Encyclopedia of Muhammad
پیدائش: 530 عیسوی والد: عمرو والدہ: زبیبہ زوجہ: عبلہ بنت مالک کنیت: ابن عمرو قبیلہ: بنی عبس

عنتره بن شداد العبسی

عنترہ بن شداد العبسی كا تعلق اہل نجد سے تھا اور اس کا نسب مضر تک پہنچتا تھا۔1یہ بھی اہل عرب کا ممتاز شخص تھا کیونکہ یہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ سپہ گری میں ممتاز جرنیل اور معرکۂ کار زار کا ہیرو بھی تھا۔2 یہ بھی سبع معلقات کے شعراء میں سے ایک تھا اور فنِ شاعری میں اس کارتبہ اس پائے کا تھا کہ اہل عرب نے ا س کو اپنے بہترین شعراء کے طبقے میں شامل کیا تھا۔3

پیدائش او ر خاندان

اس کی پیدائش کا حتمی سن تو معلوم نہیں البتہ یہ جنگ داحس وغبراء میں شریک ہوا تھا تو اس حساب سے اس کی عمر کا اندازہ لگایاجانا ممکن ہے اور اسی اندازہ کے مطابق اس کے سنِ ولادت کا تذکرہ کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  من السائد لدى المؤرخين أن حرب داحس والغبراء قد انتھت قبل الإسلام بقليل أي قرابة سنة 600 للميلاد، وكانت هذه الحرب قد استغرقت أربعين سنة، لذلك نستطيع أن نجعل ولادة عنترة بحدود سنة 530 لأنه شھد بدء هذه الحرب واشترك فيھا حتى نھايتھا وقد اعتمدنا هذه الفرضية لأنھا تنسجم مع نصوص عديدة وردت عن اجتماع عنترة بعمرو بن معد يكرب ومعاصرته لعروة بن الورد وغيره من شعراء تلك الفترة.4
  مؤرخین کے نزدیک یہ بات مسلّمہ ہے کہ جنگ داحس و غبراء اسلام آنے سے تھوڑا پہلے یعنی قریب کے زمانہ میں چھ سو(600)عیسوی میں ختم ہو گئی تھیں جبکہ یہ جنگیں چالیس(40)سال تک بپارہیں، اسی وجہ سے ہم اس بات کی قدرت رکھتے ہیں کہ عنترہ کی پیدائش سن پانچ سوتیس(530)عیسوی کی حدود میں کردیں کیونکہ اس نے ان جنگوں کی ابتداء کو دیکھا ہےاور پھر ان کے اختتام تک ان میں شریک بھی رہا ہے۔ہم نے اس حساب کا اس لیے اعتبار کیا ہے کیونکہ یہ ان چند نصوص کے ساتھ مرتب ہے جو عنترہ کے عمروبن معدیکرب اور اس کے ہمعصر عروہ بن الورد وغیرہ سمیت اس زمانہ کے شعراء کےساتھ اجتماع پر دلالت کرتی ہیں۔

یعنی عنترہ کی پیدائش کی کوئی حتمی تاریخ تو میسر نہیں لیکن اس حوالہ سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ چھٹی صدی عیسوی میں پیدا ہوا۔

کنیت

عنترہ بن شداد کا ایک لقب ابن عمرو بھی تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی ماں کے لونڈی ہونے کی وجہ سے شروع میں اس کے باپ نے اسے اپنا نام نہیں دیا تھا پھر بعد میں اس کی بسالت وشجاعت اور جنگوں میں اس کی شان وشوکت دیکھ کر اسے اپنا نام دیا تھا جس وجہ سے اس کو ابن عمرو بھی کہا جاتاتھا5جبکہ اس کا دوسر القب فلحاء تھا جس کو بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ويلقب عنترة: بالفلحاء، فيقال: عنترة الفلحاء.6
  عنترہ کو فلحاء کا بھی لقب دیا گیا تھا جس وجہ سے اسے عنترۃ الفلحاء کہا جاتاہے۔

اس فلحاء کا معنی چوڑے منہ والا ہے جس کو بیان کرتے ہوئے صاحب المعجم الوسیط تحریر کرتے ہیں:

  (فلح) فلحا انشقت شفته ويقال فلحت شفته فهو أفلح وهي فلحاء (ج) فلح وقد يقال رجل فلحاء كان عنترة العبسي يلقب الفلحاء قال (وعنترة الفلحاء جاء ملأما...)7
  فلح فلحا کا معنی ہے کہ اس کے ہونٹ پھیل گئے اور (اسی معنی کو تعبیر کرتے ہوئے)کہا جاتا ہے کہ فلحت شفتہ (یعنی اس کے ہونٹ چوڑے ہوگئے )فھوافلح وھی فلحاء (یعنی وہ چوڑے منہ والا مرد ہے اور وہ چوڑے منہ والی عورت ہے)۔فلحاء، فلح کی جمع ہے اور رجل فلحاءکہا جاتا ہے (یعنی چوڑے منہ والا مرد)۔ عنترہ عبسی کو بھی الفلحاء کا لقب دیا گیا تھا اور اس نے ایک شعر میں خود کہا: چوڑے منہ والا عنترہ ملامت کیا ہوا آیا۔

اس کا یہ لقب اس وجہ سے پڑا تھا کیونکہ یہ شکل وصورت میں اپنی ماں پر گیا تھا جس وجہ سے اس کا رنگ کالا اور منہ چوڑا تھا چنانچہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئےڈاکٹر شوقی ضیف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  أما أمه فكانت حبشية يقال لها زبيبة، وقد ورث عنھا سواده، ولذلك كان يعد من أغربة العرب، كما ورث عنھا تشقق شفتيه، ولذلك كان يقال له عنترة الفلحاء.8
  بہر حال اس کی ماں حبشیہ تھی جسے زبیبہ کہا جاتا تھا اور تحقیق عنترہ نے اس سے اپنا کالا رنگ وراثت میں پایا تھا اور اسی وجہ سے اس کو عرب کے غرباء میں شمار کیاجاتا تھا جس طرح اس نے اپنی ماں سے منہ کا چوڑا ہونا وراثت میں پایا تھا۔اسی وجہ سے اس کو عنترۃ الفلحاء کہا جاتا ہے۔

اس کی دوسری کنیت بھی منقو ل ہوئی ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے صاحب بھجۃ المحافل اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وكان عنترة من أشھر فرسان العرب وأشدهم بأسا وكان يقال له عنترة الفوارس.9
  اور عنترہ اہل عرب کے مشہور ترین گھڑ سواروں میں سے ہے اور سخت ترین حملہ آوروں میں سے ہے جسے عنترۃ الفوارس کہتے ہیں (یعنی وہ عنترہ جو بہترین شہہ سوار ہے )۔

اور اس اقتباس سے واضح ہوگیا کہ اس کا تیسرا لقب عنترۃ الفوارس ہے جو اس کی میدان کارزار میں شجاعت و بسالت اور گھڑ سواری پر مہارت کی وجہ سے اسے دیاگیا تھا۔یوں اس کے تین لقب کتبِ تاریخ میں منقول ہوئے۔پہلا ابن عمرو جو اس کے باپ کے شروع میں نام نہ دینے کی وجہ سے پڑا تھا، دوسرا اس کی ماں سے وراثت میں ملے کالے رنگ اور چوڑے منہ کی وجہ سے پڑا تھا اورتیسرا شہہ سواری پر مہارت کی وجہ سے پڑا تھا۔

نسب نامہ

عنترہ بن شداد العبسی کا تعلق قبیلہ مضر کی شاخ عبس سےتھا اور اس کا نسب نامہ مضر تک پہنچتا تھا۔ اس کے نسب نامہ کو بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  هو: عنترة بن شداد بن عمرو بن معاوية بن قراد العبسي من أهل نجد وينتھي نسبه إلى مضر.10
  وہ عنترہ بن شداد بن عمرو بن معاویہ بن قرار العبسی ہے اہل نجد میں سے اور اس کا نسب مضر تک پہنچتا ہے۔

جبکہ اسی نسب نامہ کو اس کی مزید نئی کڑیوں کے ساتھ بیان کرتےہوئے ابو عمرو شیبانی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  هو عنترة بن شداد بن معاوية بن رباح وقيل بن عوف بن مخزوم بن ربيعة بن مالك ابن قطيعة بن عبس.11
  وہ عنترہ بن شداد بن معاویہ بن رباح ہے اور یہ بھی کہاگیا کہ بن عوف بن مخزوم بن ربیعہ بن مالک ابن قطیعہ بن عبس ہے۔

جبکہ عنترہ کے نسب نامہ کوبالکل الگ انداز سے بمع مزید کڑیوں کے بیان کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں یوں تحریر کرتے ہیں:

  هو عنترة بن عمرو بن شدّاد بن عمرو بن قراد بن مخزوم بن عوف ابن مالك بن غالب بن قطيعة بن عبس بن بغيض وقال ابن الكلبى: شدّاد جدّه أبو أبيه، غلب على اسم أبيه فنسب إليه، وإنّما هو عنترة بن عمرو بن شدّاد وقال غيره: شدّاد عمّه، وكان عنترة نشأ فى حجره، فنسب إليه دون أبيه.12
  وہ عنترہ بن عمرو بن شدّاد بن عمرو بن قراد بن مخزوم بن عوف ابن مالک بن غالب بن قطیعہ بن عبس بن بغیض ہے۔ابن الکلبی نے کہا کہ شداد اس کے جد یعنی اس کے دادا کا نام ہے جو اس کے باپ کے نام پر غالب آگیا تھا تواسے اسی کی طرف منسوب کردیا گیا جبکہ در حقیقت وہ تو عنترہ بن عمرو بن شداد ہے۔کلبی کے علاوہ علمائے انساب نے کہا کہ شداد در حقیقت اس کا چچا ہے جس کی گود میں عنترہ پلا بڑھا ہے اور اسی لیے اپنے باپ کے بجائے اپنے چچا شداد کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔

عنتره كے اسی نسب نامہ اور مذکورہ باپ و دادا کے نام کے اختلاف کا تذکرہ صاحب خزانۃ الادب نے اپنی کتاب میں بھی اسی طرح تحریر کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس اختلاف کی وجہ کو بیان بھی کیا ہے چنانچہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب خزانۃ الادب تحریر کرتے ہیں:

  قال الكلبي شداد جده غلب على اسم أبيه وإنما هو عنترة بن عمرو بن شداد وقال غيره شدادعمه تكفله بعد موت أبيه فنسب إليه ويقال إن أباه ادعاه بعد الكبر وذلك أنه كان لأمة سوداء يقال لها زبيبة وكانت العرب في الجاهلية إذا كان لأحدهم ولد من أمة استعبده.13
  کلبی نے کہا ہے کہ شداد در اصل عنترہ کا جد اعلی ہے جو اس کے باپ کے نام پر غالب آگیا تھا، وہ تو عنترہ بن عمرو بن شداد ہے جبکہ کلبی کے علاوہ علمائےانساب نے کہا کہ شداد اس کا چچا تھا جس نے اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس کی کفالت کی تھی اور اس وجہ سے عنترہ کو اس کی طرف منسوب کردیاگیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عنترہ کے باپ نے اس کے جوان ہونے کے بعد اس کو اپنا بیٹا تسلیم کیا تھا(اس سے پہلے نہیں)۔اور یہ اس وجہ سے ہوا تھا کہ یہ عنترہ اس کی حبشی لونڈی کا بیٹا تھا جس کو زبیبہ کہا جاتا تھا اور اہل عرب کا دور جاہلیت میں یہ معمول تھا کہ ان کا اگر کسی لونڈی سے بیٹا پیدا ہوتا تھا تو اسے اپنے سے دور کردیاکرتے تھے۔

یعنی اس کو محبت سے نہیں دیکھتے تھے جبکہ یہ بچہ ان کا اپنا ہی خون ہوتاتھا بلکہ بچےکو اپنے سے دور کردیتے اور اپنے نام سے بھی محروم کردیتے تھے۔ عنترہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا اسی وجہ سے اس کے باپ کے ناموں میں یہ اختلاف منقول ہوا لیکن کلبی کے علاوہ باقی علمائے انساب کا یہ ماننا ہے کہ شداد اس کا چچا تھا اور اپنے باپ کے نام نہ دینے یا اس کے انتقال کے بعد اس کی پرورش کی ذمہ داری اٹھانے کی وجہ سے یہ اپنے چاچا کے نام سے منسوب کردیا گیا تھا۔

والدین اور ان کا قبیلہ

اہل عرب میں یہ رواج موجود تھا کہ قبیلوں کے سردار کثیر باندیاں رکھتے تھے لیکن اگر ا ن سے کوئی اولاد ہوجاتی تھی تواس کو اپنا نام نہیں دیتےتھے اور یہی کچھ عنترہ کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ عنتر ہ کا باپ جس کا اصلی نام عمرو تھا لیکن اپنے دادا کے نام شداد سے مشہور تھا14 وہ قبیلہ بنی عبس کا سردار تھا اوراس کی ماں ایک زبیبہ نامی حبشی لونڈی تھی 15جس وجہ سے عنترہ نے اس کو شروع میں اپنا نام نہیں دیا تھا۔ اس حوالہ سےمزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وقد كان هناك نوعان من النساء: إماء وحرات، وكانت الإماء كثيرات، وكان منھن عاهرات يتخذن الأخدان، وقينات يضربن على المزهر وغيره فى حوانيت الخمارين، كما كان منھن جوار يخدمن الشريفات، وقد يرعين الإبل والأغنام وكن فى منزلة دانية، وكان العرب إذا استولد وهن لم ينسبوا إلى أنفسهم أولادهن، إلا إذا أظهروا بطولة تشرفهم على نحو ما هو معروف عن عنترة بن شداد، فإن أباه لم يلحقه بنسبه إلا بعد أن أظهر شجاعة فائقة ردّت إليه اعتباره.16
  ا ہل عرب کےہاں دو قسموں کی عورتیں ہوا کرتی تھیں، باندیاں اور آزادجبکہ باندیاں بکثرت تھیں۔ ان میں سے کچھ بازاری تھیں جو خفیہ یارانہ رکھتی تھیں، کچھ شراب خانوں میں گانے بجانے والی تھیں جو بڑے دف وغیرہ بجاتی تھیں جیساکہ ان میں بعض باندیاں شریف عورتوں کی خادمائیں تھیں، یہ اونٹ اور بکریاں چراتی تھیں اور نچلے طبقہ میں سے تھیں۔ اہل عرب کے جب ان باندیوں سے بچے پیدا ہوتے تھے تو وہ ان کو اپنا نام نہیں دیتے تھےسوائے اس کے کہ ان کے شایانِ شان کوئی شجاعت و بہادری ظاہر کرتا جیساکہ عنترہ بن شداد کے بارے میں مشہور ومعروف ہے۔پس اس کے باپ نے اس کو (شروع میں تو)اپنے نسب کے ساتھ نہیں ملایا تھامگراس وقت کہ جب اس نے اعلی شجاعت کے تیور دکھائے جس سے اس کے باپ کا اعتبار اس کو دوبارہ حاصل ہوگیا۔

یعنی عنترہ كے والد نے شروع مىں اپنے رسم ورواج کے مطابق اس کی ماں کے باندی ہونے کی وجہ سے اس کواپنا نام نہیں دیا تھا اورجب عنترہ کی پیدائش کی خبر اس کے باپ نے اپنے بچوں کو دی تو بچوں نے سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا اور اپنے ہی باپ کو جلی کٹی بھی سنائیں جس کےبارے میں تذکرہ کرتے ہوئے امام سیوطی شواہد المغنی میں تحریر کرتے ہیں:

  وكان من حديث عنترة أن أمّه كانت أمة حبشية تدعى زبيبة، فوقع عليھا أبوه فأتت به، فقال لأولاده: إن هذا الغلام ولدي قالوا: كذبت أنت شيخ قد خرفت، تدعي أولاد الناس.17
  اور عنترہ کی خبروں میں سے ایک یہ ہےکہ اس کی ماں حبشیہ باندی تھی جس کا نام زبیبہ تھا، عنترہ کے باپ نے اس سے جماع کیاجس سے عنترہ پیدا ہوا تو اس نے اپنی اولاد سے کہا: یہ لڑکا میرا بیٹا ہے تو انہوں نے کہا کہ اے بوڑھے تم نےجھوٹ بولا ہے اور تم، لوگوں کی اولاد کو اپنا نام دے رہے ہو۔

یہی وجہ ہے کہ اس کے نسب میں اختلافات بھی منقول ہیں اور اسی وجہ سے اس نے اپنی مکمل زندگی کسمپرسی کی حالت میں ہی گزاری لیکن پھر اس کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ آیا کہ اس کے باپ نے خود ہی اس کو اپنا نام دیا۔

زندگی کی چند جھلکیاں

شروع میں اس کے والد نے اسے دنیوی امور و مملکت کے معاملات سے دور اپنے اونٹ وغیرہ چرانے کے لئے صحرا٫ میں مختص کر رکھا تھا جس کی وجہ سے یہ اپنے باپ سے نالاں رہتا تھا۔ اس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے صاحب جواہر الادب تحریر کرتے ہیں:

  وكان من عادات العرب ألا تلحق ابن الأمة بنسبھا، بل تجعله فى عداد العبيد ولذلك كان عنترة منوذاً بين عبدانه، يرعى له إبله وخيله فربأ بنفسه عن خصال العبيد... وكان يكره من أبيه استعباده له عدم إلحاقه به.18
  اہل عرب کی عادات میں سے یہ تھا کہ وہ اپنی باندی کے بچے کو اپنے نسب کے ساتھ نہیں ملاتے تھے بلکہ اس کو اپنے غلاموں کی گنتی میں رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے عنترہ اپنے ہی باپ کے غلاموں میں شامل تھا اور غلاموں کی طرح اس کے اونٹوں اورگھوڑوں کو بذات خود چراتاتھا۔ ۔۔نیز اپنے باپ کے دور کرنے اور اپنے نسب میں نہ ملانے کو ناپسند کرتا تھا۔

پھرایک روز ایسا ہوا کہ ایک گروہ نے اس کے قبیلہ عبس پر حملہ کر دیا اور جاتے ہوئے ان کے جانور بھی ہانک کر لے گیاجس وجہ سے اس کے باپ نے اس کو طعن و تشنیع کی اور غیرت دلائی اور کہا عنترہ جوانمردی کا مظاہرہ کرو تم ایک مرد ہو۔ اس واقعہ کےبارے میں بیان کرتے ہوئے ابوعمر شیبانی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  أن بعض أحياء العرب أغاروا على بني عبس فلحقوهم وقاتلوهم وفيھم عنترة فقال له أبوه كر يا عنترة فقال له العبد لا يحسن الكر وإنما يحسن الحلاب والصر فقال كر وأنت حر فكر وقاتل يومئذ فأبلى واستنفذ ما في أيدي القوم من الغنيمة فادعاه أبوه بعد ذلك.19
  بعض عرب کےمحلے والوں نے بنو عبس پر چڑھائی کی اور ان تک پہنچتے ہی انہیں قتل کردیا جس میں عنترہ بھی تھا۔ اس کے باپ نے اس سے کہا کہ اے عنترہ جا حملہ کر تو اس نے کہا کہ غلام حملہ تونہیں کرسکتا وہ تو بس دودھ دوہنا اور مال کی حفاظت بہتر کرسکتا ہے۔پھر اس کے باپ نے کہا کہ جا حملہ کر کیونکہ تو آزاد ہے۔پس اس نے اس دن انتہائی سخت حملہ کیا اور جو بھی اس قوم کے ہاتھوں میں غنیمت تھی وہ سب اس نے چھین لی اور اس واقعہ کے بعد اس کے باپ نے اس کو اپنا نام دیا۔

یعنی عنترہ کا مقصد یہ تھا کہ جوانمردی تو آ زاد لوگوں کا شیوہ ہوا کرتا ہے اور میں تو ایک غلام ہوں لہذا میرا ان سب سے کیا تعلق؟ یہ سن کراس کا باپ اس کے درد کو سمجھ گیا اور فوراًاس نے اپنے بیٹے کو آزاد کردیا اوراسی آزادی کی خوشی میں عنترہ نے ظالم قوم پرزور دار حملہ کیا اور مال غنیمت سب واپس لے آیا۔اسی واقعہ کو مزید تفصیلات کے ساتھ ڈاکٹر جواد علی نے اپنی کتاب میں بھی نقل کیا ہے چنانچہ وہ دیگر جزوی تفصیلات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  وورد فى رواية أن إخوته قالوا له: اذهب فارع الإبل والغنم واحلب وصر فانطلق يرعى وباع منھا ذودا، واشترى بثمنه سيفا ورمحا وترسا ودرعا ومغفرا، ودفنھا فى الرمل وكان له مهر يسقيه ألبان الإبل... وإنه جاء ذات يوم إلى الماء فلم يجد أحدا من الحي، فبھت وتحير حتى هتف به هاتف: أدرك الحي فى موضع كذا، فعمد إلى سلاحه فأخرجه وإلى مهره فأسرج واتبع القوم الذين سبوا أهله فكر عليھم ففرق جمعهم وقتل منھم ثمانية نفر، فقالوا: ما تريد؟ فقال: أريد العجوز السوداء والشيخ الذي معها، يعني أمه وأباه، فردوهما عليه فقال له عمه: يا بني كر، فقال: العبد لا يكر، ولكن يحلب ويصرفأعاد عليه القول ثلاثا وهو يجيبه كذلك قال له: إنك ابن أخي وقد زوجتك ابنتي عبلة فكر عليھم فأنقذه وابنته منھم ثم قال: إنه لقبيح أن أرجع عنكم وجيراني فى أيديكم: فأبوا، فكر عليھم حتى صرع منھم أربعين رجلا قتلى وجرحى فردوا عليه جيرانه فأنشد...20
  ایک روایت میں وارد ہوا کہ عنترہ کے بھائیوں نے اس سے کہا کہ جا کراونٹ اور بکریوں کو چراؤ، ان کا دودھ نکالو اوران کی حفاظت کرو، پس وہ چرانے کےلیے چلا گیا۔ان میں سے چند اونٹ بیچے اور ان کے پیسوں سے تلوار، نیزہ، ترکش، زرہ اورخود خریدا اور ان سب کو مٹی میں دباکر چھپادیا۔اس کا ایک خاص نسلی گھوڑ ابھی تھا جس کو یہ اونٹنیوں کا دودھ پلاتا تھا۔۔۔ایک دن یہ پانی پینے کی جگہ آیا تو بستی کے کسی ایک فردکو بھی نہیں پایا جس سے یہ ہکا بکا اور حیران ہوگیا یہاں تک کہ کسی کہنے والے نہ کہا: فلاں مقام پر جاکربستی کے افراد کو ڈھونڈو۔پس یہ اپنے اسلحے کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں نکالا اور اپنے گھوڑے کی طرف متوجہ ہوا اور اس پر زین ڈالی اور جس قوم نے اس کے اہل وعیال کو قیدی بنایا تھا اس قوم کے پیچھے چل پڑا۔پس ان کی جمعیت کو تتر بتر کیا اور ان میں سے آٹھ ٹکڑیوں کو قتل کرڈالا جس پر انہوں نے عنترہ سےکہا کہ کیا چاہتے ہو؟اس نے کہا کہ میں حبشی بوڑھی اور اس کے ساتھ موجود بوڑھے یعنی اپنے ماں باپ کو لینے آیا ہوں تو قوم نے ان دونوں کو عنترہ کے پاس واپس بھیج دیا۔پھر اس کے چاچا نے اس سے کہا کہ اے میرے بیٹے حملہ کر تواس نے کہا کہ غلام حملہ نہیں کرتے لیکن وہ تودودھ دوہتے اور ریوڑ کی حفاظت کرتےہیں۔اس کے چاچا نے اس سے یہ تین بار کہا اور اس نے ہر بار یہی جواب دیا تو پھرچاچا نے اس سے کہا: تو میرے بھائی کا لڑکا ہے اور میں نے تیرے ساتھ اپنی بیٹی عبلہ کی شادی کردی ہے پھر اس نے ان سب پر حملہ کیا اور چاچا اور اس کی بیٹی کو بھی اس نے چھڑالیا۔پھر اس نے کہا کہ یہ تو انتہائی بری بات ہے کہ میں واپس لوٹ جاؤں جبکہ تمہارے ہاتھ میں میرے پڑوسی قید ہوں تو انہوں نے ان کو واپس کرنے سے منع کردیا جس وجہ سے عنترہ نے ان پر دوبارہ حملہ کیا اور ان کے چالیس مردوں کو قتل وزخمی کردیا پس قوم نے اس کے پڑوسیوں کو بھی اسے واپس کردیا جس پر اس نے اشعار کہے۔۔۔

اس بات پر اس کا باپ اس قدر خوش ہوا کہ اپنی سرداری والی انگھوٹی اس کو انعام کے طور پر دےدی۔ اسی موقع پر جو اس نے اشعار کہے ان کو نقل کرتے ہوئے امام سیوطی اپنی کتاب شواہد المغنی میں تحریر کرتےہیں:

  لمّا رأيت القوم أقبل جمعهم
يتذامرون كررت غير مذمّم
يدعون عنتر والرّماح كأنّھا
أشطان بئر فى لبان الأدهم
ولقد شفى نفسي وأبرأ سقمها
قيل الفوارس: ويك عنتر أقدم.21
  جب میں نے قوم کودیکھا کہ وہ جمع ہوکر حملہ کے لیے آئے ہیں اور ایک دوسرے کو جنگ پر اُکسارہے ہیں تو میں نے ان سب پر برائی کی مخالفت میں حملہ کردیا۔انہوں نے عنترہ کو اور نیزہ کوپکارا گویا کہ وہ نشان زدہ گھوڑوں کے سینوں میں لٹکتی رسیاں ہیں۔تحقیق میں نے مرض سے شفا پائی اور اس کے اثرات سے بری ہوا۔کہا گیا کہ شہہ سوا ر ہے۔ ہلاکت ہو کہ عنتر آرہا ہے۔

یعنی عنترہ نے مذکور ہ بالا واقعہ کی کچھ منظر کشی اپنے مذکورہ بالا اشعار میں کی ہے جس میں اس نے یہ بیان کیا ہے کہ قوم کے ظلم کو دیکھ کر میں نے ان پر حملہ کیا کیونکہ میری قوم نے ہی مجھے حملہ کے لئے پکارا تھااور اس طرح میں نے غلامی کے مرض سے شفا پائی اور ا ن اثرات بد سے خود کو محفوظ کردیا۔

ماہر شہسوار

اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعداس کی شجاعت وبسالت زبان زد عام ہوگئی اور پھراسی وقت سے اس کا شمار عرب کے شہ سواروں اور سرداروں میں ہونے لگا نیز اس نے حرب داحس و غبرامیں بھی خوب خوب دادِ شجاعت دی۔ اس کی شجاعت وبسالت اور اس کی لوگوں میں تشہیر کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے صاحب جواہر الادب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  فاستحلقه أبوه ومن ذلك الوقت ظهر اسمه بين فرسان العرب وساداتھا وطال عمر عنترة حتى ضعف جسمه.22
  پس اس کے والد نے اسے اپنے نسب کے ساتھ ملحق کرلیا اور اسی وقت سے اس کانام عرب کے بڑے شہہ سواروں اور بڑے سرداروں میں مشہور ہوگیا نیز اس نے لمبی عمر پائی یہاں تک کہ اس کا جسم کمزور ہوگیا۔

اسی حوالہ سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی تحریر کرتے ہیں:

  وظنّي أن شھرة عبس فى الشجاعة خاصة من دون القبائل الأخرى إنما وردت إليھا من هذا القصص المروي عن عنترة بن شداد.23
  اور میرا یہ گما ن ہے کہ دیگر عربی قبائل کے مقابلہ میں خاص قبیلہ عبس کی شجاعت وبہادری کی شہرت عنترہ بن شداد عبسی کے نقل کردہ قصوں کی وجہ سے ہی وارد ہوئی ہے۔

مشہور صحابیِ رسول حضرت عمرو بن معدیکرب جو عرب کے نامور پہلوان بھی تھے انہوں نے بھی عنترہ کی بہادری وشجاعت کا لوہا مانا ہے جس کو بیان کرتے ہوئے ابو عمر شیبانی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  كان عمرو بن معد يكرب الزبيدي يقول كنت أجوب الجزيرة العربية لا أخاف إلا من أبيضين وأسودين أما الأبيضان فربيعة بن زيد المكدم وعامر بن الطفيل وأما أسوداها فعنترة والسليك بن السلكة.24
  حضرت عمرو بن معدیکرب فرما تے تھے کہ میں تمام جزیرہ عرب میں بلا خوف و خطر گھوم سکتا ہوں مگر دو گورے اور دو کالے ایسے ہیں جن سے میں بے اعتنائی نہیں برت سکتا اور وہ (دو گورے)ربیعہ بن زید مکدم اورعامر بن طفیل ہیں جبکہ (دوکالے) عنترہ و سلیک بن سلکہ ہیں۔

یعنی حضرت عمرو بن معدیکرب خود بھی عرب کے انتہائی طاقتور ترین فرد تھے لیکن عنترہ بن شداد کو انتہائی طاقتور سمجھتے تھے۔

حرب داحس و غبراء کا جنگجو

مؤرخین عرب کے نزدیک عنترہ مسلمہ طور پر حرب ِداحس و غبراء کا اعلی جنگجو ہے جس کی تفصیل یہ ہےکہ حرب داحس چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں مضری قبیلوں عبس اور ذبیان کے سرداروں قیس بن زہیر عبسی اور حذیفہ بن بدر ذبیانی کے درمیان گھوڑوں کی اس شرط پر مقابلہ کی وجہ سے ہوئی کہ جیتنے والے کو ہارنے والا سو اونٹ دے گا۔قیس نے اپنی داحس وغبراء نامی گھوڑیوں اور حذیفہ نے خطار و حنفاء نامی گھوڑوں کو دوڑایا تھا لیکن حذیفہ نے جھاڑیوں میں اپنے آدمی چھپا دیئے تھے جنہوں نے قیس کی گھوڑیوں کو قمچی ماری یا کوئی ایسی حرکت کی جس سے وہ بدک گئیں۔25اس پر دونوں میں ایسا جھگڑا ہوا کہ جنگ شروع ہوگئی اورقيس نے اس دلآ زاری پر یہ اشعار کہے:

  هم فخرُوا عليَّ بغير فخر
وردُّوا دون غايتِه جوادِى26
  انہوں نے بغیر کسی فخر کے مجھ پر پر فخر کیا اور میرے گھوڑے کو منزل پر پہنچنے سے پہلے ہٹا دیا۔

اسی حرب داحس وغبراء میں عنترہ بن شداد عبسی نے بھی اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور اپنی شجاعت وبسالت کے کئی قصہ تاریخ کے صفحات پر چسپاں کیے۔27اسی حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  وإذا قرأت قصة داحس والغبراء، قرأت قصص شجاعة بطل مغوار أظهر شجاعة فائقة فى هذه الحرب، وكان له فيھا شعر، هو عنترة بن شداد العبسي، وقصص شجاعة عنترة معروفة حتى اليوم، مشهورة، يسمعها الناس بشوق ورغبة.28
  اور جب تو جنگِ داحس و غبراء کا قصہ پڑھے گا تو در حقیقت ایک بہادر، نڈر، اور شدید جنگجو کے واقعات پڑھےگا جس نے ان جنگوں میں اپنی بہادری کی اعلی مثال دکھائی۔ ان جنگوں میں اس کے چند اشعار بھی ہیں اور یہ بہادر عنترہ بن شداد عبسی ہے۔عنترہ کی بہادری کے قصّے آج تک مشہور ومعروف ہیں جنہیں لوگ شوق وذوق سے سنتے ہیں۔

اسی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کرتےہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ولا نغلو إذا قلنا إن أهم فارس احتفظت به ذاكرة العرب فى أجيالهم التالية إلى يومنا الحاضر هو عنترة بن شداد العبسی حتى غدا فى قومه خيرا ممن عمه وخاله من سادتھم.29
  ہم کوئی مبالغہ آرائی نہیں کریں گے اگر یہ کہیں کہ وہ بہترین شہہ سوار جس کو اہل عرب کے تذکرہ نگاروں نے آج کے دن تک آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا تھا و ہ عنترہ بن شداد عبسی ہےیہاں تک کہ یہ اپنی قوم میں اپنے چاچا، ماموں اور دیگر سرداروں سے زیادہ بہتر ہوگیا تھا۔

اور اس واقعہ نے اس کی شجاعت وبسالت کو زبان زد عام کردیا تھااور اسی وجہ سے اس کا تذکرہ عوام میں اتنا زياده مقبول ومعروف ہوگیا تھا کہ اس کی شہرت اس کے چاچا اور ماموں سمیت قبیلہ کے دیگر سرداروں کے مقابلہ میں بھی کافی زیادہ ہوگئی تھی اور لوگ اس کے گروید ہ ہوگئے تھے۔30

شادی

عنتره کی شکل وصورت کیونکہ عام صورتوں سے مختلف تھی یعنی کالا رنگ اور چوڑا منہ تھا اسی وجہ سے اس کی شادی میں رکاوٹ ہونا عام بات تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ یہ تھابھی باندی کا بیٹا۔ اسی وجہ سے عرب معاشرہ میں کوئی اس کو اپنی لڑکی نہیں دینا چاہتا تھا جبکہ اس کے دل میں اس کی چچا زاد عبلہ نے گھر کرلیا تھا اور یہ اس کی محبت میں تڑپتا رہتا تھا۔ شاید ان ہی محرومیوں کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی میں ایک قبیح حرکت سر انجام دی جس کو نقل کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وأن امرأة "شداد" أبي "عنترة" ذكرت لشداد أن عنترة أرادها عن نفسها، فأخذه أبوه فضربه ضرب التلف، فقامت المرأة فألقت نفسها عليه لمارأت ما به من الجراحات، وبكته وكان اسمها: "سمية"، فقال عنترة:
أمن سمية دمع العين مذروف
لو كان منك قبل اليوم معروف.31
  اور عنترہ کے باپ شداد کی بیوی نے ایک مرتبہ شداد سے یہ تذکرہ کیا کہ عنترہ نے اس سے جسمانی خواہش کا تقاضہ کیا تو اس کو اس کے باپ نے پکڑا اور اس کو شدید ترین مار لگائی، پس یہ عورت کھڑی ہوئی اور عنترہ کے زخموں کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنا آپ عنترہ پر ڈالدیا اور خوب روئی۔اس کا نام سمیہ تھا تو عنترہ نے شعرکہا: کیا سمیہ کی آنکھ سے آنسو بہ نکلےہیں کاش کہ یہ تجھ سے پہلے ہوتا تو احسان ہوتا۔

یعنی حالات کی ستم ظریفی اور اپنے حلیہ کی وجہ سے یہ اپنی خواہش کو دبا نہیں سکا اور اس سے یہ قبیح حرکت سرزد ہوئی۔اس کی اپنی من پسند محبوبہ یعنی عبلہ بنت مالک سے محبت اور اس سے شادی کی خواہش کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ہجر میں تڑپنے کا تذکرہ عرب کی درج ِ ذیل تاریخ میں ملتاہے:

  أنه طلب عبلة من عمه مالك فأباھا عليه لسواده، ولأنه ابن أمة، وقد ظل يتغنى بھا طوال حياته تغنى المحب المحروم، وھو تغن نستشف فيه غير قليل من الإحساس بالحزن واليأس.32
  بلاشبہ عنترہ نے اپنے چچا مالک سے عبلہ کا رشتہ طلب کیا لیکن اس نے عنترہ کے کالے رنگ کی وجہ سے منع کردیاا ور اس لیے بھی کہ یہ ایک باندی کا لڑکا تھا۔عنترہ اپنی طویل زندگی میں اسی کے لیے گنگناتا رہا جیسا کہ ایک محروم عاشق گنگناتا ہے۔یہ ایسا گنگنانا تھا جس میں ہم تھوڑی ہی دیر کے لیے غم وناامیدی کے احساس سے محفوظ رہ پاتےہیں۔

لیکن یہ سب چیزیں پہلے کی تھیں پھر اس کی زندگی میں رونما ہونے والے ایک واقعہ نے جس میں اس نے اپنے والدین و خاندان اور قبیلہ کو بچایا تھا اس کی زندگی کو یکسر بدل دیا اور اس کی دیرینہ خواہشیں پوری کردیں یعنی غلامی سے اسے آزادی بھی نصیب ہوگئی اور اپنی من پسند محبوبہ سے شادی بھی ہوگئی۔اس کی من پسند محبوبہ اس کی اپنی ہی چچا زادتھی جس کا نام عبلہ تھا جیساکہ درجِ ذیل اقتباس سے واضح ہوتاہے:

  كان عنترة شاعرا مجيدا فصيح الألفاظ، بين المعاني نبيله... وكان رقيق الشعر لا يؤخذ مأخذ الجاهلية فى ضخامة الألفاظ وخشونة المعاني وكان يھوى ابنة عمه "عبلة بنت مالك بن قراد" فهاجت شاعريته لذلك، وكان كثيرا ما يذكرها فى شعره، وكان أبوها يمنعه من زواجه بھا، فهام بھا حتى اشتد وجده، وقيل: إنه قد تزوجها بعد جهد وعناء.33
  عنترہ بہترین شاعر تھا جس کے الفاظ فصیح اور معانی اپنے مفاہیم سمیت واضح تھے۔۔۔اور یہ اپنے چچا کی بیٹی عبلہ بن مالک بن قراد کو پسند کرتا تھا اور اسی وجہ سے اس کی شاعری میں تحریک تھی نیز یہ اکثر اپنے اشعار میں اس کا ذکر کرتا تھا جبکہ عبلہ کا باپ اس کو اپنی بیٹی سے شادی کرنے سے روکے ہوئےتھا پس یہ عبلہ کے غم میں پڑگیا اور اس کی جدوجہد مزید تیز ہوگئی اور یہ بھی کہا گیا کہ کافی محنت ومشقت کے بعد اس کے چچا نے اس کی شادی عبلہ کے ساتھ کروادی۔

عنترہ کی شادی کے بارےمیں گو مختلف روایات منقول ہیں جو اس کے اثبات و عدمِ اثبات کے بارے میں ہیں 34لیکن اس کا حتمی فیصلہ ابو عبد اللہ زوزونی کی تحریر سے ہوجاتا ہے جس میں وہ عنترہ کی شادی کے بارے میں تذکرہ کرتےہوئے تحریر کرتے ہیں:

  الحديث عن زواج عنترة نراه مقترنا بخبر انتزاعه لحريته حيث نجد عند أبي هلال العسكري خبرا مفاده أن أباه استلحقه يومئذ وزوجه عمه عبلة ابنته كما نجد أن السيوطي أورد خبرا ينقل قول عم عنترة له: إنك ابن أخي وقد زوجتك ابنتي عبلة، كما نجد نصا ثالثا نقله الميداني فى المناسبة ذاتھا على لسان والد عنترة حين قال له: كر وقد زوجتك عبلة، فكر وأبلى ووفى له أبوه بذلك فزوجه عبلة وهذه النصوص تبدو صريحة فى إثبات خبر الزواج.35
  ہم عنترہ کی شادی کی خبر کو اس کے اپنی آزادی کو چھین کر پانے کی خبر کے ساتھ نتھی دیکھتے ہیں۔یہ اس طرح کہ ہم ابو ہلال عسکری کے پاس ایسی خبر پاتے ہیں جس کا مفاد یہ ہےکہ اس کے باپ نے اس دن اس کو اپنے نسب کے ساتھ ملالیا تھا اور اس کے چچا نے اس کی شادی اپنی بیٹی عبلہ سے کردی تھی جیساکہ ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ امام سیوطی نے ایسی خبر کاتذکرہ کیا ہے جو عنترہ کے چچا کا اس کو کہا گیا قول نقل کرتی ہے کہ تو میرے بھائی کا بیٹا ہے اور میں نے اپنی بیٹی عبلہ سے تیری شادی کردی ہے۔جس طرح ہم تیسری دلیل بھی پاتے ہیں جس کو بعینہ میدانی نے مناسبت کے ساتھ عنترہ کے والد کی زبانی نقل کیا ہے کہ جب اس نے عنترہ سے کہا: حملہ کر کہ میں نے تیری شادی عبلہ سے کروادی ہے تو اس نے شدیدترین حملہ کیااور اس (عبلہ)کے باپ نے اپنا کیا گیا وعدہ پورا کرکے عبلہ سے اس کی شادی کروادی۔یہ تمام نصوص عنترہ کی شادی کے اثبات میں صراحتاً واضح ہیں۔

عنترہ کی اپنی محبوبہ عبلہ سے شادی بھی اولاًاس کی خوش قسمتی اور ثانیاً اس کی شجاعت وبہادری کی وجہ سے ہوئی اور اس حسن اتفاق کا سبب وہ قوم بنی جس نے اس کے والدین وخاندان سمیت اس کے قبیلہ کے افراد کو قیدی بنالیا تھااور یہ فقط اپنے والدین کو چھڑانے گیا تھا تو اسی دوران اس کے چاچا نے بھی اس سے اپنے اور اپنی بیٹی کو چھڑانے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے کہا کہ میں تو غلام ہوں اور حملہ آوری آزاد لوگوں کا شیوہ ہے۔ پھر ا س کے چچا نے اس کو اپنی بیٹی عبلہ سے شادی کی پیشکش کی تب جا کر اس نے اپنی طاقت و بہادری کی بنا پراپنےچاچا اور عبلہ سمیت قبیلہ کےباقی ماندہ افراد کو بھی آزاد کروایا اور یوں اس کی اپنی محبوبہ سے شادی کی دیرینہ خواہش مکمل ہوئی۔36

شاعری میں مقام ومرتبہ

عنترہ کے شاعری میں مقام ومرتبہ کا لحاظ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ اہل عرب نے اس کو اپنے چوٹی کے شعراء میں شامل کیا ہے اور اس کے ایک قصیدہ کو معلقات کا حصہ بنا کر اس کی شعرو شاعری میں مہارت کو مسلمہ طور پر تسلیم کیا ہے لیکن ان معلقا ت میں بھی بعض بعض سے اعلی درجہ کے ہیں۔ اس حساب سے اس کے مقام ومرتبہ کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے صاحب جواہر الادب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  والشعراء الجاهليون يقسمون باعتبار شھرتھم في الشعر للإجادة أو للكثرة إلى طبقات كثيرة نذكر منھا ثلاثا...الطبقة الثالثة: عنترة، وعروة بن الورد والنمر بن تولب، ودريد بن الصمة، والمرقش الأكبر.37
  دور جاہلی کے شعراء کو ان کی شعرو شاعری میں شہرت، ندرت و جدت اور کثرت کی بنا پر کئی طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن ہم یہاں ان میں سے (اعلی ترین)تین طبقات کا ذکر کریں گے۔۔۔تیسرا طبقہ وہ ہے جس میں عنترہ، عروہ بن ورد، نمر بن تولب، درید بن صمۃ اور مرقش اکبر شامل ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ عنترہ کا شمار چوٹی کے تین طبقات میں سے تیسرے طبقہ میں ہوتا ہے جس میں عرب کے کئی بڑے دیگر شعراء بھی شامل ہیں۔

فصاحت وبلاغت

اس کی شاعری جنگ کے میدان کا نقشہ کھینچنے، بہادری اور بے جگری سے لڑنے پر اکسانے اور جان جائے پر آن نہ جائے کی زندہ مثال ہے۔38 یہ ان افراد میں سے ہے جن کی بابت نبی ﷺ نے فرمایا:

  ما وصف لى اعرابی فاحببت أن ارادہ الا عنترة.39
  مجھے جتنے بھی بدوی عربوں کے بارے میں بتایا گیا ان میں سوائے عنترہ کے مجھے کسی سے ملنے کا اشتیاق نہ ہوا۔

اس کی شجاعت وبسالت اور اس کی خودداری کی کہانیاں اہل عرب میں کافی مشہور ومعروف تھیں گویا کہ عنترہ شجاعت وبسالت، قوت وطاقت کا استعارہ بن گیا تھا۔اس کے بارےمیں منقول ہےکہ اس نے سوائے اپنے معلقہ والے قصیدہ کے کوئی اور قصیدہ نہیں کہا سوائے اس کے کہ چند اشعار کہہ دیا کرتا تھا چنانچہ اس حوالہ سے ذیلی عبارت سے نشاندہی ہوتی ہے:

  وذكر أنه كان من أشد أهل زمانه وأجودهم بما ملكت يده، وكان لا يقول من الشعر إلا البيتين والثلاثة، حتى سابّه رجل من عبس...فنظمت له قصيدة...وله كأكثر الشعراء أبيات شعر، استحسنھا علماء الشعر، وقالوا إنه أجاد فيھا وأحسن، وما سبق إليه ولم ينازع فيه فى بعض ذلك الشعر.40
  اور ذکرکیا گیا ہےکہ عنترہ اپنے زمانہ کا طاقتور ترین شخص تھا اور اپنے ہاتھ میں موجود مال کا انتہائی سخی ترین شخص بھی نیز اس کی عادت تھی کہ دو یا تین اشعار سے زیادہ نہیں کہا کرتا تھا یہاں تک کہ ایک مرتبہ اس کو قبیلہ عبس کے ایک آدمی نے گالی دی۔ ۔۔جس وجہ سے اس نے ایک قصیدہ کہا۔۔۔اور اس کے دیگر اکثر شعراء کی طرح شعر و شاعری کے مصرعہ ہیں جنہیں علمائے شعر نے اچھا سمجھا ہے۔اس بارے میں انہوں نے کہا کہ ان اشعار میں عنترہ نے ندرت وجدت کو اپنایا ہے اور بہترین طرز سے شعر کہے کہ کوئی اس سے پہلے اس طرف سبقت نہیں لے جاسکا نیز اس کے بعض اشعار میں تو کوئی بھی اس کا مد مقابل نہیں ہے۔

ان تمام مذکورہ تفصیلات سے واضح ہوتا ہےکہ عنترہ کی شعرو شاعری گو کہ دیگر شعراء کے مقابلہ میں تعداد میں کم ہوگی لیکن ان میں ندرت کلام اور جدّت بیان واضح ہے جس طرف اس کے پیش رو سبقت نہیں لے جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے بعض اشعار تو فصاحت وبلاغت سمیت حسن بیان وتہذیب کلام کا ایسا مرقع ہیں کہ کوئی دوسرا شاعر اس کے مد مقابل نہیں آسکتا نیز اس کی شاعری میں قوت وشجاعت اور جنگی بہادری والے کارنامے بھی باکثرت موجود ہیں۔41

قصیدہ معلقہ

عنترہ کی عادت یہی تھی کہ وہ فقط دو یا تین اشعار کہہ کر اپنی بات نظم کردیا کرتا تھا اور کئی لمبے چوڑے قصیدہ نہیں کہتا تھا لیکن ایک مرتبہ اس کو اس کے قبیلہ کے کسی شخص نے گالی دی اور اس كو اس كی ماں کی وجہ سے عار دلائی تو اس نے ایک لمبا قصیدہ کہا جس کو بعد میں معلقات میں شامل کیا گیا جیساکہ درج ذیل عبارت سے معلوم ہوتاہے:

  وكان لا يقول من الشعر إلا البيتين والثلاثة، حتى سابه رجل من عبس، فذكر سواد أمه وأخوته، وعيره بذلك، وبأنه لا يقول الشعر، فاغتاظ منه ورد عليه، وهاجت قريحته فنظمت له قصيدة"هل غادر الشعراء من متردم"وهي أجود شعره.42
  عنترہ دو یا تین اشعار ہی کہا کرتا تھا یہاں تک کہ اس کو ایک عبسی شخص نے گالی دی جس میں اُس نے اِس کی ماں اور خالاؤں کے کالے رنگ کا تذکرہ کیااور اس پر اسے عار دلائی نیز اس پر بھی کہ وہ شعر گوئی میں ماہر نہیں ہے۔اس سے عنترہ کو شدید غصہ آگیا اور اس نے اس گالی کا جواب دیا جس کا طر ززوردار تھا پس اس نے اس آدمی کی وجہ سے ایک قصیدہ نظم کیا جس کا مطلع "هل غادر الشعراء من متردم" ہے اور یہ اس کے اشعار میں چوٹی کے شعروں پر مشتمل ہے۔

اسی حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے صاحب جواہر الادب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  لم يشتھر عنترة أول أمره بشعر غير البيتين والثلاثة، وإنما غلبت عليه الفروسية مكتفياً بھا حتى عيره يوماً بعض قومه بسواده وأنه لا يقول الشعر فاحتج لسواده بخلقه وشجاعته، واحتج لفصاحته بنظم معلقته...أولها
هل غادر الشعراء من متردم
أم هل عرفت الدار بعد توهم
وقد ضمنھا خصاله ومكارم قومه وحسن دفاعه عنھم ووفرة جوده، معرجاً فيھا على أوصاف أمور شتى.43
  عنترہ ابتدائی طور پر اپنی شاعری کے معاملہ میں زیادہ مشہو رنہیں ہوا سوائے دو تین اشعار کے کیونکہ اس پر شہہ سواری غالب تھی اور اس نے اسی پر اکتفا کیا ہوا تھا یہاں تک کہ اس کی قوم کے کسی شخص نے ایک دن اس کو کالا ہونے کی عار دلائی اور اس کی بھی کہ یہ شاعر نہیں ہے تو اس نے اپنے کالے ہونے کا جواب اپنے اخلاق اور بہادری سے دیااور اپنی فصاحت وبلاغت کا جواب مشہور معلقہ کو نظم کرکے دیا۔۔۔ جس کا ابتدائی شعر یہ ہے:کیا شاعروں نے اصلاح کے لائق کوئی پہلو چھوڑا ہے؟ کیا تو پورے یقین سے گھر کا پتا جانتا ہے؟ اور یہ قصیدہ اس کی عادات، اس کی قوم کے اچھے اخلاق کے تذکرہ، ان کی طرف سے ان کا بہترین دفاع کرنے اور اس کی سخاوت کی زیادتی کے تذکرہ پر مشتمل ہے جس میں اس نے دیگر مختلف معاملات کے اوصاف کو بھی اعلی طریقہ سے بیان کیا ہے۔

اس قصیدہ کو ان ہی خوبیوں کے تذکرہ پر مشتمل ہونےکی وجہ سے اہل عرب نے اس کا نام "سونے والی غزل"رکھا ہے جس کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے ابو عمرو شیبانی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ويقول ابن قتيبة إن قصيدته هل غادر الشعراء تسميھا العرب المذهبة.44
  ابن قتیبہ نے کہا کہ عنترہ کے قصیدہ"هل غادر الشعراء"والے قصیدہ کا نام اہل عرب نے "مذہبہ" (یعنی سونے والی غزل )رکھا ہے۔

اس قصیدہ کی دیگر خصوصیات سمیت اس کی فصاحت وبلاغت کے اعلی ہونے کی وجہ سے اہل عرب نے اس کا نام "سونے والی غزل"رکھا ہے کیونکہ اس نظم میں عنترہ نے انتہائی اعلی معیار کا کلام کیاہے نیز اپنی قوم پر مفاخرت وغرور سمیت اپنی زندگی کے نشیب وفراز کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

وفات

عنتره بن شداد كی موت کے بارے میں کئی ایک روایات مختلف طور پر منقول ہوئی ہیں جنہیں مختلف مؤرخین نے اپنی اپنی کتب میں علیحدہ علیحدہ نقل کیا ہے۔ان ہی روایات میں سے ایک روایت کو نقل کرتے ہوئے ڈاکٹر جوا دعلی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وقد وقعت بين عبس وطيء جملة غزوات قضت إحداها على حياة "عنترة بن شداد"، البطل الأسود الشهير أغار عنترة مع قومه على بني نبھان من طىء، وهو شيخ كبير، قد عبثت به يد الدهر، فجعل يرتجز، وهو يطرد طريدة لطيء فانھزمت عبس وأصيب عنترة بجرح قضى عليه.45
  عبس و طئی کے درمیان کئی غزوات واقع ہوئے جن میں سے ایک نے مشہور ونِڈر اور بہادرعنترہ بن شداد کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔عنترہ نے اپنی قوم کے ساتھ مل کر طئی قبیلہ کی شاخ بنو نبہان پر حملہ کیا جس وقت وہ کافی بوڑھا تھا اور اس کے ساتھ زمانہ کے ہاتھوں نے کھیل لیا تھا لہذا یہ رجز پڑنے لگا اور طئی کو دھتکارنے لگا کہ اتنے میں عبس قبیلہ شکست سے دوچار ہوا اور عنترہ کو ایک زخم ایسا پہنچا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

اسی طرح عنترہ کے متعلق دیگر منقول روایات کا تذکرہ کرنے سمیت اس روایت کی مکمل تفصیل بیان کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  اختلف الرواة في نھاية حياة عنترة كما في سائر أخباره، فتعددت الروايات ومنھا أن عنترة خرج فهاجت رائحة من صيف نافخة فأصابت الشيخ فوجدوه ميتا بينھم وكان عنترة قد كبر وعجز كما يبدو من الرواية. ومنھا أيضا أنه أغار على بني نبھان من طىئ فأطرد لهم طريدة، وهو شيخ كبير فجعل يرتجز وهو يطردها ...قال: وكان وزربن جابر النبھاني في فتوة فرماه وقال: خذها وأنا ابن سلمى، فقطع مطاه، فتحامل بالرمية حتى أتى أهله وهو مجروح ومن أخبار وفاته أنه غزا طيئا مع قومه فانھزمت عبس فخر عن فرسه ولم يقدر من الكبر أن يعود فيركب فدخل دغلا وأبصره ربيئة طىء فنزل إليه وهاب أن يأخذه أسيرا فرماه وقتله، ويزعمون أن الذي قتله يلقب بالأسد الرهيص وهو القائل:
أنا الأسد الرهيص قتلت عمرا
وعنترة الفوارس قد قتلت. 46
  عنترہ کی زندگی کے اختتام کے متعلق راویوں نے اختلاف کیا ہے جیساکہ اس کے متعلق دیگر خبروں میں ہے پس اس کی موت کے متعلق بھی روایات مختلف ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہےکہ عنترہ ایک مرتبہ قبیلہ سے باہر نکلا تو انتہائی شدید لُو چلی اوراس کو لگ گئی اور پھر لوگوں نے اپنے درمیان اس کو مردہ پایا کیونکہ عنترہ کافی ضعیف ہوچکا تھا اور عاجز بھی جیساکہ دیگر روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ان ہی میں سے دوسری روایت یہ ہے کہ اس نے قبیلہ طئی کی شاخ بنو نبہان پر حملہ کیا اور ان کو ہانکا جبکہ وہ بوڑھا تھا تو رجز بھی گانے لگا اور انہیں ہانگنے لگا۔۔۔راوی نے کہا کہ وزر بن جابر نبہانی نوجوانوں کی ٹولی میں تھا تو اس نے اس پر تیر چلایا اور کہا کہ لے اس کو پکڑ کہ میں ابن سلمی ہوں جس سے اس کی سواری بھی زخمی ہوگئی۔ پس اس نے تیر کا حملہ برداشت کیا یہاں تک کہ اپنے اہل وعیال کے پاس زخمی حالت میں پہنچا(اور پھر مرگیا)۔ اس کی وفات کی خبروں میں سے تیسری یہ روایت منقو ل ہے کہ اس نے اپنی قوم کے ساتھ مل کر طئی قبیلہ پر حملہ کیا لیکن قبیلہ عبس کو شکست کا سامناہوا اور یہ اپنے گھوڑے سے گرپڑا، بڑھاپے کی وجہ سے واپس لوٹنے پر قادر نہیں ہوسکا تو یہ سوار ہوا اور ملزم کی حیثیت سے داخل ہوا لیکن اس کو طئی قبیلہ کے نگہبان نے دیکھ لیا۔ پھر نگہبان اس کی طرف اترا اور قیدی بنانے کا ارادہ کرتے ہوئے تیر مارا لیکن وہ اس سے مرگیا۔لوگوں نے گمان کیا کہ جس نے اس کو قتل کیا اسے "اسد الرہیص"(یعنی نچوڑدینے والا شیر)کا لقب دیا گیا تھااور اسی نے یہ شعر کہا:
میں ہی وہ نچوڑنے والا شیر ہوں جو (ابن)عمرو کا قاتل ہوں اور میں نے ہی شہہ سوار عنترہ کو قتل کیا ہے۔
بہر کیف روایت کچھ بھی ہو یہ بات طے ہے کہ عنترہ بن شداد نے کافی لمبی عمرپائی اور نبی کریم ﷺ کی بعثت سے کچھ عرصہ قبل ہی اس دنیاکو چھوڑ گیا۔47

خلاصہ یہ ہے کہ عنترہ بن شداد عبسی آنکھ کھولتے ہی اپنے باپ کے نام سے محروم رہا اور اسی وجہ سے دربدری اور ذلت ورسوائی اس کا مقدر بن گئی۔اپنے خاندان کے قریب ترین رشتہ داروں نے بھی اس کو اپنے غلاموں کی طرح مویشیوں کو چرانے اور دیکھ بھال کرنے کے لیے چھوڑدیا لیکن ا س کی شجاعت وبہادری کے کارنامہ نے اس کی زندگی کی مکمل کایہ پلٹ دی۔ اس نے اپنی قوم کو قید کرنے والے افراد کو قتل کرکے اور ان کے مال و اسباب پر قابض ہوکر اپنی غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، محرومیوں سے چھٹکارا پایا، اپنی من پسند محبوبہ سے شادی کی اور اپنےقبیلے میں ایک سردار کی طرح زندگی گزارنے لگا۔ غیرت مندی، شجاعت و فصاحت اور جواں مردی کی وجہ سے اپنی قوم میں ممتاز مقام کا حامل ہوگیا۔ اس کی شجاعت وبہادری کا ڈنکا پورے عرب میں بجتاتھا اور عرب کے بڑے بڑے پہلوان اس سے زور آزمائی کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ زندگی کے کسی موقع پر جب اس کو اپنےرنگ، خاندان اور شعر وشاعری میں ناقص ہونے کا طعنہ ملا تو ا س نےپہلی بار اپنے اخلاق اور قوم پر فخروغرور کے ساتھ اپنی فصاحت وبلاغت پر مشتمل ایک قصیدہ نظم کیا جس میں اتنے منفرد انداز سے مذکورہ اوصاف کا تذکرہ کیاکہ یہ قصیدہ اہل عرب کے ہاں بےحد مقبول ہوا اور عنترہ اسی قصیدہ کی وجہ سے لوگوں کے درمیان مشہور ہوگیا اور آج تک اس کی زبان دانی کا یہ ثبوت آنے والوں کےلیے موجود ہے۔اس نےطویل عمر پائی اور نبی کریم ﷺ کی بعثت سے کچھ قبل ہی اپنی ضعیف العمری میں اپنے دشمن کے ہاتھوں قتل ہوا۔

 


  • 1 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 237
  • 2 احمد بن إبراهيم الهاشمى، جواهر الأدب فى أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 52
  • 3 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات، بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 213-214
  • 4 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 239
  • 5 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، 1995م، ص: 369
  • 6 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 237
  • 7 ایضاً
  • 8 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، 1995م، ص: 369
  • 9 یحییٰ بن ابی بکر العامری، بھجۃ المحافل وبغیۃ الاماثل فی تلخیص المعجزات والسیر والشمائل، ج-2، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 201
  • 10 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 237
  • 11 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات، بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 216
  • 12 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 243
  • 13 عبد القادر بن عمر البغدادی، خزانۃ الادب ولب لباب لسان العرب، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ، مصر، 1997م، ص: 128
  • 14 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 243
  • 15 ابراہیم مصطفی واحمد الزیات وحامد عبد القادرومحمد النجار، المعجم الوسیط، ج-2، مطبوعۃ: دار الدعوۃ، الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 699-700
  • 16 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، 1995م، ص: 72
  • 17 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، شرح شواھد المغنی، ج-1، مطبوعۃ: لجنۃ التراث العربی، بیروت، لبنان، 1966م، ص: 481
  • 18 احمد بن إبراهيم الهاشمى، جواهر الأدب فى أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعہ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 52
  • 19 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات، بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 214
  • 20 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 125-126
  • 21 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، شرح شواھد المغنی، ج-1، مطبوعۃ: لجنۃ التراث العربی، بیروت، لبنان، 1966م، ص:481
  • 22 احمد بن إبراهيم الهاشمى، جواهر الأدب فى أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعہ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 52
  • 23 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-8، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 102
  • 24 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات، بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 214
  • 25 أبو طالب المفضل بن سلمة بن عاصم، الفاخر، مطبوعة: دار إحياء الكتب العربية، بیروت، لبنان، 1380 ھ، ص: 220
  • 26 أبو عمر أحمد بن محمد ابن عبد ربه الأندلسى، العقد الفريد، ج-6، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1404ھ، ص: 18
  • 27 أبو الفضل أحمد بن محمد النيسابورى، مجمع الأمثال، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 110
  • 28 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-10، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 33-34
  • 29 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، 1995م، ص: 369-370
  • 30 ابو عثمان عمرو بن بحر اللیثی الشھیر بالجاحظ، البیان والتبیین، ج-2، مطبوعۃ: دار ومکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان، 1423ھ، ص: 306
  • 31 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-10، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 33-34
  • 32 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، 1995م، ص: 371
  • 33 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 238
  • 34 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر،1995م، ص:371
  • 35 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 241
  • 36 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 125-126
  • 37 احمد بن إبراهيم الهاشمى، جواهر الأدب فى أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 29
  • 38 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 242
  • 39 ابو الفرج علی بن الحسین الاصبهانی، کتاب الآغانی، ج-8، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 250
  • 40 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 126
  • 41 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 242
  • 42 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-18، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 126
  • 43 احمد بن ابراھیم الھاشمی، جواھر الادب فی ادبیات وانشاءلغۃ العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ المعارف، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 52
  • 44 أبو عمرو الشيبانى، شرح المعلقات التسع، مطبوعۃ: مؤسسة الأعلمى للمطبوعات، بيروت، لبنان، 2001 م، ص: 215
  • 45 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-8، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 44
  • 46 ابو عبد اللہ حسین بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 241-242
  • 47 احمد بن إبراهيم الهاشمى، جواهر الأدب فى أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 52