Encyclopedia of Muhammad

عہد جاہلیت کی شاعری

عرب کی ابتدائی تین1اقسام بائدہ، 2 عاربہ 3 اور مستعربہ 4 سمیت دیگر تمام عربی اقوام بھی عربی زبان ہی بولا کرتی تھیں 5 جوقبل از بعثت نبوی ﷺ یعنی زمانہ جاہلیت میں اپنے عروج کی بلندیوں پر تھی 6اور عربوں کے لیے باعث افتخار بھی۔ 7اہل عرب کے عام افراد کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی زبان دانی پر اس قدر نازاں تھے کہ دوسری اقوام کو"عجم"کہا کرتے تھے جبکہ اس زبان کےشعراء خود اہل عرب کے ہاں نمایاں مقام کے حامل تھے جن کی قدر ومنزلت عام عربی افراد سے کہیں زیادہ تھی اور اس کاسبب ان کی عربی شاعری تھی یعنی آج کے دور میں جو مقام فن اور فنکارکا ہے قدیم عرب میں وہی قدرومنزلت شاعر اور شاعری کی تھی۔ اس دور میں شاعری کسی خبر کی فوری اشاعت کا سب سے مؤثر ذریعہ تھی جس طرح آج سوشل میڈیا کے ذریعہ کسی خبر کی فوری اشاعت ممکن ہوجاتی ہے۔ شاعرہوناعرب معاشرے میں بڑے اعزاز کی بات اس لیےتھی کہ ہر کس وناکس شاعر نہیں بن سکتاتھا،اس کے لیےجس زبان دانی، فصاحت وبلاغت،علم وتجربہ، گہرا مشاہدہ، غوروفکر، تدبر وتعقل اور حسّاسیت کی ضرورت تھی وہ صرف خوّاص کا ہی کام ہوسکتاتھا،عوام کے بس کی بات ہرگز نہ تھی۔

عرب میں شاعری

عرب بدوی زندگی گزارتے تهے، ان کی آل و اولاد ہر طرح کی آزادی کے ساتھ آغوشِ فطرت میں پروان چڑھتی تھی۔ ان كے جائے مسكن كا اگر نقشہ كهينچا جائے تو كچھ اس طرح ہوگا کہ دن کے وقت حد نگاہ تک پھیلا ہوا صحرا، تیز اور جھلسا دینے والا سورج، سخت اور تند صحرائی آندھیاں،رات میں چمکتا دمکتا چاند،بنا چاند کی اندھیری راتیں،چاندنی میں منور و روشن راتیں، جھلملاتے ستارے، خوشگوار صبحیں، پر کیف شامیں، اونٹ اور گھوڑے ، گدھے، خچر، نیل گائے، ہرن اور شراب و شباب وغیرہ ۔یہی سب کچھ ان کا سرمایۂ فکر و نظر تھا چنانچہ عرب شاعر اپنے اسی فطری ماحول میں ڈوب کر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار شعر میں کرتا تھا۔ 8یہی وجہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت کا جو شعری و ادبی سرمایہ ہم تک پہنچا ہے وہ نہا یت درجہ مؤثر و وقیع اور زبان و بیان کا بہترین نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ بدوی زندگی کا مظہر اور مرقع بھی ہے ۔

شعر

عربی میں شعر موزوں نظم کو کہتے ہیں9جس میں الفاظ متوازن، مقفّٰی اور موزون استعمال ہوئے ہوں اور شعر کا یہی مقصود ہوتا ہے نیزجس کلام میں یہ تمام یا بعض قیود نہ ہوں تو اسے شعر نہیں کہیں گے چنانچہ اس حوالہ سے ابو عثمان جاحظ شعرکی تعریف کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  والشعر العربى هو النظم الموزون وحده ماتركب تركبا متعاضدا وكان مقفى موزونا مقصودا به ذلك فما خلا من هذه القيود أومن بعضها فلايسمي شعرا ولايسمي قائله شاعرا ولهذا ماورد فى الكتاب اوالسنة موزونا فليس بشعر.10
  شعرعربی زبان میں الفاظ کے باہم متوازن ترکیب میں ملےہوئےہونےکوکہتے ہیں۔اس کی انتہاباوزن، بامطلب اورایک جیسے الفاظ کی تعاونی ترکیب پرہوتی ہےجس سےکوئی مطلب متصورہوتاہے۔پس جس کلام میں مذکورہ تمام شرائط یاکوئی ایک قید نہ پائی جائےوہ شعرنہیں کہلاتااورنہ اس کے کہنےوالاشاعر کہلاتاہے لہذا قرآن و حدیث میں جو موزون الفاظ استعمال ہوئے ہوں انہیں شعر نہیں کہا جائےگا۔

اسی طرح علی جندی اپنی کتاب "تاریخ الادب الجاہلی"میں شعر کی تعریف کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  الشعر لغة العواطف والمشاعر والرؤى الممتزجة بالمواقف والأفكار، وترجمان الأحاسيس، ويعنى بإظهار الجمال وتصويره فى صور تسحر القلوب وتثير الوجدان، وتبعت فى النفس الإعجاب والارتياح ولذلك عد من الآداب الرفيعة، واعتبر فنامن الفنون الجميلة وقد عرف العرب منذ اقدم عصورهم قيمة الشعر وأثره فى النفس، وما له من شان عظيم فى تاريخ الأمم والشعوب... فقدروا الشعر حق قدره، وعظموا الشعراء واكبروهم فكان للشاعر أعلى منزلة فى قومه. 11
  شعر نرم اور مہربان زبان کو کہتے ہیں جو احساسات کی ترجمانی کرے، جمالیات کا اظہار کرے اور ایک ایسی تصویر پیش کرے جو دلوں کو مسحور کردے، وجدان کو برانگیختہ کرےاور نفس کو اعجاب و سرور سے بھر دے۔یہی خصوصیات ہیں جنہوں نے شعر و شاعری کو بلند ترین ادب و آداب کا درجہ عطا کیا ہے اور اسے فنون جمیلہ میں شامل کروایا ہے۔ اہل عرب اپنے قدیم زمانہ ہی سے شعر کی قدروقیمت اور نفوس میں اس کے اثر کو پہچانتے تھے نیز قوموں اور ملتوں میں اس کی عظیم تاریخ کو بھی (پہچانتے تھے)۔۔۔پس انہوں نے شعر کی قدر کا حق ادا کیا، شعراء کو عظیم مقام دیا اور اپنا بڑا مانا اس لیے عربوں کے یہاں شاعروں کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔

اور اسی قدر ومنزلت نے عرب شعراء کو اہل عرب کا نمایاں ترین طبقہ بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کےساتھ عرب شعراء کو غور وفکر کے نئے زاویوں سے متعارف کروایا۔

شاعر کا مقام

کتب تاریخ و اشعار میں درج ہے کہ عرب میں جب کسی قبیلہ میں شاعر ابھرتا تو اس قبیلہ کی ہر چہار اطراف واہ واہ ہو جاتی اور مختلف اطراف و اکنافِ عرب سے اس قبیلہ کو تہنیتی پیغامات اور مبارکباد بھیجی جاتی۔ ایسے مواقع پر وہ قبیلہ بھی خوب تزک و احتشام کا مظاہرہ کرتا اور پر تکلف دعوتیں منعقد ہوتیں جہاں مرد اور عورتیں نہایت درجہ اہتمام سے شریک ہو تے، ایسے شادیانے بجاتے اور ایسی خوشیاں مناتے جیسے شادی بیاہ کی تقریبات میں کیا جاتا تھا۔کتب تاریخ کے مطابق عرب میں تین مواقع ایسے تھے جن میں باقاعدہ تہنیت کا پیغام بھیجا جاتا تھا، پہلاجب کسی کے گھر ولادت ہو تی، دوسرا جب کسی کی گھوڑی بچہ جنتی اورتیسراجب کسی قبیلہ میں شاعر ابھرتا۔ 12

اسی طرح صاحب الممتع عرب شاعر کی قدرومنزلت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  الشاعر عند العرب أفضل من الخطيب وكان الشاعر فى الجاهلية اذا نبغ فى قبيلة ركبت العرب اليھا فهنا تھابه.13
  عرب شاعر اہل عرب کے نزدیک خطیب سے بھی زیادہ اہمیت والا تھا، جب کسی قبیلہ میں شاعر ابھرتا تھا تو مختلف قبائل سے مبارکباد کے پیغامات بھیجے جاتے تھے ۔

اسی طرح صاحب العمد ہ اس حوالہ سے مزید تحریر کرتے ہیں:

  وصنعت الاطعمة، واجتمع النساء يلعين بالمزامر،كما يصنعون فى الأعراس، ويتباشر الرجال والولدان لأنه حماية لأعراضهم، وذب عن إحسابھم، وتخليد لمآثرهم. 14
  بڑی بڑی دعوتیں ہوتی تھیں، عورتیں گانا بجا کر خوشی کا اظہار کرتی تھیں گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے شادی کا سماں ہو، مرد اور بچے ایک دوسرے کو خوشخبری کے طور پر بتایا کرتے تھے(کہ ہمارے قبیلہ میں شاعر ہے) کیونکہ شاعر اپنے قبیلہ کی عزت کا محافظ ہوتا تھا، قبیلہ کی طرف سے دوسرے قبائل کے شاعروں کا جواب دیا کرتا تھا اوراپنے قبیلہ کے اثر ورسوخ کو قائم ودائم رکھنے کے لیے بھی شاعری کرتا تھا۔

عرب شعراء کی قدر کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب جواہر الادب تحریر کرتے ہیں:

  وكان للشعراء عند العرب منزلة رفيعة، وحكم نافذ وسلطان غالب، اذ كانو السنتھم الناطقة بمكار مهم ومفاخرهم، واسلحتھم التى يذودون بھا عن حياض شرفهم .....وتخليد لمفاخرهم.15
  اس لیے عربوں کے یہاں شاعرو ں کی بڑی قدر کی جاتی تھی، ان کا کہا ماناجاتا تھا اور وہ فرمانروا کی سی حیثیت رکھتےتھے کیونکہ شاعروں کی زبان(شاعری) ان کے مفاخر و مکارم اجاگر کیا کرتی تھی، یہ ان کا وہ اسلحہ تھی جس سے وہ اپنی زندگی کے شرف اوروقار کو بڑھاتےتھے۔۔۔ان کے اثر ورسوخ کو قائم ودائم رکھنے کے لیے بھی یہ شاعری کی جاتی تھی ۔

ان مذکورہ تفاصیل سے واضح ہوا کہ اہل عرب کے ہاں شاعروں اور ان کی کہی گئی نظموں، قصیدوں اور شعروں کی قدرو منزلت کی بنیادی اور اہم ترین وجہ یہ تھی کہ یہ شعراء اپنے کہے گئے قصیدوں میں ان عرب قوموں اور قبائل کی تعظیم وتوقیر اور ان کے خصائلِ حمیدہ کو مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے جن عرب قوموں اور قبائل سے ان کا تعلق ہوا کرتا تھا اور اہل عرب کے ہاں اسی وجہ سے یہ طبقہ اتنا معززو محتشم تھا کہ ان کا حکم نافذ العمل تھا اور یہ گویا حکمرانوں کی حیثیت سے عربوں پر حکومت کرتے تھے۔

مشہور شعراء

زمانہ جاہلیت میں ایک سو بیس(120) سے زائد شعرا ءنے نام پیدا کیا لیکن ان میں سے اکثر کا کلام ضائع ہو گیا۔ عام جاہلی شعرا ءکے کلام میں اس زمانہ کے اعتبار سے عمو ماً حسبِ ذیل اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی نظر آتی ہے:

  1. فخر و حماسہ۔
  2. وصف ۔
  3. مدح ۔
  4. ہجو۔
  5. مرثیہ۔
  6. غزل ۔
  7. معذرت اور
  8. حکم وامثال۔

مزید برآں کچھ شعراء کے ہاں مُعلقّات، اعلیٰ بدوی اخلاق کی تعلیم، عمدہ اور پاکیزہ مضامین و معانی، بلند پایہ اغراض و مقاصد، وعظ و نصیحت، محبوبہ کے وصال و فراق کے لمحات اور خونر یز جنگوں کے احوال بھی نظر آتے ہیں ۔16جاہلی شعراء اپنے کلام میں بھاری بھرکم اور پُرشکوہ الفاظ استعمال کرتے تھے۔ان کے یہاں خیالات میں گہرائی یا افکار میں ندرت اور بلندی تو نہیں ملتی البتہ سیدھے سادے خیال کو خوبصورت مگر شاندار الفاظ کا جامہ پہنا کر کلام کے اثر کو دوبالا کرنے کی مثالیں باکثرت ملتی ہیں جبکہ مبالغہ، استعارہ، باریک تشبیہات یا فلسفیانہ مضامین ان کے کلام میں نہ ہونے کے برابر ہیں البتہ وصف اور منظر کشی، جیسے اونٹ، گھوڑے اور بھیانک رات کے وصف یا محبوبہ کے خد و خال بیان کرنے یا کریہہ المنظر معرکۂ کار زار کی منظر کشی میں وہ اپنا پورا زورِ بیان صَرف کر دیا کرتے تھے ۔17بعض شعراء انفرادیت بھی رکھتے تھے اگر چہ عام طور سے عرب شعرا ءانعام و اکرام کے لالچ میں بادشاہوں، امرا ءاور رئیسوں کی شان میں مدحیہ قصیدے نہیں کہتے تھے لیکن چیدہ چیدہ چند شعرا ء ایسے بھی گزرے ہیں جیسے النابغہ الذبیانی اور ابو تمام صاحب ِ حماسہ وغیرہ جنہوں نے بادشاہوں کی شان میں مدحیہ قصائد کہے ہیں۔18

طبقات شعراء

اہل عرب کے شعراء کے ویسے تو کئی طبقات ہیں البتہ ان کے ابتدائی اور بنیادی طبقات کی تعدادتین(3) ہیں جن میں پہلاجاہلی، دوسرا مخضرمی اور تیسرا اسلامی ہے ۔19

طبقہ جاہلی

یہ طبقہ ان شاعروں کا ہے جنہوں نے جاہلیت کا دور پایا اوراسی حالت میں فوت ہو گئے توایسے تمام شعراءجاہلی شاعر یعنی زمانہ جاہلیت کے شاعر کہلاتے ہیں اوران کا سر خیل "امرؤالقیس" کو مانا جاتا ہے۔ 20

طبقہ مخضرمی

یہ طبقہ ان شاعروں کا ہے جنہوں نے جاہلی اور اسلامی دونوں دور پائے، 21جاہلی دور میں بھی شاعری کرتے رہے اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی کرتے رہے تو ایسے تمام شعراء مخضرمی کہلاتے ہیں22اوران کا سر خیل "حضرت حسان " کو مانا جاتا ہے۔23

طبقۂ اسلامی

یہ طبقہ ان شاعروں کا ہے جو اسلام کے دور میں آئے جس وجہ سےوہ اسلامی شاعر کہلاتے ہیں اور ان کا سر خیل "جریر" کو مانا جاتا ہے۔24

بعض حضرات نے مزید دو طبقات بھی ذکر کیے ہیں جن میں محدثون اورشعراءِ اندلس بھی شامل ہیں 25جبکہ عبد القادر بغدادی نے ابن رشیق کے حوالہ سے چار (4)طبقات اور بعض نے چھ (6)بھی ذکر کیے ہیں۔ وہ مزید طبقات میں مولدون، محدثون اور متا خرون کا اضافہ کرتے ہیں۔26

مصطفےٰ صادق رافعی نے با عتبار عصر شعراء کے چار طبقات ذکر کیے ہیں۔ (1) جاہلی قدیم۔(2) مخضرم۔ (3)اسلامی اور (4) محدث چنانچہ وہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوے تحریر کرتے ہیں :

  واشھر المخضرمين من لبيد، و حسان، والحطيئة، والنابغة الجعدى، والخنساء، ثم شعراء الجاهلية عند بعض العلماء ثلاث طبقات، يعدون فى الأولى: أصحاب السبع الطوال على المشهور، والنابغة وأعشى قيس، والمهلهل، وعدى بن زيد، وعبيد بن الابرص، وامية بن ابى الصلت، وفى الطبقة الثانية: الشنفرى، وأبو داؤد، وسلامة بن جندل، والمثقب العبدى، والبراق بن روحان، وتأبط شرا، والسموأل بن عادياء، وعلقمة الفحل، والحارث بن عباد، وخداش بن زهير، وعروة بن الورد، والأسود بن يعفر، وحاتم الطائى، وأوس بن حجر، ودريد بن الصمة، والخنساء، ولا يعدون من الطبقة الثالثة غير لقيط بن زرارة.27
  مخضرمی شعراء میں مشہور ترین لبید، حسان، حطیئہ، نابغہ جعدی، اور خنساء ہیں۔بعض علماء کے نزدیک جاہلی شعراء کے تین طبقات ہیں:پہلے میں وہ سبع معلقات کے مشہور شعراء، نابغہ، اعشی، قیس، مہلہل، عدی بن زید، عبید بن ابرص اور امیہ بن ابی صلت کو شمار کرتے ہیں۔دوسرے طبقہ میں وہ شنفری، ابو داؤد، سلامہ بن جندل، مثقب عبد، براق بن روحان، تابط شرا، سموال بن عادیاء، علقمہ فحل، حارث بن عباد، خداش بن زہیر، عروہ بن ورد، اسود بن یعفر، حاتم طائی، اوس بن حجر، درید بن صمہ، اور خنساء کو شمار کرتے ہیں جبکہ طبقہ ثالثہ میں صرف لقیط بن زرارہ ہے۔

احمد بن ابراہیم ہاشمی نے جاہلی شعراء کو باعتبار کثرت اشعار اور عمدگی کے تین طبقات میں تقسیم کیا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتےہیں:

  والشعراء الجاھليون يقسمون باعتبار شھرتھم فى الشعر للإ جادة أو للكثرة إلى طبقات كثيرة نذكرمنھا ثلاثا: الطبقة الأولى: امرؤ القيس، وزهير، والنابغة. الطبقة الثانية: الأعشى، ولبيد، وطرفة. الطبقة الثالثة: عنترة، وعروة بن الورد والنمر بن تولب، ودريد بن الصمة، والمرقش، الأكبر . 28
  جاہلی شعراء کو ان کی عمدگی وکثرت اشعار کے اعتبار سے کئی طبقات میں تقسیم کیاجاتا ہے جن میں سے ہم صرف تین کا تذکرہ کریں گے۔پہلے طبقہ میں امرؤ القیس، زہیر اور نابغہ ہیں۔ دوسرے طبقہ میں اعشی، لبید اور طرفہ ہے جبکہ تیسرے طبقہ میں عنترہ، عروہ بن ورد، نمر بن تولب، درید بن صمہ اور مرقش اکبر شامل ہیں۔

شعراء کےان طبقات کو بیان کرنے کا مقصود فقط جاہلی شعراء کے طبقات کی وضاحت ہے لہذا آئندہ سطور میں اختصارکے ساتھ انہی کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔

شعرِ جاہلی کی اقسام

زمانہ جاہلیت میں عرب شعراء کئی اقسام کے اشعار کہا کرتے تھےجن میں غزل، فخر، مدح، مرثیہ، ہجو، معذرت، وصف، رجز،قصیدہ، تشبیب اور حدی شامل تھیں۔ ان عربی اشعار کی اقسام کی تعریفات مندرجہ ذیل ہیں:

  • غزل: صنف نازک کی باتیں کرنےاور حُسن و عشق کےتذکرہ کرنے کو غزل کہتے ہیں ۔
  • فخر:اپنے آباءواجداد اور قبیلہ کی اچھائیاں،شجاعت وبہادری اور حسب ونسب میں برتری بیان کرنے کوکہتے ہیں ۔
  • مدح:کسی کے اخلاقِ فاضلہ، سخاوت،بہادری،پاک دامنی، عدل اور صلح جوئی کی تعریف وتوصیف کرنے کوکہتے ہیں۔
  • مرثیہ: کسی مرنے والے کی خوبیاں بیان کرنے اور اس کے مرنے پر غم کے اظہار کرنے کوکہتے ہیں۔
  • ہجو وذم:کسی کی برائیاں بیان کرنے کو ہجو یعنی اس کی مذمت کرنے کو کہتے ہیں۔
  • معذرت:کسی سے اپنی غلطی پر اظہارِ افسوس کرنے کو کہتے ہیں۔
  • وصف:سامع کے ذہن میں کسی چیز کے نقش واضح کرنے کےلیے ہوبہو اس چیز کی بعینہ خارجی تصویر کھینچنے کو کہتے ہیں۔29
  • رجز: جنگی ترانے کوکہتے ہیں۔ مثال کے طور پر نبی ﷺ کا غزوہ حنین کے موقعہ پریہ ارشاد فرمانا کہ"انا النبی لاکذب انا ابن عبد المطلب" 30 یعنی" میں بلا شبہ نبی ﷺ ہوں اور یہ جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں" یعنی رجز ان اشعار کوکہتے ہیں جو جنگ میں جذبا ت برقرار رکھنےاور مزید بڑھانے کا سبب بنتے ہیں ۔
  • قصیدہ:مبالغہ کے ساتھ کسی کی بہت زیادہ تعریف کرنے کو قصیدہ کہتے ہیں مثلاً کسی بادشاہ یا وزیر وامیرشخص کی تعریف میں اشعار کہنا۔
  • تشبیب:کسی کے حسن کی تعریف یعنی کسی عورت کے محاسن بیان کرنے کو تشبیب کہتے ہیں۔31
  • حدی: اونٹوں کو چرانے اور تیز چلانے کے لیے جوشاعری و غزل پڑھی جاتی ہےاسے حدی کہتے ہیں ۔32

زمانہ جاہلیت کے عربی اشعار کی مذکورہ اقسام کے علاوہ بھی شعرائے عرب کے ہاں کئی طرح کی مزید اقسام مستعمل تھیں جو ذیلی اقتباس میں ذکر کی گئی ہیں:

  و ورد فى ديوان المعافى ان اقسام الشعر فى الجاهلیة خمسة: المديح، والھجاء، والوصف، والتشبيه، والمراثى، حتى زاد النابغة فيھا قسما سادسا وھو الاعتذار،33 والغزل، والتشبيه، والوصف34 والمفاخرات والالغاز والمضحكات والزليات وفى موضع آخر يقول فى اقسام الشعر... المراثى والافتخار والشكر... الذم والعتاب والاستبطاء... الأمثال والتزهيد والمواعظ... وصفة الخمر35 الحماسة... والسىر، والنعاس، والملح، ومذمة النساء... والتشبيه... والاقتضاء والاستنجاز، والعتاب، والوعيد والإنذار.36
  دیوان معانی کے مطابق زمانہ جاہلیت میں اشعار کی پانچ اقسام ہوا کرتی تھیں، مدیح، ہجا٫، وصف، تشبیہ اور مراثی۔ البتہ مشہور جاہلی شاعر نابغہ ذبیانی نے اس میں ایک قسم کا مزید اضافہ کیا جسے اعتذار کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں غزل، تشبیہ اور وصف کو بھی اقسام ِشعر میں شمار کیا جاتا ہے۔اسی طرح وزن اور موضوع کی بنیاد پر بھی کچھ اقسام ِشعر مذکور ہیں جن میں مفاخرات، الغاز(پہیلی)، مضحکات(لطائف) اور غزلیات شامل ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور مقام پر اقسام ِشعر میں حکمت، لہو و لعب، مراثی، فخر و مباہات، شکر، ذم، عتاب،استبطا٫37، امثال، تزہید(زہد)، مواعظ اور صفت ِخمر کو بھی شمار کیا گیا ہے۔ابو تمام نے اپنے دیوان میں حماسہ، سیر، نعاس، ملح، مذمۃ النسا٫، تشبیہ، اقتضاء، استنجاز(کارنامے)، عتاب، وعيد، اورانذاربھی اقسام شعر میں ذکر کیے ہیں۔

شعراء کی تحقیق و تفتیش کے حوالہ سے اگر زمانۂ جاہلیت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جاہلی زمانہ میں بہت سے نامور شعرا ءنظر آتے ہیں جن کا کلام عربی شاعری میں زبان و بیان اور اغراض و مقاصد کے اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے مثلا مخضرمی شعراء میں لبید، حسان، حطیئہ، نابغہ جعدی، اور خنساء ہیں۔ جاہلی شعراء میں نابغہ، اعشی، قیس، مہلہل، عدی بن زید، عبید بن ابرص اور امیہ بن ابی صلت وغیرہ اہمیت کے حامل شعراء تھےمگران میں ایک خاص طبقہ سب سے زیادہ ممتاز رہا جن کو "اصحاب معلّقات"کہتے ہیں یعنی وہ شاعر جن کے قصیدے خانۂ کعبہ میں لٹکائے گئے۔

سبع معلّقات

زمانۂ جاہلیت میں دستور تھا کہ عکّاظ کے میلے میں عرب کے تمام شعراء جمع ہوتے تھے اور نابغہ ذبیانی مشہور جاہلی شاعر کی صدارت میں محفل ِمشاعرہ منعقد ہوتی تھی 38جس میں تمام شعرا ءاپنا کلام سناتے تھے۔ آخر میں میرِ مشاعرہ فیصلہ سناتا تھا کہ اس سال کس شاعر کا قصیدہ سب سے زیادہ اچھا رہا چنانچہ اس شاعر کے قصیدے کو سونے کے پانی سے لکھ کر خانۂ کعبہ میں لٹکادیا جاتا تھا۔ ایسے قصیدہ کو "مُعلّقۃ"یعنی خانۂ کعبہ میں لٹکایا ہوا قصیدہ کہتے تھے چنانچہ ان بے شمار شاعروں میں جو زمانۂ جاہلیت میں نامور سمجھے جاتے تھے سات(7) شعراء کا کلام عکاظ کے میلے میں اوّل آنے پر خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا اور یہی معلّقات جاہلی شاعری کی جان اور اس کا صحیح و اصل نمونہ ہیں نیز یہی شعراء اور کچھ دیگر مشہور شعرا ء بھی ہیں جن کا تذکرہ یہاں مقصود ہے جن کی شاعری اہل عرب میں ہر کسی کی ہر دلعزیز تھی۔ مثلاً امراؤالقیس، نابغہ ذبیانی، زہیر بن ابی سلمی، عنترہ بن شداد العبسی، ا عشیٰ، قیس، طرفہ بن العبد، عمرو بن کلثوم، لبید بن ربیعہ وغیرہ کبار عربی شعراء شامل ہیں۔ ذیل میں نابغہ ذیبانی، اعشیٰ قیس، جریر بن عبد العزی، جریر بن عطیہ، مغیرہ بن الحارث، عبداللہ بن الزبعدی، جریر بن عطیہ اور درید بن الصمّۃ کے مختصر حالات ِ زندگی پیش کئے جارہے ہیں جبکہ سبع معلقات کے معروف شعراء پر مفصل مقالات اگلے صفحات میں پیش کئے جائیں گے۔

نابغہ ذبیانی

اصحاب معلّقات میں دوسرا شاعر جسے امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ نابغہ ذبیانی ہے۔ اس کا نام زیاد بن معاویہ تھا اورکنیت دو بیٹوں کی نسبت سے ابو امامہ اور ابو عقرب تھی۔39اس کے کلام میں جذباتِ انسانی کی بڑی صحیح اور سچی تصویر ہوتی تھی اور خاص طور سے صدق و صفا کے نغمے اس نے بڑے مؤثر انداز میں گائے تھے نیز اس کی امتیازی خصوصیت معذرت خواہی تھی۔اس نے زیادہ تر اشعار عرب بادشاہوں کی مدح میں کہے تھےاور نعمان بن منذر کے ساتھ اس کی طویل صحبت رہی تھی۔40اصمعی کے بقول جب انہوں نے بشار سے یہ سوال کیا کہ سب سے بڑا شاعر کون ہے تو اس کا جواب تھاکہ بصری امرؤالقیس کو اور طرفہ کو بڑا شاعر مانتے ہیں، کوفی بشر بن ابی خازم اور اعشی کو، شامی جریر، فرزدق اور اخطل کو جبکہ اہل حجاز کے نزدیک سب سے بڑا شاعر نابغہ ذبیانی اور زہیر ہیں۔نابغہ ذبیانی نے طویل عمر پائی اور زمانہ جاہلیت میں ہی نبی ﷺکی بعثت سے کچھ عرصہ پہلے اس نے وفات پائی۔41

اعشیٰ قیس

مشہور عرب شعراء میں سے ایک اعشی بھی تھا جو قدیم جاہلی شاعر تھا اورآخری عمر میں اس نے اسلام کا زما نہ پایا لیکن اسلام نہ لا سکا۔42 اس کا پورانام ابو نصیر میمون اعشی بن قیس بن جندل قیسی تھا۔اس نے نبی کریم ﷺ کی مدح میں ایک قصیدہ تیار کیا اور صلح حدیبیہ کے موقع پر حجاز کو روانہ ہوا تاکہ آپ ﷺ کے حضور میں پیش کر سکے43 لیکن راہ میں کفار ِقریش میں سے ابو سفیان ملے جنہوں نے اسے پیش کش کی کہ ایک سو سرخ اونٹوں کے عوض یہ اس سال واپس چلا جائے اورآئندہ سال اگر مسلمان کا میاب ہوں تو ان سے مل جائے البتہ اگر ہم کامیاب ہوں تو یہ اونٹ تیرے لئے ہد یہ ہوں گے۔44اس نے ابو سفیان کی بات مان لی اور سو اونٹ لے کر واپس ہو لیا اور جب مقام یمامہ پہنچا تو اونٹ سے گرنے کے باعث اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ مر گیا۔45

جرير بن عبد العزی

جریر نام کے دو شعراءملتے ہیں ایک جریر بن عبد العزی اور دوسرا جریر بن عطیہ۔اول الذکر کا تعلق ربیعہ کی شاخ بنو ضبیعہ سے تھا۔یہ بھی دور جاہلیت کا شاعر تھا جو بحرین کا رہنے والا تھا، متلمس کے لقب سے مشہور تھا اور طرفہ بن العبد کا ماموں تھا۔یہ عراق کے بادشاہ عمرو بن ہند کا ہمنشین تھا لیکن بادشاہ کی ہجو کرنے کی پا داش میں اس کے قتل کا حکمنامہ جاری کیا گیا اورجب اس کو معلوم ہوا تو یہ شام فرار ہو گیا اور وہیں سکونت اختیار کر لی۔46

جریر بن عطیہ

دوسرا جریر بن عطیہ بن حذیفہ خطفی بن بدر کلبی یربو عی تھا جو قبیلہ تمیم کا شاعر تھا اوراس کی کنیت ابی حزرہ اور جمیل سلطان تھی ۔یہ یمامہ میں ہی پیدا ہوااور وہیں فوت ہوا، اپنے وقت کا بلند پایہ شاعر تھاجس کے سامنے کوئی ٹھہر نہ پاتا تھا ما سوائے فرزدق اور اخطل کے جو اس کے ہم عصر شعراء تھے۔47ایک مرتبہ ان تینوں کا مقابلہ منعقد ہوا جس میں جریر فتحیاب ہوا اور پانچ سو دینار انعام حاصل کیا۔48

مغيرة بن الحارث

اسی طرح عرب شعراء میں سے ایک مغیرہ بن الحارث تھے جو رسول اکرم ﷺکے چچا زاد تھے چنانچہ قاضی سلیمان ان کے حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  وكان أخا لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من الرضاعة، ارضعتھما حليمة السعدية، وكان من شعراء العرب المشھورين. 49
  مغیرہ بن حارث نبیﷺکے چچا زاد اور رضاعی بھائی تھے۔انہیں بھی اماں حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا اور ان کی پرورش کی۔یہ بھی عرب کے مشہور ترین شعرا ء میں سے ایک ہیں۔

ان کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ ان کے رسول اکرم ﷺ سےدو رشتے تھے ایک تورضاعی بھائی ہونے کا اور دوسرا چچا زاد ہونے کا اور یہ بھی اپنے وقت کے مشہور شاعر تھے۔

عبد الله بن الزبعری

اسی طرح اہل عرب کے شعراء میں سےا یک نام عبد اللہ بن الزبعری کا ہے جوابتداءً اسلام و صاحب اسلام ﷺ کی مخالفت کو اپنے دل میں جگہ دیے ہوئے تھا چنانچہ تاریخ میں اس حوالہ سے یوں مذکورہے:

  وكان من شعراء العرب وكان يھجو اصحاب النبى صلى اللّٰه عليه وسلم و يحرض المشركين على قتالھم ويوم الفتح لما سمع ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم اھدر دمه ھرب الى نجران وسكنھاوبعد مدة وقع الاسلام فى قلبه فاتى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فلما راه من بعيد قال ھذا ابن الزبعرى ولما دنامنه قال السلام عليك يارسول اللّٰه اشھد ان لااله اللّٰه واشھد انك رسول اللّٰه.50
  عبد اللہ بن زبعری عرب کے مشہور ترین شعراءمیں سے ہیں، ابتدا میں نبیﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کی ہجو کیا کرتے تھے اور مشرکین کو برانگیختہ کر کے قتل و قتال پر ابھارتے تھے۔فتح مکہ کے دن جب نبی ﷺ نے ان کے خون بہانے کو مباح کر دیا اور ان کو معلوم ہو گیا تو یہ نجران بھاگ گئے اور وہیں سکونت اختیار کر لی ۔ایک طویل مدت کے بعد ان کے دل میں اسلام کی رغبت پیدا ہوئی تو واپس لوٹ آئے۔نبی ﷺنے دور سے دیکھتے ہی پہچان لیا اور کہا کہ ابن زبعری ا ٓ رہے ہیں چنانچہ جب یہ نبی کریم ﷺ کے قریب پہنچے تو کہا:السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ بلا شبہ آپ اللہ کے رسول ﷺہیں۔

یعنی بالآخر فضلِ خداوندی سے نبی کریمﷺکے پیغام رسالت و توحید کو مان کر یہ اسلام سے مشرف ہوئے۔

کعب بن زہیر

اسی طرح کعب ابن زہیر بھی عرب کے بلند پایہ شعراء میں سے ایک تھے اور ابتداءً یہ بھی مخالف اسلام تھے جیساکہ ذیلی اقتباس سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے:

  عن الشعبى قال: لما بلغ رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أن كعب بن زهير بن أبى سلمى هجاه ونال منه، أهدر دمه، فكتب اليه أخوه بجيربن زهير وكان قد أسلم وحسن إسلامه يعلمه أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قد قتل بالمدينة كعب بن الأشرف، وكان قد شبب بأم الفضل بن العباس وأم حكيم بنت عبد المطلب، فلما بلغه كتاب أخيه ضاقت به الأرض ولم يدر فيما النجاة، فأتى أبابكررضى اللّٰه عنه فاستجاره فقال: أكره أن أجير على رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم وقد أهد دمك، فأتى عمررضى اللّٰه عنه فقال له مثل ذلك فأتى علياً رضى اللّٰه عنه فقال: أدلك على امر تنجو به قال: وماهو؟ قال: تصلى مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فادا انصرف فقم خلفه وقل: يدك يارسول اللّٰه أبايعك! فانه سيناولك يده من خلفه فخذ يده فاستجره فإنى أرجو أن يرحمك، ففعل، فلما ناوله رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يده استجاره.51
  حضرت شعبی سے مروی ہے کہ جب رسو ل اللہﷺتک یہ بات پہنچی کہ کعب بن زہیر بن ابی سلمی نے العیاذ باللہ آپ ﷺکی ہجو کی اور آپﷺ کو اس سے تکلیف پہنچی تو آپﷺنے اس کا خون مباح قرار دیا۔اس کے بھائی بجیر بن زہیر نے جو اسلام لے آئے تھے اور اچھا اسلام لائے تھے انہوں نے اس کو خط لکھا جس میں یہ بتا یا کہ نبی کریمﷺنے مدینہ میں کعب بن اشرف کےقتل کا فرمایا تھا جس نے ام فضل بن عباس اور حکیم بنت عبد المطلب کے ذکر سے اپنے قصائد کو مزین کیا تھا ۔پس جب یہ خط اسے ملا تو اس پر زمین تنگ ہوگئی اور اس کو سمجھ نہ آیا کہ اب کس چیز میں نجات ہے لہٰذا وہ ابوبکر کے پاس گیا اور جاکر پنا ہ مانگی تو آپ نے ارشاد فرمایا مجھےیہ ناپسند ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے خلاف کسی کو پناہ دوں حالانکہ آپ ﷺنے تیرا خون بھی مباح کردیا ہے۔پھر وہ حضرت عمر کے پاس گیا تو انہوں نے بھی اسی طرح بات کی۔پھر وہ حضرت علی کے پاس گیا تو آپ نے(پناہ کے بجائے)اس سے کہا کہ میں تجھے ایسا کام نہ بتادوں جس سے تو نجات پاجائے تو اس نے کہا کہ وہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ اور جب وہ جانے لگیں تو ان کے پیچھے جاکر یہ کہہ کہ اپنا ہاتھ مبارک دیجیے کہ میں آپ سے بیعت کرنا چاہتا ہوں ۔اس طرح وہ اپنا ہاتھ تمہیں اپنے پیچھے ہی تھمادیں گے تو ان کا ہاتھ پکڑلینا اور ان سے پناہ طلب کرلینا کیونکہ مجھے امید ہے کہ وہ تجھ پر رحم فرمادیں گے تو اس نے ایسا ہی کیا۔پس جب رسو ل اللہ ﷺ نےاپنا ہاتھ اس کو تھمایا تو اس نے آپ ﷺسے پناہ طلب کرلی۔

مروی ہے کہ پھر وہ آپ ﷺپر ایمان لے آئے تھے چنانچہ عرب مورخ ول ڈیورانٹ اپنی کتاب میں اس حوالہ سے یوں تذکرہ کرتے ہیں:

  كعب بن زهير اعظم شعراء العرب ذلك الوقت، وكان قد هجا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى بعض قصائده وأسلم نفسه إليه واعتنق الاسلام فعفاعنه النبى صلى اللّٰه عليه وسلم. 52
  یہ کعب بن زہیر ہیں جواپنے وقت کے عرب کے بڑے شاعر تھے۔ انہوں نے نبی ﷺکی ہجو کی تھی لیکن بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور نبی ﷺ نے انہیں معاف کردیا تھا۔

حماد الراویۃ

یہ ابن ابی لیلی میسرہ ہے جو ایام عرب، اخبار عرب اور اشعار عرب کا سب سے بڑا عالم تھا۔اشعار عرب کی کثرت روایت کی وجہ سے ہی اس کا نام حماد روایہ پڑ گیا تھانیز یہی وہ شخص ہے جس نے سبعہ معلّقات جمع کیے تھے53البتہ یونس بن حبیب کہتے ہیں کہ حماد جھوٹا، غلطی کرنے والا اور اشعار کو رد و بدل کرنے والا تھا۔54 اٹھاون (58)ہجری میں ساٹھ(60) سال کی عمر میں اس نے وفات پائی۔55

دريد بن الصمّۃ

یہ ابو قرہ ہوازنی تھا جس کا نام معاویہ تھااور یہ عرب کا مشہور شاعر تھا جس کی عمر تقریبا دو سو (200) سال کے لگ بھگ ہوئی نیزطویل العمری کے باعث اس کی بھنویں آ نکھوں پرآگئی تھیں۔غزوہ حنین کے موقعہ پر یہ بھی کفار کے لشکر میں تھا اورحالت کفر میں ہی فوت ہوا جبکہ ايك روايت كے مطابق غزوه حنين ميں قتل ہوا۔56

ان خاص شعرائے عرب کے علاوہ دورِ جاہلیت میں چند ممتاز شعرا ءاور بھی ہوئے تھےجن میں سے بعض نامور شعراء یہ ہیں۔ مہلہل بن ربیعہ جو پانچ سو(500)عیسوی میں فوت ہوااورجس کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عربوں کا پہلا شاعر تھا جو شراب و کباب اور ہوسناکی کا رسیا تھا نیز شراب و شباب کی تعریف اور معرکۂ کارزار کی منظر کشی اس کا خاص موضوع تھی۔57 ابو تمام حبیب بن اوس اگرچہ بنیادی طور پر خطیب تھا58لیکن انداز کلام چونکہ شاعرانہ تھا اس وجہ سے شاعروں کے زمرے میں شامل کیاجاتا تھا۔59عمرو بن مالک الازدی جس کا لقب شنفری تھا۔یہ منچلے نوجوان شعراء کا ہیرو تھا جوگھر بار چھوڑ کر جنگلوں اور صحراؤں میں رہتے تھے۔ شنفری کا کلام بڑا مؤثر، الفاظ بڑے پُر شکوہ ثقیل اور بھاری بھرکم ہوتے تھے۔ اس کا قصیدہ "لامیۃ العرب" عرب بدوی نوجوان کی زندگی کی تکالیف، گھر بار اوردوست و احباب سے دوری اور مہجوری کی دل خراش داستان ہے نیز صحرا کی زندگی کی صحیح تصویر ہے۔60 ان کے علاوہ اس عہد کے شعراء میں المتلمس جس کا سن وفات پانچ سو پچاس (550)عیسوی، 61 المسول بن عادیہ جس کا سن وفات پانچ سوساٹھ (560)عیسوی،62اوس بن حجر جس کا سن وفات چھ سو گیارہ (611)عیسوی،63امیہ بن ابی ا لصلّت جس کا سن وفات چھ سو چوبیس (624)عیسوی64 اور حاتم طائی جس کا سن وفات چھ سو نوے(690) عیسوی تھا 65خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اہل عرب کے ہاں شعر وشاعری سے خاص لگاؤ اور شغف تھا جس کی بنا پر ان کے عرف میں شعراء کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور یہ اس بات کی بھی دلیل ہےکہ اہل عرب کےہاں زبان دانی کا عروج قبل ا ز بعثت نبویﷺہی اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا جس سے ان کی شعر وشاعری میں بھی بے انتہاء فصاحت و بلاغت اور حسن سازی و منظر کشی کی عجیب وغریب داستانیں رقم ہوتی تھیں۔ پھر ایک وہ دور آیا کہ وحی الٰہی کے ذریعہ بعثت نبویﷺہوئی اور ان کی زبان دانی کےنامور لوگ یعنی زمانۂ جاہلیت کے عربی شعراء بھی اس وحی الٰہی کی فصاحت و بلاغت اور اسلوب ِ بیان کے مقابل اس جیساقلیل کلام تک پیش کرنے سے عاجز آگئے اور یوں قرآن مجید نے بعثت نبویﷺپر مہر تصدیق ثبت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نامور شعراء کو بھی اپنی فصاحت و بلاغت و اسلوب بیان سے یہاں تک متاثر کیا کہ ان شعراء میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ نے نورِ ہدایت کوقبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور پھرانہوں نے اپنی شعرو شاعری سے اسلام وصاحب ِ اسلامﷺکی مدح سرائی ونصرت کی۔

 


  • 1 امام محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1993م، ص:3
  • 2 محمود مقديش، نزهة الأنظار في عجائب التواريخ والأخبار، ج-1، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان، 1988م، ص:118
  • 3 ٔابو الفرج عبد الرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم والملوک، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1992 م، ص:304
  • 4 أبو الحسن علی بن محمد الخازن، لباب التأویل فی معانی التنزیل، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1415 ھ، ص:73
  • 5 ابو الحسن علي بن أبي الكرم ابن الأثير الجزری، الكامل في التاريخ، ج- 1، مطبوعة: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان، 1997م، ص:72-73
  • 6 ابو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدين الرازی، التفسیر الکبیر، ج-1، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420 ھ، ص:69
  • 7 ابو المظفر يوسف بن قِزاُوغلی الشھیر بسبط ابن الجوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ج-4، مطبوعۃ: دار الرسالۃ العالمیۃ، دمشق، السوریۃ، 2013م، ص :364
  • 8 ابو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ، المحاسن والأضداد، مطبوعة: دار ومكتبة الهلال، بيروت، لبنان، 1423 ه، ص :110
  • 9 محمد صالح الشنطي، فن التحرير العربي ضوابطه وأنماطه، مطبوعة: دار الأندلس للنشر والتوزيع، الریاض، السعودية، 2001 م، ص:231
  • 10 ابو العباس أحمد بن محمد الحموي، المصباح المنير في غريب الشرح الكبير، ج-1، مطبوعة: المكتبة العلمية، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجودًا)، ص:314
  • 11 الدکتورعلي الجندی، في تاريخ الأدب الجاہلي، مطبوعة: مكتبة دار التراث، بیروت، لبنان، 1991م، ص:274
  • 12 ابو على الحسن بن رشيق القيرواني، العمدة في محاسن الشعر وآدابه، ج-1، مطبوعة: دار الجيل، بیروت، لبنان، 1981 م، ص :65
  • 13 عبد الكريم النهشلي القيرواني، الممتع في صنعة الشعر، مطبوعة: منشأة المعارف الإسكندرية، جمهورية مصر العربية، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:161
  • 14 ابو على الحسن بن رشيق القيرواني، العمدة في محاسن الشعر وآدابه، ج-1، مطبوعة: دار الجيل، بیروت، لبنان، 1981 م، ص: 65
  • 15 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجودًا)، ص:28
  • 16 ابو الفضل محمدبن مكرم ابن منظور الافریقی، نثار الأزهار في الليل والنهار، مطبوعة: مطبعة الجوائب، قسطنطينية، الترکیۃ، 1298 ه، ص:28
  • 17 ایضا ً
  • 18 ابو زکریا یحیٰ بن علی التبریزی، شرح دیوان الحماسۃ، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2
  • 19 ابو على الحسن بن رشيق القيرواني، العمدة في محاسن الشعر وآدابه، ج-1، دار الجيل، بیروت، لبنان، 1981 م، ص:113
  • 20 ابو العباس أحمد بن يوسف التيفاشي، سرور النفس بمدارك الحواس الخمس، مطبوعۃ: المؤسسة العربية للدراسات والنشر، بيروت، لبنان، 1980 م، ص:40
  • 21 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص :29
  • 22 ابو العباس أحمد بن يوسف التيفاشي، سرور النفس بمدارك الحواس الخمس، مطبوعة: المؤسسة العربية للدراسات والنشر، بيروت، لبنان، 1980م، ص:40
  • 23 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص :29
  • 24 ابو العباس أحمد بن يوسف التيفاشي، سرور النفس بمدارك الحواس الخمس، مطبوعة: المؤسسة العربية للدراسات والنشر، بيروت، لبنان، 1980م، ص:40
  • 25 ابو الفضل محمدبن مكرم ابن منظور الافریقی، نثار الأزهار في الليل والنهار، مطبوعة: مطبعة الجوائب، قسطنطينية، التركية، 1298ھ ، ص:28
  • 26 عبد القادر بن عمر البغدادي، خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، ج-1، مطبوعة: مكتبة الخانجي، القاهرة، مصر، 1997م، ص:8
  • 27 مصطفى صادق الرافعي، تاريخ آداب العرب، ج-3، مطبوعة: دار الكتاب العربي، بیروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:43
  • 28 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأ دب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:29
  • 29 ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی، عہد نبوی ﷺ کی شاعری، مطبوعہ: مجلس تحقیقات ونشریات، بھٹکل، ہند، 2012ء، ص:30-31
  • 30 أبو عبد الله محمد بن يوسف المالكي، التاج والإكليل لمختصر خليل، ج-13، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1994م، ص:613
  • 31 ابو الفرج قدامۃ بن جعفر البغدادي، نقد الشعر، مطبوعة: مطبعۃ الجوائب، قسطنطنیۃ، ترکی،1302ھ، ص:8
  • 32 ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر الرازی، مختار الصحاح، مطبوعة: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص:68
  • 33 أبو ھلال الحسن بن عبد الله العسكري، ديوان المعاني، ج-1، مطبوعة: دار الجيل، بيروت، لبنان، ( لیس التاریخ موجوداً)، ص:91
  • 34 الدکتور جواد علي، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-17، مطبوعة: دار الساقي، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 142
  • 35 الدكتور إحسان عباس، تاريخ النقد الأدبي عند العرب، مطبوعة: دار الثقافة، بيروت، لبنان، 1983م، ص:220
  • 36 الدكتور شوقي ضيف، تاريخ الأدب العربي، ج-1، مطبوعة: دار المعارف، القاہرۃ، مصر، 1995 م، ص:195
  • 37 استبطاء کا مطلب ہے کہ حروف استفہام کو اس مخصوص انداز میں استعمال کرنا جس میں سوال کے ساتھ طلب اور اس کے پورا ہونے کا یقین شامل ہوتا ہے۔ (ادارہ)
  • 38 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:29
  • 39 عبد القادر بن عمر البغدادي، خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، ج-2، مطبوعة: مكتبة الخانجي، القاهرة، مصر، 1997م، ص:135
  • 40 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:39
  • 41 عبد القادر بن عمر البغدادي، خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، ج-2، مطبوعة: مكتبة الخانجي، القاهرة، مصر، 1997م، ص:135
  • 42 ایضا، ج-1, ص:176
  • 43 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة: مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:79
  • 44 عبد القادر بن عمر البغدادي، خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، ج-1، مطبوعة: مكتبة الخانجي، القاهرة، مصر، 1997م، ص:176
  • 45 احمد بن إبراهيم الهاشمي، جواهر الأدب في أدبيات وإنشاء لغة العرب، ج-2، مطبوعة:مؤسسة المعارف، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:79
  • 46 شیخ خیر الدین بن محمود الزرکلی، الأعلام، ج-2، مطبوعة: دار العلم للملايين، بيروت، لبنان، 2002 م، ص:119
  • 47 ایضا
  • 48 رزق الله بن يوسف شيخو، مجاني الأدب في حدائق العرب، ج-3، مطبوعۃ: مطبعة الآباء اليسوعيين، بيروت، لبنان، 1913م، ص :162
  • 49 قاضی محمد سليمان المنصورفوري، رحمة للعالمين ﷺ ، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودیۃ، ص:326
  • 50 شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج- 2، مطبوعة:دار صادر، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:94
  • 51 ابو زید محمد بن ابی الخطاب القرشی، جمھرۃ اشعار العرب، مطبوعۃ: نھضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:36
  • 52 وِل ديورَانت، قصة الحضارة ( مترجم: الدكتور زكي نجيب محمُود وآخرين)، ج-13، مطبوعة: دار الجيل، بيروت، لبنان، 1988ء، ص: 41
  • 53 ابو الفداء اسماعيل بن عمرابن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-10، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص:114
  • 54 الدکتور جواد علي، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-17، مطبوعة: دار الساقي، بیروت، لبنان، 2001م، ص:314
  • 55 ابو الفداء إسماعيل بن كثير الد مشقي، البداية والنهاية، ج-10، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 1986 م، ص:114
  • 56 شمس الدين أبو عبد الله الذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج-2، مطبوعة: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان، 1993ء، ص:572
  • 57 أبو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ، الحيوان، ج-7، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1424 ه، ص:481
  • 58 ابو عبيد الله ابن محمد المرزباني، الموشح في مآخذ العلماء على الشعراء، مطبوعة: مكتبة العلمي، بیروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:377
  • 59 شمس الدين محمد بن يوسف الكرماني، تحقيق الفوائد الغياثية، ج- 2، مطبوعة: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية، 1424 ه، ص:754
  • 60 قاضي حسين بن محمد المهدي، صيد الأفكار في الأدب والأخلاق والحكم والأمثال، مطبوعة: دار الكتاب، بیروت، لبنان، 2009م، ص:270
  • 61 أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعة: دار الحديث، القاهرة، مصر، 1423 ه، ص:179
  • 62 أبو عبد الله محمد بن سلّام، طبقات فحول الشعراء، ج-1، مطبوعۃ: دار المدني، جدة، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:279
  • 63 أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري، الشعر والشعراء، ج-1، مطبوعة: دار الحديث، القاهرة، مصر، 1423 ه، ص:189
  • 64 أبو زكريا يحيى بن علي التبريزى، شرح ديوان الحماسة، مطبوعة: دار القلم، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:314
  • 65 جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی، شرح شواہد المغنی، ج-1، مطبوعۃ: لجنۃ التراث العربی، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 208