Encyclopedia of Muhammad
پیدائش: 560 عیسوی وفات: 41 ہجری والد: ربیعہ بن مالک والدہ: تامرہ بنت زنباع لقب: ابو عقیل مذہب: اسلام قبیلہ: بنی کلاب عامری وجہ شہرت: عرب کا ممتاز شاعر نمایاں کام: سبع معلقات میں شامل قصیدہ

لبید بن ربیعہ

(حوالہ:علامہ محمد حسیب احمد،ڈاکٹرمفتی عمران خان ، علامہ سید محمد خالد محمود شامی، سیرۃ النبی ﷺ انسائکلوپیڈیا ، جلد -5، مقالہ، 10، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان،2022ء، ص: 455-485)

عرب کے ممتازافراد میں سے ایک شخص لبید بن ربیعہ بھی تھے جو سبعہ معلّقات کے شعراء میں بھی شامل تھے1 اور اہل عرب کے ہاں انہیں قبولیت ِ عامہ بھی حاصل تھی۔اپنی زندگی کے آخری تہائی حصہ میں انہوں نے صاحب اسلام سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی بیعت کر کے اسلام قبول کرلیا تھا اور شرف صحابیت سے سرفراز ہوگئے تھے۔2لبید بن ربیعہ جس طرح دور جاہلی کے شاعر تھے اسی طرح یہ اسلام لانے کےبعد بھی شاعر تھے جس وجہ سے انہیں شعراء کے مخضرمی یعنی دونوں دوروں کے شعر اء میں شامل کیاگیا ہے3 البتہ ان کے زیادہ تر اشعار دور جاہلی کے ہی ہیں کیونکہ انہوں نے اسلام لانے کے بعد یہ مشغلہ تقریباً ختم ہی کردیا تھا۔4

پیدائش اور خاندان

لبیدبن ربیعہ کی پیدائش تقریبا ً پانچ سو ساٹھ(560)عیسوی کے آس پاس کی ہے اور ان کا تعلق قبیلہ بنی کلاب سے تھا جو خاندان بنو جعفر کی شاخ تھی ۔لبید کے خاندان کے چند افراد جن کا لبید سے خونی رشتہ تھا، ایسے بھی تھےجنہوں نے انہیں پالا پوسا بھی تھا5اور وہ اپنے اپنے فن میں ماہر ہونے کی بنا پر مشہور ومعروف تھے۔اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف تحریر کرتے ہیں:

  وقد اشتھر فيھا أبوه ربيعة وأعمامه الطّفيل وأبو برا ومعاوية أما ربيعة فكان بحرا فياضا ... وأما الطفيل فكان فارسا مغوارا وهو أبوعامرالمشهور هوالآخر بفروسيته، وكذلك كان أبو برا شجاعا مقداما وكان يلقّب بملاعب الأسنة، أما معاوية فكان ذا رأى وحكمة، فلقّب بمعوّذ الحكماء.6
  اس خاندان میں لبید کے والد ربیعہ اور اس کے چچا طفیل،ابوبراء اور معاویہ مشہور ترین لوگ ہیں۔۔۔ پس طفیل تو وہ انتہائی تیز رفتار گھوڑ سوار تھا اور یہی مشہور ابو عامر ہے جو گھوڑوں کے امور میں انتہائی ماہر تھا۔اسی طرح ابو براء انتہائی بہادر اور دشمنوں پر سخت گیر تھا اور اس کو " ملاعب الاسنۃ "(یعنی نیزوں سے کھیلنے والا)کا لقب دیا گیا تھا۔معاویہ صائب الرائے اور حکمت والا تھا اور اسے "معوذ الحکماء "(یعنی حکیموں کو پناہ دینے والا)کے لقب سے ملقب کیا گیا تھا ۔

ان کے چاچاابو براء کانام عامر تھا اور لقب " ملاعب الاسنۃ " کیوں دیاگیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابو عبد اللہ الزوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  وعمه أبو بَرَاء عامر بن مالك ملاعب الأَسِنّة، سُمّي بذلك لقول أوس بن حَجَر فيه:
فَلاعَبَ أَطْرَافَ الأَسنَّة عَامِرٌ
فراح له حظُّ الكتيبة أجمع.7
  لبید کے چاچا ابو براء عامر بن مالک " ملاعب الاسنۃ "(یعنی نیزوں سے کھیلنے والا) ہے، ان کا یہ لقب اوس بن حجر (شاعر) کے ان کے بارے میں کہے گئے درج ذیل شعر کی وجہ سے رکھا گیا ہےعامر نیزوں کی انّیوں سے کھیلتا ہے پس اس سے پوری فوج کا (ایک) حصّہ سامنا كرتاہے۔:

یعنی لبید کے خاندان میں شہسواری،بہادری،فیاضی وسخاوت اور شاعری پائی جاتی تھی اور ہر فن کا آدمی اپنے فن کی بلندیوں پر فائز تھا۔

نام ولقب

لبید بن ربیعہ کا ایک اور نام عاصم بھی تھا اور انہوں نے اپنے ان دونوں ناموں یعنی لبید او رعاصم کو ایک شعر میں بیان بھی کیا تھا8البتہ ان کا لقب مختلف کتب میں ایک ہی بیان کیا گیا ہے اور وہ "ابو عقیل"ہے جس کوابن سعد نے اپنی کتاب "الطبقات الکبری " میں،9 ابو عبد اللہ الزوزونی نے"شرح معلقات السبع " میں،10ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب"الاصابۃ " 11میں اور ابو عمر قرطبی نے اپنی کتاب"الاستیعاب "میں بھی نقل کیا ہے.12

نسب نامہ

لبیدبن ربیعہ کا تعلق بنو کلاب عامری کے خاندان سے تھا چنانچہ ان کے نسب کو بیا ن کرتے ہوئے ابو عبد اللہ زوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  هو لبيد بن ربيعةبن مالك بن جعفر بن كِلَاب العامري.13
  وہ لبید بن ربیعہ بن مالک بن جعفر بن کلاب عامری ہے۔

اس نسب میں دو مزید اجداد کو شامل کرتے ہوئے صاحب اسد الغابہ تحریر کرتے ہیں:

  لبید بن ربیعةبن عامر بن مالك بن جعفر بن كلاب بن ربيعة بن صعصعة.14
  لبید بن ربیعہ بن مالک بن جعفر بن کلاب بن ربیعہ بن صعصہ ہے۔

جبکہ صاحب استیعاب نے اسی نسب کو بیان کرتے ہوئے صعصہ سے پہلے ایک اور نام کا اضافہ کیا ہے جس کو نقل کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:

  وهو لبيد بن ربيعة بن عامر بن مالك بن جعفر بن كلاب بن ربيعة بن عامر بن صعصعة.15
  وہ لبید بن ربیعہ بن مالک بن جعفر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصہ ہے۔

جبکہ دیوان لبید کے محقق حمدوطمّاس نے ان کے نسب میں ایک اور جد کو شامل کیا ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:

  صعصعة بن معاوية وينتھي نسبه عند مُضَر.16
  صعصہ بن معاویہ اور لبید کا نسب مضر تک پہنچتا ہے۔

اور صاحب اسد الغابہ نے لبید کا نسب بیان کرنے کے بعد اس خاندان کی باہمی نسبت کو بیان کرتے ہوئے یوں تحریر کیا ہے:

  العامري ثُمَّ الجعفري.17
  یہ (خاندان)عامری ہے پھر جعفری ہے۔

اوراسی طرح ڈاکٹر شوقی ضیف نے اپنی کتاب میں اس خاندانی باہمی تعلق کی وضاحت ان الفاظ میں تحریر کی ہے:

  لبید من عشيرة ذات سيادة وشرف فى بنى كلاب العامريين،هى عشيرة بنى جعفر.18
  لبیدعامریوں کے بنو کلاب میں عظمت و بزرگی والے خاندان سے ہے جو بنو جعفر کا خاندان ہے۔

یعنی لبید کا تعلق اعلی خاندان کے لحاظ سے بنو جعفر سے ہے اور اس خاندان کی شاخ کے اعتبار سے بنو کلاب عامری سے ہے۔

زندگی کی چند جھلکیاں

اہل عرب کے ہاں ابو عقیل لبید بن ربیعہ ایک نامور اور بڑےشاعر کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے 19اور اپنی عمر کے آخری تہائی حصہ میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا جس وجہ سے ان کو شعراء کے مخضرمی طبقہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے والد ان کی کم سنی میں ہی قتل کردیے گئے تھے جس کے بعد ان کی پرورش و کفالت ان کے چچاؤں نے کی تھی۔لبید کی زندگی اور والد کے قتل کے بعد ان کی کفالت کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابوعبداللہ الزوزونی اپنی کتاب میں یوں تحریر کرتے ہیں:

  ولبيد أحد شعراء الجاهلية المعدودين فيھا والمخضرمين ممن أدرك الإسلام، وهو من أشراف الشعراء المجيدين الفرسان القُرَّاء الْمُعَمّرين يقال: إنه عمّر مائة وخمسًا وأربعين سنة... لَمّا قتل والده كان لبيد ما يزال غلامًا صغير السن، فتكفل أعمامه بنو أم البنين بتربيته، وإلى هذه الكفالة يشير بقوله: 20
لعبت على أكتافهم وحجورهم
وليدًا وسَمّوني لبیداوعاصمًا .21
  لبید دور جاہلی کے چند گنے چنے شعراء میں سے ایک ہے اور اس مخضرمی طبقہ کے افراد میں سے بھی ہے جنہوں نے اسلام کو پایا(اور قبول کیا) نیزیہ ان بڑے باعزت شعراء میں سے ہیں جو عظمت ورفعت والے، گھو ڑسوار،خوش آواز اور کافی عمر دراز تھے ۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک سو پچپن(155) سال عمر پائی ۔۔۔جب لبید کے والد قتل کیے گئے تھے تو لبید ابھی کم عمر کا چھوٹا لڑکا ہی تھا پھر اس کی کفالت و تربیت اس کے چچاؤں یعنی بنو ام البنین نے کی جس کفالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود لبید نے یہ اشعار کہے ہیں:
میں لڑکپن میں ان چاچاؤں کے کاندھوں اور گودوں میں کھیلا
اور انہوں نے میرا نام لبید اور عاصم(حمايت كرنے والا) رکھا

مذکورہ ام البنین لبید بن ربیعہ کی دادی ہے جس سے مالک بن جعفر یعنی لبید کے دادانے شادی کی تھی چنانچہ تاریخ میں یوں مقول ہے:

  وأم البنين هذه هي ليلى بنت عمرو بن عامر فارس الضحياء، تزوّجها مالك بن جعفر فولدت له خمسة من الأبناء لا أربعة كما قال لبيد وهم: عامر بن مالك ملاعب الأسنة والطفيل فارس قرزل، وسلمى نزال المضيق، ومعاوية معوّد الحكماء، وربيعة الذي عُرف بلقب ربيعة المقترين، أو ربيع المقترين وهو والد لبيد يفتخر به في شعره، دون أن يعرفه إلا عن طريق الذكريات التي كان يقصها عليه أعمامه وأهله؛ لأن ربيعة قتل، كما ذكرنا سابقًا، ولبيد إذا ذاك صغير السن.22
  یہ ام البنین لیلی بنت عمرو بن عامر فارس الضحیاء(یعنی کڑی دھوپ کا شہ سوار)ہے جس سے مالک بن جعفر نے شادی کی تھی اور جس کے ام البنین سے پانچ بیٹے ہوئے نہ کہ چار جیساکہ لبید نے کہا۔وہ چار بیٹے عامر بن مالک"ملاعب الاسنۃ" (یعنی نیزوں کی انّیوں سے کھیلنے والا)،طفیل"فار س قرزل "(یعنی قرزل نامی گھوڑے کا شہ سوار)، سلمی "نزال المضیق" (یعنی دوتنگ گھاٹیوں کے درمیان اترنے والا)، معاویہ "معوذ الحکماء " (یعنی حکیموں کو پناہ دینے والا) اور ربیعہ" ربیعۃ المقترین " یا "ربیع المقترین"(یعنی تنگدستوں کی خوشحالی) جو لبید کے والد ہیں اور ان پر لبید اپنے اشعار میں فخر بھی کرتا ہے ماسوا ا س کے کہ لبید اپنے والد کو قصہ کہانیوں کے طریقہ سے پہچانتا ہے جو اس کے چچا اور گھر والے اسے بتاتے تھے کیونکہ ربیعہ لبید کے کم سنی میں ہی قتل کردیے گئے تھے جیساکہ ما قبل میں گزرچکا۔

لبید کی کم سنی میں ان کے والد کے قتل ہوجانے کی وجہ سے اہل عرب کی روایت کے مطابق لبید کے ایک چاچا عامر بن مالک جعفری نے ہی ان کے والد کے قتل کا بدلہ لیا تھا جس کو نقل کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری تحریر کرتے ہیں:

  وأدرك بثأره عامر بن مالك بن جعفر بن كلاب أخوه وذلك أنه قتل قاتله.23
  اور ان کے قتل کا بدلہ عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب ان کے بھائی نے لیا تھا اور وہ یوں کہ لبید کے والد کے قاتل کو اسی نے قتل کیا تھا۔

اسی طرح دیگر چچاؤں نے لبید کی کم سنی میں ان کے والد کے قتل ہوجانے کی وجہ سے ان کی پرورش کی تھی جس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور اس کا ثبوت لبید کے بعد میں کہے گئے مذکورہ بالااشعار ہیں جس میں لبید نے ان کی طرف سے کی گئی کفالت کی تعریف کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے رکھے گئے دونوں ناموں کو بھی برقرار رکھا ہے۔

والدین اور ان کا قبیلہ

لبید کے والد یعنی ربیعہ بن مالک کا تعلق قبیلہ بنو کلاب عامری سے تھا اور انہیں ان کی سخاوت کی بنا پر ایک عظیم لقب سے بھی ملقب کیا گیا تھا جس کو نقل کرتے ہوئے صاحب طبقات فحول الشعراء تحریر کرتے ہیں:

  وكان يقال لأبيه ربيع المقترين لسخائه.24
  اور لبید کے والد کو اس کی سخاوت وفیاضی کی وجہ سے "ربیع المقترین" (یعنی تنگدستوں کی خوشحالی)کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔

اس خوبی کے باوجود ایک قول کے مطابق بنو اسد نے لبید کے والد کو باہمی جنگ وجدال کی وجہ سے قتل کردیا تھا جس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وقد قتلته بنو أسد فى بعض حروبھا مع قومه.25
  اوراس کو بنو اسد نے اس کی قوم سمیت کسی جنگ میں قتل بھی کردیا تھا۔

جبکہ صاحب طبقات فحول الشعراء26نے اپنی کتا ب میں لبیدکے والد کے قاتلوں کے بارے میں دیگر اقوال کو بھی جمع کیا ہے اور اسی طرح ان اقوال کو نقل کرتے ہوئےابو عبد الله الزوزونی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  وقيل: قَتَلَه منقذ بن طريف الأسديّ وقيل: قتله صامت بن الأفقم، من بني الصيداء، قيل: ضربه خالد بن نَضْلَةَ وتَمَّم عليه هذا.27
  اور یہ بھی کہا گیاہے کہ لبید کے والد کو منقذ بن طریف اسدی نے قتل کیا تھا اورایک قول یہ بھی ہے کہ اسے بنو صیداء کے صامت بن الافقم نے قتل کیا تھا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ خالد بن نضلہ نے اسے مارا پیٹا اور پھر اسی نے اس کا کام تمام کردیا۔

لبید اپنی کم سنی میں والد کے قتل کے باوجود اہل عرب کے ہاں قدر ومنزلت کے مقام تک پہنچےجس میں ان کے قریبی رشتہ داروں بالخصوص والدہ کی انتھک کوششیں اور محنتیں شامل ہیں کیونکہ والد کے قتل ہونے کے بعد ان کی پرورش کی اکثر ذمہ داری ان کی والدہ نے پوری کی جس کے نام و نسب کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف تحریر کرتے ہیں:

  وأم لبيد تامرة بنت زنباع العبسية.28
  لبید کی ماں تامرہ بنت زنباع تھی جو عبسیہ (خاندان سے) تھی۔

لبید کی والدہ کے بارے میں جو منقول ہے کہ وہ بنوعبس قبیلہ سے تھیں اس کی مزید وضاحت درجِ ذیل اقتباس سے ہوتی ہے:

  وأم لبيد تامرةبنت زنباع العبسية إحدى بنات جذيمة بن رواحة.29
  لبید کی ماں تامرہ ہے جو زنباع کی بیٹی اور عبسیہ ہے نیز یہ جذیمہ بن رواحہ کی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لبید کا تعلق اپنے والد کی طرف سے تو بنو عامر کی شاخ سےہے جو بنو کلاب پھر بنو جعفر کا خاندان ہے اور اپنی والدہ کی طرف سے ان کا تعلق بنو عبس کے خاندان سے ہے۔30

لبید نے اپنی والدہ کے بارے میں یہ بیان کیا ہے کہ ان کی شادی پہلے کسی اور آدمی سے ہوئی تھی جس سے ان کا ایک بیٹا بھی تھا بھر بعد میں لبید کے والد سے ہوئی جس کی نشاندہی ذیل میں بیان کردہ عبارت سے ہورہی ہے:

  ويذكر لبيد نفسه أنَّ والدته تامرة نشأت يتيمة في حجر الربيع بن زياد، وتزوجت أوَّلًا قيس بن جزء بن خالد بن جعفر فولدت له أربد، ثُمّ خلفه عليھا ربيعة فولدت لبيد وعلى هذا فإن أربد يكون أكبر سنًّا من لبيد وكان أربد يعطف كثيرًا على أخيه الأصغر لبيد وقد أعجب لبيد فيما بعد بفتوة أخيه من إمعانه في الفروسية والكرم إلى إقباله على لذّتَيّ الجاهلية: الخمر والميسر يفتخر لبيد في أرجوزة .31
  خود لبید نے اس بات کا تذکرہ کیاہے کہ ان کی والدہ تامرہ ربیع بن زیاد کی گود میں یتیمی کی حالت میں پروان چڑھی ۔ انہوں نے پہلے قیس بن جزء بن خالد بن جعفر سے شادی کی جس کا اس سے ایک بیٹا اربد پیدا ہوا پھر اس کے بعد ان سے ربیعہ نے شادی کی جس سے لبید پیدا ہوا۔اسی بنا پر کہ اربد لبید سے عمر میں بڑا تھا تو وہ اپنے چھوٹے بھائی لبید پر کافی شفقت ومہربانی کرتا ۔اس سب کے بعد لبید اپنے بھائی کی جواں مردی کے سبب بڑا حیران ہواکہ اس نے لبید کے گھڑ سوار بننے میں مدداور دور جاہلی کی دو لذتوں یعنی شراب اور جوے کی طرف بڑھنے پر اس کی تحسین کی۔لبید نے اپنی ایک رجزیہ نظم میں اس کافخریہ انداز سے ذکر بھی کیا ہے۔

لبید کی والدہ کی پہلی شادی سے پیدا ہوئے بیٹے اربد نےبھی ان کا بہت خیال رکھا اور ان کی زندگی کی تگ ودوڑ میں بھی بڑا بھائی ہونے کا حق ادا کیا۔

جلا وطنی

ايك مرتبہ غنی قبیلہ کے افراد نے بنو ابو بکر بن کلاب کے قبیلہ پر زیادتی کی اور ان میں سے عروہ بن جعفر کے بیٹوں میں سے کسی ایک کو قتل کردیا اور قوم میں جنگ پھوٹ پڑی چنانچہ اس حوالہ سے تاریخ میں یوں مذکور ہے:

  جاورت قبیله غنیّ بنی ابی بکر بن كلاب فتعدّي احد الغنویّین على ابن لعروة بن جعفر فقتله ثم ان منیعاالجعفريّ قتل واحدا من الکلابیّین فاراد ھؤلاءان یبوء القتیل الثانی بالاوّل فابی الجعفریّون ذلک فشبّت الحرب بین الحَیّین وخذل فیھا بنو جعفرفنزلواعلی حکم جوّاب بن عوف سیّد بنی ابی بکربن كلاب فحکم بنفى الجعفریّین عن مواطنھم فھجروھا ولحقوا ببنی الحارث بن كعب فى الیمن واقاموا فیھا سنة وقد غضب لبیدمن حکم جوّاب.32
  قبیلہ غنی قبیلہ بنو ابو بکر بن کلاب کے پڑوس میں رہائش پذیر تھا تو غنی قبیلہ کے افراد میں سے کسی نے عروہ بن جعفر کے ایک بیٹے پر زیادتی کرتے ہوئے اسے قتل کردیا پھرقبیلہ جعفری کے ایک طاقتور شخص نے کلابیوں میں سے کسی ایک کو قتل کیا اور انہوں نے ارادہ کیا کہ یہ دوسرا مقتول پہلے مقتول کے بدلہ میں تسلیم کرلیا جائے لیکن جعفریوں نے اس کا انکار کردیا جس سے دونوں وادیوں میں جنگ مزید بڑھ گئی اور اس میں بنو جعفر کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔پھر یہ لوگ جوّاب بن عوف قبیلہ بنو ابوبکر بن کلاب کے سردار کے پاس تصفیہ کے لیے گئے تو اس نے بنو جعفر کو جلا وطنی کا حکم دے دیا۔بنو جعفر نے اپنے وطن کو چھوڑا اور یمن میں بنو حارث بن کعب سے جاملے اور وہاں ایک سال رہے حالانکہ جوّاب کے اس فیصلہ سے لبید غیض وغضب میں تھا۔

اس غیض وغضب کے اظہار کے لیے اس نے اپنے اشعار میں اس کا ذکر بھی کیا ہے جس کا ایک مصرعہ یہ بھی ہے:

  أبني كلاب كيف تنفى جعفر
وبنو ضبينة حاضرو الأجباب.33
  اے بنو کلاب تم کیسے بنو جعفر کو جلا وطن کرسکتے ہو؟
جبکہ بنو ضبینہ وسیع تر کنوؤں کے پاس موجود ہوں

بنو ضبینہ قبیلہ غنی کی ایک قوم تھی جس کولبید نے اس شعر میں مخاطب کیا تھا۔ذیلی اقتباس سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے:

  من مواقف لبید الاولى مشاركته لقومه بنی جعفر فى الارتحال عن دیارھم قاصدین ارض نجران لان جوّاب بن عوف زعیم بنى ابى بکر بن كلاب حکم علیھم بالنفى وفى ھذہ الحادثة نسمع لبیدا یتھکّم بجوّاب ویسخر من حکمه ویستغرب نفى بنى جعفر.34
  لبید کا پہلا کردار اس کا اپنی قوم بنی جعفر کے ساتھ اپنے شہروں سے ارض نجران کا ارادہ کرتے ہوئے کوچ کرنے میں شریک ہونا ہے کیونکہ جوّاب بن عوف بنو ابوبکر بن کلاب کے سردار نے ان پر جلا وطنی کا فیصلہ کیا تھا اور اس حادثہ میں لبید کو ہم اس حال میں سنتے ہیں کہ وہ جوّاب کو متکبرانہ انداز سے شعر سناتا ہے اور اس کے فیصلے کا مذاق اڑاتا ہے اور بنو جعفر کی جلا وطنی سے نامانوس اور حیرت زدہ ہوتا ہے۔

یعنی لبید چونکہ ایک شاعر کی حیثیت میں ہی اپنی قوم میں جانے پہچانے جاتے تھے تو اس جلا وطنی پر وہ اپنے اشعار میں حیرت اور نامانوسیت کا اظہار کرتےہیں اور ساتھ ہی ساتھ بنو ابو بکر بن کلاب کے سردا ر جوّاب کے فیصلہ کا بھی متکبرانہ انداز سے تمسخر اڑاتے ہیں جو قوم کے شاعر کی بساط ہے۔

شاعری کی ابتداء

لبید بن ربیعہ کے اشعار کہنے کا سبب یہ تھا کہ ان کا ماموں جو عبس کا امیر تھا یعنی ربیعہ بن زیادوہ نعمان بن منذر کے پاس گیا اور بنو عامر کے متعلق غلط قسم کی باتیں کیں جو آگے چل کر لبید کے شعر کہنے کی ابتداء کا سبب بنی۔اس حوالہ سے یوں نقل کیاگیا ہے:

  أن وفدا من قومه على رأسه عمه أبو براء وفد على النعمان بن المنذر، فوجد هناك وفدا من بنى عبس على رأسه الربيع بن زياد، وكان بين العبسيين وبنى عامر قبيلة لبيد عداوة منشؤها أن العامريين قتلوا زهير بن جذيمة سيد بنى عبس فى بعض حروبھم ولم يلبث الوفدان أن اصطدما، وأخذ الربيع يدسّ على العامريين عند النعمان وعرفوا ذلك، فاستشاط لبيد غضبا، ووثب بين يدى النعمان يھجو الربيع برجزمقذع، فانصرف النعمان عن الربيع وأجزل فى إكرامه للعامريين.35
  لبید کی قوم کا وفد جس کا سربراہ اس کا چاچا ابو براء تھا وفد کی صورت میں نعمان بن المنذر کے پاس پہنچاتو اس نے وہاں بنو عبس کا وفد موجود پایا جس کا سربراہ ربیع بن زیاد تھا جبکہ عبسیوں اور لبید کے قبیلہ بنو عامر کے درمیان دشمنی تھی جس کی بنیاد یہ تھی کہ عامریوں نے بنو عبس کے سردارزہیر بن جذیمہ کو اپنی کسی جنگ میں قتل کیا تھا۔کچھ ہی دیر میں دونوں وفد آپس میں جھگڑنے لگے توربیع نے نعمان بن منذر کے سامنے عامریوں کے خلاف سازش کی جس کو انہوں نے بھانپ لیا اور اس وجہ سے لبید کا غصہ سخت ہوگیا اور وہ نعمان کے سامنے ہی کھڑا ہوکر ربیع کی برے اشعار کے ساتھ بے عزتی کرنے لگا ۔پس نعمان نے ربیع سے کنارہ کشی کی اور عامریوں کی عزت وتکریم میں کشادگی سے کام لیا۔

جب پہلی دفعہ بنو عامر کا وفد عامر بن مالک ملاعب الا سنۃ کی قیادت میں نعمان بن منذر کے پاس پہنچا تھاتو اس نے وفد کو اہمیت نہیں دی تھی بلکہ عامریوں کے و فد سے بے رخی برتی تھی۔اس ناروا سلوک سے بنو عامر کو بہت دکھ ہوا تھا اور انہوں نے اس بے رخی کواپنی بے عزتی محسوس کیا تھا پھر جب بعد میں لبید کو اس معاملہ کا علم ہوا تو لبیدنے اپنے لوگوں سے کہا کہ مجھے بھی اپنے معاملے میں شریک کرو قوم کے افراد نے لبید کو چھوٹا سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا 36لیکن بعد میں لبید کے با رہا اصرار کرنے پر ان کی درخواست کو قبول کرلیا گیا تھا جس کی وجہ سے لبید نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ انتقام میں ربیعہ کی ایسی ہجو کہے گا کہ بادشاہ اسے اپنی مجلس سے اٹھا دے گا۔37 اس معاملہ کی مکمل تفصیلات درج ذیل عبارت میں ذکر کی گئی ہیں:

  إنه وفد عامر بن مالك ملاعب الأسنة وكان يكنى: أبا البراء، في رهط من بني جعفر، ومعه لبيد بن ربيعة، ومالك بن جعفر وعامر بن مالك عم لبيد على النعمان ... فلما قدم الجعفريون كانوا يحضرون النعمان لحاتھم فإذا خرجوا من عنده خلا به الربيع فطعن فيھم وذكر معايبھم، وكانت بنو جعفر له أعداءً، فلم يزل بالنعمان حتى صدّه عنھم، فدخلوا عليه يوماً فرأوا منه جفاءً وقد كان يكرمهم ويقربّھم ... فقال لبيد في ذلك:
  نحن بني أم البنين الأربعه
سيوف حَزّ وجفان مترعه
نحن خيار عامر بن صعصعه
الضاربون الهام تحت الخيضعه
والمطعمون الجفنة المدعدعه
مهلاً أبيت اللعن لا تأكل معه
إن استه من برص ملمعّه
وإنه يدخل فيه إصبعه
يدخلها حتى يواري أشجعه
كأنه يطلب شيئاً ضيّعه
فرفع النعمان يده من الطعام، وقال: خَبَّثت واللّٰه عليّ طعامي يا غلام، وما رأيت كاليوم. فأقبل الربيع على النعمان، فقال: كذب واللّٰه ابن الفاعلة، ولقد فعلت بأمّه كذا وكذا.فقال له لبيد: مثلك فعل ذلك بربيبة أهله والقريبة من أهله، وإن أمي من نساء لم يكنّ فواعل ما ذكرت. وقضى النعمان حوائج الجعفريين، ومضى من وقته وصرفهم، ومضى الربيع بن زياد إلى منزله من وقته، فبعث إليه النعمان بضعف ما كان يحبوه، وأمره بالانصراف إلى أهله فكتب إليه الربيع: إني قد عرفت أنه قد وقع في صدرك ما قال لبيد، وإني لست بارحاً حتى تبعث إلىّ من يجرّدني فيعلم من حَضَرك من الناس أنني لست كما قال لبيد. فأرسل إليه: إنك لست صانعاً بانتفائك مما قال لبيد شيئاً ولا قادراً على ردّ ما زلّت به الألسن، فالحق بأهلك.38
  معاملہ یہ ہےکہ عامر بن مالک ملاعب الاسنۃ جس کی کنیت ابو براء ہے کا وفد بنو جعفر کے نو دس افراد کی جماعت کی صورت میں جس میں لبید بن ربیعہ، مالک بن جعفر اور لبید کا چاچاعامر بن مالک تھے نعمان کے پاس پہنچے تو انہوں نے نعمان کے پاس ربیع بن زیاد العبسی اور اس کی ماں فاطمہ بنت خرشب کو حاضر پایا۔ربیع، نعمان کےشامی تاجروں میں سے ایک تاجر کے ساتھ ہمنشین تھا جس کا نام زرجون بن توفیل تھا اور وہ نعمان کا حریف تھا جو اس کی بیعت کرنے کے لئے حاضر تھا اور ساتھ ہی ساتھ ادیب اور بہترین بات کرنے والا قصہ گو بھی تھا تو نعمان نے اس سے تنہائی چاہی۔جب نعمان کا ارادہ تنہائی میں شراب پینے کا ہوتا تھا تو زرجون کی طرف،اپنے معاملہ فہم متطبب اور ربیع بن زیاد کی طرف پیغام بھیج دیتا تھا اور ان کے ساتھ تنہائی میں چلا جاتا تھا۔پس جب جعفری آئے تو انہوں نے اپنی حاجتیں نعمان کے سامنے پیش کیں پھر جب وہ وہاں سے نکلے اور ربیع نعمان کے پاس اکیلا رہ گیا تو اس نےبنو جعفر کی پیٹ پیچھے ان کی برائی کی اور ان کے عیوب کو بیان کیا کیونکہ بنو جعفر اس کے دشمن تھے سو وہ ان کی برائی کرتا رہا یہاں تک کہ نعمان کو ان کی ملاقات سے روک دیا۔ایک دن بنو جعفر نعمان کے پاس گئے تو انہوں نے وہاں اس کی بے اعتنائی کو محسوس کرلیا اور وہاں سے شدید غصہ کی حالت میں باہر نکلے جبکہ لبید ان دنوں ان سب کے کجاووں اور ان کے سازو سامان کی حفاظت کے لیے پیچھے ٹھہر تا تھا اور روزانہ صبح ان کے اونٹوں کو چرایا کرتا تھا۔پس ایک رات لبید ان کے پاس آیا جبکہ وہ ربیع کے معاملہ پرہی گفتگو کررہے تھے لہذالبید نے اس کے بارے میں ان لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے لبید سے یہ معاملہ چھپایا جس پر لبید نے ان سے کہا:اللہ کی قسم نہ میں تمہارے سازوسامان کی حفاظت کروں گا اور نہ ہی تمہارے اونٹوں کو چراؤں گامگر یہ کہ تم مجھے اس معاملہ کی خبر دو جس میں تم گفتگو کررہے تھے۔لبید کی ماں یتیمی کی حالت میں ربیع کی گود میں ہی پروان چڑھی تھی تو انہوں نے کہا:تمہارا ماموں ہم پر بادشاہ کے خلاف غالب آگیا ہے اور اس نے بادشاہ کا چہرہ ہم سے پھیردیا ہے تو لبید نے کہاکہ کیا تم اس بات پر قادر ہو کہ مجھے اور اسے ایک مجلس میں جمع کردو تا کہ میں تمہاری طرف سے اس کو انتہائی گھٹیا کلام سے زجر وتوبیخ کردوں کہ نعمان ہمیشہ کے لیے اس کی طرف کبھی متوجہ ہی نہ ہو تو انہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس ایسا کلام موجود ہے۔لبید نے جواب دیا کہ ہاں تو انہوں نے کہاکہ پھر ہم تمہاراامتحان لیں گے ۔ لبید نے کہا وہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ کیا تم اس بُوٹی کی برائی کرسکتے ہو؟تو لبید نے برائی کرنا شروع کی:
"اس تربہ (بُوٹی) سے نہ تو آگ جل سکتی ہے، نہ وہ گھر میں لگائی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی پڑوسی کوخوش کر سکتی ہے، اس کی لکڑی کمزور ہے، اس کی شاخیں چھوٹی ہیں اوراس کا فائدہ کم ہے، چراگاہ میں سب سے گھٹیا چارا ہے،سب سے کمزور شاخ والی ہے اور نگلنے میں شدید تکلیف دہ ہے، اس کے اگنے کا شہر بہت بعید ہے،اس کو کھانے والا بھوکا رہتا ہے اور اس پر ٹھہرنے والا تنگدست ہے پس انہوں نے مجھےزمین پر ڈال دیااے عبس کے بھائی جس کو میں تیری طرف سے برائی کے طور پر واپس کرتا ہوں اور اس کوچھوڑدے جس کا معاملہ خلط ملط ہو"۔لوگوں نے کہا کہ ہم صبح تیرے معاملہ میں مزید سوچ بچار کریں گےتو عامر نے کہا: اس اپنے لڑکے کی طرف دیکھو جوربیع کی برائی کا ارادہ رکھتا ہے پس اگر تم نےاس کو سوتا ہوا دیکھا تویہ معاملہ کچھ بھی نہیں(یعنی اسے لے جانا ضروری نہیں اور ) اس نے تو صرف وہی کلام کیا ہے جو اس کی زبان پر جاری ہوگیا،اگر تم اس کو رات جاگتا ہوا پاؤ تو پھر یہ اس(ربیع کے مقابلہ) کا ساتھی ہے(یعنی پھر چلے گا)۔قوم نے ایک نظر اسے دیکھا تو انہوں نے پایا کہ وہ اپنے کجاوے پر سوا رہوچکا تھا اور اس کے درمیان کو(سواری کے لیے)کشادہ کررہا تھا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم تو اس (ربیع کے مقابلہ )کا ساتھی ہےپس انہوں نے اس کو سہارا دیا اور اس کا سر منڈوادیا اوراس کے بالوں کا گچھا چھوڑدیا۔اس کو قیمتی جبہ پہنایا پھر لبید نےان کے ساتھ ناشتہ کیا اور پھر نعمان کے پاس اس کو لے گئے۔انہوں نے نعمان کو ناشتہ کرتے ہوئےپایا اور اس کے ساتھ ربیع بن زیاد بھی تھا جو دونوں مل کر ناشتہ کررہے تھے اور ان کے ساتھ کوئی تیسرا نہیں تھا جبکہ محل اور مجلسیں وفود سے بھری ہوئی تھیں۔ پس جب نعمان ناشتہ سے فارغ ہوا تو اس نے جعفریوں کو اجازت دی اور وہ اس کے پاس حاضر ہوئے اور تحقیق ان کا معاملہ انتہائی قربت والا تھا تو انہوں نے نعمان کے سامنے اپنی حاجت پیش کی جس پر ربیع نے ان کے کلام کے دوران ہی اعتراض کردیا پس لبید نے اس معاملہ کو دیکھتے ہوئے یہ اشعار کہے:
ہم ام البنین کے چار بیٹے ہیں، تیزدھاری تلوار اور(مال سے) بهرے ہوئے بادیہ (نشیں)ہیں۔عامر بن صعصعہ کی اولاد میں سے بہترین ہیں جوکھوپڑیوں کو جنگ کے شور میں اڑاتے ہیں اوربھرے پیالہ میں کھانے والے ہیں۔ اے بادشاہ آپ سلامت رہیں !رہنے دیں اس(ربیع) کے ساتھ نا کھائیں کہ اس کی سُرین بَرص(کوڑھ) سے بھری ہوئی ہے اور یہ اس میں اپنی انگلی بھی ڈالتا ہےحتیٰ کہ اس کی ہتھیلی کی رگیں نظر آنے لگتی ہیں گویا کہ یہ کسی رذیل چیز کو تلاش کرتا ہے۔
پس یہ سن کر نعمان نے اپنا ہاتھ کھانے سے کھینچ لیا اور (تہنیداً)کہا کہ واللہ تونے بڑی خباثت کی باتیں کی لہذا اے لڑکے مجھ پر تیرے ساتھ کھانا کھانا لازم ہے اور آج کے دن جیسا معاملہ میں نے پہلے نہیں دیکھا۔یہ سن کر ربیع نعمان کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے کہا:واللہ حرامزادے نے جھوٹ بکا ہے حالانکہ میں نے تو اس کی ماں کے ساتھ ایسا ویسا (برا فعل)بھی کیا ہے۔پھر لبید نے ربیع سے کہا تجھ جیسا بےغیرت ہی یہ کام اپنے گھر والوں کی زیر کفالت قرابت داریتیم کے ساتھ کرسکتا ہے جبکہ میری ماں گندی عورتوں میں سے نہیں ہے جو تو بک رہا ہے۔نعمان نے جعفریوں کی طلب کو پورا کیا اور اپنا کافی وقت ان کے ساتھ گزار کر وہ ان سے واپس ہوا جبکہ ربیع بن زیاد اسی وقت اپنے گھر چلا گیا تھا تو نعمان نے اس کی طرف اپنے تحائف کو جتنا وہ اسے دیا کرتا تھا مزید دگنا کرکے بھیجا اور اسے اپنے گھر والوں کے پاس چلے جانے کا حکم دیا جس کے جواب میں ربیع نے اسے لکھا کہ میں یہ جان چکا ہوں کہ تمہارے دل میں میرے لیے میل آچکا ہے جیساکہ لبید نے کہا اور بلا شبہ میں اس وقت تک کوچ نہیں کرونگا یہاں تک کہ تو میرے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بھیجے جو مجھے برہنہ کرکے دیکھے اور تیرے پاس موجود حاضرین کو بتائے کہ میں ویسا نہیں ہوں جیساکہ لبید نے کہا تھا۔ نعمان نے اس کو جواب بھجوایا کہ جو تیرے بارے میں لبیدنے کہدیا اسے تو ختم نہیں کرسکتا اور جو زبانوں پر جاری ہوگیا ہے اسے تو رد بھی نہیں کرسکتا لہذا اپنےگھر والوں کے پاس واپس چلا جا۔

یعنی یہ معاملہ لبید کی زندگی میں ان کی شاعری صلاحیت کے اظہار کا پہلا موقع تھا جس کے بعد ان کی شہرت مزید پھیلتی چلی گئی جس کی مزیدوضاحت درجِ ذیل اقتباس سے ہوتی ہے:

  قد نشأ لبيد يشعر شعورا عميقا بكرامة أسرته وأمجادها ومناقبه ... وبمجرد أن شبّ أخذ يشترك فى حروبھا وغاراتھا ووفادتھا على أمراء الحيرة .39
  تحقیق لبید نےشروع ہی سے ایسے اشعار کہےجو اس کے خاندان کی عظمت کی گہرائی اور اس کی بزرگی ومناقب پر مشتمل تھےاور محض جوان ہوتے ہی یہ اپنی قوم کی جنگوں میں، دشمنوں پر حملہ آور ہونے میں اورحیرہ کے امراء کے پاس وفد کے ساتھ جانے میں شریک ہونا شروع ہوگیا تھا۔

اسی وجہ سے یہ اپنی قوم میں بھی نمایاں مقام کے حامل ہوگئے اور قبیلہ کے اہم ترین معاملا ت میں بھی ان کی رائے کا احترام کیا جانے لگا ۔اس کی مثال لبیدکی زندگی میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے جس میں لبید کی شاعری کی وجہ سے ہی قبیلہ میں منافرت پیدا ہوتے ہوتے رہ گئی اور وہ واقعہ درجِ ذیل ہے:

  ويقال ان بني عامر اقاموا في منفاهم حولا ويدل شعر لبيد علي ان بعض المشكلات في ذلك المنفي كادت تفرق بينهم وانه كان له الفضل في توحيد الكلمة قال:
ويوم منعت الحي ان يتفرّقوا
بنجران فقري ذلك اليوم فاقر
وكان زعيم الجفريّين في ايّام المنفي هو عم لبيد ابو براء عامر بن مالك ملاعب الاسنة وقد ابي هذا الزعيم ان يقبل بمصاهرة بني الحارث بن كعب وامر قومه بلبس السلاحور كعب الخيل ثم قال لهم سيروا حتي تقطعوا ثنية القهر وهي ثنية باليمن فاذا قطعتموها فانزلوا ففعلوا ما امرهم به ثم لحق بهم عند الثنية وقال لهم هل اخذت لكم دية او ابتكم علي خسف قطّ؟ قالوا لا قال واللّٰه لتطيعنّني او لاتكئن علي سيفي حتي يخرج من ظهري اتدرون ما اراد القوم؟ ارادوا ان يرتبطوكم فتكونوا فيهم اذنابا ويستعينوا بكم علي العرب وانتم سادة هوازن ورؤساؤهم ونصحهم ابو براء بالعودة الي اوطانهم ومصالحة اقربائهم فعادوا ونزلوا علي حكم جوّاب وفي هذه المرّة كانت نفس لبيد قد هدأت نحو جواب ولم يشأ وهو ابن القبيلة ان يخرج علي روح الصلح والوئام واخذ يتحدث الي بني ابي بكر بان المحافظة علي علاقات الود والقربيٰ اجدي علي الفريقين من الخصام.40
  اور کہا جاتا ہے کہ بنی عامر اپنی جلا وطنی میں مکمل ایک سال رہے اور لبید کا شعر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس جلا وطنی میں بعض ایسی مشکلات بھی پیش آئیں جن سے قریب تھا کہ ان لوگوں کے درمیان پھوٹ پڑجاتی لیکن درحقیقت لبید کوکلام کے خالص کرنے میں انتہائی عبور حاصل تھا(جس وجہ سے ایسا نہ ہوا)توانہوں نے ان حالات میں یہ شعر کہا:
اور وہ دن جب میں نے دونوں وادی والوں کو نجران میں
جدا ہونے سے روکا اس دن میرا کام واقعی کافی مشکل تھا
جلا وطنی کے ایام میں جعفریوں کا سردار لبید کا چاچا ابو براء عامر بن مالک ملاعب الاسنۃ(یعنی نیزوں کی انّیوں سے کھیلنے والا)تھاجس نے بنو حارث بن كعب كے ساتھ ازدواجی رشتہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنی قوم کو مسلح ہونے اور گھوڑوں پر سوا رہونے کا حکم دے دیا ۔پھر ان سے کہا کہ چلو یہاں تک کہ یمن کے مقام ثنیۃ القہر تک پہنچ جاؤ اور جب اس کو عبور کرلو تو پڑاؤ کرنا۔انہوں نے ایسا ہی کیاجیسا انہیں حکم ملا تھا پھر ثنیہ کے پاس سردار ان سے آملا اور ان سے کہا کہ کیا میں نے کبھی تمہارے(انتقام کے) بدلے دیت لی ہے یا کبھی تم پر ظلم کرتے ہوئے تمہیں قتل کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔سردار نے کہا کہ پھر تم واللہ میری اطاعت کروگے یا میں اپنی تلوار پر ٹیک لگاتا ہوں یہاں تک کہ وہ میری پیٹھ سے نکل جائے۔ کیا تم جانتے ہو کہ قوم نے کیا ارادہ کر رکھا ہے؟ انہوں نے ارادہ کیا ہواہے کہ وہ پہلے تم سے رشتہ داری جوڑیں تاکہ تم ان میں گھل مل کر ان کے تابع ہوجاؤ او ر وہ تمہارے ذریعہ سے تمام عرب سے مدد مانگیں حالانکہ تم قبیلہ ہوازن کے سردار اور ان کے سربراہ ہو۔ابو براءنے انہیں اپنے وطن واپس لوٹنے اور اپنے قریبی رشتہ داروں سے مصالحت کی نصیحت کی ۔پس لوگ واپس لوٹے اورجوّاب کے ماقبل فیصلہ ہی کے مطابق کام کیا۔اس دفعہ خود لبید کا دل بھی جوّاب کی طرف سے نرم پڑگیااور وہ قبیلہ کا ہر دلعزیز بیٹا ہونے کے باوجود بھی صلح اور اتفاق کی راحت کے خلاف جانا نہیں چاہتا تھا بجائے اس کے بنو ابو بکر سے وہ یہ بات کرنے لگا کہ محبت و قربت کے تعلق کی حفاظت کرنا دونوں قوموں کے لیے لڑنے سے بہتر ہے۔

یوں لبید نے اسی مفہوم کو اپنے اشعار میں بیان کیا اور اپنی قوم کے افراد کو جنگ جیسی مشکل و پریشانی سے نجات حاصل کرنے کی ترغیب دے کر اپنی اصابت رائے کا ثبوت دیا نیز یہ بھی ثابت کیا کہ اب وہ اپنی قوم میں ایسے مقام کا حامل ہے جو سرداروں اور سربراہوں کے شایان شان ہے۔

شاعری میں مقام ومرتبہ

لبید بچپن سے ہی شعر وشاعری کا شغف رکھنے والےتھے گو کہ اس حوالہ سے کوئی تاریخی ثبوت میسر نہیں ہے لیکن قوم کے امتحان لینے پر انتہائی سرعت کے ساتھ سامنے پڑی گھانس کی برائی کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شعر وشاعری کا شغف لبید کو شروع سے ہی رہا ہوگا اور اس کی ایک وجہ خاندانی مفاخرت بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ شعر وشاعری کی ابتداء میں ہی انہوں نے اپنے خاندان کی مفاخرت بیان کرنے کے لیے نظمیں کہنا شروع کردی تھیں جیساکہ اس حوالہ سے تاریخ میں یوں مذکور ہے:

  فإن لبيدا أخذ منذ سال الشعر على لسانه ينظمه فى الفخر بعشيرته والاعتداد بھا اعتدادا بالغا.41
  پس لبید اپنے خاندانی مفاخرت کے حوالہ سے تب سے نظمیں کہنا شروع ہوگیا جب سے اس کی زبان پر شعر جاری ہوگئے اور وہ اس کا حد درجہ اہتمام کرنے لگا۔

اور تو اور ان کی شاعری میں حد درجہ کما ل کا ثبوت یہ بھی ہے کہ ا ن کو شعراء کے اعلی درجہ میں شامل کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ان کے کہے گئے معلقہ کو اصحاب فن نے سبع معلقات میں شامل کیا ہے42 نیز اس حوالہ سے صاحب استیعاب یوں تحریر کرتے ہیں:

  لبيد بن ربيعة، وعلقمة بن علاثة العامريان، من المؤلفة قلوبھم، وهو معدود في فحول الشعراء المجودين المطبوعين.43
  لبید بن ربیعہ اور علقمہ بن علاثہ جو دونوں عامری ہیں ، مؤلفہ قلوب میں سے ہیں اور لبید تو شعراء کے اعلی طبقہ میں سےہے جو جدت کلام اور لوگوں کا ہر دلعزیز شاعر ہے۔

اسی حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب الاعلام اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  لَبِيد بن ربيعة بن مالك، أبو عقيل العامري: أحد الشعراء الفرسان الأشراف في الجاهلية من اھل عالیه نجد.44
  ابو عقیل لبید بن ربیعہ بن مالک العامری دور جاہلی کے شہہ سوار ومعزز ترین شعراء میں سے ہے جن کا تعلق نجد کے بالائی علاقہ سے ہے۔

ان کی شاعری میں کمال کا یہ عالم تھا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ نے ان کے کئی اشعار یاد کیے ہوئے تھے اور ایک موقع پر تو آپ نے ان کے ایک شعر کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے لیے رحمتِ خداوندی کی دعا بھی کی چنانچہ ذیلی اقتباس سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے:

  هشام بن عروة، عن أبيه، قال: قالت عائشة: رحم اللّٰه لبيدا قال:
ذهب الذين يعاش في أكنافهم
وبقيت في نسل كجلد الأجرب
قال هشام: فكان أبي يقول: رحم اللّٰه عائشة كيف لو أدركت زماننا هذا؟ 45
  ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ لبید پر رحمت فرمائے کہ انہوں نے(اپنی نظم میں یہ ایک شعر ) کہا:
وہ لوگ چلے گئے جو بحفاظت رہے
اور میں اس نسل میں باقی رہ گیا جو خارش زدہ جلد کی طرح ہیں
ہشام نے کہا کہ میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عائشہ پر رحمت فرمائے کیا ہوتا اگر یہ ہمارے اس زمانہ کو دیکھ لیتیں۔

اس کے علاوہ بھی کئی ایک اہل فن نے لبید بن ربیعہ کے فضل کا اعتراف کیا ہے اور انہیں دور جاہلی کا نمایاں شاعر قرار دیا ہے۔

مشرف بہ اسلام ہونا

لبید بن ربیعہ ان خوش نصیب افرادمیں بھی شامل ہیں جو دور جاہلی میں تو عزت واحترام سے دیکھے جاتےتھے لیکن ساتھ ہی ساتھ صاحب اسلام حضور اقدس ﷺ کے لائے ہوئے دین کو ماننے کی وجہ سے دور اسلامی میں بھی محتشم ومکرم سمجھے جاتےتھے۔ان کے ایمان لانے کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب استیعاب اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  قدم على النبي صلي اللّٰه عليه وسلم سنة وفد قومه بنو جعفر بن كلاب بن ربيعة بن عامر بن صعصعة، فأسلم وحسن إسلامه.46
  نبی کریمﷺ کے پاس عام الوفود میں لبید کی قوم بنو جعفر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ آئی جن میں لبید اسلام لایا اور اپنے اسلام لانے کو بہت اچھی طرح نبھایا۔

اسی حوالہ سے صاحب اصابہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں :

  لما اشتد الجدب على مضر بدعوة النبي صلي اللّٰه عليه وسلم وفد عليه وفد قيس، وفيھم لبيد فأنشده:
أتيناك يا خير البريّة كلّها
لترحمنا ممّا لقينا من الأزل
أتيناك والعذراء تدمى لبانھا
وقد ذهلت أمّ الصّبيّ عن الطّفل
فإن تدع بالسّقيا وبالعفو ترسل
السّماء والأمر يبقى على الأصل.47
  جب نبی کریم ﷺ کی بد دعا کی وجہ سے قبیلہ مضر پر سخت قحط سالی آئی تو قیس کا وفد آپﷺ کے پاس آیا جن میں لبید بھی تھا تو اس نے یہ اشعار کہے:
اے تمام مخلوق میں افضل ہم آپ کے پاس آئےہیں
تاکہ آپ ہم پر رحم فرمائیں جو ہم نے پریشانی دیکھ لی ہے
ہم آپ کے پاس اس حال میں آئے ہیں کہ کنواریوں نے اپنے دودھ تک بہادیے
اور شیر خوار بچے کی ماں اپنے بچے سے بے خبر ہوگئی ہے
اگر آپ سیرابی اور معافی کی دعا کردیں گے تو آسمان پانی برسادے گا
اور معاملہ اپنی اصل خوشحالی پر لوٹ آئے گا

اور اسلام لانےکے بعد یہ واپس اپنے شہر کی طرف چلے گئے تھے اور پھر وہاں سے کوفہ منتقل ہوگئے تھے جس طرف ذیلی عبارت سے اشارہ ملتاہے:

  وأدرك لبيدالإسلام، وقدم على رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فى وفد بنى كلاب، فأسلموا ورجعوا إلى بلادهم ثم قدم لبيدرضي اللّٰه عنه الكوفة وبنوه، فرجع بنوه إلى البادية (بعد ذلك) .48
  لبید نے اسلام قبول کرلیا تھا اور رسول اللہﷺ کے پاس بنو کلاب کے وفد میں شامل ہوکر آئے تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے شہروں میں واپس چلے گئے۔پھر لبید اپنے بیٹوں سمیت کوفہ منتقل ہوگئے لیکن بعد میں ان کےبیٹے واپس دیہات میں چلے گئے ۔

لبید اسلام لانے کے بعد بکثرت قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ہوگئےاور شعر و شاعری کا مشغلہ دور جاہلی کی طرح دوبارہ نہیں اپنایا اگرچہ کہ بعض اشعار یا قصائد ایسے ملتے ہیں جو اسلام لانے کےبعد کے ہی واضح ہوتے ہیں لیکن وہ چند ہی ہیں اور ان میں بھی فقط اسلام ہی کے حوالہ سے تذکرہ موجود ہے۔

ترک شاعری

اس تفصیل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ لبید نے شعرو شاعری کے مشغلہ کو کلیۃ تو ترک نہیں کیا تھا لیکن بعد والی ایک آدھ نظم یا ایک آدھ شاعری مصرعوں میں دور جاہلی کی مثل کسی چیز کا ذکر نہیں کیا بلکہ فقط بعثت و حشر ہی کو بیان کیاہے اوراس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اسلام لانے کے بعد انہوں نےشعر وشاعری کے شغف کو ترک کردیاتھا چنانچہ تاریخ میں منقول ہے:

  عن الصدار بن حريث, قال: قرء علينا كتاب عمر بن الخطاب إلى سعد بن أبي وقاص: أما بعد؛ فاجمع من قبلك من الشعراء, فسلهم ماذا فقدوا من شعرهم؟ وما بقي منه؟. فجمعهم سعد, فسألهم عن ذلك فكلهم زعم أنه أغزر ما كان شعرا وأقدره عليه, إلا لبيد فإنه حلف بالذي هذاه إلى الإسلام, ما قدرت على أن أقول بيتا واحدا منذ أسلمت. فكتب بذلك إلى عمر؛ فكتب إليه عمر: قد فهمت ما ذكرت, وإنه لم يدخل قلب رجل منهم الإيمان كدخوله قلب لبيد, فاعرفوا له حق الإسلام وكرامته, والسلام. فلما كان بعد, لقيه عمر فقال: يا لبيد, ما فعلت:
عفت الديار محلها فمقامها
منى تأبد غولها فرجامها؟
قال: أبدلني اللّٰه بھا يا أمير المؤمنين خيرا منھا قال: ماذا؟ قال: سورة البقرة قال: صدقت واللّٰه بھا.49
  صدار بن حریث سے مروی ہے کہ سعد بن ابی وقاص کی طرف حضرت عمر بن الخطاب کا لکھا گیا خط ہم پر پڑھا گیا کہ اما بعد:اپنی طرف کے تمام شعراءکو جمع کرو اور ان سے پوچھو کہ ان کے اشعار میں سے کیا کیا وہ بھول چکے ہیں اور کیاکیا یاد ہے؟حضرت سعد نے انہیں جمع کیا اور ان سے اس بارے میں سوال کیا تو ہرکسی نے کہا کہ اسے اس کے اشعار یاد ہیں اور وہ آج بھی شعر کہنے پر قدرت رکھتا ہے سوائے لبید کے۔ پس انہوں نے اس ذات کی قسم اٹھائی جس نے ان کی اسلام کی طرف رہنمائی کی تھی یعنی اللہ تعالیٰ کی کہ میں جب سے اسلام لایا ہوں تب سے(دور جاہلی کی طرح)ایک بھی شعر کہنے پر قادر نہیں ہوں۔حضرت سعد نے یہ صورتحال حضرت عمر کو لکھوا بھیجی تو حضرت عمر نے انہیں جواب بھجوایا کہ جو آپ نے ذکر کیا ہے اسے میں سمجھ چکا ہوں اور در اصل معاملہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی آدمی کے دل میں اس طرح ایمان داخل نہیں ہوا جس طرح لبید کے دل میں داخل ہوا ہے ورنہ وہ اسلام کے حق اور اس کی عظمت وسلامتی کو پہچان جاتے۔اس کے بعد جب حضرت عمر لبید سے ملے تو (ان کے معلّقہ کے بارے میں )کہا کہ اے لبید یہ کیا کام کیا ہے؟
منیٰ میں زیادہ دِن اور تھوڑے دِن ٹھہرنے کے مکانات مٹ گئے
اور (کوہِ)غول اور جام کے مکانات وحشت کدہ بن گئے
لبید نے اس پر کہا اے امیر المؤمنین! اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرمادیا ہے تو حضرت عمر نے پوچھا کہ وہ کیا؟تو لبید نے کہا کہ سورہ بقرہ جس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ تم نے بالکل سچ کہا۔

اسی حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئےصاحب طبقات فحول الشعراء اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:

  وقال له عمر بن الخطّاب رضي اللّٰه عنه : أنشدنى (من شعرك) ، فقرأ سورة البقرة، وقال: ما كنت لأقول شعرا بعد إذ علّمنى اللّٰه البقرة وآل عمران، فزاده عمر رضي اللّٰه عنه فى عطائه خمس مائة (درهم) ، وكان ألفين.50
  حضرت عمر بن الخطاب نے لبید سے کہا کہ کچھ شعر سناؤ تو انہوں نے سورۃ البقرہ کی تلاوت کی اور کہا کہ جب سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے سورۃ البقرۃ اور آل عمران سکھائی ہے تو اس کے بعد سے میں نے ایک شعر بھی نہیں کہا تو حضرت عمر نے ان کا سالانہ حصہ جو دوہزار (2000) دراہم تھا اس میں پانچ سو (500) دراہم کا مزید اضافہ کردیا۔

اس تمام تر تفصیل سے معلوم ہوا کہ لبید بن ربیعہ نے اسلام لانے کے بعد شعر وشاعری کو ترک کردیا تھااور سوائے ایک آدھ نظم یا ایک آدھ شاعری مصرعوں کے انہوں نے پھر دوبارہ شاعری نہیں کی جس پر حضرت عمر نے انہیں مزید انعام و اکرام سے بھی نوازا۔

پُر مغز شاعری

لبید بن ربیعہ کی شاعری کا اعلی ترین نمونہ ان کا وہ قصیدہ ہے جو سبع معلقات میں شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب کے نزدیک لبید بن ربیعہ کا شمار چوٹی کے شعراء بلکہ عرب کے ائمۃ الشعراءمیں کیاجاتاہے۔ان کے پہلے شعر کا ذکر کرتے ہوئے محمود الزرکلی فرماتے ہیں:

  وسكن الكوفة، وعاش عمرا طويلاوهو أحد أصحاب المعلقات ومطلع معلقته: "عفت الديار محلها فمقامها بمنى تأبد غولها فرجامها".51
  لبید بن ربیعہ کوفہ میں رہے اور لمبی عمر تک زندہ رہے اور یہ اصحاب (سبع)معلقات میں سے ایک ہیں جن کے معلقہ کا ابتدائی شعر یہ ہے: منیٰ میں زیادہ دِن اور تھوڑے دِن ٹھہرنے کے مکانات مٹ گئے اور (کوہِ)غول اور جام کے مکانات وحشت کدہ بن گئے۔

اس معلقہ کے چند مزید اشعار درج ذیل ہیں:

  فمدافع الريّان عري رسمها
خلقا كما ضمن الوحيّ سلامها
دمن تجرّم بعد عهد أنيسها
حجج خلون حلالها وحرامها
رزقتْ مرابيع النّجوم وصابھا
ودق الرواعد جودها فرهامها
من كلّ سارية وغاد مدجن
وعشيّة متجاوب إرْزامها
فعلا فروع الأيھقان وأطفلت
بالجلهتين ظباؤها ونعامها
والعين ساكنة على أطلائھا
عوذا تأجّل بالفضاء بھامها.52
  پھر (کوہِ) ریان کی نالیاں (احباب کے چلے جانے کی وجہ سے وحشت ناک ہوگئیں) جن کے نشانات دراں حال یہ کہ وہ پرانے پڑ گئے تھے، اِس طرح واضح کردیے گئے جس طرح کہ کندہ پتھر نقوشِ کتابت کا ضامن ہوتا ہے۔ (اُن مکانوں کے ) ایسے نشان ہیں جن پر اُن کے باشندوں کے زمانہ کے بعد بہت سے مکمل سات یعنی اُن کے حلال اور حرام مہینے گزرے (تو پھر کیوں ویران نہ ہوتے؟)۔اُن مکانات پر منزلوں (منازل نجوم) کی تاثیر سے موسم ربیع کی اِبتدائی بارش برسائی گئی اور اُن پر کڑکنے والے بادلوں کی موسلادھار اور ہلکی مگر دیر تک برسنے والی بارشیں برسیں۔ (وہ مکانات) ہر رات کے برسنے والے اور صبح کے وقت برسنے والے تاریک اور شام کے برسنے والے ایسے اَبر سے (سیراب کیے گئے) جس کی کڑک آپس میں ایک دوسرے کو جواب دینے والی تھی۔پس (زمین کے سیراب ہوجانے کی وجہ سے ) جھڑ بیری کی شاخیں بڑھ گئیں اور وادی کے اَطراف میں ہرنوں نے بچے اور شترمرغ نے (انڈے) دیے۔وحشی گائیں درآں حالیکہ وہ نوزائیدہ ہیں، اپنے بچوں کے پاس کھڑی ہیں اور اُن کے بچے کھلے میدان میں ریوڑ، ریوڑ (پھرتے) ہیں۔

اس معلقہ کے اور بھی کئی اشعار ہیں جن میں مختلف مضامین کو خوبصورتی اور نفیس ترین الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے اہل عرب نے اسے معلقات کے قصائد میں شامل ہونے کا شرف دیا ہے۔

شاعری کی اقسام

لبید کی شاعری کے دوحصے کیے جانا ممکن ہیں جن میں دور جاہلی اور دور اسلام کے اشعار علیحدہ شمار کیے جا سکتے ہیں گو کہ اسلام لانے کے بعد انہوں نے اشعار کا مشغلہ ترک کردیا تھا لیکن کلیۃ ترک نہیں کیا تھا بلکہ ایک آدھ نظم یا ایک آدھ شعر کسی مناسبت سے کہا کرتے تھے۔ ان دونوں ادوار کی شاعری میں مضامین یکسر تبدیل ہیں اور دور جاہلی کے اشعار تو بالکل اہل عرب کے مزاج کے مطابق ہیں جبکہ دور اسلامی کے اشعار میں دیگر مضامین موجود ہیں۔ درجِ ذیل عبارت سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے:

  يمكن أن نقسم شعره قسمين: قسما جاهليّا وقسما إسلاميّاوهو فى القسم الجاهلى لا يخرج إلى مديح أو هجاء، بل يمضى مفاخرا فخرا عنيفا بآبائه وفتوته معتدّا اعتدادا لا حدّ له بالأقربين من أسرته ... واقرأ فيه فستجده دائما فى هذا القسم مفاخرا بقومه وشجاعتھم وبلائھم فى الحروب وما لهم من مناقب جليلة ... وإذا انتقلنا من هذا القسم إلى شعره الإسلامى وجدنا قراءته للقرآن الكريم تھذّب من لفظه وتدخل عليه غير قليل من الطّلاوة ... فقد تغلغل الإسلام فى ضميره، فاتجه فى أشعاره إلى ربه منيبا إليه، والوجل يملأ نفسه من يوم الحساب الذى ينتظره،يقول فى قصيدة له:
إنما يحفظ التّقى الأبرار
وإلى اللّٰه يستقرّ القرار
وإلى اللّٰه ترجعون وعند اللّٰه
ورد الأمور والإصدار
كلّ شیٔ أحصى كتابا وعلما
ولديه تجلّت الأسرار...
فإنك تجده يتحدث عن التقوى والأبرار والعمل الصالح وأن الناس معروضون على اللّٰه يوم القيامة وقد أحصى كل شئی فى كتاب وأن الموت حق لا شك فيه وأن على كل إنسان أن يفكر فى مصيره.53
  ممکن ہے کہ ہم اس کی شاعری کو دو اقسام میں تقسیم کردیں،ایک قسم جاہلی اور دوسری قسم اسلامی۔قسم جاہلی میں وہ کسی کی مدح یا برائی ہی کی طرف نہیں گیا بلکہ وہ اپنے آباء واجداد اور اپنے جوانوں پر اہتمام کے ساتھ تفاخر کے طور پر اشعار کہتا رہا اوراس میں اس کے خاندان میں قربت داروں کی کوئی حد نہیں تھی۔۔۔تم اس کو پڑھو تو اس قسم میں یہ چیزہمیشہ پاؤگے کہ وہ اپنی قوم پر،جنگوں میں اس کی بہادری و سخت گیری پر اور جو جو ان کے مناقب ہیں ان پرفخر کرنے والا ہے۔۔۔اورجب ہم اس قسم سے اس کے اسلامی دور کے اشعار کی طرف منتقل ہوتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت نے اس کے الفاظ کو مہذب بنادیا ہے اور اس کے کلام کو انتہائی حسین بنادیا ہے ما سوا تھوڑے کے۔۔۔پس اسلام نے اس کے ضمیر میں جوش مارا تو وہ اپنے اشعار میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہوئے متوجہ ہوااور خوف کی طرف جس نے اس کے دل کو انتظار کیے جانے والے قیامت کے دن کے خوف سے بھردیا تھا۔و ہ اپنے ایک قصیدہ میں کہتا ہے:
متقی اور نیک افراد ہی محفوظ کیے جائیں گے
اور اللہ ہی کی طرف ٹھکانہ ہے
اور اللہ ہی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے
اور اللہ ہی کے پاس معاملات اور احکام نافذ ہوں گے
ہر چیز علم اور کتاب میں محفوظ کی گئی ہے
اور اس ہی کے پاس راز ظاہر ہوں گے
پس بلا شبہ اب تم اس قصیدہ میں پاتے ہو کہ وہ تقوی،نیک لوگ،نیک اعمال، قیامت کے دن اللہ کےحضور لوگوں کے پیش کیے جانے، ہر چیز کے نامہ اعمال میں محفوظ کیے جانے ،موت کے برحق ہونے میں جس میں شک نہیں اور ہر انسان پر اس کے آخری ٹھکانہ کے بارے میں فکر کے لازم ہونے کے بارے میں بات کررہا ہے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ لبید بن ربیعہ کی دور اسلام کی شاعری دور جاہلی کی شاعری سے قطعا مختلف ہے اور اس بات کا واضح امکان ہےکہ جن حضرات نے لبید کے اسلام لانے کے بعد شعر وشاعری کرنے کا انکارکیا ہے مثلا ً صاحب طبقات الکبری، 54صاحب استیعاب، 55 صاحب اسد الغابہ56 اورصاحب اصابہ 57نے تو ان کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے دور جاہلی کی طرح تو شعر گوئی نہیں کی البتہ توحید اورفکر آخرت اور حشر ونشر کے ارد گرد گھومتی شاعری کی اور وہ بھی قلیل تعداد میں تو وہ شعرگوئی نہیں بلکہ اسلام سے اظہارِ محبت اور اپنے عقائد وایمانیات کو منظوم کرکےبیان کرنا ہے۔

فصاحت وبلاغت

شعر گوئی آسان کام نہیں ہے اور اس میں اصل مہارت کلام کا واضح ہونا ہے اور جس شاعر میں یہ وصف جتنا زیادہ نمایاں ہوا اس کی شاعری اتنی ہی فصیح وبلیغ ہوگی۔ لبید کی فصاحت و بلاغت کا حال بھی اسی طرح تھا جس کی ذیلی اقتباس سےنشاندہی ہوتی ہے:

  وكان لبيد بن ربيعة أبو عقيل فارسا شاعرا شجاعا وكان عذب المنطق رقيق حواشى الكلام.58
  ابو عقیل لبید بن ربیعہ شہہ سوار،شاعر اور بہادر تھا اور شیریں کلام اور با مقصد کلام کرنے والا تھا۔

یعنی لبید کے کلام کی خاصیت یہ تھی کہ وہ اپنی بات کو کم الفاظ میں سمجھانے والے اور بلا وجہ طول دینےسے گریز کرنے والےتھے جس سے طبیعت میں گیرانی اور اکتاہٹ محسوس ہواور اسی وجہ سے ڈاکٹر شوقی ضیف نے لکھا ہے کہ یہ اپنے قبیلہ کے خطیب تھے ۔59اسی حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے صاحب جمہرۃ اشعار العرب اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  قال الذين قدموا لبيد بن ربيعة: هو أفضلهم في الجاهلية والإسلام، وأقلهم لغوا في شعره .60
  جنہوں نے لبید بن ربیعہ کو شعراء میں مقدم کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ وہ اسلام اور دور جاہلی دونوں میں افضل ہے اور اپنے اشعار میں لغو کلام انتہائی کم لاتا ہے۔

یہی وجہ ہےکہ ایک شعرپر نبی کریم ﷺ نے بھی ان کی توصیف فرمائی ہےکہ لبید نے سچ کہا ہے جس کو نقل کرتے ہوئے صاحب الاستیعاب تحریرکرتے ہیں:

  عن أبي هريرة، أن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم قال: أصدق كلمة قالها الشاعر كلمة لبيد:
ألا كل شيء ما خلا اللّٰه باطل
وهو شعر حسن وفي هذه القصيدة ما يدل على أنه قالها في الإسلام واللّٰه أعلم.
  حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ سب سے سچا کلمہ جو لبید نے کہا ہے وہ یہ ہے:
خبردار! اللہ تعالیٰ کے علاوہ تمام مخلوق فنا ہوجائیں گے۔
اور یہ خوبصورت شعر ہے اور اس قصیدہ میں ایسے اشعار موجود ہیں جو اس طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ یہ قصیدہ لبید نے اسلام لانے کے بعد کہا ہے۔واللہ اعلم۔

ان کی فصاحت وبلاغت کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے بھی ہوتاہے جس میں فرزدق شاعر نے ان کے ایک شعر کو سن کر سجدہ کیا تھا چنانچہ صاحب الآغانی تحریر کرتے ہیں:

  قدم الفرزدق فمر بمسجد بني أقيصر وعليه رجل ينشد قول لبيد:
وجلا السيول عن الطّلول كأنھا
زبر تجدّ متونَھا أقلامُها
فسجد الفرزدق فقيل له ما هذا يا أبا فراس فقال أنتم تعرفون سجدة القرآن وأنا أعرف سجدة الشعر.61
  فرزدق شاعرآیا اور بنی اقیصر کی مسجد کے پاس سے گزراتو وہاں ایک آدمی لبید کا شعر پڑھ رہاتھا:
سیلاب نے (محبوبہ کے پرانے) گھر کے کھنڈرات کو ایسے واضح کردیا کہ گویا
وہ ایسے صحیفے ہیں جن کی لکھائی کو قلموں نے تروتازہ کردیاہو
(یہ سن کر)فرزدق نے سجدہ کیا تو اسے کہا گیا کہ اے ابوفراس یہ کیا کام کیا؟پس اس نے کہا کہ تم قرآن مجید کے سجدوں کوجانتے ہو اور میں شعر کے سجدوں کو جانتاہوں۔

اس واقعہ سے بھی واضح ہوا کہ فرزدق جیسا عظیم شاعر بھی لبید بن ربیعہ کی فصاحت وبلاغت کا برملا معترف تھا کیونکہ ان کے کلام میں فصاحت وبلاغت زیادہ ہے البتہ وہ دور جاہلی میں کچھ ایسے الفاظ وتراکیب کا استعمال کرلیتے تھے جس سے ثقالت کا احساس ہوتا تھا لیکن دور اسلام میں کہی جانے والی نظموں میں یہ چیز ناپید ہے۔62

سخاوت

لبید اسلام لانے سے پہلے بھی شریف النفس انسان تھے اور اسلام لانے کے بعد آپ کی شرافت وکرامت میں مزید اضافہ ہی ہوا۔ ان کے بارےمیں منقول ہے کہ اس شرافت طبع کی وجہ سے یہ سخی بھی تھے اور لوگوں کی مشکلات میں ا ن کی ہمددردی بھی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے دورجاہلی میں تیز ہواؤں کے دوران لوگوں کو کھانا کھلانے کی قسم اٹھا رکھی تھی جس کو مرتے دم تک بھی نبھایا چنانچہ اس حوالہ سے ایک تاریخی واقعہ ذیل میں بیان کیاگیا ہے:

  وكان لبيدرضى اللّٰه عنه جوادا شريفا في الجاهلية والإسلام، وكان قد آلى في الجاهلية أن يطعم ما هبت الصبا، ثم أدام ذلك في إسلامه ونزل لبيد الكوفة، وأميرها الوليد بن عقبة، فبينا هو يخطب الناس، إذ هبت الصبا بين ناحية المشرق إلى الشمال فقال الوليد في خطبته على المنبر: قد علمتم حال أخيكم أبي عقيل، وما جعل على نفسه أن يطعم ما هبت الصبا، وقد هبت ريحها، فأعينوه! ثم انصرف الوليد، فبعث إليه بمائة من الجزر.63
  اور لبید دور جاہلی ودور اسلام میں معزز تھے اور دور جاہلی میں انہوں نے قسم اٹھائی تھی کہ اگر تیز ہوا چلے گی تویہ لوگوں کو کھانا کھلائیں گے پھر انہوں نے اس قسم کو اسلام میں بھی دائمی طور پر برقرار رکھا۔ جب لبید کوفہ گئے جس کا امیر ولید بن عقبہ تھا،اسی اثناء میں کہ وہ لوگوں سے خطاب کررہا تھا کہ مشرق کی سمت سے تیز ہوا شمال کی طرف چلی تو منبر پر ہی ولید نے اپنے خطبہ میں کہا کہ تم اپنےبھائی ابو عقیل کا معاملہ تو جانتے ہی ہو اور اس نے جو تیز ہوا چلنےپر کھانا کھلانے کی قسم اٹھائی ہے اسے بھی جانتے ہو۔تحقیق اب وہ ہوا چل پڑی ہے لہذا اپنے بھائی کی قسم پورا کرنے میں مدد کروپھر ولید چلا گیا اور سو اونٹ لبید کی طرف بھیجے۔

اس تحفہ کے ساتھ ساتھ ولید نے چند اشعار بھی لکھ کر بھیجے تھے جس کے جواب میں لبید نے ولید کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بیٹی سے کہا کہ ان اشعار کا جواب لکھ کر بھیج دو تو اس نے ایسا ہی کیا۔

وفات

لبید بن ربیعہ ان افراد میں شامل ہیں جن کی عمریں طویل تھیں۔ان کی عمر کے متعلق تقریبا تین سے چار اقوال منقول ہیں۔ان کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو بلاکر چند نصیحتیں فرمائیں جن کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب جمہرۃ اشعار العرب تحریر کرتے ہیں:

  ولما حضرته الوفاة قال لابنه: إن أباك قد توفي، فإذا قبض أبوك، فأغمضه واستقبل به القبلة، وسجه بثوبه، ولا تصح عليه صائحة، ولا تبك عليه باكية ... فإذا فرغوا فقل: احضروا جنازة أخيكم لبيد ثم أنشأ.64
  جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تمہارا باپ اب مرنے والا ہے پس جب تمہارا باپ مرجائے تو اس کا منہ ڈھانپ دینا ، قبلہ رو کردینا اور اس کے کپڑوں سے اسے ڈھانک دینا۔اس پر چیخنا مت اور نہ ہی اس پر شدت سے روناجب لوگ کاموں سے فارغ ہوجائیں تو ان سےکہنا کہ اپنے بھائی لبید کے جنازہ پر حاضر ہوجاؤ پھر اس نے چند اشعار کہے۔

جن اشعار کا مفہوم تھا کہ جب اپنے باپ کو دفن کردو تو اس پر گھاس اور مٹی ڈال دینا اور اسے دفنادینا۔یہ کہہ کر ان کا انتقال ہوگیا اور وہ اس دنیا سے چل بسے۔ان کے سالِ فوتگی کو بیان کرتے ہوئے صاحب الکامل اپنی کتاب میں سن اکتالیس(41)ہجری کے واقعات کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

  وفيھا مات لبيدرضي اللّٰه عنه بن ربيعة الشاعر، وقيل: مات يوم دخل معاوية الكوفة وعمره مائة سنة وسبع وخمسون سنة، وقيل: مات في خلافة عثمان رضي اللّٰه عنه، وله صحبة65
  اور اس سال میں شاعر لبید بن ربیعہ. فوت ہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب معاویہ کوفہ میں داخل ہوئے تواس دن فوت ہوئے جبکہ ا ن کی عمر ایک سو پچھتر(175)برس تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عثمان کی خلافت میں فوت ہوئے اور ان کے لیے صحبت رسول ﷺ ثابت ہے۔

لبید بن ربیعہ جب کوفہ منتقل ہوئے تو وہیں رہے یہاں تک کہ ان کا وہیں انتقال ہوگیا۔ان کے مدفن کے حوالہ سے تفصیل بیان کرتے ہوئے صاحب طبقات فحول الشعراء اپنی کتاب میں تحریرکرتے ہیں:

  فأقام لبيد رضي اللّٰه عنه إلى أن مات بھا، فدفن فى صحراء بنى جعفر بن كلاب.66
  اور لبید کوفہ میں ہی رہے یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا اور بنو جعفر بن کلاب کے صحراء میں دفن کیے گئے۔

ان کی عمر کی طوالت کے بارے میں کئی اقوال کتب میں مذکور ہیں جن میں قرین قیاس سو سے زائد سال کی عمر ہے خواہ وہ دس (10) سال زائد ہوں یا اس سے کم کیونکہ ان کی پیدائش پانچ سو ساٹھ(560)عیسوی کے آس پاس ہےاور انتقال اکتالیس (41) ہجری کے آس پاس ہے ۔ان دونوں مدتوں کے مابین کا حساب لگانے سے ان کی عمر تقریبا ایک سو کچھ سال بنتی ہے باقی اقوال اس حساب سے ناقابل اعتناء قرار پاتے ہیں۔

لبید بن ربیعہ کی عمر کچھ بھی رہی ہو انہوں نے دور جاہلی اور دور اسلامی دونوں ادوار کو بغور دیکھا اور دونوں ادوار میں صاحب احتشام وصاحب افتخار رہے نیز اپنی زندگی کے اکثر ایام میں شعر وشاعری سے شغف رکھا لیکن آخری تہائی حصہ میں رسول اکرمﷺکے پیغامِ توحید اور دین اسلام کی دعوت قبول کرکے شرف صحابیت سے مشرف ہونے کےبعد کلام الہی کے اعجاز کے سامنے سر تسلیم خم کرکے آنے والی نسلوں کو اس بات کا واضح پیغام دے گئے کہ علم وادب اور فکروفن کابڑے سے بڑا آدمی اپنے مخصوص شعبہ علم وفن میں ماہر ہوسکتاہے لیکن دنیاوی علوم کی تمام مہارتیں اوراس کے نتیجہ میں حاصل شدہ تعریفات وتوصیفات دنیاوی حد تک ہی باقی رہ پاتی ہیں، درحقیقت بڑاانسان وہ ہے جو علم وفن میں بڑاہونے کے ساتھ ایمان وعمل اور کرداروسیرت میں بھی بڑا ہوورنہ ایک بڑا آدمی اپنی بڑائی اور عظمت دنیا میں چھوڑکر خود اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی چھوٹے انسان کی طرح پیش کردیاجائےگا۔رسول اللہﷺ نے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور باعزت وباکرامت بننے کے لیے انہیں دعوتِ اسلام دی ہے تاکہ وہ رب تعالیٰ کی عبودیت کے ذریعہ اپنی عظمت ورفعت کو ابدی طور پر پاسکیں۔

 


  • 1 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 155
  • 2 ابو الفداء اسماعیل بن عمرابن کثیرالدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م،ص: 89
  • 3 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 155
  • 4 ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 500
  • 5 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 156
  • 6 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف،القاہرۃ، مصر، 1995م، ص: 89
  • 7 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 155
  • 8 ایضا، ص: 156
  • 9 ابو عبد الله محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 107
  • 10 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 155
  • 11 ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 500
  • 12 ابوعمر یوسف بن عبد اللہ القرطبى، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1335
  • 13 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 156
  • 14 ابو الحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 482
  • 15 ابوعمر یوسف بن عبد اللہ القرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1335
  • 16 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة(محقق: حمدوطمّاس)، مطبوعة: دار المعرفۃ، بيروت، لبنان، 2004م،ص: 5
  • 17 ابو الحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 482
  • 18 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی،ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1995م، ص: 89
  • 19 ابو عبد اللہ محمد بن سلّام الجمحی، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار المدنی، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 266
  • 20 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 156
  • 21 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة(محقق: الدكتور حنانصر الحتى)، مطبوعة: دار الكتاب العربى، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 179
  • 22 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 156
  • 23 ابو محمد عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 1423ھ، ص: 266
  • 24 ابو عبد اللہ محمد بن سلّام الجمحی، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار المدنی، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 266
  • 25 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی،ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف،القاہرۃ، مصر، 1995م،ص: 89
  • 26 ابو عبد اللہ محمد بن سلّام الجمحی، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار المدنی، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 266
  • 27 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 155
  • 28 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی،ج-2، مطبوعۃ:دار المعارف،القاہرۃ، مصر،1995م،ص:89
  • 29 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 2002م، ص:156
  • 30 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی،ج-2، مطبوعۃ:دار المعارف،القاہرۃ، مصر،1995م،ص:89
  • 31 ابو عبد الله حسين بن احمد الزوزونی، شرح معلقات السبع، مطبوعة: دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 2002م، ص: 156
  • 32 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة (محقق: الدكتور حنانصر الحتى)، مطبوعة: دار الكتاب العربى، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 38
  • 33 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة (محقق: حمدوطمّاس)، مطبوعة: دار المعرفۃ، بيروت، لبنان، 2004م، ص: 14
  • 34 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة (محقق: الدكتور حنانصر الحتى)، مطبوعة: دار الكتاب العربى، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 9
  • 35 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1995م، ص: 89-90
  • 36 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة (محقق: حمدوطمّاس)، مطبوعة: دار المعرفۃ، بيروت، لبنان، 2004م، ص: 7
  • 37 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة (محقق: الدكتور حنانصر الحتى)، مطبوعة: دار الكتاب العربى، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 9-11
  • 38 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة (محقق: حمدوطمّاس)، مطبوعة: دار المعرفۃ، بيروت، لبنان، 2004م، ص: 6-9
  • 39 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1995م، ص: 89
  • 40 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة (محقق: الدكتور حنانصر الحتى)، مطبوعة: دار الكتاب العربى، بيروت، لبنان، 1993م،ص:12-13
  • 41 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی،ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1995م، ص: 90
  • 42 خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام، ج-5، مطبوعۃ: دار العلم للملایین، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 240
  • 43 ابوعمر یوسف بن عبد اللہ القرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1335
  • 44 خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام، ج-5، مطبوعۃ: دار العلم للملایین، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 240
  • 45 ابو نعیم احمد بن عبداللہ الاصبھانی، معرفۃ الصحابۃ، ج-5، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر، الریاض، السعودیۃ، 1998م، ص: 2442
  • 46 ابوعمر یوسف بن عبد اللہ القرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1335
  • 47 ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 502
  • 48 ابو عبد اللہ محمد بن سلّام الجمحی، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعۃ:دار المدنی، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 267
  • 49 ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصبهانی، منتخب من کتاب الشعراء، مطبوعۃ: دارالبشائر، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 23-24
  • 50 ابو عبد اللہ محمد بن سلّام الجمحی، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعۃ:دار المدنی، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 268-267
  • 51 خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام، ج-5، مطبوعۃ: دار العلم للملایین، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 240
  • 52 ابو عقيل لبيد بن ربيعة العامرى، ديوان لبيد بن ربيعة (محقق: حمدوطمّاس)، مطبوعة: دار المعرفۃ، بيروت، لبنان، 2004م، ص: 107
  • 53 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1995م، ص:91-93
  • 54 ابو عبد الله محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 107
  • 55 ابوعمر یوسف بن عبد اللہ القرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م،ص: 1335
  • 56 ابو الحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 482
  • 57 ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 500
  • 58 ابو نعیم احمد بن عبداللہ الاصبھانی، معرفۃ الصحابۃ، ج-5، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر، الریاض، السعودیۃ، 1998م، ص: 2440
  • 59 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج-1، مطبوعۃ:دار المعارف،القاہرۃ، مصر،1995م،ص:43
  • 60 ابو زید محمد بن ابی الخطاب القرشی، جمھرۃ اشعار العرب، مطبوعۃ:نھضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:82-83
  • 61 ابو الفرج على بن الحسين الاصفهانى، الآغانى، ج-15، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، ( ليس التاريخ موجوداً)، ص: 360
  • 62 الدکتور شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی،ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1995م، ص: 92
  • 63 ابو زید محمد بن ابی الخطاب القرشی، جمھرۃ اشعار العرب، مطبوعۃ:نھضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 83
  • 64 ابو زید محمد بن ابی الخطاب القرشی، جمھرۃ اشعار العرب، مطبوعۃ: نھضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 86
  • 65 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 18
  • 66 ابو عبد اللہ محمد بن سلّام الجمحی، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار المدنی، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 267