکریوں کی تجارت کرتے تھے۔34
صور(Tyre) کے باشندوں اور عربوں کے درمیان بھی قدیم الایام سے خشکی اور تری کے دونوں راستوں سے تجارتی تعلقات قائم تھے۔ یہ خشکی کا راستہ اختیار کرنے کی صورت میں حجاز سے ہوتے ہوئے قافلوں کے ذریعے اپنے مال و اسباب لے جایا کرتے تھے جبکہ بحری راستہ خلیج عقبہ سے تھا۔ بعض اوقات صور (Tyre) و صیدا35(Sidon) کے راستوں سے بھی تجارتی قافلے جایا کرتے تھے۔ صور کے باشندے اگرچہ فنِ جہاز رانی کے خوب ماہر تھے تاہم بحرِ احمر اور بحرِ ہند کے خطرات سے خائف تھے۔ اس وجہ سے ان ممالک کی پیداوار عربستان بالخصوص جنوبی عرب (یمن) کے باشندے لے جایا کرتے تھے۔
یمن اور عدن والے صور میں ہر قسم کے نفیس اور خوشبودار مصالحے اور طرح طرح کے قیمتی پتھر، کمخواب، سونا، چوغے ارغوانی، منقش پوشاکیں اور ہر طرح کے بوٹی دار کپڑوں کی تجارت کرتے تھے۔ اہلِ حجاز کی تجارت بھیڑ، مینڈھے اور بکریوں کی تھی۔36فیروزہ، ارغوانی رنگین کپڑا، چکندوزی، کتان، مونگا اور مرجان کو ادوم کے باشندے صور کے بازاروں میں لایا کرتے تھے۔37
حضرت سلیمان نے اپنے دورِ حکومت میں عربوں سے تجارتی تعلقات قائم رکھنے کے لیے بحرِ روم پر تجارتی راستوں کو ترقی دی تھی۔ 38اس کے علاوہ بنی اسرائیل اور عربوں کے مابین تجارت کا ذکر تورات میں کئی مقام پر آیا ہے۔ منج کا ایک نہایت مشہور واقعہ حضرت سلیمان کا جیرام کی شراکت سے براہ ِسمندر اوفیر39 (Ophir) سے ساڑھے چار سو
جنوبی عرب میں اہلِ سبا کے بھی بنی اسرائیلیوں سے تجارتی تعلقات تھے۔ انجیل میں عنوان "یوایل" کے تحت معبد کے خزانوں میں لوٹ مار کرنے اور یہودیوں کو یونانیوں کے ہاتھوں بیچ ڈالنے پر فنیقیوں اور فلسطینیوں کے لیے ملامتی آیات موجود ہیں کہ:
پس اے صُور (Tyre) و صیدا (Sidon) اور فلسطین کے تمام علاقوں! میرے لیے تمہاری کیا حقیقت ہے؟ کیا تم مجھ کو بدلہ دو گے؟ اور اگر دو گے تو میں وہیں فوراً تمہارا بدلہ تمہارے سر پر پھینک دُوں گا۔ چونکہ تم نے میرا سونا چاندی لے لیا ہے اور میری لطیف و نفیس چیزیں اپنے مندروں میں لے گئے ہو۔ اور تم نے یہوداہ اور یروشلم کی اولاد کو یونانیوں کے ہاتھوں بیچا ہے تا کہ ان کو ان کی حدود سے دُور کرو۔ اس لیے میں اُن کو اُس جگہ سے جہاں تم نے بیچا ہے برا نگخیتہ کروں گا اور تمہارا بدلہ تمہارے سر پر لاؤں گا۔ اور تمہارے بیٹے بیٹیوں کو بنی یہوداہ کے ہاتھ بیچوں گا اور وہ اُن کو اہلِ سبا کے ہاتھ جو دُور کے مُلک میں رہتے ہیں بیچیں گے کیونکہ یہ خُداوند کا فرمان ہے۔40
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ سرزمینِ عرب میں بنی اسرائیلی غلاموں کی تجارت کیا کرتے تھے۔41
اہلِ بابل عربوں سے ان کی اپنی پیداوار، جنوبی ہندوستان، چین اور افریقی ممالک کی اشیاء خریدتے تھے اور بدلے میں عرب ان سے شمالی ہند، ایران، ترکستان وغیرہ ممالک کی پیداوار وصول کرتے تھے۔ عربوں کی تجارت بابل سے ان کی تباہی تک نہایت عروج پر تھی۔ عرب کے باشندے بابل کاروان کی صورت میں آیا کرتے تھے اور یہ کاروان عرصۂ دراز تک بابل میں بغرضِ تجارت مقیم بھی رہتے تھے۔42اس کے علاوہ عربی باشندوں نے جنوب کے ایرانیوں سے بھی تجارتی تعلقات استوار کیے ہوئے تھے۔ بابل کی تباہی کے بعد شمالی ایران میں عربوں کی آمدورفت میں خاصی تیزی آگئی تھی۔ زمانۂ وسطی میں جب عراق عرب کے ماتحت ہوگیا تھا تو اس وقت عربوں کو ایرانی تجارت میں عروج حاصل تھا چنانچہ ان ایام میں مدائن جو عراق عرب میں ہے ایران کی تجارت کا مرکز تھا۔ مزید یہ کہ خلیج فارس کی بندرگاہوں سے بھی عرب، ہندوستان اور مشرقی افریقہ کے ساحلی شہروں کا تجارت کی غرض سے آپس میں آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔43
عرب کے چین سے تجارتی تعلقات کی لمبی تاریخ ہے۔ تاریخِ چین میں عرب کے اولین تاجروں کے شواہد سلسلہ شاہی ہین (Han Dynasty)کے دور میں ملے ہیں جو کم و بیش 206 قبل مسیح کی بات ہے۔44اس کا تعلق اس دور سے ہے جب قبل مسیحی دور میں ژینگ قیان (Xiang Qian)نے مغربی خطوں کا دورہ کیا تھا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اس دور میں ایک جگہ مختص تھی جسے تائوزہی(Taozhi) کہتے تھےجو اب عراق کا حصہ ہے۔ یہاں قاصدین کو بھیجا جاتا تھا۔ تاریخی شواہد موجود ہیں کہ سلسلۂ شاہی ہین (Han Dynasty)کے دور سے ہی چین اور عرب نے بحری راستوں کو استعمال کرکے دوستانہ تجارتی تعلقات استوار کیے تھے۔45
اہلِ عرب اور چینی باشندے دونوں ہی بحری تجارت کے ماہر تھے۔ عرب ،چینیوں سے ریشمی کپڑے، ریشم، چینی ظروف اور خاص طور پر کاغذ درآمد کیا کرتے تھے۔ اسی طرح چینی، عربوں سے گھوڑے، زمرد، لاجورد، عقیق، موتی، مرجان، سونا، چاندی، عنبراور کپڑے وغیرہ خریدتے تھے۔ یہ تجارت دونوں ممالک کے درمیان سمندری راستوں یعنی بحر الکاہل اور بحرِ ہند کے ذریعے سے ہوتی تھی 46جبکہ دونوں ممالک کے درمیان برّی راستوں سے تجارت کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔
عربوں اور ہندوستانیوں کے مابین تجارت کی تاریخ ساتویں صدی قبل مسیح کے آغاز سے بتائی جاتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ روابط ماقبل تاریخی زمانے سے قائم ہوں۔47روم اور یونان کی تاریخ سے صدیوں قبل بحری جہاز سمندری راستوں کے ذریعے ہندوستانی اشیاء جن میں خوشبودار چیزیں، کپڑا وغیرہ ہوتا عرب ،عراق اور مصر لے جاتے تھے۔ 48
عرب ہندوستان میں بحری اور برّی دونوں راستوں سے سفر کیا کرتے تھے۔ زمینی راستہ ایران، سمرقند، کشمیر سے ہوتا ہوا ہند وستان جاتا تھا جبکہ بحری راستہ سراف اور عدن سے جاتا تھا۔ خشکی کے راستہ سے ان لوگوں کی تجارت کشمیر، چین کے شہر قنوج(Kannauj) اور دیگر ممالک میں ہوتی تھی۔ بحری راستہ سے سندھ، مالابار، سیلان(سری لنکا) 49وغیرہ ملکوں میں تجارت کیا کرتے تھے۔ عرب شمالی ہند اور کشمیر وغیرہ سے بارود، روئی، افیون، اون، حریر، مشک، ریوند چینی اور پشمینہ وغیرہ خریدتے تھے اور جن چیزوں کو مالابار اور سریلنکا سے خرید تھے وہ طرح طرح کے گرم مصالحے، لونگ، الائچی، مرچ، زیرہ، عطریات، دار چینی، جواہرات نیز دیگر معدنیات، حیوانات اور ناریل وغیرہ تھے۔
اس کے علاوہ ہندوستان اور عرب کے مابین راستہ خلیجِ فارس سے ہوتا ہوا گزرتا تھا جو آمدورفت کے لیے ہمہ وقت کھلا رہتا تھا۔ ساحل میں رہائش پذیر پارسی اور عرب زمینی اور سمندری راستے سے تجارتی اشیاء کی خریدو فروخت جاری رکھتے تھے۔ عرب ہندوستان کے پورے ساحلی علاقوں اور بحر ِہند کے ایک ایک جزیرے سے ہوتے ہوئے بنگال اور آسام سے تجارت کرتے ہوئے چین روانہ ہوجاتے تھے اور پھر یہی راستہ استعمال کرکے واپسی عرب آجاتے تھے۔50
قديم دور سے ہی اہلِ عرب اپنا تجارتی سامان سری لنکا لاتے اور وہاں کے مقامیوں کی طرف سے پیش کردہ اشیاء سے اپنا سامان تبدیل کرتے تھے۔51 /arabic/arabinlanka.html, Retrieved: 19-05-2021]اہلِ عرب سری لنکا کو جزیرۃ الیاقوت کہا کرتے تھے کیونکہ یہاں وسیع پیمانے پر موتی اور قیمتی پتھر کی پیداوار ہوتی تھی۔ سرلنکا یاقوت کبود (Sapphire) اور موتیوں کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا۔52دینِ اسلام کی آمد سے کم و بیش 300 برس قبل اہلِ عرب نے سری لنکا میں اپنے تجارتی مراکز قائم کرلیے تھے اور وہاں سے وسیع پیمانے پر تجارت کیا کرتے تھے۔53
عرب قدیم الایام سے افریقہ کے ساحلوں پر تجارت کیا کرتے تھے۔ عرب تاجر اپنے ملک سے چمڑے، گوند، لوبان اور اونی کپڑے حبشہ لے جاتے اور وہاں سے غلہ لاتے تھے۔54عربوں نے افریقی ساحلوں پر مصر سے تجارت کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جابجا تجارتی منڈیاں قائم کر رکھی تھیں حتی کہ بحیرۂ روم کی بحری تجارت مکمل طور پر عربوں کے ہاتھوں میں تھی۔55یہاں حبشہ اور کارتھیج(Carthage) کی تجارت کے مشہور مقامات تھے۔ اہلِ یمن حبشہ کی جانب عدن سے اور اہلِ حجاز جدہ کے راستے آتے تھے۔ کارتھیج (Carthage)کا بحری راستہ بحر الروم سے تھا۔
عرب قدیم دور سے ہی یونانیوں سے مختلف اقسام کے مصالحے، خشبودار اشیاء، ملبوسات، جواہرات اور دیگر اشیاء کی تجارت کرتے تھے۔ ان اشیاء کو اہلِ عرب ہندوستان، چین اور اپنے ملک سے تجارت کی غرض سے لاتے تھے۔ مؤرخ ہیروڈوٹس(Herodotus) لکھتا ہے کہ لوبان، مرکلی، تیج پات، دار چینی اور لودانم (عرق افیون)کی تجارت یونانیوں سے صرف عرب ہی کرتے تھےاور یہ اشیاء ان کو عربوں کے سوا کسی اور سے نہیں ملتی تھیں۔56
قدیم دور میں ہندوستان اور چین کا تجارتی مال جو بحری راستوں سے ہوتا ہوا کشتیوں میں یمن کی بندرگاہ پہنچایا جاتا تھا، اہلِ سبا کے تجار اس مال کو خریدتے اور یمن سے فلسطین کی منڈیوں تک پہنچانے کا بندوبست کرتے تھے۔ سبا ہندوستان اور چین سے لائے گئے تجارتی سامان کے ساتھ اپنی مقامی پیداوار مثلاً لوبان اور مرکی بھی فلسطینی منڈیوں میں بیچا کرتے تھے۔57ساتویں صدی قبل مسیح میں جنوبی عرب میں پیدا ہونے والی لوبان اور مرکلی کی کاشت فلسطین میں کی جانے لگی تھی 58جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عرب اور فلسطین کے مابین قدیم تجارتی تعلقات قائم تھے۔
عرب میں سال کے مختلف اوقات میں متعدد بازار لگا کرتے تھے۔بعض بازار سال بهر لگے رہتے تھے جبکہ بعض موسمی ہوتے اور سال میں کسی معین وقت کے لیے ہی لگائے جاتے تھے۔ 59مؤرخ یعقوبی کے مطابق ان بازاروں کی مجموعی تعداد 10 تھی60اور ایک دوسری روایت کے مطابق 13 تھی۔ 61لوگ ایک بازار سے دوسرے بازار خریدوفروخت کےلیے نقل مکانی کرتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ جزیرہ نما عرب کے باہر عراق، شام اور حبشہ میں لگنے والے بازاروں میں بھی عرب تاجروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
عرب کے ہر بازار میں انتظامی امور چلانے، سنبھالنے اور لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے نگرانوں کی ایک جماعت اپنی ذمہ داریوں میں مصروف عمل رہتی تھی۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ان بازاروں میں بعض ایسے افراد بھی موجود ہوتے تھے جو بازار کے تقدس کو اچھا نہیں جانتے تھے اور نہ اس کی اہمیت سمجھتے تھے۔ایسے افراد المحلون کہلاتے تھےجن کا تعلق اسد، طئی، بنی بکربن عبد مناۃ بن کنانہ کے قبائل اور بنو عامر بن صعصعۃ کے ایک گروہ سے تھا۔ ان کے مقابلے میں ایسے افراد بازار میں موجود ہوتے جو امن و امان کے قیام کے لیے ہتھیار سے لیس ہوتے تھے۔ ایسے افراد کو المحرمون کہا جاتا تھا۔ ان میں بنی عمرو بن تمیم، بنی حنظلۃ بن زید مناۃ، ھزیل، بنی شیبان اور بنی کلب کا ایک گروہ شامل تھا۔62
عرب کے مشہور بازاروں کے نام درج ذیل ہیں۔
دومۃ الجندل کا بازار شام اور حجاز کے درمیان لگا کرتا تھا۔ دومۃ الجندل مدینہ سے 13 میل، کوفہ سے 10 میل اور دمشق سے 10 میل کے فاصلہ پر تھا۔ یہ بازار عموماً ربیع الاول کی پہلی تاریخ سے مہینہ کے آخر تک لگا رہتا تھا۔64ابن حبیب کے مطابق اس بازار کے منتظم اکیدر العبادی اور قنانۃ الکلبی تھےجو لوگوں کی ضروریات اور معاملات کے انتظامات کیا کرتے تھے۔65بازار میں ان کی گرفت مضبوط تھی، کوئی بھی شخص چاہے عراق سے آیا ہوا ہو یا شام سے ان کی اجازت کے بغیر خریدو فروخت نہیں کرسکتا تھا۔ دومۃ الجندل میں پتھر پھینکنے کے طریقہ سے خریدو فروخت کی جاتی تھی۔ جسے بیع حصاۃ66کہا جاتا تھا۔
دومۃ الجندل میں دو عرب قبائل کلب اور جدیلۃ طئی تجارت میں دیگر قبائل سے آگے تھے۔ اس بازار کے لگنے کا حتمی وقت قبائلِ عرب کے سردار طے کرتے تھے جن میں سے اکثر قبیلۂ کلب اور غسان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان بازاروں سے جو بھی محصول جمع ہوتااسے منتظمین میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔67
دومۃ الجندل سے تاجر اور خریدار مقام ہجر(بحرین) میں واقع بازار المشقر جاتے تھے۔ یہ بازار پہلی جمادع الآخر سے مہینہ کے آخر تک لگتا تھا۔ مشرقی عرب کا یہ مشہور بازار تھا۔68اس کے اطراف بنو عبد القیس اور بنو تمیم آباد تھے اور بازار کا نظم و نسق یہی سنبھالتے تھے۔ یہاں کے مقامی افراد ازد کہلاتے تھے۔ اس بازار میں اہلِ فارس کثیر تعداد میں خشکی کے راستے69اور بعض پانی کے راستہ سے بھی آتے تھے۔ 70
سوقِ حجر كے بعد عرب تاجر عمان كے بازاروں كی طرف رخ كرتے تهے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عمان فارس، ہندوستان اور حبشہ کے درمیان میں پڑتا تھا جہاں ان تینوں ممالک کی تجارتی اشیاء کی خریدو فروخت ہوا کرتی تھی۔ عمان کے دو مشہور بازار صحار اور دِبا تھے۔
صحار کا بازار پہلی رجب سے 20 رجب تک لگتا تھا۔ مشقر کی ساری رونقیں یہاں سمٹ آتی تھیں۔ جو لوگ کسی وجہ سے پہلے دو بازاروں میں شریک نہیں ہوپاتے تھے وہ اس بازار میں شریک ہوتے تھے۔ یہاں عرب حاکم الجلندی محصول وصول کرتا تھا۔71اس بازار میں بھی خریدو فروخت بیع الحصاۃ یعنی کنکری پھینکنے کے طریقے سے کی جاتی تھی۔72
دبا (دبئی) کا بازار صحار کے بعد لگتا تھا۔ یہ مقام ہندوستانی تجارتی جہازوں کے لیے بہت بڑی بندرگاہ تھا۔ ہندوستان، سندھ اور چین حتی کہ مشرق و مغرب کے تجار یہاں جمع ہوتے تھے۔ اس بازار کی ابتداء رجب کے آخری دن سے ہوتی تھی۔ یہاں بھی الجلندی محصول وصول کرتا تھا۔73
جنوبی عرب کا مشہور بازار الشحر تھا جو مقام مہرہ پر واقع تھا۔ 74اس بازار میں بحری اور برّی دونوں راستوں سے تاجر آتے تھے۔ شحر مہرہ کا بازار اس پہاڑ کے درمیان لگتا تھا جس پر اللہ کے نبی حضرت ھودکا مزار مبارک ہے۔ یہاں خاص طور پر لوبان، مرکلی اور دیگر اشیاء کی خریدو فروخت کی جاتی تھی۔ یہ بازار نصف شعبان میں لگتا تھا اور یہاں کوئی محصول نہیں لیا جاتا تھا۔75
شحر مہرہ سے تاجر عدن آتے تھے۔ یہاں وہی تاجر آتے جن کا مال پہلے بازاروں میں فروخت نہیں ہوپاتا تھاپھر ایسے تاجر اپنا مال فروخت کرنےکے لیے اس بازار کا رخ کرتے تھے۔جن کا مال پہلے بازاروں میں فروخت ہوجاتا وہ اس بازار کا قصد نہیں کرتے تھے۔ یہاں خریداروں میں زیادہ تر وہ لوگ ہوتے جو دوسرے بازاروں میں نہیں جاپاتے تھے۔ سوقِ عدن کا وقت پہلی رمضان سے 20 رمضان تک تھا۔ اس بازار کے منتظم حمیر تھے۔ یہ لوگ محصول بھی وصول کرتے تھے۔ آگے چل کر ابنائے فارس یہ رقم وصول کرنے لگے۔ ان کے حسنِ انتظام کی دھوم دھام ہندوستانی تاجروں میں اس قدر تھی کہ پورے ہندوستان میں اس بازار کا چرچا تھا اور برّی راستے سے آنے والے تاجر پورے فارس میں اس بازار کا تذکرہ کرتے تھے۔
عدن کے بعد صنعاء کا بازار نصف رمضان سے شروع ہوکر مہینے کے آخر تک رہتا تھا۔ یہاں کپڑے، لوہے، روئی، زعفران اور مختلف رنگوں کی بکثرت تجارت ہوتی تھی۔
صنعاء کا بازار ختم ہوکر دو بازاروں میں تقسیم ہوجاتا تھا، سوقِ رابیہ حضر موت اور بازارِ عکاظ۔ یہ دونوں بازار ایک ہی وقت میں نصف ذی قعدہ میں لگتے تھے۔ اس بازار کا کوئی نگراں مقرر نہیں تھا اسی لیے تاجر یہاں کم توجہ دیا کرتے تھے۔76
سوقِ عکاظ نجد کے بالائی علاقے میں عرفات کے قریب لگتا تھا۔ یہ پورے عرب کا سب سے بڑا بازار تھا۔ عام طور پر یہ بازار ہر اتوار کو کھلتا تھا جس میں قرب و جوار کے تجار اور قبائل خریدو فروخت کے لیے آتے تھے۔ اس کے علاوہ سال میں ایک مرتبہ ماہ ذیقعد میں عرب کے تمام قبائل اس بازار کا رخ کرتے تھے اور اپنی تمام اغراض اور ضروریاتِ زندگی کو یہاں سے پورا کرتے تھے۔77اس میں قریشِ مکہ، ہوازن، غطفان، خزاعہ اور حابیش یعنی حارث بن منات، عضل، معطلق اور دوسرے عرب قبائل آتے تھے۔ یہ بازار نصف ذی قعدہ سے ذوالحجہ تک رہتا تھا۔ یہاں کسی قسم کا ٹیکس نہیں تھا۔ اس بازار میں نہایت عمدہ اور نایاب سامان فروخت ہوتا تھا جو عرب کے کسی اور بازار میں نہیں ملتا تھا۔ ملوکِ یمن اور حیرہ یہاں عمدہ تلواریں، نفیس حلے، قیمتی سواریاں، مشک، عود اور دوسری قیمتی چیزیں تجارت کے لیے بھیجا کرتے تھے۔
ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی عکاظ کا بازار ختم ہو کر ذوالمجاز میں منتقل ہوجاتا تھا اور یہاں کے تمام تاجر وہاں پہنچ کر خریدو فروخت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ یہ مقام بازار ِعکاظ سے بہت قریب تھا۔ ذوالمجاز میں لوگ
ان بازاروں کے علاوہ سوقِ نطاۃ، خیبر اور سوقِ حجر یمامہ میں بھی خریدو فروخت کی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ بعضوں نے مجنہ کو بھی اسواقِ عرب میں شمار کیا ہے۔ یہ مقام ذو المجاز اور سقی سے قریب حضر موت کے پیچھے واقع تھا۔ سوقِ دیرایوب بھی ایک بازار تھا۔ اس کے علاوہ سوقِ بصری کا دورانیہ 40 دن تک رہتا تھا۔ 78
عربستان کے کئی شہر تجارت کی منڈیاں تھے جہاں اقصائے عالم سے مال و اسباب آیا جایا کرتا تھا۔ ان کا ذکر مندرجہ ذیل ہے۔
عرب میں یمن کے سوداگر جن اعلی درجے کی چیزوں کو فروخت کرتے تھے ویسی اقصائے عالم کے تمام سوداگروں سے بھی میسر نہیں آتی تھیں۔ 950 قبل مسیح میں شام سے لائی گئی جن اشیاء کو یمن کے علاقہ سبا کی ملکہ بلقیس نے بطورِ تحفہ حضرت سلیمانکی بارگاہ میں پیش کیا اور ان کی اطاعت قبول کی تھی، ان میں بہت سا سونا، خوشبو کی چیزیں اور بیش قیمت جواہرات شامل تھے۔79یمن کا ساحلی علاقہ عربوں، یونانیوں اور رومی تاجروں سے بھرا رہتا تھا۔ تاجر یہاں سے صومالیہ، ایران اور ہندوستان کا سفر طے کرتے تھے۔ 80
قدیم دور میں یمن اور حضرموت کی بڑی تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے مصر اور ہندوستان کے مابین وسیع تجارتی تعلقات قائم تھے کیونکہ مصر اور ہندوستان کا تجارتی سامان پہلے سمندر کے راستے سے ہوکریمن پہنچتا اور پھر خشکی کے راستے مغربی ساحل تک پہنچایا جاتا تھا۔ اس تجارت پر زوال اس وقت آیا جب بطلیموسی(Plotemy) بادشاہوں نے ہندوستان سے اسکندریہ تک براہِ راست ایک راستہ بنا لیا تھا۔ اس مقصد کے لیے یونانیوں نے جزیرۂ سقوط پر قبضہ کرکے وہاں نو آبادی قائم کرلی تھی لیکن یہ تجارت بالکل یونانیوں کے ہاتھوں نہیں چلی گئی تھی کیونکہ حضرت عیسیٰکی تشریف آوری سے دو صدی قبل جہاز ہندوستان کے ساحل سے سبا(یمن) آتے تھے اور وہاں سے مصر پہنچتے تھے۔ 81
عدن یمن کی مشہور تجارت گاہ تھی۔ یہ بحرِ ہند کے کنارے پر واقع تھی۔ یہاں کشتیوں کے ٹھہرنے کے لیے مناسب لنگرگاہ بھی بنائی گئی تھی۔ اس بندرگاہ میں مشرقی اور مغربی علاقوں کے درمیان بڑے پیمانے پر تجارت ہوتی تھی۔82عدن میں سندھ، ہندوستان اور چین سے مختلف اقسام کے بیش قیمت اموال تجارت کے لیے لائے جاتے تھے۔ اس بازار میں جوہر دار تل، تلواروں کے پھل، رنگا ہوا اور پکایا گیا چمڑا، زرہ، مشک، زین، فلفل سیاہ، ناریل، پوست، الائچی، دار چینی، گلنگہ، جوتری، ہڑ،
اہل عرب میں تجارت کرنے کے مختلف النوع طریقے رائج تھے۔ یہ تجارتی شکلیں تمام عرب میں رائج تھیں۔
ان کی مختصر تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان اشکالِ مبادلہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایام ِجاہلیت کے عرب طلب اور رسد کے فطری قوانین سے بخوبی آگاہ تھے۔ وہ تخمین اور سٹہ بازی (Speculation) میں بھی ماہر تھے۔ وہ شہر کے باہر سے آنے والے تجارتی کاروانوں سےسامانِ تجارت اور خصوصاً غلہ خریدتے اور بازار میں مصنوعی قلت کی حالت پیدا کرکے اپنی من مانی قیمتیں وصول کرتے تھے۔ کسانوں کو (بالخصوص طائف اور مدینہ میں) سودی قرضے دیتے اور ان کی تمام فصل (پیداوار) پر قبضہ کر لیتے تھے گویا تاجر "زیادہ سے زیادہ نفع" (Profit Maximization)کے استحصالی حربہ کے استعمال میں آج کے سرمایہ داروں سے ملتے جلتے تھےجو اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ سرمایہ دار کی استحصالی ذہنیت ہر دور میں ایک جیسی رہی ہے90اور اسی کا حضورﷺنے اپنی آمدِ مبارکہ کے بعد خاتمہ کیا تھا۔
اسلام سے پہلے عرب سودی کاروبار بھی کرتے تھے۔ طائف کے لوگ بلا کے سود خور تھے۔91اس کے علاوہ عرب کے بعض رئیسوں کا تجارت کے بعد دوسرا بڑا آمدنی کا ذریعہ سود ہی تھا جس سے وہ لوگ بہت زیادہ منافع کمایا کرتے تھے۔ وہ لوگ اپنا مال قبیلے کے مردوں اور تجارت کرنے والوں کو دیتے اور پھر اس پر ان سے زائد منافع وصول کیا کرتے تھے۔92قبیلۂ ثقیف کے بعض لوگوں نے سودی کاروبار کو اپنا پیشہ بنا لیا تھا۔ وہ لوگ سود زر اور اشیاء دونوں صورتوں میں وصول کرتے تھے۔ قبیلۂ ثقیف کے لوگ بنو مغیرۃ کو قرض دیا کرتے تھے۔ جب ادائیگی کی مدت پوری ہو جاتی تو بنو مغیرۃ سود میں اضافہ کی یقین دہانی کرواکر مزید مہلت لے لیا کرتے تھے۔
جاہلیت میں جب کسی شخص کو کسی معین مدت کے لیے قرض دیا جاتا تو ادائیگی کے وقت قرض خواہ مقروض سے کہتا کہ دو صورتیں ہیں، یا تو میری رقم واپس کردو یا سود کے اضافہ کے ساتھ مزید مہلت لے لو۔ اگر مقروض کے پاس مال ہوتا تو قرض کی ادائیگی کردیتا اور اگر مال نہیں ہوتا تو قرض خواہ کی سودی شرط قبول کرکے مزید مہلت مانگ لیتا چنانچہ اگر ایک سال کی عمر والی اونٹنی واجب الادا ہوتی تو دوسرے سال دوسال کی عمر والی اونٹنی واجب الادا ٹھہرتی پھر اگلےسال تین سال والی اونٹنی طلب کرتا۔ اگر اس کے بعد بھی قرض کی ادائیگی نہیں کرپاتا تو چار سالہ اونٹ طلب کرتا اور یوں مدت کے اضافہ کے ساتھ سود کی قدر میں بھی اضافہ ہوتا رہتا تھا۔اسی طرح زر میں بھی مقررہ مدت پر ادائیگی نہ ہونے پرسود کی شرح پر دگنا اضافہ کردیا جاتا تھا یعنی اگر ایک سال 100 درھم واجب الادا ہوتے تو اگلے سال 200 درھم دینے پڑتے تھے۔ اگر پھر بھی مقروض ادائیگی میں تاخیر کرتا تو تیسرے سال 400 درھم ہوجاتے۔ یوں مدت کے اضافے کے ساتھ سود میں بھی اضافہ کردیا جاتا تھا۔93
لونڈیاں بھی عرب معاشرے کا حصہ تھیں۔لونڈیاں جنگ کے دوران قید کی جانے والی عورتوں کو کہا جاتا تھا۔94عرب معاشرہ میں لونڈیاں بکثرت پائی جاتی تھیں۔ان سے خدمت گزاری اور دیگر فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مالی فوائد بھی حاصل کیے جاتے تھے۔ بعض عرب انہیں طوائف بنادیتے اور ان سے قبیح مال کمایا کرتے تھے۔عبد اللہ بن اُبی بھی یہی ناجائز کاروبار کیا کرتا تھا۔ اس نے جو لونڈیاں رکھی ہوئی تھیں، ان کے ذریعے عیاش مردوں سے زناکاری کا کاروبار کیا کرتا تھا اور دولت کماتاتھا، اس کے علاوہ اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے اور انہیں خوش کرنے کے لیے بھی ان لونڈیوں کو ان کے سامنے پیش کردیا کرتا تھا۔ اگر زناکاری کے عمل سے کوئی ناجائز اولاد پیدا ہوجاتی تو ان سے اپنے خادموں میں اضافہ کرلیتا تھا۔95 اسی طرح بعض لونڈیوں کو ان کے مالک ناچنے گانے کے کام پر لگا کر مال کمایا کرتے تھے۔ کچھ کو اونٹ اور بکریاں چرانے کی خدمت پر مامور کردیا جاتا تھا جبکہ بعض مال دار خواتین کی خدمت کیا کرتی تھیں۔96
قدیم دور میں اہلِ عرب مختلف اقوام سے تجارت کیا کرتے تھے۔ عرب میں سکّہ سازی کی کوئی صنعت نہیں تھی، تجارتی لین دین کے لیے وہ لوگ دیگر اقوام کے سکوں کا استعمال کیا کرتے تھے۔
جنوبی عرب میں تجارتی لین دین کے لیے چاندی کے سکوں کے استعمال کی تاریخ دوسری اور تیسری صدی قبل مسیح سے ملتی ہے۔97اس دور میں اہل سبا کی دنیا کے دیگر ممالک سے تجارت عروج پر تھی اور اس کے لیے ایتھینی(Athenian) سکوں کا استعمال کیا جاتا تھا جسے ٹیرادراخم (Teradrachm) کہا جاتا تھا۔98ان سکوں کی بناوٹ اس طرح کی جاتی کہ سکے پر ایک الّو زیتون کے پیڑ کی ٹہنی پر بیٹھا دکھایا جاتا تھا جس پر ہلال کا نشان بھی کندہ کیا جاتا تھا۔ جبکہ دوسرے سکے میں بادشاہ کی صورت اور اس پر خوبصورت تاج کندہ کیا جاتا تھا۔ اہل سبا کے بادشاہوں اور ملکاؤں نے ایتھیائی سکے ٹیرادراخم (Teradrachm) کے بعد مزید سکے بھی متعارف کروائے جس میں سکے کے چہرے والے رخ پر ایتھنز(Athens) کی ایک دیوی کو اور سکے کے پیچھے کی جانب الّو کندہ کیا جاتا تھا۔
دینار کا سکہ بازنطینی ریاستوں، روم، شام اور مصر میں رائج تھا۔ قریشِ مکہ کی تجارت چونکہ زیادہ تر انہیں ملکوں سے تھی اسی لیے دینار کا سکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رائج تھا۔
عہدِ جاہلیت میں عربوں کے درہم دو قسم کے تھے: بغلیہ اور طبریہ، ایک قسم پر ایرانی نقش ہوتا اور دوسرے پر رومیوں کا۔ بغلیہ کی نسبت ایک بادشاہ کی طرف تھی جسے راس البغل کہا جاتا تھا اور یہ سیاہ درہم ہوتے تھے اور ہر درہم کا وزن آٹھ دانگ ہوتا تھا اور طبریہ کی نسبت شام کے شہر طبریہ کی طرف تھی، اور ہر درہم کا وزن چار دانگ ہوتا اور یہ قدیمی درہم تھے۔99عہدِ فارس میں تین وزنوں کے درہم ڈھالے جاتے تھے۔ ایک 20 قیراط کا، دوسرا 12 قیراط کااور تیسرا 10 قیراط کا ہوتا تھا۔100
عربوں نے قدیم دور میں وسائل اور آسائشوں کی کمی کے باوجود کرۂ ارض کے طول و عرض میں اپنی تجارت کالوہا منوایا۔ انہوں نے اس وقت موجود دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے ہی اپنے تجارتی تعلقات کو استوار کیااور ان سے بھرپور تجارت کرکے کثیر مالی فوائد حاصل کیےتھے۔ وہ دور دراز علاقوں کا سفر کرتے اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کماتے اور مال اکھٹا کرتے تھےلیکن وہ اخلاقِ حسنہ اور محاسن جن سے ایک تاجر آراستہ اور پیراستہ ہونا چاہیےوہ ان میں مفقود تھےجس کا ازالہ حضورنبی کریمﷺکی بعثت مبارکہ کے ساتھ ہوا۔ یہ اسلامی تعلیمات ہی تھیں جنہوں نے عربوں میں اس شعور کو اجاگر کیااور ان میں سے سود اور دیگر برائیوں کا خاتمہ کرکے انہیں حلال و احسن طریقے سے تجارت کرنے پر آمادہ کیا۔