تاریخِ عرب کا مطالعہ کیا جائے تو عرب معاشرے کی جو تصویر سامنے آتی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک قبائلی معاشرہ تھاجو مختلف طبقات پر مشتمل تھا۔اس معاشرہ میں بہت سی برائیاں تھیں مثلا یہ لوگ متکبر تھے، اپنے حسب و نسب پر بہت فخر کرتے تھے، غیروں کو خود سے کم تر سمجھتے تھے، انہیں اپنی زبان دانی پر بھی بڑا ناز تھا، یہ خود کو عرب اور غیروں کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے، یہ عورت کو کم تر اور حقیر مخلوق سمجھتے تھے، یہ اسے مال کی ہی ایک قسم شمار کرتے تھے، اسی لیے اسے وراثت میں سے کوئی حصہ دینے کے بجائے بطور میراث وارثوں کی طرف منتقل کر دیتے تھے۔عرب کے بعض قبائل تو عورت پر سنگ دلی کے معاملے میں اس قدر آگے نکل چکے تھے کہ وہ اپنی معصوم بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ان عربوں میں عصبیت بھی حد درجہ کی تھی۔ وہ ظلم و جبر میں بھی اپنی قوم کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ عرب معاشرہ صرف خامیوں اور برائیوں کا مجسمہ تھا بلکہ اس میں بعض بڑی اہم خوبیاں بھی تھیں جو اسے دوسرے معاشروں سے ممتاز بناتی تھیں، مثلاًعرب بڑے مہمان نواز، پڑوسیوں کا خیال رکھنے والےاورقناعت پسند تھے۔ وہ لالچی نہیں تھے بلکہ سادہ زندگی کے عادی اورچادر و چار دیواری کا احترام کرنے والے تھے۔وہ حریت پسند، بہادر اور جنگجو تھے۔ دوسروں کو عزت دینے کے لیےلقب اور کنیت سے پکارنے والےاور رخصت کرتے وقت دعائیں دینے والے تھے۔ وہ بڑوں کا ادب کرنے والےاوروفات کے بعد بھی اپنوں کا ساتھ نہ چھوڑنے والے تھے۔
عرب قبائلی معاشرت رکھتے تھے اورقبیلہ بدوی زندگی کاایک بنیادی ستون تھا۔قبائل گھروں سے مل کر بنتے تھے اورگھروں کی تعداد قبیلے کے حجم کے اعتبار سے مختلف ہوتی تھی۔اس میں موسموں کا بھی خاصا عمل دخل ہوا کرتا تھا۔موسمِ بہار میں یہ منتشر ہو کر پھیل جاتے تھےتاکہ ان کے اونٹ چراہ گاہوں سے فائدہ اٹھا سکیں، اس وقت یہ چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد کر لیتے تھے جو پچاس (50) سے لے کر ایک سو پچاس (150) گھروں پر مشتمل ہوتی تھیں جبکہ دیگر موسموں میں یہ دوبارہ سمٹ کر قریب قریب آکر آباد ہو جاتے تھے۔اس وقت ایک مجموعے میں گھروں کی تعداد پانچ سو (500) یا اس سے زائد ہوا کرتی تھی۔1
یہ قبائل تین قسم کے لوگوں سے مل کر بنتے تھے، صلبی، حلفاء اور عبید۔صلبی وہ تھےجو ایک جدِ اعلی کی نسل سےتھے، حلفاء وه لوگ تھےجو قبیلے کے جدِ اعلی کی اولادنہیں تھے اور نہ ہی ان کا اہلِ قبیلہ کے ساتھ کوئی خونی رشتہ تھا البتہ وه قبیلے میں بامرِ مجبوری پناہ لیتے تھے اور اپنے آپ کو اس قبیلے یا اس کے چندافراد کی حمایت کا پابند بنا لیتے تھے۔عبیدغلام لوگ تھےجوعموما جنگی قیدی ہوتے تھے، کچھ زرخرید بھی تھے، کچھ غلاموں کے گھر پید ا ہونے کی وجہ سے ایسی زندگی گزارتے تھے، کچھ قرض ادا نہ کرپانے کی وجہ سے غلام بنا لیے جاتے تھے اورکچھ لوگوں کو قمار بازی بھی غلام بنا دیتی تھی۔2
قبائلی معاشرت میں سب سے زیادہ اہمیت ان لوگوں کو دی جاتی تھی جو جد ِاعلی سے خونی تعلق رکھتے تھے۔یہ نسبی تعلق ہی تھا جو قبیلے کے افراد کو جوڑ کر رکھتا تھا اور یہی ان کے نزدیک قومیت کی اصل بنیاد بھی تھا۔3یہی وجہ تھی کہ تمام عرب اپنے نسب کو بڑے اہتمام سے خود بھی یاد رکھتے تھے اور اپنے بچوں کو بهی یاد کرواتے تھے۔ اس حوالہ سے مزید وضاحت ذیلی اقتباس سے ہوتی ہے:
كان الاهتمام بالنسب مهمّا في العصر الجاهلي اذ هو المراة التي تظهر فيها نقاوة دم الفرد و ارتباطة بالقبيلة.4
جاہلیت کے زمانے میں نسب کا اہتمام بڑی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہی وہ آئینہ تھا جس میں آدمی کے خون کی خالصیت اور قبیلے کے ساتھ اس کے تعلق کا اظہار ہوتا تھا۔
اسی وجہ سے عرب کے نزدیک نسب کی بہت اہمیت تھی۔وہ کسی اجنبی کو اپنے نسب میں شامل نہیں ہونے دیتے تھے۔اپنے نسب کی بھرپور حفاظت بھی کیا کرتے تھے اوراپنے حسب و نسب پرفخر بھی کیا کرتے تھے۔اس معاشرے میں نسب کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں تھیں جن پر فخر کیا جاتا تھا۔
تكبر وتفاخر ان کی معاشرت کے اہم مظاہر میں سے تھا۔وہ مختلف امور میں فخر کیا کرتےتھے۔انہیں اپنی زبان دانی پر بڑا نازتھا۔اس کے تکبر کی وجہ سے ہی وہ اپنے ما سوا سب کو عجم کہتے تھے۔5وہ اپنے باپ دادا پر، حسب و نسب پر، قبیلے کی کثرت پر، قبیلے کی سرداری اور شرافت پر بلکہ وہ تو بعض اوقات اپنے مُردوں پر بھی فخر کرتے تھے اور قبروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مدمقابل سے کہتے تھے، کیا تم میں فلاں اور فلاں جیسا کوئی ذی شان اورعالی مرتبہ شخص موجود ہے ؟6
اس معاشرے میں قبائلی عصبیت بھی موجودتھی۔ اس کی حد یہ تھی کہ ہر شخص اپنے بھائی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا خواہ اس کا بھائی ظالم ہو یا مظلوم۔7ہر اہم قبیلہ دوسروں پر اپنی بڑائی کا اظہار بھی کرتا رہتا تھا۔ قصی بن کلاب کی اولاد جنہیں قریش کہاجاتا تھا، وہ خود کو دوسرے لوگوں سے برتر سمجھتے تھے۔ وہ کسی بھی موقع پر عام لوگوں کے ساتھ مل جانا پسند نہیں کرتے تھے حتی کہ حج کے موقع پر بھی یہ حجاج سے الگ تھلگ رہتے تھے۔وہ عرفات میں بھی عام لوگوں کے سا تھ ٹھہرناعار سمجھتے تھے۔8وه کبھی بھی کسی ایرے غیرے کو خود پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔ ایک شخص جس کا نام زیاد بن سمیہ تھا، اس کے متعلق عمرو بن عاص کہا کرتے تھے کہ اگر یہ شخص قریشی ہوتا تو لوگوں کو اپنی لاٹھی سے چلاتا۔9عمرو بن عاص کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ زیاد جو سمیہ کا بیٹا ہے، وہ باصلاحیت انسان ہے، اس میں قائدانہ صلاحتیں موجود ہیں، وہ لوگوں کو اپنے پیچھے چلا سکتا ہے لیکن اس کی بد قسمتی ہے کہ وہ قریش سے تعلق نہیں رکھتا، اس لیے اسے کوئی اپنا امام تسلیم نہیں کرے گا۔
اس معاشرے میں بہت سے میلے اور تہواربھی منعقد ہوتے تھے، جن میں لوگ عمدہ سے عمدہ لباس پہنتے، قیمتی اور بیش قیمت چادریں اوڑھتےتھے، اس موقع پر شہ سواروں میں گھڑ دوڑ ہوتی، لوگ یہاں جوا بھی کھیلتے، دف، ستار اور دوتاربھی بجاتے، یہاں رجز بھی گائے جاتے اور شعر بھی پڑھے جاتے تھے۔ نوجوان لڑکوں کے لیےبھی کھیلوں کا انتظام ہوتا۔10
یہ تہوار عموما ًرجب، ذی قعد، ذی الحج اور محرم کے چار مہینوں میں منعقد کیے جاتے تھے جن کی وجہ سے ان چار مہینوں میں لڑائی موقوف رہتی تھی۔ان میلوں میں سب سے بڑا میلہ عکاظ کا تھا جو مضافات ِمکّہ میں طائف کے قریب لگتا۔اس وقت عرب کے تمام قبیلوں کے خیموں سے میدان پٹ جاتا اور بیس(20) دن تک خرید و فروخت، مشاعروں اور جلسوں کی گہما گہمی رہتی تھی۔ چوٹی کے شاعر یہاں آکر اپنا اپنا شاعرانہ کمال دکھاتے اور اپنی محنت کی داد پاتے۔ اس میلہ میں چونکہ تمام عرب کے قبیلے جمع ہوتے تو اس لیے یہاں مختلف قبیلوں کے جھگڑوں کے فیصلے بھی کیے جاتے تھے۔11
یہاں دورانِ سال بھی مختلف مواقع پر بہت سی محافل منعقدہوتی تھیں، بعض محافل فقط آپس میں محبت بڑھانے کے لیےمنعقد کی جاتیں اوربعض صرف تفریحِ طبع کیلئے منعقدہوتیں۔ان محافل میں لوگ اپنی گزشتہ جنگوں کے واقعات ذکر کرتے، اشعار و قصائد بھی پڑھتےاورلطائف و ظرائف بھی بیان کیاکرتے تھے۔یہ محافل عموماً رات کو منعقد کی جاتیں۔جب سب فراغت کے بعد جمع ہوتے تو لوگ حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے اورحلقہ کے درمیان میں قوم کا سردار یا بزرگ بیٹھا کرتا تھا۔جو شخص کوئی نیا واقعہ یا کوئی عجیب بات بیان کرنا چاہتا تو کھڑا ہو کر کتاب کی طرح لوگوں کو پڑھ کر سناتا جس طرح خطیب اور لیکچرار کرتے ہیں اور جب کوئی دوسرا شخص اس سے گفتگو کرنا چاہتا تو اثنائے تقریر ا س کی داڑھی پکڑ لیتا تھا۔یہ اہل عرب کی عادت قدیمہ تھی کہ مخاطب متکلم کی اثنائے گفتگو میں داڑھی پکڑ لیتا۔یہ ان کے ہاں شفقت اور محبت کی نشانی تھی۔ یہ محافل گویا علمی معلومات بڑھانے کی غرض سے منعقد ہوتی تھیں۔12
اہل عرب کے بادیہ نشینوں کا لباس بہت سادہ ہوتاتھا، عموماً اون اور کھدر کا لباس زیب تن کرتے تھے جس میں چمڑے سے پیوند لگاتے تھےاوراونٹ اور بھیڑ کے بالوں سے کپڑے بُنتے تھے، سر پر رومال اور عمامہ پہننے کا بھی عام رواج تھا اور بعض اوقات ایک چادر اور ازار بھی پہنتے تھے البتہ شہری عرب اپنے لباسوں میں تفنن اختیارکرتے تھے۔مختلف معاشرتی طبقات کے افراد مختلف قسم کے لبا س پہنتے تھے اور مخصوص محافل کے لیے مخصوص لباس استعمال کرتے تھے۔13سر ڈھانپنا اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ یہاں موسم شدید گرم تھا اور ریت بردار ہوائیں بالوں کو گرد آلود کردیتی تھیں۔14
عرب کم کھانے کے عادی تھےاورکہتے تھے کہ زیادہ کھانے سے فطانت (ذہانت )چلی جاتی ہے۔وہ زیادہ کھانے والے لالچی آدمی کو معیوب سمجھتے تھے۔ان کا ماننا تھا کہ کم کھانا بدن کی صحت کے لیےبہترین دوا ہے۔ وہ اس معاملے میں بڑے کفایت شعار تھے، اگر ان میں سے کسی کو پانی ملا دودھ اور پانچ چھوٹی کھجوریں مل جاتیں تو وہ خود کو بادشاہ تصور کر تا تھا۔ اس معاشرے میں ٹڈی کھانے کا عام رواج تھا، وہ کبھی اسے کچا ہی کھا لیتے، کبھی پکا یا بھون کر کھاتے ا ور اس پر تھوڑا سا نمک بھی لگا لیتے تھےاورکبھی وہ اسے کھجور کے ساتھ بھی کھاتے تھے۔یہ ان کے نزدیک بڑا لذیذ کھانا تھا۔دیہاتی عرب بعض مخصوص حالات میں اندرائن، بکری کی کھال، گوہ، یربوع (چوہے کے برابر ایک جانور )، قنفذ یعنی سیہہ اورسانپ تک کھا جاتے تھے لیکن ان کی غالب خوراک میں شکار سے حاصل کردہ گوشت، ستو اور دودھ شامل تھا۔15غرض یہ کہ عرب کھانے اورپینے میں عجم كی طرح تكلفات میں نہیں پڑتے تھے۔16
ان لوگوں نے اپنی تمام تر ضروریات ِزندگی کو اپنے ارد گردتک ہی محدود کر لیا تھا چنانچہ اس حوالے سے ڈاکٹر دیزیرہ سقال لکھتے ہیں:
و اعتمد في معيشته ما تنجته ماشية فاعتزل ثيابه من صوفها واكل لحمها و شرب لبنها و حليبها.17
عرب معیشت میں جانوروں پر اعتماد کر تے تھے، ان کے اُون سے کپڑے حاصل کر لیتے تھے، ان کا گوشت کھا لیتے تھے اور ان کا دودھ پی لیتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ ان کی زندگی نہایت سادہ تھی اوریہ قناعت پسند تھے نیزانہوں نے اپنی ضروریات کو بڑھنے نہیں دیا تھا۔
ان کے گھرنہایت سادہ ہوتے تھے۔وہ گھروں کے لیےخیمے استعمال کرتے تھے۔18خیمے عموماًجانوروں کی کھال سے بنا لیے جاتے تھے۔19گھر چھوٹا ہو یا بڑااس کی ایک خاص حرمت تھی، اس کی عزت و توقیر کا خیال رکھنا سب پر واجب تھا حتی کہ وہ خیمے جن کی حرمت کا ہوائیں بھی خیال نہیں رکھتیں تھیں، اس میں بھی بغیر اجازت داخل ہونا منع تھا۔ اگر کوئی شخص کسی خیمے میں بغیر اجازت داخل ہو جاتا تواسے سخت مزاحمت اور ملامت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اگر یہ ثابت ہو جاتا کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو اسے اس قبیح جرم کے بدلے میں سخت انتقام کا سامنابھی کر نا پڑجاتا تھا۔20
عرب معاشرہ مختلف طبقات میں بٹا ہوا تھا۔كچھ طبقات برتر اور طاقتورسمجھے جاتے تھے جبکہ کچھ طبقات کمتر اور کمزور گردانے جاتے تھے۔طاقتور طبقات میں بادشاہوں، سرداروں، آقاؤوں، آزاد اور پاکیزہ نسب کے حامل افراد کا شمار ہوتا تھا اور کمزور طبقات میں غلاموں اور لونڈیوں کا شمار ہوتا تھاجبکہ جاہلی معاشرے میں عورت کی حیثیت بھی كم تر طبقات والی ہی تھی۔ ان دو نوں طبقات کے حقو ق و فرائض بھی مختلف تھے۔ان کے ساتھ معاشرے کا رویہ بھی یکساں نہیں ہوتا تھا۔
عرب معاشرہ آزاد اور غلام لوگوں پر مشتمل تھا۔آزاد وہ لوگ تھےجو جیسے چاہتے اپنے امور میں تصرف کر سکتے تھے جبکہ غلاموں کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔ان کا معاملہ ان کے آقاؤں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ان کے لئے کچھ بھی اپنے آقا کی مرضی کے بر خلاف کرنا جائز نہیں تھا۔21عربوں میں غلاموں کی اکثریت سیاہ فام حبشی الاصل لوگوں پر مشتمل تھی تاہم کچھ غلام سفید فام اور غیر حبشی النسل بھی تھے۔22
عرب علاقوں میں یہ کثیر تعداد میں موجود تھے۔ان کی خرید و فروخت ایک مقبول تجارت کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ لوگ انہیں خریدتے، ان سے زراعت میں مدد لیتے، مصنوعی آب پاشی کا کام لیتے، ان کو قافلوں کی حفاظت پر مامور کرتے اور گھر یلو خدمات پرلگا دیتے تھے۔ان سے خوب مشقت والے اورایسے حقیر کام لیے جاتے تھےجنہیں عرب خودکرتے ہوئے توہین محسوس کرتے تھے۔یہ معاشرےکے حقیر ترین لوگ شمار کیے جاتے تھے۔ ادنی سے ادنی درجے کی عزت والی زندگی بھی انہیں میسر نہیں تھی۔ان بے چاروں کے کوئی حقوق نہیں تھے، انہیں آقا کی مرضی کے بغیر شادی تک کرنے کی اجازت نہیں تھی، یہ شادی بھی صرف اپنے جیسی لونڈی سے ہی کر سکتے تھے۔23
لونڈیاں بھی اس معاشرے کا ایک حصہ تھیں۔یہ وہ عورتیں تھیں جن کو جنگوں میں قیدی بنایا گیا ہوتا۔24ان کے بھی کوئی حقوق نہیں تھے۔یہ بھی پست ترین زندگی گزارا کرتی تھیں۔یہ عرب معاشرہ میں باکثرت پائی جاتیں تھیں اوران سے طرح طرح کے کام لیے جاتے تھے۔کچھ کو طوائف بنا دیا جاتا تھا اور ان سے مال کمایا جاتا تھا۔عبد اللہ بن اُبی بھی یہی ناجائز کاروبار کیا کرتا تھا۔اس نے جو لونڈیاں رکھی ہوئی تھیں ان سے وہ دولت بھی کماتاتھا اور اپنے مہمانوں کو بھی خوش کیا کرتا تھا۔ان کی ناجائز اولاد سے وہ اپنے خادموں میں اضافہ کرتا تھا۔25 اسی طرح کچھ لونڈیوں کو ان کے آقا گانے اور ناچنے پر لگا دیتے۔کچھ کو اونٹ اور بکریاں چرانے پر لگا دیا جاتا اورکچھ کی ذمہ داری مال دار خواتین کی خدمت کرنا تھی۔26ان لونڈیوں سے ان کے آقا اپنی خواہش بھی پوری کرتے تھے 27لیکن ان سے جو اولاد ہوتی تھی، وہ غلام ہی تصور کی جاتی تھی البتہ اگر کوئی بڑا قابل قدر فرزند پیدا ہوجاتا تو بعض اوقات اسے اپنا بیٹا تسلیم کر لیا جاتا تھا۔28
عورت کی اس معاشرے میں کیا حیثیت تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس گھر میں بچی پیدا ہوتی تھی، وہ خوش نہیں ہوتے تھے بلکہ پریشان ہو جایا کرتے تھے۔29وہ بچی کی پیدائش کو اس قدر باعثِ عار سمجھتے تھے کہ اس کا اظہار بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے۔30جب کسی شخص کو اندازہ ہو جاتا کہ اس کے گھر پیدائش متوقع ہے تو وہ کسی کو اس بات کی خبرنہیں ہونے دیتا تھا حتی کہ اس کے گھر پیدائش ہو جاتی تھی۔اگر اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا تو وہ خوشی کا اظہار کرتا تھا، اگر بیٹی ہوتی تو وہ غمزدہ ہو جاتا تھا۔31
بعض قبائل تو عورت کے معاملے میں اس حد تک سنگ دل ہوچکے تھے کہ وہ اپنی بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ عادت سارے عرب میں پھیلی ہوئی تھی بلکہ بہت سے قبائل اس سے محفوظ بھی تھے اور قریش کا نام ان میں سرِفہرست تھا32جواس قبیح رسم سے دور تھے۔ اس حوالے سے مصطفی سباعی لکھتے ہیں:
ولم تكن هذه عادة فاشية في العرب، وإنما كانت في بعض قبائلهم ولم تكن قريش منها.33
(بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی ) یہ عادت پورے عرب میں پھیلی ہوئی نہیں تھی، یہ صرف بعض قبائل میں تھی اور قریش ان بعض قبائل میں شامل نہیں تھے۔
اس بری رسم کی ابتداء ربیعہ کے قبیلے سے ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ابن عاشور لکھتے ہیں:
قيل اول من وإدإلبنات من القبائل ربيعة، و كانت كندة تئد إلبنات، و كان بنو تميم فعلون ذلك.34
کہاجاتا ہے کہ سب سے پہلے ربیعہ قبیلہ نے بچیوں کو دفن کیا تھا، کندہ اور بنو تمیم بھی ایسا کیا کرتے تھے۔
ربیعہ اورکندہ کے علاوہ مضر اور خزاعہ بھی یہ کام کیا کرتے تھے لیکن بنو تمیم اس معاملے میں سب سے زیادہ سخت تھے، امام قرطبی اس حوالے سے حضرت قتادہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
كان مضر وخزاعة يدفنون البنات أحياء، وأشدهم في هذا تميم.35
مضر اور خزاعہ بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے اور بنو تمیم اس معاملے میں سب سے زیادہ سخت تھے۔
یہ رسم زیادہ تر ایسے لوگوں میں رائج تھی جو جاہل، گنوار اور اجڈ تھےجیسا کہ تاریخ میں ہے:
ذكر أنها كانت في ربيعة ومضر أي: في العرب الذين تغلب الأعرابية على حياتهم.36
ذکر کیا گیا ہے کہ یہ رسم ربیعہ اور مضر میں تھی یعنی ان عرب میں جن کی زندگیوں پر گنوار اور اجڈ پن غالب تھا۔
بنو تمیم اس معاملے میں سب سے زیادہ سخت اور تنگ دل تصور کیے جاتے تھے۔ ان کے حوالے سے مکتوب روایات ان کی انتہائی حد تک سنگ دلی کا پتا دیتی ہیں۔ بعض مؤرخین نے اس حوالے سے کچھ وجوہات کو بعد از تحقیق کے جمع کیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
تاریخِ عرب میں بچیوں کو زندہ درگور کردینے کے حوالے سے جو وجوہات سامنے آتی ہیں ان میں سےایک وجہ تو یہ تھی کہ عرب ایک پسماندہ قوم تھی اورغربت و افلاس نے انہیں اس کام پر مجبور کر دیا تھا۔ اگر صرف یہی وجہ ہوتی تو لازما ًیہ عمل کرنے کے بعد ان کے کچھ لوگ نادم و شرمندہ بھی ہوتے، ان کا ضمیر بھی انہیں ملامت کرتا رہتا کہ انہوں نے اپنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے اپنی لخت ِ جگر کو موت کی نیند سلا دیا تا ہم تاریخی طور پر ایسے کسی واقعےپر اطلاع نہیں ہو سکی جس سے ان کی ندامت کا علم ہو سکے۔ یقیناً قتل کرنے کی ایک وجہ غربت و افلاس بھی تھی کیونکہ قرآن کریم نے اس کو بیان فرما یا ہے 37لیکن زندہ دفن کرنے کی یہ وجہ نہیں تھی کیونکہ اس وقت جتنی سنگ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا اس کے پیچھےصرف مفلسی کا نظریہ کار فرما نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی معاشی ضرورت کے پیش نظر ہی بیٹیوں کا وجود ختم کرنا ہوتا تو اس کے لیےکوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا تھا، جس کی بدولت ان کو سہولت کے ساتھ موت کی نیند سلا یا جاسکے لیکن بچیوں کو زندہ دفن کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ انہیں تکلیف پہنچانا اور نشانِ عبر ت بنانا چاہتے تھے، اس کے پیچھے یقینا کوئی ایسا نظریہ کار فرماتھا، جس میں نفرت اور انتقام کا خاصا عمل دخل تھا۔
تاریخ میں اس حوالے سے ایک واقعہ منقول ہوا ہےجسے اس کا سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔وہ یہ ہے کہ ایک قبیلے کی دوسرے قبیلے کے ساتھ جنگ ہوئی، جو قبیلہ غالب آیا اس نے مدِ مقابل کی بیویوں اور بیٹیوں کو قیدی بنا لیا، کچھ عرصے بعد ان کی شادیاں بھی فاتح قبیلے میں کر دیں، پھرمغلوب قبیلے سے ان کی صلح ہوئی توخواتین کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے قبیلے میں واپس جانا چاہتی ہیں یا یہاں ہی رہنا چاہتی ہیں۔ان خواتین نے فاتح قبیلے میں ہی رہنے کو ترجیح دی، یہ بات مغلوب قبیلے کو سخت ناگوار گزری، اس کے بعد انہوں نے اپنے اوپر لازم کر لیا کہ اب سےوہ اپنی چھوٹی بچیوں کو ہی زندہ دفن کر دیا کریں گے38تاکہ انہیں آئندہ ایسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے، کہا جاتا ہے کہ یہ بنو تمیم تھے۔39
یہی وجہ تھی کہ اس معاملے میں ان کا رویہ از حد شدید تھا۔ بعض مؤرخین کے نزدیک یہ رسم بنو تمیم سے ہی دوسرے قبائل کے طرف منتقل ہوئی تھی۔40اس واقعے کے بعد یہ رسم عرب کے مختلف قبائل میں پھیلتی چلی گئی، کچھ نے تو اسے من و عن قبول کر لیا اور یہ سمجھ لیا کہ عورتیں بے وفا ہی ہوتی ہیں، انہیں قبیلے کی عزت کا کوئی خیال نہیں ہوتا، وہ اپنے خاندان پر غیروں کو ترجیح دیتی ہیں حالانکہ اس کا دوسرا پہلو جس کی طرف وہ متوجہ نہیں ہو سکے وہ خود ان کا اخلاقی و معاشرتی رویہ بھی ہو سکتا ہےجس نے ان کی خواتین میں ان سے بُعد اور نفرت پیدا کردی ہواور وہ فاتح قبیلہ کو اپنے قبیلہ کی نسبت بہتر خیال کرتی ہوں جس کی وجہ سے ان کے لیے فاتح قبیلہ میں رہنا زیادہ پسندیدہ ہو۔بہرحال اصل سبب یہ ہو یا کوئی اور لیکن بنو تمیم کی جاری کردہ یہ رسمِ قبیح کچھ عرصہ تک مخصوص قبائل میں جاری رہی جسے بعد میں حضور ﷺ نے قابلِ نفرت اور قبیح عمل قرار دے کر رکوادیا۔انہوں نے آباء پرستی میں اس ظالمانہ فعل کو جاری رکھا۔ اسی وجہ سے کہاجاسکتا ہے کہ یہ عرب معاشرہ کا سیاہ ترین پہلو تھا۔
عرب معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو اس بری رسم کے مخالف تھے اوروہ کھلے عام اس کی مذمت بھی کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو اس سے روکنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے۔ اس وقت کے نرم دل لوگ اس عمل ِ بد سے روکتے تھے۔41اس وقت معاشرہ میں دینِ ابراہیمی کے پیروکار اس حوالہ سے نمایاں نظرا ٓتے ہیں جو کوشش کرتے تھے کہ اس عملِ بد سے لوگوں کو روکا جائے۔حدیث شریف کے مطابق حضرت زید بن عمرو بن نفیل جو دینِ ابراہیمی کے پیروکار تھے، ایسے ہی لوگوں میں سے تھے جو اس رسم کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ یہ نہ صرف بچیوں کو قتل ہونے سے بچاتے تھے بلکہ ان کو ان کے والدین سےلے لیتے تھے پھر خود ان کی پرورش کرتے اور جب وہ بڑی ہو جاتیں تو ان کے والدین سے کہا کرتے کہ اگر تم چاہو تو میں انہیں تمہارے حوالے کردیتا ہوں تاکہ تم اپنی پسند کے مطابق ان کی شادیاں کر دو ورنہ میں خود ہی ان کا مناسب جگہ پر رشتہ کر دوں گا۔42بعض اوقات والدین ان سے اپنی بچیوں کو لے لیتے تھے اور اپنی پسند کے مطابق ان کا رشتہ کر دیا کرتے تھے، بعض لوگ اس وقت بھی لینے سے انکار کر دیتے تھے کیونکہ ان کو جنسِ عورت کی نفرت اور آباء پرستی اس سے مانع ہواکرتی تھی۔ کچھ اس لیے بھی لینے سے پیچھے ہٹ جاتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اب وہ اپنی بیٹی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہے۔ عرب کے بہت سے مال دار لوگ بھی اس بری رسم سے روکنے میں پیش پیش تھے۔ وہ اپنا مال دے کر ان بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچالیتے تھے۔43مشہور شاعر فرزدق کے دادا بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔44مستدرک کی روایت کے مطابق انہوں نے تین سو ساٹھ (360)بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا تھا۔45
عرب معاشرے میں نکاح کو بڑی اہمیت حاصل تھی کیونکہ اسی کے ذریعہ قبائل اپنےخونی رشتہ داروں میں اضافہ کرتے تھے اورشاید یہی وجہ تھی کہ یہاں تعددِ ازواج کا رواج تھا۔46اس معاشرے میں مرد و عورت کے حقوق و فرائض جداگانہ تھے۔ عورت گھر کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی جبکہ مرد گھر کا نگران ہوتا تھا۔کمانے اور پالنے کی ذمہ داری مرد کے ہی کندھوں پر ہوتی تھی۔ عورت کے لیے مرد کے احکام کی بجاآوری ضروری تھی۔ اس زمانے میں لڑکی کے ولی کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زبردستی بھی اپنی بیٹی کی شادی کر سکتا تھا47البتہ کبھی کبھی والدین شادی سے پہلے عقدِ نکاح کا معاملہ بیٹیوں کے سامنے پیش کرتے تھے اور ان کی رائے بھی لیا کرتے تھے۔48عرب رئیس اور شرفاء کی عادت تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کی رائے لیا کرتے تھے۔49یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ طریقہ زیادہ تر ان خاندانوں میں مروج تھا جو معزز اور محترم تھے یا پھران خاندانوں میں بھی رائج تھا جن کی ایک یا دو ہی بیٹیاں ہوتی تھیں۔50
عرب معاشرے میں بہت سے نکاح رائج تھے۔ایک نکاح تو وہی تھا جو آج کل رائج ہے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ لوگ لڑکی کے والد، بھائی، چچا یا اس کے چچا زاد کی طرف پیغامِ نکاح بھیجتےپھر حق مہر کا تعین کرتے اور جوشخص پیغامِ نکاح لے کر آتا، وہ کہتا کہ ہم آپ کے ہم پلہ اور برابری کے لوگ ہیں، اگر آپ لوگ ہم سے نکاح کر لیں گے تو یہ اچھی بات ہے، اگر کسی ایسی وجہ سے آپ ہم سے نکاح نہیں کریں گےجو ہمارے علم میں نہیں ہے تو ہم عذر قبول کرتے ہوئے واپس لوٹ جائیں گے۔ اس کے ساتھ والدین بچی کو کچھ دعائیں بھی دیتے تھے۔ قریش اور بہت سے عرب قبائل نکاح کے اسی طریقے کو اختیار کیے ہوئے تھے۔51اس معاشرے میں بعض ایسے نکاح بھی رائج تھے جو نہایت بے ہودہ تھےجن میں سے ایک نکاحِ استبضاع تھا۔
اس نکاح میں شادی شدہ عورت کا خاوند اسے کہتا تھا کہ جیسے ہی تم حیض سے فارغ ہو جاؤتو فلاں قبیلے کے سردار کے پاس چلی جانا یافلاں نامور شخص کے پاس چلی جانا اور اس سے زنا کر لینا۔ شوہر اس وقت تک اس عورت سے دور رہتا تھا جب تک یقینی طور پر حمل نہ ٹھہرجائے۔حمل کے بعد اگر وہ چاہتا تو عورت کے پاس چلا جایا کرتا تھااوریہ سب کچھ فقط معزز، محترم اور باکمال اولاد کے حصول کے لیےکیا جاتا تھا۔52
نکاح کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ کچھ لوگ جن کی تعداد دس سے کم ہوتی تھی، ایک عورت کے پاس آتے، اس سے ہم بستر ہوتے، اس کے بعد جب وضع حمل ہوتا تو چند راتیں گزر جانے کے بعدوہ سب کو بلاتی اور کہتی تھی، یہ تمہارے ہی کام کا نتیجہ ہے پھر وہ جس کی طرف چاہتی اس بچے کو منسوب کر دیتی تھی۔53
اس معاشرے میں ایک بری رسم یہ بھی تھی کہ یہ لوگ باپ کی وفات کی بعد اس کی منکوحہ کے بھی وارث بن جاتے تھے، اس کا سب سے زیادہ حق دار بڑا بیٹا ہوتاتھا۔ اگر وہ اپنی سوتیلی ماں سے شادی کرنا چاہتا تواس پر چادر ڈال دیا کرتا تھا اوراگر اسے اس کی حاجت نہ ہوتی تو وہ جس سے چاہتا اس کی شادی کروا دیتا تھا۔54
اس معاشرے میں ایک نکاح یہ بھی تھا کہ دو مرد آپس میں رضامندی سے یہ طے کر لیتے تھے کہ تم میرے پاس اپنی بیوی بھیج دواورمیں تمہارے پاس اپنی بیوی بھیج دیتا ہوں۔ اسے نکاح بدل کہا جاتا تھا۔55
اس معاشرے میں نکاح کی ایک قسم یہ بھی تھی جس میں چند بھائی ایک ہی خاتون سے نکاح کر لیتے تھے، جو بھائی بیوی کے پا س پہلے جاتا وہ اپنا عصا دروازے پر بطور علامت چھوڑ دیتا تھا، یہ کام تمام افراد مختلف اوقات میں سر انجام دیتے تھے جبکہ رات کا وقت سب سے بڑے فرد کے لیےخاص ہوتا تھا۔56
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ افعالِ بد تمام عرب معاشرے میں مروج نہیں تھے بلکہ صرف چند لوگ ہی کسی مخصوص وقت میں اس کے مرتکب ہوئے تھے اور جس مؤرخ کو اس کا علم ہوا، اس نے اسے اپنی کتاب کاحصہ بنا دیا۔اس طرح کی زیادہ تر باتیں رومی اور یونانی مصنفین نے عربوں کے حوالے سے لکھی ہیں اور مذکورہ بالا بات بھی سب سے پہلے قبلِ مسیح کے ایک یونانی فلسفی، مورخ و جغرافیہ دان اسٹرابون (Strabo)نے درج کی تھی جو انتہائی مختصر وقت کے لیےایشیا میں مقیم رہا تھا۔ اس طرح کی روایات بعد کے مصنفین فقط انوکھی ہونے کی وجہ سے اپنی کتب میں درج کر لیتے، جرجی زیدان نے بھی یہ بات اسی وجہ سے درج کی تھی چنانچہ وہ خود اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ اسٹرابون کی ذکر کردہ روایت ہے، ہم نے صرف اس کی غرابت کی وجہ سے اسے ذکر کیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس میں کتنی مقدار صحیح ہے۔5758
عرب میں کچھ نکاح مناسب طرز کے بھی تھےجن میں بہت سی اچھی چیزیں بھی رائج تھیں مثلا ًیہ لوگ حق مہر کے بغیر شادی نہیں کرتے تھے اورحق مہر دیناانتہائی ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ا س معاشرے میں زناکاری کے باجود بعض محرمات کا خیال کیا جاتا تھا۔ اگر ایک عورت ایک وقت میں ایک سے زیادہ مردوں سے شادی کرتی تو اسے زانیہ شمار کیا جاتا تھا۔59اسی طرح باپ بیٹی سے نکاح نہیں کر سکتا تھا، دادا پوتی سے نکاح نہیں کرسکتا تھا، ماں سگےبیٹے سے نکاح نہیں کرسکتی تھی، دادی پوتے سے نکاح نہیں کرسکتی تھی اوربھائی بہن سے نکاح نہیں کر سکتا تھا۔60اسی طرح یہ لوگ عورت اور اس کی بیٹی سے ایک ساتھ نکاح نہیں کرتے تھے 61نیز اسی طرح یہ لوگ خالہ اور پھوپھی سے بھی نکاح نہیں کرتے تھے۔62
زمانہ جاہلیت میں جیسے نکاح کا وجود تھا ویسے ہی طلاق کا نظام بھی موجود تھا۔اس کے لیے مختلف صریح اور کنایہ الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔طلاق کی بہت سی قسمیں تھیں: ایک طلاقِ بائن تھی، جس میں متفرق تین طلاقیں دی جاتی تھیں۔ اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہیں رہتا تھا البتہ اگر وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرتی اور وہ اس سے مباشرت کے بعد طلاق دے دیتا تو وہ پہلے شوہر کی طرف لوٹ سکتی تھی۔طلاق کی ایک قسم ظہار بھی تھی، جس میں خاوند اپنی عورت کو کہہ دیتا تھاکہ تومجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح (حرام )ہے۔63طلاق کی ایک قسم ایلاء بھی تھی، اس میں ایک آدمی قسم کھا لیتا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو نہیں چھوئے گا۔
عرب معاشرے میں عدت کا بھی رواج تھا، یہ طلاق کی صورت میں بھی ہوتی تھی اور خاوند کی وفات کی صورت میں بھی ہوتی تھی64جبکہ بعض مؤرخین کے نزدیک مطلقہ کے لیےکوئی عدت نہیں تھی۔65جس عورت کا خاوند فوت ہو جاتا اس کے لئے ایک سال عدت گزار نا لازم تھی یعنی وہ ایک سال تک زینت اختیار نہیں کر سکتی تھی۔66ایامِ جاہلیت میں طلاق کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔مردجتنی اور جس قدر چاہتا طلاق دے سکتا تھا67جبکہ بعض مؤرخین کی رائے یہ ہے کہ عرب تین بار جدا جدا طلاق دیا کرتے تھے۔سب سے پہلے اس طریقے سے حضرت اسماعیل نے طلاق دی تھی پھر عربوں نے اس طریقے کو اختیا ر کر لیاتھا۔68وہ بعض اوقات عورت کو تکلیف دینے کے لیے عدت پوری ہونی سے پہلے رجوع کر لیا کرتے تھے تاکہ عورت کی عدت لمبی سے لمبی ہوتی جائے۔69
بعض مصنفین کے مطابق اس زمانے میں عورتوں کو طلاق کا حق بھی حاصل تھا چنانچہ اس حوالے سے نوفل طرابلسی لکھتے ہیں:
كان للمراة في الجاهلية حق ان تطلق زوجها كما جرت عادة الرجال عندهم ان يطلقوا نسائهم.70
جاہلیت میں عورت کو اپنے خاوند کو طلاق دینے کا حق بھی حاصل تھا جیسا کہ مردوں میں اپنی عورتوں کو طلاق دینے کا رواج تھا۔
یہ بات سارے عرب میں نہیں تھی بلکہ بعض مخصوص عربی قبائل میں تھی اور چند ہی خواتین کو یہ حق حاصل تھاجیساکہ تاریخ میں منقول ہے:
ولبعضهن حق الطلاق.71
اور بعض خواتین کو طلاق کا حق بھی حاصل تھا۔
البتہ اس معاشرے میں بھی یہ حق زیادہ تر مردوں ہی کے پاس تھا چنانچہ اس کی وضاحت درج ذیل عبارت سے ہوتی ہے:
الطلاق حق من حقوق الرجل في الغالب بيده حله و عقده اما الزوجة فليس لها ذالك.72
طلاق مردوں کے حقوق میں سے ایک حق تھا، اسی کے پا س(نکاح کا) حل و عقدتھا، بہرحال عورت کے پاس یہ اختیار نہیں ہوتا تھا۔
ڈاكٹر جواد علی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
الطلاق حق من حقوق الرجل يستعمله متى شاء أما الزوجة فليس لها حق الطلاق.73
طلاق مردوں کے حقوق میں سے ایک حق تھا، وہ جب چاہتا اسے استعمال کرسکتا تھاجبکہ بیوی کو طلاق کا حق حاصل نہیں ہوتا تھا۔
عربوں کے نزدیک طلاق دینے کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی کسی عورت کو ایک یا دو طلاقیں دے دیتا تھا تو اس کو رجوع کرنے کا پورا پورا حق ہوتا تھاالبتہ جب وہ تین طلاقیں دے دیتا تھاتو اس عورت سے اس کا تعلق بالکل منقطع ہو جاتا تھا۔74بعض اوقات مرد عورتوں کو تنگ کیا کرتے تھے، طلاق دے کر رجوع کر لیتے، پھر کچھ عرصے بعد طلاق دے دیتے پھر رجوع کر لیتے، اس طرح ان کو بڑی اذیت و تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عرب کی بعض خواتین عقدِ نکاح کے وقت ہی یہ شرط رکھتی تھیں کہ طلاق کا اختیا ر ان کے پاس ہوگا۔75
عرب معاشرے میں عورت کو خلع کا حق حاصل تھا۔وہ جب شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی تو اپنے گھر والوں کو بتاتی تھی، لڑکی کے گھر والے یا کوئی دوسرا آدمی خاوند سے اس حوالے سے بات کرتا تھا اوروہ اسے کچھ مال یا کسی دوسری چیز کے عوض اس بات پر راضی کر لیا کرتے تھے کہ وہ اس عورت کو طلاق دے دے۔ خلع کو بھی طلاق کی ہی ایک قسم شمار کیا جاتا تھا، یہ وہ طلاق تھی جو مال کے عوض دی جاتی تھی، یہ مال عورت خود دیتی تھی یا اس کے قریبی رشتہ دار ادا کرتے تھے۔76
عرب لڑكیوں كو وراثت میں کوئی حصہ نہیں دیتے تھے، اس حوالے سے مصطفی سباعی لکھتے ہیں:
ليس لها حق الارث.77
عورت کے پاس وارث ہونے کا حق نہیں تھا۔
البتہ عرب معاشرے میں عورت کو ملکیت کا حق تھا، وہ چیز خرید اور بیچ سکتی تھی۔وہ جو خریدتی تھی وہ اس کی ملکیت ہو جاتا تھا۔وہ اپنی ملکیت میں مکان، زمین، جائیداد اور مالِ تجارت سب کچھ رکھ سکتی تھی، حضرت خدیجہ اس کی بہترین مثال ہیں78جوبہت بڑی کاروباری خاتون تھیں۔آپ لوگوں کو اپنا مال تجارت کے لیے مخصوص شرائط پر دیا کرتیں تھیں۔عرب عورتوں کو وراثت میں حصہ کیوں نہیں دیتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود عورت کو بھی میراث کی ہی ایک قسم شمار کرتے تھے۔ مصطفی سباعی لکھتے ہیں:
ويعتبرها إرثا كبقية أموال أبيه.79
وہ عورت کو بھی باپ کے بقیہ مال کی طرح میراث ہی سمجھتے تھے۔
جس چیز کو معاشرہ خود مالِ وراثت سمجھتا ہو اسے کیسے میراث سے حصہ مل سکتا تھا چنانچہ یہی وجہ تھی کہ عرب معاشرے میں میراث صرف مردوں کوہی ملتی تھی۔
عرب معاشرے میں جہاں بہت سی برائیاں تھیں، وہیں بہت سی اچھائیاں بھی تھیں جن کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے۔
عربوں میں ایك خوبی یہ تھی کہ وہ لوگوں کو لقب اورکنیت سے پکارا کرتے تھے، جس شخص کا نام معلوم نہ ہوتا تو کہتے تھے" یاوجہ العرب" (یعنی اے وجیہ عرب)اور"یا اخا العرب" (یعنی اےعربی بھائی)۔اسی طرح عرب قبیلوں کی طرف نسبت دے کر بھی لوگوں کو پکارتے تھےکیونکہ یہ ان کے نزدیک عزت والاطریقہ تھا، جس کی قدر و منزلت ان کے نزدیک بہت زیادہ ہوتی تھی وہ اسے" مولائی"(یعنی میرے آقا)اور"سیّد ی"(یعنی میرے سردار)کہہ کر بھی پکارا کرتے تھے۔81
ان میں ایک اچھی عادت یہ بھی تھی کہ وہ لوگوں کو ان کے مقام و مرتبہ یا کسی مخصوص وصف کی وجہ سے لقب یا کنیت دیا کرتے تھے جیسے عمر و بن ہشام کو اس کی بعض پُر حکمت باتوں کی وجہ سے" ابو الحکم" کہا جاتاتھا۔82اسی طرح ابو لہب کو اس کے گالوں کی سرخی کی وجہ سے یہ کنیت دی گئی تھی۔83
زمانہ جاہلیت میں بھی عربوں کے درمیان تحیۃ کی عادت تھی۔جب ایک دوست دوسرے دوست کو دیکھتا تو وہ سلام کرتا تھا، سلام کے لیےوہ سلام کا لفظ بھی استعمال کرتے تھے اور"حیاک اللہ"(یعنی اللہ تجھے زندگی دے)بھی کہتے تھے اور اس کے بعد کسی بت کا نام بھی استعمال کرتے تھے۔اگر صبح کے وقت وہ سلام کرتے تو کہا کرتے:"انعم صباحا و عم صباحا" (یعنی تمہاری صبح اچھی ہو )، 84جب وہ ایک جماعت ہوتے تو یوں کہتے:أنعموا صباحا وعموا صباحا(یعنی تم سب کی صبح اچھی ہو )، اس طرح شام کے وقت وہ أنعم مساء وعم مساء (یعنی تمہاری شام اچھی گزرے)کہتے اورجماعت کو أنعموا مساء(یعنی تم سب کی شام اچھی گزرے) کہتے تھے۔85
مصافحہ بھی زمانہ جاہلیت میں معروف تھا اور لوگ دائیں ہاتھ سے ہی مصافحہ کرتے تھے۔کبھی دونوں ہاتھوں سے بھی مصافحہ کیا جاتا تھااورکبھی کبھار جب وہ سفر سے آتے یا لمبی جدائی کے بعد ملتے تو وہ معانقہ بھی کیا کرتے تھے۔86
عرب معاشرے کا ایک اچھا پہلو یہ بھی تھا کہ وہ لوگ جب کسی معاملے میں اختلاف کرتے تھے تو اپنے معاملے کو کسی ثالث کے پاس لے جاتے تھے حتی کہ یہ جب حسب و نسب میں اختلاف کرتے تھے تب بھی حکماء کی طرف رجوع کرتے تھے۔87اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جوبیگانے جھگڑوں میں شامل ہو کر لوگوں کے درمیان صلح کروا دیا کرتے تھے88بلکہ کچھ لوگ تو ایسے بھی تھے جو مخصوص حیلوں بہانوں کے ذریعے دشمنیاں ختم کروا دیتے تھے، اس حوالے سے ایک مشہور شخص ہرم بن قبطہ تھا۔89
زمانہ جاہلیت میں عرب پڑوسیوں کا خیال رکھتے تھے، پڑوسیوں کی حمایت ان کی اہم صفات میں سے ایک تھی۔90عرب معاشرے میں پڑوسی کی بڑی حرمت بھی تھی، وہ پڑوسی کے ساتھ بُرا سلوک نہیں کرتے تھے، اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے تھےاور اس کے حقوق کی حفاظت کیا کرتے تھے۔91
عرب مہمان نواز ی کے حوالے سےدیگر اقوام سے ممتاز تھے۔92مہمان کا اکرام کرنا ان کے عرف میں شامل تھا جس کی وہ سختی سے پابندی کرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ وہ جس قدر ہمت اور طاقت رکھتے تھے، ا س کے مطابق مہمان کی ضیافت کرتے تھے۔93بعض اوقات تو وہ ایسا بھی کرتے تھے کہ جس کے پاس صرف ایک ہی اونٹ ہوتا جس پر معاش کا انحصار ہوتا، اسے بھی ذبح کرکے مہمانوں کو کھلا دیتے تھے۔94ان کے عرف میں یہ بھی شامل تھا کہ ضیافت تین دن اور تین رات تک ہوتی ہے، اس مدت کے بعد مہمان نوازی ضرور ی نہیں رہتی۔اسی طرح مہمان کے لیےبھی یہ ضروری تھا کہ وہ ضیافت کے آداب کا لحاظ کرے۔ میزبان کے گھر کی حرمت کا خیال رکھے، اس میں سے کوئی چیز چرانے سے گریز کرے، میزبان کے اہل خانہ کی طرف بری نظر سے نہ دیکھے اورکوئی ایسا کام نہ کرے جوضیافت کے عرف کے خلاف ہو۔95
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عربوں کی یہ مہمان نوازی فقط ان کی جغرافیائی حالت کا نتیجہ تھی کیونکہ ان جلتے ریگستانوں میں اگر عرب مہمان نواز نہ ہوتے تو مسافر بھوک و پیاس سے مر جاتے۔جیورجیو (Georgio)جوایک رومانوی مصنف ہے، وہ اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے لکھتا ہے:
سخاوت کا آب و ہوااور بیابانوں سے کوئی ربط نہیں ہوتاکیونکہ جن علاقوں میں حصولِ معاش مشکل ہوتا ہے (مثلاً یورپ کا کوہستانی علاقہ ) وہاں کے باشندے توبہت زیادہ کنجوس ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو وہ کنجوسی کی انتہاء کر دیتے ہیں اور بن بلائے یا ناآشنا مہمان کو پانی تک نہیں پوچھتے۔96
عربوں کی اس مہمان نوازی کی دو اہم وجوہات تھیں، پہلی یہ کہ یہ عظیم خصلت انہیں حضرت ابراہیم سے ملی تھی کیونکہ حضرت ابراہیم بڑے مہمان نواز تھے۔97دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ حریص اوربخیل نہیں تھے بلکہ کفایت شعار اور قناعت پسند تھے جس وجہ سے ان میں سخاوت وفیاضی اپنےکمال کے ساتھ موجود تھی۔
عرب معاشرہ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ حرص و طمع سے کوسوں دور تھے۔ ان کی کفایت شعاری اور قناعت پسندی کے متعلق فلپ ہٹی لکھتے ہیں:
اما غاية آماله فان يحصل علي الاسودين اي التمر والماء.98
ان کی خواہشات کی زیادہ سے زیادہ حد یہ تھی کہ دو کالی چیزیں یعنی کھجور اور پانی99حاصل کر لیں۔
وہ زیادہ مال جمع کرنے کو ترجیح نہیں دیتے تھے اوربعض اوقات تو وہ اپنا کل اثاثہ بھی مہمان کی نذر کر دیتے تھے۔اسی لیے عرب معاشرہ حرص و حسد کی قبیح عادت سے مبرا اور انتہا درجہ کا قناعت پسند تھا۔ وہ زیادہ کی طلب نہیں کرتے تهے جبکہ تھوڑا ان کے لیے کفایت کر جاتا تھا۔
سخاوت، فیاضی اور دریا دلی میں عرب اپنی مثال آپ تھے۔ ان کا غریب اور مزدوربھی ایسی سخاوت کر جاتا تھا کہ جس کی مثال دوسرے معاشرے کے مال داروں میں بھی نہیں ملتی۔ بعض عرب تو سخاوت میں اس قدر مشہور تھے کہ ان کو بطورِ مثال پیش کیا جاتا تھا۔ان ہی جیسے لوگوں میں سے ایک حاتم طائی بھی تھاجو ایک دن میں دس دس اونٹ ذبح کرکے لوگوں کو کھلادیا کرتا تھا۔اس کی فیاضی کا یہ عالم تھا کہ ٹھنڈی راتوں میں بلند مقامات پر آگ روشن کروا دیتا تھا تاکہ جو مسافر راستہ بھٹکے تو وہ اس طرف آجائے۔اسی طرح یہ بستیوں میں بھی آگ روشن کروا دیتا تھاتاکہ جو بھی ضیافت کا ارادہ رکھتا ہو وہ اس طرف رخ کر لے۔کہا جاتا ہے کہ حاتم طائی نے بڑی بڑی ہانڈیاں بنوا رکھی تھیں جو ہمیشہ چولہے پر ہی رہتی تھیں۔100
عرب اپنے بڑوں کا ادب کیا کرتے تھے، عمر رسیدہ شخص کو اہمیت دی جاتی تھی اوراس کے فیصلے کے آگے گردن جھکا دی جاتی تھی۔ اس حوالے سےفلپ ہٹی لکھتے ہیں:
يخضعون لسلطة الشيخ وحده وهو اكبر رجال العشيرة سنا.101
وہ تنہا شیخ كے حكم کے آگے جھکتے تھے اور وہ عمر کے اعتبار سے خاندان کا سب سے بڑا آدمی ہوتا تھا۔
اس اقتباس سے عرب معاشرہ میں بڑوں کا احترام کیے جانے کی روایت کا پتاچلتا ہے اور اس بات کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے کہ اہل عرب کے ہاں بڑوں کا فقط احترام و ادب ہی نہیں کیاجاتاتھا بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ان کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیمِ خم بھی کیاجاتاتھا۔
عرب معاشرے میں ایک اچھا پہلو یہ تھا کہ یہ اپنے لوگوں کو وفات کے بعد بھی نہیں بھولتے تھے۔وہ میت کی آخری رسوم میں شامل ہوتے اوراس پر آنسو بہاتے۔102وہ میت پر اشک بار ہونے، اس کی وجہ سے گریبان چاک کرنے کو میت کے لیےاکرام کا باعث سمجھتے تھے اوراسی وجہ سے عزت دار اور صاحب ِ ثروت لوگ کرایہ پر نوحہ گر خواتین حاصل کرتے تھے جو میت کے گھر پراور پھر قبر تک بین کرتی ہوئی جاتیں۔ اس وقت میت کی مدح سرائی میں حد سے زیادہ مبالغہ کیا جاتا یہاں تک کہ بعض لوگ تو ایک سال تک میت پر روتے اور نوحہ کرتے رہتے۔ عرب موت اور میت کا احترام بھی کرتے تھے، وہ جب کسی جنازے کو دیکھتے تو احتراما ً کھڑے ہو جاتے۔میت کے آگے، پیچھے دوست اور رشتہ دار چلا کرتے اوربعض اوقات جنازے کے ساتھ آگ بھی لے جاتے۔وہ اپنے مُردوں کو دفن کرنے سے پہلے غسل بھی دیا کرتے تھے۔ان کا جنازہ کندھوں یا اونٹوں پر اٹھایا کرتے اورجنازہ پڑھابھی کرتے تھےجس کا طریقہ یہ تھا کہ میت کو قبر میں اتارنے کے بعد کچھ لوگ اس کے محاسن اور اعمال بیان کرنے لگتے جس کووہ جنازہ کہتے تھے۔اگر مرنے والا کوئی ذی مرتبہ آدمی ہوتا تو اس کی قبر کو پکا کیا جاتا اوراس پر اس کا نام بھی لکھا جاتا۔103
ان تفصیلات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہاں ایک طرف اہلِ عرب میں بعض خامیاں موجود تھیں وہاں ان میں کچھ ایسی اخلاقی صفات بھی موجود تھیں جو اس زمانے میں ان کے اطراف میں موجود دیگر اقوام میں شاید اس درجہ میں نہ پائی جاتی ہوں۔ عربوں کی شجاعت، سخاوت، مہمان نوازی، حق پرستی، سادگی، ذکاوت، ایفائے عہد وغیرہ وہ عمدہ معاشرتی عادات تھیں جو ان کو دیگر اقوام و ملل سے نہ صرف ممتاز کرتی تھیں بلکہ اعلائے کلمۃ الحق کے لیے ان کو سب سے موزوں اور پسندیدہ بھی بناتی تھیں، اسی وجہ سے نبی ﷺکو ان میں مبعوث فرمایا گیا تاکہ امانت و صداقت، راست بازی و حق گوئی، جفاکشی و سادگی، جرأت و غیرت مندی اور سب سے بڑھ کر توحید و رسالت کا جو پیغام آپ ﷺکی زبانی قیامت تک آنےوالے انسانوں تک بلا تعطل کے پہنچاناتھا اس عظیم مشن کے لیے سب سے زیادہ مستحق و معتبر قوم اہلِ عرب ہی کی تھی جس کے ہر اس سپوت نے جو حلقہ بگوش اسلام ہوااپنی مذکورہ بالا تمام تر خصوصیات کو اس عظیم مشن کی تکمیل و پاسداری کے لیے استعمال کیا اور ان کی ہی محنتوں و مشقتوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام کا وہ پیغام جو عرب کے صحراؤں سے نکلا تھا عالمگیر حقیقت کے روپ میں پوری دنیا کے سامنے ہے۔