دورِ جاہلیت میں عر ب کی ایک بڑی آبادی بدوی تھی اس لیے ان میں کوئی بھی خاص فن یا صنعت نہ پائی جاتی تھی، باقی جو شہروں میں رہتے تھے وہاں فنون اور صنعتیں تو تھیں لیکن یہ لوگ بھی پوری طرح اس میں پختگی اور حدِ کمال تک نہیں پہنچے تھے۔ اس کی وجہ غالباًیہ تھی کہ اہلِ عرب عموماً مفاخرت، شجاعت اور شہسواری کی طرف میلان رکھتے تھے اور اس بات کی طرف بھی ان کا میلان تھاکہ وہ شجاعت، ایفائے عہد، مہمانداری، سخاوت اور اس کے علاوہ دیگر خصائل و عالی ہمتی فضائل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں تاہم بعض فنون اور صنعتیں پھر بھی اہلِ عرب میں موجود تھیں جن کو اختیار کرنے والے اہلِ عرب دوسرے لوگوں کے مقابلے میں کم مرتبہ اور کم عزت سمجھے جاتے تھے۔ اہلِ عرب میں پائے جانے والے فنون عربوں کی ضرورت کے حساب سے ان میں موجود تھےاور ان میں انہوں نے اپنی ضرورت کےبقدر ہی ترقی کی تھی۔
عرب معمار ہم عصردنیا کے بڑے معماروں سے زیادہ ماہر تھے اور وہ سنگ تراشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ پتھروں کی بے نظیر عمارتیں بناتے جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ ان کی بے مثال کاریگری کے نادر نمونے آج بھی پائے جاتے ہیں جیسا کہ سنگ تراشی کا ایک عظیم شاہکار قومِ ثمود کے نام سے مدائنِ صالح میں آج بھی موجود ہے۔اس فنِ سنگ تراشی میں حسب ذیل خصوصیات تھیں:
عربوں میں یہ سنگ تراشی شروع سے ہی موجود تھی جیساکہ قومِ عاد کے حوالہ سے واضح ہوتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نےقرآن مجیدمیں قومِ عاد کے لیے ارشاد فرمایا:
أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ128 وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ129 1
کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار تعمیر کرتے ہو (محض) تفاخر اور فضول مشغلوں کے لیے، اور تم (تالابوں والے) مضبوط محلات بناتے ہو اس امید پر کہ تم (دنیا میں) ہمیشہ رہو گے۔
اسی طرح قومِ ثمود کے لیے ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ یوں مذکورہوا:
وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ......149 2
اور تم (سنگ تراشی کی) مہارت کے ساتھ پہاڑوں میں تراش (تراش) کر مکانات بناتے ہو۔
اﷲ تعالیٰ نے ان کو"فارھین" فرمایا یعنی "ماہر سنگ تراش "چنانچہ مفسرین"فارھین" کے جہاں دیگر معانی بیان کرتے ہیں وہاں درج ذیل معنی بھی بیان کرتے ہیں:
حاذقين بنحتها.3
وہ سنگ تراشنے میں ماہر تھے۔
"فارھین" کا ایک اور معنی مفسرین نے"مغرور اور سرکش" بیان کیا ہے چنانچہ ان دونوں معنوں کوملاتے ہوئے امام ابن کثیر اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
ولا منافاة بينهما فإنهم كانوا يتخذون تلك البيوت المنحوتة في الجبال أشرا وبطرا وعبثا من غير حاجة إلي سكناها وكانوا حاذقين متقنين لنحتها ونقشها كما هو الشاهد من حالهم لمن رأي منازلهم.4
ان دونوں معانی کے درمیان کوئی تضاد نہیں کیونکہ وہ غرور وسرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی ضرورت کے بے فائدہ پہاڑوں میں گھر تراشتے تھے اور سنگ تراشی اور نقش ونگاری کے فن میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی۔ ان کے ہاتھوں سے بنے ہوئے گھر ان کے فن کی منہ بولتی تصویریں ہیں اور جس نے ان کے بنائے ہوئے گھروں کو دیکھا ہے اسے اس بارے میں اچھی طرح معلوم ہے۔5
یہی وجہ تھی کہ ان مکانات کے دروازے باقاعدہ تراشے ہوئے ہوتے اور ان پر بعض جانوروں (گھوڑوں اور عقاب وغیرہ) کی تصاویر بھی کندہ ہوتیں۔ اس تفصیل سے واضح ہواکہ اہلِ عرب کی ابتدائی اقوام یعنی عاد وثمود فنِ سنگ تراشی میں انتہائی مہارت رکھتی تھیں اور اس مہارت کے کئی ثبوت آج تک قائم ہیں۔
دنیا کی دیگر اقوام کی طرح اہلِ عرب بھی اپنے لیے لباس سازی کاباقاعدہ اہتمام کیا کرتے تھےاور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فنِ کپڑا سازی میں انہیں مہارت حاصل ہوتی چلی گئی تھی۔وہ اپنے ہاں موجود جانوروں کی کھالوں کی دباغت کرکے انہیں بحیثیتِ لباس کےپہنا کرتے تھےاور ا ن سے مختلف قسم کی چادریں وغیرہ بناکر انہیں اوڑھنے اور بچھانے کےلیےبھی استعمال کیاکرتےتھے۔اسی طرح بکریوں، بھیڑوں اوردنبوں کے اون سے فائدہ اٹھاکرکپڑاسازی کرتے اوران سے بنے ہوئےلباس کو عام زندگی میں استعمال کیاکرتےتھے۔
عربستان میں مختلف مقامات پر کپڑا سازی کے مراکز قائم تھے۔ جن کو دو حصوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے:
ان مراکز میں کچھ تو خالص مقامی ہوا کرتے تھےاور لوگ بالخصوص خواتین اپنے گھروں میں اپنی ضرورت بھر کا کپڑا بنالیا کرتی تھیں۔ان میں سے بعض افراد اور طبقات کا یہ پیشہ بھی تھا اور اس کے ذریعہ وہ کمائی کرتے تھے۔بالعموم ایسے کاریگر مرد وخواتین شہروں اور گاؤں دونوں مقامات پر پائے جاتے تھے۔ ان میں معمولی سادہ اونی کپڑوں کی صنعت گھریلو تھی اور بدوی عرب یا شہری طبقات کے افراد ان کوخود ہی بنالیا کرتے تھے۔
عربستان کے اندرونِ ملک کے بعض مقامات خاص کر جنوبی عرب کے بعض علاقے اور شہر کپڑا سازی کے بڑے مرکز تھے اور ان میں یمن بالخصوص کپڑا سازی کا سب سے بڑا مرکز تھا جہاں بڑے پیمانے پر کپڑا سازی کا کام کیا جاتا، اس میں پیشہ ور لوگ یہ کام سرانجام دیا کرتے تھے۔ اس حوالہ سے ذیلی اقتباس سے نشاندہی ہوتی ہے:
وقد اشتهرت اليمن بالغزل والنسيج وعرفت بإنتاج بعض البرد التي اختصت بها حتي عرفت بالبرد اليمانية.6
دھاگے، بُنائی اوربعض چادریں بنانے میں یمن مشہورہوایہاں تک بعض چادریں مخصوص یمنی چادریں کہلائیں۔
نیز ایک اور مقام پر ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
وقد اشتهرت منسوجات اليمن في كل مكان من جزيرة العرب.7
پورے جزیرہ نما عرب میں یمن بُنی ہوئی مصنوعات(لباس اور کپڑں) میں مشہورہوا۔
اس قدیم دور میں کپڑا سازی کے لیے جوچیزیں استعمال ہوتی تھیں ان کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے۔
ہر پیشے اور صنعت کے لیے مخصوص آلات کا ہونا ناگزیر ہےیعنی ان اوزاروں کا ہوناضروری ہے جن پر اس صنعت کا انحصار ہوتا ہے۔ عربوں کے ہاں اس صنعت کے جو آلات بیان ہوئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں۔
قدیم زمانہ میں کپڑا بنتے وقت بانے کو تانے کے ساتھ جوڑنے کے لیے جس آلہ کا استعمال ہوتا تھا اس آلہ کو"الحف"کہا جاتا تھاجیسا کہ درج ذیل عبارت سے معلوم ہوتا ہے:
وهي الآلة التي تلمظ بها اللحمةأي: تلقم وتصفق ليلتقمها السدي.8
وہ ایک آلہ ہے جس سےبانے کو گھماکر تانے پر لپیٹاجاتاہے تاکہ کپڑےکی بنائی مضبوط ہو۔
"الحف" کی جمع"حففۃ" آتی ہے۔ اسی طرح امام ابو نصر فارابیاس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اس حوالہ سے امام اصمعیکے قول کویوں نقل کرتے ہیں:
الحفة المنوال وهو الخشبة التي يلف عليها الحائك الثوب.9
"حفۃ"مینوالکو کہتے ہیں اور مینوال وہ لکڑی ہے جس پرجولاہاکپڑے کو لپیٹتا ہے۔
اسی طرح اس کپڑےکے دھاگے کو جس چیز میں رکھا جاتا تھا اسے منسج کہتے تھے۔
یہ ایک ایسا آلہ تھا جس کے کنارے میں سینگ سا حصہ تھا اور سوت اس کے اندر رکھا جاتاتھا چنانچہ درج ذیل عبارت میں ہے:
وهي قصبة في طرفها قرن يدخل الغزل في جوفها وتسمي السهم.10
اور یہ وہ بانس ہے جس کے کنارے پر سینگ سا ہوتا ہے اور سوت کواس کے اندر رکھاجاتاہےنیز اسے سہم یعنی تیر بھی کہتے ہیں۔11
کپڑا بننے کے لیے سوت کے تاروں کو سیّد ھا کرنابھی لازمی وضروری ہے اور اس کےلیے استعمال کی جانے والی لکڑی کو عدل کہاجاتاتھا۔
کپڑا بنتے وقت جس آلہ سے کپڑے کے تاروں کو تقسیم کیا جاتا تھا اس آلہ کو"العدل" کہا جاتا تھا۔ اس حوالہ سے ذیلی عبارت سے یوں نشاندہی ہوتی ہے:
العدل خشبة لها أسنان مثل أسنان المنشار يقسم بها السدي ليعتدل.12
"العدل" ایک لکڑی ہوتی ہے جس کے آرے کی طرح دندانے ہوتے ہیں۔ اس کے ذریعے تانے کو تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ یہ یکساں ہوجائے۔
اس طرح کپڑا بننا آسان ہوجاتا اور بننے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی تھی۔
کپڑے پھیلانے کے لیے جس آلہ کا استعمال ہوتا تھا اس کو"مداد" کہا جاتا تھا چنانچہ امام ابو طاہر فیروزآبادی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
والأمدة، كالأسنة: سدى الغزل، والمساك في جانبي الثوب إذا ابتدئ بعمله.13
اور امدہ اسنہ کی مانند ہیں یعنی بنائی کا تانا اورکام شروع کرتےوقت کپڑےکی دونوں جانب کی پکڑ رکھنےوالا۔
امدہ"مداد" کی جمع ہے اور یہ ایک ڈنڈا تھا جس کے دونوں سروں میں
مبرم اور بریم وہ رسی ہوتی تھی جسے دو بٹے ہوئے دھاگوں کو جمع کرکے ایک بنایاجاتاتھا۔مبرم کپڑےکی اس قسم کو بھی کہتے ہیں جس میں سوت کے دو تاروں کو ملاکر ایک بنایاگیا ہو، اسی لیے اس کا نام مبرم پڑ۔ ان کے علاوہ دیگر بہت سے آلات تھے جن سے قدیم عربی زمانہ میں کپڑا بنا جاتا تھا۔14
عربوں کی تیسری اہم صنعت لوہے کی چیزیں بنانا تھی۔یہ صنعت بھی تمام قوموں کی ضروریات میں سے ہے اور اس سے وہ کسی صورت میں بھی مستغنی نہیں ہوسکتے تھے۔ لوگوں کی معیشت اور پیشوں میں جو لوہے کے فوائد ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں کیونکہ ہر قسم کی مصنوعات میں یا توخود لوہا کارآمد ہوتا ہے یا وہ لوہے کے آلات سے تیار کی جاتی ہیں جس میں لوگوں کے لیے کئی فوائد ہیں چناچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ......2515
ہم نے (معدنیات میں سے) لوہا مہیّا کیا اس میں (آلاتِ حرب و دفاع کے لیے) سخت قوّت اور لوگوں کے لیے (صنعت سازی کے کئی دیگر) فوائد ہیں۔
آیتِ کریمہ میں موجود لفظ "انزلنا"سے واضح ہورہاہے کہ لوہا زمینی مادہ نہیں ہے بلکہ غیر زمینی مادہ ہے جسے اوپر سے زمین پر نازل کیاگیاہےگوکہ علمائےفلکیات کی حالیہ تحقیق ساڑھے چودہ سوسال بعد اس نتیجہ تک پہنچی ہے لیکن قرآن مجید نے اس راز سے پہلے ہی پردہ اٹھادیاتھا۔لوہے کو اس طرح سے نازل کرنے سے لوہے کی افادیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے اور اسی لیے آیت کریمہ میں"منافع لناس "کے الفاظ بیان کرکے اس کی مسلمہ افادیت کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔
عربستان میں بھی اس فنِ آہنگری کے ماہرین تھے یعنی وہاں ماہر لوہار موجود تھےجن کو"قین" کہا جاتا تھا چنانچہ اس حوالہ سے امام ابو منصور ہرویامام لیثسے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
القين الحداد وجمعه قيون وقال غيره: كل عامل بالحديد عند العرب قين.16
قین لوہار کو کہتے ہیں جس کی جمع قیون ہے۔ان کےغیر نے کہاکہ عرب کےہاں جوبھی لوہے کا کام کرے اسےقین کہتے ہیں۔
بیان کیا جاتا ہے کہ عرب میں سب سے پہلے لوہے کے اوزار بنانے والاھالک بن عمرو بن اسد بن خزیمہ تھاجیسا کہ ذیلی عبارت میں ہے:
أول من عمل الحديد الهالك بن عمرو بن أسد بن خزيمة.17
سب سےپہلے جس نے لوہے کا کام کیا وہ ہالک بن عمروبن اسد بن خزیمہ ہے۔
اسی وجہ سے ان کی اولاد جو بعد میں عرب کا مشہور قبیلہ بنی اسد کہلاتی تھی، یہ لوگ اسی لقب "قیون"یعنی لوہار سے مشہور ہوئے چنانچہ اس حوالہ سے ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں:
ومن بني الهالك بن عمرو بن اسد وكانوا ينسبون الي انهم قيون يعملون الحديد.18
اوربنی ہالک بن عمرو بن اسد میں سے لوگوں کی نسبت لوہاروں کی طرف کی جاتی تھی کیونکہ وہ لوہے کاکام کرتےتھے۔
اس قبیلہ کے افراد سمیت عرب میں کئی دوسرے لوہار بھی تھےاور یہ لوہار قدیم زمانہ میں مختلف قسم کے کام کیا کرتے تھے۔
عرب کے بعض لوہار اپنے چوپایوں کے لیے لگامیں اور مہاریں بنایا کرتے تھے، بعض لوہار وہ تھے جو اسلحہ بناتے تھے اور بعض لوہے کی دیگر ضرویات کی چیزیں بنایا کرتے تھے۔ یہ چیزیں کئی ایک اجزا اور مختلف جوڑوں پر مشتمل ہوتی تھیں مثلاً جو لوہار چوپایوں کے لیے لوہے یا لگامیں وغیرہ بنایا کرتے تھے ان کے نام حسب ذیل ہیں:
شکیمۃ:لگام میں شکیمہ (دھانہ) ہوتا ہے اور یہ وہ لوہا ہے جو منہ میں ہوتا ہےچنانچہ اس حوالہ سے امام ابو الحسن مرسیلکھتے ہیں:
والشكيمة من اللجام هي الحديدة المعترضة في الفم.19
اورشکیمۃ، لگام کامڑاہووہ لوہاجو جانورکے منہ میں رہتاہے۔
فاس:وہ لوہا جو دھانے سے اوپر کو اٹھا ہوتا ہےچنانچہ اس حوالہ سے امام ابن ابوبکر الرازیلکھتے ہیں:
فأس اللجام الحديدة القائمة في الحنك.20
فاس، لگام کا وہ لوہاجو جانورکے منہ میں تالو کے پاس ہوتاہے۔
فراشتان:دھانے کے دونوں جانب کا لوہاجس کے ساتھ لگام کا کچھ حصہ بندھاہو تا ہے چنانچہ درج ذیل عبارت میں ہے:
والفراشتان جانبا الشكيمة واليهما يربط العذاران.21
فراشتان، دہانے کے دونوں جانب کا وہ لوہا جس کے ساتھ لگام کا وہ حصہ جوگھوڑے کے رخسار پر ہوتاہے باندھاجاتاہے۔22
ان کے علاوہ بھی لوہے سے کئی دیگر مختلف چیزیں چوپایوں کے لیے بنائی جاتی تھیں۔یہ صنعت قدیم عربوں میں اتنی راسخ ہوچکی تھی کہ اس کی دقیق چیزیں بھی یہ لوگ بناسکتے تھے۔
اسی طرح عرب کے لوہاروں میں بعض لوہار تلوار بنایا کرتے تھے۔اس کام میں ایک شخص مشہور ہوا جس کا نام سریج تھا جو عمدہ تلواریں بنایا کرتا تھا اور اس میں بہت ماہرو پختہ کار تھانیزسریجی تلواریں اسی کی طرف منسوب ہوئیں۔23تلواروں 24کے بے شمار نام اور مختلف اقسام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس میں کتنے ماہر ہوچکے تھے۔اس کے علاوہ بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو عرب کے لوہار بنایا کرتے تھے مثلاً تیر، نیزے، میخیں، چھریاں، برتن اور ان میں دیگر سامان وآلات شامل تھے جن کے بنانے میں اہلِ عرب مہارت تامہ رکھتے تھے اور ان کا داخلی وخارجی ماحول اس فن کی مصنوعات کا حددرجہ متقاضی تھاجس وجہ سے یہ اس صنعت میں کافی ترقی کرگئے تھے۔
قدیم عرب دوگروہوں میں تقسیم تھے، ایک بدوی یعنی خانہ بدوشوں کی آبادی تھی اور دوسری شہری آبادی تھی۔ ان میں بدوی قبائل کے علاقے فنِ تعمیر و تعمیرات سے عاری تھے کیونکہ وہ نہ عمارت بناتے تھے نہ ان میں رہتے تھےبلکہ وہ خانہ بدوش تھے جبکہ شہری آبادی جنہیں عربی تاریخ میں"اھل الحضارۃ" بھی کہا جاتا ہے، ان کا معاملہ ان سے مختلف تھا۔ قدیم زمانہ ہی سے عرب کے شہروں میں فنِ تعمیر کے ماہرین کی بہتات تھی۔ اس فن میں کمال کسی ٹیکنیکل یونیورسٹی کی تعلیم کا مرہونِ منت نہیں تھا بلکہ ان لوگوں کی خداداد صلاحیت اور عقل ودانش کا یہ کرشمہ تھا کہ فنِ تعمیر اور تعمیرات میں بہت ماہر تھے۔ عرب کے مختلف علاقوں میں مختلف قسم کی عظیم الشان عمارات صدیوں تک قائم تھیں اور ان میں سے بعض کے کھنڈرات آج بھی عرب کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دورِ جاہلیت میں بھی اہلِ عرب فنِ تعمیر کی بلندیوں تک پہنچ چکے تھے۔ سیّد محمود شکری آلوسی اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
والقائمون بهذه الصناعة من العرب متفاوتون فيها فمنهم البصير الماهر ومنهم القاصر وكانت في اليمن أبنية عظيمة وقصور مشيدة وذلك في غيرها وأبنيتهم كانت متفاوتة فمنها البناء بالحجارة ومنها البناء باللبن ومنها البناء بالآجر ومنها البناء بالطين والتراب وهي علي أوضاع مختلفة وأشكال متفاوتة.25
عربوں میں سے جو لوگ اس پیشے کو اختیار کرتے تھے، وہ مختلف قسم کے ہوتے تھے چنانچہ بعض تو صاحبِ نظر اور ماہر ہوتے تھے اور بعض خام کار(نا تجربہ کر)۔ یمن میں عظیم عمارتیں اور بلند محل تھے، اسی طرح اور علاقوں میں بھی تھے جن کے مکانات بھی مختلف قسم کے تھے چنانچہ بعض پتھر کے بنے ہوئے، بعض کچی اینٹوں کے، بعض پکی اینٹوں کے اور بعض گارے اور مٹی کے بنے تھے۔ یہ مختلف وضع اور مختلف شکل کے ہوتے تھے۔26
فنِ تعمیر کی ان عظیم شاہکار عمارتوں کے ایک ایک جز کے الگ الگ نام تھےجن کو مؤرخین نے تاریخ کی کتابوں میں الگ الگ تفصیل سے بیان کیا ہے چنانچہ سیّد محمود شکری آلوسی ان تمام الفاظ کی تفصیلات ذکر کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:
هذا كله مما يدلك علي أن القوم ممن كان له في هذه الصناعة اليد الطولي والقدم الراسخة كيف لا وفي أرضهم المباني القديمة والقصور المشيدة! وقد بقيت إلي اليوم أطلالها ولم يمح من وجه البسيطة رسمها ولا مثالها.27
یہ تمام الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عرب ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اس صنعت میں مہارت حاصل تھی اور وہ اس ضمن میں راسخ القدم تھے۔ ایساکیوں نہ ہو جبکہ ان کے ملک کے اندر قدیم عمارتیں اور بلند محل موجود تھے جن کے کھنڈرات آج تک باقی ہیں اور روئے زمین سے ان کے نشانات اور ان کی مثال مٹی نہیں ہے۔28
اسی حوالہ سے تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں:
جزیرہ نمائے عرب کا فنِ تعمیر جاہلی دور میں اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کے مختلف ادوار کی طرح مختلف انداز کا تھا۔ جنوبی عرب پٹی، جو یمن سے حضرموت و ہجر تک پھیلی تھی، متمدن سلطنتوں کی وجہ سے اعلیٰ فنِ تعمیر اور شاندار عمارات رکھتی تھی۔ شمالی علاقہ عرب میں بھی متعدد قدیم سلطنتوں نے فنِ تعمیر کی بلندیوں کو چھولیا تھا اور وہ پہاڑوں کو کاٹ کر شاندار محلات بناتے تھے۔ قرآن مجید میں سورةالاعراف، 29سورةالحجر، 30سورةالشعراء، 31 میں قومِ عاد کی شاندار کاریگری کا ذکر کیاگیا ہے جبکہ سورۃ سبا 32وغیرہ میں قومِ سبا کے تمدن و تعمیر وتعمیرات کو بیان کرکے ان کی فنی تعریف کی گئی ہے۔ آثارِ قدیمہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ وسطی عرب میں فنِ تعمیر بالکل ابتدائی یا بدویانہ نہ تھا مگر وہ اتنا ترقی یافتہ بھی نہ تھا، وہ دونوں کے وسط میں تھا۔ بدوی قبائل کے علاقے فنِ تعمیر و تعمیرات سے عاری تھے کیونکہ نہ وہ عمارت بناتے تھے نہ ان میں رہتے تھے، وہ خانہ بدوش تھے۔ شہری آبادی (اھل الخصارۃ)کا معاملہ ان سے مختلف تھا۔ وہ تعمیرات کرتے تھے اور مکانات میں رہتے تھے۔ مرکزی آبادی میں مکّہ مکّرمہ، یثرب، طائف اور یثرب کے شمال میں یہودی بستیاں خیبر وفدک وغیرہ خاصی متمدن تھیں۔ ان میں فنِ تعمیر کافی ترقی کرچکا تھا اور اس کی وجہ سے ان کی عمارات و تعمیرات شاندار تھیں اور بعض اعلیٰ فنی نمونہ تھیں۔طائف، یثرب اورخیبر وغیرہ میں اوسط سے اعلیٰ درجہ کے قلعے (حصون)اور گڑھیاں (آطام)تھیں(یعنی چھوٹے چھوٹے قلعے تھے)۔ طائف شہر پہاڑی مسطح زمین پر آباد تھا اور اس کے ارد گرد ایک مضبوط ومستحکم فصیل بناکر اسے ایک شاندار قلعہ بنادیا گیا تھا۔ یہودی بستیوں میں خیبر کے قلعے بہت سے تھے اور وہ چھے(6)سات(7)گروپ میں منقسم تھےنیز ہر ایک وسیع و عریض شہر تھا۔ یثرب میں قلعوں 33کے علاوہ آطام بہت تھے اور وہ شاندار تعمیرات تھیں جن میں ہر طرح کی عمارتیں، تالاب، کنوئیں وغیرہ ہوتے تھے۔ ان آطام میں بنو قینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ کے آطام مشہور اور مستحکم تھے لیکن اوس وخزرج کے بعض بطون واکابر کے بھی شاندار آطام تھے۔34
اسی طرح مؤرخین نے صنعاء کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے جودوسرا قول بیان کیا ہے کہ جب اہل حبش نے صنعاء پر قبضہ کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ شہر پتھروں سے بنایا گیا ہے تو وہ بے اختیار بول اٹھے "ھذہ صنعۃ"یعنی یہ تو بڑی کاریگری ہے، 35اس سے بھی عرب کی تعمیراتی مہارت واضح ہوتی ہے۔
اہلِ عرب کا تعمیراتی شعبہ حسبِ ذیل افراد پر مشتمل ہوتا تھا:
یہ سب تعمیراتی عملہ تھا اور تعمیر میں کام آنے والے پتھر پہاڑوں سے توڑ کر گدھوں کے ذریعہ مکان کی جگہ لائے جاتے تھے جن کی مدد سے عمارت بنائی جاتی تھی۔اس فن میں عرب کی مہارت مسلمہ تھی کیونکہ یہ فن ان کو وراثت میں ملاتھا۔
ایک اور اہم فن جس میں اہلِ عرب ماہر تھے وہ فنِ دباغت تھا۔عربستان ایک گرم خطہ ارض ہے جس کا اکثر حصہ ریگستانوں پر مشتمل ہے اور یہ بڑے بڑے جنگلات سےبھی خالی ہے۔ اس وجہ سے یہاں جانوروں کی اتنی کثرت نہیں ہے جتنی کہ دیگر خطوں میں ہے تاہم جو جانور یہاں پائے جاتے ہیں ان سے قدیم عرب اپنی کئی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ان میں ایک اہم ضرورت ان جانوروں کی کھالوں سے بھی مہیا ہوا کرتی تھی۔
اہلِ عرب یوں تو اپنے جانوروں کی کھالوں کو سکھا کرپختہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، تاہم یمن کے بعض علاقے اور طائف اس
یمن کا تقریباً تمام علاقہ آب وہوا کی اعتدال کی وجہ سے سرسبز وشاداب تھا اور وہاں بکثرت"قرظ" بھی پیدا ہوتاجو عہدِ جاہلیت میں دباغت کے لیے بہت اہم مواد ہوا کرتا تھاجیساکہ ذیلی اقتباس سے اشارہ ملتا ہے:
والقرظ من أشهر مواد الدباغة وصبغ الجلود عند الجاهليين.37
اہل جاہلیت کےہاں کھالیں رنگنے اورچمڑاکمانے کےلیے قرظ کے درخت کا موادبہت مشہورتھا۔
ان کے علاوہ یمن کے پہاڑوں پر گائے، بھیڑ، بکری، گھوڑا اور اونٹ بکثرت پائے جاتے تھے۔ان حالات نے اس حصہ کو چمڑے کی دباغت پر مجبور کردیا تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر چمڑے کی اتنی دباغت ہوئی تھی کہ لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد نہ صرف پورے جزیرہ عرب میں بلکہ عراق وفارس اور خراسان وغیرہ کی طرف بھی خشکی کے راستے برآمد کرتے تھے۔ بحری راستے سے تو بہت دور تک یمنی چمڑا جاتا رہا تھا۔یمن میں جو قبائل اس کام میں بہت ماہر تھے ان میں خاص طور پر دو کہلانی قبیلوں کا ذکر ملتا ہے ایک مذحج اور دوسراخولان۔ان میں سب سے زیادہ مشہور "مذحج"قبیلہ تھا جو فنِ دباغت میں بہت مشہور تھا۔ان کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے:
مالك بن ادد بن زيد بن يشجب بن زيد كهلان.38
مالک بن اددبن زید بن یشجب بن زید کہلان۔
ان کی کئی شاخیں تھیں جو یمن کے مختلف علاقوں میں آباد تھیں۔ ان شاخوں میں سے مذحج ایک مشہور قبیلہ تھا جو یمن کے صنعاء کے شمال میں آبادتھا۔ یہ قبیلہ فنِ دباغت کے حوالہ سے اتنا مشہور اور معروف تھا کہ اس کا"مذحج ""نام ذحج الادیم" (یعنی چمڑے کو ہلاجلاکر نرم کرنے)سے مشتق ہے۔39
ان کے ساتھ اسی قبیلہ کی دوسری شاخ خولان تھی، یہ بھی مذحج قبیلہ کی طرح فنِ دباغت میں بہت ماہر تھی۔ ان کا شجرہ نسب حسبِ ذیل ہے:
ويرجع النسابون نسب "خولان" إلى "خولان بن عرو بن إلحاف بن قضاعة" أو إلى خولان بن عمرو بن مالك بن الحارث بن مرة بن ادد بن زيد بن عمرو بن عريب بن كهلان.40
علمائے انساب خولان کے نسب کو خولان بن عرو بن الحاف بن قضاعہ کی طرف منسوب کرتے ہیں یاخولان بن عمرو بن مالک بن الحارث بن مرہ بن ادد بن زید بن عمرو بن عریب بن کہلان کی طرف۔
اور یہ لوگ بھی اپنے چچازاد قبیلہ مذحج کے علاقوں میں آباد تھے۔ اس کا بیشتر حصہ مارب، جرش اورصعدہ میں پھیلا ہوا تھاچنانچہ اس حوالہ سے ابن سعید اندلسی لکھتے ہیں:
خولان لهم بلاد متسعة مشهورة في جانب اليمن إلي جانب صعدة.41
یمن کے ایک زاویہ میں صعدہ کی طرف خولان کےوسیع اورمشہورعلاقے ہیں۔
نیز یاقوت حموی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
مدينة خولان العظمي صعدة وصعدة بلد الدباغ في الجاهلية لأنها في وسط بلد القرظ.42
خولان کا عظیم شہر صعدہ ہے اورزمانہ جاہلیت میں صعدہ دباغت کاشہر تھا کیونکہ وہ علاقہ قرظ کے عین وسط میں ہے۔
ابتداء میں یہ سب مارب میں آباد تھے پھر کثرتِ آبادی کے بعد صنعاء کے مشرق میں پہاڑوں کی طرف بڑھے اور یہ خولا ن عالیہ کہلائے۔43دور جاہلیت میں قبیلہ خولان کا ایک مقام "کورۃ"
كورة بلاد خولان وموضع الدباغ في الجاهلية.44
زمانۂ جاہلیت میں کورہ خولان چمڑے کی دباغت والےعلاقوں میں سے تھا۔
ان سب قبائل کا مشترکہ ایک ہی مقام تھا اور اس دور میں اس کی تجارت اور قدرتی وسائل خوب تھے۔ یہ صنعت ان کے ہاں خوب بڑھی، "قرظ"دباغت کا اہم مواد بکثرت ہوتا تھا۔ یمن کے سارے پہاڑ اسی سے اٹے پڑے تھے اورجہاں کہیں قرظ نہیں ہوتاتو وہاں گھاس جانوروں کے پالنے میں ممدو معاون ہوتی تھی۔
یمن کے علاوہ طائف میں بھی دباغت کا کام وسیع پیمانے پرپھیلا ہوا تھا۔ یہاں کے اکثر باشندوں کا یہی پیشہ ہوا کرتا تھا چنانچہ اس حوالہ سے ابن الحائک ہمدانی لکھتے ہیں:
الطائف مدينة قديمة جاهلية وهي بلد الدباغ يدبغ بها الأهب الطائفيّة المعروكة.45
طائف قدیم جاہلی زمانے کاچمڑارنگنے والا مرکزی شہر ہے، یہاں پر طائف کی جمع شدہ بے رنگ کھالوں کو رنگاجاتاتھا۔
نیز ڈاکٹر جواد علی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
واشتهرت الطائف في دباغة الجلود كذلك وذكر أن مدابغها كانت كثيرة.46
طائف چمڑا رنگنے میں مشہورہوا، اسی طرح بیان ہواہے کہ ان میں چمڑارنگنے کےکئی ایک کارخانے تھے۔
طائف میں قدیم زمانہ میں دو محلے ہوا کرتے تھے:
ان دونوں میں یہ کام وسیع پیمانے پر ہوا کرتا تھا اور عرب کے ہر حصہ میں یہاں سے بھی چمڑا جایا کرتا تھاچنانچہ یاقوت حموی طائف کے ان دونوں محلوں کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
وهي محلتان أحداهما علي هذا الجانب يقال لها طائف ثقيف والأخري علي هذا الجانب يقال لها الوهط والوادي بين ذلك تجري فيه مياه المدابغ التي يدبغ فيها الأديم.47
اوروہ دو محلے ہیں۔ ایک اس جانب ہے جسے طائف ثقیف کہا جاتاہے جبکہ دوسرااُس جانب ہے جسے الوھط اور وادی کہا جاتاہے، درمیان میں چمڑےکےکارخانوں کا پانی گزرتا ہے جس سے کھالوں کو رنگاجاتاہے۔
دباغت میں استعمال ہونے والی اشیاء بھی یہاں کافی مقدار میں موجود تھیں اور"غلقۃ"نامی پودا اس شہر کے گردونواح میں بکثرت پایا جاتا تھا جس سےاہلِ طائف چمڑے کی دباغت میں مدد لیتے تھے۔اسی طرح وہ حیوانات جن سے کھالیں حاصل کی جاتی تھیں، ان کی بھی یہاں کثرت تھی اس لیے کہ یہ وادی سرسبزوشاداب تھی۔ جڑی بوٹیاں جن پر جانور آسانی سے پرورش پاسکتے تھے، بکثرت تھیں۔ سخت گرمی میں بھی یہاں کا موسم معتدل رہتا تھا جو جانوروں کے افزائش کے لیے مفید تھااس لیے طائف جانوروں کےحوالے سے بھی مشہورعلاقہ تھا۔
اہلِ عرب کی چھٹی بڑی صنعت لکڑی کے اشیاء کی تھی۔یہ صنعت بھی ایک قدیم صنعت ہے اور تمام قوموں میں پائی جاتی ہے بالخصوص شہری آبادیوں میں اس صنعت کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔اس حوالہ سے ذیل میں یوں بیان کیا گیا ہے:
النجارة من الحرف القديمة المهمة في المدن.48
نجاری شہروں میں قدیم اوراہم ہنرتھا۔
اہلِ عرب دیگر فنون کی طرح بڑھئی یعنی لکڑی کے کام میں بھی بہت زیادہ ماہر تھے۔ مکانات کی چھتیں اور کھڑکیاں نقش ونگار سے اس طرح مرصع (سجایا)کرتے تھے کہ دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتی تھیں۔ قصیدے اور اہم فیصلے چھت کے اندر لکڑی تراش کر عمدگی سے لکھتے تھےجیساکہ ذیلی عبارت سے نشاندہی ہوتی ہے:
إن العرب كان منهم من زاول هذه الصناعة ومارسها وتقدم فيها علي حسب استعداده وقابليته وقد رأيت في الكلام الأئمة من أهل اللغة في ذكر أسماء أوصال الصور والأشكال المخصوصة ما يفيد كمال وقوفهم علي هذه الصناعة وكذلك ما ورد عنهم من أسماء آلات النجارة ما لو لم يمارسوها لما عرجوا عليها.49
عربوں میں بھی وہ (بڑھئی)لوگ موجود تھےجنہوں نے اس پیشے کو اختیار کیا، اس کی مشق کی اور اس میں اپنی استعداد اور قابلیت کے مطابق ترقی کی۔ان صورتوں اور مخصوص شکلوں کے ناموں کے بارے میں آپ اہلِ لغت کے اماموں کے بیان میں وہ الفاظ دیکھ چکے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کو اس صنعت سے کمال واقفیت حاصل تھی۔اسی طرح وہ الفاظ بھی ہیں جو بڑھئی کے پیشے کے آلات کے ناموں کے متعلق آئے ہیں کیونکہ اگر انہوں نے اس پیشے کو اختیار نہ کیا ہوتا تو انہیں ان آلات کے ناموں کی بھی واقفیت نہ ہوتی۔50
تاہم بدوی اور بالخصوص حجاز میں اس پیشے کی بہت کمی تھی۔ جب اہل قریش نے بیت اﷲ شریف کی تعمیر کا ارادہ کیا تو تعمیر سے پہلے جو پریشانیاں اور مشکلات درپیش تھیں ان میں ایک بیت اﷲ شریف کی لکڑی کی چھت بنانے کے لیے بڑھئی کی ضرورت بھی تھی۔بعض مؤرخوں کے نزدیک تو مکّہ میں ایک بڑھئی موجود تھا جبکہ بعض مؤرخین کے مطابق پورے مکّہ میں ایک بھی ماہر بڑھیٔ موجود نہ تھا۔
مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ قریش کو بیت اﷲ شریف کی تعمیر کے لیے ایک معمار کی بھی ضرورت تھی جو بیت اﷲشریف کی چھت کو لکڑی سے اچھی طرح سے بناسکے تو اﷲ تعالیٰ نے ان کی یہ مشکل بھی حل کردی۔ ان کو باقوم نامی ایک بڑھئی بھی مل گیا جو یہ کام اچھی طرح جانتا تھا۔چنانچہ محمد طاہر الکردی "باقوم" کے بارے میں لکھتے ہیں:
زمانہ قدیم کا یہ ایک رومی معمار تھا جو عدن کے ساحل پر کام کرتا تھا۔۔ ۔ یہ اپنے فن میں اس قدر ماہر تھا کہ چہاردانگ عالم میں اس کا نام روشن تھا۔ جب جہاز کو حادثہ پیش آیا اور قریش لکڑی اور دوسرا سامان خرید نے شعیبیہ گئے تو باقوم کو بھی اپنے ساتھ مکّہ معظمہ آنے کی دعوت دی اور کعبہ شریف تعمیر کرنے کی پیش کش کی چنانچہ وہ ان کی درخواست پر مکّہ معظمہ آیا۔51
نیز ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
يظهر من روايات أهل الأخبار أن أهل مكة والمدينة لم يكونوا علي حظ كبير في النجارة ولذلك كانوا يستعينون بالرقيق وبالأجانب في أعمال نجارتهم كاليهود أو الروم وفي الذي رووه عن تسقيف الكعبة في أيام الرسول وقبل نزول وحي عليه ما يدل علي ندرة النجارين في مكة في تلك الأيام.52
اہل اخبار کی روایات سے معلوم ہوتاہےکہ مکہ ومدینہ کے لوگوں کو نجاری میں خاص مہارت نہ تھی، اسی لیے انہوں نے نجاری کے معاملہ میں یہودیوں یا رومیوں کی طرح غلاموں اورپردیسی عاملوں (ملازموں)سےخدمات لیں اورنبی اکرم ﷺ کےزمانہ میں وحی نازل ہونے سے قبل کعبہ مشرفہ کی چھت ڈالنے کےحوالہ سے جو انہوں نے روایت کیاہے وہ اس زمانہ میں مکہ کے ترکھانوں کی کمال مہارت پر دلیل ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ اہلِ عرب میں فنِ نجاری میں کافی مہارت نہ تھی لیکن وہ کسی حد تک اس فن سے بھی آشنا تھے اور اپنی ضرورت کے لحاظ سے وہ اس کو استعمال بھی کیا کرتے تھے مگر اکثر طور پر کسی باہر کے بندے سے اجرت پر کام کرواتےتھے۔
اہلِ عرب کی تحریر و کتابت سے واقفیت اور اس کی اہمیت سے آشنائی کے متعلق امام ماوردی اپنی ایک کتاب میں اس حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
والعرب تقول: الخط أحد اللسانين، وحسنه أحد الفصاحتين....وكانت العرب تعظم قدر الخط وتعده من أجل نافع حتى قال عكرمة: بلغ فداء أهل بدر أربعة آلاف حتى إن الرجل ليفادى على أنه يعلم الخط، لما هو مستقر في نفوسهم من عظم خطره وجلالة قدره وظهور نفعه وأثره.53
اہلِ عرب کا مقولہ ہے کہ خط دو زبانوں میں سے ایک ہے اور خوشخطی دو فصاحتوں میں سے ایک ہے۔۔۔ اہلِ عرب خط کی قدر ومنزلت کو عظیم جانتے ہیں اور اس کو انتہائی نفع بخش چیز شمار کرتے ہیں یہاں تک کہ عکرمہ نے کہا ہے کہ اہل بدرکے فدیہ کی رقم چار ہزار تک پہنچ گئی تھی یہاں تک کہ (رقم کی عدم موجودگی میں)ایک مرد کا فدیہ یہ طے کیا گیا کہ وہ کسی کو کتابت سکھادے کیونکہ ان کے دلوں میں کتابت کا عظیم فائدہ، اس کی قدرومنزلت، اس کا فائدہ اور اس کا اثر جاں گزین ہوچکا تھا۔
امام ماوردی کےمذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوتاہے کہ اہلِ عرب خط وکتابت سےنہ صرف واقفیت رکھتےتھے بلکہ اس کی قدر ومنزلت سے بھی آگاہ تھے اور اسی وجہ سے ان کی ثقافت و معاشرت اوران کی زبان میں خط وکتابت سے متعلق کئی طرح کے امور آج بھی پائے جاتے ہیں جن سے ان کے ہاں خط وکتابت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
قبل از اسلام عربوں کے بارے میں یہ مبالغہ آرائی نہیں کی جاسکتی کہ وہ سامانِ کتابت کے فقدان کی وجہ سے اپنے آثار و آداب کی حفاظت کے سلسلہ میں صرف اپنے حافظے پر اعتماد کرتے تھے اور فنِ کتابت سے بالکل بے گانہ تھے۔ یہ امر مسلّمہ ہے کہ شمالی عرب کے لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مکہ مکرّمہ آنحضورﷺ کی بعثت سے پہلے ایک مشہور تجارتی مرکزتھااور اس میں لکھنے پڑھنے والے لوگ مدینہ کی نسبت زیادہ تھے۔
تحریر اور زبانی روایت کا موازنہ کیا جائے تو زبانی روایت زیادہ طاقتور معلوم ہوتی ہے اوراس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عرب میں زبانی روایت کا ہی غلبہ تھا۔ زبان کا بنیادی وظیفہ اظہار ہوتا ہے اور اہلِ عرب کے ہاں زبانی روایت سے ہی ابلاغ کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی۔ قیاس سے اور چند روایات کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر کا تجربہ کسی حد تک عام تھا گو کہ اتنا عام بھی نہیں تھا کہ عرب کا ہر فرد اس میں مہارت رکھتا تھا۔اس اعتبار سےتحریر کے متعلق جو قیاسات اور روایات ملتی ہیں کہ چند افراد کے علاوہ کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا کسی حد تک غلط معلوم ہوتی ہیں۔
جاہلی دور میں عرب کے بعض علاقوں میں کچھ متمدن حکومتیں بھی قائم تھیں، اسی طرح بعض علاقوں ميں کاروبارو تجارت کا بھی رواج تھا جیسے قریش اکثر تجارت کا پیشہ کرتے تھے جنہیں عقود و معاہدات لکھنے ہوتے تھے، ان کے ہاں عربی خط کا رواج تھا۔54اس کی تائید علامہ زبیدی کی اس بات سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب میں ذکر کی ہے کہ بشر بن عبد الملك جب مکہ آیا تو اس نےاہل انبار سے کتابت کی تعلیم حاصل کی پھر اس نے صہباء بنت حرب بن امیہ سے عقد نکاح کیا تو اس سے حرب نے، حرب سے حضرت سفیان نے اور ان سے امیر معاویہ نےکتابت کا علم حاصل کیا اور یہ فن قریش میں مزید رواج پذیر ہوا۔55جاہلیت کے ابتدائی دور میں تو اگر چہ خط و کتابت کا رواج خال خال ہی نظر آتا ہے لیکن موجود ضرور تھا 56البتہ آخری دور میں خط کا رواج عام نظر آتا ہے چنانچہ پتا چلتا ہے کہ عرب"اما بعد"57اور خطوط 58کے آغاز 59میں"باسمک اللھم" 60وغیرہ استعمال کرتے تھے۔اس سلسلے میں ایک واضح ثبوت "طی" کے نام "اکثم" کی وصیت ہے جو عہدِ جدید میں پائی گئی۔61کتب سیرت، تاریخ اور طبقات کا اگر بنظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو اس دور میں ایسے بہت سے لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جو اچھے لکھاری اور کاتبین و قارئین اور تیراک تھےجنہیں"الکملۃ" کے خطاب ِ خاص سے مخاطب کیا جاتا تھا62مگر مجموعی طور پر اس عہد میں کا تبین کی تعداد بہت کم تھی۔
درحقیقت عرب کا لکھنے پڑھنے کے سلسلے میں بھی تقریباً وہی حال تھا جو عموماً اس زمانہ میں نیم متمدن ممالک کا تھا۔ یعنی جس طرح قدیم زمانے میں تقریباً ہر ملک اور قوم میں لکھنے پڑھنے والوں کا ایک خاص پیشہ ور طبقہ ہوتا تھا اور عوام کو اس سے چنداں تعلق نہیں ہوتا تھا، نہ ہی تعلیم کی اتنی اہمیت ہواکرتی تھی اس لیے مذہبی طبقات، پیشواؤں، پادریوں، رِبّیوں اور برہمنوں کے ساتھ یہ کام مخصوص تھا۔ اگر بالکلیہ نہیں تو قریب قریب عرب کا بھی یہی حال تھا۔ عرب میں بھی ایک خاص تعداد پڑھنے لکھنے والوں کی تھی مثلاً ورقہ بن نوفل کی بابت کتبِ سیر و تواریخ میں درج ہے کہ وہ عربی و عبرانی کی کتابت کیا کرتے تھے۔63خلفائے اربعہ، ابو سفیان، طلحہ بن عبید اللہ، معاویہ بن ابی سفیان، ابان بن سعیداور علاء بن مقری بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو مکہ میں کاتبین کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھےاور مدینہ منورہ میں عمر بن سعید، ابئ بن کعب، زید بن ثابت اور منذر بن عمرو اسی حوالہ سے شہرت رکھتے تھے۔64نہ صرف مرد، بلکہ ایامِ جاہلیت میں بعض عورتیں بھی لکھنے والی پائی جاتی تھیں جن میں الشفاء بنت عبداللہ کا نام ملتا ہے۔65
عرب میں کتابت کے حوالہ سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگرچہ کہ ان کی اکثریت جاہل تھی تاہم ان میں فنِ کتابت سے آشنا افراد کی تعداد اتنی کم بھی نہ تھی جتنی کہ عام طور سے بیان کی جاتی ہے۔آنحضرت ﷺکی بعثت سے پہلے مکہ مکرمہ نہ صرف ایک معبد کی حیثیت سے مشہور تھا بلکہ کاروبار اور تجارت کا بہت بڑا مرکز بھی تھا اور یہ بات قرین قیاس نہیں معلوم ہوتی کہ کاروباری طبقہ تحریر و کتابت کی صلاحیتوں سے یکسر محروم ہو یا اس کی ضرورت و اہمیت سے قطعی ناواقف ہو۔
عربوں میں اگر چہ کتابت کا عمومی رواج نہ تھا تا ہم تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ان میں بہت سے افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اہل حیرہ میں چونکہ ثقافت پہلے آگئی تھی لہٰذا عربوں نے فن کتابت انہی سے سیکھا تھا۔66مؤرخین کا اس بابت اختلاف ہے کہ عرب میں کتابت اور خطاطی کا فن کب شروع ہوا۔ بعض حضرات کی رائے کے مطابق حضرت ایوب کے زمانہ میں عرب میں یہ فن موجود تھا جبکہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضرت اسماعیل کے عہد سے پہلے عرب میں اس کا رواج ہو گیا تھا اور جناب سرور کائنات ﷺنے اپنے عہد میں اس کو مزید ترقی دی۔67
عربی زبان کی مکہ اور اُس کے مضافات میں تحریری روایت زبانی روایت کے مقابلے میں بہت کمزور تھی۔اس روایت کا باقاعدہ آغاز حرب بن اُمیہ کے عہد میں ہواجو مکے کا سردار تھا اوراس کا تعلق خاندانِ بنو اُمیہ سے تھا۔اس کی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ایک شخص عراق کے علاقہ حیرہ سے مکہ آیا تھا جس نے حرب کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ بعدمیں اظہارِ تشکر کے طور پر حرب کو یہ راز اسی نے بتایا کہ ایسی کام کی باتیں جنہیں تم بھول جاتے ہو اور جنہیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے انہیں لکھ لیا کرو۔ اسی لیے تحریری روایت کے جتنے بھی شواہد ملتے ہیں وہ عموماًحرب ہی کے زمانے کے ہیں۔ بعدمیں جب تحریر کا استعمال بڑھتا گیا تو یہ ایک ناگزیر ضرورت بن گئی۔68
مذکورہ مضمون کی تائید علامہ سیو طی کی ذکر کردہ اس روایت سے بھی ہو تی ہے جسے علامہ سیوطی نے شعبی سے روایت کیا ہے چنانچہ وہ نقل کرتے ہیں:
عن الشعبي قال: أول العرب الذي كتب بالعربية حرب بن أمية بن عبد شمس، تعلم من أهل الحيرة، وتعلم أهل الحيرة من أهل الأنبار69 (وهما من مدن العراق)70 وقال غيره: فسألنا المهاجرين: من أين تعلمتم الكتابة؟ قالوا: من أهل الحيرة، فسألنا أهل الحيرة: من أين تعلمتم؟ قالوا: من أهل الأنبار، وقال غيره: فسألنا أهل الأنبار: من أين تعلمتم؟ قالوا: نزل علينا رجلان من طيئ يقال لأحدهما: مرامر بن مروة، وللآخر: عامر بن سدرة، فأخذنا ذلك منهما.71
شعبی کا بھی یہی کہنا ہے کہ سب سے پہلا عرب جس نے عربی میں تحریر لکھی اس کا نام حرب بن امیہ بن عبد شمس ہےجس نے حیرہ والوں سے یہ علم حاصل کیا اور اہل حیرہ نے اہلِ انبار سے اسے اخذ کیا(اور یہ دونوں مقامات عراق کے دو شہر ہیں)۔ایک اورقول کے مطابق جب اہلِ انبار سے سوال کیا گیا کہ تم نے علمِ خط کہاں سے حاصل کیا تو ان کا جواب تھا کہ ہمارے پاس قبیلہ طئی کے دو افراد مرامر بن مروہ اور عامر بن سدرہ آئے تھے جن سےہم نے یہ علم حاصل کیا۔
علامہ طاہر کردی اس بات پر مؤرخین کا اجماع نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
ولقد اجمع المؤرخون على ان اول من ادخل الكتابة إلى مكة المشرفة حرب بن أمية بن عبد شمس بن مناف القرشى وهو تعلمها في أسفاره من عدة اشخاص منهم بشر بن عبد الملك ثم تعلم منهماجماعة من قريش بمكة. 72
مؤرخین کا اس بابت اجماع ہے کہ مکّہ میں فن کتابت لانے والی پہلی شخصیت حرب بن امیہ بن عبد شمس بن مناف قرشی ہیں۔ انہوں نے مختلف اسفار میں مختلف اشخاص سے علمِ کتابت حاصل کیا جن میں بشر بن عبد الملک بھی شامل ہیں پھر ان دونوں افراد سے قریشِ مکّہ کی جماعت نے علمِ کتابت حاصل کیا۔
علامہ زبیدی اس معاملہ میں تصفیہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
والصحيح عند أهل العلم أن أول من خط هو مرامر بن مرة من أهل الأنبار، وقيل إنه من بني مرة. ومن الأنبار انتشرت الكتابة في الناس. قال الأصمعي: ذكروا أن قريشاً سئلوا: من أين لكم الكتابة؟ فقالوا: من الأنبار. وقال هشام بن محمد بن السائب: تعلم بشر بن عبد الملك الكتابة من أهل الأنبار وخرج إلى مكة وتزوج الصهباء بنت حرب بن أمية تعلم منه حرب ومنه ابنه سفيان ومنه ابن أخيه سيدنا معاوية ثم انتشر في قريش وهو الخط الكوفي الذي استنبطت.73
ا ہل علم کے نزدیک اس بابت صحیح تر قول یہ ہے کہ سب سے پہلے اہلِ انبار کے مرامر بن مرہ نے خط و کتابت کی بنیاد ڈالی جو بنی مرہ سے تھااور بعد میں فنِ کتابت عام لوگوں میں رائج ہوا۔اس پر دلیل اصمعی کا وہ قول بھی ہے جس میں اصمعی قریش کی بابت کہتے ہیں کہ جب ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے فنِ کتابت کس سے حاصل کیا تو ان کا جواب تھا کہ اہلِ انبار سے۔ ہشام بن محمد بن سائب کے بقول شروع میں بشر بن عبد الملک نے اہلِ انبار سے کتابت سیکھی اور پھر مکہ آکر صہباء بنت حرب بنت امیہ سے شادی کی جن سے حرب نے اور اس سے اس کے بیٹے سفیان نے اور ان سے ان کے بھتیجے سیّد نا امیر معاویہ نے فنِ کتابت حاصل کیا جو بعد میں تمام قریش میں پھیل گیا اور یہ خطِّ کوفی کہلا یا۔
خطِّ کوفی کی بابت یہ بات طاہر کردی سے بھی مروی ہے کہ یہ خط اہلِ حیرہ و انبار کے توسط سے ہی حجاز پہنچاچنانچہ وہ اس بابت لکھتے ہیں:
ان الخط الكوفى وصل إلى الحجاز من اهل الحيرة والانبار....فالصحابة رضى الله عنهم كانوا يكتبون بالخط الكوفى.74
تحقیق یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ خطِّ کوفی حجاز میں اہلِ حیرہ اور انبار کے توسط سے ہی پہنچا۔ ۔۔اور صحابہ کرام بھی خط کوفی میں ہی کتابت کیا کرتے تھے(کیونکہ مکّہ مکرّمہ میں یہی رسم الخط متداول تھا)۔
یعنی اہلِ عرب جس رسم الخط میں لکھنےلگے وہ خط شہرِ کو فہ سے منسوب ہونے کی وجہ سے کوفی رسم الخط کہلایا اور یہ علاقہ بعدمیں مسلمانوں کا علمی مرکز بنا۔ اگرچہ اس خط کا استعمال کوفہ کی بنیاد پڑنے اور عربوں کی فتحِ شام سے پیشتر بھی پایا جاتا تھا لیکن یہاں کے کاتبوں نے اس خط کو ترقی دی تھی اس لیے وہ کوفی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں عرب میں کوفی خط رائج تھا چنانچہ آنحضرت ﷺبھی اسی خط میں مراسلت فرماتے تھے۔75
مکہ میں کتابت سب سے پہلے حرب بن امیہ بن عبد شمس کے ذریعے پہنچی 76اور یہاں کتابت کو رواج دینے والوں میں ورقہ بن نوفل کا نام زیادہ معروف ہے۔ آپ تورات اور انجیل کی کتابت کیا کرتے تھے اور عربی و عبرانی دونوں زبانوں میں لکھا کرتے تھے۔77ان کے علاوہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ بن عبید اللہ، حضرت ابوعبیدہ، حضرت معاویہ اور خواتین میں الشفاء بنت عبداللہ کے نام ملتے ہیں۔78یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں کتابت کا رواج تها۔
قریش اکثر و بیشترپیشۂِ تجارت سے وابستہ لوگ تھے، اور ایسے افراد کو لا محالہ معاہدات و معاملات میں تحریر و کتابت کی ضرورت بھی پڑتی رہتی ہے، اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ قریش جو مکّہ کے قدیم باشندے تھے ان میں فنِ کتابت کا خوب رواج تھا اورعلامہ بلاذری کے مطابق قریش میں سترہ افراد تعلیم یافتہ تھے جن میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت ابو عبیدہ، حضرت طلحہ، حضرت ابو حذیفہ اوردیگر افراد شامل ہیں۔79اسی طرح اس وقت یہ عام رواج تھا کہ جب کوئی عمدہ قصیدہ یا غزل کہی جاتی تو اسے لکھ کر خانہ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کر دیا جاتا تھا۔80اس دور میں ہی سات مشہور نظمیں جو خانہ کعبہ کی زینت بنی تھیں خانہ کعبہ پر لٹکائی گئیں جنہیں "سبع معلقات" کہا جاتا ہے انہيں جمع كرنے والے حماد راویہ تھے۔81ان تمام امور سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مکہ میں فن خط وکتابت اور تحریر رواج پا چکا تھا۔
مکّہ مکرّمہ کی طرح مدینہ منوّرہ میں بھی علمِ خط و کتابت کا عام رواج تھا اور اس بات کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں مذکور ہے کہ مدینہ منوّرہ میں رسول اکرمﷺ کی آمد مبارکہ کے وقت کتابت رائج تھی اور یہ واضح ہے کہ کتابت کا وجودقبل از بعثت نبوی ﷺہی رہا ہوگا کہ آنا ًفاناً کوئی چیز سیکھی نہیں جاتی چنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے شیخ طاہر کردی لکھتے ہیں:
اما المدينة فقد ذكروا ان رسول الله صلي الله عليه وسلم دخلها وكان فيها يهودى من يهود ما سكة يعلم الصبيان الكتابة وكان فيها بضعة عشر رجلا يعرفونها منهم زيد بن ثابت وكان يكتب العربية والسريانية ثم انتشرت الكتابة بالمدينة اكثر من انتشارها بمكة بتحريض النبي صلي الله عليه وسلم فقد روى انه امر عبد الله بن سعيد بن العاص ان يعلم الناس الكتابة، وجاء عن عبادة بن الصامت قال علمت ناسا من اهل الصفة الكتابة والقرآن ولقد جعل المسلمون فدية الكاتب من اسارى غزوة بدر الكبرى تعليم عشرة من صبيان المدينة وبذلك كثر التعلمون حتى بلغ عدد كتابه صلي الله عليه وسلم نحو اربعين رجلا.82
مدینہ میں علمِ کتا بت مکّہ سے پہلے داخل ہوا۔ اس دور میں مدینہ میں زیادہ لوگ کتابت جانتے تھے چنانچہ جب نبی ﷺمدینہ پہنچے تو اہلِ مکّہ میں سے ایک یہودی وہاں کے بچوں کو کتابت سکھایا کرتا تھا۔مدینہ میں دس سے زائد افراد فنِ کتابت جانتے تھے جن میں سے زید بن ثابت ایسے شخص تھے جو عربی کے ساتھ ساتھ سریانی زبان بھی جانتے تھے بایں سبب فنِ کتابت مدینہ میں مکّہ کی نسبت زیادہ عام ہوا۔ پھر اس پر مستزاد نبی ﷺ کی تحریض و تحریک بھی اس کے پھیلنے کا بڑاسبب بنا جیسا کہ مروی ہے کہ آپﷺ نے حضرت عبد اللہ بن سعید بن عاص کو اس کام پر باقاعدہ مامور فرما یا تھا کہ وہ لوگوں کو فنِ کتابت سے آشنا کروائیں۔اسی طرح حضرت عبادہ بن صامت کا یہ کہنا کہ میں نے فنِ کتابت اور قرآن کی تعلیم صفہ والوں سے حاصل کی اورنبی کی طرف سے غزوہ بدر کے قیدیوں کا فدیہ تعلیمِ کتابت کو متعین کرنا بھی اس اہتمام کو ظاہر کرتا ہے جس کی بدولت فنِ کتابت نے اس قدر ترقی پائی کہ آپ ﷺ کے کاتبین کی تعداد چالیس(40) کے قریب تک جا پہنچی۔
مندرجہ بالا بحث سے بخوبی معلوم ہو ا کہ مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ جب اقوام و قبائل ترقی یافتہ ہوتے گئے تو زبانیں بھی وسیع ہوتی گئیں۔ابتداءًزبان کی "زبانی روایت" مرکزی حیثیت رکھتی تھی بعد میں تحریری رسم نے بھی جگہ بنانا شروع کی۔عربی زبان جب پورے عرب کی زبانی روایت کا حصہ بن گئی تو تحریری شکلوں میں ڈھلنے لگی مگر زبانی روایت کے آگے کمزور یا ایک اضافی صفت کے طور پرسامنے آئی۔ مزید بر آں یہ بھی معلوم ہوا کہ زمانہ جاہلیت میں بھی تحریر کا رواج عام تھا اور بہت سے لوگ فنِ کتابت سے وابستگی رکھتے تھے جس کی بدولت ہی "سبع معلقات" عرب کے ایام کے واقعات اور دیگر اشعار و واقعات جیسی عظیم کاوشیں آج بھی منصہ شہود پر موجود ہیں اور بعد از بعثتِ نبویﷺ اس فنِ خط وکتابت کو مزید عروج وترقی حاصل ہوئی اور اس کے سیکھنے والوں کی تعداد میں نبی کریمﷺ کی ترغیب کی بنا پر کافی اضافہ ہوا۔
قطع نظر اس کے کہ عرب میں فنِ کتابت و تحریر کن ذرائع اورطرز سے رواج پذیر ہوا مندرجہ بالا تحریر سے اتنا ضرورواضح ہو جا تا ہے کہ عرب میں فنِ تحریر کی روایت موجود تھی اور بہت سے لوگ بشمول خواتین کے لکھنا پڑھنا جانتے تھے نیزاپنے تجارتی و خاندانی معاملات کی تحریر ی دستاویزات میں فنِ خط وکتابت کےذریعے فائدہ اٹھاتے اور اس فن سے قبل از بعثت نبویﷺآشناتھے گو کہ معاشرے کے تمام افراد خط و کتابت میں ماہر نہیں تھے لیکن گنے چنے افراد ضرور ایسے تھے جیسےورقہ بن نوفل83 جومکّہ ہی کے رہنے والےتھے اورانہوں نے زمانۂ جاہلیت میں تورات اور انجیل کو عربی تحریر میں منتقل کیا۔84اس بات کی تائید چند قرآنی الفاظ واحکام سے بھی ہوتی ہے جن میں ان تمام لوازمات کا ذکر ہے جو لکھنے پڑھنے سے متعلق ہیں مثلاً قرطاس،قلم،روشنائی وغیرہ۔ اسی طرح اس جیسے دیگر الفاظ بھی قرآن میں مذکور ہیں جن سے مکہ والوں کی تحریری صلاحیتوں کا پتا چلتا ہے جیسے مرقوم، مسطور، سفرۃ،کاتب،اسفار،زبر، صحف، سجل وغیرہ اور سورۃ البقرۃ کے آخری حصہ میں باقاعدہ تجارتی لین دین کے لکھنے کا حکم 85بھی اس امر کی تائید و توثیق کرتا ہے۔
مذکورہ تفاصیل سے واضح ہوتا ہے کہ اہلِ عرب دیگر متمدن اقوام کی طرح کئی فنون میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے اور فنون کے قدردان بھی تھے۔کئی فنون تو ان کی اصل زندگی میں جزو لاینفک کی حیثیت رکھتےتھے جن میں کپڑا سازی، چمڑا سازی اور فنِ آہنگری نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔ان کے علاوہ بھی کئی فنون میں وہ اپنی ضرورت کے لحاظ سے آشنائی رکھتے تھے اور اس کو اپنے روزمرہ زندگی کے کاموں میں استعمال میں لاتے تھے۔اگر ماضی کے اہلِ عرب کی مثل دورِحاضر کے عرب بھی سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی حاصل کرکےجدید فنون میں مہارت حاصل کرلیں تو اس کا فائدہ نہ صرف عرب اقوام کوہوگا بلکہ پوری امت مسلمہ اس سے فیضیاب ہوگی اور وہ محتاجی جو آج ہر میدان میں بالعموم اور سائنس، صنعت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بالخصوص امت مسلمہ کو درپیش ہےاس کابڑی حدتک ازالہ عرب ممالک کی اس ترقی سے ہوجائےگاجومسلمانوں کے لیے عظیم الشان اور قابل قدر خدمت ہوگی۔