Encyclopedia of Muhammad
پیدائش: 439 عیسوی وفات: 574 عیسوی اولاد: ایک بیٹا کنیت: ابو عبیدہ قبیلہ: بنو یشکر

حارث بن حلِّزہ یشکری

اہل عرب کے ممتاز افرادمیں سے ایک ممتاز ترین شخص حارث بن حلِّزہ یشکری بھی تھا جو دور جاہلی کا مشہور شاعر تھا اور عمرو بن کلثوم کا معاصر بھی۔1ساتھ ہی ساتھ یہ میدان جنگ کا بہترین جنگجو بھی تھااور اس نےعرب کی ایک مشہور جنگ حرب ِبسوس میں کلیدی کردار بھی ادا کیا تھا ۔2حارث بن حلزہ كا تعلق اہل عراق سے تھا اور اس کا نسب یشکر بن وائل سے ہوتا ہوا معد بن عدنان تک پہنچتاہے۔

پیدائش

یہ بات ذہن نشین رہے کہ حارث بن حلزہ کی تاریخ پیدائش کے حوالہ سے کوئی خبر یا دلیل میسر نہیں ہے جس سے حتمی تاریخ ولادت کا علم ہوسکے البتہ چونکہ یہ جنگ بسوس میں شریک ہوا تھا تو اس حساب سے اس کی عمر کا ندازہ لگایاجانا ممکن ہے ۔ اس اندازہ کی تفصیل یہ ہے کہ مؤرخین کے نزدیک یہ ان اشخاص میں سے ہے جن کی عمر کافی طویل تھی یعنی ایک سو پینتیس(135)سال 3اور صاحب الاعلام نے اس کا سن وفات ہجرت سے پچاس(50)سال پہلے بیان کیا ہے4تواس اندازہ کے مطابق اس کا سن ولادت تقریباً چارسو انتالیس (439)عیسوی بنتا ہے یعنی اس کی پیدائش تقریباً چارسو انتالیس(439)عیسوی میں ہوئی ۔

خاندان

حارث بن حلّزہ بنو یشکر سے تعلق رکھتا تھا جو بنو بکر کی ایک شاخ تھی اور اس کے اور اس کے خاندان کے بار ے میں بیان کرتے ہوئے جاحظ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  الحارث بن حلزة ابن مكروه بن يزيد اليشكري الوائلي، شاعر جاهلي، من أهل بادية العراق، وهو أحد أصحاب المعلقات.5
  حارث بن حلزہ ابن مکروہ بن یزید یشکری وائلی دور جاہلی کا شاعرہے اور عراق کے بادیہ نشینوں میں سے ہے جو معلقات کے شعراء میں بھی شامل ہے ۔

اسی حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  الحارث بن حلزة اليشكرى هو من بنى يشكر، من بكر بن وائل.6
  حارث بن حلّزہ یشکری بکر بن وائل کی شاخ بنو یشکر میں سے ہے۔

اور صاحبِ قصائد العشر نے بنو یشکر کی بھی وضاحت کی ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب میں حارث بن حلزہ کا نسبی تعلق بتاتے ہوئےتحریر کرتے ہیں:

  وهو أحد بني كنانة بن يشكر.7
  اور وہ بنی کنانہ بن یشکر میں سے ایک ہے۔

نیز اسی شاخ کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزنی اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  وينتھي نسبه إلى: يشكر بن بكر بن وائل، وينتھي نسب وائل إلى نزار بن مَعَدّ بن عدنان.8
  اور حارث کا نسب یشکر بن وائل تک پہنچتا ہے اور وائل کانزار بن معدّ بن عدنان تک پہنچتاہے۔

اسی بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئےڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وأما بكر بن وائل، فكان من نسله علي، ويشكر، وبدن وقد دخل بنو بدن في بني يشكر، ومن بني يشكر الشاعر الحارث بن حلزة، والريان اليشكري، سيد بني بكر في حربھم مع بني تغلب.9
  بہر حال بکر بن وائل کی نسل سے علی، یشکر اور بدن تھے اور بنو بدن بعد میں بنو یشکر میں شامل ہوگئے۔بنو یشکر سے حارث بن حلّزہ شاعر اور ریان یشکری ہے جو بنوبکر کی بنو تغلب کے ساتھ ہونے والی جنگ میں ان کاسردار تھا۔

مذکورہ بالااقتباسات سے واضح ہوا کہ حارث بن حلزه خاندان بکر بن وائل سے تعلق رکھتا تھا جس کا نسب نزار بن معد بن عدنان پر منتہی ہوتا تھا اور یوں یہ بنو بکر کی شاخ بنو یشکر میں سے ہونے کی وجہ سے یشکری کہلاتا تھا۔

کنیت

حارث بن حلزہ کی کنیت کے بارے میں کتب تاریخ میں فقط یہی وضاحت ہے کہ اس کی ایک ہی کنیت منقول ہے جس کو بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزنی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  هو: أبو عبيدة الحارث بن حلزة.10
  وہ ابو عبیدہ حارث بن حلزہ ہے۔

اوراسی طرح حلزہ بھی اس کے والد کی کنیت ہے جس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ابو عمروشیبانی اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  الحلزة لقب والده وشھر به.11
  حلزہ اس کے والد کا لقب ہےاوراسی کے ساتھ وہ مشہور ہوا۔

اس لقب کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے صاحبِ اشتقاق اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  حِلِّزة اشتقاقُه من الضِّيق رجلٌ حِلِّزٌ، إذا كانَ بخيلاً.12
  حلزہ کا اشتقاق تنگی سے ہے جیسے (کہاجاتا ہے ) رجل حلز جب آدمی بخیل ہو۔

یعنی حلزہ کا معنی بخیل ہے اور یہ حارث کے والد کا لقب ہے جس سے وہ اور خود اس کا بیٹا مشہور ہے۔

نسب نامہ

حارث بن حلزہ کا خاندانی تعلق بکر بن وائل کی شاخ بنو یشکر سے تھا جس کا نسب معد بن عدنان تک پہنچتا ہے اور اس کے نسب کے ابتدائی اجدادکو بیان کرتے ہوئے ابو عمرو شیبانی اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  هو الحارث بن حلزة بن مكروه بن يزيد بن عبد اللّٰه بن مالك بن عبد بن سعد بن جشم بن ذبيان بن كنانة بن يشكر بن بكر بن وائل.13
  وہ حارث بن حلزہ بن مکروہ بن یزید بن عبد اللہ بن مالک بن عبد بن سعد بن جشم بن ذبیان بن کنانہ بن یشکر بن بکر بن وائل ہے۔

یہی نسب صاحب طبقات فحول الشعراءنے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لیکن اس میں مکروہ بن یزید کے بجائے مکروہ بن بدید ہے اور باقی نسب وہی ہے۔14اسی نسب کو مزید بیان کرتے ہوئے صاحب قصائد العشر تحریر کرتےہیں:

  الحارث بن حلّزة بن مكروه بن بديد بن عبد اللّٰه بن مالك بن عبد (بن) سعد بن جشم بن ذبيان بن كنانة بن يشكر بن بكر بن وائل بن قاسط ابن هنب بن أفصى بن دعمى بن جديلة بن أسد بن ربيعة بن نزار بن معد ابن عدنان بن أدد.15
  حارث بن حلزہ بن مکروہ بن بدید بن عبد اللہ بن مالک بن عبد بن سعد بن جشم بن ذبیان بن کنانہ بن یشکر بن بکر بن وائل بن قاسط ابن ہنب بن افصیٰ بن دعمی بن جدیلۃ بن اسد بن ربیعہ بن نزار بن معد ابن عدنان بن ادد ہے۔

بعینہ یہی نسب صاحب قصائد السبع الطوال نے بھی اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے16اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حارث بن حلزہ کاتعلق بکر بن وائل کی شاخ بنو یشکر سے ہے اور اسی وجہ سے یہ یشکری و بکری کہلاتا ہے۔17

زندگی کی چند جھلکیاں

حارث بن حلزہ کی زندگی کے بارے میں چند معلومات ہی کتب تاریخ میں منقول ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے اس میں اس کے والدين کا تذکرہ نہیں ملتا اور خود اس كے بارے میں بھی انتہائی کم وضاحت منقول ہوئی ہے۔اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابوعمرو شیبانی اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  لا نعرف الكثير عن حياته سوى موقفه الذي ألقى فيه هذه القصيدة.18
  ہم اس کی زندگی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے سوائے اس مقام کے جہاں اس نے اپنا قصیدہ پیش کیا تھا۔

یعنی حارث بن حلزہ کی زندگی کے بارے میں زیادہ تفصیلات منقول نہیں ہیں البتہ اس کا تذکرہ فقط اس کے کہے گئے ایک مشہور قصیدہ کی بنا پر ہے۔ اس کی اکثر خبریں مفقود ہیں سوائے مؤرخین کی بیان کردہ ان چیزوں کےجو اس کے معلقہ سے تعلق رکھتی ہیں یا زندگی کے چند واقعات ۔اس کے علاوہ اس کی زندگی کا اکثر حصہ مفقودالخبر ہے چنانچہ ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  وكان بين الجاهليين أناس أنكروا الطيرة، ولم يحلفوا بھامنھم المرقش من بني سدوس...وممن كان ينكر الطيرة ويوصي بذلك، سلامة بن جندل، والحارث بن حلزة.19
  دور جاہلی کے افراد میں سے بعض افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے بدشگونی کا انکار بھی کیااور اس پر قسم بھی نہیں اٹھائی ۔ان میں سے ایک مرقش تھاجس کا تعلق بنو سدوس سے تھا۔۔۔ان ہی میں سے جو بدشگونی کا انکار کرتے تھے اور اسی کی اپنی نسل کو وصیت بھی کی، سلامہ بن جندل اور حارث بن حلزہ تھے۔

اسی طرح اس کی زندگی میں شہرت حاصل کرنے کے سبب کو بیان کرتے ہوئے ابو عمروشیبانی اپنی کتاب میں یوں تحریر کرتے ہیں:

  وهو أحد الشعراء الذي شھروا بواحدة طويلة.20
  اور وہ یعنی حارث ان شعراء میں سے ایک ہے جو اپنے ایک ہی طویل قصیدہ کے باعث مشہور ہوئے۔

اسی حوالہ سے اوراس کی زندگی کے بارے میں مختصراً تذکرہ کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزنی اپنی کتاب میں یوں تحریر کرتے ہیں:

  وقد شھد الحارث بن حلزة حرب البسوس كان الحارث بن حلزة خبيرًا بقرض الشعر ومذاهب الكلام، ومعلقته قد جمعت طائفة من أيام العرب وأخبارها، ووَعَت ضروبًا من المفاخر يقام لها ويقعد...أما شعره فهو قليل جدًّا لأنه كان من المقلين وإنما اشتھر بمعلقته هذه التي رفعت من قدره، وجعلته في صف شعراء الجاهلية المجيدين.21
  حارث بن حلزہ حرب بسوس میں شریک ہوا تھا، یہ اشعار کہنے میں بھی باصلاحیت تھا اور کلامی مذاہب میں بھی ۔اس کے معلقہ میں عرب کے مشہور ایام اور اس کی خبریں جمع ہیں نیز مفاخرت کی بھی کئی مختلف چیزیں اس میں محفوظ ہیں جن کے لیے وہ اٹھتے بیٹھتے تھے۔۔۔بہر حال اس کے دیگر اشعار انتہائی قلیل ہیں کیونکہ یہ کم گو شعرا ء میں سے تھا اور فقط اپنے بلند وبالا معلّقہ کی وجہ سے ہی مشہور ہوا جس نے اس کو دور جاہلی کے معزز ترین شعراء میں سے ایک بنادیا۔

یعنی اس کی زندگی میں اس کے کہے گئے فقط ایک ہی معلقہ نے لوگوں کے درمیان اس کو شہرت و عزت سے سرفراز کردیا ورنہ اس کی زندگی میں قصیدۂ معلقہ کے علاوہ کوئی دوسری چیز ایسی نہیں تھی جس سےاس کو یاد رکھا جاتا۔

اولاد

کتب تاریخ میں اس کی شادی کی بابت روایت وخبر منقول نہیں ہیں البتہ اس کی اولاد کے بارے میں تذکرہ ضرور ملتا ہے جیساکہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وكان له ابن يقال له: مذعور، ولمذعور ابن يقال له: شھاب بن مذعور، وكان ناسبا، وفيه يقول مسكين الدارمىّ:
هلمّ إلى ابن مذعور شھاب
ينبئ بالسّفال وبالمعالى.22
  اس کا ایک بیٹا تھا جس کو مذعور کہا جاتاتھا اور مذعور کا ایک بیٹا تھا جس کو شہاب بن مذعور کہا جاتا تھا ۔یہ علم الانساب کا ماہر تھااور اسی کے بارےمیں مسین دارمی نے یہ شعر کہا:
مذعور کے بیٹے شہاب میرے پاس آؤ
جونچلوں اور اونچوں کے بارے میں خبر دیتا ہے۔

یعنی حارث کا بیٹا مذعور اور اس کاپوتا شہاب یہ وہ اشخاص ہیں جن کا تذکرہ کتب تاریخ میں منقول ہوا ہے اور حارث کا پوتاتو علم الانساب کا ماہر بھی تھالیکن ان دونوں کے علاوہ کسی اوررشتہ دار کا تذکرہ کتب تاریخ میں منقول نہیں ہے۔

شاعری میں مقام ومرتبہ

حارث بن حلزہ یشکری کےمعلقہ نے اس کی شاعری صلاحیت کو اہل عرب کے درمیان اجاگر کیا تھا اور اسی وجہ سے اس کو اہل عرب نے اپنے اعلی ترین شعراء کی جماعت میں شامل کیا۔اس حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وذكر أن ممن رفعه الشعر من القدماء الحارث بن حلزة اليشكري، وكان أبرص، فلما أنشد الملك عمرو بن هند قصيدته:
آذنتنا ببينھا أسماء
رب ثاو يمل منه الثواء
وبينه وبينه سبعة حجب، فما زال يرفعها حجابا فحجابا لحسن ما يسمع من شعره حتى لم يبق بينھما حجاب، ثم أدناه.23
  اور تذکرہ کیا گیا ہے کہ بلا شبہ قدیم لوگوں میں سے جن کو شعروشاعری نے بلند مرتبہ عنایت کیا ہے وہ حارث بن حلزہ یشکری ہے جو برص(پھُل بیری کا مریض) تھا۔جب اس نے بادشاہ عمروبن ہند کے سامنے اپنا قصیدہ " آذنتنا ببينها أسماء رب ثاو يمل منه الثواء"پیش کیا تو اس کے اور بادشاہ کےدرمیان سات پردے حائل تھے۔پھر یکے بعد دیگرے اس کے اشعار کے حسن ولطافت کی وجہ سے بادشاہ پردے اٹھاتا گیایہاں تک کہ دونوں کے درمیان کوئی پردہ باقی نہ رہا۔پھر بادشاہ نےاسے مزید اپنے قریب کیا۔

یعنی حارث بن حلزہ یشکری میں شعر وشاعری کی صلاحیت اتنی زیادہ تھی کہ اس کے برص کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی اس کی شعرو شاعری کی لطافت اور حسن کلامی کی وجہ سے بادشاہ نے اسے اپنے قریب کیا۔اسی حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے صاحب قصائد السبع الطوال تحریر کرتے ہیں:

  وهو من وراء سبعة ستور، وهند تسمع، فلما سمعتھا قالت: تاللّٰه ما رأيت كاليوم قط أن رجلا يقول مثل هذا القول يُكلم من وراء سبعة ستور! فقال الملك: ارفعوا سترافدنا فما زالت تقول ذلك ويرفع ستر فستر حتى صار مع الملك على مجلسه، ثم أطعمه في جفنته وأمر ألا ينضح أثره بالماء.24
  حارث سات پردوں کے پرے تھا اور (بادشاہ کی والدہ) ہند ( اسے)سن رہی تھی۔جب اس نے قصیدہ سنا تو کہا کہ اللہ کی قسم میں نے آج کے جیسا دن پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ ایک شخص اتنا اعلی قصیدہ کہ رہا ہو اور سات پردوں کے پرے بیٹھ کر گفتگو کرے جس پر بادشاہ نے کہا کہ پردہ ہٹادو۔وہ یہی کہتی رہی اور بادشاہ یکے بعد دیگرے پردہ اٹھواتا گیا یہاں تک کہ حارث بادشاہ کے ساتھ اس کی مجلس میں جا پہنچا۔ پھر بادشاہ نے اسے اپنے تھال میں ہی کھلایا اور حکم دیا کہ اس کےبقیہ آثار پانی سے نہ دھوئے جائیں۔

یعنی حارث بن حلزہ کا شعرو شاعری میں مقام ومرتبہ بلندوبالا تھا کہ اس نے ایک ہی مرتبہ اپنی اس صلاحیت کا اظہار کیااور اس طرح کیا کہ اہل عرب نے اس کو اپنے نامور شعراء میں شامل کرلیانیز اس كی رفعت شان ميں یہ بيان كيا جاتا ہے کہ اس كا قصيده حيره كا بادشاه عمرو بن ہند خود بھی پڑهتا تها۔25

فصاحت وبلاغت

حارث کی شعرو شاعری میں فصاحت وبلاغت بھی مسلمہ تھی کیونکہ اس کا قصید ہ اسی وجہ سے عرب کے اعلی قصائد میں شامل کیاگیا تھا۔اہل عرب کی عادت تھی کہ ان کے شعراء طویل ومختصر قصائد کہا کرتے تھے اور یہ طریقہ حارث بن حلزہ نے بھی اپنایا تھاجس حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ويتوقف طول الشعر وقصره على نفس الشاعر، أي على الظروف النفسية التي تحيط بالشاعر حين ينظم شعره، وبالمؤثرات التي أثرت عليه وقد سئل أبو عمرو بن العلاء هل كانت العرب تطيل؟ قال: نعم ليسمع منھا قيل: هل كانت توجز؟ قال: نعم ليحفظ عنھاويستحب عندهم الإطالة عند الإعذار والإنذار والترغيب والترهيب والإصلاح بين القبائل كما فعل زهير والحارث بن حلزة ومن شابھهما.26
  اشعار کو طویل کرناا ور کم کرنا یہ شاعر کی اُن اندرونی کیفیات پر موقوف ہےجنہوں نے شاعر کو نظم کہتے وقت گھیر لیا تھا اوران تاثیر کرنے والی چیزوں پر جنہوں نے اُس پر اثر کیا تھا۔ابوعمرو بن العلاء سےپوچھا گیا کہ کیا اہل عرب طویل قصائد کہتے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہاں تاکہ انہیں بغور سنا جائے ۔ پوچھا گیا کہ کیا مختصر قصیدہ کہتے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہاں تا کہ اسے حفظ کرلیا جائے۔اہل عرب کے ہاں عذر خواہی، ڈرانے، رغبت دلانے، خوف دلانے اور قبائل کے درمیان اصلاح کرنے کے لیے طویل قصیدہ کہنا بہتر تھا جیساکہ زہیر اور حارث بن حلزہ اور ان جیسوں نے کیا ہے ۔

حارث کاکہاگیاقصیدہ طویل تھاجس میں اپنی قوم پر مفاخرت کے ساتھ ساتھ اپنے حاسدین کو دھمکانا بھی تھایہی وجہ تھی کہ اس قصیدہ کے الفاظ کا چناؤ بھی اعلی درجہ کا تھا جس کو بیان کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  قال الأصمعىّ: قد أقوى الحارث بن حلّزة فى قصيدته التى ارتجلها، قال:
فملكنا بذلك الناس إذ ما
ملك المنذر بن ماء السّماء
قال أبو محمد: ولن يضرّ ذلك فى هذه القصيدة، لأنّه ارتجلها فكانت كالخطبة وممّا يتمثّل به من شعره:
فعش بجدّ لا يضر
ك النّو ك ما أوتيت جدّا
والنّوك خير فى ظلا
ل العيش ممّن عاش . 27
  اصمعی نے کہا کہ حارث بن حلزہ نے اپنےفی البدیہہ کہے گئے قصیدہ میں جاندار بات کہی ہے، ا س نے کہا:
ہم ان لوگوں کے مالک تھے یہاں تک
کہ منذر بن ماء السماء ان کا بادشاہ بنا
ابو محمد نے کہا کہ یہ بات اس کے قصیدہ میں تجھے بری نہ لگے کیونکہ اس نے یہ فی البدیہہ کہا تھا تو گویا کہ یہ خطبہ ہوگیا۔اس کے وہ اشعار جو مثال کے طور پر بیان کیے گئے ہیں:
باعزت زندگی جیو کہ تمہیں بیوقوفی نقصان نہیں دے گی اگر تم محنت کش ہو
اور زندگی کے سائے میں بیوقوفی اس آدمی سے بہتر ہے جو مانگ کر گزاراکرتا ہے۔

حارث کے اشعار گویا فصاحت و بلاغت میں ایک درجہ رکھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اہل عرب کے ذخیرہ ادب کو پڑھنے والا شخص آج بھی اس کے اشعا رکو پڑھتا اور ان کی لطافت سے محظوظ ہوتا ہے نیز عمرو بن ہند نے بھی اس کے کلام کی رعنائی کی بنا پر اس کو عزت وشرف سے نوازاتھا۔

قصیدہ معلقہ

حارث بن حلزه یشکری کی زندگی میں اس کافی البدیہہ کہا گیا قصیدہ اس کو یاد رکھنے کا سب سے بڑا سبب بن گیا اور اسی قصیدہ نے اس کو اپنے قبیلے کے افراد سمیت دیگر قبائل میں بھی مشہور ومعروف کردیا۔اسی قصیدہ معلقہ کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ويذكر أهل الأخبار أن "الحارث بن حلزة" حضر مجلس "عمرو بن هند"، وأنشده معلقته، أنشده إياها من وراء سبعة ستور، وذلك لبرص به وكان الملك يأمر بعد خروج "الحارث" بغسل أثره بالماء، كما يفعل بسائر البرص فلما أنشده قصيدته هذه، طرب لها الملك كثيرا، فأمر برفع الستور من بينھما، وأدناه منه...تعظيما لشأنه، وتقديرا له ولقومه اليشكريينوقد حرض "الحارث" في قصيدته تلك الملك على التغلبيين، وسرد حوادث تأريخية لها علاقة في هذا التعريض مماهاج الملك، وراد في حدة غضبه عليھم.28
  مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ حارث بن حلزہ عمرو بن ہند کی مجلس میں حاضر ہوا اور اس نے اپنا قصیدہ پڑھا۔اس نے اس قصیدہ کو برص(پُھل بیری کے مرض) کی وجہ سےسات پردوں کے پرے پڑھا تھا ۔ بادشاہ کی عادت تھی کہ وہ حارث کے مجلس سے نکلنے کے بعد اس کے اثرات کو پانی سے اسی طرح دھونے کا حکم دیا کرتا تھا جس طرح تمام برص کے مریضوں کے ساتھ وہ کرتا تھا۔پھر جب اس نے اپنے اس قصیدہ کو پڑھا تو اس کو سن کربادشاہ بہت زیادہ خوش ہوا اور پھر اس نے ان دونوں کے درمیان سے پردے اٹھانے کا حکم دے کر اس کو اپنے مزید قریب کرلیا۔۔۔تاکہ اس کی اوراس کی قوم کی شان اور قدرومنزلت بڑھائے۔اس قصیدہ میں حارث نے اس بادشاہ کو تغلبیوں پر بر انگیختہ کیاجس سے ایسے تاریخی حادثات رونما ہوئے جن کا اس پیش کیے گئے قصیدہ سے تعلق تھا اور اسی وجہ سے بادشاہ برانگیختہ ہوااور ان تغلبیوں پر شدید غضبناک ہوا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب حرب بسوس کے بعد حیرہ کے ایک بادشاہ عمرو بن ہند نے بکر اور تغلب کے درمیان صلح کروائی تھی ۔29 اس کی تفصیل یہ ہے کہ عمرو بن ہند نے دونوں قبیلوں کے کچھ لوگ رہن رکھ کے صلح کروائی تھی تاکہ اگر کوئی قبیلہ وعدہ خلافی کرے تو مرہون لوگوں کو قید کر لیا جائے ۔کچھ مدت بعد تغلب کے ایک گھڑ سوار دستہ کو کسی ضرورت کے باعث رہا کر دیا گیا یہ دستہ پانی پینے کے لیے ایک مقام پر اترا پھر روانہ ہو گیا لیکن اپنی منزل تک پہنچ نہ پایا اور نا معلوم وجوہات کے باعث موت کے گھاٹ اتر گیا۔اب دونوں قبیلوں نے ایک دوسرےپر الزامات لگانے شروع کر دیےبالآخر مقدمہ عمرو بن ہند کے دربار میں پہنچا اور وہاں حارث بن حلزہ نے فی البدیہہ یہ قصیدہ کہا۔ 30 اسی قصیدہ کی وجہ سے اس پر بادشاہ نے اپنا انعام واکرام بھی کیا جس کو بیان کرتے ہوئے صاحب قصائد السبع الطوال اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وجزنواصي السبعين الذين كانوا في يديه من بكر ودفعها إلى الحارث وأمره ألا ينشد قصيدته إلامتوضئاً.31
  اس کے ہاتھ میں جو قبیلہ بکر کے ستر افراد تھے اس نے انہیں الگ کیااورحارث کو پیش کردیا اور ساتھ یہ حکم بھی دیا کہ صاف ستھرے ہوئے بغیر اس کا قصیدہ کوئی نہیں پڑھےگا۔

اس انعام کا ذکر ڈاکٹر جواد علی نے بھی کیا ہے32اور انعام میں دیے گئے یہ افراد کون تھے نیز اس قصیدہ کے کہنےکا کیا سبب بنا؟ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب قصائد العشر اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وكان من حديثه أن عمرو بن هند لما ملك وكان جبارا عظيم السلطان جمع بكرا وتغلب فأصلح بينھم، وأخذ من الحيين رهنا، من كل حي مائة غلام، فكف بعضهم عن بعض وكان أولئك الرهن يكونون معه في مسيره ويغزون معه، فأصابتھم سموم في بعض مسيرهم، فهلك عامة التغلبيين، وسلم البكريون، فقالت تغلب لبكر بن وائل: أعطونا ديات أبنائنا فإن ذلك لازم لكم، فأبت ذلك بكرفاجتمعت تغلب إلى عمرو بن كلثوم، فقال عمرو بن كلثوم لتغلب: بمن ترون بكرا تعصب أمرها اليوم؟ قالوا: بمن عسى إلا برجل من أولاد ثعلبة، قال عمرو: أرى الأمر واللّٰه سينجلي عن أحمر أصلع أصم من بني يشكر فجاءت بكر بالنعمان بن هرم أحد بني ثعلبة بن غنم بن يشكر، وجاءت تغلب بعمرو بن كلثوم فلما اجتمعوا عند الملك قال عمرو بن كلثوم للنعمان بن هرم: يا أصم، جاءت بك أولاد ثعلبة تناضل عنھم وهم يفخرون عليك، فقال النعمان: وعلى من أظلت السماء يفخرون، قال عمرو بن كلثوم: واللّٰه أن لو لطمتك لطمة ما أخذوا لك بھا، قال: واللّٰه أن لو فعلت ما أفلت بھا قيس أبن أبيك، فغضب عمرو بن هند وكان يؤثر بني تغلب على بكر فقال: يا حارثة، أعطه لحينا بلسان أنثى، يقول الحيه، قال له النعمان: أيھا الملك، أعط ذلك أحب أهلك إليك، فقال له عمرو بن هند: أيسرك أني أبوك؟ قال: لا، ولكني وددت أنك أمي، فغضب عمرو بن هند غضبا شديدا حتى هم بالنعمان وقام الحارث بن حلزة وهو أحد بني كنانة بن يشكر فارتجل قصيدته ارتجالا...وكان عمرو بن هند شريرا لا ينظر إلى أحد به سوء، وكان الحارث بن حلزة إنما بنشد من وراء حجاب، فلما أنشد هذه القصيدة أدناه حتى خلص إليه.33
  اور حارث کی خبروں میں سے ایک یہ ہے کہ عمرو بن ہند جب بادشاہ بنا جو انتہائی سخت اور بڑی مملکت والا تھا تو اس نے بکر وتغلب کو جمع کر کے ان میں صلح کروادی۔دونوں قبیلوں سے رہن لیا یعنی ہر قبیلہ سے سو(100)غلام جس وجہ سے یہ لوگ آپس کی چیرہ دستیوں سے باز آگئے۔یہ رہن شدہ افراد اس بادشاہ کے ساتھ اس کے ہر سفر میں ہوتے اور اسی کے ساتھ مل کر جنگیں کیا کرتے تھے۔ان کے کسی سفر کے دوران ان کو زہر دیاگیا جس سے تغلبیوں کی اکثریت فوت ہوگئی اور بکری افراد اس سے محفوظ رہے۔بنو تغلب نے بکر بن وائل سے کہا کہ ہمارے بیٹوں کی دیات ہمیں دو کیونکہ یہ (تم سے جنگ بندی کی وجہ سے رہن میں دیے گئے تھے تو)تمہارے اوپر ہی ان کی دیت لازم ہے۔بنو بکر نے اس دیت دینے کا صاف انکار کردیا تو بنو تغلب عمرو بن کلثوم کے پاس جمع ہوگئے۔عمرو بن کلثوم نے بنوتغلب سے کہا کہ تم بکر میں کس شخص کو اس معاملہ کا حَکم سمجھتے ہو؟انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ وہ ثعلبہ کی اولاد ہی میں سے ہو۔عمرو نے کہا کہ میں اس معاملہ کو دیکھتا ہوں اور اللہ کی قسم یہ معاملہ بنو یشکر کے سرخ وگنجے اور بہرے سے واضح ہوجائےگا( یعنی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائےگا)۔بکری افراد بنی ثعلبہ بن غنم بن یشکر کے ایک فرد نعمان بن ہرم کے ساتھ آگئے اور بنو تغلب عمرو بن کلثوم کے ساتھ آگئے ۔پھر جب یہ سب بادشاہ کے حضور جمع ہوئے تو عمروبن کلثوم نے نعمان بن ہرم سے کہا:اے بہرے تیرے ساتھ ثعلبہ کی وہ اولاد آئی ہے کہ جن کی تو حمایت کرےگا اور وہ تجھ پر فخر کریں گےتو نعمان بن ہرم نےکہا کہ ان پر بھی کریں گے جن پر آسمان سایہ فگن رہتا ہے۔اس پر عمرو بن کلثوم نے کہاکہ اللہ کی قسم اگر میں تجھے ایک زوردار طمانچا ماروں تو یہ لوگ تیرے لیے اس کا بدلہ بھی نہیں لے سکتے۔نعمان نے کہا کہ اللہ کی قسم اگر تونے ایسا کیا تو اس سے تیرے باپ کا بیٹا قیس بھی نہیں بچ سکے گا۔ان باتوں پر عمرو بن ہند کو شدیدغصہ آیا اور وہ بنو تغلب کو بکر پر فوقیت دیتا تھا تو اس نے کہا:اے حارثہ ان سے عورتوں کی بولی میں کوئی ٹیڑھی بات کہو تو اس نے کہا میں یہ کرتا ہوں۔بادشاہ سے نعمان نے کہاکہ اے بادشاہ یہ کام اپنے کسی پسندیدہ قریبی گھر والے کو دیں۔ اس پر عمرو بن ہند نے اس سے کہا کہ کیا تجھے یہ بخوشی منظور ہےکہ میں تیرا باپ ہوں؟اس نے کہا کہ نہیں لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ تو میری ماں ہو جس پر عمرو بن ہند کو سخت ترین غصہ آگیا یہاں تک کہ اس نے نعمان کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا کہ اتنے میں حارث بن حلزہ کھڑا ہواجو بنو کنانہ بن یشکر کا ایک فرد تھا پھر اس نے وہیں فی البدیہہ اپنا مشہور قصیدہ کہا ۔۔۔عمرو بن ہند شریر تھا اور کسی کی تکلیف وپریشانی کو نہیں دیکھتا تھا اور حارث اس وقت پردوں کے پرے اس قصیدہ کو کہہ رہا تھا پھر جب اس نے قصیدہ کہنا شروع کیا تو عمرو نے اسے اپنے قریب کیا یہاں تک کہ اکیلے میں بٹھالیا۔

یعنی حارث کے اس قصیدہ کی وجہ بنو تغلب و بنو بکر کے مابین ہونے والی ایک رنجش تھی اور پھر جب اس نے بادشاہ کے کہنے پر قصیدہ کہہ لیا تو بادشاہ نے اپنے پاس موجود باقی ماندہ مرہون افراد کو انعام کے طور پر اسے دے دیا۔جب یہ قصیدہ کہہ رہا تھا تو شدت غضب کی وجہ سے اس نے اپنے نیزہ پر ہی ٹیک لگارکھی تھی جس حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ويقال إنّه ارتجلها بين يدى عمرو بن هند ارتجالا، فى شىء كان بين بكر وتغلب بعد الصلح...وكان الحارث متوكّئا على عنزة، فارتزّت فى جسده وهو لا يشعر.34
  اور کہا جاتا ہے کہ اس نے عمروبن ہند کے سامنے بنو بکر اور بنو تغلب کی صلح کے بعد کسی نامناسب بات کی وجہ سے اس قصیدہ کو فی البدیہہ کہا تھا۔۔۔جبکہ حارث اس وقت چھوٹے نیزہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھا اور وہ نیز ہ اس کی جسم میں پیوست ہو گیا لیکن اس کو (شدت جذبات کی بنا پر)معلوم نہیں ہوا۔

کتب تاریخ میں منقول دیگر روایات کی طرح ماقبل روایت سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ حارث نے یہ قصیدہ بادشاہ کے حضور خود کہا تھا لیکن ایک روایت کے مطابق پہلے اس نے اپنے برص کے مرض کی وجہ سے بادشاہ کو اپنا قصیدہ لوگوں کے ہاتھوں کہلا بھیجنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے اس کا حق ادا نہیں کیا جس وجہ سے بعد میں اس نے خود ہی یہ قصیدہ بادشاہ کے حضور پیش کیا۔اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب قصائد العشر اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وقال الحارث بن حلزة لقومه: إني قد قلت خُطبة فمن قام بھا ظفر بحجته وفلج على خصمه، فرواها ناسا منھم، فلما قاموا بين يديه لم يرضهم، فحين علم إنه لا يقوم بھا أحد مقامه قال لهم: واللّٰه إني لأكره أن آتي الملك فيكلمني من وراء سبعة ستور، وينضح أثري بالماء إذا انصرفت عنه وذلك لبرص كان به غير أني لا أرى أحدا يقوم بھا مقامي، وأنا محتمل ذلك لكم، فانطلق حتى أتى الملك، فلما نظر إليه عمرو بن كلثوم قال للملك: أهذا يناطقني وهولا يُطيق صدرراحلته؟ فأجابه الملك حتى أفحمه، وأنشد الحارث قصيدته.35
  اور حارث بن حلزہ نے اپنی قوم سےکہا :میں نے ایک ایسا خطبہ یعنی قصیدہ کہا ہے کہ جو شخص بھی اس کو یاد کرلےگا تو اپنی دلیل میں کامیاب اور اپنے مدمقابل پر غالب آجائےگا پھر اس نے ان میں سے بعض اشخاص کو وہ روایت کروادیا۔پھر جب ان لوگو ں نے اس کے سامنے کھڑے ہوکر یہ قصیدہ سنایا تو وہ ان سے مطمئن نہیں ہوسکا۔پس جب اس نے یہ جان لیا کہ کوئی بھی اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتا تو اس نے لوگوں سے کہا:اللہ کی قسم مجھے یہ ناپسند ہےکہ میں بادشاہ کےپاس جاؤں پروہ مجھ سے سات پردوں کے پرے ہوکر بات کرے اور جب میں اس کے پاس سے واپس آؤں تو میرے بقیہ آثار کو پانی سے صاف کرے۔ ایسا سلوک حارث کے برص کی بیماری کی وجہ سے تھا مگر چونکہ میں کسی کو بھی اپنے قائم مقام نہیں دیکھ رہا اور میں ہی اس چیزکی تمہارےلیے ذمہ داری اٹھارہاہوں(تو مجھے جانا پڑےگا)۔پس وہ بادشاہ کے پاس گیا اورپھر جب وہاں اس کوعمرو بن کلثوم نے دیکھاتو بادشاہ سے کہا:کیا یہ شخص مجھ سے بات کرےگا جواپنے کجاوے کی تکلیف تک برداشت نہیں کرسکتا تو اس پر بادشاہ نے اس کو خاموش کروادیااور حارث نے اپنا قصیدہ کہا۔

حارث نے اپنے قصیدہ کو خطبہ اس لیےکہا کیونکہ اس نے وہ فی البدیہہ کہا تھا۔ اسی قصیدہ کے ابتدائی مصرعہ کے بیان سمیت اس کے ایک اور شعر کا تذکرہ کرتے ہوئے صاحب طبقات فحول العرب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وله قصيدة التى أولها:
آذنتنا ببينھا أسماء
رب ثاو يمل منه الثواء
وله شعر سوى هذا.36
  اس کا ایک قصیدہ ہے جس کا ابتدائی مصرعہ یہ ہے:
اسماء نے اپنی جدائی کا ہمیں یقین دلایا کہ
بعض اقامت گزیں ایسے ہوتے ہیں جن سے اقامت بھی اکتاجاتی ہے
حارث کی اس قصیدہ کے علاوہ بھی شعر وشاعری ہے ۔

اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ حارث نے بھری مجلس میں سب کے سامنے جہاں بادشاہ کے ساتھ ساتھ عمرو بن کلثوم بھی موجود تھا اپنا یہ قصیدہ کہا تھا۔اس سے پہلے عمرو بن کلثوم نے اپنا قصیدہ کہا تھا جس میں اس نے اپنے قبیلہ تغلب کی بکر قبیلہ پر فضیلت بیان کرنے کے ساتھ اس پر فخرکا اظہار بھی کیاتھا تو اس کے جواب میں حارث بن حلزہ نے جو بکر قبیلہ کا تھا اپنے دفاع اور قبیلہ کے دفاع میں یہ قصیدہ کہااور قبیلہ تغلب پر قبیلہ بکر کی افضلیت اور برتری ظاہر کی۔37

قصیدہ سے پڑنے والے اثرات

حارث کے اس قصیدہ سے اس کی زندگی پرپڑنے والے اثرات اور ان دونوں کے قصیدوں میں فرق کے متعلق تذکرہ کرتے ہوئے ابوعمروشیبانی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ولا نعرف عن الحارث بن حلزة سوى هذه الحادثة ولولا قصيدته هذه لظل مجهولا وانطوى اسمه شأن أي إنسان ولد في الجاهلية ومات دون أن يخلف أثرا...لو أردنا الموازنة بين قصيدة الحارث وقصيدة عمرو بن كلثوم لرأينا أن قصيدة الحارث فيھا الحكمة والاتزان والعقل أما قصيدة عمرو فهي قصيدة العاطفة والارتجال.38
  ہم حارث بن حلزہ سے متعلق اس قصیدہ والے حادثہ کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔اگر یہ قصیدہ نہ ہوتا تو یہ ایک نامعلوم فرد ہوتا اور اس کانام دور جاہلیت میں پیداہونے والے انسانوں کی طرح بغیر اثر چھوڑے تاریخ میں چھپ جاتا۔۔۔اگر ہم حارث کے قصیدہ اور عمرو بن کلثوم کے قصیدہ کا موازنہ کریں تو ضرور سمجھ جائیں گے کہ حارث کے قصیدہ میں حکمت و توازن اور عقلی باتیں ہیں جبکہ عمرو کا قصیدہ درحقیقت جذباتی اوربدیہی قصیدہ ہے۔

یعنی عمرو بن کلثوم کے قصیدہ کے مقابلہ میں حارث بن حلزہ کا قصیدہ مضامین کے انتخاب کے لحاظ سے اعلی و ارفع ہے اور اس سےپڑنے والے اثرات میں شہرت، قبولیت، اعلی ترین شعراء میں شمولیت اور بنو تغلب پر برتری حاصل کرنے سمیت سب سے اہم اثر یہ ہے کہ اس قصیدہ نےا س کو ناقابل فراموش بنادیا۔

وفات

حارث نے جب اس قصیدہ کو کہا تھا تو اس وقت اس کی عمر کافی زیادہ طویل ہوچکی تھی اور اس عمر کی تفصیل صاحب جواہر الادب نے ایک سو پینتیس (135)سال بتائی ہے39اور پھر یہ اس عمر میں پہنچ کرہجرت نبوی سے پچاس(50) سال قبل فوت ہوگیا جس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے جاحظ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  توفي نحو سنة 50 ق ه.40
  ترجمہ: اس نے ہجرت (نبویﷺ)سے پچاس(50)سال پہلے وفات پائی۔

اس اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرمﷺکی ولادت کے(3)سال بعد پانچ سوچہتر (574)عیسوی میں حارث بن حلزہ فوت ہوا جبکہ اس کی عمرایک سو پینتیس (135)سال تھی۔

ضروری وضاحت

اہل عرب کے سبع معلقات کے شعراء میں پانچ شعراء متفق علیہ ہیں جبکہ دو میں ان کا آپسی اختلاف ہے جس کو واضح کرتے ہوئے ڈاكٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  والعلماء مختلفون في القصائد التي تعد من المعلقات وفي عددها، ولكنھم متفقون على خمس منھا، هي معلقات امرء القيس، وطرفة، وزهير، ولبيد، وعمرو بن كلثوم أما بقيتھا، فمنھم من يعد من بينھا معلقة عنترة والحارث بن حلزة، ومنھم من يدخل فيھا قصيدتي النابغة والأعشى وقد أضاف بعض العلماء القصيدتين اللتين اختارهما المفضل الضبي، وهما قصيدتا النابغة والأعشى، إلى المعلقات السبع التي هي من اختيار حماد، فجعلها تسع معلقات.41
  وہ قصیدےجن کو معلقات میں شمار کیاجاتا ہے، ان کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے لیکن ان میں سے پانچ پر سب متفق ہیں وہ امرؤالقیس، طرفہ، زہیر، لبید اور عمرو بن کلثوم ہیں۔ بہر حال بقیہ میں سے بعض علماء عنترہ اور حارث بن حلزہ کو ان میں شامل کرتے ہیں جبکہ بعض ان میں نابغہ اور اعشی کو شامل کرتے ہیں۔بعض علماء نے حماد کے مختار کردہ سبع معلقات میں ان دو قصیدوں کا بھی اضافہ کیا ہے جنہیں مفضل ضبی نےچنا ہے اور وہ نابغہ و اعشی کے دو قصیدہ ہیں پس انہوں نے ان کو "تسع معلقات" بنادیا ۔

صاحب العمدہ نے اپنی کتاب میں بھی اس بات کو نقل کیا ہے 42اورصاحب جمہرہ نے سبع معلقات میں عنترہ اور حارث بن حلزہ یشکری کے بجائے نابغہ اورعشی کا تذکرہ کیا ہے43 جبکہ اس کے بر عکس شیخ ابو عبداللہ زوزنی نے اپنی سبع معلقات کی شرح میں عنترہ اور حارث بن حلزہ یشکری کو شامل کیا ہے 44جس سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ حارث اور عنترہ سبع معلقات کے شعراء میں شامل تو ہیں لیکن بعض کے اختلاف کے ساتھ البتہ کثیر تعداد نے ان دونوں کو ہی شاملِ معلقات کیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ قبیلہ بنوکنانہ بن یشکر سے تعلق رکھنے والا حارث بن حلزہ یشکری ایک شاعر اور قبیلہ کے معزز ترین افراد میں سے تھا۔ ایک مرتبہ جب اس کے خاندان وقبیلہ پر دیگر مد مقابل قبیلہ بنو تغلب کے شاعر عمرو بن کلثوم نے اپنی مفاخرت و برتری کا اظہار کیاتو ا س نے زندگی میں پہلی بار اعلی ترین فصاحت وبلاغت پر مشتمل ایک منفردقصیدہ نظم کیا جس کے ذریعہ قوم پر فخرو مباہت کے ساتھ ساتھ حکمت و تدبر کی باتیں بھی کی ۔ یہ قصیدہ اہل عرب کے ہاں تو کافی مشہور ومقبول ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ بادشاہ عمرو بن ہند نے باقاعدہ فرمان جاری کروایا کہ اس قصیدہ کو صاف ستھرا ہوئے بغیر کوئی شخص بھی نہیں پڑھےگا۔ اس نےطویل عمر پائی اور نبی کریم ﷺکی ہجرت مدینہ سے پچاس (50)سال قبل یعنی ولادت نبویﷺ کےتین (3)سال بعد اپنی ضعیف العمری میں طبعی موت مرا۔

مذکورہ بالاتفصیلات سے واضح ہوا کہ حارث بن حلزہ کا کہاگیا فقط ایک قصیدہ اس کی زندگی کا اتنا بڑا کارنامہ تھاکہ اس نے عربی ادب میں اپنے نشانات چھوڑ دیے جن سے اس کا تذکرہ عربی ادب میں برقرار رہےگا اور اس کو عرب کے ان نامور شعراء میں باقی رکھے گا جو اہل عرب کے ادب کے چوٹی کے شعراء شمار ہوتے ہیں نیز اس قصیدہ نے اس کو بادشاہ کے قریب ترین مصاحب بنانے سمیت تاریخ میں فراموش ہونے سے بھی بچالیا اور آج بھی یہ عربی ادب کا بہترین نمونہ تصور کیا جاتا ہے۔

 


  • 1 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات: بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 214
  • 2 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزنی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 267
  • 3 احمد بن إبراهيم الهاشمى، جواهر الأدب فى أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 82
  • 4 خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام، ج-2، مطبوعۃ: دار العلم للملایین، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 154
  • 5 ابو عثمان عمرو بن بحر اللیثی الشھیر بالجاحظ، الحیوان، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1424ھ، ص: 447 -448
  • 6 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 193
  • 7 ابو زکریایحییٰ بن علی الشیبانی، شرح قصائدالعشر، مطبوعۃ: ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:251
  • 8 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزنى، شرح المعلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 2002 م، ص: 267
  • 9 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-8، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص:91
  • 10 ابو عبد الله حسين بن أحمد الزّوزنى، شرح المعلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 2002 م، ص: 267
  • 11 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات: بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 352
  • 12 ابوبکر محمد بن الحسن بن دریدالازدی، الاشتقاق، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1991م، ص: 340
  • 13 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات: بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 352
  • 14 ابو عبد اللہ محمد بن سلّام الجمحی، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار المدنی، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:151
  • 15 ابو زکریایحییٰ بن علی الشیبانی، شرح قصائدالعشر، مطبوعۃ: ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 249
  • 16 ابو بکر محمد بن قاسم بن بشار الانباری، شرح القصائد السبع الطوال الجاھلیات، مطبوعۃ: دار المعارف، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:431
  • 17 الدكتورشوقي ضيف، تاريخ الادب العربى، ج-1، مطبوعة: دار المعارف، القاهرة، مصر، 1995م، ص: 139
  • 18 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات، بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 352
  • 19 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 376
  • 20 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات، بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 352
  • 21 ابو عبد الله حسين بن أحمد الزّوزنى، شرح المعلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 2002 م، ص: 267
  • 22 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ:دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 193
  • 23 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-17، مطبوعۃ:دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 109
  • 24 ابو بکر محمد بن قاسم بن بشار الانباری، شرح القصائد السبع الطوال الجاھلیات، مطبوعۃ: دار المعارف، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 370
  • 25 ابو على الحسن بن رشيق القيروانى، العمدة فى محاسن الشعر وآدابه، ج-1، مطبوعة: دار الجيل، بیروت، لبنان، 1981 م، ص: 43
  • 26 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-17، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص:161
  • 27 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 193 -194
  • 28 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-5، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 248 -249
  • 29 احمد بن إبراهيم الهاشمى، جواهر الأدب فى أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 82
  • 30 ابو على الحسن بن رشيق القيروانى، العمدة فى محاسن الشعر وآدابه، ج-1، مطبوعة: دار الجيل، بیروت، لبنان، 1981 م، ص: 43
  • 31 ابو بکر محمد بن قاسم بن بشار الانباری، شرح القصائد السبع الطوال الجاھلیات، مطبوعۃ: دار المعارف، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 370
  • 32 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-5، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 248 -249
  • 33 ابو زکریایحییٰ بن علی الشیبانی، شرح قصائدالعشر، مطبوعۃ: ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 250 -251
  • 34 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 193
  • 35 ابو زکریایحییٰ بن علی الشیبانی، شرح قصائدالعشر، مطبوعۃ: ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ، الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 216 -217
  • 36 ابو عبد اللہ محمد بن سلّام الجمحی، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار المدنی، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:151
  • 37 ابو عثمان عمرو بن بحر اللیثی الشھیر بالجاحظ، البرصان والعرجان والعميان والحولان، مطبوعة: دار الجيل، بيروت، لبنان، 1410ھ، ص: 52
  • 38 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات، بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 352 -353
  • 39 احمد بن إبراهيم الهاشمى، جواهر الأدب فى أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 82
  • 40 ابو عثمان عمرو بن بحر اللیثی الشھیر بالجاحظ، الحیوان، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1424ھ، ص: 447 -448
  • 41 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ:دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 75
  • 42 ابو على الحسن بن رشيق القيروانى، العمدة فى محاسن الشعر وآدابه، ج-1، مطبوعة: دار الجيل، بیروت، لبنان، 1981 م، ص: 96
  • 43 ابو زید محمد بن ابی الخطاب القرشی، جمہرۃ اشعار العرب، مطبوعة: نھضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 347
  • 44 ابو عبد الله حسين بن أحمد الزّوزنى، شرح المعلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 2002 م، ص: 267